⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 56👇


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➏➎】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان چاروں کی شجاعت اور میدان جنگ میں قیادت کی مہارت کی تعریف کی تھی، لیکن تاریخ لکھنے والے ایک غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے اس غلط فہمی کی تفصیل بھی پہلے بیان ہو چکی ہے، زبیر بن العّوام کی بہادری تو معجزہ نما تھی۔
ہم آج کے دور میں امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا پیغام بنام سپہ سالار عمرو بن عاص پڑھتے ہیں تو ہمارے تصور میں عمرو بن عاص کا یہ رد عمل آتا ہے کہ انہوں نے کہا ہوگا کہ مدینہ میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں یہاں آکر دیکھیں گے ہم لوگ کیسی مشکلات میں گرفتار ہیں، اور ہم سے ناممکن کو ممکن بنانے کی توقع رکھی جارہی ہے۔ لیکن عمرو بن عاص نے کسی ایسے ناروا ردعمل کا اظہار نہ کیا، وہ خود محسوس کر رہے تھے کہ اسکندریہ پر زیادہ وقت صرف ہو رہا ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں ہو رہا ،وہ امیر المومنین کی بے تابی کو اور ان کے شکوک و شبہات کو اچھی طرح سمجھتے تھے، انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ پیغام پڑھا اور پہلا کام یہ کیا کہ امیر المومنین کے نام ایک پیغام لکھوا کر اسی قاصد کو دے کر رخصت کردیا۔ اس پیغام کے الفاظ تاریخ کے صفحات پر نہیں ملتے سوائے اس کے کہ عمرو بن عاص نے امیر المومنین کو مطمئن کیا کہ لشکر کا جذبہ مجروح ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ پختہ اور غضب ناک ہوگیا ہے ،اور ہر مجاہد اسکندریہ کی فتح کے لیے بے تاب ہے۔
تاریخ کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا پیغام عمرو بن عاص کے پاس دن کے پچھلے پہر پہنچا تھا ،عمرو بن عاص نے اسی وقت تمام لشکر کو اکٹھا کیا اور امیرالمومنین کا پیغام بلند آواز میں پڑھ کر سنایا۔ پھر لشکر سے کہا کہ سب وضو کرکے فوراً واپس آئیں۔ مجاہدین گئے وضو کیا اور واپس آ گئے ۔
عمرو بن عاص نے دو رکعت نفل باجماعت پڑھائے اور اس کے بعد فتح کی دعا مانگی گئی، تاریخ میں آیا ہے کہ دعا کے دوران عمرو بن عاص کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے، دعا کے بعد انہوں نے لشکر سے کہا کہ اسکندریہ پر یلغار کی جائے، مجاہدین نے نعروں سے سپہ سالار کے اس عہد اور عزم پر لبیک کہی۔
ابن عبدالحکم اپنے والد عبداللہ بن عبدالحکم سے روایت کرتے ہیں کہ دعا کے بعد لشکر منتشر ہو گیا اور عمرو بن عاص سالاروں کو اپنے خیمے میں لے گئے، بغیر کسی تمہید اور تعارف کے اسکندریہ پر یلغار کا پلان تیار ہونے لگا، یہ واقعی ایک ناممکن مہم تھی جسے ممکن بنانا تھا، عمرو بن عاص اور ان کے سالار جذبات کے زور پر نہیں سوچا کرتے تھے بلکہ حقائق اور دشواریوں کو سامنے رکھ کر پلان بناتے اور جذبے اور جوش و خروش سے اس پر عمل کرتے تھے، انہوں نے ہر پہلو پر غور کیا تو سوائے دشواری اور ناکامی کے کچھ نظر نہ آیا۔ عمرو بن عاص یوں زمین پر پیٹ کے بل لیٹ گئے جیسے تھک ہار گئے ہوں معلوم نہیں انکے اس طرح لیٹ جانے سے سالاروں پر کیا اثر ہوا ہوگا۔
ہوا یوں کے عمرو بن عاص فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور پرجوش لہجے میں بولے میں نے غور کر لیا ہے اور اس فیصلے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے انجام کو وہی سنوارے گا جس نے آغاز کو سنوارا ہے ،،،،،،،،،ظاہر ہے ان کا اشارہ اللہ تبارک وتعالی کی طرف تھا۔
ایک سالار عبادہ بن صامت بھی وہیں تھے عمرو بن عاص نے انھیں کہا کہ اسکندریہ پر یلغار کے وقت علم ان کے ہاتھ میں ہوگا ،ایک روایت یہ بھی ہے کہ عمرو بن عاص نے علم مسلمہ بن مخلد کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن مسلمہ بن مخلد نے کہا کہ اتنے بڑے اعجاز کے حقدار عبادہ بن صامت ہیں، چنانچہ عمرو بن عاص نے علم عبادہ بن صامت کے حوالے کیا۔
یہ واضح رہے کہ میدان جنگ میں علم برادر کو اپنی جان پر کھیل کر علم بلند رکھنا پڑتا تھا۔ دشمن علم کو گرانے کے لئے حملے پر حملے کرتا تھا علم کو بلند اور لہراتا رکھنے کے لئے کئی مجاہدین شہید ہو جایا کرتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسکندریہ پر حملے کا پلان بن گیا جس کے لیے مجاہدین پہلے ہی تیار تھے، لیکن حملہ کچھ دنوں بعد کرنا تھا۔
