رمضان المبارک کے روزوں کا آغاز – فرضیت، احکام اور آسانیاں
رمضان المبارک کا روزہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے امت مسلمہ پر فرض کیا۔ یہ روزے مسلمانوں پر ہجرت کے دوسرے سال، 2 شعبان کو فرض کیے گئے۔ اسی دن سے رمضان کے روزے اسلام کا چوتھا رکن قرار پائے۔
جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو نبی کریم ﷺ مسجد نبوی تشریف لے گئے اور صحابہ کرامؓ کو اس عظیم نعمت کی خوشخبری دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
“تاكم شهر رمضان، شهر خير وبركة، يغشاكم الله فيه، فينزل الرحمة، ويحط الخطايا، ويستجيب الدعاء
تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آ گیا ہے، یہ بھلائی اور برکت والا مہینہ ہے، اللہ اس میں تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے، گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اور دعائیں قبول کرتا ہے۔ الطبرانی۔ (حدیث ضعیف الاسناد)۔
ابتداء میں روزے کے احکام اور تدریجی فرضیت
۔🔹 شروع میں روزے کی فرضیت تدریجی تھی۔ جو چاہتا روزہ رکھتا، اور جو چاہتا ایک مسکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں فدیہ دے دیتا۔
۔🔹 اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ
مفہومی ترجمہ: اور جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں، ان پر فدیہ ہے، ایک مسکین کو کھانا کھلانا۔ البقرہ: 184۔
۔🔹 بعد میں جب مسلمانوں کا دل روزوں کا عادی ہو گیا، تو روزے مکمل طور پر فرض کر دیے گئے، اور ہر مسلمان پر لازم ہوا کہ وہ روزہ رکھے، سوائے ان لوگوں کے جو کسی شرعی عذر (بیماری یا سفر) کی وجہ سے نہ رکھ سکتے ہوں۔
۔🔹 اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ
مفہومی ترجمہ: پس جو شخص اس مہینے کو پائے، وہ اس کا روزہ رکھے۔ البقرہ: 185۔
ابتداء میں روزے کا طریقہ اور بعد میں آسانی
جب روزہ پہلی بار فرض ہوا تو اس کا طریقہ آج کے طریقے سے مختلف تھا۔
۔🔹 پہلا حکم یہ تھا کہ افطار کے بعد سحری کی اجازت نہیں تھی۔ یعنی اگر کوئی افطار کے بعد سو جاتا، تو وہ اگلے دن کے افطار تک کچھ نہیں کھا سکتا تھا۔
۔🔹 اسی طرح رمضان میں رات کے وقت بھی میاں بیوی کے تعلقات ممنوع تھے۔
سختی کی وجہ سے مشکلات پیش آئیں
۔✅ ایک صحابیؓ جو دن بھر کھیتی باڑی کرتے تھے، روزے کی حالت میں شام کو گھر آئے۔ ان کی اہلیہ نے کھانے کی تیاری شروع کی، لیکن تھکن کی وجہ سے وہ نیند میں چلے گئے۔ جب وہ جاگے تو انہیں کھانے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے وہ اگلے دن کا روزہ بھی مسلسل رکھنا پڑا، جس سے وہ بے ہوش ہو گئے۔
۔✅ اسی طرح ایک اور صحابیؓ نے رمضان کی رات میں اپنی بیوی سے تعلق قائم کر لیا، جبکہ اس وقت یہ منع تھا، تو انہوں نے نبی کریم ﷺ کو اطلاع دی۔ یہ حالات دیکھ کر نبی کریم ﷺ کو افسوس ہوا، کیونکہ یہ امت پر بہت بھاری تھا۔
اللہ تعالیٰ نے امت پر آسانی فرمائی
اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور مہربانی سے مسلمانوں کے لیے روزے کے احکام میں آسانی پیدا کی۔
۔🔹 اب سحری کی اجازت دے دی گئی، اور روزہ طلوعِ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک رکھا جانے لگا۔
۔🔹 اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ
اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر کے وقت سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے نمایاں ہو جائے ۔ البقرہ: 187۔
۔🔹 اسی طرح رات کے وقت میاں بیوی کے تعلقات جائز قرار دیے گئے، اور روزہ فجر سے مغرب تک محدود کر دیا گیا۔
روزہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک عظیم نعمت ہے
۔✅ یہ امت کی روحانی ترقی اور تقویٰ کی بنیاد ہے۔
۔✅ یہ امت پر اللہ تعالیٰ کی ایک رحمت ہے، جو تدریجی مراحل میں آسانیوں کے ساتھ فرض کی گئی۔
۔✅ یہ دنیا کی بھلائی اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔
ہمیں روزے کی اس نعمت کو کیسے دیکھنا چاہیے؟
۔🔹 روزے کو ایک بوجھ سمجھنے کے بجائے، اسے اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھنا چاہیے۔
۔🔹 یہ ایک عظیم عبادت ہے جو ہمیں تقویٰ سکھاتی ہے۔
۔🔹 یہ ہمیں اللہ کی نعمتوں کی قدر سکھاتا ہے، کیونکہ جب ہم بھوک اور پیاس محسوس کرتے ہیں، تو ہمیں دوسروں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔
۔🔹 یہ ایک ایسی عبادت ہے، جس کا اجر خود اللہ تعالیٰ عطا فرماتے ہیں، جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے:۔
كل عمل ابن آدم له إلا الصوم فإنه لي وأنا أجزي به
مفہومی ترجمہ: ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے، سوائے روزے کے، کیونکہ وہ میرے لیے ہے، اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ بخاری و مسلم
خلاصہ یہ ہے کہ:۔
رمضان کے روزے ایک عظیم عبادت ہیں، جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی قربت عطا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کو تدریجی طور پر آسان کیا تاکہ یہ امت کے لیے باعثِ رحمت اور نجات کا ذریعہ بنے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اس نعمت کی قدر کریں، اور رمضان المبارک کو ایک بوجھ کے بجائے، اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور مغفرت کے موقع کے طور پر دیکھیں۔
اللہم وفقنا لصيام رمضان، وتقبل منا صيامنا وقيامنا، واغفر لنا ذنوبنا، وارزقنا حسن الختام يا أرحم الراحمين!