🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐اٹھارہویں قسط ، آخری قسط ⭐


🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐اٹھارہویں قسط ، آخری قسط ⭐🌴

یارِ غار والمزار ، افضل الخلائق بعد الانبیاء  کے حالاتِ زندگی پیدائش تا وفات
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بدن دبلا اورقدرے آگے کو جھکا ہوا تھا۔پہلووں میں گوشت کم تھا جس کی وجہ سے تہ بند نیچے لٹک آتا۔ رنگ سفید، گال کمزور اور ڈاڑھی خشخشی تھی۔ پیشانی فراخ اور اونچی تھی، آنکھیں گہری اور روشن تھیں، بال گھنگریالے تھے۔ ابو بکر کی آواز دردناک تھی، وہ سنجیدہ اور کم گو تھے۔ بالوں کو مہندی اوروسمہ لگاتے جس سے ان کی ڈاڑھی گہری سرخ نظر آتی۔ یہ معمول انھوں نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعداپنایا،اس وقت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ میں صرف ابو بکر ہی تھے جن کے بال کھچڑی تھے۔ اتنے لاغر و نحیف ابو بکرکو مشرکوں نے ابوالفصیل (اﷲ میاں کی گائے) کا نام دیا تھا۔ انھی کے کاندھوں پر بار خلافت پڑا تو وہ ابوالفحول (شیرنر) ثابت ہوئے۔ خالد بن ولید نے بھی جنگ ارتداد میں بعض مواقع پر نرم پالیسی اختیار کرنا چاہی، لیکن ابو بکر نے پورا قصاص لینے کی ہدایت کی۔ عمر نے منکرین زکوٰۃ سے نرمی برتنے کا مشورہ دیا تو بھی وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ ان کے لیے رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ملنے والی سند کافی ہے کہ ’’جسمانی طور پر کم زور اور اﷲ کے معاملے میں انتہائی طاقت ور۔‘‘ بوڑھے ہو کر وہ اور ضعیف ہوگئے، لیکن ان کی ہر فضیلت زیادہ توانا ہو گئی۔ابوبکر زمانۂ جاہلیت میں شعر کہتے تھے: اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا شعری اثاثہ وہ تین مرثیے ہیں جو انھوں نے آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پر کہے۔
ابو بکر نے اصحاب رسول سے نرمی اور مروت کا رویہ اختیار کیا،صحابہ کو ابوبکر سے ایک ہی شکایت ہوئی کہ انھوں نے مال کی تقسیم میں السابقون الاولون،مردوں،عورتوں اور غلاموں میں کوئی امتیازنہ کیا ۔اس کی وجہ خلیفۂ اول کا اصول تھا کہ مال کی تقسیم میں مساوات ہی زریں اصول ہے، البتہ مراتب اور اجر وذخر دینا اﷲ کا کام ہے۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ خلافت کے پہلے سال ابوبکر نے مال فے آزاد،غلام ،مرد، عورت سب میں برابر تقسیم کیا تو ہر ایک کے حصے ۱۰دینار آئے۔ اگلے برس یہ رقم دگنی ہو کر ۲۰ دینار ہو گئی۔ان کی پالیسی تھی کہ کبار صحابہ کو سرکاری مناصب کم سے کم دیے جائیں۔ اس کی ایک وجہ انھوں نے خود بیان کی کہ میں نہیں چاہتا ،ان(اہل بدر)کو دنیا میں ملوث کروں۔دوسرا سبب یہ تھاکہ وہ ان کواپنے پاس مدینہ میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ انھیں مشوروں میں شامل رکھیں،کیونکہ جب معاذ بن جبل شام گئے تھے تو اہل مدینہ نے بڑا خلا محسوس کیا تھا، وہ ان سے فقہی ودینی مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔تب عمر نے انھیں روکنے کا مشورہ دیاتھا توابوبکر نے جواب دیا تھا: جو شخص جہاد کے ذریعے شہادت حاصل کرنا چاہتا ہو میں اس کو کیسے روک سکتا ہوں؟
خلافت ابو بکر میں سیدنا عمر کا بہت اہم کردار رہا، ہر کام ان کے مشورے سے انجام پاتا، تاہم ایسے مواقع بھی آئے جب ابو بکرکو تنہا کھڑا ہونا پڑاخصوصاً جیش اسامہ بھیجتے ہوئے اور منکرین زکوٰۃ کی سرکوبی کے وقت صرف ابو بکر تھے جنھیں اپنا موقف درست ہونے کا حق الیقین تھا۔انھوں نے خالد بن ولید کے بارے میں بھی عمر کے بار بار کے مشوروں کو رد کیا ۔ ان دونوں کی ہم آہنگی اور ان کی بے مثال حکومتوں کو دیکھ کر انھیں عمرین کا نام دیا گیا۔ جب ابو بکر و عمر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے تو آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بہت خوش ہوتے۔ آپ نے فرمایا: ’’جو دو میرے بعد آئیں ان کی پیروی کرو یعنی ابو بکر و عمر۔‘‘ (ترمذی، رقم ۳۶۶۳) حضرت علی فرماتے ہیں: ’’میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ ابو بکر و عمر آئے۔ تب آپ نے فرمایا: ’’یہ نبیوں رسولوں کے علاوہ پہلے والے اور بعد میں ہونے والے اہل جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں،اے علی، ان کو نہ بتانا۔‘‘ (ترمذی، رقم ۳۶۶۵) آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ایک روزمسجد میں صحابہ کے حلقے میں تشریف فرما تھے کہ علی تشریف لائے ۔سلام کے بعد وہ بیٹھنے کے لیے جگہ ڈھونڈنے لگے ۔ابوبکر فوراً کھسک گئے اور انھیں نشست دے دی۔آپ کا چہرہ مبارک دمک اٹھا ۔ فرمایا: ’’اہل فضل کی فضیلت اصحاب فضل ہی پہچانتے ہیں۔‘‘
سخت مشقت اور اعصاب شکن معمولات نے ابو بکرکی اجل کو دعوت دی۔کوئی اور انسان اس قدر بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رکھتاتھا جو انھیں اپنے دور خلافت میں اٹھانا پڑا۔ اگرچہ ایسی روایت بھی پائی جاتی ہے کہ یہودیوں نے ان کو دیر سے اثر کرنے والا زہر ملا کرخزیرہ (گوشت جو پانی اور مسالے ڈال کر رات بھر پکایا گیا ہو)کھلا دیا تھا جس سے ان کی وفات ہوئی ۔ عتاب بن اسید نے بھی یہ کھانا کھایا تھا،انھوں نے اسی روز مکہ میں انتقال کیا۔ جب ابو بکر کی وفات ہوئی۔ حارث بن کلدہ طبیب تھا،اس نے چند لقمے لے کر کھانا چھوڑ دیا تھا، اس لیے ان کی جان بچ گئی۔ زہری کا کہنا ہے وہ بھی بیمار ہو کر فوت ہو گیا۔ زہر خورانی کی روایت قوی نہیں، اس لیے اسے نہیں مانا گیا۔سیدہ عائشہ اور عبدالرحمان بن ابو بکر کا بیان ہے کہ ۷ جمادی الثانی ۱۳ھ کو ہوا سرد تھی۔ ابو بکر نے غسل کر لیا تو ان کو بخار چڑھنا شروع ہو گیا۔ ایسے بیمار ہوئے کہ مسجد نہ جا سکتے تھے، چنانچہ عمر کو نماز پڑھانے کاکہا۔ ابو بکر کی وفات کا عیسوی ماہ اگست بنتا ہے ،سخت گرمی کے موسم میں ٹھنڈ لگنے والی بات عجیب لگتی ہے، لیکن عام مشاہدہ ہے کہ ہر گرمیوں میں چند دن ٹھنڈے ضرور آتے ہیں۔ ممکن ہے ،وہ دن ایسا رہا ہو۔ یہ امکان بھی ہے کہ انھیں ہجرت کے فوراً بعد ہونے والا بخار عود کر آیا ہو یا کوئی نئی بیماری لاحق ہو گئی ہو۔شدت مرض میں ابوبکر کو طبیب بلانے کا کہا گیا تو ان کا جواب تھا: طبیب نے دیکھ لیا ہے ۔لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ؟ابو بکر نے بتایا کہ وہ کہتا ہے: ’انی فعال لما یرید‘ ’’میں جو چاہتا ہوں کر ڈالتا ہوں۔‘‘ سیوطی کہتے ہیں: ابوبکر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی رحلت کے صدمے سے گھلتے رہے حتیٰ کہ ان کا انتقال ہو گیا۔
پندرہ دن کی اس بیماری میں وہ اپنا محاسبہ کرتے رہے اور امور خلافت بھی کسی قدر انجام دیے ۔انھیں احساس ہو چکا تھا کہ آخری وقت آن پہنچا ہے۔ ابو بکر ذاتی طور پرمطمئن اور پرسکون تھے، لیکن مرض الموت میں بھی انھیں مسلمانوں کے معاملات سلجھانے کی فکر رہی۔ انھیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ میرے بعد مسلمان کسی انتشار کا شکار نہ ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی سقیفہ ان کو دوبارہ متحد نہ کر سکتا ۔انھوں نے اہل رائے کوجمع کر کے کہا کہ اﷲ نے تمھیں میری بیعت سے آزاد کر دیا ہے، میری زندگی ہی میں جسے چاہو اپنا امیر منتخب کر لو۔ سب نے مشورہ دیاکہ ابوبکر اپنی زندگی میں اپنا جا نشین مقرر کر جائیں۔ ابوبکر کو عمر بن خطاب پر پور ااطمینان تھا، لیکن وہ اپنی رائے مسلمانوں پر ٹھونسنا نہ چاہتے تھے۔ کچھ روز بعد انھوں نے عبدالرحمان بن عوف کو بلا کر مشورہ کیا۔ ان کا جواب تھا: عمر بہترین آدمی ہیں، لیکن ان میں سختی پائی جاتی ہے۔ ابوبکر نے فرمایا: ان کی سختی اس لیے ہے کہ وہ مجھے نرم پاتے ہیں ۔ حکومت ان کے پاس ہو گی تو وہ بہت سی باتیں چھوڑ دیں گے۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ مجھے کسی شخص پر غصہ آتا ہے تو وہ مجھے اس کی طرف سے منانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب میں کسی سے نرمی برتتا ہوں تو مجھے سختی کا مشورہ دیتے ہیں۔ پھر انھوں نے عثمان بن عفان کو بلایاجو ان کے پڑوس میں رہتے تھے اور ان کی رائے طلب کی۔انھوں نے فرمایا: عمر جیسا ہم میں کوئی نہیں ، وہ باطن میں اپنے ظاہر سے کہیں بہتر ہیں۔ ان کے بعد ابو بکر نے علی، طلحہ ، سعیدبن زید ،اسید بن حضیر اور کئی اورصحابہ سے مشورہ کیا۔ کچھ صحابہ نے ابوبکر کے مشوروں کی خبر پا کر عمر کی مخالفت کرنا چاہی ،وہ ان کے پاس حاضر ہوئے۔ طلحہ بن عبیداﷲ نے کہا کہ آپ نے دیکھا ہے آپ کے ہوتے ہوئے وہ لوگوں سے کس طرح پیش آتے ہیں؟آپ نہ ہوں گے تو ان کا کیا سلوک ہو گا؟ ابوبکر کو غصہ آ گیا،شدت مرض سے لیٹے ہوئے تھے ، فوراً بٹھانے کو کہا پھر پکار کر کہا: اے اﷲ، میں نے تیرے بندوں پر ان میں سے بہترین شخص کو خلیفہ مقرر کیاہے ،طلحہ، میری طرف سے سب کویہ بتا دو۔ اگلے روز انھوں نے حضرت عثمان سے جانشین کی تقرری کویوں تحریری شکل دلائی: میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو تمھارا خلیفہ مقرر کرتا ہوں، تم ان کی سنو اور مانو۔ اس دوران میں ان کو غشی بھی آئی۔ ان کی اہلیہ اسماء بنت عمیس انھیں سہارا دے کر دروازے تک لے آئیں تو انھوں نے مسجد نبوی میں موجود لوگوں سے اپنے فیصلے کی تائید لی۔ابو بکر نے عمر کو الگ بلا کر کچھ نصیحتیں بھی کیں۔ دوران مرض میں ایک روز ابوبکر نے دریافت کیا کہ مجھے بیت المال سے کتنا وظیفہ ملا ہے؟ حساب کیا گیا تو ۶۰۰۰ درہم ہوئے۔ انھوں نے عائشہ کو وصیت کی کہ میری فلاں زمین فروخت کر کے بیت المال کے درہم واپس کر دیے جائیں۔ یہ تحقیقات بھی کیں،بیعت کے بعد میرے مال میں کیا اضافہ ہوا؟ معلوم ہوا ایک حبشی غلام ہے جو بچوں کو کھانا کھلاتا ہے اور فرصت میں تلواریں صیقل کرتا ہے ۔ ایک اونٹنی ہے جس پر پانی آتا ہے اور پانچ درہم مالیت کی ایک چادر ہے، چنانچہ انھوں نے وصیت کی کہ میری وفات کے بعدیہ چیزیں خلیفۂ وقت کے پاس پہنچا دی جائیں۔ روایات میں ایک خچر،کچھ برتنوں اور ایک چکی کا ذکر ہے ، ابو بکر نے یہ بھی بیت المال کے حوالے کرنے کی تلقین کی۔ ابو بکر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے عالیہ ( مدینے کا بالائی علاقہ) میں ملنے والی بنو نضیر کی زمین عائشہ کو ہبہ کر چکے تھے، مرض الموت میں انھوں نے عائشہ سے یہ زمین لوٹانے کی درخواست کی تاکہ یہ سارے وارثوں کے حصے میں آ جائے ۔ ان کے ذہن میں حبیبہ بنت خارجہ سے پیدا ہونے والی ام کلثوم تھی جس نے ابھی جنم نہ لیا تھا، انھوں نے اس کے لڑکی ہونے کی پیشین گوئی بھی کر دی۔
عائشہ سے پوچھا گیا سرورعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا؟انھوں نے بتایا تین کپڑوں کا ۔ وصیت کی میرے کفن میں بھی تین کپڑے ہوں ،دو چادریں جو میرے بدن پر ہیں دھو لی جائیں اور ایک کپڑا نیا لے لیا جائے۔ عائشہ نے کہا کہ ہم تنگ دست نہیں کہ نیا کپڑا نہ لے سکیں۔جواب فرمایا: نئے کپڑوں کی زندہ لوگوں کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے ،کفن تو لہو اور پیپ کے واسطے ہے ۔عائشہ ہی کی ایک دوسری روایت میں ایک زعفران لگا ہوا کپڑا جو انھوں نے پہن رکھا تھا اور دو نئے کپڑوں کاکفن دینے کا ذکر ہے۔ ابوبکر نے اپنی اہلیہ اسماء بنت عمیس کو غسل دینے کی ہدایت کی اور کہا اگر وہ چاہیں تو ہمارے بیٹے عبدالرحمان سے مدد لے لیں۔ ابوبکر ان وصیتوں میں مصروف تھے کہ عراق سے مثنیٰ آئے اور عراق کمک بھیجنے کی درخواست کی۔انھوں نے اپنے جانشین عمر کو وہاں فوج بھیجنے کی وصیت کی اور فرمایا: میری موت کی وجہ سے مسلمانوں کے معاملات سے غافل نہ ہو جانا۔انتقال کے دن پوچھا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کس روز رحلت فرمائی تھی ؟ لوگوں نے بتایا: پیر کے دن ۔کہا: مجھے امید ہے،میری موت بھی آج ہی ہوگی۔انھوں نے وصیت کی کہ میری قبر آں حضرت کی قبر کے ساتھ بنائی جائے۔
قبولِ اسلام:حضرت سیدنا ابراہیم نخعی فرماتے ہیں!
""اوّل من اسلم ابوبکر الصّدّیق یعنی سب سے پہلے اسلام قبول کرنیوالے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں"(سنن الترمذی ،رقم الحدیث،۳۷۵۶)
فضائل ومناقب:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے !
اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثْنَیۡنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ
ترجمہ ٔکنزالایمان: اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بے شک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافر وں کی شرارت سے باہرتشريف لے جاناہواصر ف د وجان سے جب وہ دونوں غارميں تھے جب اپنے يا ر سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پراپناسکينہ اتارا۔(پ۱۰، التوبۃ:۴۰)
اس آیت مبارکہ سے دو مسئلے معلوم ہوئے ايک يہ کہ حضرت ابوبکر صديق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحابيت قطعی بحکمِ قرآنی ہے لہٰذا اس کا انکار کفر ہے۔دوسرا يہ کہ حضرت صديق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا درجہ حضورﷺکے بعد سب سے بڑا ہے کہ انہيں اللہ تعالیٰ نے حضورﷺکا ثانی فرمايا ۔اس لئے حضور ﷺ نے انہيں اپنے مصلےٰ پر امام بنايا ۔ يہ بھی معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے بعد خلافت صديق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ہے۔ رب تعالیٰ انہيں دوسرا بنا چکا پھر انہيں تيسرا يا چوتھا کرنے والا کون ہے ۔ وہ تو قبر ميں بھی دوسرے ہيں حشر ميں بھی دوسرے ہوں گے۔
یعنی اُس اَفضلُ الْخَلْقِ بَعْدَ الرُّسُل
ثَانِیَ اثْنَیْنِہِجرت پہ لاکھوں سلام(حدائقِ بخشش )
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا!
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا!"مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے،مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت انہیں عطا فرمائیگا (سنن الترمذی،رقم الحدیث ،۳۶۸۱)
خلافتِ صدیق اکبر :
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی للہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہےکہ اللہ کے حبیب ﷺ نے مرضِ وفات میں مجھے ارشاد فرمایا!"ابوبکر اور ان کے بیٹے کو بلالاؤ تاکہ میں انہیں پروانہ (خلافت)لکھ دوں ،مجھے خوف ہے کہ کوئی تمنا کرنیوالا اپنی خواہش کااظہار کرتے ہوئے یہ نہ کہ دے کہ میں زیادہ حقدار ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اور مسلمان ابوبکر کے علاوہ کسی سے راضی نہ ہونگے"(صحیح مسلم،رقم ا لحدیث،۲۳۸۷)
سیدنا جبیر بن مطعم سے روایت ہے !کہ ایک عورت اپنی کسی حاجت کی وجہ سے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے اسے دوبارہ آنے کا حکم ارشاد فرمایا، وہ کہنے لگی:یا رسول اللہ ﷺ !اگر میں دوبارہ آؤں اور آپکو نہ پاؤں تو؟"گویا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کا ذکر کررہی تھی۔سرور ِ عالمَﷺنے ارشاد فرمایا!اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر کے پاس چلی جانا ۔"(صحیح البخاری،رقم الحدیث،۳۶۵۹)
افضلیتِ صدیق اکبر:
امام بخاری رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ حضرت محمد بن حنفیہ صاحبزاده جناب امیر المومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے راویت فرماتے ہیں: قال: قلت لأبي: أيّ الناس خیرٌ بعد النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم؟ قال: أبو بکر، قال: قلت: ثم من؟ قال: عمر)۔
