🌴⑪🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌⑪⚔️
مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
بیت المقدس 16 ہجری (637 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شام پر چڑھائی کی تو ہر صوبہ پر الگ الگ افسر بھیجے۔ چنانچہ فلسطین عمرو بن العاص کے حصے میں آیا۔ عمرو بن العاص نے بعض مقامات حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے عہد میں فتح کر لئے تھے اور فاروقی عہد تک تو نابلس، لد، عمواس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جریں تمام بڑے بڑے شہروں پر قبضہ ہو چکا تھا۔ جب کوئی عام معرکہ پیش آ جاتا تھا تو وہ فلسطین چھوڑ کر ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتے تھے اور ان کو مدد دیتے تھے۔ لیکن فارغ ہونے کے ساتھ فوراً واپس آ جاتے تھے۔ اور اپنے کام میں مشغول ہو جاتے تھے (فتوح البلدان )۔ یہاں تک کہ آس پاس کے شہروں کو فتح کر کے خاص بیت المقدس کا محاصرہ کیا۔ عیسائی قلعہ میں بند ہو کر لڑتے رہے۔ اس وقت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے انتہائی اضلاع قسرین وغیرہ فتح کر چکے تھے۔ چنانچہ ادھر سے فرصت پا کر بیت المقدس کا رخ کیا۔ عیسائیوں نے ہمت ہار کر صلح کی درخواست کی۔ اور مزید اطمینان کے لئے یہ شرط اضافہ کی کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود یہاں آئیں اور معاہدہ صلح ان کے ہاتھوں سے لکھا جائے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا کہ بیت المقدس کی فتح آپ کی تشریف آوری پر موقوف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام معزز صحابہ کو جمع کیا۔ اور مشورت کی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ عیسائی مرعوب اور شکستہ دل ہو چکے ہیں۔ آپ ان کی درخواست کو رد کر دیں تو ان کو اور بھی ذلت ہو گی اور یہ سمجھ کر کہ مسلمان ان کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں، بغیر شرط کے ہتھیار ڈال دیں گے۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے خلاف رائے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان ہی کی رائے کو پسند کیا اور سفر کی تیاریاں کیں (یہ طبری کی روایت ہے )۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نائب مقرر کر کے خلافت کے کاروبار ان کے سپرد کیے (فتوح البلدان )۔ اور رجب 16 ہجری میں مدینہ سے روانہ ہوئے۔
ناظرین کو انتظار ہو گا کہ فاروق اعظم کا سفر اور سفر بھی وہ جس سے دشمنوں پر اسلامی جلال کا رعب بٹھانا مقصود تھا۔ کس ساز و سامان سے ہوا ہو گا؟ لیکن یہاں نقارہ نوبت، خدم و حشم لاؤ لشکر ایک طرف معمولی ڈیرہ اور خیمہ تک نہ تھا۔ سواری میں گھوڑا تھا اور چند مہاجر و انصار ساتھ تھے۔ تاہم جہاں یہ آواز پہنچتی تھی کہ فاروق اعظم نے مدینہ سے شام کا ارادہ کیا ہے زمین دہل جاتی تھی۔
سرداروں کو اطلاع دی جا چکی تھی کہ جابیہ میں آ کر ان سے ملیں۔ اطلاع کے مطابق یزید بن ابی سفیان اور خالد بن الولید وغیر نے یہیں استقبال کیا۔ شام میں رہ کر ان افسروں میں عرب کی سادگی باقی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ لوگ آئے تو اس ہیئت سے آئے کہ بدن پر حریر و دیبا کی چکنی اور پر تکلف قبائیں تھیں۔ اور زرق برق پوشاک اور ظاہری شان و شوکت سے عجمی معلوم ہوتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت غصہ آیا۔ گھوڑے سے اتر پڑے اور سنگریزے اٹھا کر ان کی طرف پھینکے کہ اس قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اختیار کر لیں۔
ان لوگوں نے عرض کی کہ ” قباؤں کے نیچے ہتھیار ہیں۔ ” (یعنی سپہ گری کا جوہر ہاتھ سے نہیں دیا ہے ) فرمایا تو کچھ مضائقہ نہیں (طبری – 21)۔ شہر کے قریب پہنچے تو ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کرچاروں طرف نگاہ ڈالی۔ غوطہ کا دلفریب سبزہ زار اور دمشق کے شاندار مکانات سامنے تھے۔ دل پر ایک خاص اثر ہوا۔ عبر کے لہجہ میں یہ آیت پڑھی کم ترکوا امن جنت و عچون الخ پھر چیغہ کے چند حسرت انگیز اشعار پڑھے۔
جابیہ میں دیر تک قیام رہا۔ اور بیت المقدس کا معاہدہ بھی یہیں لکھا گیا۔ وہاں کے عیسائیوں کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمد کی خبر پہلے سے پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ رئیسان شہر کا ایک گروہ ان سے ملنے کے لیے دمشق کو روانہ ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوج کے حلقے میں بیٹھے تھے کہ دفعتہً کچھ سوار آئے جو گھوڑے اڑاتے چلے آتے تھے اور کمر میں تلواریں چمک رہی تھیں۔ مسلمانوں نے فوراً ہتھیار سنبھال لئے۔ حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا خیر ہے ؟ لوگوں نے سواروں کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فراست سے سمجھا کہ بیت المقدس کے عیسائی ہیں۔ فرمایا گھبراؤ نہیں۔ یہ لوگ امان طلب کرنے آئے ہیں۔ غرض معاہدہ صلح لکھا گیا۔ بڑے بڑے معزز صحابہ کے دستخط ہو گئے۔ (یہ طبری کی روایت ہے۔ بلاذری اور ازدی نے لکھا ہے کہ معاہدہ صلح بیت المقدس میں لکھا گیا ہے کہ اس معاہدے کو بتمامہا ہم نے اس کتاب کے دوسرے حصہ میں نقل کیا ہے۔ (دیکھو اس کتاب کا دوسرا حصہ)۔
معاہدہ کی تکمیل کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المقدس کا ارادہ کیا۔ گھوڑا جو سواری میں تھا اس کے سم گھس کر بیکار ہو گئے اور رک رک کر قدم رکھتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دیکھ کر اتر پڑے۔ لوگوں نے ترکی نسل کا ایک عمدہ گھوڑا حاضر کیا۔ گھوڑا شوخ اور چالاک تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوار ہوئے تو کلیل کرنے لگا۔ فرمایا ” کمبخت یہ غرور کی چال تو نے کہاں سیکھی” یہ کہہ کر اتر پڑے اور پیادہ چلے۔ بیت المقدس قریب آیا تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سرداران فوج استقبال کو آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لباس اور ساز و سامان جس معمولی حیثیت کا تھا۔ اس کو دیکھ کر مسلمانوں کو شرم آتی تھی کہ عیسائی اپنے دل میں کیا کہیں گے۔ چنانچہ لوگوں نے ترکی گھوڑا اور قیمتی پوشاک حاضر کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لئے یہی بس ہے۔ ” غرض اس حال سے بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے مسجد گئے ، محراب داؤد کے پاس پہنچ کر سجدۂ داؤد کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا۔ پھر عیسائیوں کے گرجا میں آئے اور ادھر ادھر پھرتے رہے۔
