⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟛 𝟡⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہرمن کے نائب نے عورت کے بالوں پر عریاں کندھوں پر اور اس کے سینے پر ہاتھ پھیر کر کہا کیا تمہارے یہ ہتھیار بے کار ہوگئے ہیں؟
اس نے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا ہے اس نے قلعے کا دروازہ کھول دیا ہے تمہیں اب اندر جاکر کونے کھدرے کی تلاشی لینی ہے تم یہ کام بھی کرسکو گی میں صبح ہرمن کو تفصیل سے بتا دوں گا کہ تم نے یہ کارنامہ کر دکھایا ہے
شام کے کھانے پر جب چنگیز اور وکٹر اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے ہرمن آگیا اس نے چنگیز کے ساتھ دوستانہ انداز سے ہاتھ ملایا اور کہا تمہیں معلوم ہے کہ ہماری افواج تاریخ کی سب سے بڑی مہم پر جارہی ہیں ہم تمہیں بھی ساتھ لے جارہے ہیں بہت دور کی سیرا کرائیں گے وکٹر بھی ساتھ ہوگا چونکہ دو تین بادشاہ ساتھ ہونگے اس لیے تم دونوں کا ساتھ جانا ضروری ہے میں ضرور چلوں گا چنگیز نے کہا ہرمن کو رپورٹ مل چکی تھی کہ راشد چنگیز جاسوس ہے اور آج رات اس کے محکمے کی ایک جواں سال اور دل نشیں عورت جس نے اسے بے نقاب کیا ہے اس سے اس کے گروہ کے دیگر افراد کے نام اور پتے بھی حاصل کرلے گی ہرمن نے اس عورت کو نئی ہدایات دی تھیں اور نائب سے کہا تھا کہ چنگیز کے گروہ کا انکشاف ہونے تک یہ عورت اسے اکیلے ملتی رہے اور اتنی ہوشیار رہے کہ چنگیز کو شک نہ ہو چنگیز کا دھیان اپنے کام میں تھا ہی نہیں وہ لمحے گن گن کر گزار رہا تھا اتنی بڑی کامیابی اس نے کبھی بھی حاصل نہیں کی تھی کہ اتنا عظیم راز اسے ملا ہو اور اتنی حسین لڑکی اس پر مر مٹی ہو اس رات کو تریپولی میں وہ آخری رات سمجھ رہا تھا مکمل راز لے کر اس عورت کے ساتھ اسے اگلے روز تریپولی سے نکل جانا تھا وہ آخر فارغ ہوگیا اور اپنے کمرے میں گیا وکٹر بھی اس کے ساتھ تھا اس نے کپڑے بدلے مصنوعی داڑھی نہ لی خنجر چغے کے اندر چھپا لیا میں تمہیں آخری بار کہہ رہا ہوں کہ اس عورت اور شراب کے نشے سے آزاد ہوکر اور دماغ کو حاضر رکھ کر بات کرنا وکٹر نے اسے کہا مجھے خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ تم اس عورت کو پوری چھان بین کیے بغیر اسے اپنے سارے راز دے دو گے
سنو وکٹر! چنگیز نے عجیب سے لہجے میں کہا میں اس عورت کے خلاف کوئی بات نہیں سنوں گا میں نے اس کے ساتھ بڑی لمبی ملاقاتیں کی ہیں اس کی پوری کہانی سنی ہے تم اسے نہیں سمجھ سکتے میں بہتر سمجھتا ہوں مجھے پاگل نہ سمجھو یہ میری پہلی اور آخری محبت ہے
وکٹر چپ رہا اس نے چنگیز کے لہجے سے جان لیا تھا کہ وہ اپنے آپ میں نہیں اسے یہ احساس تو تھا کہ چنگیز کی شکل وصورت اور قدبت میں اتنی کشش ہے کہ اس عورت سے کہیں زیادہ خوبصورت اونچے طبقے کی عورتیں بھی اسے نظر بھر کر دیکھتی ہیں لیکن اس عورت کے متعلق اسے وہم سا ہو چلا تھا کہ چنگیز کو دھوکہ دے رہی ہے اور اگر وہ دھوکہ نہیں دے رہی تو چنگیز اسے اپنی اصلیت بتا کر اپنے آپ کو خطرے میں ڈال رہا ہے اگر یہ عورت مسلمان جاسوس ہی ہے تو اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسے سرکاری طور پر نہیں بھیجا گیا تھا وکٹر کو اطمینان محسوس نہیں ہورہا تھا
چنگیز چلا گیا وکٹر گہری سوچ میں کھوگیا چنگیز کے جانے کے بعد وہ سوجایا کرتا تھا مگر اس رات اسے نیند نہیں آرہی تھی اپنے کمرے میں جاکر وہ لیٹنے کے بجائے بے چینی سے ٹہلنے لگا عورت اسی جگہ چنگیز کے انتظار میں کھڑی تھی اس کے قریب زمین پر شراب کی صراحی اور دو پیالے پڑے تھے اندھیرے میں چنگیز کو سائے کی طرح آتا دیکھ کر وہ دوڑ پڑی اور اس کے ساتھ لپٹ گئی جیسے بچہ ماں کے ساتھ لپٹ جاتا ہے اس نے ایسے والہانہ پن اور خود سپردگی کا مظاہرہ کیا جس نے چنگیز کی عقل پر خمار طاری کردیا اور اس کے جذبات بیدار ہوگئے اس کایاں عورت نے اپنے حسن وجوانی کے وہ سارے ہتھیار استعمال کیے جن پر ہرمن کے نائب نے ہاتھ پھیر کر کہا تھا کہ تمہارے یہ ہتھیار بے کار تو نہیں ہوگئے تم مجھے دھوکہ تو نہیں دے رہے؟
اس نے چنگیز سے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا تمہاری محبت نے مجھے ایسا بے بس اور مجبور کردیا ہے کہ میں نے اپنا اتنا نازک راز تمہیں دے دیا ہے
عورت اس کی کمر کے گرد ایک بازو لپیٹے اسے وہاں سے لے گئی جہاں صراحی اور پیالے رکھے تھے اسے وہاں بٹھایا اور پیالوں میں شراب ڈال کر بولی فتح کی خوشی میں ایک جام چنگیز اس قدر مسرور تھا کہ اس نے فوراً پیالہ لے لیا اور پی گیا عورت نے اس کے پیالے میں اور شراب ڈال دی چنگیز نے وہ بھی پی لی ان سے آٹھ دس قدم دور ایک درخت تھا کوئی پیچھے سے رینگتا ہوا آیا اور اس درخت کے تنے کی اوٹ میں بیٹھ گیا رات خاموش تھی درخت کی اوٹ میں بیٹھے ہوئے آدمی کو چنگیز اور عورت کی سرگوشیاں بھی سنائی دے رہی تھی مگر وہ سرگوشیوں میں نہیں ذرا اونچی آواز میں باتیں کررہے تھے اب بتاؤ کیا خبر لائی ہو چنگیز نے عورت سے پوچھا ایسی خبر لائی ہوں جو سلطان ایوبی نے کبھی خواب میں نہیں سنی ہوگی عورت نے کہا میں صلیبیوں کی موت کا پروانہ لائی ہوں اس نے چنگیز کو صلیبیوں کا پلان اور پیش قدمی کا راستہ بتا دیا اور یہ بھی بتایا کہ وہ کہاں حملہ کریں گے اس نے صلیبی فوج کی رسد کا راستہ بھی بتایا اور یہ بھی کہ کوچ کب ہوگا ہمیں یہاں سے جلدی نکل جانا چاہیے چنگیز نے کہا کل رات نکل چلیں؟
نہیں! عورت نے کہا ہمیں جس راز کی ضرورت تھی وہ مل گیا ہے لیکن میرے دل میں انتقام کی جو آگ بھڑک رہی ہے میں اسے سرد کرکے جاؤں گی صلیبیوں نے اپنی فوج کے لیے بے انداز رسد جمع کرلی ہے خیموں اور ہتھیاروں کا کوئی حساب نہیں آتش گیر سیال کے مٹکے بھی ہیں اناج کے انبار ہیں یہ ذخیرہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے اسے تباہ کرنا کوئی مشکل نہیں پہرے کا اتنا ہی انتظام ہے کہ سات آٹھ سپاہی رات کو گشت کرتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ صلیبیوں نے یہ ذخیرہ تین چار مہینوں میں جمع کیا ہے اگر ہم نے اسے نذر آتش کردیا تو ان کا حملہ تین چار مہینوں کے لیے رک جائے گا اس عرصے میں سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی تیاریاں مکمل کرلے گا تم ہرمن کو جانتے ہو میں نے اس کے دل سے بھی راز نکال لیے ہیں اس نے بتایا ہے کہ سلطان ایوبی نئی بھرتی کررہا ہے اور اس کی پہلی فوج اپنے ہی بھائیوں کے خلاف لڑ کر اتنا جانی نقصان اٹھا چکی ہے کہ لڑنے کے قابل نہیں رہی یہ بدبخت صلیبی سلطان ایوبی کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اس وقت ضرورت یہ ہے کہ صلیبیوں کا کوچ التوا میں ڈالا جائے اس کا واحد ذریعہ کمزوری یہ ہے کہ ان کی رسد جلا دی جائے ان کے جو ہزاروں گھوڑے ہیں انہیں ہلاک کرنے کا انتظام بھی ہوسکتا ہے
رسد کو آگ کون لگائے گا؟
چنگیز نے پوچھا یہ تمہیں معلوم ہوگا کہ یہاں تمہارے کتنے آدمی موجود ہیں عورت نے کہا ان میں چھاپہ مار بھی ہوں گے یہ کام ان کے سپرد کیا جائے یہاں تمہارے کتنے چھاپہ مار موجود ہیں؟
سلطان ایوبی نے حکم دے رکھا ہے کہ دشمن کے مقبوضہ علاقوں میں تباہ کاری نہ کی جائے کیونکہ چھاپہ مار تو تباہ کاری کرنے کے بعد ادھر ادھر ہوجاتے ہیں سزا بے گناہ مسلمان باشندوں کو ملتی ہے چنگیز نے کہا صلیبی ان کے گھروں میں گھس کر ان کی مستورات کو بھی پریشان کرتے ہیں اس لیے ہم نے چھاپہ ماروں کو واپس بھیج دیا تھا یہاں جاسوس ہیں وہ تخریب کاری بھی کرسکتے ہیں وہ یہاں کے چند ایک جوانوں کو تیار کرسکتے ہیں انہیں کسی جگہ اکٹھا کرنے کا انتظام ہوسکتا ہے؟
عورت نے پوچھا اور چنگیز کے پیالے میں شراب ڈال کر اپنے ہاتھوں پیالہ اس کے منہ کے ساتھ لگا دیا ہم نے ایک مسجد کو خفیہ اڈا بنا رکھا ہے چنگیز نے شراب کا پیالہ پی کر کہا اس نے مسجد کا محل وقوع بتا دیا اور کہا اس مسجد کا امام ہماری جماعت کا امیر ہے بہت قابل اور دلیر انسان ہے میں آج رات ہی اسے بتا دوں گا وہ کل ان جوانوں کو مسجد میں اکٹھا کرلے گا وہ سب نماز پڑھنے کے بہانے آئیں گے صرف ایک قابل اور دلیر آدمی سے کام نہیں چلے گا عورت نے کہا امام کے ساتھ تم ہوگے اور تین چار اور ذہین آدمیوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ اس تباہ کاری کا منصوبہ دانش مندی سے بنے یہ ذخیرہ اس وقت تباہ کیا جائے گا جب ہم دونوں یہاں سے نکل جائیں گے ورنہ شہر کی ناکہ بندی ہوجائے گی صرف امام نہیں چنگیز نے کہا یہاں ہمارا ایک سے ایک بڑھ کر قابل آدمی موجود ہے اس نے چند ایک آدمیوں کے نام بتا دئیے اور کہا میں ان سب کو مسجد میں بلا سکتا ہوں یہ عورت چنگیز سے یہی راز لینا چاہتی تھی اس نے اس گروہ کے متعلق کچھ اور باتیں پوچھیں جو چنگیز نے بتا دیں اور کہا اس محل میں میں اکیلا نہیں میرے ساتھ وکٹر نام کا جو آدمی ہے وہ بھی ہمارے گروہ میں ہے
وکٹر بھی؟
عورت نے چونک کر کہا
ہاں! چنگیز نے کہا کیا تم ہماری استادی کی تعریف نہیں کروگی کہ ہم نے ایک عیسائی کو بھی اپنا جاسوس بنا رکھا ہے؟
عورت کچھ دیر خاموش رہی پھر بولی کل دن کو میں تمہارے کمرے میں آؤں گی مجھے وہاں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا عورت جانے کے لیے اٹھی درخت کی اوٹ میں چھپے ہوئے آدمی نے حرکت کی اس نے بیٹھے بیٹھے کمر بند سے خنجر نکالا اور آٹھ دس قدم کا فاصلہ دو چھلانگوں میں طے کر کے عورت کو پیچھے سے ایک بازو سے جکڑ لیا اس کا خنجر والا ہاتھ اوپر اٹھا تیزی سے نیچے آیا اور خنجر عورت کے سینے میں اتر گیا عورت کی ہلکی سی چیخ سنائی دی اور یہ آواز میرے سینے میں خنجر اتر گیا ہے چنگیز نے خنجر نکالا اور اس آدمی کو للکار کر اس پر حملہ کیا اس آدمی نے گھوم کر عورت کو آگے کردیا اور کہا میں وکٹر ہوں چنگیز! اس بدبخت کو زندہ نہیں رہنا چاہیے عورت سسک رہی تھی وکٹر نے اسے پیچھے سے ایک بازو میں دبوچ رکھا تھا تم ذلیل عیسائی چنگیز شراب کے نشے میں کہہ رہا تھا سانپ کے بچے نکلے؟
وہ گھوم کر اس پر حملہ کرنے لگا وکٹر نے عورت کو آگے کردیا اور اسے ڈھال بنا کر بولا ہوش میں آؤ چنگیز! تم نے اسے سب کچھ بتا کر سارا کھیل برباد کردیا ہے اگر یہ زندہ رہی تو کل ہم سب گرفتار ہوجائیں گے چنگیز بپھرے ہوئے چیتے کی طرح اس کے اردگرد گھوم اور پھنکار رہا تھا لڑکی ابھی ہوش میں تھی کراہتے ہوئے بولی چنگیز! میرے خون کا انتقام تمہارے سر ہے عیسائی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے میں اب زندہ نہیں رہوں گی یہ ہمارا نہیں صلیبیوں کا جاسوس ہے چنگیز نے جست لگا کر وکٹر پر حملہ کیا وکٹر نے بار بار اسے کہا کہ وہ دھوکے میں آگیا ہے اور اس عورت کو قتل کرکے لاش دور پھینک آئیں گے مگر چنگیز اب جاسوس نہیں وہ مرد بن چکا تھا جس کی محبوبہ کو ایک اور مرد نے پکڑ رکھا تھا اور اس کے سینے میں خنجر بھی اتار چکا تھا اس نے سامنے سے عورت کو اتنی زور سے دھکا دیا کہ وکٹر پیچھے کو گرا اور عورت اس کے اوپر گری چنگیز نے وکٹر پر خنجر کا وار کیا وہ ہوشیار اور پھرتیلا تھا ایک طرف ہوگیا اور اٹھا چنگیز نے اس پر ایک اور وار کیا خنجر اس کے کندھے میں لگا وکٹر نے سنبھل کر جوابی حملہ کیا چنگیز کا بھی زندہ رہنا خطرناک تھا وکٹر کا خنجر چنگیز کے پیٹ میں لگا چنگیز نے خنجر کھا کر وار کیا جو وکٹر کے بازو کو چیر گیا اس نے چنگیز کے سینے میں خنجر مارا چنگیز شراب کے نشے میں پاؤں پر کھڑا رہنے کے قابل نہیں تھا وکٹر نے ایک اور وار اس کے سینے پر ہی کیا اور چنگیز گر پڑا اس نے عورت کے دل پر ہاتھ رکھا دل خاموش تھا وہ مرچکی تھی چنگیز بھی آخری سانس لے رہا تھا وہ ہوش میں نہیں تھا
وکٹر کے کندھے اور بازو سے خون بہہ رہا تھا اس نے عورت کے کپڑے پھاڑے اور بازو پر باندھ لیے کندھے کے زخم میں کپڑا ٹھونس دیا تاکہ خون بند ہوجائے وہ چل پڑا اس نے رفتار تیز کرلی زخموں پر کپڑا باندھ لینے کے باوجود خون نہ رکا اس نے پرواہ نہ کی اور چلتا گیا وہ ایک گلی میں داخل ہوگیا اور دو ایک موڑ مڑ کر وہ ایک فراخ گلی میں چلا گیا تریپولی پر گہری نیند طاری تھی گلیاں سنسان تھی تمام گھروں کے دروازے بند تھے صرف ایک دروازہ کھلا ہوا تھا یہ خدا کے گھر کا دروازہ تھا یہ مسجد تھی وہ اس مسجد میں پہلی بار آیا تھا چنگیز نے اسے بتا رکھا تھا کہ کبھی اس مسجد میں جانے کی ضرورت پڑے تو مسجد کے صحن میں چلے جانا بائیں دیوار میں ایک دروازہ ہے جو امام کے گھر کا ہے وکٹر نے یہ مسجد باہر سے دیکھی تھی یہ سلطان ایوبی کے تریپولی میں موجود جاسوسوں کا خفیہ ہیڈکوارٹر تھا اور مسجد کا امام مسجد کا ہی نہیں جاسوسوں کے اس گروہ کا بھی امام تھا وکٹر نے کھلے دروازے میں داخل ہوکر جوتے اتار دئیے رات آدھی گزر چکی تھی امام گہری نیند سویا ہوا تھا دروازے کی دستک نے اسے جگا دیا اس نے دانستہ توقف کیا وہ دستک ایک بار پھر سننے کے انتظار میں تھا دستک پھر ہوئی یہ جاسوسوں کی مخصوص دستک تھی پھر بھی اس نے لمبا خنجر ہاتھ میں لیا اور دروازہ کھولا دھیمی آواز میں کہا چنگیز؟
وکٹر وکٹر نے جواب دیا اندر چلیں خون کی بو کہاں سے آرہی ہے؟
امام نے اندھیرے میں وکٹر کا بازو تھام کر پوچھا یہ میرا خون ہے وکٹر نے جواب دیا امام اسے گھسیٹتا ہوا اندر لے گیا دیا جلایا تو اسے نظر آیا کہ وکٹر کے کپڑے خون سے لال اور تر ہورہے تھے وکٹر کے ساتھ اس کا وہی تعارف تھا جو چنگیز نے غائبانہ کرا رکھا تھا امام نے اسے دور سے دیکھا تھا وکٹر کو وہ پس منظر میں رکھتے تھے جس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ عیسائی تھا بلکہ یہ کہ اسے انہوں نے اندر کی اطلاعات فراہم کرنے کا کام سونپ رکھا تھا یہ جاسوسی کا ایک طریقہ اور ان کی اپنی تنظیم تھی اس لحاظ سے امام اور وکٹر ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں تھے تم آئے ہو امام نے پوچھا چنگیز کیوں نہیں آیا؟
وہ اب کبھی نہیں آسکے گا
کیوں؟
امام نے گھبرا کر پوچھا پکڑا گیا ہے؟
اسے اس کے گناہوں نے پکڑا ہے وکٹر نے جواب دیا اور میرے خنجر نے اسے سزائے موت دے دی ہے آپ میرا خون نہیں دیکھ رہے؟
کیا آپ میرا خون بند کرنے کا بندوبست کرسکتے ہیں؟
آپ گھبرائیں نہیں خدا کا شکر ادا کریں کہ چنگیز زندہ نہیں ورنہ ہم میں سے ہر کوئی قید خانے کی اذیتوں سے مارا جاتا امام نے بہت تیزی سے دوائیاں نکالیں پانی لایا اور اس کے زخم دھونے لگا وکٹر کو کپڑے بدلنے کو کہا نہیں وکٹر نے جواب دیا میں نے سوچ لیا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے میں انہی کپڑوں میں واپس جاؤں گا میں نے آپ کا نمک کھایا ہے میرا عزیز دوست اور بڑے ہی خطرناک سفر کا ساتھی میرے ہاتھوں قتل ہوگیا ہے میں آپ سب کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنے کا ارادہ کرچکا ہوں میں اپنی گردن جلاد کے آگے جھکا کر آپ سب کو صاف بچا لوں گا
امام اس کے زخم صاف کرکے ان پر سفوف چھڑک رہا تھا اور وکٹر اسے سارا واقعہ سنا رہا تھا اس نے ہر ایک تفصیل سنا کر کہا مجھے شک ہوگیا تھا کہ یہ عورت فریب کے سوا کچھ بھی نہیں میں نے وہ بوڑھا کمانڈر کبھی نہیں دیکھا تھا جس کی وہ اپنے آپ کو داشتہ بتاتی تھی اس کا ہر رات چنگیز کے راستے میں آجانا ایک ثبوت تھا کہ وہ قریب ہی کہیں ہوتی ہے اور چنگیز پر نظر رکھتی ہے میں نے چنگیز سے جب بھی کہا کہ وہ زیادہ احتیاط کرے وہ غصے میں آگیا میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ وہ شراب بھی پینے لگا تھا مجھے شک ہے کہ شراب میں اسے حشیش ملا کر پلائی جاتی تھی ورنہ چنگیز جیسا سخت آدمی اور ایمان کا پکا اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے اس فریب میں نہ آتا بڑی خوبصورت لڑکیاں اسے اپنی محبت میں گرفتار کرنے کی کوشش کرچکی تھیں وہ ہنس کر ٹال دیا کرتا تھا اس عورت نے اسے اپنے حسن اور حشیش کی آمیزش والی شراب کے طلسم میں جسمانی نہیں ذہنی طور پر گرفتار کرلیا تھا
اس نے جب یہ بتایا کہ اس نے عورت کو بتا دیا ہے کہ وہ جاسوس ہے تو میرا دل کانپ اٹھا مجھے جیسے عالم غیب سے اشارہ مل رہا تھا کہ چنگیز نے اتنی بڑی لغزش کی ہے جس کی سزا صرف اس کی نہیں ہم سب کی موت ہے اور اس کی یہ لغزش شام اور مصر کی آزادی کی موت کا بھی باعث بن سکتی ہے میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر اس کی عقل پر عورت نے جو طلسم طاری کردیا تھا وہ اسے ہم سے اور اپنے فرائض سے اور اپنے ایمان سے بھی بہت دور لے گیا تھا میں نے اسی وقت ارادہ کرلیا تھا کہ اب یہی ایک صورت رہ گئی ہے کہ اس عورت کو قتل کردیا جائے اور اگر چنگیز کا رویہ نہ بدلے تو اسے بھی ختم کردیا جائے ملک اور قوم کو خطرے سے بچانے کے لیے ایک آدمی کا قتل کوئی بڑی بات نہیں ہوتی یہ تو جاسوسی کا اصول ہے کہ گروہ کے کسی آدمی پر غداری کا شک ہو یا اس کی وساطت سے راز فاش ہونے کا خطرہ ہو تو اسے ختم کردیا جائے میں نے پھر بھی اس کے قتل سے گریز کیا مگر وہ مجھے قتل کرنے کے لیے پاگل ہوگیا تھا یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ تم نے اسے غلط فہمی میں قتل کردیا ہو امام نے کہا ہوسکتا ہے کہ لڑکی مسلمان ہی ہو اور وہ سچے دل سے ہمارے لیے کام کر رہی ہو
ہو سکتا ہے وکٹر نے کہا لیکن میں نے ثبوت دیکھ لیا تھا میں نے چنگیز کے ساتھ اس کا ذکر نہیں کیا تھا میں نے اس عورت کو اس عمارت سے نکلتے اور واپس جاتے دیکھا تھا جہاں ہرمن کے شعبے کی لڑکیاں رہتی ہیں میں نے یہ بھی معلوم کرلیا تھا کہ یہ عورت کسی کمانڈر کی داشتہ نہیں وہ اس عمارت میں رہتی ہے آج رات میں چنگیز کے پیچھے چلا گیا اور جہاں وہ اس عورت کے ساتھ بیٹھا وہاں سے چند قدم دور میں ایک درخت کے پیچھے بیٹھ گیا عورت نے جس انداز سے چنگیز سے راز کی باتیں پوچھیں اور جو باتیں پوچھیں وہ اس شک کو یقین میں بدلنے کے لیے کافی تھیں کہ یہ عورت صلیبیوں کی جاسوس ہے اس نے تریپولی میں ہمارے چھاپہ ماروں کے متعلق پوچھا اور چنگیز کو بتایا کہ صلیبی فوج کے لیے رسد وغیرہ کا بے انداز ذخیرہ رکھا گیا ہے جس میں آتش گیر سیال کے بے شمار مٹکے ہیں میں بھی جاسوس ہوں مجھے اچھی طرح علم ہے کہ یہاں کہیں بھی اتنا ذخیرہ نہیں رکھا گیا اس نے جو جگہ بتائی تھی وہاں کچھ بھی نہیں آپ خود کل جاکے دیکھ لینا چنگیز نے اس کے آگے ہماری ساری جماعت کی نشاندہی کردی اور اس نے میرا نام لے کر مجھے بھی بے نقاب کردیا میں اتنی اہم جگہ پر ہوں جہاں مجھے راز کی گہری باتیں بھی معلوم ہوجاتی ہیں اس عورت نے میرا نام سنا تو وہ اپنی حیرت کو چھپا نہ سکی وہ بہت دیر خاموش رہی پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئی ہمارا اتنا خطرک راز یہ عورت لے جارہی تھی اور یہ راز سیدھا ہرمن کے پاس جارہا تھا اس کے نتائج کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں میں نے اٹھ کر عورت کو پکڑ لیا اور خنجر اس کے سینے میں گھونپ دیا چنگیز مجھ پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتا تھا اسے بہت سمجھایا حقیقت بتائی مگر شراب نے اسے حیوان بنا رکھا تھا میں نے اس کے خنجر سے زخم کھا کر بھی اسے سمجھایا مگر وہ سوچنے سمجھنے کی حالت میں تھا ہی نہیں میں نے محسوس کرلیا تھا کہ زندہ رہا تو میں اسے قابو میں نہیں لاسکوں گا اور ہمارا اصل مقصد بری طرح ختم ہوجائے گا میں نے اسے بھی ختم کردیا تم نے اچھا کیا ہے امام نے کہا میں تمہارا فیصلہ قبول کرتا ہوں تم اب تریپولی سے نکل جاؤ میں انتظام کردیتا ہوں نہیں وکٹر نے کہا صبح چنگیز اور عورت کی لاشیں سب دیکھ لیں گے مجھے یقین ہے کہ ہرمن کو معلوم ہوچکا ہے کہ چنگیز جاسوس تھا اسی نے اس عورت کو اس کے پیچھے ڈالا تھا وہ یہی سمجھے گا کہ ان دونوں کو مسلمان جاسوسوں نے قتل کیا ہے پھر یہاں کے مسلمانوں کے لیے قیامت آجائے گی پہلے ہی احکام مل چکے ہیں کہ کسی پر جاسوسی کا شک ہو تو اسے قید یا قتل کردیا جائے اب تو یوں سمجھو کہ یہاں کے ہر مسلمان گھرانے پر ہرمن نے ایک ایک جاسوس مقرر کردیا ہے یہ لوگ مسلمانوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنانے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں میں واپس اپنی جگہ جارہا ہوں میں یہ قتل اپنے ذمے لوں گا اور وجہ یہ بتاؤں گا کہ میں اور چنگیز رقیب تھے ہم تم سے اتنی قربانی نہیں لیں گے امام نے کہا میں تمہارے ساتھ ایک آدمی کو بھیجوں گا جو تمہیں قاہرہ چھوڑ آئے گا میں اپنی جان کی قربانی دینا چاہتا ہوں وکٹر نے کہا مجھے وہ وقت یاد ہے جب میرے شہر میں صلیبی فوج کے دو افسروں نے میری بہن پر ہاتھ ڈالا تھا انہوں نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا تھا کہ میری بہن کو اٹھا کر لے چلیں کوئی عیسائی میری مدد کو نہیں آیا تین مسلمان جوانوں نے ان سپاہیوں کا مقابلہ کیا تھا تینوں زخمی ہوگئے تھے لیکن انہوں نے میری بہن کو بچا لیا تھا وہ تو بالائی افسر اچھا تھا جس نے میری شکایت سن لی تھی ورنہ میری بہن بھی نہ رہتی اور تینوں مسلمانوں کو بھی قتل کرا دیا جاتا اسی واقعہ نے مجھے مسلمانوں کا جاسوس بنایا تھا میں آپ کی قوم کو اس احسان کا صلہ دینا چاہتا ہوں میں اپنی جان جلاد کے حوالے کرکے تریپولی کے مسلمانوں کی جان اور عزت بچاؤں گا
اس نے امام کو بتایا صلیبیوں نے فوجیں جمع کرنی شروع کردی ہیں اور انکا رخ حلب کی طرف ہوگا وہ سب سے پہلے شام کو تہہ تیغ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ابھی یہ پتہ نہیں چلا کہ وہ کب کوچ کریں گے یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ ان کی ساری فوج ایک ہی علاقے پر حملہ کرے گی یا آگے جاکر تقسیم ہوجائے گی اور ایک ہی وقت کئی مقامات پر حملے کرے گی سلطان ایوبی تک یہ اطلاع بہت جلدی پہنچ جانی چاہیے تاکہ وہ مصر میں نہ بیٹھا رہے وکٹر کو جو کچھ معلوم ہوسکا تھا وہ اس نے امام کو بتا دیا
وہ اٹھا اور امام کے روکنے پر بھی نہ رکا کہنے لگا آپ بالکل مطمئن رہیں آپ کو کوئی نہیں پکڑ سکے گا اور وہ باہر نکل گیا وہ شہر سے بھی نکل گیا اس کے زخموں سے خون بند ہوچکا تھا امام نے دونوں زخموں پر پٹیاں باندھ دی تھیں اس نے اس خیال سے دونوں پٹیاں اتار کر پھینک دیں کہ جن کے پاس وہ جارہا تھا وہ یہ نہ پوچھ بیٹھیں کہ مرہم پٹی کس سے کرائی ہے زخموں سے پھر خون رسنے لگا وہ اس جگہ گیا جہاں چنگیز اور عورت کی لاشیں پڑی تھیں رات کے پچھلے پہر کا چاند اوپر اٹھ آیا تھا وکٹر کو شراب کی صراحی اور دو پیالے پڑے نظر آئے اس نے عورت کے چہرے کو غور سے دیکھا موت بھی اس کے چہرے کا حسن نہیں بگاڑ سکی تھی اس کے کھلے ہوئے ریشمی ملائم بال اس کے سینے پر بکھر گئے تھے وکٹر نے شراب کی صراحی کو دیکھا اور زیر لب کہا انسان نے اپنی تباہی کے کیسے کیسے ذریعے اختیار کیے ہیں
اس نے چنگیز کو دیکھا اور اس کے پاس بیٹھ گیا چنگیز کا جسم برف کی طرح سرد ہوچکا تھا وکٹر نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا تم اچھی طرح جانتے تھے کہ عورت مرد کی کتنی بڑی کمزوری ہے اور شراب نے بادشاہوں کے تختے الٹ دئیے ہیں تم نے اس کمزوری کو اپنے اندر ڈال لیا میں بھی آرہا ہوں میرے دوست جلاد مجھے جلدی ہی تمہارے پاس پہنچا دے گا ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں میں آرہا ہوں دوست میں آرہا ہوں
وہ اٹھا اور بہت تیز قدم اٹھاتا ہوا اس عمارت کی طرف چل پڑا جس میں افسر رہتے تھے اس کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا اس نے نیام سے خنجر نکالا اس پر خون جم گیا تھا اس نے اسے اپنے خون سے ترکیا اور خنجر ہاتھ میں رکھا خون زیادہ نکل جانے سے وہ کمزوری محسوس کرنے لگا تھا اس نے ایک دروازے پر دستک دی اسے معلوم تھا کہ جس کے پاس اسے جانا ہے اس کی رہائش یہی ہے کچھ دیر بعد ایک ملازم نے دروازہ کھولا وکٹر نے افسر کا نام لے کر کہا کہ اسے جگاؤ اور بتاؤ کہ ایک قاتل آیا ہے ملازم اندر کو دوڑا اندر سے گالیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں افسر گالیاں بکتا آیا دروازے پر آکر قہر بھری آواز میں پوچھا کون ہو تم کسے قتل کرکے آئے ہو؟
ملازم قندیل اٹھائے دوڑا آیا افسر نے روشنی میں وکٹر کو دیکھ کر پوچھا تم؟
کسی سے لڑائی ہوگئی تھی؟
میں دو انسانوں کے قتل کا اقبال کرنے آیا ہوں وکٹر نے کہا مجھے گرفتار کرلیں افسر نے اس کے منہ پر بڑی زور سے تھپڑ مار کر کہا قتل کا تمہیں یہی وقت ملا تھا؟
دن کو کیوں نہ قتل کیا؟
میں تمہارے باپ کا نوکر ہوں جو اس وقت تمہیں گرفتار کروں گا؟
اتنی گہری نیند سے مجھے جگا دیا ہے اس نے اپنے ملازم سے کہا اوئے لے جاؤ اسے قید خانے میں بند کردو ملازم وکٹر کو بازو سے پکڑ کر چل پڑا تو افسر نے گرج کر کہا اوئے رک جاؤ جنگلی کہیں کے تم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ راستے میں تمہیں بھی قتل کردے گا اندر لاؤ اسے اس نے کیا کیا ہے؟
میں نے ایک آدمی اور ایک عورت کا قتل کیا ہے جناب وکٹر بلند آواز سے بولا قتل کیا ہے؟
افسر نے حیرت اور گھبراہٹ سے پوچھا قتل کیا ہے؟
اگر مسلمان قتل کیا ہے تو جاؤ اپنی مرہم پٹی کراؤ تم اسے قتل نہ کرتے تو وہ تمہیں قتل کردیتا اگر کسی صلیبی کو قتل کیا ہے تو تمہیں بھی قتل ہونا چاہیے اندر آکر بتاؤ آپ نے میرے ساتھ ایک بڑا ہی خوبرو آدمی دیکھا ہوگا وکٹر نے اندر جاکر کہا اس نے چنگیز کا وہ عیسائی نام بتایا جس سے وہ جانا پہچانا جاتا تھا کہنے لگا میری دوستی ایک عورت کے ساتھ تھی میرے اس ساتھی نے اس عورت کو ورغلایا اور میرے اور اس کے تعلقات توڑ ڈالے اس عورت کے ساتھ دوستی کرلی اور اس سے میری بے عزتی کرائی میں اس عورت کی دوستی سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا تھا ان دونوں نے مجھے بہت مشتعل کیا میں نے آج رات انہیں اکٹھے بیٹھے دیکھ لیا میں دراصل انہیں دیکھنے ہی گیا تھا انہیں میں نے ایسی حالت میں دیکھا جو میری برداشت سے باہر تھی میں نے عورت پر حملہ کیا اور اسے خنجر سے مار ڈالا پھر اپنے رقیب کے ساتھ خنجر بازی ہوئی مجھے یہ دو زخم آئے ہیں اسے بھی دو ہی زخم آئے ہیں مگر مہلک ثابت ہوئے ہیں کہیں بھاگ جانے کے بجائے آپ کے پاس آگیا ہوں
افسر نے کہا عورت کے لیے قتل ہونا یا قتل کرنا عقل مندی تو نہیں یہ افسر بالکل سنجیدہ نہیں لگتا تھا وہ شاید وکٹر کو چھوڑ دیتا مگر صبح ہوتے ہی لاشیں دیکھی گئیں ہرمن اور اس کے نائب کو پتہ چلا تو دونوں غصے سے پاگل ہونے لگے مقتولہ ان کی بڑی قیمتی اور کارآمد مخبر اور جاسوس تھی اور چنگیز اس عورت کا شکار تھا جس سے اس گروہ کا سراغ لگانا تھا یہ گروہ محفوظ ہوگیا تھا وکٹر کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا کسی نے اس کی مرہم پٹی کی نہ سوچی ہرمن نے اسے پیٹنا شروع کردیا جس سے وکٹر بے ہوش ہوگیا اس کے بعد وہ کبھی بھی ہوش میں نہ آیا دوسرے دن بے ہوشی کی حالت میں اسے جلاد کے حوالے کردیا گیا جلاد کے کلہاڑے نے ایک ہی وار سے اس کا سر تن سے جدا کردیا اس کے سر اور دھڑ کو جب ایک گڑھے میں پھینکا جارہا تھا اس وقت امام کا روانہ کیا ہوا ایک جاسوس تریپولی سے دور نکل گیا تھا اسے اونٹ پر بھیجا گیا تھا کیونکہ قاہرہ تک کا سفر بڑا ہی لمبا اور بڑا ہی کٹھن تھا جسے صرف اونٹ برداشت کرسکتا تھا
٥٧٢ھ ہجری (١١٧٧ عیسوی) کے اوائل کا ایک مہینہ تھا قاہرہ کے فوجی علاقے میں غیرمعمولی رونق اور چہل پہل تھی کسی میدان میں گھوڑے دوڑائے جارہے تھے اور کہیں پیادہ سپاہیوں کو ٹریننگ دی جارہی تھی شتر سواروں کی رونق الگ تھی قاہرہ سے دور پہاڑی علاقے میں منظر ایسا تھا جیسے جنگ لڑی جارہی ہو یہ سلطان ایوبی کی فوج کی جنگی مشق تھی ایک وادی میں آتش گیر مادہ پھینک کر آگ لگائی گئی تھی جو بیس پچیس گز تک پھیلی ہوگٸی تھی سوار گھوڑے دوڑاتے ان شعلوں میں سے گزر رہے تھے ایک جنگی مشق دور ریگستان میں ہورہی تھی کسی سپاہی کو پانی اپنے ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں تھی
یہ بڑی ہی سخت ٹریننگ تھی جو نئے رنگروٹوں کو دی جارہی تھی بھرتی ابھی جاری تھی فوج کے تمام سالار اور دیگر افسر اس ٹریننگ میں مصروف تھے سلطان ایوبی سلطنت کے دوسرے مسائل اور امور کی طرف رات کو توجہ دیتا تھا اس کا دن ٹریننگ کی نگرانی کرتے اور سالاروں کو ہدایات دیتے گزرتا تھا اس نے سب سے کہہ دیا تھا کہ اگر صلیبیوں نے شام پر فوج کشی نہ کی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے لڑائی سے توبہ کرلی ہے یا ان کی عقل جواب دے گئی ہے مگر ان دونوں میں سے ایک بھی بات صحیح نہیں وہ ضرور آئیں گے اس وقت تک کسی نہ کسی مقبوضہ علاقے سے اپنے کسی آدمی کو آنا چاہیے تھا سلطان ایوبی نے اپنے پاس کھڑے ایک سالار سے کہا وہ ایک چٹان پر کھڑا جنگی مشق دیکھ رہا تھا اس نے کہا صلیبی آئیں گے ضرور یہ مجھے کوئی جاسوس ہی بتا سکتا ہے کہ وہ کدھر سے آئیں گے کہاں آئینگے اور ان کی نفری کتنی ہوگی وہ چٹان سے اتر کر کسی اور طرف جانے لگا تو اسے دور سے گرد اڑتی نظر آئی جو ایک یا دو گھوڑوں کی تھی سلطان رک گیا گرد قریب آئی تو اس میں سے دو گھوڑے برآمد ہوئے ایک پر علی بن سفیان سوار تھا اور دوسرے کو سلطان پہچان نہ سکا وہ تریپولی سے امام کا بھیجا ہوا جاسوس تھا جو وہاں سے اونٹ پر روانہ ہوا تھا بہت دنوں بعد قاہرہ پہنچا تھا علی بن سفیان نے اس سے رپورٹ لی اور اسے گھوڑے دے کر ساتھ لے آیا تاکہ رپورٹ سلطان ایوبی کو فوراً دی جائے جاسوس نے سلطان ایوبی کو بتایا صلیبی ایک برق رفتار اور طوفانی حملے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں فوجوں کا اجتماع شروع ہوگیا ہے سب سے زیادہ فوج حونین کے شاہ رینالٹ کی ہے وہ اس طوفانی یلغار کی قیادت کرنا چاہتا ہے وہی رینالٹ جسے نورالدین زنگی نے گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا تھا سلطان ایوبی نے کہا اسے وہ اپنی شرائط پر رہا کرنا چاہتے تھے مگر زنگی کی بے وقت موت ریناٹ کی رہائی کا باعث بنی اقتدار اور زروجواہرات کے لالچی امراء نے نورالدین زنگی کے کمسن بیٹے کو کٹھ پتلی بنایا اور رینالٹ کو رہا کر دیا آج وہ رینالٹ اسلام کا خاتمہ کرنے آرہا ہے ہاں! تم آگے سناؤ انہیں یلغار کرنی چاہیے تھی اور کون ہوگا؟
تریپولی کا ریمانڈ ہوگا زیادہ تر افواج کا اجتماع وہیں ہورہا ہے اور حملے کی تفصیلات وہیں طے ہورہی ہیں تیسرا بالڈون ہوگا اس کی فوج بھی کم نہیں یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ صلیبی فوج کب کوچ کرے گی حملہ شام پر ہوگا حلب حرن اور حماة کے نام سنے گئے ہیں کوچ جلدی ہوگا
علی بن سفیان سلطان ایوبی نے کہا مجھے تریپولی سے آخری اطلاعات کا انتظار رہے گا ان اطلاعات کا انتظار نہ کریں جن کی آپ توقع لگائے بیٹھے ہیں علی بن سفیان کے بجائے جاسوس نے جواب دیا صلیبیوں کے عسکری ایوان میں ہمارے آدمی تھے دونوں مارے گئے ہیں اس نے راشد چنگیز اور وکٹر کا واقعہ سنا دیا سلطان ایوبی کی آنکھیں لال ہوگئیں جاسوس نے کہا رینالٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی فوج میں اڑھائی سو نائٹ ہونگے اپنے ان دونوں جاسوسوں نے مرنے سے پہلے امام کو بتایا تھا کہ صلیبی آپ کو چھاپہ مار اور شب خون مارنے کا طریقہ استعمال کرنے کی مہلت نہیں دیں گے انہوں نے کچھ ایسی چالیں سوچ لی ہیں جن سے وہ آپ کو مجبور کر دینگے کہ آپ پوری فوج کو سامنے لا کر لڑیں انہیں آپ کی اس کمزوری کا علم ہے کہ آپ کے پاس فوج کی کمی ہے اسی کے پیش نظر وہ بہت زیادہ فوج لا رہے ہیں تاکہ آپ گھوم پھر کر نہ لڑسکیں جاسوس کی یہ اطلاع ملنے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی باہر کم نظر آنے لگا وہ کمرے میں بند رہنے لگا کاغذ پر ممکنہ میدان جنگ کا نقشہ بنا کر اس پر پیش قدمی اور دیگر چالوں کی لکیریں کھینچتا رہتا کبھی اچانک اپنے سالاروں کو بلا کر ان کے ساتھ بحث میں الجھ جاتا اور انہیں موقع دیتا کہ وہ بھی رائے دیں اور چالیں سوچیں ان سالاروں میں ایک عیسیٰ الہکاری تھا جو ایک قابل سالار ہونے کے علاوہ عالم اور قانون دان بھی تھا اسے بعض مؤرخوں نے سلطان ایوبی کا دست راست بھی کہا ہے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک روز سلطان ایوبی نے خلاف توقع کوچ کا حکم دے دیا اس نے فوج کا خاصا حصہ سوڈان کی سرحد کے ساتھ خیمہ زن کردیا کیونکہ ادھر سے بھی حملے کا خطرہ تھا اس کے لیے سب سے بڑی مصیبت یہی تھی کہ وہ پیش قدمی کرتا تھا تو اس کے عقب میں بھی دشمن ہوتا تھا صلیبیوں کے لیے وہ مصر کی ساری فوج نہیں لے جاسکتا تھا اس نے کوچ کیا تو مورخوں کے اعداد وشمار کے مطابق اس کے پاس جو فوج تھی وہ ایک ہزار پیادہ تھی یہ سب مملوک تھے (مملوک آزاد کیے ہوئے غلاموں کو کہا جاتا تھا) یہ لڑاکے اور جنگجو تھے ان کے علاوہ آٹھ ہزار گھوڑ سوار تھے جن میں مصری بھی تھے اور وہ سوڈانی بھی جنہیں ١١٦٩ء میں سلطان ایوبی نے بغاوت کے جرم میں فوج سے نکال کر انہیں زرخیز زمینوں پر آباد کردیا تھا اب وہ مصر کے وفادار تھے ان پر اعتماد کیا جاسکتا تھا مگر یہ ایک ہزار مملوک اور آٹھ ہزار سوار نئے نئے فوج میں بھرتی ہوئے تھے انہوں نے ابھی جنگ دیکھی ہی نہیں تھی ان کی ٹریننگ بمشکل مکمل ہوئی تھی
سلطان ایوبی اپنی فوج اپنے بھائی العادل کی زیر کمال حلب کے مضافات میں چھوڑ آیا تھا اسے کسی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ صلیبی اتنی جلدی شام تک نہیں پہنچیں گے اس نے کوچ بہت تیز کرایا اور حلب جا پہنچا وہاں اسے پتہ چلا کہ صلیبیوں نے حرن کے قلعے کو محاصرے میں لے رکھا ہے آپ نے حرن کا مکمل ذکر پچھلی کہانیوں میں پڑھا ہے سلطان ایوبی نے محاصرہ کرنے والی صلیبی فوج کو محاصرے میں لے لیا اس کی یہ چال ایسی اچانک تھی کہ صلیبی جم کر لڑ نہ سکے سلطان ایوبی نے بہت سے قیدی پکڑے اور صلیبیوں کو بہت نقصان پہنچایا اس نے پیش قدمی جاری رکھی اور دو اہم مقامات بڈیا اور رملہ پر قبضہ کرلیا یہ فتوحات قدرے آسان تھیں مصر سے آئے ہوئے نئے سپاہیوں کے حوصلے بڑھ گئے وہ سمجھے کہ جنگ اسی طرح ہوتی ہے جس میں فتح ہماری ہی ہوتی ہے اس سے نئے سپاہی غیر محتاط ہوگئے صلیبیوں نے غالباً دانستہ پسپا ہوکر سلطان ایوبی کو دھوکہ دیا تھا انہوں نے تھوڑی سی فوج کی نمائش کی تھی یہ فرنگی (فرینکس) تھے رینالٹ اور بالڈون کی فوجیں ابھی سامنے نہیں آئی تھیں وہ اسی علاقے میں موجود تھے اب صلیبیوں نے ایسے سخت اقدامات کیے تھے کہ سلطان ایوبی کے جاسوس دشمن کے علاقے سے نکل ہی نہ سکے تریپولی کے جاسوس کے بعد ادھر سے کوئی آ ہی نہ سکا رملہ کے قریب ایک ندی تھی جس کا پانی تو گہرا نہیں تھا ندی گہرائی میں تھی اور چوڑی بھی عیسیٰ الہکاری نے رملہ کو فتح کرکے اپنے دستوں کو رملہ کے اردگرد پھیلا دیا اچانک ندی کے کنارے کی اوٹ میں صلیبیوں کی فوج یوں نکلی جیسے سیلاب کناروں سے باہر آگیا ہو یہ فوج جانے کب سے وہاں چھپی بیٹھی تھی عیسیٰ الہکاری کے دستے بے خبری میں مارے گئے وہ بکھرے ہوئے بھی تھے مقابلہ نہ کرسکے تریپولی کے جاسوس کی یہ اطلاع صحیح ثابت ہوئی کہ صلیبی ایسی چالیں چلیں گے جن سے سلطان ایوبی اپنے مخصوص طریقہ جنگ سے لڑنے کے قابل نہیں رہے گا
اس وقت کے ایک وقائع نگار ابن اسیر نے لکھا ہے فرنگی اس طرح ندی سے نکلے جیسے انسانوں اور گھوڑوں کا سیلاب کناروں سے باہر آکر آبادیوں کو اپنے ساتھ بہائے لے جارہا ہو سلطان ایوبی کی فوج بے خبری میں مکمل گھیرے میں آگئی مشہور مورخ جیمز نے لکھا ہے شاہ بالڈون صلاح الدین ایوبی سے پہلے اپنی فوج رملہ کے مضافات میں لے آیا تھا صلاح الدین ایوبی کی فوج نے رملہ کا شہر فتح کرلیا اور اس کے ہر اول کے ایک سالار ایولن نے شہر کو آگ لگا دی تھی صلیبیوں (فرنگیوں) کی گھات کامیاب رہی ایوبی گھیرے میں آگیا اس کے دستے بکھر گئے اس نے کئی دستے یکجا کرلیے اور اپنی خصوصی چال کے مطابق جوابی حملہ کیا مگر میدان صلیبیوں کے ہاتھ میں تھا صلاح الدین ایوبی کا حملہ نہ صرف ناکام رہا بلکہ اس کے لیے پسپائی بھی ناممکن ہوگئی نئے رنگروٹ جو چند ایک مقامات آسانی سے فتح کرکے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ انہیں کوئی شکست دے ہی نہیں سکتا وہ ایسے بھاگے کہ انہوں نے مصر کا رخ کرلیا بھاگنے والوں میں ان کی تعداد زیادہ تھی جنہیں بعض غیر محتاط فوجی افسروں نے مال غنیمت کا لالچ دے کر بھرتی کیا تھا سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ سب نا تجربہ کار تھے سلطان ایوبی اس کیفیت میں رہ گیا تھا کہ وہ ایک اونٹ پر سوار ہوکر میدان کار زار سے نکلا اور اپنی جان بچائی قاضی بہاؤالدین شداد جو اس جنگ کا عینی شاہد ہے اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے سلطان ایوبی نے مجھے اس شکست کی وجہ ان الفاظ میں بتائی تھی
صلیبیوں نے میری چال چل کر میری فوج کو اس وقت جنگ میں گھسیٹ لیا جب میں اسے جنگی ترتیب میں نہیں لاسکا تھا دوسری وجہ یہ ہوئی کہ میری فوج کے پہلوؤں پر جو دستے تھے وہ جگہ آپس میں بدل رہے تھے یہ بہت بڑی نقل وحرکت تھی صلیبیوں نے اس کیفیت میں حملہ کردیا ان کا حملہ اتنا شدید اور اچانک تھا کہ میرے نئے سپاہی اور سوار گھبرا کر پیچھے کو بھاگ اٹھے اور انہوں نے مصر کا رخ کرلیا وہ راستے سے بھٹک گئے اور دور دور بکھر گئے میں انہیں یکجا نہ کرسکا دشمن نے میری فوج سے بہت سے جنگی قیدی پکڑے ان میں عیسیٰ الہکاری بھی تھا سلطان ایوبی نے اپنی فوج کو مروانے کے بجائے حکم دے دیا کہ اپنے اپنے طور پر میدان جنگ سے نکلو اور قاہرہ پہنچنے کی کوشش کرو سلطان ایوبی نے صلیبیوں کو ساٹھ ہزار دینار زر فدیہ ادا کرکے عیسیٰ الہکاری کو رہا کرا لیا ایک مصرف وقائع نگار محمد فرید ابوحدید نے لکھا ہے کہ سلطان ایوبی نے اپنے بھائی شمس الدولہ توران شاہ کو اس جنگ اور اپنی شکست کا حال لکھا تھا جس میں اس نے عربی کا ایک شعر بھی لکھا تھا اس کے معنی یہ ہیں میں نے تمہیں اس وقت یاد کیا جب صلیبی برچھیاں چل رہی تھیں دشمن کی سیدھی اور گندمی رنگ کی برچھیاں ہمارے جسموں میں داخل ہوکر ہمارا خون پی رہی تھیں
یہ معرکہ جمادی الاول ٥٧٣ہجری (اکتوبر ١١٧٧ء) میں لڑا گیا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی اس حالت میں قاہرہ پہنچا کہ اس کا سرجھکا ہوا تھا اس کے ساتھ کوئی فوج نہیں تھی اس کا محافظ دستہ بھی ساتھ نہیں تھا اس نے قاہرہ پہنچتے ہی مزید بھرتی کا حکم دیا شام کے محاذ پر وہ اپنے بھائی العادل اور بڑے قابل سالاروں کو حماة کے علاقے میں چھوڑ آیا تھا
جب فرض نے محبت کا خون کیا
آج وہ رملہ اسرائیلیوں کے قبضے میں ہے جہاں آٹھ سو سال پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں سے شکست کھائی تھی رملہ جو بیت المقدس سے دس میل دور شمال میں واقع ہے اردن کے علاقے میں ہے جون ١١٦٧ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلیوں نے اردن کے اس تمام علاقے پر قبضہ کرلیا تھا جو دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیل کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے دس برس گزر گئے ہیں اسرائیلیوں نے یہ علاقہ خالی کرنے کے بجائے اس پر مکمل قبضہ کرلیا ہے اور کہا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں یہاں سے نکال نہیں سکتی انہوں نے رملہ کو (اور اس تمام مقبوضہ علاقے کو) اس وقت بھی قتل گاہ بنایا تھا جب انہوں نے اس پر قبضہ کیا تھا یہ آج بھی قتل گاہ ہے گزشتہ ایک سال سے رملہ میں جو مسلمان رہ گئے وہ اسرائیل حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اور اسرائیلی انہیں ظلم وتشدد اور رائفلوں کی گولیوں سے خاموش کر رہے ہیں
اسرائیلیوں کی ہٹ دھرمی اور عربوں کے آپس میں اختلاف بتا رہے ہیں کہ اسرائیلی اس علاقے کو نہیں چھوڑیں گے دس برس تو گزر گئے ہیں لیکن آٹھ سو سال پہلے جب یہ علاقہ اور یہی رملہ صلیبیوں کے قبضے میں آیا تھا تو سلطان صلاح الدین ایوبی ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھا تھا وہ میدان جنگ سے بڑی مشکل سے جان بچا کر نکلا تھا اس کی فوج ایسی بری طرح بھاگی کہ بکھر کر مصر کا رخ کرلیا فوج کی خاصی نفری صلیبیوں کی قیدی ہوگئی اور کچھ نفری قاہرہ تک بے سروسامانی کی حالت میں پاپیادہ جاتے صحرا اور سفر کی صعبتوں کی بھینٹ چڑھ گئی ایسی شکست حوصلے اور جذبے توڑ دیا کرتی ہے سنبھلتے سنبھلتے مدتیں گزر جاتی ہیں لیکن سلطان ایوبی مصر جا کر نہ صرف سنبھلا بلکہ اس علاقے میں واپس گیا جہاں سے شکست کھا کر بھاگا تھا اور اس نے صلیبیوں کے لیے قیامت بپا کردی
رملہ آج پھر سلطان صلاح الدین ایوبی کا انتظار کررہا ہے
سلطان ایوبی کے سامنے صرف یہ مسئلہ نہیں تھا کہ شکست کا انتقام لینا ہے اور صلیبیوں کی پیش قدمی کو روکنا ہے اسے بہت سے خطروں نے گھیر رکھا تھا اس کی صفوں میں غداروں کی کمی نہیں تھی سوڈان کی طرف سے حملے کا خطرہ بڑھ گیا تھا سوڈانیوں کو معلوم تھا کہ سلطان ایوبی کے پاس فوج نہیں رہی اور جو ہے وہ شکست خوردہ اور زخم خوردہ ہے یہ خطرہ تو سب سے بڑا تھا کہ صلیبیوں کے پاس فوج دس گنا زیادہ تھی اور اس فوج کے حوصلے کو رملہ کی فتح نے مضبوط کردیا تھا ایک یہ خطرہ بھی تھا کہ جو مسلمان امراء سلطان ایوبی کے مخالف تھے وہ اس کی شکست سے فائدہ اٹھا سکتے تھے وہ ایک بار پھر متحد ہوکر سلطان ایوبی کی اس فوج کے لیے مصیبت بن سکتے تھے جسے وہ محاذ پر چھوڑ آیا تھا اس فوج کا سالار اعلیٰ اس کا اپنا بھائی العادل تھا جس پر سلطان ایوبی کو مکمل اعتماد تھا
اور ایک خطرہ صلیبی جاسوسوں کا بھی تھا پسپائی کے وقت صلیبیوں کے جاسوسوں کا بھی مصری فوج کے بھیس میں مصر پہنچ جانا آسان تھا یہ جاسوس مصر میں افواہیں پھیلا کر قوم کی حوصلہ شکنی کرسکتے تھے
اس شکست کے بعد العادل قرون حماة تک پیچھے ہٹ آیا تھا اس داستان کی پچھلی اقساط میں آپ نے حماة کی جنگ کی تفصیل پڑھی ہے یہاں سلطان ایوبی نے اپنے مخالف مسلمان امراء کو شکست دی تھی حماة کا قلعہ بھی تھا صلیبی سلطان کو شکست دے کر حماة کی طرف بڑھے العادل خود بھی قابل سالار تھا اور اس کے ساتھ جو سالار تھے وہ مردان حر تھے ان کا دین و ایمان سلطان ایوبی کی طرح پختہ تھا العادل اپنے بھائی سلطان ایوبی کا شاگرد تھا جنگی چالوں کی مہارت اس سے سیکھی تھی اسے اندازہ تھا کہ صلیبی اتنی بڑی اور اتنی آسان فتح کے بعد رملہ میں ہی خیمہ زن نہیں ہوجائیں گے اس نے کسی بہروپ میں اپنے جاسوس پیچھے چھوڑے اور خود فوج کے ساتھ حماة کا رخ کیا اسے پتہ چل گیا تھا کہ سلطان ایوبی مصر چلا گیا ہے
اس کا اندازہ صحیح ثابت ہوا جاسوسوں نے اسے اطلاع دی کہ صلیبیوں کی فوج حماة کی طرف پیش قدمی کررہی ہے العادل نے اپنی فوج کی کیفیت دیکھی اچھی نہیں تھی سپاہیوں کا حوصلہ مجروح ہوگیا تھا گھوڑوں اور اونٹوں کی بھی کمی ہوگئی تھی رسد کی کیفیت بھی تسلی بخش نہیں تھی البتہ وہ فوج کو بڑی اچھی جگہ لے آیا تھا جہاں سبزہ پانی اور علاقہ پہاڑی تھا العادل نے فوج کو ایک جگہ جمع کرلیا اس نے دیکھا کہ اونٹوں کی خاصی تعداد زخمی ہے اس نے ان اونٹوں کو ذبح کرا دیا اور فوج سے کہہ دیا کہ پیٹ بھر کر گوشت کھاؤ اس طرح اس نے رات کو ایک وسیع وادی میں جشن کا منظر بنا دیا شام کو ہی اس نے حلب اور دمشق کو اس پیغام کے ساتھ قاصد دوڑا دئیے تھے کہ جس قدر رسد جانور اور اسلحہ بھیج سکتے ہو بھیجو رات جب سپاہی اونٹ کا گوشت کھا کر سیر ہوچکے تو العادل ایک ٹیکری پر چڑھ گیا اس کے دائیں بائیں دو مشعل بردار کھڑے تھے اس نے انتہائی بلند آواز میں کہا اللہ اور رسول صلی اللہ وآلہ وسلم کے مجاہدو! اس حقیقت کو قبول کرو کہ ہم شکست کھا کر آئے ہیں کیا تم اس حالت میں اپنی ماؤں اپنی بہنوں اپنی بیویوں اور اپنی بچیوں کے سامنے جاؤ گے اور انہیں یہ بتاؤ گے کہ ہم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکروں سے شکست کھا کر آئے ہیں؟
کیا تمہاری مائیں تمہیں دودھ کی دھاریں بخش دیں گی؟
وہ گھروں میں بیٹھی اس خبر کا انتظار کررہی ہیں کہ ہم نے قبلہ اول کو کفار کے قبضے سے آزاد کرا لیا ہے انہیں معلوم ہے کہ جن علاقوں میں کفار قابض ہیں وہاں وہ مسلمان عورتوں کو بے آبرو کررہے ہیں ذرا سوچو کہ اپنی ماؤں اور بہنوں کو کیا جواب دو گے؟
تم میں سے جو یہاں سے پیچھے جانا چاہتے ہیں الگ کھڑے ہوجائیں میں انہیں نہیں روکوں گا انہیں گھروں کو جانے کی اجازت ہے العادل خاموش ہوگیا فوج پر بھی خاموشی طاری تھی کوئی ایک بھی سپاہی الگ نہ ہوا سالار اعلیٰ ہمیں اپنا مقصد بتائیں کسی سپاہی کی آواز گرجی آپ کو کس نے بتایا ہے کہ ہم گھروں کو جانا چاہتے ہیں؟
اگر میں پسپائی میں مارا گیا تو یہ میری وصیت ہے کہ میری لاش دفن نہ کی جائے ایک اور آواز گرجی گدھوں اور بھیڑیوں کے لیے پھینک دی جائے پھر کئی آوازیں سنائی دیں ہر آواز میں جذبے کا جوش تھا العادل کا سینہ پھیل گیا اس نے کہا دشمن تمہارے پیچھے آرہا ہے تمہیں یہ ثابت کرنا ہے کہ رملہ کی فتح اس کی آخری فتح ہے آج کی رات اور کل کا دن مکمل آرام کرو کل رات تمہیں بتا دیا جائے گا کہ ہم کیا کریں گے العادل نے فوج سے فارغ ہوکر اپنے سالاروں اور کمان داروں کو اپنے خیمے میں بلا لیا اور انہیں ہدایات دیں کہ کل رات وہ اپنے دستوں کو کہاں کہاں لے جائیں گے حماة کا قلعہ قریب ہی تھا صلیبی بہت تیزی سے پیش قدمی کررہے تھے یہ بالڈون کی فوج تھی اسے معلوم تھا کہ آگے حماة کا قلعہ ہے اور العادل کی فوج اسی قلعے میں ہوگی اسے جاسوسوں کے ذریعے یہ بھی معلوم تھا کہ جو فوج حماة کی طرف پسپا ہوکر گئی ہے اس کا کمانڈر العادل ہے اور العادل سلطان ایوبی کا بھائی ہے یہ تو معمولی سا فوجی بھی سمجھ سکتا تھا کہ تھکی ہوئی اور شکست خوردہ فوج اپنے قریبی قلعے میں ہی جائے گی چنانچہ صلیبی بادشاہ بالڈون نے برق رفتار پیش قدمی کرکے حماة کے قلعے کا محاصرہ کرلیا اس نے اعلان کیا کہ قلعے کا دروازہ کھول دیا جائے ورنہ قلعے کو زمین سے ملا دیا جائے گا وہ اس خیال میں تھا کہ العادل کی فوج لڑنے کی حالت میں نہیں اعلان کے جواب میں قلعے کی دیوار سے تیروں کی بوچھاڑیں آئیں بالڈون نے ایک بار پھر اعلان کرایا کہ یہ خون خرابہ بے مقصد ہوگا تم لڑ نہیں سکو گے قلعہ ہمارے حوالے کردو میں وعدہ کرتا ہوں کہ کسی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا جائے گا قلعے کے اوپر سے آواز آئی اتنی دور رہو جہاں تک ہمارے تیر نہ پہنچ سکیں قلعہ تمہیں دینے کے بجائے اسے ہم خود زمین سے ملا دیں گے ہمارا خون بے مقصد نہیں بہے گا تم بے مقصد موت مرو گے
