🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر دس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان ملک شاہ نے مرو میں اپنے سپہ سالار اور کوتوال کو بلا رکھا تھا ،اور باتیں یحییٰ ابن الہادی اور سنان کے متعلق ہو رہی تھیں۔
میں کہہ رہا ہوں بہت دن گزر گئے ہیں۔۔۔ ملک شاہ کہہ رہا تھا۔۔۔ بلکہ مہینے گزر گئے ہیں، شاید یہ تیسرا چاند طلوع ہوا ہے اس نے کوئی اطلاع نہیں دی اس کے ساتھ ایک اور آدمی گیا تھا۔
سنان !،،،،کوتوال نے کہا ۔۔۔یہ دونوں میرے قابل اعتماد آدمی ہیں ،زمین کے نیچے سے بھی راز نکال لاتے ہیں۔
یحییٰ کو چاہیے تھا کہ سنان کو ایک بار تو بھیج دیتا ۔۔۔سلطان ملک شاہ نے کہا۔۔۔ کہیں پکڑا نہ گیا ہو ۔
ایک اور آدمی کو بھیج دیتے ہیں۔۔۔ سپہ سالار نے کہا ۔۔۔وہ انہیں ڈھونڈ لے گا ۔
دو چار دن اور انتظار کر لو ۔۔۔ملک شاہ نے کہا۔
یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دربان نے اندر آ کر اطلاع دی کہ قلعہ شاہ در سے ایک آدمی آیا ہے۔
فوراً اندر بھیج دو ۔۔۔ملک شاہ نے کہا۔
ایک ادھیڑ عمر آدمی اندر آیا اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ لمبے سفر سے آیا ہے، ملک شاہ نے سلجوقی انداز سے میزبانی کے مطابق اسے بیٹھایا، دربان کو بلا کر اس کے لئے پھل اور مشروب منگوائے، پھر پوچھا کہ وہ کیوں آیا ہے؟
آپ کا ایک آدمی یحییٰ ابن الہادی شاہ در گیا تھا ۔۔۔اس نے کہا ۔۔۔وہ میرا دوست ہے اسے آپ نے سنان نام کے ایک آدمی کے ساتھ جاسوسی اور مخبری کے لیے بھیجا تھا ۔
اس کی کیا خبر لائے ہو ؟،،،،کوتوال نے بے تابی سے پوچھا ۔۔۔فوراً بولو۔
ٹھیک خبر لایا ہوں۔۔۔ اس نے کہا ۔۔۔اتنا پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں، اس نے اپنا کام بہت ہی محنت اور جانفشانی سے کیا ہے، وہ اور اس کا ساتھی میرے گھر میں ٹھہرے تھے ،میں نے یحییٰ کی بہت مدد اور رہنمائی کی تھی ۔
وہاں کی خبر کیا ہے؟،،،، ملک شاہ نے کہا ۔۔۔اس کے بعد ہم کوئی اور بات سنیں گے۔
خبر یہ ہے۔۔۔ اس نے کہا ۔۔۔آپ نے یحییٰ کو یہ دیکھنے کے لیے بھیجا تھا کہ والئی شاہ در احمد بن عطاش اسماعیلی ہے ،اور شاہ در اسماعیلیوں کا مرکز بن گیا ہے،،،،، سلطان عالی مقام !،،،آپ کا یہ شک صحیح نہیں، احمد بن عطاش اسماعیلیوں کو بالکل پسند نہیں کرتا۔
کیا یہ غلط ہے کہ اس نے شاہ در کا والی بنتے ہی ان تمام اسماعیلیوں کو رہا کردیا ہے جو اہل سنت کا جینا حرام کئے رکھتے تھے؟۔۔۔ ملک شاہ نے پوچھا۔۔۔ کیا مرحوم والی ذاکر نے انہیں اسی جرم میں قید میں نہیں ڈالا تھا؟
یہ صحیح ہے سلطان محترم!،،،، اس آدمی نے کہا ۔۔۔احمد بن عطاش نے قید خانے میں پڑے ہوئے تمام اسماعیلیوں کو رہا کردیا تھا ،لیکن اس نے ان سب سے کہا تھا کہ انہیں بے گناہ سمجھ کر رہا نہیں کیا جا رہا بلکہ انہیں موقع دیا جا رہا ہے کہ اپنے دلوں سے مذہبی تعصب نکال دیں، اور سنی عقیدے کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی کوشش کریں، دراصل احمد بن عطاش پیار اور بھائی چارے کا حربہ استعمال کر رہا ہے، اور اس حربے کے اثرات بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں، احمد عطاش نے اسماعیلیوں میں اپنے مخبر چھوڑے ہیں ان مخبروں کی اطلاع امید افزا ہیں۔
اور یہ جو قافلے لوٹے جا رہے ہیں ؟،،،،ملک شاہ نے پوچھا ۔۔۔کیا اس میں احمد بن عطاش کا ہاتھ نہیں؟
سلطان عالی مقام !،،،،،اس آدمی نے کہا۔۔۔ احمد بن عطاش عالم دین ہے ،یہ وہی احمد بن عطاش ہے جسے آپ عالم دین کی حیثیت سے ہی جانتے ہیں، قافلے شاہ در سے بہت دور لوٹے گئے ہیں، احمد بن عطاش کے خلاف یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ قافلوں کو احمد بن عطاش کے آدمی لوٹتے ہیں، ایسے تین اسماعیلی پکڑے گئے تھے، انہیں پہلے کوڑے مارے گئے پھر انہیں قید خانے میں ڈال دیا گیا تھا۔
یحییٰ کہاں ہے ؟،،،،سپہ سالار نے پوچھا ۔۔۔اس نے سنان کو کیوں نہیں بھیجا ،تمہیں کیوں بھیجا ہے؟ اگر شک رفع ہو گیا تھا تو وہ اتنا عرصہ شاہ در کیوں رہا ،اور واپس کیوں نہیں آیا؟
ہمیں شک تھا کہ احمد بن عطاش درپردہ اسماعیلیوں کی پشت پناہی کررہا ہوگا ۔۔۔اس آدمی نے کہا ۔۔۔یہ شک رفع کرنے کے لئے میں اور یحییٰ احمد بن عطاش کے اندرونی حلقوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے ،دو عورتوں کو ہاتھ میں لیا اور ان سے معلوم کروایا، اس کام میں بہت وقت لگا ،بہرحال ہمارا یہ شک بھی رفع ہو گیا،،،، یحییٰ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں آپ کو پوری اطلاع دے دوں ،میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے ،،،،،،،،،،،،سلطان محترم آپ کو شاہ درکی طرف سے مطمئن ہوجانا چاہیے، اگر احمد بن عطاش کی طرف سے آپ کے لئے کوئی خطرہ اٹھا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہاں اہلسنت کی اور آپ کے وفاداروں کی تعداد زیادہ ہے۔
ہم تو مطمئن ہوگئے۔۔۔ سلطان ملک شاہ نے کہا ۔۔۔لیکن یحییٰ نے سنان کو کیوں نہیں بھیجا؟،،، اگر اس کا کام ختم ہو گیا تھا تو وہ خود کیوں نہیں آیا"؟"
وہ خود ہی ایک اور کام کے پیچھے پڑ گیا ہے۔۔۔ اس آدمی نے جواب دیا ۔۔۔وہ کہتا تھا کہ اسے ایک ایک ایسا اشارہ ملا ہے جس کے پیچھے وہ گیا تو وہ ان ڈاکوؤں تک پہنچ جائے گا جنہوں نے پہلے قافلوں کو لوٹا ہے، اور شاید یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اب ایک اور قافلے کو لوٹ لیا، اور سب کو قتل کردیا ہے،،،،، سلطان عالی مقام !،،،،میں نے اسے روکا تھا لیکن اس نے میری ایک نہیں سنی، میں جانتا ہوں کہ وہ کتنے بڑے خطرے میں سنان کو ساتھ لے کر چلا گیا ہے، مجھے یہ بھی شک ہے کہ ایک جواں سال عورت بھی اس کے ساتھ گئی ہے، یحییٰ نے میرے ساتھ اس عورت کا ذکر نہیں کیا، اس سے مجھے شک ہو رہا ہے کہ وہ سیدھا کسی جال میں جا رہا ہے، میں حیران ہوں کہ اس عورت کو ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت تھی، چونکہ اس نے مجھ سے اس عورت کو چھپائے رکھا تھا اس لئے مجھے خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ کسی سازش کا شکار ہو جائے گا ۔
ایک بات بتاؤ ؟،،،،کوتوال نے پوچھا ۔۔۔یہ سازش احمد بن عطاش نے ہی نہ تیار کی ہو۔
نہیں ۔۔۔اس نے جواب دیا۔۔۔ یہ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ سازش ہی ہے تو احمد بن عطاش کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ،مجھے ایک شک اور بھی ہے، یحییٰ نے مجھ سے بالا بالا کوئی اور تعلق پیدا کرلیا تھا ،اگر ایسا ہی تھا تو اس سے صرف سنان واقف تھا۔
کیا تم بتا سکتے ہو وہ کہاں گیا ہے؟،،،، ملک شاہ نے پوچھا ۔
نہیں سلطان محترم!،،،، اس نے جواب دیا ۔۔۔اگر معلوم ہوتا تو میں چوری چھپے اس کے پیچھے چلا جاتا۔
تم یہ تو نہیں بتا سکتے کہ وہ کب تک واپس آئے گا ؟،،،،،ملک شاہ نے پوچھا۔
نہیں سلطان عالی مقام!،،،،، اس نے جواب دیا۔۔۔ ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ وہ زندہ و سلامت واپس آجائے۔
کیا اب مجھے جانے کی اجازت ہے؟،،، میں نے پیغام آپ تک پہنچانا تھا وہ پہنچا دیا ہے، آپ کہیں یا نہ کہیں میں شاہ در میں آپ کے جاسوس کی حیثیت سے کام کرتا رہوں گا ۔
ہاں تم جاسکتے ہو ۔۔۔سلطان نے کہا ۔۔۔اگر ہمارے لیے کام کرتے رہو گے تو ہم تمہیں اس کا پورا معاوضہ دیں گے۔
نہیں سلطان محترم !،،،،اس شخص نے کہا۔۔۔ میں یہ کام بلامعاوضہ کرونگا، اور اپنا فرض سمجھ کر کروں گا ۔
یہ آدمی چلا گیا۔
جس وقت شاہ در سے آیا ہوا یہ آدمی سلطان ملک شاہ کو یحییٰ ابن الھادی کا پیغام دے رہا تھا، اس وقت یحییٰ اور اس کے ساتھی سنان کی لاشوں کو دریا بہت دور لے گیا تھا، مچھلیوں نے بوری پھاڑ کر لاشوں کو کھانا شروع کر دیا ہوگا۔
اس شخص کو حسن بن صباح نے بھجوایا تھا، زریں نے خودکشی سے پہلے یحییٰ ابن الھادی کے متعلق بتا دیا تھا کہ وہ سلطان ملک شاہ کا جاسوس ہے، اور یہاں کیا معلوم کرنے آیا تھا۔ یحییٰ کو زہر دے کر مارا گیا تھا، لیکن حسن بن صباح کا خیال تھا کہ یہ خطرہ دونوں کو مار ڈالنے سے ختم نہیں ہوا۔
ہمیں ان دو جاسوسوں کا تو پتہ چل گیا اور ہم نے انہیں ختم کر دیا ہے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔مجھے شک ہے یہاں سلجوقیوں کے اور جاسوس اور مخبر بھی ہونگے، ان کا سراغ لگانا بہت ضروری ہے، اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنے مخبروں سے کہہ دیا جائے کہ شہر میں کسی اجنبی کو دیکھیں تو اسکا پیچھا کریں اور یقین کر لیں کہ وہ جاسوس نہیں، اور یہ دیکھیں کہ وہ کس کام کے لئے یہاں آیا ہے۔
میں سلجوقیوں کو گمراہ کر سکتا ہوں ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔ہم ایک آدمی کو مرو بھیجیں گے جو سلطان ملک شاہ کے پاس یحییٰ ابن الھادی کا پیغام لے کر جائے گا ،اس آدمی کو پیغام میں بتاؤں گا آدمی بڑا ہوشیار اور ذہین ہونا چاہیے۔
میں تمہیں ایک آدمی دوں گا ۔۔۔احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔تم یہ بتاؤ کہ پیغام کیا دوگے ؟
حسن بن صباح نے یہ سارا پیغام اس کو سنایا۔ زندہ باد !،،،،،احمد بن عطاش نے بے اختیار کہا۔۔۔ تم میں اتنی اہلیت ہے کہ نبوت کا دعوی کر سکتے ہو ،یہ بات میرے ذہن میں نہیں آئی تھی۔
نہیں استاد محترم!،،،، حسن بن صباح نے کہا تھا۔۔۔ پیرومرشد آپ ہی ہیں ،میں جو کچھ بھی ہوں وہ آپ کی شخصیت کا معمولی سا عکس ہوں، یہ پیغام میرے دماغ میں اس لیے آیا ہے کہ اس سے سلجوقیوں کو اطمینان ہوجائے گا کہ شاہ در میں سب ان کے وفادار ہیں اور یہاں سلجوقی سلطنت کے خلاف کوئی سازش یا کوئی گڑبڑ نہیں ہو رہی، ان دونوں جاسوسوں کی غیر حاضری کے متعلق سلطان ملک شاہ کو یہ شک نہیں ہوگا کہ انہیں غائب کر دیا گیا ہے، انہیں اس پیغام سے یقین ہوجائے گا کہ وہ آگے نکل گئے ہیں اور وہ شاہ در میں نہیں۔
احمد بن عطاش نے اسی وقت ایک آدمی کو بلا لیا تھا اور حسن بن صباح نے اسے یہ پیغام دے کر کہا تھا کہ وہ احمد بن عطاش کو سلطان ملک شاہ سمجھے اور یہ پیغام اسے دے، اس آدمی نے ویسے ہی کیا، حسن بن صباح نے کئی مقامات پر اس کی تصحیح کی اور اچھی طرح مشق کرائی، اور اسے یہ بھی بتایا کہ چہرے پر کس طرح کا تاثر رکھے اور اس کی آواز کا اتار اور چڑھاؤ کس طرح ہو۔
یہ ایک بڑا ھی ذہین اور ہوشیار آدمی تھا جو اس پیغام کی غرض وغایت سمجھ گیا اور ایک دو دفعہ بولنے سے حسن بن صباح کی تسلی ہو گئی، اور اس شخص کو اگلی صبح مرو کو روانہ کر دیا گیا تھا۔
ایک روز یہ آدمی سلطان ملک شاہ کو حسن بن صباح کا یاد کرایا ہوا پیغام دے کر واپس آ گیا۔ وہاں کیا تاثر چھوڑ آئے عابدین؟،،،،،، احمد بن عطاش نے پوچھا ۔
وہی جو آپ پیدا کرنا چاہتے تھے۔۔۔ عابدین نے کہا۔۔۔ اگر آپ وہاں ہوتے تو آپ بھی اس پیغام کو سچ مان لیتے ،میں انہیں یقین دلا آیا ہوں کہ اپنے جاسوس یحییٰ ابن الہادی اور اس کے ساتھی سنان کا انتظار نہ کریں، وہ مجھے یہ بتا گئے ہیں کہ انھیں ڈاکوؤں کا سراغ ملا ہے، اور وہ دیکھیں گے کہ وہ کون ہیں اور کتنے ہیں ،لیکن مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ ایک عورت کو ساتھ لے گئے ہیں میں نے سلطان ملک شاہ کو یہ بھی کہا ہے کہ وہ سیدھے کسی جال میں چلے گئے ہیں جہاں سے ان کی واپسی ممکن نظر نہیں آتی، اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں سلجوقی سلطنت کے لئے شاہ در میں جاسوسی کرتا رہوں گا،،،،،،، سلطان ملک شاہ کے پاس ایک سپہ سالار اور کوتوال بھی بیٹھے ہوئے تھے مجھے یقین ہے کہ ان دونوں نے بھی ہمارے پیغام کو سچ مان لیا ہے ۔
ہاں عابدین!،،،،،،،، حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔اگر وہ ہمارے جھوٹ کو سچ نہ مان لیتے تو تم اس وقت یہاں نہ ہوتے، مرو کے قیدخانے میں ہوتے، یا تمہارا یہ سر تمہارے جسم کے ساتھ نہ ہوتا۔
حسن بن صباح نے احمد بن عطاش کی طرف دیکھا، احمد اشارہ سمجھ گیا ،وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں گیا واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں سونے کے چند ایک سکے تھے جو اس نے عابدین کو دیے ،عابدین نے اٹھ کر اور جھک کر یہ انعام وصول کیا۔
اب تمہارے ذمے ایک کام اور ہے عابدین !،،،،،،احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔۔ اس شہر میں سلجوقیوں کے اور جاسوس بھی ہوسکتے ہیں انہیں تلاش کرو ، کوئی اجنبی یا مشکوک آدمی نظر آئے تو اس کے پیچھے اپنا ایک مخبر سائے کی طرح لگا دو، اپنے آدمیوں کو اچھی طرح سمجھا دو، میں اس کا کچھ اور انتظام بھی کروں گا۔
آپ اپنا انتظام کریں پیرومرشد !،،،،،،عابدین نے کہا۔۔۔ میرا اپنا انتظام ہے، میں ایسا جال بچھاؤں گا کہ اس میں سے کوئی مشکوک آدمی نکل کر نہیں جائے گا ،سلجوقیوں کے ان دو جاسوسوں نے مجھے چوکنا کر دیا ہے ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن بن صباح انسان سے ابلیس کس طرح بنا،،،،؟
اس سوال کا جواب تقریباً تمام مؤرخوں نے اور اس دور کے بعد آنے والے تاریخ نویسوں نے اپنی اپنی بساط اور اپنی اپنی تحقیق کے مطابق دیا ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ احمد بن عطاش اور حسن بن صباح شاہ در سے آگے جو قلعے تھے ان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا، اور اس علاقے میں اپنے عقیدے کی اور اپنے فرقے کے نظریات کی تبلیغ شروع کردی، اور لوگوں کو اپنا ہم خیال ہی نہیں بلکہ اپنا مرید بنا لیا۔
کیا یہ کام اتنا سہل تھا کہ دو چار باتیں کہیں اور سننے والے اپنے باپ دادا کے عقیدوں سے منحرف ہوگئے، اور نئے عقیدے اور ایک نئے ہی فرقے کے پیروکار بن گئے؟
داستان گو سے پوچھئے جو اس دور کے داستان گو کے حوالے سے بات کرے گا، مؤرخوں میں ابن اثیر کی "تاریخ کامل "کو پڑھ لیں، ابوالقاسم رفیق دلاوری کی "ائمہ تلبیس" ابن جوزی کی "تلبیس ابلیس" کی ورق گردانی کر لیں، "داستان مذاہب" کا ،اور ابن خلدون کی "تاریخ ابن خلدون" کا مطالعہ کرلیں سب نے ایک دوسرے کی تصدیق اور تائید کی ہے کہ حسن بن صباح نے اپنے فرقے کے عقائد اور نظریات کی تبلیغ کر کے لوگوں کو اپنا پیروکار بنا لیا تھا۔
لیکن کیسے؟
اللہ تبارک وتعالی نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم دکھانے کے لئے پیغمبر مبعوث کئے، لیکن لوگوں نے ان کے مذاق اڑائے، ان پر بھبتیاں کسیں، بعض کو ذلیل اور رسوا کیا، دھتکارہ ، اور پھر کچھ لوگ ان سے متاثر ہو گئے ۔
حضرت موسی علیہ السلام پر کیا کیا ظلم وستم نہ ہوئے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کو رومیوں نے شیروں کے آگے ڈال کر چیر پھڑوا دیا ، خاتم النبیین محبوب خدا رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بات سننے اور سمجھنے کی بجائے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے بنے، حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو کوڑے مار مار کر تپتی ریت پر تڑپایا گیا ،اللہ کے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی، اللہ کے عظیم دین کی مقبولیت کو کچھ وقت لگا تھا
پھر حسن بن صباح اتنی جلدی لوگوں کے دلوں میں کس طرح سما گیا؟
گزری ہوئی صدیوں کے کھنڈرات میں اس دور کے قصہ گو کی سرگوشیاں سنئے ، یہ تو سنایا جاچکا ہے کہ احمد بن عطاش حسن بن صباح کا استاد اور پیرومرشد اور عالم و فاضل تھا ،دانش مندوں کا دانشمند تھا، لیکن اس نے علم و فضل کو خیر کے بجائے شر کے لئے استعمال کیا، انسان کو نفس پر قابو پانے کے سبق دینے کی بجائے اسے نفس کا غلام بنایا، ابلیس سے بچنے کی بجائے اپنے آپ میں ابلیسی اوصاف پیدا کئے ۔
وحی کی آواز سنئے، اللہ تبارک وتعالی اپنے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے فرماتا ہے۔
*اَرَءَیتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنتَ تَکُونُ عَلَیہِ وَکِیلًا ﴿ۙ۴۳﴾اَم تَحسَبُ اَنَّ اَکثَرَہُم یَسمَعُونَ اَو یَعقِلُونَ ؕ اِن ہُم اِلَّا کَالاَنعَامِ بَل ہُم اَضَلُّ سَبِیلًا ﴿٪۴۴﴾*
"کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنی جی کی خواہش کو اپنا خدا بنالیا (اور اپنی خواہش نفس کو پوجنے لگا اسی کا مطیع ہو گیا وہ ہدایت کس طرح قبول کرے گا ۔) تو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لو گے (کہ خواہش پرستی سے روک دو)،یا یہ سمجھتے ہو کہ ان میں بہت کچھ سنتے یا سمجھتے ہیں (یعنی وہ اپنے شدت عناد سے نہ آپ کی بات سنتے ہیں نہ دلائل و براہین کو سمجھتے ہیں بہرے اور ناسمجھ بنے ہوئے ہیں ۔) وہ تو نہیں مگر جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ (کیونکہ چوپائے بھی اپنے رب کی تسبیح کرتے ہیں اور جو انہیں کھانے کو دے اس کے مطیع رہتے ہیں اور احسان کرنے والے کو پہچانتے ہیں اور تکلیف دینے والے سے گھبراتے ہیں ، نافع کی طلب کرتے ہیں ، مضر سے بچتے ہیں ، چراگاہوں کی راہیں جانتے ہیں ، یہ کفار ان سے بھی بدتر ہیں کہ نہ رب کی اطاعت کرتے ہیں نہ اس کے احسان کو پہچانتے ہیں ، نہ شیطان جیسے دشمن کی ضرر رسانی کو سمجھتے ہیں ، نہ ثواب جیسی عظیم المنفعت چیز کے طالب ہیں ، نہ عذاب جیسے سخت مضر مہلکہ سے بچتے ہیں ۔)"
الفرقان 44؛43
یہ تو اللہ کی آواز تھی کہ وہ لوگ انسان نہیں حیوان ہیں جو خواہشات کے پجاری ہوتے ہیں، لیکن حسن بن صباح نے انسان کو نہایت دلکش خواہشات دے کر حیوان بنایا، یہ سبق اسے اس کے استاد نے دیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اب بتاؤ حسن!،،،،،، عابدین کے جانے کے بعد احمد بن عطاش نے حسن بن صباح سے پوچھا، اس صورتحال میں ہمیں کیا پیش بندی یا تحفظ کرنا چاہیے۔
ہاں استاد محترم!،،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ ہمارے پاس کوئی فوج نہیں کہ ہم اپنا تحفظ کر سکیں، اگر آپ پسند کریں تو میں یہ کہوں گا کہ ہمیں اس علاقے پر چھا جانا چاہیے، تبلیغ کا سلسلہ صرف شروع ہی نہیں کرنا بلکہ اسے بہت تیز کرنا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ ہماری لڑکیوں میں ابھی جذبات زندہ ہیں انہیں تربیت کی ضرورت ہے، لیکن اس سے زیادہ ضروری تبلیغ ہے، ہم لوگوں کو زیر اثر لے کر ان کی فوج بنائیں گے۔
لوگوں سے کیا کہو گے؟،،،، احمد بن عطاش نے پوچھا۔
ہم ان کے سامنے اپنے عقیدے رکھیں گے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اور انہیں بتائیں گے کہ دوسرے تمام مذاہب اور ان کے نظریات باطل ہیں۔
پیغمبروں نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ ان کی کسی نے نہیں سنی تھی، ہمیں کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا جس سے لوگوں کے دلوں پر قبضہ کیا جاسکے۔
کیا آپ کے سامنے کوئی ایسا طریقہ ہے؟،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
ہاں حسن !،،،،،،احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ تم مجسم وہ طریقہ ہو جس میں وہ اوصاف موجود ہیں، جو کسی بھی انسان کو گرویدہ کر سکتے ہیں۔
ہاں استاد محترم !،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ مجھ میں کوئی ایسی طاقت ہے جو ہر انسان میں نہیں ہوتی، میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ میں سیدھے راستے پر چلنے والے لوگوں کو جس راستے پر ڈالنا چاہوں ڈال سکتا ہوں۔
ضرورت یہ ہے کہ تمہاری اس قوت کو ابھارا جائے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔دوسرے مذاہب نے انسان کو بدی سے ہٹنے کے سبق دیے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے کسی بھی مذہب کو یا کسی بھی عقیدے کو قبول کرنے میں بہت دیر لگائی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ بدی میں لذت ہوتی ہے، اور انسان میں خدا نے یہ کمزوری رکھ دی ہے کہ اسے لذت پرست اور عیش پسند بنا دیا ہے۔
لیکن استاد محترم !،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میرے استاد ابن عطاش نے مجھے بتایا تھا کہ انسان میں یہ کمزوری خدا نے نہیں بلکہ ابلیس نے پیدا کی ہے، اور انسان کی بد نصیبی یہ ہے کہ اس کی ذات نیکی اور بدی کی معرکہ آرائی کا میدان جنگ بنی رہتی ہے۔
یوں ہی صحیح !،،،،،احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں بدی کو ابھارا جائے ،انسانی فطرت کا یہ بنیادی اصول یاد رکھو حسن!،،، اسے تم انسان کی کمزوری بھی کہہ سکتے ہو، وہ یہ ہے کہ ہر انسان بہشت میں جانا چاہتا ہے لیکن مرنا کوئی بھی نہیں چاہتا ،ان کی ضرورت یہ ہے کہ انہیں دنیا میں ہی بہشت دکھا دی جائے ، پھر دیکھنا کہ یہ لوگ کس طرح تمہیں نبی اور پیغمبر مانتے ہیں۔
میں انہیں دنیا میں بہشت دکھا سکتا ہوں۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ یہ بہشت میرے خیالوں میں ہے جو میں سب کو دکھا دوں گا ،میں اگر انسانی فطرت کو غلط نہیں سمجھا تو میری رائے یہ ہے کہ انسان اسراریت کے پیچھے زیادہ بھاگتا ہے، ایک چیز اس کے سامنے رکھ دی جائے تو وہ اسے ذرا مشکل سے ہی قبول کرتا ہے، اگر اسی چیز کو پراسرار بنا دیا جائے تو انسان اس کی طرف لپکتا پردہ ہٹانے کی کوشش کرتا ہے، پردوں کے پیچھے جاتا اور جب یہ چیزیں اس کے سامنے آ جاتی ہیں تو وہ اسے گوہرِ نایاب سمجھ کر سینے سے لگا لیتا ہے، اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنا طریقہ استعمال کروں۔
ہاں حسن !،،،،،احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔اگر تم انسانی فطرت کی بنیادی کمزوریاں سمجھ گئے ہو تو اس میدان میں اترو ،میں اس شہر کا والی ہوں مجھ سے جو بھی اور جیسی بھی مدد مانگو گے وہ میں دونگا، تم کتنا ہی انتہائی اقدام کر گزرو مجھے اپنے ساتھ پاؤ گے، یہ یاد رکھو کہ انسان خدا کے حکم کو نظر انداز کرکے ابلیس کی بات مان لیتا ہے، یہ انسانی فطرت کی کمزوری ہے کہ وہ شجر ممنوعہ کو زیادہ پسند کرتا ہے، میں نے تمھیں سحر کی طاقت بھی دے دی ہے ،تم کسی بھی انسان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگو تو وہ آدمی مسحور ہو جائے گا۔ میں نے تمہیں علم نجوم بھی دیا ہے، تم ستاروں کی گردش اور چال دیکھ کر صحیح فیصلہ کر سکتے ہو کہ تمہارا اگلا قدم آگے بڑھنا چاہیے یا پیچھے ہٹنا چاہیے۔
دونوں نے مل کر ایک ایسا منصوبہ تیار کیا جس نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ،اور تاریخ پر لرزہ طاری ہو گیا، تاریخ نے اس کی ہر ایک تفصیل کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا، تاکہ رہتی دنیا تک انسان اپنی تاریخ کا یہ حیرت انگیز سنسنی خیز اور شرمناک باب پڑھتا رہے۔
مگر انسان نے آج تک عبرت حاصل نہیں کی، آج بھی انسان اسراریت اور بدی کی دلکشی کا رسیا ہے، وہ اپنے خیالوں میں حسن بن صباح کی جنت آباد کئے رکھتا ہے، اور اس کا زیادہ تر وقت اسی جنت میں گزرتا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قلعہ شاہ در سے آگے خلجان نام کا ایک اور قلعہ تھا اس وسیع وعریض خطے میں ایسے چند اور قلعے بھی تھے جس میں سب سے زیادہ مشہور قلعہ المُوت تھا ،جو کچھ عرصے بعد حسن بن صباح کا مرکز بنا ،اور یہیں اس نے اپنی جنت بنائی، جس کی تفصیلات تاریخ میں آج تک محفوظ ہیں۔
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کے منصوبے کی پہلی کڑی یہ تھی کہ ان تمام قلعوں پر قبضہ کیا جائے، ان کے پاس کوئی فوج تو تھی نہیں پھر بھی انہیں یقین تھا کہ وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائیں گے۔
قلعہ شاہ در سے بارہ چودہ کوس دور ایک بڑا خوبصورت کوہستانی خطہ تھا ،جس میں اونچی نیچی ٹیکریاں اور ان سے اونچی پہاڑیاں تھیں، یہ ایک سبزہ زار تھا جو قدرت کے ہاتھوں نے بڑی محنت اور بڑی محبت سے تیار کیا تھا اس میں ایسے درخت تھے جو کسی اور خطے میں نظر نہیں آتے تھے، بعض ٹیکریوں اور پہاڑیوں پر شاہ بلوط کے گھنے درخت تھے، شفاف پانی کی ندیاں بہتی تھیں، درختوں میں سے گزرتی ہوئی ہوا اور ندیوں کا جلترنگ یہاں سے گزرنے والوں پر سحر طاری کردیا کرتا تھا۔
کچھ دنوں سے اس علاقے میں رہنے والے لوگوں میں یہ خبر پھیل گئی تھی کہ رات کے وقت کبھی کبھی شاہ بلوط کے ایک درخت میں سے ایک ستارہ سا چمکتا ہے، جو بجھتا ہے اور کچھ دیر بعد پھر چمکتا ہے، یہ خبر شاہ در تک پہنچی اور پھر یہ اس تمام علاقے میں پھیل گئی۔
اس کی شہرت ایسی پھیلی کے لوگ دور دور سے آنے لگے، وہ اس ہرے بھرے جنگل میں اسی تارے کی چمک کے انتظار میں تین تین چار چار دن وہاں قیام کرتے، ستارہ چمکتا تو کسی پر خوف اور کسی پر تقدس کا تاثر طاری ہو جاتا ،کوئی کہتا کہ یہ کسی پیغمبر کے ظہور کی نشانی ہے، اور اکثر لوگ یہ کہتے تھے کہ اس خطے پر خدا کی نوازشیں اور رحمتیں نازل ہونگی، زیادہ تر کا خیال یہی تھا کہ یہ کوئی برا شگون نہیں۔
کچھ دن اور گزرے تو ستارے کی چمک سے پہلے نقارہ اور شہنائیاں بجتی اور پھر شاہ بلوط کی گھنی شاخوں میں سے ستارے کی چمک دکھائی دیتی۔
کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ آگے بڑھتا اور دیکھتا کہ یہ چمک کیسی ہے، دن کے وقت تو لوگوں نے اس درخت سے دور رہنا پسند کیا۔ بزرگوں اور دانشمندوں نے بھی لوگوں سے یہی کہا کہ ادھر نہ جانا کیونکہ یہ جنات بھی ہو سکتے ہیں ،اور یہ کوئی خدائی اشارہ بھی ہوسکتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جنات ناراض ہو کر اس سارے علاقے پر قہر نازل کریں، یا خدا ہی ناراض نہ ہو جائے۔
کچھ دن اور گزرے تو سبز ریشمی کپڑوں میں ملبوس آدمی لوگوں کے ہجوم میں نظر آنے لگے، ان کے ہاتھوں میں تسبیح تھی، اور ان کے ہونٹ یوں ہلتے تھے جیسے کچھ پڑھ رہے ہوں، لباس چال ڈھال اور انداز سے وہ عالم فاضل لگتے تھے، وہ جو کوئی بھی تھے ایک ایک کرکے لوگوں میں بکھر گئے۔
خدائے بزرگ و برتر نے اس علاقے کو باران رحمت سے نوازا ہے، ان میں سے ہر ایک آدمی یہی کہتا پھرتا تھا۔
خدا کی طرف سے کوئی برگزیدہ ہستی اس جگہ اتر رہی ہے۔
یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہو سکتے ہیں ۔
ہوسکتا ہے حضرت موسی علیہ السلام ہوں۔
یہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بھی ہوسکتے ہیں ۔
کوئی نبی یا پیغمبر نہ ہو تو خدا کا ایلچی ہوگا۔
راتوں کو جاگتے رہو ستارہ چمکے تو سجدے میں گر پڑو۔
چمک کی طرف دیکھتے نہ رہا کرو کہ یہ خدا کے مقدس ایلچی کی توہین ہوگی۔
اور اس قسم کی اور بھی بہت سی قیاس آرائیاں پیشنگوئیاں اور ہدایات تھیں جو سبز چغوں والوں کی زبانوں کا ورد بن گئی تھیں۔ لوگ ان کے گرد اکٹھے ہونے لگے، انہوں نے بڑی ہی پر اثر آواز میں وعظ شروع کردیئے، ان کا انداز ایسا تھا کہ ہر کوئی ان سے متاثر ہوجاتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک رات نقارہ اور اس کے ساتھ شہنائیاں بجیں تو لوگوں نے ادھر دیکھنا شروع کردیا ،جدھر ستارے کی چمک دکھانے والا شاہ بلوط کا درخت تھا ،رات تاریک تھی ،نقارہ اور شہنائیاں بجتی رہیں، لیکن ستارے کی چمک نظر نہ آئی۔
بلند آواز سے کلمہ طیبہ پڑھو۔۔۔سبز چغے والے ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا۔
وہاں اب ہزاروں انسانوں کا ہجوم تھا ،ان میں مسلمان زیادہ تھے، باقی عیسائی یہودی اور دوسرے عقیدوں کے لوگ تھے، مسلمانوں نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کردیا ،دوسروں نے اپنے اپنے مذہب کے مطابق کچھ پڑھنا شروع کردیا۔
سجدے میں گر پڑو۔۔۔ ایک آواز آئی۔
تمام لوگ سجدے میں چلے گئے، جو مسلمان نہیں تھے وہ بھی سر بسجدہ ہو گئے۔
اے خدائے ذوالجلال !،،،،،ایک بڑی ہی بلند آواز ابھری۔۔۔ یہ سب تیرے گنہگار اور عاجز بندے ہیں، ان کے گناہ بخش دے، اور ہمیں اپنی خدائی کا جلوہ دکھا دے، ہم سے اپنے نور کے نزول کا اتنا انتظار نہ کرا۔
پر اسرار رات خاموش ہوگئی، لوگ جو کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے تھے وہ اس آواز پر خاموش ہوگئے تھے ،ہر آدمی کا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا ۔
اٹھو اور دیکھو ۔۔۔ایک اور آواز ابھری۔
لوگوں نے شاہ بلوط کے درخت کی طرف دیکھا، وہاں ستارہ تو نہیں تھا، لیکن ایک روشنی آہستہ آہستہ اوپر سے نیچے آئی، جس میں درخت کی گھنی شاخوں کا کچھ حصہ نظر آتا تھا ،یہ روشنی زیادہ پھیلی ہوئی نہیں تھی، یہ تقریباً تین فٹ لمبی اور اتنی ہی چوڑی تھی، یہ پہلے درخت پر گھومتی پھرتی رہی پھر نیچے آئی، دور سے شاہ بلوط درخت یوں لگتا تھا جیسے بہت بڑی چھتری ہو۔
روشنی اس وسیع وعریض چھتری پر گھومتے گھومتے آہستہ آہستہ نیچے آئی، تو ایک انسان کا ہیولہ نظر آیا، جو سرسے پاؤں تک سفید کپڑوں میں ملبوس تھا ،کبھی تو یوں لگتا تھا جیسے یہ کفن میں لپٹی ہوئی لاش ہو ،روشنی اس کے سر سے پاؤں تک آئی اور پھر پاؤں سے سر تک چلی گئی، غور سے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس نے بڑا لمبا سفید چغہ پہن رکھا ہے اور اس کے سر پر دستار ہے ۔
اس نے اپنے بازو پھیلا دیے، تھوڑی دیر بعد روشنی بجھ گئی اور یہ آدمی غائب ہو گیا۔
لوگوں پر خوف و ہراس اور تقدس بھی طاری ہوا، اور وہ پہلے سے زیادہ بے تاب ہونے لگے کہ کوئی انہیں بتائے کہ یہ کون ہے، اور یہ سب کیا ہے، سبز چغوں والے آدمی رات ہی رات کہیں غائب ہو گئے، اگلی رات وہ پھر وہاں موجود تھے، لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور ان سے پوچھنے لگے کہ یہ سب کیا ہے؟ صرف ایک شخص ہے جو ہم سب کی رہنمائی کر سکتا ہے۔۔۔۔ چغوں والوں میں سے ایک نے کہا۔۔۔ لیکن اسے یہاں لانا مشکل ہے۔
ہمیں بتا وہ کون ہے؟،،، ایک آدمی نے پوچھا، اور اس نے کہا ۔۔۔وہ جہاں کہیں بھی ہوا ہم اسے لے آئیں گے، ہمیں جو بھی قیمت دینی پڑی ہم دیں گے۔
وہ قلعہ شاہ در کا والی ہے۔۔۔ ایک سبز پوش نے کہا۔۔۔ اس کا نام احمد بن عطاش ہے، اس کے پاس کوئی ایسا علم ہے جس کے زور پر وہ غیب میں چھپے ہوئے راز بھی بتا دیا کرتا ہے۔
ہمیں اس کے پاس لے چلو۔۔۔ لوگوں نے سبز پوشوں سے کہنا شروع کردیا ۔
لیکن ایک بات سوچ لو۔۔۔ ایک بزرگ سبز پوش نے انھیں کہا۔۔۔ وہ تمہیں سب کچھ بتا دے گا، لیکن تمہیں اس کی بات ماننی پڑے گی۔
وہ کیا بات منوائے گا ؟
وہ تم سے جان کی قربانی نہیں مانگے گا۔۔۔۔سبزپوش نے کہا ۔۔۔پہلے وہ دیکھے گا کہ جس ہستی کا ہیولہ نظر آیا ہے وہ کون تھا، اور کیا تھا، اور کیا وہ پھر بھی نظر آئے گا۔ اس کے بعد وہ بتائے گا کہ لوگوں کو کیا کرنا ہے ۔
ہم اس کے پاس جائیں گے۔۔۔ کئی ایک آواز اٹھیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس علاقے میں تھوڑے سے گھروں کی ایک بستی تھی، جن میں زیادہ تر گھر عیسائیوں کے تھے، اور دو یا تین گھر یہودیوں کے تھے، اس بستی کے لوگ بھی شاہ بلوط میں چمکنے والے ستارے کو دیکھنے جایا کرتے تھے، اور ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جو کئی دنوں سے وہیں جا بیٹھے تھے، جہاں سے شاہ بلوط کا وہ درخت نظر آتا تھا۔
یہودیوں میں ایک بوڑھا مذہبی پیشوا بھی تھا، اور عیسائیوں کا ایک بوڑھا پادری بھی تھا۔
ایک روز پادری یہودیوں کے ربی (مذہبی پیشوا) کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس ستارے کے معاملے میں وہ خاصا پریشان ہے۔
میں خود پریشان ہوں فادر!،،،،،، رَبّی نے کہا۔۔۔ یہ کوئی شعبدہ بازی ہے اور یہ لوگوں کے عقیدے خراب کرنے کے لئے تخریب کاری ہو رہی ہے، نبی اور پیغمبر اس طرح ظاہر نہیں ہوا کرتے، نہ ہی خدا عام بندوں کو یوں اپنا نور دکھایا کرتا ہے جس طرح ہم یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں، خدا نے اپنا جلوہ حضرت موسی علیہ السلام کو کوہ طور پر دکھایا تھا وہ بھی صرف ایک بار، اسے آپ بھی مانتے ہیں ہم بھی مانتے ہیں اور مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے۔
کچھ سوچیں محترم ربی!،،،، پادری نے کہا۔۔۔ مجھے شک ہے کہ یہ مسلمانوں کا ناٹک ہے، میرے خیال میں یہ ناٹک اس لئے کھیلا جارہا ہے کہ اسلام کی گرتی ہوئی عمارت کو سہارا دیا جاسکے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام میں کتنے فرقے پیدا ہوگئے ہیں۔
میں بڑے غور اور دلچسپی سے دیکھ رہا ہوں فادر !،،،،ربی نے کہا ۔۔۔میرا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک فرقہ اور پیدا ہو رہا ہے، اگر ایسا ہے تو ہم اپنے آدمی مسلمانوں کے روپ میں اس خطے میں داخل کریں گے تاکہ یہ نیا فرقہ پھلے پھولے اور اسلام مزید کمزور ہو، ہمارے آدمی مسلمان مولویوں اور خطیبوں کے بہروپ میں دور دراز آبادیوں میں بکھر جائیں گے، اور اس نئے فرقے کی حمایت میں قرآن اور احادیث کے حوالے دے دے کر مسجدوں میں وعظ کرتے پھریں گے، لیکن یہ معلوم کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ یہ کیسی شعبدہ بازی ہو رہی ہے۔
یہ پراسرار سلسلہ مسلمانوں کا ہی معلوم ہوتا ہے ۔۔۔پادری نے کہا۔۔۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جس رات روشنی میں ایک سفید پوش آگے دکھایا گیا اس رات سبز چغوں میں ملبوس کچھ آدمیوں نے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ کلمہ پڑھیں اور سجدہ ریز ہو جائیں ،یہ کلمہ مسلمانوں کا ہے اور سجدے بھی مسلمان ہیں کیا کرتے ہیں،،،،،، لوگ پسماندہ ہیں اس لیے وہ شعبدہ بازی کو بھی خدا کا معجزہ سمجھ لیتے ہیں، اگر مسلمانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے تو یہ ہمارا مسئلہ نہیں، بلکہ ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے، ہمیں اپنی قوم کا خیال رکھنا چاہیے کہ انہیں کوئی گمراہ نہ کرے۔
لیکن کیا کیا جائے؟،،،، پادری نے کہا ۔۔۔میں ایک دو عقل اور جرات والے جوان دے سکتا ہوں، جو دن یا رات کے وقت پہاڑیوں کے اندر جاکر دیکھ لیں گے کہ یہ روشنی مصنوعی دکھائی جا رہی ہے یا یہ کوئی مافوق الفطرت روشنی ہے۔
میں نے ستارے کی چمک خود جا کے دیکھی ہے ۔۔۔ربی نے کہا ۔۔۔وہ چراغ کی یا مشعل کی روشنی نہیں، روشنی سفید ہوتی ہے جو چمکتی ہے اور یکلخت بجھ جاتی ہے، اگر مشعل ہو تو صاف پتہ چل جائے کہ یہ شعلہ ہے ادھر سے آیا ہے اور ادھر چلا گیا ،شاہ بلوط کی چمک میں شعلہ نہیں ہوتا،،،،،، آپ صرف ایک آدمی تیار کریں اور ایک آدمی میں تیار کر لونگا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اسلام کا خاتمہ اور اس کے لیے ہر وقت مصروف عمل رہنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے، میں آپ کے آدمی کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا میں اپنے آدمی کے متعلق بتا سکتا ہوں کہ میرے حکم پر جان قربان کر دے گا۔
پھر ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ پادری نے کہا۔
آج رات اپنے آدمی کو ساتھ لے کر میرے پاس آ جائیں ۔۔۔ربی نے کہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*