تین مؤرخوں نے لکھا ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ حملہ جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد کیا جائے ،کیونکہ اس وقت اللہ کی خاص رحمت نازل ہوتی ہے اور یہ وقت دعاؤں کی قبولیت کا ہوتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ بھی لکھا تھا کہ حملے سے پہلے اللہ کے حضور گڑگڑا کر فتح کے لیے دعا کی جائے، حملے میں تاخیر کی غالباً یہی وجہ تھی جمعۃ المبارک کو ابھی چار پانچ دن باقی تھے۔
ان چار پانچ دنوں میں ایک اور واقعہ ہوگیا، مجاہدین حملے کے لیے تیار بھی تھے اور بے تاب بھی لیکن ابھی ان کے لئے فراغت تھی، ایک روز تین آدمی جو غالبا مصری تھے چھوٹے چھوٹے قالین اٹھائے خیمہ گاہ کے قریب آ کھڑے ہوئے انہوں نے دو تین قالین کھول کر زمین پر بچھا دیے یہ مصلے کے سائز کے قالین تھے، قریبی خیموں سے چند مجاہدین باہر نکلے تو ان آدمیوں کے پاس جاکر قالین دیکھنے لگے، ایک مجاہد نے کہا کہ وہ یہاں کیوں آگئے ہیں یہاں ان قالینوں کا کوئی خریدار نہیں۔
ہم یہ قالین بیچنے نہیں آئے۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔۔۔ ہم دو تین قالین آپ کے سپہ سالار کو تحفے کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، ان پر وہ نماز پڑھا کریں گے۔
پہلی بات یہ ہے دوستوں ۔۔۔۔مجاہد نے کہا۔۔۔ ہمارے سپہ سالار تمہیں ملیں گے ہی نہیں اور اگر مل گئے تو یہ تحفہ قبول نہیں کریں گے، ہمارے یہاں تحفہ لینے کا رواج ہی نہیں۔
ہمیں ان تک پہنچا تو دو۔۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔۔۔ ہم مسلمانوں کے کردار سے اور جو سلوک آپ لوگوں نے ہمارے ساتھ روا رکھا ہے اس سے اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ ہم اظہار تشکر کے لیے اپنے بنائے ہوئے یہ قالین انہیں بطور تحفہ پیش کرنے آئے ہیں۔
مجاہدین نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ سپہ سالار اتفاق سے کہیں مل جائیں تو ان سے ملاقات ہو سکتی ہے لیکن وہ تحفہ قبول نہیں کریں گے، ایک مجاہد نے کہا کہ ہم زمین پر نماز پڑھا کرتے ہیں ہمارے سالار بھی ہمارے ساتھ زمین پر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور زمین پر ہی سجدے کیا کرتے ہیں۔
یہ تو ہم نے دیکھا ہے۔۔۔ قالین والے ایک آدمی نے کہا ۔۔۔آپ لوگ جس زمین پر سجدہ کرتے ہیں وہ زمین اللہ کی طرف سے آپ کے نام لکھ دی جاتی ہے ،اور وہ زمین آپ کے قدم چومتی ہے ۔
مجاہدین وہاں سے ہٹنے لگے ابھی دو تین مجاہدین وہیں تھے ایک طرف سے مجاہدین کی تین چار خواتین آ رہی تھیں ان میں شارینا بھی تھی اور کرسٹی بھی، قالین اتنی خوبصورت تھی کہ لڑکیاں زمین پر بچھے ہوئے قالینوں کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگیں، خریدنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا نہ انہیں ایسے خوبصورت اور قیمتی قالینوں کی ضرورت تھی، قالینوں والے تین آدمی بھی زمین پر بیٹھ گئے، کرسٹی نے قالینوں سے نظریں ہٹا کر ان تینوں آدمیوں کی طرف دیکھا ،ان تینوں میں میں ایک ہی تھا جو مجاہدین کے ساتھ باتیں کرتا رہا تھا وہی بولتا تھا اور باقی دو چپ چاپ بیٹھے یا کھڑے رہے، ان جواں سال آدمی نے کرسٹی کو دیکھا تو اس کے ماتھے پر شکن آ گئے، اور اس نے آنکھیں ذرا سی سکیڑیں جیسے کرسٹی کو غور سے دیکھ رہا ہو،
یہی تاثر کرسٹی کے چہرے پر بھی آگیا وہ بھی جیسے اس شخص کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی، جلدی ہی دونوں کے چہرے کا یہ تاثر حیرت میں بدل گیا جیسے انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا ہو ،عورتیں ان تینوں سے قالینوں کے متعلق کچھ پوچھ رہی تھیں، کرسٹی بیٹھی بیٹھی پاؤں پر سر کی اور نہایت آہستہ آہستہ اس شخص کے قریب چلی گئی۔
ان دونوں کے درمیان سرگوشیوں میں کوئی مختصر سی بات ہوئی اور کرسٹی اٹھ کھڑی ہوئی اور خواتین کے پاس آ گئی ،ان تینوں آدمیوں نے قالین لپیٹنے شروع کر دیے اور مجاہدین کی یہ خواتین اور کرسٹی وہاں سے چل دیں ،کرسٹی نے شارینا کو اشارے سے الگ کیا اور اسے سرگوشیوں میں کچھ کہا شارینا یوں سر ہلاتی رہی جیسے کرسٹی کی بات سمجھ گئی ہو اور اسے یہ بات اچھی لگی ہو ،یہ خواتین اپنے خیموں کی طرف چلیں گئیں، اور قالینوں والے قالین اٹھا کر مایوسی کے عالم میں وہاں سے رخصت ہوگئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
گھنٹے ڈیڑھ بعد کرسٹی قالینوں والے اس آدمی کے پاس کھڑی تھی جو سب سے زیادہ بولتا اور اس کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ عقل و دانش والا آدمی ہے اور جہاندیدہ بھی ہے، وہ دونوں ایسی جگہ کھڑے تھے جہاں انہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا، کرسٹی چھپ چھپا کر وہاں تک پہنچی تھی یہ وہی علاقہ تھا جو پہلے بیان ہوچکا ہے، وہاں ہری بھری ٹیکریاں تھیں اور درختوں کے جھنڈ اتنے گھنے تھے کہ وہاں قریب سے بھی کوئی کسی کو دیکھ نہیں سکتا تھا، اسی جگہ بارہ مجاہدین کو رومیوں نے اس طرح گھات لگا کر شہید کردیا تھا کہ نہ ان رومیوں کے آنے کا پتہ چلا نہ یہاں سے جانے کا۔
کرسٹی اکیلی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی مجاہدین کی کوئی اور خاتون ہوتی تو کوئی اور بات تھی، کرسٹی کی حیثیت ایک قیدی کی سی تھی یہ الگ بات ہے کہ ان پر قیدیوں جیسی پابندی نہیں تھی پھر بھی عورتوں کو بتا دیا گیا تھا کہ اسے اپنی نگرانی میں رکھیں۔ کرسٹی کے لئے اس خطرناک علاقے تک جانا صرف اس لیے ممکن ہوا تھا کہ اس نے شارینا کو ایک خاص بات بتا کر اعتماد میں لیا تھا اور شارینا نے یہ بات اپنے خاوند حدید کو بتا دی تھی ،کرسٹی کو معلوم نہیں تھا کہ حدید چھپ چھپ کر اس کے پیچھے گیا تھا اور جب وہ اس آدمی کے پاس پہنچی تو حدید کچھ دور اوٹ میں زمین پر پیٹ کے بل لیٹا انہیں دیکھ رہا تھا، کرسٹی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
کرسٹی نے قالین دیکھتے دیکھتے جب اس آدمی کو دیکھا تو اسے پہچان لیا تھا ،وہاں سے ہٹ کر کرسٹی نے شارینا کو الگ کرکے یہ بتایا تھا کہ وہ اس شخص کو جانتی ہے ، کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہی ہے اس کے کہنے کے مطابق یہ شخص ان پیشہ ور قاتلوں میں سے تھا جو دشمن کی بڑی شخصیتوں کو قتل کرنے کی خصوصی مہارت رکھتے تھے۔
کرسٹی نے شارینا کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ اس گاؤں میں یہ مشن پورا کرنے کے لئے بھیجی گئی تھی کہ مسلمانوں کے سپہ سالار کو قتل کرنا ہے، اس سے پہلے اسے کسی اور مقام پر بھیجا گیا تھا اور یہ شخص اس کے ساتھ تھا لیکن وہاں مسلمانوں کے سپہ سالار تک پہنچنے کا موقع نہ مل سکا اور مجاہدین کا لشکر وہاں سے آگے کوچ کرگیا ،اس کے بعد کرسٹی اس شخص سے الگ کر دی گئی تھی اور اسے معلوم نہیں تھا کہ اس آدمی کو کہاں بھیج دیا گیا ہے۔
کرسٹی کو اس گاؤں میں منتقل کردیا گیا تھا جہاں مصری بدو اسطافت ایک سالار کو قتل کرنے لگا تھا مگر خود مارا گیا۔
یہ سارا راز شارینا کو دے کر کرسٹی نے کہا تھا کہ وہ اس شخص سے ملے گی اور معلوم کرنے کی کوشش کرے گی کہ وہ یہاں تک کیا عزم لے کر آیا ہے، یا اسے کس کام کے لیے بھیجاگیاہے۔
شارینا نے حدید کو بتایا اور حدید نے یہ انتظام کیا تھا کہ کرسٹی اس آدمی سے ملے۔
کرسٹی نے قالین دیکھتے دیکھتے اس آدمی سے سرگوشی میں جو بات کی تھی وہ اسی ملاقات کا وقت اور جگہ کا تعین کیا تھا، اس کے مطابق وہ وہاں پہنچ گیا تھا، کرسٹی نے اس آدمی کا نام اختمون بتایا تھا ،اس قسم کے نام فرعونوں کے خاندان کے افراد کے ہوا کرتے تھے ،یہ شخص مصری تھا اور اس کا مذہب عیسائیت تھا۔
تم ان دشمنوں کے پاس کیسے پہنچ گئی ہو؟،،،،، اختمون نے کرسٹی سے پوچھا ۔
پکڑی گئی تھی ۔۔۔کرسٹی نے جواب دیا ۔۔۔۔سیموسن بھی میرے ساتھ ہے، ہم ان کے قیدی ہیں لیکن ہمیں کچھ آزادی حاصل ہے اس لیے تم تک پہنچ گئی ہوں ،سیموسن وہی آدمی تھا جسے کرسٹی اپنا باپ ظاہر کرتی تھی۔ لیکن وہ اس کا باپ نہیں تھا ۔
اختمون نے اس سے پوچھا کہ وہ پکڑے کس طرح گئے تھے؟
کرسٹی نے اسے پوری تفصیل سے بتایا کہ اسے اس گاؤں میں مسلمانوں کے سپہ سالار کو قتل کرنے یا کروانے کے لئے بھیجا گیا تھا، ایک مصری بدو مسلمانوں کے لشکر کے لیے رسد اکٹھی کرتا پھرتا تھا اس کے جال میں ایسا آیا کہ وہ کسی نہ کسی سالار کو قتل کرنے کے لیے تیار ہو گیا، لیکن عین اس وقت جب وہ سالار اس کے تیر کے نشان میں تھا وہ پکڑا گیا ،اور اس کے بعد کرسٹی بھی اور سیموسن بھی پکڑے گئے ۔
یہاں کیسی گزر رہی ہے ؟،،،،،اختمون نے پوچھا۔
یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔۔۔ کرسٹی نے جھوٹ بولا۔۔۔ مجھ جیسی لڑکی کسی کے ہاتھ چڑھ جائے تو کیا بغیر پوچھے یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ اس کی کیسی گزر رہی ہے، میری ہر رات کسی نہ کسی سالار کے خیمے میں گزرتی ہے ،کچھ راتیں سپہ سالار کے خیمے میں گزاری ہے لیکن وہ بڑا محتاط آدمی ہے کچھ دیر بعد خیمے سے نکال دیتا اور اپنے پاس نہیں رکھتا تھا، میرے ارادوں میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں آئی میں ان کے سپہ سالار کے قتل کے لئے بے تاب اور بے قرار ہوں لیکن موقع نہیں ملتا، میں نے ان سب پر اپنا اعتماد جما رکھا ہے پھر بھی کسی سالار کے خیمے میں مجھے بلایا جاتا ہے تو پہلے میری جامہ تلاشی ہوتی ہے کہ میرے ے پاس کوئی ہتھیار تو نہیں یہ کام صرف تم کر سکتے ہو۔
