ہر مہینہ میں تین نفلی روزے کافی ہیں


 ⲯ﹍︿﹍︿﹍ درسِ حدیث ﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 945
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ : أَنَّ رَجُلٌ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : كَيْفَ تَصُومُ؟ فَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، غَضَبَهُ ، قَالَ : رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا ، نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ ، فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هَذَا الْكَلَامَ حَتَّى سَكَنَ غَضَبُهُ ، فَقَالَ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللهِ ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ؟ قَالَ : « لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ » أَوْ قَالَ « لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ » قَالَ : كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ : « وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ؟ » قَالَ : كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ : « ذَاكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام » قَالَ : كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟ قَالَ : « وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ » ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ ، فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ ، صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ ، وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ » (رواه مسلم)

ⲯ﹍︿﹍︿﹍ ترجمہ﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

ہر مہینہ میں تین نفلی روزے کافی ہیں
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ: آپ روزے کس طرح رکھتے ہیں؟ (یعنی نفلی روزے رکھنے کے بارے میں آپ کا کیا معمول و دستور ہے؟) اس کے اس سوال پر رسول اللہ ﷺ کو ناگواری ہوئی (یعنی چہرہ مبارک پر تکدر اور برہمی کے آثار ظاہر ہوئے) حضرت عمر ؓ نے (جو حاضر تھے) جب آپ کی ناگواری کی کیفیت کو محسوس کیا تو کہا: رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ ہم راضی ہیں اللہ کو اپنا رب مان کر اور اسلام کو اپنا دین بنا کر اور محمد علیہ السلام کو نبی مان کر، اللہ کی پناہ اس کی ناراضی سے اور اس کے رسول کی ناراضی سے۔ حضرت عمر ؓ بار بار اپنی یہی بات دہراتے رہے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے مزاج مبارک میں جو ناگواری پیدا ہو گئی تھی اس کا اثر زائل ہو گیا۔ تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ ﷺ! وہ شخص کیسا ہے جو ہمیشہ بلا ناغہ روزے رکھے، اور اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہ اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا۔ پھر حضرت عمرؓ نے عرض کیا اور اس آدمی کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو دو دن روزے رکھے اور ایک دن ناغہ کرے یعنی بغیر روزے کے رہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا کسی میں اس کی طاقت ہے؟ (یعنی یہ بہت مشکل ہے ہمیشہ روزہ رکھنے سے بھی زیادہ مشکل ہے اس لیے اس کا ارادہ نہ کرنا چاہئے) حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ اور اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے: جو ہمیشہ ایک دن روزے رکھے اور ایک دن ناغہ کرے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ صوم داؤد ہے (یعنی حضرت داؤد علیہ السلام جن کو اللہ نے غیر معمولی جسمانی قوت بخشی تھی ان کا معمول یہی تھا کہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے) حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ: اس آدمی کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن ناغہ کرے؟ اور اس طرح اوسطاً ہر مہینے میں دس دن روزہ رکھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: میرا جی چاہتا ہے کہ مجھے اس کی طاقت عطا فرمائی جائے .... پھر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر مہینے کے تین نفلی روزے اور رمضان تا رمضان یہ (یہ اجر و ثواب کے لحاظ سے) ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے (لہذا جو صوم دہر کا ثواب حاصل کرنا چاہے وہ اس کو اپنا معمول بنا لے) اور یوم عرفہ (۹ ذی الحجہ) کے روزے کے بارے میں، میں امید کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے کرم سے کہ وہ صفائی کر دے گا اس سے پہلے ساتل کی اور بعد کے سال کی (یعنی اس کی برکت سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی گندگیاں دھل جائیں) اور یوم عاشورا (۱۰ محرم) کے روزے کے بارے میں میں امید کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ وہ صفائی کر دے گا اس سے پہلے سال کی۔ (صحیح مسلم)

ⲯ﹍︿﹍︿﹍ تشریح﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کا ذوق عبادت بہت بڑھا ہوا تھا وہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات بھر نوافل پڑھتے اور اس میں روزونہ پورا قرآن مجید ختم کر لیتے۔ رسول اللہ ﷺ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے ان کو وہ ہدایت فرمائی جو حدیث میں مذکور ہوئی اور اس کی عبادت میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا اور فرمایا کہ: تم پر اپنے جسم و جان اور اپنے اہل تعلق کی بھی ذمہ داریاں ہیں اور ان کی بھی رعایت اور ادائیگی ضروری ہے۔ آپ ﷺ نے پہلے انہیں مہینے میں تین نفلی روزے رکھنے اور تہجد میں پورے مہینے میں ایک قرآن پڑھنے کے لیے فرمایا، اور جب انہوں نے عرض کیا کہ میں با آسانی اس سے زیادہ کر سکتا ہوں لہٰذا کچھ زیادہ کی مجھے اجازت دے دیجئے تو آپ ﷺ نے ان کو صوم داؤد کی (یعنی ہمیشہ ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کی) اور ہفتہ میں ایک قرآن مجید رات کے نوافل میں پورا کر لینے کی اجازت مرحمت فرما دی اور اس سے زیادہ کے لیے منع فرما دیا .... لیکن اس حدیث سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کی ممانعت کا منشاء یہ نہیں تھا کہ زیادہ عبادت کرنا کوئی بری بات ہے، بلکہ یہ ممانعت بر بنائے شفقت تھی (جس طرح چھوٹے بچوں کو زیادہ بوجھ اٹھانے سے منع کیا جاتا ہے) یہی وجہ ہے کہ ان کے یہ عرض کرنے پر کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ ﷺ نے ان کو مہینہ میں صرف تین روزوں کے بجائے صوم داؤد کی یعنی ۱۵ دن روزہ اور ۱۵ دن افطار کی اور مہینہ میں قرآن ختم کرنے کے بجائے ہفتہ میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دے دی۔ بلکہ ترمذی کی روایت کے مطابق بعد میں صرف پانچ دن میں قرآن مجید ختم کرنے کی بھی اجازت دے دی تھی اور بعض صحابہ کو حضور ﷺ نے تین دن میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دی ہے۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی