🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسمٰعیل اور بلقیس دونوں پہاڑ سے اتر کر نہایت خوش ہوئے-
اسمٰعیل نے مغرب کی نماز پڑھ کر بلقیس سے کہا-"
نہیں کہا جا سکتا کہ ہم پہاڑ کے کس طرف اتر آئے ہیں-"
بلقیس : میری سمجھ میں بھی نہیں آیا! !!!!!
اسمٰعیل : کیا تم اس نواح سے واقف نہیں ہو؟ "
بلقیس : بالکل بھی نہیں
اسمٰعیل : جب تو ہمیں اسی جگہ پر رات بسر کرنی چاہیے-
بلقیس : اور اب ہم رات کو جا بهی کہاں سکتے ہیں؟
اسمٰعیل : لیکن یہاں کهانے کا کیا بند و بست ہو گا؟ "
بلقیس نے شوخی سے مسکرا کر کہا-"
بہت بھوک لگ رہی ہے آپ کو؟ "
اسمٰعیل نے اس کے رخ روشن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا -
مجھے؟ ؟میں ایک عرب ہوں اور ایک ہفتے تک بھوکا پیاسا رہ سکتا ہوں-"
بلقیس : مگر کهانے کی فکر________!
اسمٰعیل : تمہاری وجہ سے ہے!
بلقیس بے اختیار ہنس پڑی-
اس نے کہا آپ میری فکر بالکل نہ کریں-"
اسمٰعیل : تم کس قدر حسین ہو جب تم ہنستی ہو تو تمہارا چہرہ بے حد حسین ہو جاتا ہے -
بلقیس کے مسیحا صفت لبوں پر تبسم کھیل رہا تھا -
اس نے کہا خوب باتیں بانی آتی ہیں آپ کو-"
اسمٰعیل : میں نے کیا باتیں بنائیں،؟
بلقیس : بھوک کا ذکر کرتے کرتے یہ کیا تذکرہ لے بیٹھے؟
اسمٰعیل : بلقیس اللہ کی قسم میں یہ چاہتا ہوں کہ دنیا بھر کی راحت و سکون تمہیں مہیا کروں_______نہیں جانتا کہ میری یہ خواہش کیوں اور کس وجہ سے ہے-
بلقیس نے اسمٰعیل کی طرف دیکھا وہ محبت بهری نظروں سے اس سیم و تن کو دیکھ رہے تھے وہ شرما گئی-
اس نے اپنا سر جھکا لیا اسمٰعیل نے دریافت کیا-
تمہاری کہاں جانے کی تمنا ہے بلقیس؟ "
بلقیس نے سر جھکائے ہوئے کہا-"
جہاں آپ لے جائیں اسمٰعیل نے محبت اور حیرت بهری نظروں سے دیکھ کر کہا -
جی میں لے چلوں______؟"
بلقیس نے شرمیلی نظروں سے دیکھ کر خفیف تبسم کے ساتھ کہا -
جی ہاں! جناب جہاں آپ لے جائیں! !!!
اسمٰعیل : میں تو یہ چاہتا تھا کہ اس بہشت زار پہاڑ پر تمہارے رہتا-
بلقیس : پھر کیوں اتر آئے وہاں سے؟
اسمٰعیل : محض اس وجہ سے کہ میں جہاد کرنے آیا ہوں اور جب تک جنگ کا فیصلہ نہ ہو جائے اس وقت تک آرام نہیں کر سکتا! !!!
بلقیس؛: کیا آپ میدان جنگ میں جائیں گے؟
اسمٰعیل : ہاں! !!
بلقیس:اور میں؟
اسمٰعیل : اگر تم پسند کرو تو اسلامی لشکر میں میرے ساتھ رہتا! !
بلقیس:مگر میں چاہتی ہوں کہ آپ لڑنے نہ جائیں
اسمٰعیل : یہ کیسے ممکن ہے؟
بلقیس : کیوں ممکن نہیں ہے؟ "
اسمٰعیل : اس لیے کہ اللہ ناخوش ہو جائے گا
بلقیس:تب میں منع نہیں کر سکتی.
اسمٰعیل : رات زیادہ ہوتی جا رہی ہے تمہارے لیے آرام کرنے کا کچھ بندوبست کر دوں گا بلقیس نے مسکرا کر کہا کہ میرے ہی لئے یا اپنے لیے بھی؟ "
اسمٰعیل : مجھے اپنے لیے کیا کرنا ہے میں تو سنگلاخ زمین پر بهی آرام سے سو سکتا ہوں.
بلقیس: اور میں
اسمٰعیل : تم نازک ہو تمہیں تو پھولوں پر بھی مشکل نیند آئے گی.
بلقیس: مگر میں بھی پتهروں پر سو چکی ہوں اس لئے اب مجھے بھی عادت ہو گئی ہے.
اسمٰعیل : خیر کچھ نہ کچھ کرتے ہیں______مگر میرا دل_____
بلقیس: مگر آپ کا دل_____؟:
اسمٰعیل : شرارت سے تمہاری خدمت کرنے کو کرتا ہے.
بلقیس:میری خدمت کو؟ بس معاف کیجئے میں تو خود آپ کی خدمت کرنا چاہتی ہوں یہ کہتے ہوئے وہ شرما گئی اسمٰعیل نے محبت بهری نظروں سے اس کی طرف دیکها اور سوچا میری خدمت کرنے کو کتنا خوبصورت خواب ہے.
بلقیس: خواب نہیں حقیقت!
اسمٰعیل : جب تو میں نہایت خوش قسمت انسان ہوں بلقیس سر جھکائے بیٹھی رہی اسمٰعیل اٹھے اور چشمہ سے زرا فاصلے پر گئے.
انہوں نے ایک نشیب میں نہایت ملائم چھوٹی چھوٹی گھاس دیکهی.
انہوں نے وہاں رات بسر کرنا پسند کیا اور بلقیس کو وہاں لے آئے.
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ عشاء کی نماز پڑھ کر سو گئے صبح ہوتے ہی اسمٰعیل بیدار ہو کر وضو کر کے فجر کی نماز پڑھنے لگے-
انہوں نے قرآت سے قرآن پاک کی تلاوت شروع کی بلقیس بهی اٹهہ بیٹھی تھی وہ سننے لگی اسمٰعیل پڑھ رہے تھے -
ترجمہ: اے پیارے رسول اللہ ﷺ ہم نے تم سے پہلے جو پیغمبر بھیجے ہیں ان میں سے بعض کا حال تمہیں بتایا ہے اور بعض کا نہیں بتایا اور اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے باتیں کیں اور اے پیارے رسول اللہ ﷺ ہم نے پیغمبر خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے ہیں، تا کہ پیغمبر آنے کے بعد لوگ اللہ پاک پر الزام نہ رکهہ سکیں اور اللہ غالب حکمت والا ہے، لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ قرآن شریف جو تم پر اتارا ہے وہ اللہ نے اپنے علم سے اتارا ہے اور فرشتے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں اور کافی ہیں اور کافی ہے اللہ گواہی دینے والا-"
بلقیس نہایت غور اور توجہ سے سن رہی تھی - جب وہ نماز پڑھ چکے تب بلقیس ان کے پاس آئی اور اس نے دریافت کیا کیا آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر مانتے ہیں؟ "
اسمٰعیل : ہاں! !!
بلقیس:پھر یہودی کیوں نہیں ہو جاتے.
اسمٰعیل : اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو تورات لائے تھے بنی اسرائیل کے علماء نے اس میں بہت کچھ گھٹا بڑھا دیا ہے اسی وجہ سے ان کے بعد حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ نے انجیل دے کر بهیجا لیکن عیسائیوں نے بھی ایسا ہی کیا جیسا کہ موسائیوں نے کیا تھا تب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر بنا کر بھیجے گئے اور اب جو شریعت رسول اللہ ﷺ لائے ہیں وہی جاری رہے گی.
بلقیس : آج میرے دل پر اس چیز کے پڑهنے کا بڑا اثر ہوا ہے - ا
اسمٰعیل : یہ اللہ کا کلام ہے قرآن مجید کاش تم مسلمان ہو جاو.
بلقیس:مجھے سوچنے کا موقع دیجئے-
اسمٰعیل : ضرور سوچنا چاہیے-
بلقیس : بے شک اچھا اب یہاں سے چلیں!
اسمٰعیل : میں خود بھی یہی سوچ رہا ہوں مگر ابھی تک میں نے یہ طے نہیں کیا کہ چلوں کس طرف؟ میں اس ملک کے جغرافیہ سے واقف نہیں ہوں-
بلقیس : اور میں بھی
اسمٰعیل : میرا خیال ہے لشکر دارالسلطنت کی طرف گیا ہو گا اور طلیطلہ جو دارالسلطنت ہے وہ شمال کی طرف بتایا جاتا ہے ہمیں بھی شمال کی طرف چلنا چاہیے.
بلقیس: یہ تو میں نہیں کہہ سکتی کہ کس طرف چلنا چاہیے لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ یہاں سے چلنا چاہیے.
اسمٰعیل : اچھا آو
دونوں اٹهہ کر شمال کی جانب روانہ ہوئے وہ سارا دن دم لے لے کر چلتے رہے رات کو ٹهہر گئے اور صبح ہوتے ہی پهر چل پڑے-
وہ دن بھر چلتے رہتے اور رات کو ٹهہر جاتے راستے میں اگر کوئی جنگلی پهل مل جاتا تو توڑ کر کها لیتے اگرچہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کس طرف جا رہے ہیں لیکن قسمت انہیں قرطبہ کی طرف لے جا رہی تھی.
کئی دن چل کر وہ ایک ایسے جنگل میں پہنچ گئے جہاں درخت کثرت سے کھڑے تھے
رات انہوں نے آرام کیا اور صبح ہوتے ہی پهر چل پڑے.
بلقیس نے کہا میں بہت تهک چکی ہوں اور اب مجھ سے ایک میل بھی نہیں چلا جائے گا-"
یہ دونوں پیدل سفر کر رہے تھے بلقیس دهان پان سی تھی متواتر چلنے کی وجہ سے مزید چلنے کی طاقت نہ رہی اسمٰعیل نے کہا-"
مجھے خود تمہاری تکلیف کا احساس ہے لیکن کیا کروں آبادیاں ویران پڑی ہیں کہیں سے بھی کوئی سواری کا انتظام ہو سکتا اور اگر تم کو گود میں اٹھا کر لے چلوں تو شاید تم اسے پسند نہیں کروں گی
بلقیس:ہاں میں اسے مناسب نہیں سمجھتی.
اسمٰعیل : اچھا اس جنگل سے تو باہر نکلو اللہ شاید کوئی سبیل نکال دے
بلقیس:چلئے میں کوشش کرتی ہوں
دونوں اٹھے اور چلے دور تک درختوں کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا -
جب وہ اس تاریک جنگل سے باہر نکلے تو انہوں نے ایک عیسائی کو ایک گھوڑے پر سوار دیکها.
اسمٰعیل نے بلقیس کو اشارہ سے خاموش اور ایک جگہ پر رہنے کا حکم دیا اور خود پنجوں کے بل چلتے ہوئے تیزی سے سوار کی طرف دوڑے -
سوار معمولی دمکی گھوڑے کو لے جا رہا تھا -
اسمٰعیل نے دوڑ کر گھوڑے کی دم پکڑ لی اور اسے کھینچ کر کھڑے ہو گیے
گهوڑا رک گیا سوار کو معلوم نہ تھا کہ گهوڑا کیوں کهڑا ہو گیا -
اس نے مہمیز لگائی مگر گهوڑا نہ چلا.
اب سوار نے گھوم کر پیچھے دیکها جب اس کی نظر اسمٰعیل پر پڑی اور انہیں دم پکڑے دیکھا تو سخت بد حواس ہو کر گھوڑے سے کودا اور بے تحاشا پیدل بھاگ کهڑا ہوا-
اس کے گھبرانے اور اتر کر بھاگنے سے اسمٰعیل کو ہنسی آ گئی.
انہوں نے گھوڑے کی باگ پکڑی اور اسے بلقیس کے پاس لے آئے-
بلقیس ہنسنے جا رہی تھی اور ہنستے ہوئے دوہری ہوئی جا رہی تھی - ہنسی روکتی تهی مگر نہ رکتی تهی -
اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور آنکهیں چمکنے لگیں تھیں اسمٰعیل نے کہا -
آج اس قدر ہنسی کیوں آ رہی ہے تم کو؟ "
بلقیس نے رک رک کر کہا کہ اس عیسائی نے تمہیں خدا جانے کیا سمجھا کہ گھوڑے سے اتر کر بھاگ کهڑا ہوا.
اسمٰعیل : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو فتوحات نصیب ہو رہی ہیں اور عیسائیوں پر ان کی ہیبت طاری ہو گئی ہے اس لیے وہ مجھے دیکھتے ہی ڈر گیا اور بےتحاشا بھاگا.
بلقیس : مگر آپ نے بھی تو کمال کر دیا کہ گھوڑے کی دم پکڑ کر کھڑے ہو گئے -
اسمٰعیل : اور کیا کرتا اگر باگ پکڑنے کی کوشش کرتا تو وہ گهوڑا بھگا کر لے جاتا یا حملہ کر دیتا.
بلقیس : تدبیر خوب کی آپ نے.
اسمٰعیل : تمہاری اس ہمت افزائی کا شکریہ آو اب تم اس گھوڑے پر سوار ہو جاو
بلقیس:اور آپ؟ "
اسمٰعیل : میں تمہارے جلو میں چلوں گا! !
بلقیس : مگر یہ بات بھی نا مناسب ہے کہ میں سوار ہو کر چلوں اور آپ پیدل.
اسمٰعیل : میں مرد ہوں اور پیدل چل سکتا ہوں تم میری فکر نہ کرو.
بلقیس : کیا ہم دونوں سوار نہیں ہو سکتے؟ "
اسمٰعیل : ہو سکتے ہیں مگر جب میں تهک جاوں گا تو سوار ہو جاوں گا
بلقیس:اچھا تو مجھے سوار کرا دیجئے! !!
اسمٰعیل نے سہارا دے کر بلقیس کو گھوڑے پر سوار کرایا اور آہستہ آہستہ چل پڑے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