کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا


کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا

دل ناداں نہ دھڑک اے دل ناداں نہ دھڑک
کوئی خط لے کے پڑوسی کے گھر آیا ہوگا

اس گلستاں کی یہی ریت ہے اے شاخ گل
تو نے جس پھول کو پالا وہ پرایا ہوگا

دل کی قسمت ہی میں لکھا تھا اندھیرا شاید
ورنہ مسجد کا دیا کس نے بجھایا ہوگا

گل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو
آندھیو تم نے درختوں کو گرایا ہوگا

کھیلنے کے لیے بچے نکل آئے ہوں گے
چاند اب اس کی گلی میں اتر آیا ہوگا

کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا

کلام: کیف بھوپالی


 

ایک تبصرہ شائع کریں

[blogger]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget