🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر تینتیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مزمل آفندی کو جب گھسیٹتے دھکیلتے ہوئے قید خانے میں لے گئے اور اسے ایک کوٹھری میں بند کردیا تو اس نے سلاخوں کو پکڑ کر زور زور سے ہلانا اور چیخنا چلانا شروع کر دیا۔
تم مجھے قبر میں دفن کر دو تو بھی اس شخص کو قتل کرنے کے لیے نکل آؤں گا۔۔۔۔ مزمل یہی الفاظ دہرائے چلا جا رہا تھا۔
نظام الملک نے جب حکم دیا تھا کہ مزمل آفندی کو قید خانے میں ڈال دو تو اس نے یہ بھی کہا تھا کہ میں اسے کل دیکھوں گا، اگلے روز اس نے قید خانے میں جانے کا ارادہ کیا تو اسے خیال آگیا کہ پہلے معلوم کر لیا جائے مزمل کس حال میں ہے اور اس کا رد عمل اور رویہ کیا ہے، نظام الملک نے قید خانے میں ایک آدمی کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ معلوم کرکے آئے کہ مزمل کس حال میں ہے۔
کچھ وقت بعد اسے بتایا گیا کہ مزمل رات بھر جاگتا چیختا اور چلاتا رہا ہے، اور اب بھی وہ اسی کیفیت میں ہے۔
کیا کہتا ہے؟،،،،، نظام الملک نے پوچھا۔
کہتا ہے میں نظام الملک کو قتل کرکے مرونگا۔۔۔ قید خانے سے آنے والے آدمی نے جواب دیا۔
نظام الملک کو شمونہ نے تفصیل سے بتایا تھا کہ حسن بن صباح کے یہاں کس طرح لوگوں کے دماغوں اور دلوں پر قبضہ کرکے انہیں اپنے سانچے میں ڈھال لیا جاتا ہے اور کس طرح انھیں قاتل بنایا جاتا ہے، نظام الملک نے اپنے ایک خاص معتمد کو بلایا اور اسے سرگوشیوں میں کچھ اشارہ دے کر بھیج دیا، اس شخص کے جانے کے بعد نظام الملک نے اپنے ملازم کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ طبیب نجم کو اپنے ساتھ لے آئے، جس طبیب کو نظام الملک نے بلایا تھا اس کا پورا نام نجم بن انجم مدنی تھا، وہ ضعیف العمر آدمی تھا، مرو میں ہی نہیں اور سلطنت سلجوقی میں ہی نہیں بلکہ دوسری بادشاہیوں اور دور دور کے علاقوں میں بھی اس کی شہرت تھی، اسے سلجوقی سلطان کچھ ایسے اچھے لگے کہ وہ یہیں کا ہو کے رہ گیا تھا ،وہ اسلام کا اور رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا شیدائی تھا ،وہ اتنا ضعیف ہو چکا تھا کہ اب کم ہی کبھی باہر نکلتا تھا اور عام قسم کی بیماریوں کے مریضوں کو دیکھنے کا اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا تھا اور نہ اس میں اتنی ہمت تھی ،لیکن وہ آرام بھی نہیں کرتا تھا، کیمیاء گری اور تجربات میں لگا رہتا تھا،
اسے جونہی نظام الملک کا پیغام ملا وہ سواری پر بیٹھا اور نظام الملک کے پاس پہنچ گیا، نظام الملک کو اطلاع ملی کے طبیب نجم مدنی کی سواری آئی ہے تو وہ باہر کو دوڑ پڑا اور طبیب کا استقبال اس طرح کیا جس طرح اس نے سلطان ملک شاہ کا کبھی نہیں کیا تھا ۔
محترم طبیب !،،،،،نظام الملک نے کہا۔۔۔مجھے خود آپ کے پاس آنا چاہیے تھا میں آپ کو زحمت نہ دیتا،،،،،،،،،
وزیراعظم !،،،،طبیب نجم مدنی نے اس کی بات کاٹ کر کہا ۔۔۔کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ نے مجھے جس مقصد کے لیے بلایا ہے وہ بیان کر دیں؟
نظام الملک نے طبیب کو مزمل آفندی کے متعلق بتانا شروع کردیا ،اس نے تفصیل سے بتایا کہ مزمل اس کے پاس کس جذبے سے اور کس طرح یہاں پہنچا تھا اور پھر اس نے ایک جنگ میں کیا کارنامہ سر انجام دیا تھا اور پھر اس نے طبیب کو تفصیل سے بتایا کہ مزمل آفندی نے اپنے جینے کا یہی ایک مقصد بنا لیا تھا کہ وہ حسن بن صباح کو قتل کرے گا ،پھر اس نے طبیب کو بتایا کہ مزمل آفندی حسن بن صباح کے قتل کے ارادے سے چلا گیا، لیکن چالیس بیالیس روز بعد واپس آیا تو اس کی شکل و صورت اور چال ڈھال تو وہی تھی لیکن وہ بالکل ہی بدل گیا تھا۔
اس نے آتے ہی مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا۔۔۔ نظام الملک نے کہا ۔۔۔یہ تو مجھے قبل از وقت معلوم ہو گیا تھا کہ وہ مجھے قتل کرے گا اس لئے میں بچ گیا ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسے یہ موقع میں نے خود فراہم کیا تھا کہ وہ مجھ پر قاتلانہ حملہ کرے۔
نظام الملک نے شمونہ کا حوالہ دے کر طبیب کو تفصیل سے بتایا کہ اس لڑکی نے اسے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ مزمل مجھ پر قاتلانہ حملہ کرے گا، نظام الملک نے طبیب کو شمونہ کے متعلق بھی سب کچھ بتایا اور اسے قاتلانہ حملے کا اور مزمل کی گرفتاری کا واقعہ سنایا۔
کیا وہ اس لڑکی شمونہ کو چاہتا ہے ؟،،،طبیب نے چونک کر پوچھا۔
چاہتا ہی نہیں محترم طبیب !،،،،،نظام الملک نے جواب دیا ۔۔۔وہ تو اس لڑکی کو عشق کی حد تک چاہتا ہے ،اور اگر کسی انسان کے آگے سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو مزمل اس لڑکی کے آگے سجدے کرتا رہتا ۔
اس لڑکی کو یہیں بلا لو ۔۔۔طبیب نے کہا۔۔۔ آپ نے ابھی تک مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ چاہتے کیا ہیں، کیا آپ اس شخص مزمل آفندی کی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، اور مجھ سے مشورہ لے رہے ہیں۔
اس کی قسمت کا فیصلہ کرنا میرے لیے کوئی مشکل نہیں تھا ۔۔۔نظام الملک نے کہا۔۔۔ فیصلہ کرنا ہوتا تو مجھے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں تھی، میں اسے اسی وقت اپنے محافظوں کو حکم دے کر قتل کروا دیتا اور کہتا کہ اس کی لاش کو دفن نہیں کرنا تاکہ اسے کتے اور گدھے کھا جائیں، لیکن محترم طبیب!،،، میں مزمل آفندی جیسے قیمتی جواں سال اور خوبرو آدمی کو ضائع نہیں کرنا چاہتا ،میں شاید آپ کو بتا نہیں سکتا کہ اس جوان سال آدمی میں اسلام کی کس قدر شدید اور جذباتی محبت ہے، میرا ایک مقصد تو یہ ہے کہ میں اسے واپس اپنی اصلی حالت میں لے آؤں ،دوسرا مقصد یہ ہے جو صرف آپ پورا کر سکتے ہیں وہ یہ کہ اسے حسن بن صباح کے یہاں کسی ایسے عمل سے گزارا گیا ہے جس نے اس کے دل و دماغ کو الٹا دیا ہے، اس کی نگاہ میں دوست دشمن بن گئے ہیں، میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ اپنے تجربے کی روشنی میں دیکھیں کہ وہ باطنی کس طرح اچھے بھلے انسان کو اپنوں کا ہی قاتل بنا دیتے ہیں۔
عزیز نظام الملک!،،، طبیب نے کہا۔۔۔ آپ نے یہ بات آج سوچی ہے ،میں بڑے لمبے عرصے سے اس مسئلے پر کام کر رہا ہوں، ایک مدت گزری مجھے پتہ چلا کہ باطنی لوگوں کی سوچوں پر اور خیالوں پر قابض ہو کر انہیں مکمل ابلیس اور مکمل انسان کُش بلکہ آدم خور بنا رہے ہیں، میں نے اپنے آدمی وہاں بھیجے جنہوں نے مجھے کچھ ضروری باتیں بتائیں، یہ حشیش کا کمال ہے اور پھر یہ کمال ہے ان لوگوں کا یعنی ان باطنیوں کے اپنے دماغ کا کہ انھوں نے انسانی فطرت کی سب سے بڑی کمزوری کو استعمال کیا ہے۔
محترم طبیب !،،،،نظام الملک نے کہا۔۔۔یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ وہ کس طرح لوگوں کے دل و دماغ پر قبضہ کرتے اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کا کوئی توڑ ہے؟
جی ہاں !،،،،طبیب نے جواب دیا۔۔۔ اس کا توڑ میں نے سال ہا سال کی محنت سے تیار کیا ہے،،،، لیکن میرے عزیز نظام الملک!،،، ہم صرف اس شخص کو واپس اس کی اصلیت میں لا سکیں گے جو مزمل جیسا اکا دکا ہمارے پاس پہنچ جائے گا ،حسن بن صباح اوراسکے ابلیسی گروہ نے اپنے زیر اثر علاقوں میں اجتماعی طور پر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے، اس کا ہمارے پاس کوئی توڑ نہیں،،،،، ہاں آپ کے پاس اس کا ایک علاج موجود ہے، وہ کریں اور اس ابلیسی فتنے کو ختم کریں،،،،،،، یہ ہے فوج کشی،،،،،، حملہ کریں حسن بن صباح احمد بن عطاش اور ان کے خاص گروہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں اور اس کے بعد اسلام کی تبلیغ کریں۔
یہ تو ہم کر ہی رہے ہیں۔۔۔ نظام الملک نے کہا۔۔۔میں نے سلطان ملک شاہ سے حملے کی اجازت لے لی ہے، اور اس حملے کی قیادت میں خود کرونگا۔
لیکن آپ کو بہت کچھ سوچ کر قدم اٹھانا ہوگا۔۔۔ طبیب نجم مدنی نے کہا۔۔۔ میں نے کسی زمانے میں قلعہ الموت دیکھا تھا، اب تو سنا ہے کہ اس کے دفاعی انتظامات اور زیادہ مضبوط کر دیے گئے ہیں ،آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ قلعہ بلندی پر ہے۔
ہاں محترم طبیب !،،،،نظام الملک نے کہا۔۔۔ یہ فوجی اور جنگی مسئلہ ہے یہ مجھ پر چھوڑیں، آپ اتنا کریں کہ مزمل آفندی کے دماغ کو اس کی اصلی حالت میں لے آئیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قید خانے کی ایک کوٹھری میں مزمل آفندی چیخ چلا کر تھک گیا تھا اور دیوار کے ساتھ پیٹھ لگائے فرش پر بیٹھا تھا، اس کا سر جھکا ہوا تھا ،دروازے کی سلاخوں کے باہر ایک آدمی آ کر رک گیا ۔
مزمل !،،،،اس آدمی نے سرگوشی کی۔
مزمل نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا۔
مزمل آفندی!،،،، اس آدمی نے اب ذرا بلند سرگوشی کی۔۔۔ یہاں آؤ۔
مجھے کیوں بلا رہے ہو؟،،،، مزمل آفندی نے گرج کر کہا ۔۔۔یہاں سے چلے جاؤ ورنہ میں،،،،،،
آہستہ بول احمق آدمی!،،،،، اس آدمی نے ذرا اور بلند سرگوشی میں کہا۔۔۔۔ میں تمہارا دوست ہوں ،یہاں آؤ ۔
مزمل آفندی سلاخوں کے قریب آ کر اس آدمی کے سامنے بیٹھ گیا۔
مجھے آج صبح پتہ چلا ہے کہ تمہیں قید کر دیا گیا ہے۔۔۔ اس آدمی نے کہا ۔۔۔میں تمہیں یہاں سے فرار کرا دوں گا ،خاموشی سے یہاں بیٹھے رہو ،انہیں تنگ نہ کرو ورنہ یہ تمہیں اتنا مارے پیٹیں گے کہ تم جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھو گے، میں جانتا ہوں کہ تم الموت سے کیوں یہاں آئے تھے، تمہیں جن لوگوں نے بھیجا ہے میں ان کا جاسوس ہوں اور مجھے ہر بات کا علم ہے، اس قید خانے میں میرا اثر و رسوخ چلتا ہے، میں بھی نظام الملک کو قتل کرنا چاہتا ہوں لیکن الموت سے امام حسن بن صباح کا پیغام ملا ہے کہ یہ کام مزمل آفندی کرے گا، مجھے یہ فرض سونپا گیا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں اور تم کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو میں تمہیں اس میں سے نکالوں، تم آرام سے اور مکمل خاموشی سے یہاں بیٹھے رہو تمہیں یہاں سے نکلوانا اور واپس الموت بھیج دینا میرا کام ہے۔
کیا میں نظام الملک کو قتل کر سکوں گا؟،،،، مزمل نے پوچھا ۔
پہلا کام تمہیں یہاں سے فرار کرانا ہے۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔۔اس کے بعد دیکھنا کہ نظام الملک کو قتل کرنے کا موقع مل سکتا ہے یا نہیں، اگر دو یا تین دن موقع نہ ملا تو تمہیں واپس الموت بھجوا دیں گے اور موقع پیدا کرکے تمہیں واپس لے آئیں گے ۔
ایک کام کر سکتے ہو ؟،،،،مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ شمونہ نام کی ایک لڑکی یہاں ہے،،،،،،،
ہاں مزمل !،،،،اس آدمی نے کہا۔۔۔ میں اسے جانتا ہوں، یہ بھی کیا جاسوسی ہوئی کہ میں شمونہ کو جان نہ سکتا ،میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس وقت وہ نظام الملک کے یہاں گئی ہوئی ہے۔
میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کے وہ ٹھیک تو ہے۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسے بھی پریشان کیا جا رہا ہو۔
نہیں۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔ اسے کوئی پریشانی نہیں، اگر تمہارے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اسے بھی مشکوک سمجھا گیا ہوتا تو اسے تمہارے ساتھ ہی قید خانے میں پھینک دیا گیا ہوتا،،،،،،،تم چاہو گے تو اسے بھی یہاں سے نکلوا کر تمہارے ساتھ بھیج دیں گے۔
مزمل آفندی یوں مطمئن ہو گیا جیسے دہکتے ہوئے انگاروں پر پانی پھینک دیا گیا ہو۔
اب تمہارے کھانے پینے کا انتظام میرے ہاتھ میں ہوگا۔۔۔اس آدمی نے کہا۔۔۔ میری کوشش یہ ہوگی کہ میں خود تمہیں کھانا دینے آیا کروں، اگر میں نہ آ سکوں تو جو کوئی آدمی جو کچھ بھی کھانے پینے کے لئے لائے وہ آرام اور اطمینان سے لے کر کھا لینا،،،،،، یوں ظاہر کرو جیسے تم اندر سے مر گئے ہو اور اب تم کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کروگے،،،،، مجھے اب یہاں سے چلے جانا چاہیے۔
ہاں بھائی میرے !،،،،،مزمل نے کہا۔۔۔ میں تم پر بھروسہ کروں گا تم جاؤ ،لیکن میرے فرار کا انتظام جلدی کرو ،میں کوشش یہ کروں گا کہ نظام الملک کو قتل کر کے واپس الموت جاؤں۔
ایسا ہی ہوگا مزمل !،،،،اس شخص نے کہا، اور وہ چلا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شمونہ نظام الملک کے خاص کمرے میں بیٹھی طبیب نجم مدنی کو سنا رہی تھی کہ وہ جب حسن بن صباح کے ساتھ تھی تو کیا کیا طریقے استعمال کر کے اپنے مطلب کے لوگوں کو اپنا شکار بنایا جاتا تھا ،شمونہ نے طبیب کو یہ بھی بتایا کہ اسے اور اس جیسی لڑکیوں کو تربیت دے کر استعمال کیا جاتا تھا۔
محترم بزرگ!،،،،، شمونہ نے کہا۔۔۔ حسن بن صباح کے پاس جادو بھی ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ جادو اس نے احمد بن عطاش سے سیکھا ہے، لیکن یہ جادو کم ہی استعمال کیا جاتا ہے اس کی بجائے ایک اور جادو استعمال کیا جاتا ہے جس سے کوئی نہیں بچ سکتا ،وہ جادو میں ہوں مجھے دیکھ لیں،،،،، میں نے یہ جادو اپنے ہاتھوں اور اپنی زبان سے چلایا بھی ہے اور چلتا دیکھا بھی ہے۔
تو اب میری بات سنو شمونہ!،،،،، طبیب نجم نے کہا ۔۔۔اب تمہیں یہی جادو مزمل آفندی پر چلانا ہے، میرا خیال ہے کہ تمہارا جادو آسانی سے چل جائے گا ،کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ تم سے دلی نہیں بلکہ روحانی محبت کرتا ہے۔
ہاں میرے بزرگ!،،،،، شمونہ نے کہا۔۔۔مزمل کو واپس اسی مقام پر لانے کے لیے میں تو اپنی جان بھی قربان کر دوں گی، آپ مجھے کہیں گے کہ اپنی جان دے دو تو مزمل اپنی اصلی حالت میں آ جائے گا تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔
ایسی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔۔ طبیب نے کہا۔۔۔ میں تمہیں کچھ باتیں اور کچھ طریقہ بتاؤں گا تم نے اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔
اس زمانے میں برین واشنگ کی اصطلاح سے کوئی واقف نہیں تھا، لیکن برین واشنگ کا عمل موجود تھا اور حسن بن صباح برین واشنگ کا غیر معمولی طور پر ماہر تھا اور اس نے جو طریقے وضع کیے تھے انہیں آج کے ماہرین نفسیات اور ڈاکٹر بھی مستند مانتے ہیں۔
میرے عزیز نظام الملک !،،،،،طبیب نجم مدنی نے کہا ۔۔۔اللہ نے ہر جاندار کا جوڑا پیدا کیا ہے نر اور مادہ، کیا آپ نے جانوروں کو دیکھا نہیں کہ ایک مادہ کی خاطر وہ ایک دوسرے کا خون بہا دیتے ہیں، انسان کو خدا نے عقل دی ہے جذبات دیے ہیں اور کچھ حِسّیں دی ہیں، اس لئے انسانی نر اور مادہ ایک دوسرے کی محبت حاصل کرنے کے لئے ایسے ایسے طریقے سوچ لیتے ہیں کہ انسان خود بھی حیران رہ جاتا ہے، مرد کی فطرت میں عورت کی طلب بڑی شدید ہوتی ہے، مرد نے جب بھی دھوکا کھایا عورت کے ہاتھوں کھایا، اس لڑکی شمونہ جیسی عورت ایک دلکش نشہ بن کر اپنی پسند کے آدمی پر طاری ہوجاتی ہے، اگر عورت خود غرض ہے اور وہ اپنی پسند کے مرد سے کوئی دنیاوی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے مثلا اس کے مال و اموال پر قبضہ کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنی نسوانیت کے نشے کے ساتھ کوئی اور نشہ بھی شامل کر لیتی ہے جو وہ دھوکے سے اس شخص کو دیتی رہتی ہے،اس کے ساتھ وہ پیار و محبت کی ایسی ایسی مصنوعی حرکتیں کرتی ہے کہ اس کے چنگل میں آیا ہوا مرد اس کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو تا رہتا ہے، حسن بن صباح یہی نسخہ استعمال کر رہا ہے، میں اس کی عقل کی تعریف کرتا ہوں کہ حشیش کو جس طرح اس نے استعمال کیا ہے وہ آج تک اور کسی کے دماغ میں نہیں آیا، میں مزمل آفندی کے دماغ پر جو حشیش کے اثرات ہیں وہ اتار دوں گا۔
کیا آپ اسے کوئی دوائی دیں گے یا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا ہے؟،،،،، نظام الملک نے پوچھا۔
ہاں !،،،،،طبیب نجم نے جواب دیا۔۔۔ اسے دوائی پلائی جائے گی لیکن آپ نے بتایا ہے کہ وہ قید خانے کی کوٹھری میں بہت زیادہ ادھم برپا کررہا ہے، آپ اسے دوائی کس طرح پلائیں گے، یہ کام آپ کو کرنا ہو گا۔
ہاں محترم طبیب!،،،، نظام الملک نے کہا۔۔۔ میں نے ایک انتظام تو کیا ہے کہ اس شخص پر قابو پایا جا سکے،،،،،، ذرا ٹھہریے ،،،،،،میں معلوم کرتا ہوں کہ وہ آدمی واپس آیا یا نہیں،
نظام الملک نے دربان کو بلا کر پوچھا کہ وہ آدمی آیا ہے کی نہیں، دربان کو معلوم تھا کہ کس شخص کے متعلق پوچھا جا رہا ہے، اس نے بتایا کہ وہ ابھی ابھی آیا ہے، نظام الملک نے اسے کہا کہ اسے فوراً اندر بھیج دو، دربان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد وہی آدمی جو قید خانے میں حسن بن صباح کا جاسوس بن کر مزمل آفندی کے پاس گیا اور اسے ٹھنڈا کر آیا تھا اندر آیا۔
کہو بھائی!،،،،، نظام الملک نے اس سے پوچھا۔۔۔ کیا کرکے آئے ہو ۔
سب ٹھیک کر آیا ہوں۔۔۔ اس شخص نے جواب دیا۔۔۔ وہ بالکل ٹھنڈا ہوگیا ہے، میں نے اسے کہا ہے کہ آئندہ اس کے کھانے پینے کا انتظام میں کروں گا، اس نے بخوشی یہ صورت قبول کر لی ہے اس نے مجھ پر مکمل اعتماد کیا ہے۔
آفرین !،،،،،نظام الملک نے کہا،پھر وہ طبیب سے مخاطب ہوا۔۔۔ اب اسے وہ دوائی آسانی سے پلائی جا سکے گی، جو آپ اسے دینا چاہیں گے۔
نظام الملک نے اس آدمی کو باہر بھیج دیا۔
میں آپ کو خبردار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔۔۔ طبیب نے کہا۔۔۔دوائی تو میرے پاس تیار ہے، یہ میرا پہلا تجربہ ہو گا اس دوائی کا اثر یہ ہو گا کہ مزمل بے ہوش ہو جائے گا، یا یوں کہہ لیں کہ سو جائے گا، ایسا ہونا تو نہیں چاہیے لیکن میں ڈرتا ہوں کہ دوائی کی مقدار ایک آدھ قطرہ بھی زیادہ ہوگئی تو اس شخص کی موت واقع ہو سکتی ہے
نہیں میرے بزرگ!،،،،، شمونہ نے تڑپ کر کہا، اور طبیب کے دونوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر التجا کے لہجے میں بولی۔۔۔ ایسا نہ کہیں، جان لینی ہے تو میری لے لیں، موت واقع ہو تو میری ہو، مجھے کوئی طریقہ بتائیں اگر کہیں تو میں اس کی کال کوٹھری میں بند ہو جاتی ہوں ،شب و روز اس کے ساتھ رہوں گی اور مجھے امید ہے کہ اسے واپس اپنی اصلی ذہنی اور جذباتی حالت میں لے آؤں گی۔
شمونہ بیٹی !،،،،،نظام الملک نے کہا۔۔۔ ہم مزمل جیسے قیمتی آدمی کو زیادہ دیر تک ایسی حالت میں نہیں دیکھ سکتے ،میں بھی تمہاری طرح مزمل کو زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔
گھبراؤ نہیں لڑکی !،،،،طبیب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔میں نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ ضرور ہی مر جائے گا ،میں نے صرف اظہار کیا ہے ایک خطرے کا، ہمیں یہ خطرہ مول لینے دو، زیادہ تر کام تو تم نے کرنا ہے، اور یہ میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم نے کیا کرنا ہے۔
محترم طبیب!،،،،،، نظام الملک نے کہا۔۔۔ آپ دوائی دیں ،صرف یہ خیال رکھیں کہ اس کی مقدار کم رکھیں، میں نہیں سمجھتا کہ جڑی بوٹیوں سے بنائی ہوئی دوائی کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔
میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کے اس دوائی میں کیا کیا ڈالا گیا ہے۔۔۔ طبیب نے کہا۔۔۔ یہ نایاب جڑی بوٹیوں سے بنی ہے جو ہمارے علاقے میں شاید ہی کہیں نظر آئے، اس میں صحرائی سانپ کے زہر کا کشتہ بھی شامل ہے، اس میں کچھوے کی چربی بھی ایک خاص عمل سے گزار کر شامل کی گئی ہے، یہ تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ صحرائی سانپ ملنا کتنا دشوار ہے، صحرا کہاں ہے اور کون وہاں سانپ کی انتظار میں بیٹھا رہتا ہوگا، بہرحال میں نے یہ سانپ حاصل کیا اور اس کا زہر مار کر دوئی میں شامل کیا۔
طبیب نے شمونہ اور نظام الملک کو کچھ ہدایات دینی شروع کر دیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہو گیا قید خانے کی راہداریوں کی مشعلیں جلا دی گئیں، کچھ دیر بعد قیدیوں میں کھانا تقسیم ہونے لگا ۔
ایک سنتری نے مزمل آفندی کی کوٹھڑی کا دروازہ کھولا اور خود ایک طرف ہو گیا، کوٹھری میں وہ شخص داخل ہوا جو مزمل کو ٹھنڈا کر گیا تھا، اس نے کھانا اٹھا رکھا تھا، سالن اور روٹیوں کے علاوہ ایک پیالہ دودھ کا بھرا ہوا تھا ،مزمل یہ کھانا دیکھ کر حیران رہ گیا۔
تمہارے چہرے پر حیرت کیوں؟،،،، آدمی نے کہا۔۔۔ میں نے تمہیں کہا تھا کہ آئندہ تمہارے کھانے کا انتظام میں کیا کروں گا، تمہیں اب یہی کھانا ملا کرے گا ،میں نے تمہارے فرار کا انتظام کر لیا ہے، تمہیں دو یا تین دن انتظار کرنا پڑے گا، آرام سے کھانا کھاؤ اور یہ دودھ پی لو میں جا رہا ہوں۔
اس شخص نے یہ بات مزمل کے کان میں اتنی دھیمی آواز میں کہی تھی کہ سنتری کو سنائی نہیں دیتی تھی، کوٹھڑی کا دروازہ پھر بند ہوکر مقفل ہو گیا، سنتری اس راہداری میں جس میں مزمل آفندی کی کوٹھری تھی آہستہ آہستہ ٹہل رہا تھا، یہ اس کی اور اس جیسے سنتریوں کی ہر رات کی ڈیوٹی تھی، لیکن یہ سنتری جب مزمل کی کوٹھری کے آگے سے گزرتا تھا تو اس کے قدم رک جاتے اور مزمل کو وہ سلاخوں میں سے غور سے جھانکتا تھا، مزمل کھانا کھا رہا تھا سنتری دوسرے چکر پر آیا تو دیکھا کہ مزمل نے دودھ کا پیالہ منہ سے لگا رکھا تھا ۔
سنتری آگے نکل گیا اور کہیں رک گیا تھا، کچھ وقت گزار کر وہ پھر راہداری میں آیا اور حسب معمول مزمل کی کوٹھری کے سامنے آ کر بہت آہستہ ہو گیا ،اس نے دیکھا کہ پیالہ فرش پر پڑا تھا مزمل نے سارا دودھ پی لیا تھا اور وہ دیوار کے ساتھ بیٹھ لگائے بیٹھا تھا، اس کا سر ڈول رہا تھا اور آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ سنتری دو چار قدم آگے گیا اور رک گیا ،وہ پھر واپس آیا تو دیکھا کہ مزمل فرش پر پیٹھ کے بل پڑا تھا اور اس کے خراٹے سنائی دے رہے تھے ،سنتری دوڑ پڑا اور راہداری سے نکل گیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد وہی شخص آیا جو مزمل کا دوست بن کر اسے کھانا اور دودھ دے گیا تھا، سنتری اس کے ساتھ تھا اس کے اشارے پر سنتری نے دروازہ کھولا وہ شخص اندر گیا اور مزمل کے پاس بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا، اس نے مزمل کے سر پر ہاتھ رکھ کر ہلایا ۔
مزمل بیدار نہ ہوا۔
دوسری بار اس آدمی نے مزمل کے سر کو ذرا زور سے ہلایا پھر بھی مزمل کی آنکھ نہ کھلی ،وہ آدمی اٹھا اور سنتری کو یہ کہہ کر تیزی سے نکل گیا کہ کوٹھری کو مقفل کر دو۔
وہ آدمی دوڑتا ہوا راہداری سے نکلا ،دوڑتا ہوا ہی قید خانے سے نکلا باہر اس کا گھوڑا کھڑا تھا اس پر سوار ہو کر اس نے ایڑ لگا دی۔ قیدخانہ شہر سے ذرا دور ویران اور بنجر سے علاقے میں تھا۔
اس نے گھوڑا ملک شاہ کے دروازے پر جا روکا اور وہ کود کر گھوڑے سے اترا وہ دوڑتا ہوا اندر چلا گیا، دربان اور محافظ کھڑے تھے لیکن انہوں نے اسے نہ روکا ،وہ جانتے تھے کہ یہ شخص آئے تو اسے روکنا نہیں ۔
وہ ایک کمرے میں چلا گیا جہاں طبیب نجم مدنی، نظام الملک اور شمونہ موجود تھے۔
کیا خبر ہے ؟،،،،نظام الملک نے پوچھا۔
بڑی اچھی خبر ہے۔۔۔ اس آدمی نے جواب دیا۔۔ وہی اثر ہوا جو محترم طبیب نے بتایا تھا، وہ اتنی گہری نیند سو گیا ہے کہ میں نے اسے زور زور سے ہلایا اس کے سر کو جھنجوڑا لیکن اس کے پپوٹوں میں ذرا سی بھی حرکت نہیں ہوئی ۔
کیا وہ زندہ ہے؟،،،، شمونہ نے تڑپ کر پوچھا۔ ہاں وہ زندہ ہے۔۔۔ اس آدمی نے جواب دیا۔۔۔ کیا میں اتنا احمق نظر آتا ہوں کہ مجھے سوئے ہوئے اور مرے ہوئے آدمی میں فرق معلوم نہ ہو ۔
نظام الملک !،،،،طبیب نجم نے کہا ۔۔۔ اسے یہاں لے آؤ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کچھ دیر بعد مزمل آفندی کی کوٹھڑی کا دروازہ کھلا ایک چارپائی کوٹھری میں داخل ہوئی جس کے ساتھ چار آدمی تھے، چارپائی فرش پر رکھ کر ان آدمیوں نے فرش پر پڑے ہوئے مزمل کو اٹھایا اور چارپائی پر ڈال دیا، اسمیں بیداری کے کوئی آثار نہیں تھے ۔
ان آدمیوں نے چارپائی اٹھائی اور کوٹھری سے سے نکل گئے، پھر وہ قید خانے سے بھی نکل گئے۔
نظام الملک طبیب اور شمونہ بے تابی سے انتظار کر رہے تھے ،ان میں شمونہ بہت ہی بے چین اور بے تاب تھی ،اس کے حسین چہرے پر گھبراہٹ اور دل میں دعائیں تھیں وہ بار بار باہر دیکھتی تھی ۔
آخر وہ لوگ مزمل کو اٹھائے ہوئے آگئے اور چارپائی اسی کمرے میں لا رکھی، شمونہ نے لپک کر مزمل کی کلائی پکڑ لی اور اس کی نبض محسوس کی اس کے چہرے پر سکون اور اطمینان کا تاثر آگیا ،مزمل آفندی زندہ تھا۔
مزمل کو اٹھا کر پلنگ پر ڈال دیا گیا اور وہ آدمی چارپائی اٹھا کر کمرے سے نکل گئے۔ شمونہ !،،،،،طبیب نے مزمل کی نبض پر انگلیاں رکھے ہوئے کہا۔۔۔خطرہ ٹل گیا ہے نبض بالکل ٹھیک چل رہی ہے، اگر دوائی کا اثر وہ ہوتا جو میں نے بتایا تھا کہ ہو سکتا ہے تو مزمل کی نبض اس وقت تک خاموش ہو چکی ہوتی،،،،،، ہم چلے جائیں گے تم یہاں رہو گی، اور اگر تمہیں ساری رات جاگنا پڑا تو جاگتی رہنا ،میں نے تمہیں ساری بات بتا دی ہے اور اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ تم نے کیا کرنا ہے، دودھ وہ رکھا ہے یہ جاگ اٹھے تو پہلا کام یہ کرنا کے اسے یہ دودھ پلا دینا اور جو کچھ تم نے کرنا ہے وہ میں تمہیں بتا چکا ہوں ،یہ پھر سو جائے گا اسے زبردستی بیدار کرنے کی کوشش نہ کرنا ،تم خود بھی سو جانا یہ بہت دیر بعد کل دن کو کسی وقت جاگے گا ،آج رات کے پچھلے پہر اسے کچھ بیدار ہونا چاہیے۔
اور شمونہ !،،،،نظام الملک نے کہا۔۔۔ دروازے کے باہر چار آدمی ہر وقت موجود رہیں گے ،کوئی مشکل پیش آ جائے یا مزمل بیدار ہو کر پھر ہنگامہ برپا کرے یا بھاگنے کی کوشش کرے تو یہ آدمی اسے سنبھال لیں گے۔
اب یہ سوچ لو شمونہ !،،،،طبیب نجم نے کہا۔۔۔ اب تم پر منحصر ہے کہ اسے سنبھال لیتی ہو یا مزید بگاڑ دیتی ہو، تم خود عقل والی ہو اور مردوں کو لگام ڈالنا جانتی ہو، یہ تو پہلے ہی تمہاری محبت میں گرفتار ہے۔
شمونہ نے انہیں تسلی دی کہ وہ مزمل کو سنبھال لے گی، وہ دونوں کمرے سے نکل گئے اور شمونہ اسی پلنگ پر بیٹھ گئی جس پر مزمل پیٹھ کے بل پڑا دھیمے دھیمے خراٹے لے رہا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ کمرہ خاص طور پر مزمل آفندی کے لیے تیار کیا گیا تھا ،نظام الملک کے گھر کا کوئی کمرہ اسی طرح تیار کیا جا سکتا تھا لیکن طبیب نے وہ مناسب نہ سمجھا کیونکہ مزمل نظام الملک کی دشمنی لے کر آیا تھا ،خطرہ تھا کہ بیداری کے بعد اسے پتہ چلتا کہ وہ نظام الملک کے گھر میں ہے تو وہ پھر بے قابو ہو سکتا تھا ،نظام الملک نے سلطان ملک شاہ کو اس سارے واقعے سے باخبر رکھا ہوا تھا، طبیب نے سلطان سے کہا تھا کہ وہ اس کے محل کا ایک کمرہ استعمال کرنا چاہتا ہے۔ سلطان نے بخوشی اجازت دے دی تھی۔
اس کمرے کی زیب و زینت کا اہتمام طبیب نے اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق کیا تھا، بستر نہایت نرم ملائم اور آرام دہ تھا ،کمرے کے دروازوں اور کھڑکیوں پر خاص رنگ کے پردے لٹکائے گئے تھے، قالین بیش قیمت اور دلفریب تھا ،کمرے میں خاص قسم کے پھولوں والے پودے جو گملوں میں لگے ہوئے تھے رکھوائے گئے تھے، طبیب نے ایک خاص قسم کا عطر تیار کر رکھا تھا جو اس نے تھوڑا تھوڑا بستر پر اور پردوں پر مل دیا تھا۔
شمونہ کے لیے طبیب نے کچھ سوچ کر انتخاب کیا تھا کہ یہ کون سا لباس پہنے، اس نے کہا تھا کہ وہ بالوں کو باندھ کر نہ رکھے بلکہ بال کھلے چھوڑ دے، اسے قمیض ایسی پہنائی گئی تھی کہ اس کے کندھے اور بازو ننگے رکھے گئے تھے، طبیب نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو کس طرح استعمال کرے گی، طبیب نے زور دے کر کہا تھا کہ اپنے جسم کو بچا کر رکھے اور اپنی روح کو پیار اور محبت کے ذریعے مزمل کی روح پر غالب کر دے۔ شمونہ نے طبیب سے کہا تھا کہ وہ اس کھیل کی مہارت اور تجربہ رکھتی ہے، مزمل کے معاملے میں سہولت یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے تھے۔
شمونہ سوئے ہوئے مزمل کو دیکھتی رہی وہ اس کے بیدار ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔ کبھی وہ اٹھ کھڑی ہوتی اور کمرے میں ٹہلنے لگتی، کبھی وہ مزمل کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگتی ،اس کا انداز ایک ماں جیسا تھا جس کا بڑا ہی پیارا بچہ سویا ہوا ہو۔
رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تھی شمونہ کو غنودگی آنے لگی تھی، وہ سو ہی جانے کو تھی کہ مزمل کے جسم کو حرکت ہوئی، شمونہ بیدار ہوگئی اور مزمل کے پلنگ پر جا بیٹھی، مزمل نے کروٹ بدلی شمونہ کو معلوم تھا کہ اب اس نے کیا کرنا ہے۔
مزمل نے کروٹ اس طرح بدلی تھی کہ اس کا منہ شمونہ کی طرف تھا، شمونہ اس کے ساتھ لگ کر بیٹھی ہوئی تھی، مزمل کا ایک ہاتھ شمونہ کی گود میں آ گیا ،شمونہ وہ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے آہستہ آہستہ مسلنے لگی پھر اس نے مزمل کے بالوں میں انگلیاں پھیرنا شروع کر دیں ۔
مزمل کی آنکھیں آہستہ آہستہ کھلنے لگیں۔
مزمل !،،،،شمونہ نے اس پر جھک کر اپنے ہونٹ مزمل کے کان کے قریب کرکے کہا۔۔۔ تم میرے پاس آ گئے ہو ،اب کوئی ہمیں جدا نہیں کر سکتا ۔
مزمل کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں، اور وہ پیٹھ کے بل ہو گیا، شمونہ اس پر اس طرح جھک گئی کے اس کے ریشم جیسے کھلے بال مزمل کے گالوں اور گردن پر رینگنے لگے۔
میں کہاں ہوں ؟،،،،مزمل نے خواب ناک آواز میں پوچھا۔۔۔ تم کون ہو ؟
تم میرے پاس ہو ۔۔۔شمونہ نے پیار بھری آواز میں کہا ۔۔۔تم اس پیار کی جنت میں آگئے ہو جہاں کوئی کسی کا خون نہیں بہا سکتا، میں ہوں تمہاری روح ۔
میں قید خانے میں ہوں ؟،،،،،مزمل نے پوچھا جیسے نیند میں بول رہا ہو۔
ہاں تم میرے دل کے قید خانے میں بند ہو۔۔۔ شمونہ نے پہلے سے زیادہ پیاری آواز میں کہا۔۔۔ تم میری محبت کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہو۔
مزمل آفندی کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں، اس کے اور مزمل آفندی کے چہرے کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا، اس کا ایک ہاتھ اپنے آپ ہی شمونہ کے بالوں میں الجھ گیا ،شمونہ کے ہونٹوں پر تبسم تھا اس نے آنکھیں مزمل کی آنکھوں میں ڈال دیں، طبیب نے ہدایات دی تھی ان کے مطابق اس نے مزمل کے ساتھ باتیں کیں ،اس کا اثر یہ ہوا کہ مزمل ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا وہ کمرے کو دیکھنے لگا ،اس کی نظریں سارے کمرے میں گھوم گئیں۔
شمونہ !،،،،،مزمل نے دھیمی سی اور حیرت زدہ سی آواز میں پوچھا۔۔۔۔ تم کب آئیں؟،،،،، تم جھوٹ تو نہیں بولو گی،،،، میں کہاں سویا تھا؟،،،،، میں نے،،،،میں نے،،،، شمونہ!،،، میں نے شاید خواب دیکھا ہے۔۔۔ اس کے ماتھے پہ شکن ظاہر ہوئی جیسے وہ ذہن کے ویرانے میں کچھ ڈھونڈ رہا ہو، لیکن اسے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔
شمونہ نہیں چاہتی تھی کہ مزمل ایک بار پھر سو جائے ،وہ اسے بیدار رکھنا چاہتی تھی اور اسے واپس اسی ذہنی کیفیت میں لانا چاہ رہی تھی جس کیفیت میں وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا تھا، لیکن طبیب مدنی نے اسے کہا تھا کہ یہ جاگ اٹھے تو اس کے ساتھ ایک دو باتیں کرنا اور یہ تمہیں پہچان لے کہ تم شمونہ ہو اور اس کے بعد اسے پھر دودھ کا پیالہ دے دینا، شمونہ کو معلوم تھا کہ اس دودھ میں وہی دوائی شامل کی گئی ہے، لیکن اس کی مقدار اب کم رکھی گئی ہے۔
مزمل !،،،،شمونہ نے اسکے گالوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہا۔۔۔ تم بڑے لمبے اور بڑے کٹھن سفر سے واپس آئے ہو، میں تمہیں دودھ پلاؤ گی پھر سوجاؤ تھکن دور ہو جائے گی نا تو میں تمہارے پاس بیٹھوں گی اور پھر ہم پھر وہی پیار کی باتیں کریں گے۔
شمونہ اٹھی اور دودھ کا پیالہ اٹھا لائی ،مزمل اسے حیرت زدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ شمونہ نے پیالہ اپنے ہاتھوں میں ہی رکھا اور اس کے ہونٹوں سے لگا دیا، مزمل نے دو تین سانسوں میں دودھ پی لیا ،دودھ میں اتنا میٹھا ڈالا گیا تھا جس سے دوائی کا ذائقہ دب گیا تھا۔
مزمل پھر غنودگی میں چلا گیا ،شمونہ کو طبیب نے بتایا تھا کہ یہ پھر غنودگی میں جائے گا تو اس کے ساتھ کیا باتیں کرنی ہے، اور اس وقت تک یہ باتیں کرنی ہے جب تک یقین نہ ہو جائے کہ یہ سو گیا ہے۔
