⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟜 𝟙 𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ کوشش جذباتیت کو دبانے اور سسکیاں روکنے کی تھی۔ عیسائی شہری گھروں میں دبکے خوف سے کانپ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی جوان لڑکیوں کو چھپا لیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اکثر لڑکیوں کو مردانہ لباس پہنا دئیے گئے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ مسلمان سپاہی خواتین کی بے حرمتی کا انتقام لینے کے لیے ان کی بیٹیوں کو بے آبرو کریں گے لیکن یورپی مؤرخ لین پول لکھتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے اپنے آپ کو ایسا عالی ظرف اور کشادہ دل کبھی ثابت نہیں کیا جتنا اس وقت کیا۔ جب اس کی فوج صلیبی فوج سے شہر کا قبضہ لے رہی تھی۔ اس کی فوج کے سپاہی اور افسر گلی کوچوں میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے گھوم پھر رہے تھے اور ان کی نظر اس پر تھی کہ کوئی مسلمان شہری کسی عیسائی شہری پر انتقاماً حملہ نہ کردے۔ سلطان ایوبی کے احکام ہی ایسے تھے۔ البتہ کسی عیسائی کو شہر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
سلطان ایوبی سب سے پہلے مسجد اقصیٰ میں گیا۔ جذبات کی شدت سے وہ مسجد کی دہلیز پر گھٹنوں کے بل جیسے گر پڑا ہو۔ وہ دہلیز پر سجدہ ریز ہوگیا اور بہائوالدین شداد اور احمدبیلی مصری کے مطابق سلطان ایوبی کے آنسو اس طرح بہہ رہے تھے کہ اس عظیم مسجد کی دہلیز دھل رہی تھی مسجد کی حالت بہت بری تھی۔ کئی ایک مسلمان حکمرانوں نے وقتاً فوقتاً مسجد میں سونے اور چاندی کے فانون اور شمع دان رکھے تھے، انہوں نے عقیدت کے طور پر مسجد میں طرح طرح کے پیش قیمت تحائف بھی رکھے تھے۔ صلیبی تمام فانون، شمع دان اور قیمتی تحائف اٹھا لے گئے تھے۔ فرش سے جگہ جگہ خارا اور مرمر کی سلیں غائب تھیں۔ مسجد مرمت طلب تھی۔
مرمت کی طرف توجہ دینے سے پہلے سلطان ایوبی نے شکست خوردہ عیسائیوں کے متعلق فیصلہ کرنا ضروری سمجھا، اس نے اپنی مشاورتی مجلس سے مشورہ کیا اور حکم نامہ جاری کیا کہ ہر عیسائی مرد دس اشرفی (دینار) عورت پانچ اشرفی اور ہر بچہ ایک اشرفی زر فدیہ ادا کرکے شہر سے باہر نکل جائے۔ کوئی بھی عیسائی وہاں نہیں رہنا چاہتا تھا۔ برج دائود کے نیچے والا دروازہ کھول دیا گیا، جہاں مسلمان حاکم فدیہ وصول کرنے کے لیے بیٹھ گئے اور عیسائی آبادی کا انخلا شروع ہوگیا۔ سب سے پہلے عیسائیوں کا سربراہ بالیان شہر سے نکلا۔ اس کے پاس انگلستان کے بادشاہ ہنری کی بھیجی ہوئی بے اندازہ رقم تھی۔ اس میں سے اس نے تیس ہزار اشرف طلائی زر فدیہ ادا کی اور اس کے عوض دس ہزار عیسائیوں کو رہا کرالیا۔
باب دائود پر باہر جانے والے عیسائیوں کا تانتا بندھ گیا۔ وہ پورے پورے خاندان کا زرفدیہ ادا کرکے جارہے تھے۔ یہ رواج تھا کہ مفتوحہ شہر کو فوج بری طرح لوٹ لیتی تھی… بیت المقدس تو وہ شہر تھا جہاں صلیبیوں نے فتح کے بعد مسلمانوں کا قتل عام کیا اور ان کے گھر لوٹ لیے اور ان کی بیٹیوں اور مسجدوں کی بے حرمتی کی مگر مسلمانوں نے یہ شہر فتح کیا تو لوٹ مار کے بجائے یوں ہوا کہ سلطان ایوبی کے فوجیوں نے اور باہر سے فوراً پہنچ جانے والے مسلمان تاجروں نے عیسائیوں کے گھروں کا سامان خریدا تاکہ وہ زرفدیہ دینے کے قابل ہوجائیں۔ اس طرح وہ عیسائی خاندان بھی رہا ہوگئے جن کے پاس زر فدیہ پورا نہیں تھا۔
اس موقع پر ایک تضاد دیکھنے میں آیا جو کئی ایک مؤرخوں اور اس دور کے وقائع نگاروں نے بیان کیا ہے۔ بیت المقدس کے سب سے بڑے پادری بطریق اعظم ہرکولیز نے یہ حرکت کی کہ تمام گرجوں کی جمع شدہ رقم اپنے قبضے میں لے لی۔ گرجوں سے سونے کے پیالے اور دیگر پیش قیمت اشیاء چرالیں۔ کہتے ہیں کہ یہ دولت اتنی زیادہ تھی کہ اس سے سینکڑوں غریب عیسائیوں کے خاندانوں کو رہا کرایا جاسکتا تھا مگر ان کے اس سب سے بڑے پادری نے کسی ایک کا بھی زرفدیہ نہ دیا۔ وہ اپنا فدیہ ادا کرکے نکل گیا۔ کسی مسلمان فوجی نے دیکھ لیا کہ یہ شخص بہت سی دولت ساتھ لے جارہا ہے۔ اس فوجی کی رپورٹ پر کسی حاکم نے سلطان ایوبی سے کہا کہ اسے اتنی دولت اور اتنا سونا نہ لے جانے دیا جائے۔
''اگر اس نے زرفدیہ ادا کردیا ہے تو اسے نہ روکا جائے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''میں ان لوگوں سے کہہ چکا ہوں کہ کسی سے فالتو رقم نہیں لی جائے گی جو کوئی جتنا ذاتی سامان ساتھ لے جاسکتا ہے، لے جائے۔ میں اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں ہونے دوں گا''۔
بطریق اعظم اپنے گرجوں سے چرائی ہوئی دولت اور قیمتی سامان لے گیا۔
سلطان ایوبی نے زر فدیہ ادا کرنے کی میعاد چالیس دن مقرر کی تھی۔ چالیس دن پورے ہوئے تو ابھی تک ہزاروں غریب اور نادار عیسائی شہر میں موجود تھے۔ نوے برس پہلے جب صلیبیوں نے بیت المقدس فتح کیا تو دور دور سے عیسائی یہاں آکر آباد ہوگئے تھے۔ انہیںتوقع نہیں تھی کہ کبھی یہاں سے نکلنا بھی پڑے گا۔ یہ حالت دیکھ کر سلطان ایوبی کا بھائی العادل اس کے پاس آیا۔
''محترم سلطان!'' العادل نے کہا… ''آپ جانتے ہیں کہ اس شہر کی فتح میں میرا اور میرے دستوں کا کتنا ہاتھ ہے۔ اس کے عوض مجھے ایک ہزار عیسائی بطور غلام دے دیں''۔
''اتنے غلام کیا کرو گے؟'' سلطان صلاح الدین ایوبی نے پوچھا۔
''یہ میری مرضی پر ہوگا، میں جو چاہوں کروں''۔
سلطان ایوبی نے العادل کو ایک ہزار عیسائی دینے کا حکم دے دیا۔ العادل نے ایک ہزار عیسائی منتخب کیے اور انہیں باب دائود لے جاکر سب کو رہاکردیا۔
''سلطان محترم!'' العادل نے واپس آکر سلطان ایوبی سے کہا… ''میں نے ان تمام عیسائی غلاموں کو شہر سے رخصت کردیا ہے۔ ان کے پاس زرفدیہ نہیں تھا''۔
''میں جانتا تھا، تم ایسا ہی کرو گے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''ورنہ میں تمہیں ایک بھی غلام نہ دیتا۔ انسان انسان کا غلام نہیں ہوسکتا۔ اللہ تمہاری یہ نیکی قبول کرے''۔
یہ واقعات افسانے نہیں، مؤرخوں نے بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ عیسائی عورتوں کا ایک ہجوم سلطان ایوبی کے پاس آیا۔ پتہ چلا کہ یہ ان صلیبی فوجیوں کی بیویاں، بیٹیاں یا بہنیں ہیں جو مارے گئے ہیں یا قید ہوگئے ہیںاور ان کے پاس زرفدیہ نہیں۔ سلطان ایوبی نے سب کو صرف رہا ہی نہ کیا بلکہ انہیں کچھ رقم دے کر رخصت کیا۔ اس کے بعد اس نے عام حکم جاری کردیا کہ تمام عیسائیوں کو جو شہر میں رہ گئے ہیں، زرفدیہ معاف کیا جاتا ہے، وہ جاسکتے ہیں۔ صلیبیوں کی صرف فوج قید میں رہی۔