چونکہ یہاں اکثر افسران فوج اور عمال جمع ہو گئے تھے۔ کئی دن تک قیام کیا اور ضروری احکام جاری کئے۔ ایک دن بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ (رسول اللہ کے مؤذن) نے آ کر شکایت کی کہ امیر المومنین ہمارے افسر پرند کا گوشت اور میدہ کی روٹیاں کھاتے ہیں۔ لیکن عام مسلمانوں کو معمولی کھانا بھی نصیب نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے افسران کی طرف دیکھا، انہوں نے عرض کی کہ اس ملک میں تمام چیزیں ارزاں ہیں۔ جتنی قیمت میں حجاز میں روٹی اور کھجور ملتی ہے۔ یہاں اسی قیمت پر پرندہ کا گوشت اور میدہ ملتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ افسروں کو مجبور نہ کر سکے ، لیکن حکم دیا کہ مال غنیمت اور تنخواہ کے علاوہ سپاہی کا کھانا بھی مقرر کر دیا جائے۔
ایک دن نماز کے وقت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کی کہ آج اذان دو۔ بلال نے کہا میں عزم کر چکا تھا کہ رسول اللہ کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا لیکن آج (اور صرف آج) آپ کا ارشاد بجا لاؤں گا۔ اذان دینی شروع کی تو تمام صحابہ کو رسول اللہ کا عہد مبارک یاد آ گیا۔ اور رقت طاری ہو گئی۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور معاذ بن جبل روتے روتے بیتاب ہو گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہچکی لگ گئ۔ دیر تک یہ اثر رہا۔
ایک دن مسجد اقصیٰ میں گئے اور کعب بن احبار کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ نماز کہاں پڑھی جائے۔ مسجد اقصیٰ میں ایک پتھر ہے جو انبیاء سابقین کی یادگار ہے۔ اس کو صخرہ کہتے ہیں۔ اور یہودی اس کی اسی طرح تعظیم کرتے ہیں جس طرح مسلمان حجر اسود کی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ” تم میں اب تک یہودیت کا اثر باقی ہے۔ اور اسی کا اثر تھا کہ تم نے صخرہ کے پاس آ کر جوتی اتار دی۔ ” اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کو جو طرز عمل اس قسم کی یادگاروں کی نسبت تھا، ظاہر ہوتا ہے۔ اس موقع پر ہماری اس کتاب کے دوسرے حصہ کے صفحہ کو بھی ملاحظہ کرنا چاہیے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
حمص پر عیسائیوں کی دوبارہ کوشش
17 ہجری (638 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
یہ معرکہ اس لحاظ سے یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس سے جزیرہ اور آرمینیہ کی فتوحات کا موقع پیدا ہوا تھا۔ ایران اور روم کی مہمیں جن اسباب سے پیش آئیں۔ وہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ لیکن اس وقت تک آرمینیہ پر لشکر کشی کے لیے کوئی خاص سبب نہیں پیدا ہوا تھا۔ اسلامی فتوحات چونکہ روز بروز وسیع ہوتی جاتی تھیں اور حکومت اسلام کے حدود برابر بڑھتے جاتے تھے۔ ہمسایہ سلطنتوں کو خود بخود خوف پیدا ہوا کہ ایک دن ہماری باری بھی آتی ہے۔ چنانچہ ادھر جزیرہ والوں نے قیصر کو لکھا کہ نئے سرے سے ہمت کیجیئے ہم ساتھ دینے کو موجود ہیں۔ چنانچہ قیصر نے ایک فوج کثیر حمص کو روانہ کی۔ ادھر جزیرہ والے 30 ہزار کی فوج کی بھیڑ بھاڑ کے ساتھ شام کی طرف بڑھے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ادھر ادھر سے فوجیں جمع کر کے حمص کے باہر صفیں جمائیں۔ ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام حالات کی اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آٹھ بڑے بڑے شہروں میں فوجی چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں اور ہر جگہ چار چار ہزار گھوڑے فقط اس غرض سے ہر وقت تیار رہتے تھے کہ کوئی اتفاقیہ موقع پیش آ جائے تو فوراً ہر جگہ سے فوجیں یلغار کر کے موقع پر پہنچ جائیں۔ ابو عبیدہ کا خط آیا تو ہر طرف قاصد دوڑا دیئے۔ قعقاع بن عمو کو جو کوفہ میں مقیم تھے لکھا کہ فوراً چار ہزار سوار لے کر حمص پہنچ جائیں۔ سہیل بن عدی کو حکم بھیجا کہ جزیرہ پہنچ کر جزیرہ والوں کو حمص کی طرف بڑھنے سے روک دیں۔ عبد اللہ بن عتبان کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی طرف روانہ کیا۔ ولید بن عقبہ کو مامور کیا کہ جزیرہ پہنچ کر عرب کے ان قبائل کو تھام رکھیں جو جزیرہ میں آباد تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان انتظامات پر ہی قناعت نہ کی بلکہ خود مدینہ سے روانہ ہو کر دمشق میں آئے۔ جزیرہ والوں نے جب یہ سنا کہ خود ان کے ملک میں مسلمانوں کے قدم آ گئے تو حمص کا محاصرہ چھوڑ کر جزیرہ کو چل دیئے۔ عرب کے قبائل جو عیسائیوں کی مدد کو آئے تھے وہ بھی پچھتائے اور خفیہ خالد کو پیغام بھیجا کہ تمہاری مرضی ہو تو ہم اسی وقت عین موقی پر عیسائیوں سے الگ ہو جائیں۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہلا بھیجا کہ ” افسوس! میں دوسرے شخص (ابو عبیدہ) کے ہاتھ میں ہوں۔ اور وہ حملہ کرنا پسند نہیں کرتا ورنہ مجھ کو تمہارے ٹھہرنے اور چلے جانے کی مطلق پرواہ نہ ہوتی۔ تاہم اگر تم سچے ہو تو محاصرہ چھوڑ کر کسی طرف نکل جاؤ۔ ” ادھر فوج نے ابو عبیدہ سے تقاضا شروع کیا کہ حملہ کرنے کی اجازت ہو۔ انہوں نے خالد سے پوچھا۔ خالد نے کہا ” میری جو رائے معلوم ہے عیسائی ہمیشہ کثرت فوج کے بل پر لڑتے ہیں، اب کثرت بھی نہیں رہی۔ پھر کس بات کا اندیشہ ہے۔ ” اس پر بھی ابو عبیدہ کا دل مطمئن نہ تھا، تمام فوج کو جمع کیا اور نہایت پر زور اور مؤثر تقریر کی کہ مسلمانو! آج جو ثابت قدم رہ گیاوہ اگر زندہ بچا تو ملک و مال ہاتھ آئے گا۔ اور مارا گیا تو شہادت کی دولت ملے گی۔ میں گواہی دیتا ہوں (اور یہ جھوٹ بولنے کا موقع نہیں) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص مرے اور مشرک ہو کر نہ مرے وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ فوج پہلے ہی سے حملہ کرنے کے لیے بے قرار تھی۔ ابو عبیدہ کی تقریر نے اور بھی گرما دیا۔ اور دفعتاً سب نے ہتھیار سنبھال لئے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قلب فوج اور خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عباس میمنہ و میسرہ کو لے کر بڑھے۔ قعقاع نے جو کوفہ سے چار ہزار فوج کے ساتھ مدد کو آئے تھے۔ حمص سے چند میل پر راہ میں تھے کہ اس واقعہ کی خبر سنی۔ فوج چھوڑ کر سو سواروں کے ساتھ ابو عبیدہ سے آ ملے۔ مسلمانوں کے حملہ کے ساتھ عرب کے قبائل (جیسا کہ خالد سے اقرار ہو چکا تھا) ابتری کے ساتھ پیچھے ہٹے۔ ان کے ہٹنے سے عیسائیوں کا بازو ٹوٹ گیا۔ اور تھوڑی دیر لڑ کر اس بدحواسی سے بھاگے کہ مرف الدیباج تک ان کے قدم نہ جمے۔ یہ اخیر معرکہ تھا جس کی ابتدا خود عیسائیوں کی طرف سے ہوئی۔ اور جس کے بعد ان کو پھر کبھی پیش قدمی کا حوصلہ نہیں ہوا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*