قلعے کی دیواروں پر جو کھڑے تھے انہیں صلیبیوں کی فوج یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے سمندر کی موجیں ہر طرف سے قلعے کو نرغے میں لیے ہوئے ہوں اس کے مقابلے میں قلعے میں جو فوج تھی وہ نہ ہونے کے برابر تھی لیکن اس قلیل فوج کے کمانڈر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہ تھے فوج بہت تھکی ہوئی تھی یہ تعاقب تھا بالڈون اس کوشش میں تھا کہ العادل کو کہیں آرام کرنے اور اپنی فوج کو ازسر نو منظم کرنے کی مہلت نہ دے وہ العادل کو زندہ پکڑنا چاہتا تھا صلاح الدین ایوبی کا بھائی ہونے کی وجہ سے العادل بڑا ہی قیمتی قیدی تھا اس کے عوض صلیبی سلطان ایوبی سے کڑی شرطیں منوا سکتے تھے کوئی علاقہ لے سکتے تھے بالڈون کو پوری توقع تھی کہ وہ قلعہ قلعے کی فوج اور العادل سمیت لے سکے گا بالڈون نے اپنی فوج کو قلعے سے اتنی دور پیچھے ہٹا لیا تھا جہاں تک قلعے والوں کے تیر نہیں پہنچ سکتے تھے اسے ایسا خطرہ تو تھا ہی نہیں کہ باہر سے کوئی فوج اس پر حملہ کردے گی سلطان ایوبی بھی وہاں نہیں تھا اس کی فوج بھی نہیں تھی بالڈون کو حماة کا قلعہ اپنے قدموں میں پڑا نظر آرہا تھا شام کے فوراً بعد وہ اپنے کمانڈروں کو اگلے روز کے احکامات دے کر اپنی ذاتی خیمہ گاہ میں چلا گیا تھا جو فوج سے کچھ دور پیچھے تھی اس دور کے جنگجو بادشاہوں کی خیمہ گاہیں شیش محل سے کم نہیں ہوتی تھیں بالڈون تو فاتح تھا تین چار صلیبی لڑکیاں اس کے ساتھ تھیں اور چار وہ مسلمان لڑکیاں تھیں جنہیں صلیبی کمانڈروں نے مفتوحہ علاقے سے پکڑا اور بالڈون کو بطور تحفہ پیش کی تھیں یہ لڑکیاں عرب کے حسن کا شاہکار تھیں
صلیبی لڑکیوں نے انہیں ذہن نشین کرادیا تھا کہ ان کا رونا اور آزاد ہونے کے لیے تڑپنا بے کار ہے انہیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ خوش قسمت ہیں جو صلیب کے بادشاہ کے حصے میں آئی ہیں جو لڑکیاں صلیبی فوجیوں کے قبضے میں آگئی ہیں ان کا حشر دیکھ کر زمین اور آسمان کانپتے ہیں تمہیں آخر کسی مسلمان امیر یا حکام کے حرم میں جانا تھا جہاں تم قیدی ہوتیں دو چار سال بعد جب تمہاری نوجوانی کی کشش ماند پڑنے لگتی تو تمہیں کسی سوداگر کے ہاتھ فروخت کردیا جاتا تم اگر اپنی فوج کے ہاتھ چڑھ جاتیں تو تمہارے مسلمان بھائی تمہارا وہی حشر کرتے جو ہماری فوج کرتی ہے عورت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اسے جس کے ساتھ بیاہ دیا جائے یا وہ جس کے قبضے میں آجائے وہی انسان اس کا خدا اور اس کا مذہب بن جاتا ہے پھر کیوں نہ تم اس انسان کے پاس رہو جو میدان جنگ کا بادشاہ ہے ایک ملک کا بادشاہ ہے اور دل کا بھی بادشاہ ہے
پہلے روز لڑکیاں تڑپی تھیں ان پر تشدد نہ کیا گیا انہیں کوئی دھمکی نہ دی گئی بالڈون نے جب دیکھا کہ یہ نوجوان ہیں اور خوبصورت بھی ہیں تو اس نے اپنی ہائی کمانڈ کے جرنیلوں سے کہا تھا کہ ان لڑکیوں کو ٹریننگ دے کر بہتر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے ایسی قیمتی لڑکیوں کو عیاشی کا ذریعہ بنا کر ضائع نہیں کرنا چاہیے چنانچہ اس نے انہیں اپنے پاس رکھ لیا تھا مگر اس سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ انہیں بیٹیاں بنا کر رکھے گا اس نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جس کی توقع تھی لیکن انہیں اپنی قوم کی شہزادیوں جیسی اہمیت دی انہیں سبز باغ دکھائے اور باتوں باتوں میں انہیں آسمان تک پہنچا دیاں ہمیں اپنی عصمت کی قربانی دینی ہی پڑے گی ان میں سے ایک لڑکی نے اس وقت کہا جب چاروں کو تنہائی میں باتیں کرنے کا موقع ملا تھا ہمیں فرار ہونا چاہیے اور انتقام لینا چاہیے دوسری نے کہا لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم ان پر یہ ظاہر نہ کریں کہ ہم نے ان کی غلامی دلی طور پر قبول کرلی ہے پہلی لڑکی نے کہا ہمیں اپنا اعتماد پیدا کرنا ہے
میرے والد سلطان ایوبی کی فوج میں ہیں ایک اور لڑکی نے کہا آج کل مصر میں ہیں انہوں نے بتایا تھا کہ کافروں کی لڑکیاں اپنی قوم اور اپنی صلیب کی خاطر اپنی عزت کی قیمت دے کر ہمارے بڑے بڑے حاکموں کو صلیب کی وفادار بنا لیتی ہیں کسی کو قتل کرنا ہو تو قتل کرا دیتی ہیں ہماری فوج کے راز معلوم کرکے اپنے حاکموں تک پہنچاتی ہیں میں جانتی ہوں ایک اور لڑکی بولی ان کی لڑکیاں وہی کام کرتی ہیں جو ہمارے مرد جاسوس دشمن کے ملک میں جا کر کرتے ہیں وہ چپ ہوگئی ادھر ادھر دیکھ کر راز داری سے بولی اگر ہم انہیں کہہ دیں کہ ہم ان کا مذہب قبول کرتی ہیں تو ایسا موقع پیدا ہوسکتا ہے کہ ہم اس بادشاہ کو قتل کردیں اور کچھ نہ ہوا تو فرار کا موقع پیدا کیا جاسکتا ہے ایک لڑکی نے کہا جس رات بالڈون کی فوج نے حماة کے قلعے کو محاصرے میں لے رکھا تھا اس سے دو راتیں پہلے لڑکیوں نے پیش قدمی کے دوران صلیبی لڑکیوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ ان کی باتیں سمجھ گئی ہیں اور وہ کسی وقت بھی مذہب تبدیل کرلیں گی بالڈون کو بتایا گیا تو اس نے چاروں لڑکیوں کو بیش قیمت ہار پیش کیے اور چاروں کے گلے میں چھوٹی چھوٹی صلیبیں لٹکا دیں مگر اس نے صلیبی لڑکیوں کو الگ کرکے کہا میں ان چاروں میں سے کسی کے ہاتھ سے کچھ کھاؤں پیوں گا نہیں ہوسکتا ہے انہوں نے ڈر کی وجہ سے مذہب تبدیل کیا ہو زبان سے مذہب تبدیل کیا جاسکتا ہے دل کی تبدیلی آسان نہیں ہوتی ان کے دلوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرو مسلمانوں کو خریدنا کوئی مشکل نہیں لیکن مسلمانوں پر بھروسہ کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں جو مسلمان ایمان کے پکے ہیں وہ ایسی ایسی قربانی دے ڈالتے ہیں جس کا ہماری قوم تصور بھی نہیں کرسکتی یہ لڑکیاں کہیں بھاگ کر نہیں جاسکتیں لیکن ان پر نظر رکھنا کہ یہ مجھ پر وار نہ کرجائیں محاصرے کی پہلی رات یہ چاروں لڑکیاں الگ خیمے میں سوئی ہوئی تھیں بالڈون بھی ان کے ساتھ ہنس کھیل کر سوگیا تھا تمام چھوٹے بڑے کمانڈر بے ہوشی کی نیند سوئے ہوئے تھے فوج کو بھی ہوش نہیں تھی صرف سنتری اور بالڈون کے باڈی گارڈ کے چار پانچ سپاہی جاگ رہے تھے قرون حماة کی ایک وادی قلعے کی طرف نکلتی تھی آگے قلعے تک میدان تھا اس وادی سے کم وبیش ایک ہزار پیادہ سپاہی دبے پاؤں نکلے ان کے کمانڈر نے انہیں ٹولیوں میں بانٹ کر پھیلا دیا وہ آگے بڑھتے گئے بالڈون کی فوج کے خیمے دور نہیں تھے
یہ پیادہ سپاہی العادل کے تھے العادل قلعے میں نہیں تھا اسے اندازہ تھا کہ صلیبی قلعے کا محاصرہ کریں گے چنانچہ اس نے اپنے تمام دستے حماة کی پہاڑیوں میں چھپالیے تھے اس نے قلعے میں اطلاع بھجوائی تھی کہ محاصرے سے گھبرائیں نہیں العادل نے قلعہ دار کو اپنی سکیم بتا دی تھی یہی وجہ تھی کہ قلعہ دار صلیبیوں کی للکار کا جواب پوری دلیری سے اور تیروں کی بوچھاڑ سے دے رہا تھا قلعہ دار العادل کا ماموں شہاب الدین الحارمی تھا رات کو العادل کے ایک ہزار پیادوں نے ٹولیوں میں تقسیم ہوکر اور پھیل کر شب خون کے انداز کا حملہ کیا انہوں نے سب سے پہلے خیمے کی رسیاں کاٹیں اور اوپر سے صلیبیوں کو برچھیوں سے چھلنی کرنا شروع کردیا خیموں کے نیچے پھنسے ہوئے سپاہی کیا مزاحمت کرسکتے تھے
یہ جم کر لڑنے والا معرکہ نہیں تھا یہ سلطان ایوبی کا مخصوص طریقہ جنگ تھا ضرب لگاؤ اور بھاگو اتنی بڑی فوج کے خلاف ایک ہزار سپاہی جم کر لڑ بھی نہیں سکتے تھے ٹولیوں کو مختلف کام دئیے گئے تھے یہ دو تین ٹولیوں نے صلیبیوں کے گھوڑوں اونٹوں اور خچروں کے رسے کھول دئیے یہ ایک ہزار سپاہی بگولے کی طرح آئے اور دائیں بائیں کو نکل گئے صلیبیوں کی فوج میں ایسا شور اٹھا کہ ایسی ہڑبونگ مچی کہ بالڈون کی آنکھ کھل گئی اس کے کمانڈر بھی جاگ اٹھے خیمے سے باہر جاکر بالڈون نے دیکھا کہ کہیں آگ لگی ہوئی ہے العادل کے سپاہیوں نے خیموں کو آگ لگا دی تھی حملے کے وقت انہوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے تھے یہ نعرے مسلمان لڑکیوں نے بھی سنے تھے وہ سمجھ گئیں کہ یہ مسلمان فوج کا حملہ ہے ایک لڑکی نے کہا کہ بھاگ چلو لیکن دو لڑکیاں جوش میں آگئیں وہ بالڈون کو قتل کرنے کے لیے تیار ہوگئیں وہاں مشعلیں جلا دی گئیں بالڈون کے باڈی گارڈ اس کے اردگرد گھوڑوں پر سوار کھڑے ہوگئے اتنے میں زمین بڑی زور سے ہلنے لگی اور ہزاروں گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دینے لگی یہ العادل کے سوار تھے جن کی تعداد مسلمان مورخ دو ہزار بتاتے ہیں اور یورپی مورخ چار ہزار سے زیادہ ان گھوڑ سواروں نے پھیل کر بڑا ہی شدید اور خون ریز ہلہ بولا صلیبی مقابلے کی حالت میں نہیں تھے انہیں ابھی معلوم ہی نہیں ہوسکا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے اور حملہ آور کہاں سے آئے ہیں ان کے نعروں سے ثبوت ملتا تھا کہ مسلمان ہیں العادل کے سوار صلیبیوں کے محاصرے کو توڑتے ہوئے اور راستے میں جو آیا اسے گھوڑوں تلے روندتے یا تلواروں اور برچھیوں کا نشانہ بناتے ہوئے قلعے کی طرف نکل گئے کمانڈروں کی پکار پر انہوں نے گھوڑے پیچھے کو موڑے اور ایڑی لگا دی وہ ایک بار پھر افراتفری میں بھاگتے دوڑتے صلیبیوں میں سے گزرے قلعے کی دوسری طرف جو صلیبی فوج تھی اس پر حملہ نہیں ہوا تھا اس حصے نے ادھر کا شوروغوغا اور گھوڑوں کی قیامت خیز آوازیں سنیں تو ان میں بھی بھگدڑ مچ گئی ادھر کے صلیبی سپاہی ادھر کو بھاگے ان کے ہزار ہا گھوڑے اونٹ اور خچریں کھول دی گئی تھیں انہوں نے بھاگ دوڑ کر سپاہیوں کو کچلنا اور خوف زدہ کرنا شروع کردیا بالڈون کی فوج کا وہ حصہ بھاگ اٹھا ادھر چاروں مسلمان لڑکیاں لاپتہ ہوگئیں ان میں سے ایک اس کوشش میں تھی کہ مسلمان سپاہیوں کو بتائے کہ بالڈون یہاں ہے مگر وہاں سب سوار تھے اور سرپٹ گھوڑے دوڑا رہے تھے وہ صلیبیوں کی فوج سے دور نکل گئی دو تین سواروں کے ساتھ چیختی چلاتی دوڑی مگر وہاں اس قدر شور تھا کہ کسی نے اس کی آواز نہ سنی کوئی اس کی طرف توجہ نہ دے سکا وہ دور پیچھے نکل گئی ایک سوار نے گھوڑا روک لیا لڑکی نے اسے ہانپتی کانپتی آواز میں بتایا کہ وہ مسلمان ہے اور اس جیسی تین اور مسلمان لڑکیاں صلیبی بادشاہ کے قبضے میں ہیں بالڈون کی خیمہ گاہ جو اس کا جنگی ہیڈکوارٹر بھی تھا فوج سے الگ اور دور تھی لڑکی کی آواز پر جس سوار نے گھوڑا روکا تھا وہ کوئی کمان دار تھا اس نے لڑکی کو گھوڑے پر بٹھایا اور پیچھے لے گیا وہاں العادل کا ایک سالار تھا جس نے لڑکی کی پوری بات سنی لڑکی نے بالڈون کے ہیڈکوارٹر کی نشاندہی کی سالار نے وہاں شب خون مارنے اور بالڈون کو پکڑنے کے لیے دو جیش تیار کیے اور خود ان کی قیادت کی اس نے سرپٹ گھوڑے دوڑا کر بالڈون کی خیمہ گاہ کو گھیرے میں لے لیا ان کے ساتھ جلتی ہوئی مشعلیں بھی تھیں سالار نے بالڈون کو للکارا خیموں کو آگ لگانے کی دھمکی دی ان میں ملازم صلیبی اور تین مسلمان لڑکیاں اور چند ایک سپاہی تھے ان سب کو پکڑ لیا گیا بالڈون کے متعلق پوچھا گیا مگر کوئی نہ بتا سکا کہ وہ کہاں ہے
اس وقت بالڈون گھبراہٹ کے عالم میں آگے چلا گیا تھا اسے معلوم ہوگیا تھا کہ یہ مسلمان فوج کا شب خون ہے لیکن وہاں اس قدر بھگدر تھی اور اتنے زیادہ گھوڑے دوڑ رہے تھے اور زخمی ایسی بری طرح چیخ رہے تھے کہ صورت حال پر قابو پانا بالڈون کے بس کا روگ نہیں تھا
وہ واپس اپنی خیمہ گاہ کو چل پڑا اس کے ساتھ باڈی گارڈز بھی تھے وہ خیمہ گاہ سے ابھی کچھ دور ہی تھا کہ ادھر سے ایک سوار گھوڑا دوڑاتا آیا گھوڑا اس کے سامنے روک کر بالڈون سے کہا کہ وہ کہیں چلا جائے اپنی خیمہ گاہ میں نہ جائے کیونکہ وہاں مسلمان فوج پہنچ چکی ہے بالڈون نے وہیں سے گھوڑے کا رخ پھیر لیا
رات بھر العادل نے ضرب لگاؤ اور بھاگو کی کارروائی جاری رکھی جب صبح طلوع ہوئی تو حماة کے قلعے کے اردگرد صلیبیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں ان میں زخمی بھی کراہ رہے تھے اور ان میں العادل کے شہیدوں کی لاشیں بھی تھیں خچریں گھوڑے اور اونٹ دور دور بکھرے ہوئے چر رہے تھے وہاں بالڈون تھا نہ اس کی فوج صلیبی اپنی رسد بھی پھینک گئے تھے العادل نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ دشمن کا سامان اکٹھا کرے اور اس کے جانوروں کو پکڑے العادل کا یہ حملہ دلیری جذبے فن حرب وضرب کے لحاظ سے قابل تعریف حملہ تھا مگر جنگی نقطہ نگاہ سے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جاسکا ضرورت یہ تھی کہ افراتفری میں بھاگتے ہوئے صلیبیوں کا تعاقب کرکے ان کی جنگی قوت کو مکمل طور پر تباہ کردیا جاتا پھر پیش قدمی کرکے اس علاقے میں داخل ہوا جاتا جو صلیبیوں نے فتح کرلیا تھا قیدی پکڑے جاتے جنہیں اپنے قیدی چھڑانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا مگر العادل کے لیے ممکن نہ تھا کہ کامیاب شب خون سے کوئی بڑی کامیاب حاصل کرسکتا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے پاس فوج کی کمی تھی وہ تعاقب کے قابل نہیں تھا شب خون اور چھاپہ مارنے سے دشمن کو پریشان اور ادھ موا کیا جاتا ہے اسے شکست دے کر علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے پوری فوج حملہ کرتی ہے العادل نے ایک کام تو کرلیا تھا لیکن اگلے مرحلے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں تھا
البتہ اس نے یہ کامیابی حاصل کرلی کہ اس نے اس قلیل فوج کے جذبے پر رملہ کی شکست کا جو برا اثر پڑا تھا وہ صاف ہوگیا اور سپاہیوں کے جذبے تروتازہ ہوگئے ان کے دلوں میں یہ اعتماد بحال ہوگیا کہ صلیبی ان سے برتر نہیں اور وہ کسی بھی میدان میں صلیبیوں کو شکست دے سکتے ہیں ضرورت فوج میں اضافے کی تھی
یہ کامیابی بھی حاصل کی گئی کہ حماة کے قلعے کو بچا لیا گیا ورنہ صلیبیوں کو ایک قلعہ بند اڈہ مل جاتا
العادل اپنے ہیڈکوارٹر میں دانت پیس رہا تھا اس کے سالاروں کی جذباتی حالت اس سے زیادہ مشتعل تھی اگر ان کے پاس فوج ہوتی تو وہ اس شب خون کے بعد بہت بڑی کامیابی حاصل کرلیتے اور بالڈون اپنی فوج کو زندہ نہ لے جاسکتا العادل نے کاتب کو بلایا اور اپنے بڑے بھائی سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام خط لکھوانے لگا
برادر بزرگوار سلطان مصر وشام
اللہ آپ کو سلطنت اسلامیہ کے وقار کی خاطر عمر طویل عطا فرمائے میں اس امید پر خط لکھ رہا ہوں کہ آپ بخیروعافیت قاہرہ پہنچ چکے ہوں گے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*