اس سے پہلے سلطان ایوبی نے مسجد اقصیٰ کی صفائی اور مرمت کروائی تھی۔ اس دور کی تحریروں کے مطابق سلطان ایوبی خود سپاہیوں کے ساتھ اینٹیں اور گارا اٹھاتا رہا۔ ١٩اکتوبر ١١٨٧ء جمعہ کا مبارک دن تھا۔ سلطان ایوبی جمعہ کی نماز کے لیے مسجد اقصیٰ میں گیا تو وہ منبر جو نورالدین زنگی مرحوم نے بنوایا تھا اور مرحوم کی بیوہ اور بیٹی لائی تھی، اس کے ساتھ تھا۔ اس نے منبر اپنے ہاتھوں مسجد میں رکھا۔ جمعہ کا خطبہ دمشق سے آئے ہوئے ایک خطیب نے پڑھا۔
اس کے بعد سلطان ایوبی نے مسجد اقصیٰ کی آرائش کی طرف توجہ دی۔ مرمر کے پتھر منگوا کر فرش میں لگوائے اور مسجد کو جی بھر کر خوبصورت بنایا۔ وہ خوبصورت پتھر جو سلطان ایوبی نے اپنے ہاتھوں لگوائے تھے، آج بھی مسجد اقصیٰ میں موجود ہیں اور ان کی خوبصورت میں کوئی فرق نہیں آیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بیت المقدس کی فتح تاریخ اسلام کا بہت بڑا واقعہ اور عظیم کارنامہ تھی مگر سلطان ایوبی کا جہاد ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اسے سرزمین عرب اور فلسطین کو صلیبیوں سے پاک کرنا تھا۔ اس نے بیت المقدس کو جہاں ایک مضبوط چھائونی اور عسکری مستقر بنایا، وہاں اس مقدس مقام کو علم وفضل کا مرکز بنا دیا۔ ٥رمضان المبارک ٥٧٣ہجری (٨نومبر ١١٨٧ئ) کے روز اس نے بیت المقدس سے کوچ کیا۔ اس کا رخ شمال کی طرف تھا۔ اس نے اپنے بیٹے الملک الظاہر کو جو کسی اور جگہ تھا، پیغام بھیجا کہ اپنے دستے لے کراس کے پاس آئے۔ سلطان ٹائر پر حملہ کرنے جارہا تھا۔ یہ صلیبیوں کی مضبوط چھائونی تھی اور بندرگاہ تھی۔ سلطان ایوبی نے بحریہ کے کمانڈر الفارس بیدرون کو پیغام بھیجا کہ وہ ٹائر سے کچھ دور تک آجائے اور جب سلطان اس شہر کا محاصرہ کرے تو الفارس صلیبی بیڑے پر حملہ کردے۔ سلطان ایوبی نے الفارس کو حملے کے جو دن بتائے وہ دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع کے تھے۔
جاسوس اس وقت تک بحیرۂ روم کی تہہ میں مچھلیوں کی خوراک بن چکا تھا اور رئوف کرد اس کے اس انجام سے اچھی طرح واقف تھا۔ کچھ روز پہلے جاسوس نے رئوف کرد سے کہا تھا کہ ان لڑکیوں کو وہ یہاں نہیں رہنے دے گا۔ اس نے دیکھا تھا کہ جب جہاز ساحل کے قریب لنگر انداز ہوتا ہے تو چھوٹی چھوٹی کشتیاں اس کے قریب آجاتی اور ماہی گیر قسم کے لوگ مختلف چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ ان میں ایک آدمی کو اس نے تین چار جگہوں پر دیکھا تھا۔ لڑکیاں اسے رسے کی سڑھی لٹکا کر اوپر بلاتی ہیں اور اس سے کچھ خریدنے کے بجائے اس کے ساتھ باتیں کرتی رہتی ہیں۔ جہاز اگر دس پندرہ میل دور ساحل کے ساتھ کہیں لنگر انداز ہوا تو وہاں بھی یہ آدمی کشتی لے کر آگیا۔ جاسوس کو اس آدمی پر شک تھا۔
فلوری نے رئوف کرد کی عقل مار ڈالی تھی۔ وہ اس سے راز کی باتیں پوچھتی اور وہ اسے سب کچھ بتا دیتا تھا۔ الفارس بہت مصروف رہتا تھا۔ وہ دوسرے جہازوں میں بھی چلا جاتا تھا۔ ایک روز رئوف کرد نے فلوری کے طلسم سے مسحور ہوکر اسے بتا دیا کہ جہاز میں ایک خطرناک آدمی ہے، اس کے ساتھ کوئی بات نہ کرنا۔ رئوف کرد ان لڑکیوں کو ابھی تک خانہ بدوش سمجھ رہا تھا اور وہ ان کے اصلی ناموں، فلوری اور روزی سے واقف نہیں تھا۔ لڑکیاں دراصل تجربہ کار جاسوس تھیں۔ وہ سمجھ گئیں کہ جس آدمی کے متعلق رئوف کردن ے بات کی ہے وہ جاسوس ہے۔ رئوف کرد کو گوارا نہ تھا کہ فلوری جہاز سے چلی جائے۔ اس نے ان لڑکیوں کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ جاسوس ہے۔
ایک رات الفارس کسی دوسرے جہاز میں گیا ہوا تھا۔ آدھی رات کے وقت رئوف کرد اور فلوری عرشے پر جنگلے کے ساتھ ایسی جگہ چھپے ہوئے تھے جہاں پیچھے اور دائیں بائیں سامان پڑا تھا۔ حسن بن عبداللہ کا جاسوس دانستہ یا اتفاقیہ ادھر آنکلا۔ رئوف کرد گھبرانے یا کوئی جھوٹ بولنے کے بجائے اٹھ کر اسے ذرا پرے لے گیا اور کہا کہ وہ اس لڑکی کو لالچ وغیرہ دے کر پوچھ رہا تھا کہ وہ دونوں کون ہیں۔ اس نے جاسوس سے کہا کہ میں چلا جاتا ہوں، تم اس کے پاس بیٹھ جائو اور اپنے تجربے اور علم کے مطابق اس سے باتیں کرکے بھید لو کہ یہ ہیںکون؟
جاسوس کو فلوری کے پاس بھیج کر اس نے روزی کو جا جگایا اور اسے کہا کہ شکار فلاں جگہ ہے، تم بھی چلی جائو۔ میں ادھر ادھر دیکھتا رہوں گا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔
روزی اوپر آئی، رئوف ک رد نے اسے گز بھر لمبی رسی دی اور وہ اس جگہ چلی گئی جہاں جاسوس اور فلوری بیٹھے تھے۔ وہاں اندھیرا تھا۔ روزی ان کے پاس بیٹھ گئی۔ جاسوس گپ شپ کے انداز سے ان کی اصلیت کا بھید حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ روزی نے رسی اس کی گردن کے گرد لپیٹ دی۔ لڑکیاں تربیت یافتہ تھیں۔ فلوری نے فوراً رسی کا دوسرا سرا پکڑ لیا۔ پیشتر اس کے جاسوس اپنا بچائو کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مارتا، اس کی گردن کا پھندا لڑکیوں نے رسی اپنی اپنی طرف کھینچ کر تنگ کردیا۔ وہ ذرا دیر تڑپا پھر اس کا جسم ساکت ہوگیا۔
رئوف کرد ذرا پرے کھڑا تھا۔ وہاں اگر کوئی ملازم تھا تو اسے اس نے کوئی کام بتا کر وہاں سے ہٹا دیا تھا۔ لڑکیوں نے جاسوس کی لاش سمندر میں پھینک دی۔ روزی چلی گئی۔ فلوری وہیں بیٹھی رہی۔ رئوف کرد اس کے پاس چلا گیا اور دونوں ایک دوسرے میں گم ہوگئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
الفارس کو معلوم ہی نہ تھا کہ اس کے جہاز میں کوئی جاسوس آیا یا رئوف کرد نے کسی نئے آدمی کو جہاز میں کسی کام پر لگایا تھا۔ اس کے قتل کے دو چار روز بعد الفارس کو خیال آیا کہ اس کے اپنے اور دوسرے پانچ جہازوں میں جاکر ملاحوں اور سپاہیوں کی کیفیت دیکھی تھی۔ وہ خشکی کی رونق سے دور فراغت اور بے یقینی کیفیت سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ اگر کبھی کبھی بحری معرکہ ہوجایا کرتا تو ان کی ذہنی حالت یہ نہ ہوتی۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ ایک رات وہ تمام جہازوں کو اکٹھا کرکے لنگر ڈال دے گا اور جشن منائے گا۔ ملاح اور سپاہی گائیں بجائیں گے اور سب کواچھا کھانا دیا جائے گا۔
اس نے رئوف کرد اور اپنے ماتحت افسروں سے بات کی۔ اس وقت دونوںلڑکیاں بھی موجود تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ناچیں گی۔ الفارس زندہ دل انسان تھا۔ وہ خود بھی جشن اور راگ رنگ کی ضرورت محسوس کررہا تھا۔ اس نے ابھی کوئی رات مقرر نہ کی، کیونکہ اسے خشکی سے سلطان ایوبی کے قاصد کا انتظار تھا۔ دسمبر کا آخری ہفتہ تھا۔
دو روز بعد قاصد آگیا۔ اس نے بتایا کہ سلطان ایوبی ٹائر سے تھوڑی ہی دور رہ گیا ہے اور الارس اپنے جہازوں کو ٹائر کے قریب لے جائے تاکہ محاصرے کے وقت وہ کم وقت میں ٹائر پہنچ سکے۔ قاصد نے خاص طور پر کہا تھا کہ اب دن اور رات چوکس رہیں کیونکہ صلیبی جہاز قریب ہی موجود ہیں… الفارس نے قاصد کو رخصت کیا اور اس شام اپنے بکھرے ہوئے جہازوں کو ایک جگہ اکٹھا ہونے کا اشارہ دے دیا۔ اس نے رئوف کردکو بتایا کہ چند روز بعد شاید انہیں بحری جنگ لڑنی پڑے، اس لیے دو رات بعد جشن منالیا جائے۔
رئوف کرد نے بتا دیا کہ فلاں رات جہاز اکٹھے ہوں گے اور رونق میلہ ہوگا۔
اینڈریو کی کشتی آتی رہتی تھی۔ حسن بن عبداللہ کے جاسوس نے اسے کئی جگہوں پر دیکھا تھا۔ اب جہاز ساحل کے قریب آکر رکا تو اینڈریو آگیا۔ لڑکیوں نے حسب معمول اسے اوپر بلا لیا اور اس سے کچھ خریدا اور اس کے کان میں یہ قیمتی اطلاع ڈال دی کہ فلاں رات جہاز اکٹھے کھڑے ہوں گے اور عرشوں پر جشن ہوگا۔ اینڈریو دیکھ رہا تھا کہ دور سے الفارس کے دوسرے جہاز آرہے تھے۔ وہ لڑکیوں کو یہ کہہ کر چلا گیا… ''اس رات اسی طرف میری کشتی آجائے گی۔ سیڑھی پھینک کر اتر آنا''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ رات آگئی۔ چھ جہاز بادبان لپیٹے پہلو بہ پہلو کھڑے تھے۔ جہازوں کے کپتان اور دیگر افسر الفارس کے جہاز میں اکٹھے ہوگئے تھے۔ پرتکلف کھانا ہورہا تھا۔ ملاح اور سپاہی اپنے اپنے جہازوں میں ناچ، کوچ اور گا رہے تھے۔ الفارس کے جہاز میں دونوں لڑکیاں رقص کررہی تھیں۔ دف اور ساز موجود تھے۔ جہازوں پر بہت سی مشعلیں جلا دی گئی تھیں۔ رات کو دن بنا دیا گیا تھا۔
یہ رونق جب عروج پر پہنچی تو رات خاصی گزر چکی تھی۔ صلیبیوں کے دس بارہ جنگی جہاز بتیاں بجھائے ہوئے الفارس کے جہازوں کی طرف بڑھے آرہے تھے۔ وہ نئے چاند کی ترتیب میں تھے۔ وہ قریب آگئے تو بھی کسی کو پتہ نہ چلا۔ ادھر چھوٹی سی ایک کشتی الفارس کے جہاز کے قریب ہورہی تھی۔ اچانک الفارس کے جہازوں پر جلتے ہوئے گولے گرنے لگے اور تیروں کی ایسی بوچھاڑیں آئیں کہ کئی ملاح اور سپاہی تڑپنے لگے۔ الفارس اور اس کے کپتانوں نے اس اچانک حملے سے نکلنے کی کوشش کی مگر جہازوں کا ن کالنا ممکن نہ تھا۔ سپاہیوں نے تیروں سے جواب دیا۔ منجنیقوں سے آگ پھینکی۔ ایک صلیبی جہاز کو آگ لگی مگر صلیبی اپنا کام کرچکے تھے۔ ان کے جہاز واپس چلے گئے۔
معرکہ جس طرح اچانک شروع ہوا تھا، اسی طرح اچانک ختم ہوگیا۔ قاضی بہائوالدین شداد کی تحریر کے مطابق الفارس کے پانچ جہاز جل کر تباہ ہوگئے۔ دو کپتان اور بہت سے بحری سپاہی شہید ہوگئے۔ قاضی شداد نے اس کی تاریخ ٢٧شوال ٥٨٣ہجری (٣٠دسمبر ١١٨٧) لکھی ہے۔
چونکہ جہاز جل رہے تھے، اس لیے روشنی بہت تھی۔ کسی نے دیکھا کہ ایک کشتی جارہی ہے جس میں دو مرد اور دو عورتیں تھیں۔ الفارس نیاپنے جہاز سے ایک کشتی اتروائی اور اس کشتی کو پکڑنے کی کوشش کی گئی۔ اس کشتی سے تیر آنے لگے۔ ادھر سے بھی تیر چلے اور کشتی کو گھیر لیا گیا۔ دونوں مرد اور ایک لڑکی تیروں کا نشانہ بن گئی۔ ایک بچ گئی۔ بعد میں اسی لڑکی کے بیان سے تباہی کی اصل حقیقت کھلی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت سلطان ایوبی ٹائر سے کچھ دور خیمہ زن تھا۔ یہاں سے اسے سیدھا ٹائر پر یلغار کرنی تھی۔ کوچ سے ایک ہی روز پہلے اسے اطلاع ملی کہ چھ میں سے پانچ جہاز تباہ ہوگئے ہیں۔ سلطان ایوبی بجھ کر رہ گیا۔ وہ ایسی بری خبر سننے کے لیے تیار نہیں تھا اور وہ اتنی جلدی دل چھوڑنے والا بھی نہیں تھا۔ اس نے پیش قدمی ملتوی کردی اور الفارس اور دوسرے کپتانوں کو بلایا۔ الفارس نے اسے صاف الفاظ میں بتا دیا کہ ملاح اور سپاہی فراغت اور سمندر سے اکتائے ہوئے تھے، اس لیے اس نے جشن کا اہتمام کیا تھا۔
سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں اور مشیروں کا اجلاس بلایا اور یہ صورتحال سب کے سامنے رکھی۔ سب نے یہ مشورہ دیا کہ سخت سردی پڑ رہی ہے اور بارشیں شروع ہوچکی ہیں۔ اس موسم میں جنگ جاری نہیں رکھی جاسکتی۔ اس کے علاوہ سپاہی مسلسل جنگ اور تیز رفتار کوچ اور پیش قدمی سے اتنے تھک چکے تھے کہ انہیں جذبات میں لاکر لڑاتے رہنا ظلم ہے اور اس کا نتیجہ شکست بھی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بحری بیڑے کی تباہی کی مثال دے کر کہا کہ اتنا طویل عرصہ سپاہیوں کو گھروں سے دور رکھنے کے اثرات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیت المقدس کی عظیم فتح ہمارے لیے کوئی اور حادثہ بن جائے۔
سلطان ایوبی ڈکٹیٹر نہیں تھا۔ اس نے یہ مشورہ منظور کرلیا اور حکم دیا کہ مفتوحہ علاقوں سے جو عارضی فوج بنائی گئی تھی، وہ توڑ دی جائے اور ان لوگوں کو کچھ رقم دے کر گھروں کو بھیج دیا جائے۔ اس نے اپنی باقاعدہ فوج کے بھی کچھ حصے کو تھوڑی تھوڑی چھٹی دے کر گھروں کو بھیج دیا اور ٣٠جنوری ١١٨٨ء کے روز عکرہ کو روانہ ہوگیا۔ مارچ ١١٨٨ء تک وہ عکرہ میں رہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صلیبی جنگ عروج کو پہنچ گئی تھی۔ بیت المقدس کی فتح نے سارے یورپ کو زلزلے کے بڑے ہی شدید جھٹکے کی طرح جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی زندگی کا مشن پورا کردیا تھا لیکن بیت المقدس صلیبیوں کے قبضے سے چھڑا لینا ہی کافی نہیں تھا۔ اس مقدس شہر کا دفاع مستحکم کرنا تھا جو صرف شہر کی دیواریں مضبوط کرلینے تک محدود نہیں تھا۔ بیت المقدس کو صلیبیوں سے بچائے رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ اردگرد دور دور کے علاقے پر قبضہ کیا جائے اور ساحل کو بھی اپنی تحویل میں رکھا جائے۔ بہت سے اہم مقامات پر سلطان ایوبی نے پہلے قبضہ کرلیا تھا جو باقی رہ گئے تھے ان پر سلطان ایوبی کی فوج حملے کرتی اور قابض ہوتی چلی جارہی تھی۔
مفتوحہ مقامات سے عیسائی آبادی بھاگتی چلی جارہی تھی جن مقامات پر عیسائیوں کا قبضہ تھا، وہاں انہوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا تھا۔ ان کے لیے مسلمانوں کا قتل عام روزمرہ کا معمول اور مذہبی فریضہ تھا۔ اس کے برعکس سلطان ایوبی جو جگہ فتح کرتا تھا وہاں کے عیسائی باشندوں کو اپنی فوج کے حفاظت میں نکال دیتا تھا، سوائے جنگی قیدیوں یعنی صلیبی فوجیوں کے۔ارض فلسطین کی اب یہ کیفیت تھی کہ سلطان ایوبی ہر ایک دستے کو خواہ وہ اس کے ہیڈکوارٹر سے کتنی ہی دور کیوں نہ تھا، رابطے اور اپنے احکام کا پابند رکھے ہوئے تھا۔ چھاپہ مار جیش عقابوں اور چیتوں کی طرح پہاڑیوں، جنگلوں اور صحرائوںمیں گ ھومتے پھرتے رہتے تھے، جہاں انہیں صلیبی فوج کا کوئی دستہ یا رسد کا قافلہ نظر آیا، وہ اس پر ٹوٹ پڑتے، شب خون مارتے اور انہیں ہلاک، زخمی اور تتر بتر کرکے ان کے گھوڑے، اسلحہ اور رسد اٹھا لاتے۔
ان چھاپہ ماروں نے جو شب خون مارے، وہ ہماری تاریخ کی ولولہ انگیز، ایمان افروز اور مافوق الفطرت شجاعت کی داستانیں ہیں۔ ہر ایک کا بیان شروع ہوجائے تو یہ یہ داستان بڑی لمبی مدت تک ختم نہ ہو۔ یہ ارض فلسطین کے پاسبان تھے جو اکیلے اکیلے، دو دو اور چار چار کی ٹولیوں میں کئی کئی سو نفری کے دستوں اور دشمن کے کیمپوں پر شب خون مارتے اور شب کی تاریکی میں گم یا اپنے خون میں ڈوب جاتے تھے۔ انہوں نے دشمن سے رسد چھین کر اپنی فوجوں کو دی اور خود دشمن کی تلاش میں بھوکے بھٹکتے رہے، لڑتے اور کٹتے رہے، اپنی لگائی ہوئی آگ میں زندہ جلتے رہے۔ انہیں کفن نصیب نہ ہوئے، کسی نے ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی اور وہ کسی قبر میں دفن نہ ہوئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ قہر تھے جو دشمن پر ٹوٹتے رہے۔ انہی کے بھروسے سلطان ایوبی بیت المقدس کی فتح کے بعد پورے فلسطین میں شیر کی طرح دندناتا، دھاڑتا اور گرجتا رہا۔ سلطان ایوبی کی ان گوریلا اور کمانڈو (چھاپہ مار) پارٹیوں کے متعلق مشہورومعروف یورپی مؤرخ لین پول لکھتا ہے… ''یہ بے دین (مسلمان) ہماری نائٹوں (جنگجو سرداروں) کی طرح وزنی زرہ بکتر نہیں پہنتے تھے لیکن ہمارے زرہ پوش نائٹوں کو ناکوں چنے چبوا دیتے تھے۔ ان پر حملہ کیا جاتا تو بھاگتے نہیں تھے۔ ان کے گھوڑے ساری دنیا میں تیز رفتار مانے گئے تھے۔ وہ جب دیکھتے تھے کہ (صلیبی) ان کے تعاقب سے ہٹ گئے ہیں تو وہ پھر واپس آجاتے تھے۔ ان (مسلمان چھاپہ ماروں) کی حالت ان کبھی نہ تھکنے والی مکھیوں جیسی تھی جنہیں اڑائو تو ایک لمحے کے لیے اڑ کر پھر تمہارے اوپر بیٹھ جاتی ہیں، اگر انہیں ہر وقت دور رکھنے کی کوشش کرتے رہو تو وہ دور رہتے تھے۔ جونہی یہ کوشش ترک کردی جاتی، وہ شب خون مارجاتے… وہ پہاڑی علاقے کی طوفانی بارش کی طرح چھوٹی چھوٹی پارٹیوں میں آتے اور صلیبی فوج کی ترتیب توڑ کر غائب ہوجائے۔ ہمارے نائٹوں کو وہ قدم قدم پر پریشان کرتے اور ہماری فوج کی پیش قدمی کو سست کیے رکھتے''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ خطہ جو آج اسرائیل کہلاتا ہے، سلطان ایوبی کے دور میں ارض مقدس تھا جسے صلیبیوں سے پاک کرنے کے لیے اللہ کے ایک ایک سپاہی نے وہاں اپنے خون کا نذرانہ دیا۔ سلطان ایوبی نے بعض بستیاں تباہ وبرباد کرادی تھیں۔ بعض اوقات یوں لگتا تھا جیسے اس کے دل میں رحم کا ایک ذرہ بھی نہیں رہا لیکن اس نے رحم دلی کے ایسے مظاہرے کیے کہ صلیبی مؤرخوں نے بھی اسے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس سے رحم کی بھیک مانگنے کے لیے صلیبیوں کی ایک ملکہ بھی آئی اور ایک غریب صلیبی عورت بھی۔
صلیبی ملکہ کا نام سبیلا تھا۔ وہ مشہور حکمران ریمانڈ کی بیوی تھی۔ جنگ حطین کے وقت وہ طبریہ کے قلعے کی ملکہ تھی۔ آپ پچھلی اقساط میں پڑھ چکے ہیں کہ ر یمانڈ جنگ حطین کے میدان سے بھاگ گیا تھا۔ اس کی بیوی نے طبریہ کا قلعہ سلطان ایوبی کے حوالے کردیا تھا اور سلطان ایوبی نے اسے قید نہیں کیا تھا۔ اسی جنگ میں سلطان ایوبی نے بیت المقدس کے حکمران گائی آف لوزینان کو جنگی قیدی بنا لیا تھا۔ بیت المقدس کی فتح کے بعد جب سلطان ایوبی عکرہ کے مقام پر خیمہ زن تھا، اسے اطلاع ملی کہ ملکہ سبیلا اسے ملنے آرہی ہے۔ سلطان ایوبی نے اسے آنے سے نہ روکا بلکہ آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا۔
''صلاح الدین!''… مبلکہ سبیلا جو شکست کھا چکنے کے بعد بھی ملکہ ہی کہلانا پسند کرتی تھی، کیونکہ اپنے خاوند کے قتل کے بعد وہ تریپولی کی حکمران تھی، بولی… ''کیا آپ کو معلوم ہے کہ کتنے ہزار یا کتنے لاکھ عیسائی گھروں سے بے گھر ہوگئے ہیں؟ ان پر ظلم آپ کے حکم سے ہوا ہے''۔
''اور جن بے گناہ مسلمانوں کا آپ نے قتل عام کرایا اور کرایا جارہا ہے، وہ کس کے حکم سے کرایا جارہا ہے؟''… سلطان ایوبی نے اس کا جواب سنے بغیر کہا… ''اگر میں خون کا بدلہ خون سے لوں تو ایک بھی عیسائی زندہ نہ رہے… آپ کیوں آئی ہیں؟… یہی شکایت مجھ تک پہنچانے؟''
''نہیں''۔ ملکہ سبیلا نے جواب دیا… ''میں ایک درخواست لے کر آئی ہوں… گائی آف لوزینان آپ کے پاس جنگی قیدی ہے، میں اسے رہا کرانے آئی ہوں''۔
''میں آپ سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ آپ اسے کیوں رہا کرانا چاہتی ہیں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں یہ ضرور پوچھوں گا کہ کس شرط پر میں اسے رہا کروں؟''
''اگر آپ کا بیٹا یا بھائی قید ہوجائے تو کیا آپ اسے رہا کرانے کی کوشش نہیں کریں گے؟''… ملکہ سبیلا نے پوچھا۔
''میرے وہ کمان دار، عہدے دار اور سپاہی جو آپ کے جنگی قیدی ہیں، وہ سب میرے بیٹے اور میرے بھائی ہیں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''اگر میں خود قید ہوگیا تو میں بھی آپ سے رہائی کی بھیک نہیں مانگوں گا۔ میرا کوئی بیٹا اور میرا کوئی بھائی میری رہائی کے لیے آپ کے پاس نہیں جائے گا''۔
''صلاح الدین!'' ملکہ سبیلا نے کہا… ''آپ خود بادشاہ ہیں۔ کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ ایک بادشاہ کا قید میں پڑے رہنا، اس کی کتنی توہین ہے۔ وہ یروشلم اور گردونواح کے دور دور کے علاقے کا حکمران تھا''۔
''یروشلم نہیں بیت المقدس''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا… ''گائی اس خطے کا غاصب تھا، کسی غاصب کو ہم بادشاہ نہیں کہا کرتے۔ اگر آپ یہ کہتیں کہ وہ اسلام کا خاتمہ کرکے یہاں صلیب کی حکمرانی قائم کرنے آیا تھا تو میں آپ کی بھی اور اس کی بھی قدر کرتا۔ میں ہر اس انسان کی قدر دل وجان سے کرتا ہوں جو اپنے مذہب اور عقیدے کا قدر دان ہوتا ہے۔ اس کا مذہب چاہے بے بنیاد اور جھوٹے عقیدوں کا ہی مجموعہ کیوں نہ ہو۔ میں نہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہوں، نہ کسی کی بادشاہی کو تسلیم کرتا ہوں۔ بادشاہی صرف اللہ کی ذات کی ہے اور ہم اس کی بادشاہی کے محافظ ہیں۔ ہم اللہ کے سپاہی ہیں''۔
''ہم بھی خدا کی حکمرانی کے لیے کوشاں ہیں''… ملکہ سبیلا نے کہا۔
''اگر آپ اس خدا کی قائل ہوتیں جس کا میں قائل ہوں تو آپ ایک بادشاہ کی رہائی کے بجائے یہ درخواست لے کرآتیں کہ اس بادشاہ کے سپاہیوں کو رہا کردو''۔ سلطان نے کہا… ''آپ کو اس سے انکار نہیں ہونا چاہیے کہ یہ خطہ ہمارا ہے، آپ کا نہیں۔ یہاں صلیبی امن پسند باشندوں کی طرح رہ سکتے ہیں، بادشاہ بن کر نہیں۔ اپنے صلیبی دوستوں کو بتا دیں کہ انسانوں کی قتل وغارت سے باز آجائو اور یہاں سے نکل جائو۔ آپ کا ہر حربہ ناکام ہوچکا ہے۔ آپ نے اپنی معصوم بیٹیوں کو گناہوں کی تربیت دی اور ان کی عصمتیں دائو پر لگائیں۔ آپ نے ہمارے مذہبی پیشوائوں کے بہروپ میں اپنے تخریب کار بھیج کر میری قوم کے عقیدوں کو مجروح کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے زروجواہرات، شراب اور دلکش لڑکیوں کے ذریعے میری قوم میں غداری کا بیج بویا اور خانہ جنگی کرائی۔ آپ نے حشیشین سے مجھ قتل کرانے کی کئی بار کوشش کی۔ آپ نے مسلمانوں میں خانہ جنگی کرائی اور ہماری جنگی طاقت کو تباہ کردیا… ہاں ملکہ صلیب میں اعتراف کرتا ہوں کہ آپ اس میں کامیاب ہوئیں کہ اسلامی سلطنت کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا اور مسلمان نے مسلمان کا خون بہایا''…
''میں جانتا ہوں کہ آپ اس کے بعد میرے پاس نہیں آئیں گی''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ آپ میرے اس خیمے سے ہی ہمیشہ کے لیے نہیں چلی جائیں گی بلکہ آپ اس خطے سے جارہی ہیں، پھر آپ کبھی ادھر کا رخ نہیں کریں گی۔ آپ جب ادھر کا کبھی رخ کریں گی تو بحیرۂ روم کا پانی آپ کے جہازوں کے لیے ابلتا ہوا سمندر بن جائے گا۔ میں آپ کو کسی بحث میں الجھانا نہیں چاہتا، آپ کو ایک پیغام دے رہا ہوں اور آپ سے یہ د رخواست کرتا ہوں کہ یہ پیغام اپنی صلیب کے تمام پجاریوں تک پہنچا دینا''…
''کہاں ہے آپ کی صلیب الصلبوت جس پر آپ سب حلف اٹھا کر آئے تھے کہ سرزمین عرب کو تہہ تیغ کریں گے۔ مسجد اقصیٰ اور خانہ کعبہ کو مسمار کرکے اپنی عبادت گاہیں بنائیں گے؟… وہ صلیب میرے قبضے میں ہے اور آپ کے عزائم میرے رحم وکرم پر ہیں۔ آپ جسے یروشلم کہتے ہیں، وہ پھر بیت المقدس ہے اور ہمیشہ بیت المقدس رہے گا''۔
''آپ کی فوج بہتر اور زیادہ ہے''… ملکہ سبیلا نے کہا… ''ہماری فوج کی قیادت ناقص ہے''۔
''حقیقت سے چشم پوشی نہ کرو ملکہ!''… سلطان ا یوبی نے کہا… ''اپنے آپ کو دھوکہ نہ دو۔ خود فریبی شکست کی علامت ہوتی ہے۔ میری فوج کبھی بھی صلیب کی فوج سے زیادہ نہیں ہوئی۔ کبھی بہتر بھی نہیں ہوئی۔ میری فوج کو کبھی زرہ نصیب نہیں ہوئی۔ میرے سالاروں کو ایسی حسین لڑکیاں کبھی نہیں ملیں جو آپ کے سالاروں کے خیموں میں رہتی ہیں۔ میری فوج کا اسلحہ آپ سے بہتر نہیں۔ البتہ راز کی ایک بات آپ کو بتا دیتا ہوں۔ میری فوج کے پاس صرف ایک قوت ہے جس سے آپ کی فوج محروم ہے۔ اسے ہم ایمان اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں۔ اگر آپ کا عقیدہ سچا ہوتا تو آپ کی قوم خدا کو عزیز ہوتی مگر اس خدا کو جو وحدہ لاشریک ہے، آپ نے ایک بیٹے کا باپ بنا رکھا ہے۔ آپ خدا کو انسان کی سطح پر لے آئے ہیں اور اس کی حکومت کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے آپ کو بادشاہ کہتے اور کہلاتے ہیں''۔
''کیا آپ مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں؟''۔ ملکہ سبیلا نے کہا۔
''ملکہ سبیلا!''… سلطان ایوبی نے اس کے لہجے میں طنز کی جھلک دیکھتے ہوئے کہا… ''میرے خدا نے قرآن کی معرفت مجھے بتایا ہے کہ ہم نے انہیں دماغ دیئے ہیں لیکن وہ سوچتے نہیں، ہم نے انہیں آنکھیں دی ہیں لیکن وہ دیکھتے نہیں، ہم نے انہیں کان دئیے ہیں لیکن وہ سنتے نہیں… اور خدائے ذوالجلال نے فرمایا ہے کہ ہم ان لوگوں کو جب سزا دینے پر آتے ہیں تو ان کے دلوں اور دماغوں پر مہر ثبت کردیتے ہیں… آپ اسلام قبول نہ کریں۔ میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ فتح اسے ملتی ہے جس کے دل میں ایمان ہوتا ہے۔ میری قوم کے قائدین کے دلوں سے جب آپ نے دولت، عورت اور شراب کے ذریعے ایمان نکال دیا تھا تو ہم آپس میں لڑتے اور ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے۔ خدا نے ہمیں سزا دی۔ ساری قوم گناہ گار نہیں ہوا کرتی، قائدین گناہ گار ہوتے ہیں مگر سزا پوری قوم کو ملتی ہے۔ قوم گناہ گار نہیں ہوتی، اسے گمراہ کیا جاتا ہے''…
''میری اصل قوت یہ ہے کہ میں نے شکست کھائی تو اس کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ میں نے اپنے سالاروں سے بھی یہی کہا کہ غلطی ہے تو ہم سب کی۔ بدقسمتی ہے تو ہم سب کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں شکست ہوئی ہے اور اب قومی وقار کا تقاضا یہ ہے کہ شکست کو فتح میں بدلو۔ اگر شکست کی ذمہ داری ایک دوسرے پر پھینکتے اور اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرتے رہو گے تو ایک اور شکست سے دوچار ہوگے اور سلطنت اسلامیہ جو آج دو دھڑوں میں بٹ گئی ہے، کل کئی ٹکڑوں میں بٹے گی اور کفار ایک ایک ٹکڑے کو نگل لیں گے… محترمہ! ہماری خانہ جنگی کا ذمہ دار الملک الصالح تھا یا سیف الدین غازی، آپ تھے یا گمشتگین مگر میں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ یہ بھی میری ذمہ داری ہے۔ میں نے ہر حربہ استعمال کیا اور اللہ کے سپاہیوں نے اپنے خون سے سلطنت کے ٹکڑے جوڑ دئیے۔ خون سے جوڑے ہوئے ٹکڑے پھر کبھی الگ نہیں ہوتے ملکہ سبیلا!… آج دیکھ لیں، وہ وقت یاد کریں جب آپ کی فوجیں مدینہ منورہ تک جا پہنچی تھیں مگر آپ میرے پاس اپنے ایک بادشاہ کی رہائی کی بھیک مانگ رہی ہیں۔ یہ کس عمل کا نتیجہ ہے؟… صرف اس عمل کا کہ اللہ کی ذات نے مجھ پر جو فرض عائد کیا تھا، وہ میں نے جان کی بازی لگا کر ادا کیا اور اللہ نے مجھے انعام سے نوازا''۔
ملکہ سبیلا سلطان ایوبی کی باتیں انہماک سے سن رہی تھی لیکن اس کے ہونٹوں پر جن میں جوانی، کشش اور حسن ابھی قائم تھا، طنزیہ سی مسکراہٹ تھی۔
''میں آپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت نہیں دے رہا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''آپ کی مسکراہٹ بتا رہی ہے کہ میرے خیمے سے نکل کر آپ میری باتوں کو ذہن سے اس طرح پھینک دیں گی جس طرح آپ کی فوج نے حطین اور بیت المقدس میں ہتھیار پھینکے تھے، میں آپ کو یہ باتیں صرف اس لیے سنا رہا ہوں کہ یہ میرے خدا اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے کہ جن کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے، ان کی پٹی کھول دو اور انہیں دکھائو کہ حق کیا اور باطل کیا ہے… غور کرو ملکہ محترمہ! آپ کے خاوند نے حسن بن صباح کے فدائیوں سے مجھے قتل کرانے کے لیے چار قاتلانہ حملے کرائے۔ ایک بار میں گہری نیند سویا ہوا تھا، جب انہوں نے مجھ پر حملہ کیا لیکن ہوا کیا؟ وہ خود قتل ہوگئے۔ ایک بار میں ا کیلا ان کے گھیر ے میں آگیا تھا لیکن میں بچ گیا اور وہ مارے گئے… اور اب آپ اس حقیقت سے کس طرح انکار کرسکتی ہیں کہ آپ کا خاوند جو مجھے فدائیوں سے قتل کرانے کی کوشش کرتا رہا، انہی کے ہاتھوں خود قتل ہوا۔ اسے کوئی نہ بچا سکا''…
''غور سے سنو ملکہ! حطین کے میدان سے آپ کا خاوند لڑے بغیر بھاگ گیا۔ آپ نے لڑے بغیر طبریہ کا قلعہ میرے حوالے کردیا۔ آپ سب نے جس صلیب الصلبوت پر لڑنے اور لڑتے ہوئے مرنے کی قسم کھائی تھی۔ وہ اسی میدان جنگ میں آپ کے اسی پادری کے خون میں ڈوب گئی جسے آپ اس صلیب کامحافظ اعظم کہتے تھے۔ یہ صلیب اب میرے قبضے میں ہے اور آپ میرے پاس التجا لے کر آئی ہیں کہ گائی کو رہا کردوں''۔
''آپ مجھے یہ باتیں کیوں یاد دلا رہے ہیں؟'' ملکہ سبیلا نے جھنجھلا کر کہا۔
''اس لیے کہ آپ خدا کے ان واضح اشاروں کو سمجھیں''۔ سلطان ایوبی نے جواب دیا۔ ''آپ کی آنکھوں پر شہنشاہیت کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ آپ کو شہنشاہیت پر بھروسہ ہے اور آپ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کریں گی کہ آپ کو اس پر بھی ناز ہے کہ آپ عورت ہیں اور حسین عورت ہیں۔ میں یہ کہہ کر آپ کو خوش کرسکتا ہوں کہ آپ واقعی حسین ہیں مگر یہ کہہ کر آپ کو مایوس کروں گا کہ میں کوئی فیصلہ آپ کے حسن سے متاثر ہوکر نہیں کروں گا۔ آپ کا یہ نیم عریاں جسم مجھے صراطِ مستقیم سے ہٹا نہیں سکتا''۔
ملکہ سبیلا ایک عام عورت کی طرح ہنس پڑی اور بولی… ''مجھے بتایا گیا تھا کہ آپ پتھر ہیں''۔
سلطان ا یوبی نے مسکرا کر کہا… ''آپ کے لیے میں یقینا پتھر ہوں مگر میں ایسا موم ہوں جو ایمان کی حرارت سے پگھل جاتا ہے اور اسے رحم کا جذبہ بھی پگھلا دیتا ہے۔ جسمانی لذت اور آسائش انسان کو نہ اپنے کام کا رہنے دیتی ہے، نہ قوم کے کام کا اور اسے خدا بھی دھتکار دیتا ہے''۔
''میں آپ کے دل میں رحم کا جذبہ ہی بیدار کرنے آئی ہوں''… ملکہ سبیلا نے کہا… ''گائی کو رہا کردیں، میں نے سنا ہے کہ سچے مسلمان کے گھر اس کا دشمن چلا جائے تو وہ اسے بھی بخش دیتا ہے''۔
اس کے بعد ملکہ سبیلا منت سماجت پر آگئی۔ سلطان ایوبی نے اسے کہا کہ وہ گائی کو اس شرط پر چھوڑ دے گا کہ وہ تحریری عہد کرے کہ میرے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے گا۔ ملکہ سبیلا نے کہا کہ تحریری عہد نامہ دیا جائے گا اور یہ بھی تحریر کردیا جائے گا کہ گائی اس عہد سے پھر جائے اور پھر کبھی گرفتار ہوجائے تو اسے قتل کردیا جائے۔ آخر یہی طے ہوا۔ ملکہ سبیلا چلی گئی۔ سلطان ایوبی نے اسی روز گائی آف لوزنیان کی رہائی کا حکم نامہ قاصد کو دے کر دمشق روانہ کردیا۔ تین چار دنوں بعد گائی کو سلطان ایوبی کے پاس لایا گیا۔ سلطان ایوبی نے اپنے ترجمان سے جس کی معرفت وہ صلیبیوں کے ساتھ بات چیت کیا کرتا اور ان کی سمجھا کرتا تھا، کہا کہ اسے اس عہد نامے کا ترجمہ اس کی زبان میں سنا دو اور اگر یہ چاہے کہ اس کا ترجمہ اس کی زبان میں بھی تحریر کیا جائے تو کردو اور اس پر اس کے دستخط کرالو۔
''اور اسے یہ بھی کہہ دو کہ میں اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کرنا چاہتا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اسے کہہ دو کہ میں جانتا ہوں کہ یہ عہدنامے کی خلاف ورزی کرے گا اور میرے خلاف لڑے گا۔ اسے کہہ دو کہ میں نے ملکہ سبیلا سے متاثر ہوکر اسے رہا نہیں کیا۔ میں اسے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں اس جیسے گناہ گار آدمی کو بھی بخش سکتا ہوں میں اللہ کی راہ میں لڑ رہا ہوں، کسی سے میں ذاتی انتقام نہیں لینا چاہتا… اور یہ جہاں جانا چاہتا ہے، وہاں تک اسے محافظوں کی حفاظت میں پہنچا دو''۔
گائی آف لوزینان جو بیت المقدس کا حکمران تھا اور جنگ حطین میں جنگی قیدی ہوا تھا، عہدنامے پر دستخط کرکے سلطان ایوبی کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ سلطان نے ہاتھ بڑھایا۔ گائی نے پرجوش طریقے سے ہاتھ ملایا اور کہا… ''ایوبی! تم عظیم ہو''… اور خیمے سے نکل گیا۔
گائی کی رہائی کو یورپی مؤرخوں نے کھل کر بیان کیا ہے اور اسے ملکہ سبیلا کا کارنامہ لکھا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے ملکہ سبیلا سے متاثر ہوکر اور گائی کو اپنے جیسا بادشاہ سمجھ کر رہا کیا تھا اور جیسے اسے عام اور غریب لوگوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ قاضی بہائوالدین شداد نے جو صلیبی جنگوں میں سلطان ایوبی کے ساتھ تھا اور اس کی وفات تک اس کے ساتھ رہا، اپنی یادداشتوں میں ایک غریب عیسائی عورت کا واقعہ تحریر کیا ہے۔
یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب گائی آف لوزینان کی رہائی کے بعد صلیبیوں نے ساحلی شہر عکرہ کا محاصرہ کررکھا تھا۔ (اس محاصرے کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا) صلیبی فوج کے کیمپ کے ساتھ ہی ان عیسائی شہریوں کا کیمپ تھا جو دوسری جگہوں اور بیت المقدس سے نکل کر یہاں جمع ہوگئے تھے۔ محاصرہ دو سال طویل ہوگیا تھا۔ سلطان ایوبی کے ایک تو چھاپہ مار تھے جو محاصرہ کرنے والی صلیبی فوج کے کسی نہ کسی حصے پر شب خون مارتے رہتے تھے، دوسرے کچھ غیرفوجی مسلمان تھے جو انہی علاقوں کے رہنے والے تھے۔ انہیں اجازت دی گئی تھی کہ صلیبی فوج کو پریشان کرتے رہیں، چونکہ عیسائی شہری اپنی فوج کے ساتھ تھے، اس لیے وہ فوج کی بہت مدد کرتے تھے۔
مسلمان غیرفوجی گروہ ان عیسائی شہریوں کو بھی پریشان کرتے رہتے تھے۔ رات کو ان کے کیمپ میں گھس جاتے اور ان کا سامان اٹھا لاتے تھے۔ کبھی کبھی وہ ایک دو عیسائیوں کو بھی اٹھا لاتے اور انہیں جنگی قید میں دے دیتے۔ عیسائی شہری اپنی فوج سے شکایت کرتے رہتے تھے کہ ''مسلمان چور اور ڈاکو'' رات کو آکر ان کا سامان چوری کرلیتے ہیں۔ فوج نے پہرے کا انتظام کردیا۔ اس کے باوجود ''چوری چکاری'' اور اغوا کا سلسلہ جاری رہا۔
ایک رات ایک آدمی عیسائیوں کے کیمپ سے تین ماہ عمر ایک بچی اٹھا لایا۔ ماں کی یہ ایک ہی بچی تھی اور وہ بھی دودھ پیتی بچی۔ اس نے واویلا بپا کردیا۔ وہ صلیبی کمانڈروں کے پاس گئی۔ وہ پاگل ہوئی جارہی تھی۔ کسی کے ہاتھ نہیں آتی تھی۔ صلیبیوں کے اعلیٰ کمانڈر تک وہ جاپہنچی۔ اس نے اس عورت کو اجازت دے دی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا کیمپ قریب ہی ہے، اس کے پاس چلی جائو۔ سب کو یقین تھا کہ بچی کو مسلمان اٹھا لے گئے ہیں۔
مامتا کی ماری ہوئی ماں پوچھتی بھٹکتی سلطان ایوبی کے کیمپ میں آن پہنچی۔ قاضی بہائوالدین شداد لکھتا ہے کہ اس وقت وہ سلطان ایوبی کے پاس کھڑا تھا اور سلطان کہیں جانے کے لیے گھوڑے پر سوار ہوچکا تھا۔ کسی نے اسے بتایا کہ ایک غریب سی عیسائی عورت روتی آئی ہے اور سلطان سے ملنا چاہتی ہے۔ سلطان ایوبی نے کہا کہ اسے فوراً لے آئو، اس پر یقینا ہماری طرف سے زیادتی ہوئی ہوگی۔
عورت جب سلطان ایوبی کے سامنے آئی تو وہ گھوڑے کے قریب زمین پر پیٹ کے بل لیٹ گئی۔ وہ بار بار ماتھا مین پر رگڑتی اور روتی تھی۔ سلطان ایوبی نے اسے کہا کہ اٹھو اور بتائو کہ تم پر کس نے زیادتی کی ہے؟
''مجھے اپنے فوجی کمانڈروں نے کہا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے پاس چلی جائو۔ وہ بہت رحم دل ہے اور فریاد سنے گا''… عورت نے کہا… ''آپ کے آدمی میری دودھ پیتی بچی اٹھا لائے ہیں''۔
قاضی بہائوالدین شداد لکھتا ہے کہ عورت جس انداز سے روتی تھی اور جو فریادیں کرتی تھی، اس سے سلطان ایوبی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بچی کو اغوا ہوئے چھ سات دن گزر چکے تھے۔ سلطان ایوبی گھوڑے سے اتر آیا۔ اس نے حکم دیا کہ ابھی معلوم کرو کہ بچی کون لایا ہے۔ اس نے عورت کو کھانا کھلانے کو کہا اور جہاں کہیں وہ جارہا تھا، وہاں نہ گیا۔ وہ مسلمان شہری جو عیسائی کیمپ میں سامان وغیرہ اٹھانے جاتے تھے، فوج کے ساتھ رہتے تھے۔ ان میں جو آدمی بچی اٹھا لایا تھا، وہ وہاں موجود تھا۔ وہ سلطان ایوبی کے پاس آگیا۔ اس نے بتایا کہ بچی اسی نے اغوا کی تھی اور اسے وہ فروخت کرآیا ہے۔ سلطان ایوبی نے حکم دیا کہ اس آدمی کے ساتھ اس شخص کے پاس جائو جس نے اس سے بچی خریدی ہے اور اس نے جو قیمت دی تھی، وہ اسے دے کر بچی لے آئو۔
سلطان ایوبی بچی کی واپسی تک اپنے خیمے میں موجود رہا۔ بچی دور نہیں گئی تھی۔ جلدی مل گئی۔ اس کی قیمت واپس کردی گئی۔ سلطان ایوبی نے اپنے ہاتھوں بچی ماں کے ہاتھوں میں دی۔ ماں نے بچی کو فوراً اپنی چھاتیوں کے ساتھ لگا لیا اور ایسی بے تابی سے پیار کیا کہ (شداد کے الفاظ میں) ہم سب پر رقت طاری ہوگئی۔ سلطان ایوبی نے اسے ایک گھوڑی پر رخصت کیا۔
بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اور ارض فلسطین میں صلیبیوں کو ہر مقام پر شکست ہوئی تو صلیبی دنیا میں پھونچال آگیا۔ اس وقت تین بادشاہیاں جنگی لحاظ سے بہت طاقتور مانی جاتی تھیں۔ ایک تھی فرانس، دوسری جرمنی اور تیسری انگلستان۔ ان کے پوپ (پاپائے روم اربانوس ثانی) نے خود ہر ایک کو پاس جاکر انہیں جنگ کے لیے تیار کیا۔ اس کی زبان پر ہر جگہ یہی الفاظ تھے:
''اگر تم صلاح ا لدین ایوبی کے خلاف نہ اٹھے تو سارے یورپ میں صلیب اٹھ جائے گی اور ہر جگہ تمہیں اسلامی جھنڈے لہراتے نظر آئیں گے۔ یہ جنگ صلاح الدین ایوبی کی ذاتی جنگ نہیں، یہ عیسائیت اور اسلام کی جنگ ہے۔ صلیب اعظم مسلمانوں کے قبضے میں ہے۔ یروشلم پر مسلمانوں کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ ہزار ہا عیسائی عورتیں مسلمانوں کے قبضے میں چلی گئی ہیں۔ وہ مسلمان فوج میں تقسیم کی جارہی ہیں، کیا تم گھر بیٹھے اسلام کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روک سکو گے؟ تم کس طرح برداشت کررہے ہو کہ وہ صلیب جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا تھا، مسلمانوں کے قبضے میں چلی جائے؟
''پوپ نے اس قسم کی جھوٹی سچی باتیں سنا کر بڑے بڑے صلیبی بادشاہوں کو مشتعل کردیا۔ جرمنی کا بادشاہ فریڈرک دو لاکھ فوج لے کر سب سے پہلے آگیا۔ یہ فوج اتنی زیادہ تھی کہ اس نے کسی صلیبی بادشاہ کو اپنا اتحادی نہ بنایا۔ اس نے اپنا پلان بنا رکھا تھا۔ اس کے مطابق اس نے دمشق پر حملہ کیا۔ اس کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ سلطان ایوبی کے طریقہ جنگ سے واقف نہیں تھا۔ وہ دو لاکھ نفری کے لشکر کے بھروسے پر سرزمین عرب پر قبضہ کرنے آیا تھا۔ دمشق پر اس کے حملے کو دوسری صلیبی جنگ کہتے ہیں، جو فریڈرک نے اپنی کثیر افواج کے زعم میں لڑنے کی کوشش کی اور جس میں دمشق کی وہ ایک اینٹ بھی نہ اکھاڑ سکا۔ مسلمان چھاپہ ماروں نے اس کی رسد پر ایسے دلیرانہ چھاپے مارے کہ اس کے سینکڑوں گھوڑے اور گھوڑا گاڑیاں اپنے ساتھ لے آئے۔ رسد جو ان کے ہاتھ لگی، وہ انہوںنے اپنی فوج کے حوالے کردی۔
فریڈرک بری طرح ناکام ہوا۔ اس کے پاس رسد کی کمی ہوگئی اور فوج کا جانی نقصان بھی بہت ہوا۔ اس نے پیچھے ہٹ کر دمشق پر ازسرنو حملے کی تیاریاں شروع کردیں لیکن مسلمان چھاپہ ماروں نے اس کی فوج کو چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ پانی کے ذخیروں پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ اس کی تاریخ ٢٠جنوری ١١٩١ء (٢٢ذی الحج ٥٧٦ہجری) لکھی گئی ہے۔ اس کے ماتم میں جرمنوں نے اپنے کیمپ میں جگہ جگہ لڑکیاں جمع کرکے اس طرح آگ لگائی جیسے ان کا کیمپ جل رہا ہو۔ ادھر مسلمان سپاہیوں نے وہ رات خوشی سے دف اور نقارے بجاتے اور ناچتے گاتے گزار دی۔
جرمن فوج کی کمان اس کے بیٹے نے سنبھال لی۔ اسے معلوم تھا کہ شاہ فرانس فلپس آگسٹس اور شہنشاہ انگلستان رچرڈ بھی آرہے ہیں۔ وہ بحری جہاز سے آرہے تھے، فریڈرک کے بیٹے نے فلسطین کے ساحی شہر عکرہ کی طرف کوچ کا حکم دے دیا۔ سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں کو ہدایات دے رکھی تھیں، ان کے مطابق اس کی فوج پر جوابی حملہ نہ کیا بلکہ اسے جانے دیا۔ ان سالاروں کو معلوم تھا کہ راستے میں اپنے چھاپہ مار جیش موجود ہیں۔ ان چھاپہ ماروں کا انداز یہ تھا کہ دشمن کی فوج کے آخری حصے پر شب خون مارتے اور غائب ہوجاتے۔ یہ زیادہ نفری کے جیش تھے۔ رات کو جرمن پڑائو کرتے تو چھاپہ مار آتش گیر سیال کی ہانڈیاں چھوڑی منجنیقوں سے جرمنوں کے کیمپ پر پھینکتے اور ان کے پیچھے جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر چلاتے جن سے کیمپ میں آگ لگ جاتی۔
جرمن فوج جب عکرہ پہنچی تو اس کی نفری صرف بیس ہزار رہ گئی تھی۔ یہ فوج جب ارض مقدس میں داخل ہوئی تھی تو اس کی نفری دو لاکھ تھی۔ اس میں سے کچھ دمشق پر حملے کے دوران تباہ ہوئی، کچھ بیماری، بھوک اور پیاس کی نذر ہوگئی، کچھ دمشق سے عکرہ تک کوچ کے دوران چھاپہ ماروں کا شکار ہوگئی اور ان سپاہیوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی جو فوج سے بھگوڑے ہوگئے تھے، جو بیس ہزار نفری رہ گئی تھی وہ بری طرح بدول ہوچکی تھی۔ اس کے دل سے صلیب کا احترام اور اپنا حلف صاف ہوچکا تھا۔
ادھر سے شاہ فرانس اور شہنشاہ انگلستان سمندر کے راستے چلے آرہے تھے۔ سلطان ایوبی کو جاسوسوں نے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ انگلستان کی فوج جو اس وقت قبرص میں پہنچ چکی تھی، کیسی ہے اور اس کی نفری کتنی ہے۔ اس کی نفری ساٹھ ہزار تھی۔ فرانس کی فوج کی نفری بھی تقریباً اتنی ہی تھی۔ بیس ہزار جرمن فوج تھی۔ صلیبیوں کی کچھ فوج پہلے سے ارض مقدس میں موجود تھی۔
سلطان ایوبی کو جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی دی کہ گائی آف لوزینان جو یہ عہدنامہ کرکے سلطان ایوبی کی جنگی قید سے رہا ہوا تھا کہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے گا، کائونٹ کونراڈ کے ساتھ مل کر الگ فوج جمع کرچکا ہے جس میں سات سو نائٹ (زرپوش سردار) ہیں، نو ہزار فرنگی فوج اور بارہ ولندیزی اور دیگر یورپی افسر اور سپاہی ہیں۔ اس طرح صرف اس فوج کی نفری تقریباً بائیس ہزار ہوگئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق صلیبی فوج کی مجموعی نفری چھ لاکھ تھی جو اسلحہ اور دیگر جنگی سازوسامان کے لحاظ سے اسلامی فوج سے برتر تھی۔
سلطان ایوبی کے ساتھ دس ہزار مملوک تھے، یہ اس کی منتخب فوج تھی جس پر اسے پورا پورا بھروسہ تھا۔ عکرہ نہایت اہم مقام تھا۔ یہ بندرگاہ بھی تھی جسے قدرت نے ایسا بنایا تھا کہ بحریہ کا بہت بڑا اور محفوظ اڈہ بن سکتی تھی۔ عکرہ شہر میں سلطان ایوبی کی فوج کی نفری دس ہزار تھی۔ سلطان ایوبی بیت المقدس سے کمک نہیں لے سکتا تھا کیونکہ یہی وہ شہر تھا جس کی خاطر صلیبیوں نے اتنا زیادہ لشکر اکٹھا کیا تھا۔ اس شہر کے د فاع کو کمزور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دوسرے شہروں اور قلعوں سے بھی فوج کو نہیں نکالا جاسکتا تھا۔ انگلستان کا بحری بیڑہ بہت طاقتور اور خوفناک تھا۔ سلطان ایوبی کو اچھی طرح احساس تھا کہ اس کا مصری بحری بیڑہ انگلستان کے بیڑے کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
سلطان ایوبی کے لیے یہ اتنا بڑا اور زیادہ خطرناک چیلنج تھا جو اسے قبول کرنا تھا مگر اس کا مقابلہ مخدوش نظر آرہا تھا۔ اسے ایک خطرہ اور بھی نظر آرہا تھا جو یہ تھا کہ اس کی فوج چار سال سے لڑ رہی تھی۔ اس کے چھاپہ مار اتنی لمبی مدت سے جنگلوں اور پہاڑوں میں لڑ اور مر رہے تھے اور وہ وہیں زندگی بسر کررہے تھے۔ جنگ کے جسمانی پہلو کو دیکھا جائے تو یہ فوج لڑنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ مذہب کی لگن کے جذبے کے زور پر وہ اس قلیل اور تھکی ہوئی فوج کو چھ لاکھ تازہ دم صلیبی فوج کے خلاف کس طرح لڑا سکتا تھا۔
قاضی بہائوالدین شداد جو اس کی مجلس مشاورت کا رکن اور اس کا مشیر خاص اور ہم راز بھی تھا، لکھتا ہے کہ سلطان ایوبی کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ راتوں کو سوتا بھی نہیں تھا۔ ہر وقت گہری سوچ میں غرق رہتا اور ذہن میں جنگ کے نقشے بناتا رہتا تھا۔ اس کی صحت گر رہی تھی اور ایک بار وہ بیمار پڑ گیا۔ چوتھے روز اٹھ بیٹھا لیکن اس کی صحت میں پہلی والی جان نہیں رہی تھی۔ اس کی عمر ٥٤برس ہوگئی تھی۔ وہ نوجوانی میں میدان جنگ میں اترا تھا اور ابھی تک جنگلوں، پہاڑوں اور صحرائوں میں لڑ رہا تھا۔ اس نے بیت المقدس کی فتح کی قسم کھائی تھی جو اس نے پوری کردی تھی۔ اس کے بعد اس نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ اپنے جیتے جی بیت المقدس سے اسلامی پرچم نہیں اترنے دے گا۔ یہ تھا وہ عہد جس نے اسے نیند اور آرام سے محروم کردیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
امریکی تاریخ دان اور محقق اینتھونی ویسٹ نے ہیر لڈلیم، لین پول، گبن اور ارنول جیسے مشہورومعروف مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے۔ ''سلطان ایوبی مسجد اقصیٰ میں جا بیٹھا اور سارا دن خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دعا کرتا رہا کہ خدا اسے اس نازک موقعہ پر اسلامی فوج کی صحیح عسکری قیادت کی توفیق عطا فرمائے۔ ایک شخص کے بیان کے مطابق جس نے اسے مسجد میں پڑے دیکھا تھا، اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ شام ہوئی تو وہ مسجد سے نکلا۔ اس وقت اس کے چہرے پر اطمینان اور سکون تھا''۔
یہ صحیح ہے کہ سلطان ایوبی مسجد اقصیٰ میں جاکر سجدہ ریز ہوا اور اس نے رو رو کر خدائے ذوالجلال سے مدد اور رہبری مانگی تھی لیکن اس وقت کے عینی شاہدوں اور وقائع نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ دن کے وقت نہیں بلکہ رات کے وقت مسجد اقصیٰ گیا تھا۔ اس نے ساری رات نوافل، دعا اور ورد وظیفے میں گزاری اور صبح کی نماز پڑھ کر باہر آیا تھا۔
اس رات وہ مسجد میں اکیلا نہیں تھا۔ مسجد کے صحن میں ایک کونے میں کوئی آدمی اپنے اوپر کمبل ڈالے بیٹھا تھا۔ وہ کبھی ایک سجدے کرتا، کبھی دو اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہاتھ منہ پر پھیرتا اور پھر سجدے میں چلا جاتا تھا۔ اسے نماز پڑھنی نہیں آتی تھی یا وہ کوئی ایسا ورد یا وظیفہ کررہا تھا جس میں اسی طرح سجدے اور دعا کرنی تھی۔ یہ شخص اس وقت مسجد کے کونے میں آبیٹھا تھا جس وقت عشاء کی نماز پڑھ کر آخری نمازی مسجد سے نکل گیا تھا۔ اس کا چہرہ کمبل میں چھپا ہوا تھا۔
صبح جب مؤذن نے اذان دی تو وہ اٹھا اور اپنے آپ کو کمبل میں چھپا کر مسجد سے نکل گیا تھا۔ ایک آدمی جو مسجد کے دروازے میں داخل ہورہا تھا، اسے دیکھ کر رک گیا۔ کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اس کے پیچھے چل پڑا۔ کمبل والے نے گھوم کر دیکھا اور قدم تیز کرلیے۔ اس کے تعاقب میں جانے والا بھی تیز تیز چلنے لگا۔ آگے ایک اور آدمی کھڑا تھا۔ کمبل والا اس کے پاس رکا اور کچھ کہہ کر آگے چلا گیا۔ دوسرا آدمی وہیں کھڑا رہا۔ تعاقب میں جانے والے نے اس سے پوچھا کہ یہ کون تھا۔
''اوہ! یہ تم ہو''۔ اس آدمی نے کہا۔ ''تم اس کا تعاقب کررہے ہو؟''
''میں نے اس کے پائوں دیکھے ہیں''… تعاقب کرنے والے نے کہا… ''یہ مرد نہیں، عورت ہے۔ تمہاری رشتہ دار ہے؟ تم اسے جانتے ہو؟''
''احتشام دوست!''… اس آدمی نے کہا… ''میں جانتا ہوں تم اپنا فرض ادا کررہے ہو۔ ہر کسی پر نظر رکھنا تمہارے فرائض میں شامل ہے اور میرا فرض ہے کہ میں تم سے کچھ بھی نہ چھپائوں، لیکن ایک عورت کا مسجد میں جانا گناہ تو نہیں''۔
''بالکل نہیں''… احتشام نے کہا… ''مجھے شک اس سے ہوا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو کمبل میں کیوں لپیٹ رکھا ہے؟… سنو العاص رات کو ہم تین آدمی مسجد کے اردگرد پہرے پر پھرتے رہے ہیں کیونکہ سلطان نے رات مسجد میں گزاری ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ ہم بہروپ میں ان کی حفاظت کے لیے پہرہ دیتے رہے ہیں۔ سلطان کسی کو بتائے بغیر مسجد میں آئے تھے۔ انہیں معلوم نہیں کہ ان کے باوردی محافظوں کے علاوہ بھی کوئی ان کی حفاظت پر مامور ہے۔ یہ حسن بن عبداللہ کا انتظام ہے۔ تم خود فوج کے کمان دار ہو اور مجھے اچھی طرح جانتے ہو، اس لیے تمہیں یہ سب کچھ بتا رہا ہوں''۔
''ضرور بتائو احتشام!''… العاص نے جواب دیا… ''بیت المقدس میں اور مسجد اقصیٰ کے اتنی قریب کھڑے ہوکر مسلمان جھوٹ نہیں بول سکتا۔ میں تمہیں بتا دوں گا کہ یہ کون ہے۔ تم یہ بتائو کہ تم نے اس پر کیوں شک کیا ہے؟''
''میں نے رات اسے صحن کے کونے میں دیکھا''… احتشام نے جواب دیا… ''سلطان کی حفاظت کے لیے ضروری تھا کہ اسے وہاں سے اٹھا دیا جاتا۔ عشاء کا وقت گزر گیا تھا۔ اس آدمی کو چلے جانا چاہیے تھا۔ اس وقت سلطان اندر منبر کے سامنے عبادت اور وظیفے میں مصروف تھا۔ یہ آدمی جو کمبل میں لپٹا ہوا تھا۔ سلطان پر قاتلانہ حملہ کرسکتا تھا لیکن کسی کو مسجد سے اٹھایا اور نکالا نہیں جاسکتا۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ یہ شخص عجیب طریقے سے عبادت کررہا تھا۔ سجدے سے اٹھتا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیتا۔ اس نے باقاعدہ نماز نہیں پڑھی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا۔ میرے دونوں ساتھیوں نے باری باری اندر آکر اس طرح اسے دیکھا کہ اسے پتہ نہ چلے کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے۔ میرے اس ساتھی نے باہر آکر بتایا کہ اس پر نظر رکھو لیکن اسے اٹھانا نہیں، کیونکہ میں نے اس کے بالکل پیچھے بیٹھ کر اس کی سسکیاں سنی ہیں اور اس کے بعض الفاظ ایسے سنے ہیں جیسے یہ اپنے گناہوں کی بخشش اور صلیبیوں کی شکست کی دعا کررہا ہے''…
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*