یعنی میں نے اپنے والد ماجد امیر المومنین مولیٰ علی کرم اﷲ وجہہ سے عرض کیا: کہ رسول ﷺکے بعد سب آدمیوں سے بہتر کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: ""ابو بکر، میں نے عرض کیا پھر کون ؟ فرمایا: عمر""
(صحیح البخاري، رقم الحدیث،۳۶۷۱)
اہلسنت وجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ بعد انبیاء ومرسلین،تمام مخلوقتِ الہی انس و جن وملک سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں پھر حضرت فاروق ِاعظم پھر حضرت عثمان غنی ، پھر حضرت مولیٰ علی(رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)(بہارِ شریعت ،ج، اول،امامت کا بیان،ص،۲۴۱)
شیخین کی خلافت کامنکر کافر ہے:
شیخین کریمین کی خلافت پر صحابہ ٔکرام کا اجماع ہے لہذا انکی خلافت کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔(بہارِ شریعت،ج، اول،امامت کا بیان،ص،۲۵۳)
شیخین کی خلافت کامنکر کافر ہے:
شیخین کریمین کی خلافت پر صحابہ ٔکرام کا اجماع ہے لہذا انکی خلافت کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔(بہارِ شریعت،ج، اول،امامت کا بیان،ص،۲۵۳)
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت، مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: وجیزامام کردری مطبوعہ مصر جلد ۳ ص ۳۱۸ میں ہے " من انکرخلا فۃ ابی بکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ فھو کافرفی الصحیح ومن انکر خلافۃ عمر رضی اللہ تعالی عنہ فھو کافر فی الاصح ۔خلافتِ ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا منکر کافرہے، یہی صحیح ہے، اور خلافتِ عمر فاروق رضی اللہ رتعالٰی عنہ کا منکر بھی کافر ہے، یہی صحیح تر ہے"۔(فتاویٰ رضویہ،ج،۱۴،ص،۲۵۱)
ابوبکر سے مروی روایتیں۱۴۲ ہیں ،ان میں سے صرف ۷بخاری و مسلم میں موجود ہیں۔قلت روایت کا سبب شاید ان کی کم گوئی ہے۔ اس کے باوجود بعض اہم روایات ان سے مروی ہیں، مثلاًطریقۂ نماز جو ابو بکر سے ابن زبیر نے سیکھا، ان سے عطا نے اور ان سے ابن جریج نے جو اپنے زمانے میں بہترین طریقے سے نماز ادا کرنے والے تھے۔ اسی طرح زکوٰۃ کی مقداریں بیان کرنے والی حدیث ابوبکر سے مروی ہے۔ فن تعبیر کے امام ابن سیرین کہتے ہیں کہ اس امت میں خوابوں کی تعبیربتانے والے سب سے بڑے ماہر ابوبکرتھے۔ ابو بکر نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت بیان کی، ان سے روایت کرنے والوں میں عمر بن خطاب،ان کے آزاد کردہ غلام اسلم،انس بن مالک، برا بن عازب، جابر بن عبداﷲ، جبیر بن نفیر، حذیفہ بن یمان، زید بن ارقم، زید بن ثابت، عبداﷲ بن زبیر، عبداﷲ بن عباس، عبداﷲ بن عمر، عبداﷲ بن عمرو، عبداﷲ بن مسعود، عثمان بن عفان، عقبہ بن عامر، معقل بن یسار، عبدالرحمان بن ابوبکر، علی بن ابو طالب، ابو امامہ باہلی، ابو سعید خدری، ابو موسیٰ اشعری، ابو برزہ اور ابو ہریرہ شامل ہیں۔
ابوبکر کے عمال: مکہ: عتاب بن اسید۔ طائف: عثمان بن ابو العاص۔ صنعا: مہاجر بن امیہ۔ عمان: حذیفہ بن محصن۔ حضرموت: زیاد بن لبید۔ خولان: یعلیٰ بن منبہ۔ زبید: ابوموسیٰ اشعری۔ جند: معاذ بن جبل۔ بحرین: علا بن حضرمی۔ نجران: جریر بن عبد اﷲ۔ دومۃ الجندل: عیاض بن غنم۔ عراق: مثنیٰ بن حارثہ۔ مزنیہ: جرش۔
:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر کی بیماری کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ انہوں نے سخت سردی والے دن غسل کیا تو انہیں بخار ہوگیا جو پندرہ دن تک جاری رہا بیماری کی شدت کے باعث آپ ان دنوں مسجد نہ جا سکتے تھے اس لیے سیدنا عمر کو نماز پڑھانے کا حکم دیتے تھے۔ صحابہ کرام آپ کی تیمارداری کرنے آتے تھے سب سے زیادہ خبر گیری سیدنا عثمان کرتے تھے۔ (اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم لمحمود المصری)
جب انکی بیماری شدید ہوگئی تو ان سے عرض کیا گیا ہم آپ کے لیے طبیب بلائیں؟ تو فرمایا:
قَدْ رَآنِي فَقَالَ: إِنِّي فَعَّالٌ لِمَا أُرِيدُ
ترتیب و تہذیب البدیہ والنہایہ للدکتور السلمی،ص 33
طبیب نے مجھے دیکھ لیا ہے اور وہ کہتا ہے بیشک میں جو چاہتا ہوں کرتاہوں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: سیدنا ابو بکر نے فرمایا:
انظروا ماذا زاد في مالي منذ دخلت في الإمارة فابعثوا به إلى الخليفة بعدي
صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی 265/1
جب سےمیں خلیفہ بنا ہوں اس دوران جتنا مال بڑھا ہے وہ میرے بعد والے خلیفہ کو پہنچا دینا۔
ہم نے جب ان کا مال چیک کیا تو ایک نوبی غلام تھا مصر کے جنوب میں سوڈان کے شہر نوبہ میں ایک قوم آباد تھی یہ غلام انہیں میں سے تھا اور یہ خلیفہ کے بچے کھلاتا تھا۔اس کے علاوہ ایک اونٹ تھا جو ان کے باغ کو سیراب کرتا تھا ہم نے یہ دونوں چیزیں سیدنا عمر کی خدمت میں بھیج دیں تو وہ رو پڑے اور روتے روتے فرمایا: ابو بکر پر اللہ کی رحمتیں ہوں انہوں نے اپنے بعد والوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔(صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی 265/1)
صدیق اکبر کے آخری لمحات:
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں سیدناابو بکر کا مرض پندرہ دن جاری رہا حتی کہ جب 13 ہجری 22 جمادی الآخرہ کو پیر کا دن ہوا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا:
فِي أَيِّ يَوْمٍ مَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس دن رحلت فرمائی تھی؟
میں نے جواب دیا پیر کے دن، تو ابو بکر نے فرمایا:
إِنِّي لأَرْجُو فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ اللَّيْلِ
مسند أحمد(6/ 132)
مجھے امید ہے کہ میں آج دن کو یا رات کو کسی وقت فوت ہو جاؤں گا۔
پھر پوچھا: فَفِيمَ كَفَّنْتُمُوهُ ؟تم لوگوں نے رسول اللہ کو کتنی چادروں میں کفن دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا یمن کی دھاری دار تین چادروں میں۔ اس میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا، سیدنا ابو بکر نے فرمایا: میری چادر میں زعفران یا گیرو کا نشان ہے اسے دھو دینا اور دیگر دو چادریں ملا کر میرا کفن بنادینا، ان سے عرض کیا گیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے خوب احسان فرمایا ہے ہم آپ کو نئی چادروں میں کفن دیں گے انہوں نے فرمایا: زندہ شخص کو نئے لباس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے تاکہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے جبکہ میت کا انجام تو گلنا سڑنا ہوتاہے اور لباس کا بوسیدہ ہونا ہوتاہے سیدنا ابو بکر نے وصیت کی کہ انہیں ان کی بیوی سیدہ اسماء بنت عمیس غسل دیں اور انہیں رسول اللہ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔
اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت صدیق اکبر کی زبان سے جو آخری صدا نکلی وہ قرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ تھی:
تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ
(اے اللہ) اسلام پر میرا خاتمہ کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کرلے(سورت یوسف آیت 101)
وفات کے وقت ان کی عمر 63 برس تھی۔
اصحاب الرسول لمحمود المصری106/1 والتاریخ الاسلامی لمحمود شاکر ص 104)
وصال:۲۲جمادی الثانی۱۳ھ مطابق۲۳/اگست ۶۳۴ء بروز پیر ،مغرب و عشاء کے درمیان تریسٹھ سال کی عمر میں آپکا وصال ہوا۔آپ کی مدت خلافت دو سال ،تین ماہ اور دس دن تھی۔
بوقت وصال حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ رتعالٰی عنہ نے وصیت فرمائی کہ میرے جنازے کو میرے حبیبِ ﷺکے روضۂ اَنور کے دَر کے سامنے لاکر رکھ دینا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کہہ کر عرض کرنا!"یارسولَ اللہ ﷺ ابو بکر آستانۂ عالیہ پر حاضِر ہے۔ اگردروازہ خود بخود کھل جائے تو اندر لے جانا ورنہ مسلمانوں کے قبرستان جنت البقیع میں دفن کر دینا۔ جنازۂ مبارکہ کو حسبِ وَصیت جب روضۂ اَقدس کے سامنے رکھا گیا اور عرض کیا گیا: اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ!ابوبکر حاضِر ہے۔ یہ عرض کرتے ہی دروازے کا تالا خود بخودکھل گیا اور آواز آنے لگی: اَدْخِلُوا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ فَاِنَّ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ مُشْتَاقٌ یعنی محبوب کو محبوب سے مِلادو کہ محبوب کو محبوب کا اِشتِیاق ہے۔ (تفسیر کبیر ج۱۰ص۱۶۷داراحیاء التراث العربی بیروت)
آخر میں ایک اہم الزام کا جواب دینا ضروری ہے جو ابوبکر پر لگایا جاتا ہے۔ کیا ابو بکر نے سیدہ فاطمۃ الزہرا کو میراث سے اور حضرت علی کو خلافت سے محروم کردیاتھا؟ جس طرح فاطمہ رضی اﷲ عنہاپیغمبر علیہ السلام کی وارث تھیں اسی طرح عائشہ رضی اﷲ عنہا بھی آپ کی وراثت میں حصہ رکھتی تھیں۔ ابوبکر نے دونوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا، اس لیے کہ شریعت اسلامی میں انبیا کی وراثت جائز نہیں۔ یعقوبی کا بیان ہے: جب سیدہ عائشہ نے اعتراض کیا کہ آپ تو اپنے باپ کی وراثت حاصل کر سکتے ہیں اور میں نہیں کر سکتی تو ابوبکر زار و قطار رونے لگے گویا اس اعتراض پر محض ہمدردی ہی کی جا سکتی تھی۔ خلافت علی کے بارے میں اگر کوئی واضح ارشاد نبوی ابوبکر کے سامنے آتا تو وہ پیچھے ہٹ جاتے اور فرمان رسالت پر بے چون و چرا عمل کرتے، اس لیے کہ ان کی پوری زندگی امتثال امر سے عبارت ہے۔ پھر ابوبکر کے ہاتھ پرعلی مرتضیٰ کا بیعت کر لینا ثابت کرتا ہے کہ وہ وصی رسول نہ تھے۔
مطالعۂ مزید: الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ ابن خلدون، الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، تاریخ الیعقوبی، الصدیق ابوبکر (محمد حسین ہیکل)، عبقرےۃ الصدیق (عباس محمود العقاد)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی)، سیرت الصدیق (حبیب الرحمان شروانی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی