ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ الاعراف آیت نمبر 175
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ الَّذِیۡۤ اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانۡسَلَخَ مِنۡہَا فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ فَکَانَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ﴿۱۷۵﴾
ترجمہ: اور (اے رسول) ان کو اس شخص کا واقعہ پڑھ کر سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں مگر وہ ان کو بالکل چھوڑ نکلا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا۔ (٨٩)
تفسیر: 89: عام طور سے مفسرین نے اس آیت کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اس میں بلعام بن باعور کی طرف اشار ہے۔ فلسطین کے علاقے مو آب میں یہ ایک عابد و زاہد شخص تھا۔ اور اس کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اس وقت اس علاقے پر بت پرست قوموں کا قبضہ تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فوجیں مو آب کے دروازے تک پہنچ گئیں تو وہاں کے بادشاہ نے بلعام سے کہا کہ وہ ان کے خلاف بد دعا کرے تاکہ وہ ہلاک ہوجائیں۔ بلعام نے شروع میں انکار کیا۔ مگر بادشاہ نے اسے رشوت دی تو وہ بد دعا پر راضی ہوگیا۔ مگر جب دعا کرنی شروع کی تو الفاظ بد دعا کے بجائے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں دعا کے نکلے۔ بعد میں بلعام نے بادشاہ کے لوگوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنی عورتوں کو بنی اسرائیل کے خیموں میں بھیج دیں، تاکہ وہ بدکاری میں مبتلا ہوجائیں بدکاری کی یہ خاصیت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قہر کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے بنی اسرائیل اپنی بدکاری کی وجہ سے اللہ کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بنی اسرائیل اس فتنے میں مبتلا ہوگئے جس کی وجہ سے ان میں عذاب کے طور پر طاعون کی وبا پھوٹ پڑی۔ یہ قصہ بائبل میں بھی تفصیل کے ساتھ مذکور ہے (دیکھئے، گنتی، بان 22 تا 25، اور 16:31) قرآن کریم نے یہاں اس شخص کا نام نہیں لیا جس کی طرف ان آیات میں اشارہ ہے اور نہ یہ بیان فرمایا ہے کہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو چھوڑ کر کس طرح اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔ اور جو قصۃ اوپر بیان کیا گیا ہے، وہ بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول نہیں ہے۔ اس لیے یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان آیات میں وہی مراد ہے۔ تاہم قرآن کریم کا اصل مقصد اس شخص کی تعیین پر موقوف نہیں ہے۔ سبق یہ دینا مقصود ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے علم اور عبادت کے شرف سے نوازا ہو، اس کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ احتیاط اور تقویٰ سے کام لینا چاہیے۔ اگر ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی آیات کی خلاف ورزی کر کے ناجائز خواہشات کے پیچھے چل پڑے، تو اس کا انجام دنیا اور آخرت دونوں میں برابر ہوتا ہے۔