Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا


 غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا 

آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا 

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا 
بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا 

اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو 
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا 

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے 
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا 

میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے ان کا 
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا 

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام 
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا 

شاعر: اکبر الہ آبادی

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.