شمونہ نے اب جو پیار کی باتیں شروع کیں تو اس کے اپنے آنسو نکل آئے، پیار کی ان باتوں میں ایک انسان کی دوسرے انسان سے محبت کی بات نہیں تھیں، بلکہ بنی نوع انسان کی محبت ان باتوں میں رچی بسی ہوئی تھیں، طبیب کا در اصل مطلب یہ تھا کہ غنودگی کے عالم میں مزمل کے ذہن سے تخریب کاری اور قتل کے خیالات نکال کر اس میں پیار و محبت اور روحانیت کا نور بھرا جائے، شمونہ نے ایسے پر اثر طریقے سے یہ باتیں آہستہ آہستہ کیں کہ مزمل نے شمونہ کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ہونٹوں سے لگایا اور اس کے ساتھ ہی وہ گہری نیند سو گیا، شمونہ کو ایسی بری نیند آئی تھی کہ وہ بھی وہیں لڑھک گئی اور سو گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح طلوع ہوئی تو طبیب اور نظام الملک یہ دیکھنے آئے کہ رات کس طرح گزری ہے، نظام الملک نے دروازے پر دستک دی اور انتظار کرنے لگا، خاصی دیر گزر جانے کے بعد بھی اندر سے کوئی جواب نہ آیا نہ شمونہ باہر نکلی، تو اس نے ایک بار پھر دستک دی پھر بھی کوئی جواب نہ آیا تو نظام الملک نے دروازہ کھولا اور طبیب کو ساتھ لے کر وہ اندر چلا گیا دیکھا کہ شمونہ اس طرح گہری نیند سوئی ہوئی تھی کہ اس کا سر مزمل کے سینے پر تھا اور اس کی ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹک رہی تھیں، مزمل ہلکے ہلکے خراٹے لے رہا تھا ،طبیب نے وہ پیالہ دیکھا جس میں رات کو پلانے والا دودھ کا پیالہ خالی تھا۔
آئیے نظام الملک !،،،،،طبیب نے کہا۔۔۔ شمونہ نے اسے رات کو دودھ پلا دیا تھا پیالہ خالی پڑا ہے یہ دوپہر کے بعد جاگے گا ،شمونہ شاید جلدی جاگ اٹھے اس کی نیند بتاتی ہے کہ یہ رات بھر سو نہیں سکی ۔
دونوں کمرے سے نکل گئے
تین دن اور رات مسلسل مزمل کو یہ دوائی دودھ میں ملا کر پلائیں جاتی رہی، ہر بار دوائی کی مقدار کم کرتے چلے گئے ،وہ جب بیدار ہوتا تھا تو شمونہ اس کے ساتھ اس طرح کی باتیں کرتی تھیں جس طرح اسے طبیب نجم مدنی نے بتائی تھیں، اس وقت مزمل کا ذہن نیم بیدار ہوتا تھا اور شمونہ جس پیارے انداز میں بات کرتی تھی وہ اس کے ذہن میں اترتی چلی جاتی تھیں۔
یہ عمل طبیب کی نگرانی میں جاری رکھا گیا اور چوتھے دن اسے کوئی دوا نہ دی گئ، جب وہ بیدار ہوا تو طبیب نے اس کے پاس بیٹھ کر اس کی کنپٹییاں اپنے دونوں انگوٹھوں سے آہستہ آہستہ ملنی شروع کردیں اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ باتیں کیں، یہ ایک قسم کا وہ عمل تھا جسے آج ہپناٹزم کہتے ہیں، یہ برین واشنگ جیسا ہی ایک عمل تھا جو سات آٹھ روز چلتا رہا اور کامیاب رہا، مزمل خاصی تیزی سے اپنے آپ میں آ گیا، طبیب کو توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی اصلی ذہنی کیفیت میں آجائے گا، طبیب کی دوائی کا اپنا اثر تو تھا ہی خود طبیب نے کہا کہ اس دوائی کے اثر کو تیز اور کئی گناہ زیادہ کرنے میں شمونہ کا ہاتھ تھا، ایک روز نظام الملک مزمل کے سامنے آیا کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ مزمل کا رد عمل اور رویہ کیا ہوگا ،طبیب نجم بھی وہاں موجود تھا اور شمونہ بھی تھی، کمرے کے دروازے کے ساتھ ہی باہر نظام الملک کے محافظ تیار کھڑے تھے۔
مزمل آفندی نے نظام الملک کو دیکھا اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر تھا، نہایت آہستہ آہستہ اٹھا، نظام الملک بازو پھیلا کر اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے ہوئے اس کی طرف تیزی سے بڑھا۔
مزمل نے بھی بازو پھیلا دیے اور دوسرے لمحے وہ ایک دوسرے کے بازوؤں میں تھے۔
کیوں مزمل !،،،،نظام الملک نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بڑے پیار سے پوچھا ۔۔۔کہاں چلے گئے تھے؟،،،، میں تو سمجھا تھا کہ تم چلے ہی گئے ہو۔
یہ تو میں بتا نہیں سکتا ۔۔۔مزمل نے کہا۔۔ آپ کو دیکھ کر کچھ یاد آتا ہے، یہ بھی یاد آتا ہے کہ آپ نے مجھے جانے سے روکا تھا، اور میں پھر بھی چلا گیا تھا ۔
اور اب ۔۔۔نظام الملک نے بڑے پیارے لہجے میں پوچھا۔۔۔ اب تو نہیں جاؤ گے۔
نہیں ۔۔۔مزمل نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔۔نہیں جاؤں گا ،اب کہیں نہیں جاؤں گا۔
دو تین دن اور گزرے تو مزمل کو سب کچھ یاد آنے لگا ،اب ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ اس کی حالت پھر بگڑ جائے گی، اس پر ایک اور ہی قسم کی کیفیت طاری ہوگئی یہ پچھتاوے شرمندگی اور حسن بن صباح سے انتقام لینے والی کیفیت تھی، نظام الملک اور شمونہ نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور ایک دو دن صرف کرکے اسے اس کیفیت سے نکال لیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*