لیکن اصل مسئلہ کون حل کرے گا ۔۔۔اختمون نے پوچھا ۔۔۔مجھے سپہ سالار کے خیمے تک کون پہنچائے گا ،میں نے دیکھ لیا ہے کہ باہر اسے قتل کرنا ناممکن ہے میں نے اسے دور سے دیکھا ہے وہ جہاں بھی جاتا ہے محافظ گھوڑ سواروں کے حصار میں ہوتا ہے، آخر یہ طریقہ آزمایا کہ قالینوں کا تحفہ پیش کیا جائے شاید اس طرح اس کے خیمے میں داخلے کا موقع نکل آئے لیکن یہ موقع بھی ممکن نظر نہیں آتا ،ان لوگوں نے بتایا ہے کہ سپہ سالار کوئی تحفہ قبول نہیں کرتا اور اس کے خیمے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں۔
اگر تمہیں اس کے خیمے تک پہنچا دوں تو اسے کس طرح قتل کرو گے؟،،،،،،،، کرسٹی نے پوچھا۔۔۔۔ اور اسے خبردار کیا قتل تو کر لو گے لیکن وہیں پکڑے جاؤ گے اور مارے جاؤ گے۔
زیادہ امکان تو یہی ہے۔۔۔۔ اختمون نے کہا۔۔۔ لیکن میں بچ نکلنے کی صورت بھی پیدا کرسکتا ہوں، ہم دو آدمی قالین لے کر اس کے خیمے میں جائیں گے اور قالین زمین پر بچھا دیں گے ،وہ دیکھنے کو جھکے گا یا نہ بھی جھکے تو پیچھے سے خنجروں کے وار کرکے نکل جائیں گے اور جب تک باہر والوں کو پتہ چلتا ہے کہ ان کا سپہ سالار خیمے میں قتل ہو گیا ہے ہم اس خیمے سے دور نکل چکے ہونگے، اور آگے علاقہ ایسا ہے جہاں ہم یوں غائب ہو جائیں گے جیسے زمین نے ہمیں نگل لیا ہو ،اگر پکڑے گئے تو ہم دونوں آدمی مرنے کے لئے تیار ہیں، ہمیں اتنا زیادہ معاوضہ دیا گیا ہے جسے تم ایک خزانہ کہہ سکتی ہو، یہ ہماری آئندہ دو تین نسلوں کے لئے کافی ہوگا۔ یہ نہ بھی ہوا تو تم جانتی ہو کہ ہم مذہب کے جنونی ہیں اسلام کا راستہ اپنی جان قربان کرکے روکنا ہے،،،،،،،، کہو ہماری کچھ مدد کر سکتی ہو؟
کرسکتی ہوں۔۔۔۔ کرسٹی نے کہا ۔۔۔کل صبح جب سورج افق سے اوپر اٹھ رہا ہو گا تم یہیں آ جانا میں تمہیں بتاؤں گی کہ راستہ صاف ہوا ہے یا نہیں،،،،،،،، یہ سوچ لو کہ میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں گی۔
ہمیں خیمے کے اندر تمہاری ضرورت بھی نہیں ہوگی۔۔۔ اختمون نے کہا ۔۔۔مجھے پوری امید ہے کہ اس راز کو اپنی ذات میں ہی دفن کر دو گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب سورج افق سے اوپر اٹھ رہا تھا کرسٹی اور اختمون اسی جگہ کھڑے تھے جہاں ان کی گزشتہ روز ملاقات ہوئی تھی، اس صبح کی ملاقات بہت ہی مختصر تھی، کرسٹی نے اختمون کو بتایا کہ آج وہ زیادہ دیر رک نہیں سکے گی اور صرف یہ بتانے آئی ہے کہ آج جب مسلمانوں کا لشکر ظہر کی نماز پڑھ چکے گا تو اختموں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ اسی جگہ پہنچ جائے جہاں وہ قالین لے کر آئے تھے، کرسٹی نے کہا کہ ان کے پاس قالین ہونے چاہیے وہاں انہیں ایک آدمی ملے گا جو انہیں اپنے ساتھ سپہ سالار کے خیمے تک پہنچا دے گا۔
یہ انتظام تم نے کیسے کیا ہے؟،،،،، اختمون نے پوچھا ۔
مجھ جیسی لڑکی کیا نہیں کرسکتی۔۔۔ کرسٹی نے کہا ۔۔۔میں نے رات سپہ سالار کے خیمے میں گزاری ہے اور اسے بتایا کہ وہ مصر کے قالین کم از کم دیکھ ہی لیں وہ مان تو نہیں رہا تھا لیکن میں نے منوا لیا اور اس نے اپنے ایک محافظ کو کہہ دیا کہ قالین والے آئیں تو انھیں اس کے خیمے میں پہنچا دیا جائے۔
اسی روز ظہر کی نماز حسب معمول پورے لشکر نے باجماعت عمرو بن عاص کی امامت میں پڑھی اور نماز سے فارغ ہوکر عمرو بن عاص اپنے خیمے میں چلے گئے، انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ تین آدمیوں نے قالین زمین پر رکھے کھڑے تھے ،عمرو بن عاص نے ان کی طرف توجہ نہ دی صرف انہیں دیکھا۔
خیمے میں پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد ایک محافظ خیمے میں داخل ہوا اور بتایا کہ قالینوں والے تینوں آدمی آگئے ہیں، عمرو بن عاص نے کہا کہ انہیں اندر بھیج دیا جائے، محافظ باہر نکلا اور دو آدمی مصلے کے سائز جتنے دوچار قالین اٹھائے خیمے میں داخل ہوئے، عمرو بن عاص نے کہا کہ کھول کر دکھائیں۔
یہ آدمی قالین کھول کر زمین پر بچھانے لگے، ان کا تیسرا ساتھی خیمے کے باہر پہرے پر کھڑے محافظ کے پاس رکا رہا اور اس کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا، وہ اس محافظ کی توجہ خیمے سے ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا، خیمے کے اندر دونوں نے قالین کھول دیے اور سپہ سالار عمرو بن عاص کھڑے ہوکر قالینوں کے اردگرد آہستہ آہستہ ٹہلنے لگے۔
ذرا جھک کر یا بیٹھ کر ان قالینوں کو قریب سے دیکھیں۔۔۔ اختمون نے کہا ۔۔۔ہم یہ قالین بیچنے نہیں آئے، آپکی خدمت میں تحفہ پیش کرنے آئے ہیں، ہمارے پاس کوئی خزانہ نہیں جو آپ کو پیش کریں یہی ہمارا ہنر ہے اور یہی لے آئے ہیں، ان رومیوں نے ہم پر فرعونوں کی طرح حکومت کی ہے، آپ تو ہمارے لئے رحمت کے فرشتے بن کر آئے ہیں۔
عمرو بن عاص ایک قالین پر جھک گئے جیسے اسے بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں ۔
اختمون آہستہ آہستہ ان کے عقب میں آ گیا ،اس کا دایاں ہاتھ کپڑوں کے اندر چلا گیا یہ ہاتھ باہر آیا تو اس ہاتھ میں خنجر تھا ،عمرو بن عاص کی اس کی طرف پیٹھ تھی۔
خنجر اوپر اٹھا اور بیشتر اس کے کہ یہ عمرو بن عاص کی پیٹھ میں اترتا عمرو بن عاص حیران کن تیزی سے جھکے جھکے پیچھے کو مڑے سیدھے ہوئے اور جھپٹ کر اختمون کے اوپر اٹھے ہوئے بازو کی کلائی پکڑ لی اور اس قدر زور سے مروڑی کے اس کے ہاتھ سے خنجر نیچے گر پڑا اور اختمون اتنا طاقتور جوان ہونے کے باوجود اس طرح بل کھا گیا کہ اس کی پیٹھ عمرو بن عاص کی طرف ہو گئی۔
اختمون نے اپنے ساتھی سے کہا کہ نکالو خنجر دیکھتے کیا ہو ،اس کا ساتھی اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالنے لگا تو خیمے کے باہر کھڑا محافظ بڑی تیزی سے خیمے میں داخل ہوا اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی وہ اس قدر پھرتیلا تھا کہ خیمے کے دروازے میں نظر آیا اور دوسرے لمحے اس کی تلوار کی نوک اختمون کے ساتھی کے سینے میں چبھ رہی تھی، محافظ نے اسے خنجر پھینک دینے کو کہا، تو اس نے بڑے اطمینان سے خنجر پھینک دیا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے شاید کوئی آواز پہلے ہی مقرر کر رکھی تھی جو انہوں نے منہ سے نکالی تو محافظ جو اسی آواز کے انتظار میں تھا کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح خیمے میں آیا اور اس شخص کو اپنے قابو میں لے کر اسے نہتا کر دیا ،اختمون عمرو بن عاص کے قابو میں تھا۔
ان کا تیسرا ساتھی جو باہر کھڑا تھا اسے ابھی معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ خیمے کے اندر کیا ہو رہا ہے یہ دیکھنے کے لئے وہ خیمے کی طرف چلا تو دو محافظ مجاہدین نے پیچھے سے آ کر اسے دبوچ لیا ،مجاہدین کے لشکر کے سپہ سالار کو قتل کرنے کی کوشش بری طرح ناکام ہوگئی، کرسٹی نے ان تینوں کو پھنسانے کے لیے بڑا ہی خوبصورت پھندہ تیار کیا تھا، اور اللہ تعالی نے اسے کامیابی عطا فرمائی، شارینا اور اس کے خاوند حدید نے اس کے ساتھ ایسا تعاون کیا تھا جس کے بغیر وہ کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔
عمرو بن عاص نے تمام سالاروں کو بلوایا ۔اختمون اور اس کے ساتھیوں کو باہر لے گئے۔
ننگی تلواروں سے مسلح چار محافظ ان تینوں کے دائیں بائیں اور پیچھے کھڑے ہو گئے۔
اے خوش قسمت سپہ سالار!،،،،، اختمون نے عمرو بن عاص سے کہا ۔۔۔ہم تمہیں قتل کرنے آئے تھے اور یہ قالین تو محض ایک بہانہ تھا تیری خوش قسمتی اور ہماری بدقسمتی کہ ہم کامیاب نہ ہو سکے ،میں نے سنا ہے کہ مسلمانوں کا کردار اور اخلاق بہت ہی بلند اور قابل تعریف ہے، میں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان بخشی کی درخواست نہیں کروں گا صرف یہ درخواست کرتا ہوں کہ ہمیں فوراً قتل کروا دیں ہمیں اذیتیں دے دےکر اور ترسا تڑپا کر نہ مارنا۔
سالاروں کو پہلے ہی معلوم تھا کہ آج کیا ہونے والا ہے وہ سپہ سالار کے بلاوے کے ہی منتظر تھے اطلاع ملتے ہی دوڑے آئے ۔
عمرو بن عاص نے انہیں بتایا کہ یہ درخواست کرتے ہیں کہ انہیں فوراً قتل کر دیا جائے اور ایذا رسانی سے بچایاجائے۔
سالار یہ سن کر خاموش رہے انہیں یہ معلوم تھا کہ ان تینوں کو سزائے موت ہی دی جائے گی، لیکن عمرو بن عاص نے فیصلہ سنایا تو سب ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔
میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔۔تم مجھے قتل کرنے آئے نہیں بلکہ بھیجے گئے تھے، میں تمہیں یہاں بھیجنے والے کو قتل کر آؤں گا۔ تم آزاد ہو واپس جاؤ اور اپنے جرنیلوں اور بزنطیہ میں بیٹھے ہوئے اپنے بادشاہوں کو بتانا کہ مرد میدان میں آ کر لڑا کرتے ہیں، یوں اپنے دشمن کو فریب کاری سے قتل کروانے کی کوشش عموماً شکست کا باعث بنا کرتی ہے۔ انہیں کہنا کہ اسکندریہ کی دیواروں اور قلعہ بندیوں کی پناہ سے باہر آؤ اور لڑ کر ہمیں یہاں سے پسپا کرو، تمہارے پاس اتنی زیادہ فوج ہے جس کے مقابلے میں میرا یہ لشکر کچھ بھی نہیں،آؤ اور اس چھوٹے سے لشکر کو کچل ڈالو۔
یقین نہیں آتا سپہ سالار!،،،،، اختمون نے کہا۔۔۔ تو ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے ،ہمارا مذاق اڑا رہا ہے، ہم اسے جذباتی اذیت سمجھتے ہیں، مسلمانوں کے کردار کی تو ہم نے کوئی اور ہی کہانیاں سنی تھیں، ہم قتل ہونے کے لیے تیار ہیں ،تیرے قتل کا عہد ہم نے یہ قبول کرکے کیا تھا کہ ہم زندہ واپس نہیں جا سکیں گے۔
اور میں عہد کر چکا ہوں کہ تم زندہ واپس جاؤ گے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ تم نے ہمارے کردار کی جو کہانیاں سنی ہے ان میں یہ کہانی سب سے زیادہ دلچسپ اور انوکھی ہوگی جو تم باقی عمر لوگوں کو سناتے پھرو گے ۔
اختمون اور اس کے ساتھی حیرت میں ڈوبتے چلے جارہے تھے انہیں بڑی مشکل سے یقین آیا کہ سپہ سالار نے انہیں معاف کردیا ہے۔
مجھے صرف ایک بات بتا دے ائے سپہ سالار!،،،،،، اختمون نے پوچھا۔۔۔ تجھے کس طرح پتہ چل گیا تھا کہ میں خنجر نکال رہا ہوں، کہیں ایسا تو نہیں کہ تجھے پہلے ہی علم تھا کہ ہم تجھے قتل کرنے آ رہے ہیں؟
کیا تم اس پر حیران نہیں ہوئے کہ ہم اتنے تھوڑے ہیں اور کتنی بڑی فوج سے مصر چھین لیا ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ میرا تمہارے قاتلانہ حملے سے بچ نکلنا تو معمولی سی بات ہے، ہمیں اپنے اللہ پر بھروسہ ہے اور جسے وہ زندہ رکھنا چاہتا ہے اس کا کوئی سبب پیدا کر ہی دیتا ہے ،ہم کسی کو چوری چھپے قتل نہیں کیا کرتے۔
تو پھر یہ بھی سن لے آئے خوش بخت سپہ سالار!،،،،،، اختمون نے کہا۔۔۔ اسکندریہ بھی تیرا ہے، ہمیں اسقف اعظم قیرس نے تیرے قتل کے لیے بھیجا تھا، میرا خیال ہے کہ ہرقل کی ایک بیوہ مرتینا نے اسے پیغام بھیجا تھا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار کو قتل کروا دو تو اس کے لشکر کے حوصلے پست ہوجائیں گے، دوسری بات یہ کہ قیرس اور مصر کی فوج کے سب سے بڑے جرنیل تھیوڈور میں اختلاف پائے جاتے ہیں ،دونوں کی نیتوں میں خاصا فرق پیدا ہو گیا ہے اور وہ کسی ایک بات پر متفق نہیں ہوتے ،اسکندریہ کے شہری اپنی فوج سے بیزار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
کیا بزنطیہ سے کمک نہیں آرہی ؟،،،،،عمرو بن عاص نے پوچھا۔
نہیں!،،،،،، اختمون نے جواب دیا۔۔۔۔ بزنطیہ میں کچھ اور ہی چپقلش اور سازشیں چل رہی ہیں جو اسکندریہ پر بھی اثرانداز ہورہی ہے، اسکندریہ میں تو تیرے ساتھ صلح کے معاہدے کی بات ہوتی ہے اگر تو نے اتنے ہی چھوٹے سے لشکر سے بابلیون اور کریون کے قلعے فتح کیے ہیں تو اسی لشکر سے تو اسکندریہ بھی فتح کر لے گا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے حکم دیا کے انکے قالین انہیں دے دیے جائیں اور انہیں واپس چلے جانے کی اجازت ہے۔
اختمون اصرار کرنے لگا کے وہ قالین واپس نہیں لے جائیں گے۔
لیکن عمرو بن عاص نے کہا کہ اسلام میں جان بخشی کی قیمت وصول کرنا گناہ ہے، اور ہر وہ چیز اسلام میں حرام ہے جو مال غنیمت کے زمرے میں نہیں آتی، اگر قیرس ، یا تمہارا سب سے بڑا جرنیل، یا تمہارا بادشاہ ملنے آئے اور اپنے ساتھ کوئی تحفہ لائے تو وہ میں قبول کر سکتا ہوں ،تمہارا کوئی تحفہ مجھ پر حرام ہے ۔
محافظ دستے کے مجاہدین نے قالین خیمے سے نکالے اور ان کے حوالے کر دیئے تینوں سر جھکائے ہوئے رخصت ہوگئے۔
ان کے جانے کے بعد عمرو بن عاص نے کرسٹی کو بلوایا وہ آئی تو اسے بے ساختہ اور بے دریغ خراج تحسین پیش کیا، پھر پوچھا کہ وہ کیا انعام چاہتی ہے، اگر وہ آزاد ہونا چاہتی ہے تو اس کی یہ خواہش بھی پوری کی جاسکتی ہے۔
نہیں قابل احترام سپہ سالار!،،،،، کرسٹی نے کہا ۔۔۔میں اب آزاد نہیں ہونا چاہتی ،مجھے اسلام میں داخل کرلیا جائے، اور اگر مجھے کوئی مسلمان قبول کرلے تو میں اس کے ساتھ شادی کر کے خوشی محسوس کروں گی، لیکن میں یہ بتا دینا چاہتی ہوں کہ میں ایک آبروباختہ لڑکی ہوں ،میرے خیال میں نے آپ کو قتل ہوجانے سے اس لئے بچایا ہے کہ میں اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتی تھی۔
اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ھے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہماری عورتیں تمہیں اسلام سے ایسا روشناس کروائیں گی کہ تم اپنے آپ کو پاکباز عورت سمجھنے لگو گی، تمہاری شادی بھی کرا دی جائے گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس سے اگلے روز یا دو روز بعد کا واقعہ ہے کہ رومی فوج کا ایک دستہ شہر سے باہر نکلا اس دستے کی نفری بھی کوئی زیادہ نہیں تھی، لیکن اس سے پہلے جتنی نفری باہر آکر واپس چلی جاتی تھی اس سے اس دستے کی نفری زیادہ تھی، تاریخ میں اس دستے کی نفری کا کوئی واضح ذکر نہیں ایک دو اشاروں سے کچھ پتہ چلتا ہے کہ ایک ہزار کے لگ بھگ تھی ،اس دستے کے کمانڈر نے مسلمانوں کو للکارا ۔
عمرو بن عاص نے اس دستے جتنی ہی نفری آگے کی لیکن صاف نظر آرہا تھا کہ رومیوں کا انداز وہی پہلے والا ہے کہ وہ مجاہدین کا مذاق اڑانا چاہتے ہیں۔
میں اپنا ایک بہادر آگے کرتا ہوں ۔۔۔۔رومیوں کے کمانڈر نے للکار کر کہا۔۔۔۔تم اس کے مقابلے کے لئے اپنا کوئی بہار آگے کرو۔
کھلی لڑائی سے پہلے ذاتی مقابلے اس دور کی لڑائیوں کا ایک رواج تھا، مجاہدین کے سالار مسلمہ بن مخلد نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آگے چلے گئے، ادھر سے ایک قوی ہیکل رومی گھوڑے پر سوار پہلے ہی دونوں طرف کی فوجیوں کے درمیان پہنچ چکا تھا۔ تاریخ شہادت دیتی ہے کہ مسلمہ بن مخلد بہادری کے کارناموں میں بہت ہی مشہور تھے، وہ اس رومی کے مقابلے کو آگے بڑھے دونوں کے پاس برچھیاں تھیں اور وہ ایک دوسرے کو گھوڑے سے گرانے کی کوشش کر رہے تھے، دونوں وار کرتے بھی تھے اور وار بچاتے بھی تھے۔
پھر یوں ہوا کہ رومی بڑی ہی تیزی سے آیا یوں معلوم ہوتا تھا کہ دونوں کے گھوڑے آمنے سامنے سے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے، رومی نے طاقت سے برچھی کا وار کیا جو مسلمہ نے بچا لیا لیکن رومی کا گھوڑا مسلمہ کے گھوڑے کے پہلو سے اتنے قریب سے گزرا کی مسلمہ نے آگے جھک کر برچھی کا وار تو بچا لیا لیکن رومی نے اپنے کندھے سے اتنی زور سے دھکا دیا کہ مسلمہ اپنے گھوڑے سے نیچے آ پڑے اور ان کے ہاتھ سے برچھی چھوٹ گئی ۔
رومی نے ذرا ہی آگے جاکر گھوڑا روکا بڑی تیزی سے موڑا اور مسلمہ کی طرف گھوڑا دوڑا دیا صاف پتہ چلتا تھا کہ مسلمہ جو اٹھ ہی رہے تھے رومی کی برچھی کا شکار ہو جائیں گے، لیکن انہوں نے اپنے گھوڑے کے پہلو کی ایک طرف ہو کر وار بیکار کر دیا۔
مسلمہ نے گھوڑے پر سوار ہونے کے لیے رکاب میں پاؤں رکھا تو رومی پھر واپس آیا اور اب کے تو اس کا گھوڑا بہت ہی تیز تھا اس نے مسلمہ کو گھوڑے پر سوار ہونے کی مہلت نہ دی اور برچھی بلند کرکے پوری طاقت سے ماری مسلمہ نے رکاب سے پاؤں نکالا اور بیٹھ گئے، اس طرح رومی کی برچھی انہیں لگنے کی بجائے گھوڑے کے پہلو میں لگی اور گھوڑا بھاگ اٹھا، مسلمہ اب پیادہ ہوگئے۔
مسلمہ کی برچھی یہ وار بچاتے ایک بار پھر گر پڑی، اب کے رومی پیچھے کو مڑا تو صاف نظر آنے لگا کے وہ مسلمہ کو برچھی کی انی پر لے لے گا یا اپنے گھوڑے تلے روند ڈالے گا۔ اس وقت ایک مجاہد نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور مسلمہ کو بچانے کے لیے سرپٹ گھوڑا دوڑا دیا پیشتر اس کے کہ رومی مسلمہ تک پہنچتا مجاہد پہنچ گیا اور اس نے برچھی کے پہلے وار سے ہی رومی کو گھوڑے پر اوندھا کردیا ۔ مجاہد کی برچھی رومی کے پیٹ میں اتر گئی اور اس کی انی پیٹ کی طرف سے باہر آگئی تھی، مسلمہ اٹھے اور ندامت کے سے عالم میں اپنے لشکر میں واپس آگئے۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کے چہرے پر ناراضگی اور غصے کا گہرا تاثر آ گیا انہیں مسلمہ سے ایسی شکست کی امید نہ تھی، مسلمہ سر جھکائے ہوئے سپہ سالار کے قریب پہنچے ۔
مسلمان مؤرخوں نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ عمرو بن عاص نے مسلمہ سے کہا۔۔۔ تم جیسا شخص جو عورتوں کی خصلت رکھتا ہو اسے مردانہ کاموں میں دخل دینے کی کیا ضرورت آپڑی تھی۔
تاریخ میں یہ بھی آیا ہے کہ مسلمہ کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوئے انہوں نے قہر اور غضب سے سپہ سالار کی طرف دیکھا ، لیکن وہ غصہ پی گئے۔
یہ پہلا موقع تھا کہ رومی دیوار سے کچھ زیادہ آگے آ گئے تھے عمرو بن عاص نے حملے کا حکم دے دیا سالاروں کو انہوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ حملہ کس طرح کرنا ہے جس میں سب سے اہم ہدایت یہ تھی کہ قلعے میں داخل ہونے کی کوشش کرنی ہے ،لیکن رومی جو لڑنے کے لئے آگے تو آگئے تھے وہ ایسا خطرہ مول لینے والے نہیں تھے کہ شہر کا دروازہ مجاہدین اسلام کے لیے کھلا چھوڑ دیتے، انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ کچھ زیادہ نفری دروازے کے آگے کر دی اور دروازہ کھلا رہنے دیا۔
دیوار پر زیادہ خطرناک چیز منجنیقیں تھیں ،لیکن مسلمان اتنا آگے چلے گئے تھے جہاں منجنیقیں اوپر سے نیچے کی طرف سنگ باری نہیں کر سکتی تھیں، رومی تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑیں تو کی لیکن دونوں طرف کے آدمی اس طرح گڈ مڈ ہو گئے تھے کہ تیر اندازی رک گئی، یہ اس لئے بھی رکی کے مسلمان تیر اندازوں نے دیوار پر تیر پھینکنے شروع کر دیئے تھے۔
رومیوں کا انداز یہ تھا کہ وہ پیچھے ہی ہٹتے جا رہے تھے اور مجاہدین کی کوشش یہ تھی کہ رومیوں کے اس پہلو پر چلے جائیں جس پہلو پر شہر کا دروازہ تھا، سالاروں کی للکار یہی تھی کہ شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرو، معرکہ بڑا ہی گھمسان کا تھا لیکن رومی پیچھے ہٹتے ہٹتے شہر کے اندر جاتے رہے ان کا جانی نقصان تو اچھا خاصہ ہوا لیکن وہ شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، اور کوئی ایک بھی مجاہد ان کے پیچھے دروازے تک نہ پہنچ سکا پھر دروازہ بند ہو گیا مجاہدین کو واپس آنا پڑا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آخر جمعۃ المبارک کی صبح طلوع ہوئی مجاہدین نے اپنے سپہ سالار کی امامت میں نماز فجر ادا کی اور سپہ سالار نے لشکر کو بتایا کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پیغام میں لکھا تھا کہ حملہ بعد از نماز جمعہ کیا جائے اور دعا بھی کی جائے یہ وقت دعاؤں کی قبولیت کا ہوتا ہے۔
نماز جمعہ کا وقت آیا تو پورے لشکر نے نماز پڑھی خطبے میں عمرو بن عاص نے لشکر کو امیرالمومنین کے پیغام کے یہ الفاظ ایک بار پھر سنائے، کہ تم میں وہ پہلے والا جذبہ نہیں رہا، اور شہادت کی طلب بھی نہیں رہی ،اور تمہیں وہ جگہ پسند آگئی ہے اور وہیں کے ہو کے رہ گئے ہو، عمرو بن عاص نے لشکر سے کہا کہ آج ہمیں امیرالمومنین کا یہ شبہ رفع کرنا ہے، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ کی خوشنودی کو پیش نظر رکھنا ہے۔
لشکر میں جوش و خروش تو وہی تھا جو پہلے بھی ہوا کرتا تھا اس میں کوئی کمی نہیں آئی تھی لیکن بند دروازوں والے قلعے پر یلغار خودکشی کے برابر تھی، اسکندریہ کے دفاع کی بات ہی کچھ اور تھی سالاروں کو سپہ سالار نے ضروری ہدایات اور احکام پہلے ہی دے دیے تھے لشکر ہر طرح تیار تھا۔
اللہ نے مجاہدین کے لیے پہلی سہولت یہ مہیا کر دی کہ نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ رومی فوج باہر آ گئی اس روز ان کی اچھی خاصی زیادہ نفری باہر آئی تھی ان کی للکار سے پتہ چلتا تھا کہ آج وہ لڑنے کے ارادے سے آئے ہیں۔
تاریخ میں ابن الحکم اور علامہ بلاذری کے حوالے سے یہ بات بھی آئی ہے کہ شہر کی اس طرف والی دیوار پر اس قدر آدمی کھڑے کردیے گئے تھے کہ ایک ہجوم تھا جس نے انسانی دیوار کی شکل اختیار کر لی تھی، ان میں جرنیلوں نے شہر کے لوگوں کو دیوار پر کھڑا کردیا تھا اور ان میں عورتیں بھی تھیں اور عورتوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے چہرے باہر کی طرف نہ رکھیں بلکہ پیٹھ باہر کو رکھیں تاکہ مسلمانوں کو یہ یقین ہو کہ یہ عورتیں نہیں بلکہ مرد ہیں، یہ ہجوم دراصل مجاہدین کو ڈرانے کے لئے دیوار پر کھڑا کیا گیا تھا کہ دیکھ لو ہماری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ تم یہ شہر فتح نہیں کر سکتے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کے حکم سے ایک بلند آواز مجاہد آگے چلا گیا اور اس نے بڑی ہی بلند آواز سے رومیوں سے کہا کہ ہم تعداد سے ڈرنے والے نہیں اگر ہم جنگی طاقت اور تعداد سے ڈر جاتے تو مصر میں داخل ہی نہ ہوتے،،،،، یہ مجاہد واپس آگیا ،عمرو بن عاص نے بلند آواز سے اپنے لشکر سے کہا کہ تعداد سے نہ ڈرو ،لڑنے والے یوں اوچھی حرکتوں اور باتوں سے ڈرایا نہیں کرتے وہ لڑا کرتے ہیں، ان رومیوں کے اس مظاہرے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ خود ڈرے ہوئے ہیں، خدا کی قسم آج ہم قلعے میں داخل ہو ہی جائیں گے۔
اس کے فوراً بعد سپہ سالار نے بڑی تیز اور شدید یلغار کا حکم دے دیا، رومیوں نے دیوار پر شہریوں کے ہجوم کو اکٹھا کرکے بڑی ہی حماقت کا مظاہرہ کیا تھا ،جب مجاہدین نے ہلہ بولا تو دیوار کے تیر اندازوں اور منجنیقوں کا جو خطرہ تھا وہ اس طرح کم ہو گیا کہ ان کا اپنا ہی ہجوم ان کے لیے رکاوٹ بن گیا، تیروں اور پتھروں سے بچنے کے لیے مجاہدین نے یہ طریقہ بھی اختیار کیا کہ بڑی ہی تیزی سے رومیوں پر جھپٹ پڑے لڑائی کی صورت ایسی پیدا ہوگئی کہ کسی بھی منجنیق کا کوئی ایک پتھر بھی نہ آیا اور تیر اندازی بھی خاصی کم رہی ،کیونکہ ان کے اپنے ہی فوجی زد میں آتے تھے۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی