👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟜 𝟘 𝟙⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟜  𝟘  𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
''تم یہاں یہ معلوم کرنے آئے ہو کہ صلیبی پہاڑوں میں اپنا ذخیرہ کہاں رکھیں گے''… موصل کے جاسوسوں کے کمانڈر نے کہا… ''اور ہم یہاں یہ معلوم کرنے کی سوچ رہے ہیں کہ یہ درویش کون ہے جو انہی پہاڑوں میں کہیں جا بیٹھا ہے۔ کوئی اسے امام مہدی کہتا ہے اور کوئی عیسیٰ''… اس نے حسن الادریس کو پوری تفصیل سے بتایا کہ اس درویش کو شہر میں اور اردگرد کے علاقے میں کیسی شہرت حاصل ہوئی ہے… ''ان پہاڑیوں کے قریب سے گزرنے کی بھی اجازت نہیں۔ کچھ تو اپنی فوج کے سنتری ہیں اور کچھ اجنبی سے آدمی ہیں جو کسی کو آگے نہیں جانے دیتے۔ درویش کسی پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھا ہے۔ اسے خدا آسمان سے کوئی اشارہ دے گا، رات کو لوگ اپنی چھتوں پر کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ستارہ ٹوٹتا ہے تو وہ چلا اٹھتے ہیں، وہ رہا اشارہ۔ لوگ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھولتے جارہے ہیں''۔
یہ چاروں جاسوس تھے۔ انہیں خصوصی ٹریننگ دی گئی تھی جس میں یہ تعلیم بھی شامل تھی کہ توہم پرستی حرام ہے اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو کچھ ہے وہ انسان خود ہے۔ جہاں موصل کے ہر باشندے کے دماغ پر یہ درویش غالب آگیا تھا، وہاں یہ چار جاسوس درویش کی حقیقت معلوم کرنے کی فکر میں تھے۔
''میرے دوستو! میری بات ہنسی میں نہ ٹال دو تو کہوں''۔ حسن الادریس نے کہا۔ ''جہاں درویش ہے وہاں صلیبیوں کا ذخیرہ ہے اور یہ کوئی معمولی ذخیرہ ہوتا تو اس علاقے کے لوگوں کے لیے ممنوع قرار دے کر درویش کا ڈھونگ نہ رچایا جاتا۔ تم جانتے ہو کہ اتنے وسیع علاقے کے اردگرد پوری فوج کا پہرہ کھڑا کردو تو بھی کوئی نہ کوئی اندر چلا ہی جاتا ہے لیکن صرف یہ کہہ دینا کہ یہاں خدا کا بھیجا ہوا ایک درویش بیٹھا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس علاقے میں کوئی آئے تو کوئی ادھر دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرتا''۔

''یہ اعلان میں کہا گیا ہے کہ جس نے اس علاقے میں جانے کی اور درویش کو دیکھنے کی کوشش کی تو وہ کوڑھی ہوجائے گا اور اس کے بچے اندھے ہوجائیں گے''… حسن الادریس کے ایک اور ساتھی نے کہا… ''تم نے یہ بتا کر کہ صلیبی وہاں کچھ رکھیں گے، ہمارا آدھا مسئلہ حل کردیا ہے۔ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ درویش صلیبیوں کا کوئی ڈھونگ ہے یا یہ معلوم کرنا ہے کہ انہوں نے وہاں ذخیرہ کیا ہے؟''
''درویش کو ذخیرہ کے ساتھ تباہ کرنا ہے''۔ حسن الادریس نے کہا۔
''اور لوگوں کو اس وہم سے بچانا ہے جو ان پر طاری کردیا گیا ہے''۔ جاسوسوں کے کمانڈر نے کہا… ''صلیبیوں کی عقل کی تعریف کرو۔ وہ اس جگہ ایک درویش کو بٹھا کر اپنے ذخیرے کو لوگوں کی نظروں سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ موصل کی فوج اور لوگوں کو اور والئی موصل کو بھی خدا کے اشارے کا جھانسہ دے کر جنگی تیاریوں سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ فوج بھی اور لوگ بھی خدا کے اس اشارے کے انتظار میں بیٹھ گئے ہیں جو درویش کو ملے گا''۔
''والئی موصل کا درویش کے متعلق کیا رویہ ہے؟'' حسن الادریس نے پوچھا۔
''درویش اس کے محل میں اس کی چھ گھوڑوں کی بگھی پر گیا تھا''… کمانڈر نے جواب دیا… ''اور درویش اسی بگھی میں پہاڑیوں میں گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عزالدین بھی اس سازش میں شامل ہے یا وہ اس سازش کا شکار ہے جو کچھ بھی ہے، ہمیں معلوم ہوجائے گا۔ رضیع خاتون محل میں موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوجائے گا کہ محل میں درویش کی حیثیت کیا ہے''۔
انہوں نے اس علاقے اور درویش کی حیثیت معلوم کرنے پر غور کرنا شروع کردیا۔

سنجار کے قلعے کی دیواروں پر سنتری نیم بیدار تھے۔ وہ زمانہ جنگ وجدل کا تھا مگر سنجار کے امیر شرف الدین بن قطب الدین کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورہا تھا۔ وہ صلیبیوں کا حاشیہ بردار تھا۔ اس لیے ان سے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ والئی حلب عماد الدین اور والئی موصل عزالدین نے اسے کہا کہ اسے جب بھی ضرورت پڑی وہ دونوں اس کی مدد کو پہنچیں گے۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اس کی نیت کا علم نہیں۔ وہ شراب اور عورت میں بدمست ہوکر گہری نیند سویا ہوا تھا۔ صلیبیوں نے اسے دو بڑی حسین لڑکیاں تحفے کے طور پر بھیجی تھیں۔ یہ لڑکیاں اسے بیداری کے خوابوں میں مگن رکھتی تھیں۔
قلعے کی دیوار کے اوپر سے ایک شرارہ سا گزر گیا۔ اس کے فوراً بعد ایک اور پھر ایک اور… سنتری پر دہشت طاری ہوگئی۔ یہ شرارے قلعے کے اندر گرے اور بھیانک شعلے بن گئے۔ قریب ہی کوئی سامان پڑا تھا اور اس کے قریب ایک مکان تھا۔ دونوں کو آگ لگ گئی۔ یہ آتش گیر سیال کی ہانڈیاں تھیں جو سلطان ایوبی کی فوج نے منجنیقوں سے پھینکی تھیں۔ ان کے ساتھ جلتے ہوئے فلیتے بندھے ہوئے تھے۔ ہانڈیاں مٹی کی تھیں جو گر کر ٹوٹیں تو اندر کا سیال پھیل گیا اور جلتے ہوئے فلیتوں نے اسے آگ لگا دی۔
قلعے میں قیامت بپا ہوگئی۔ قلعے کے اوپر رات روشن ہوگئی۔ ہر کوئی جاگ اٹھا۔ امیر شرف الدین کو جگایا گیا، اس نے کھڑکی میں سے شعلے دیکھے تو واہی تباہی بکتا باہر آیا۔ کسی وقت شرف الدین مرد میدان ہوا کرتا تھا مگر صلیبیوں نے اسے شراب اور لڑکیوں سے اس حال تک پہنچا دیا تھا کہ اس رات اس کے قدم نہیں اٹھتے تھے۔ راتوں کو ریگزاروں اور سنگلاخ وادیوں میں بلا تھکے لڑنے والا جنگجو چلنے کے قابل نہیں رہا تھا… پھر قلعے کا رات کی ڈیوٹی والا کمان دار اوپر سے دوڑا آیا اور شرف الدین کو بتایا کہ قلعہ محاصرے میں ہے۔
''کس بدبخت نے محاصرہ کیا ہے؟'' اس نے پوچھا۔
''سلطان صلاح الدین ایوبی نے''۔ کمان دار نے جواب دیا۔ ''وہ باہر سے للکار رہے ہیں کہ قلعے کے دروازے کھول دو، ورنہ ہم قلعے کو جلا کر بھسم کردیں گے''۔
شرف الدین کا نشہ اتر گیا… وہ سوچ میں پڑ گیا۔ بہت دیر بعد بولا… ''دروازہ کھول دو، ہم خود باہر جائیں گے''۔
کچھ دیر بعد قلعے کا دروازہ کھلا ور شرف الدین باہر نکلا۔ اس کے ساتھ مشعل بردار تھے۔ ادھر سے سلطان ایوبی نے اپنے ایک سالار سے کہا کہ وہ آگے جاکر شرف الدین کو اس کے پاس لے آئے۔ وہ خود ہی آرہا تھا۔ اس کے استقبال کے لیے سلطان ایوبی ایک قدم آگے نہ بڑھا۔ شرف الدین سلطان ایوبی کے سامنے جاکر گھوڑے سے اترا اور بازو پھیلا کر اس کی طرف دوڑا لیکن سلطان ایوبی نے ایسا سرد رویہ اختیار کیا کہ بددلی سے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا۔
''شرف الدین!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''اپنی فوج اور جنگی سامان کے سوا قلعے میں سے جو کچھ لے جانا چاہتے ہو، صبح طلوع ہونے سے پہلے نکال کر لے جائو، پھر ادھر کا رخ نہ کرنا''۔ اس نے اپنے ایک سالار سے کہا… ''کچھ نفری اپنے ساتھ لے جائو اور نظر رکھو کے قلعے سے فوج اور جنگی سامان باہر نہ جائے۔ فوج کی گنتی کرو اور اسے اپنی فوج میں شامل کرلو''۔
''میں آپ کا غلام ہوں سلطان!'' شرف الدین نے کہا۔ ''قلعہ اور فوج آپ کی ہوگی۔ مجھے قلعے میں رہنے دیں''۔
''قلعے کی ضرورت تھی تو مقابلہ کرتے''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''تم جیسے بزدلوں اور ایمان فرشوں کو حق حاصل نہیں کہ اتنے بڑے قلعے کے امیر کہلائیں''۔
''میں اور آپ کا مقابلہ کرتا؟'' شرف الدین نے کہا۔ ''میں نے سنا کہ آپ آئے ہیں تو میں باہر آگیا۔ مسلمان مسلمان کے خلاف کیسے لڑ سکتا ہے؟''۔
''جیسے پہلے لڑ چکا ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''شرف الدین! تم صلیبیوں کے دوست ہو اور نام کے مسلمان، ذرا اپنی حالت دیکھو، تم سپاہی سے کیا بن گئے ہو۔ ایمان بیچ کر عیاشی خریدنے والوں کی یہی حالت ہوتی ہے۔ شراب اور عورت نے تم میں جرأت نہیں رہنے دی۔ تم جھوٹ بھی بولتے ہو، اگر تم میں ذرا سی بھی غیرت ہوتی تو اپنا قلعہ یوں لڑے بغیر اور مرے بغیر میرے حوالے نہ کرتے''۔
''سلطان عالی مقام!'' شرف الدین نے التجا کی۔ ''مجھے قلعے میں رہنے دیجیے''۔

سلطان نے اپنے ایک سالار سے کہا۔ ''اسے قلعے میں لے جائو اور قید میں ڈال دو۔ اس کی خواہش پوری کردو''۔
تین چار آدمی آگے بڑھے تو شرف الدین نے سلطان ایوبی کے قریب ہوکر کہا… ''میں موصل جانا چاہتا ہوں''۔
''ہاں۔ عزالدین تمہارا دوست ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اس کے پاس چلے جائو''۔
سنجار پر سلطان ایوبی نے قبضہ کرلیا اور تقی الدین کو اس کا قلعہ دار اور امیر مقرر کیا۔
اس سے آگے آمد ایک قلعہ تھا۔ سلطان ایوبی نے رات باقی حصہ سنجار قلعے میں گزارا اور صبح آمد کی طرف کوچ کر کرگیا۔ آمد جسے آج کل امیدہ کہا جاتا ہے، دجلہ کے کنارے ایک مشہور قصبہ تھا اور اس کا بھی امیر مسلمان تھا۔ یہ قصبہ ایک قلعہ تھا۔ سلطان ایوبی نے اسے محاصرے میں لے لیا، وہاں کی فوج اور شہریوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر آٹھویں روز امیر نے ہتھیار ڈال دئیے۔ سلطان ایوبی نے وہاں کا جو امیر اور قلعہ دار مقرر کیا اس کا نام نورالدین تھا جو کارا ارسلان کا بیٹا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رعدی چار صلیبیوں کے ساتھ ابھی سفر میں تھی۔ اس کی جسمانی حالت ٹھیک ہوگئی تھی۔ صلیبیوں نے اس کے آرام کا بہت خیال رکھا تھا لیکن اس رات کے بعد جب اس نے انہیں اپنی زندگی کی کہانی سنائی تھی، ان کے ساتھ کوئی بات نہ کی۔ اس کے ذہن میں صلیبی کے یہ الفاظ گونج رہے تھے۔ ''تمہیں خدا نے دھتکار دیا ہے، کوئی نیکی کرو، خدا تمہیں بخش دے گا''… اس کی جسمانی حالت تو ٹھیک تھی لیکن جذباتی حالت بہت بری تھی۔ وہ جس کے ساتھ حج کو جارہی تھی، اس کی یاد اسے تڑپاتی رہتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس کے تصوروں میں حجاز کے قافلے سوئے منزل چلتے رہتے تھے۔ وہ جب بہت پریشان ہوجاتی تو یہ سوچنے لگتی کہ خدا اسے اس کے گناہوں کی سزا دے رہا ہے۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ گناہوں سے بخشش کس طرح مانگی جاتی ہے۔
رعدی اپنے چار محافظوں کے ساتھ منزل کے قریب آگئی تھی۔ یہ اب موصل کے علاقے میں داخل ہوگئے تھے۔ ایک روز انہوں نے ایک شتر سوار دیکھا جس نے انہیں دیکھ کر اونٹ روک لیا تھا۔ اس نے سر اور چہرہ سیاہ پگڑی میں لپیٹ رکھا تھا۔ صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ اس کی نظریں رعدی پر جمی ہوئی تھیں۔ صلیبی سپاہی اپنی فوجی وردی میں نہیں تھے، اس لیے کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ صلیبی سپاہی ہیں۔ انہیں ڈاکو یا مسافر کہا جاسکتا تھا۔
''اس شتر سوار کی آنکھیں دیکھی تھیں؟'' ایک صلیبی نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا۔
''بہت غور سے دیکھی تھیں''۔ دوسرے سپاہی نے جواب دیا۔ ''میں ان نظروں کو پہچانتا ہوں۔ اب ہمیں زیادہ ہوشیار رہنا پڑے گا۔ یہ لڑکی اتنی خوبصورت ہے کہ کسی ڈاکو کی نظر میں آگئی تو مشکل پیدا ہوجائے گی۔ آگے علاقہ پہاڑی ہے''۔
وہ دن بھر چلتے رہے۔ شام کے بعد دو چٹانوں کے درمیان موزوں جگہ دیکھ کر انہوں نے گھوڑے روک لیے اور کھانے پینے کا اہتمام کرنے لگے۔ کھانے کے بعد وہ بے سدھ ہوگئے۔ صرف ایک سپاہی ہر رات کی طرح جاگتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اسے کوئی آہٹ سنائی دی۔ یہ کسی گیڈر وغیرہ کے چلنے سے ڈھلان سے پتھر لڑھکا ہوگا لیکن سپاہی چوکنا ہوگیا۔ اس نے کان کھڑے کرلیے، آہٹ سنائی دی۔ اس نے اپنے ایک ساتھی کو جگایا اور اسے کان میں بتایا کہ اسے کسی کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ وہ بھی اٹھا۔ دونوں نے کمانوں میں تیر ڈال لیے اور ایک ایک طرف ا ور دوسرا دوسری طرف کھڑا ہوگیا۔
رات تاریک تھی، کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اب کوئی آہٹ سنائی نہیں دیتی تھی۔ رات کے سکوت میں یکے بعد دیگرے دو مرتبہ ''پنگ پنگ'' کی آواز سنائی دی۔ پیشتر اس کے کہ دونوں سپاہی ان آوازوں کی سمت معلوم کرسکتے، ایک ایک تیر دونوں کی پسلیوں میں اتر گیا۔ ان کے ساتھی دن بھر کے تھکے ہوئے گہری نیند سورہے تھے۔ ان دونوں نے تیر کھا کر انہیں آوازیں دیں تو وہ ہڑبڑا کر اٹھے، بھاگتے قدموں کی آوازیں سنائی دیں تو ایک مشعل بھی جل اٹھی جو ان دونوں سپاہیوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ فوراً بعد وہ سات آٹھ آدمیوں کے محاصرے میں آگئے۔ ان میں ایک نے چہرہ اور سر پگڑی میں لپیٹ رکھا تھا۔ یہ وہی معلوم ہوتا تھا جو دن کے وقت اونٹ پرسوار تھا ور اس نے رک کر رعدی کو گہری نظروں سے دیکھا تھا۔
دونوں سپاہی تھے، انہوں نے تلواروں سے مقابلہ کیا لیکن سات آٹھ برچھیوں نے ان کے جسم چھلنی کردئیے اور رعدی حملہ آوروں کے قبضے میں آگئی۔ وہ الگ کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر خوف کی ہلکی سی بھی جھلک نہیں تھی۔ مشعل کے ناچتے ہوئے شعلے میں اس کا حسن ایسا پراسرار لگ رہا تھا جیسے وہ اس دنیا کی مخلوق نہ ہو۔
رعدی کو گھوڑے پر سوار کرلیا گیا۔ سیاہ پگڑی والا بھی گھوڑے پر سوار ہوا اور دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو چلنے لگے۔ اس آدمی نے رعدی سے پوچھا… ''اپنے متعلق کچھ بتائو گی؟''… رعدی نے اپنے متعلق سب کچھ بتا دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رعدی کو جہاں لے جایا گیا، وہ کوئی محل یا مکان نہیں بلکہ ایک چوکور خیمہ تھا۔ اس کا آدھا حصہ زمین کے اوپر اور باقی نصف زمین میں تھا۔ قناتیں اور اوپر شامیانہ پھول دار ریشمی کپڑے کا تھا۔ اندر قالین بچھا ہوا اور چوڑا پلنگ تھا۔ فانوس روشن تھے۔ گمان نہیں ہوتا تھا کہ یہ خیمہ ہے۔ شراب کی صراحی بھی رکھی تھی۔ وہاں تین آدمی موجود تھے جن کے متعلق فوراً پتہ چل گیا کہ صلیبی ہیں۔ انہوں نے رعدی کو دیکھا تو وہ خاموشی سے اور حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ سیاہ نقاب پوش اس کے ساتھ تھا۔ اس نے پگڑی کا نقاب اتار پھینکا اور بولا… ''ایسا تحفہ پہلے کبھی دیکھا ہے؟… اور یہ رقاصہ ہے''۔
رعدی خاموش کھڑی رہی۔ فانونس کی روشنی میں اس کا حسن اور زیادہ طلسماتی لگتا تھا۔ وہ یہاں بھی خوفزدہ نہیں تھی۔ اسے پلنگ پر بٹھایا گیا ور پوچھا گیا کہ وہ کون ہے اور کہاں جارہی تھی۔ رعدی نے اپنی زندگی کی کہانی ایک بار پھر سنا دی۔ اس کی کہانی سے وہاں کوئی بھی متاثر نہ ہوا۔ ان لوگوں کے پاس متاثر ہونے والے جذبات کی کمی تھی۔ اس سوال کے جواب میں کہ وہ کہاں جارہی تھی، اس نے کہا… ''مجھے کسی صلیبی بادشاہ کے پاس لے جایا جارہا تھا''۔
''تو کیا تم نے چار صلیبیوں کو قتل کردیا ہے؟'' ایک آدمی نے غصے سے اس آدمی سے پوچھا جو رعدی کو لایا تھا۔
''وہ صلیبی نہیں لگتے تھے''۔ اس نے جواب دیا… ''تم نے مجھے کہا کہ دو تین لڑکیاں لے آئو تاکہ اس ویرانے میں دل بہلانے کا کوئی ذریعہ ہو۔ مجھے اتفاق سے یہ نظر آگئی۔ میں نے ان چاروں کو مشکوک مسلمان سمجھا۔ پیچھا کیا اور انہیں قتل کرکے لڑکی لے آیا''۔
''تمہارے ساتھ کون کون تھا؟''
''صرف دو آدمی تھے''۔ اس نے جواب دیا… ''باقی پانچ موصل کے مسلمان تھے جو یہاں پہرے کا کام کرتے ہیں''۔
''اگر یہ راز فاش ہوگیا کہ تم نے اپنے کسی حکمران کا تحفہ اس کے محافظوں کو قتل کرکے اڑا لیا ہے تو اس کا نتیجہ جانتے ہو کیا ہوگا؟''
وہ خاموش رہا۔ اچانک ایک آدمی خیمے میں اترا اور بولا… ''یہ راز فاش نہیں ہوگا۔ تم ڈرتے ہو کہ ہم جو مسلمان تمہارے ساتھ ہیں، یہ راز فاش کردیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا''۔
''یہ کون ہے؟''
''یہ میرا خاص آدمی ہے''۔ سیاہ پگڑی والے نے جواب دیا اور موصل کے کسی بڑے آدمی کا نام لے کر کہا… ''اس نے دیا ہے، قابل اعتماد اور عقل مند ہے''۔
''میں آپ کا ہی آدمی ہوں'' اس نے کہا… ''موصل اور اس علاقے کے جو راز آپ کے پاس جاتے ہیں، وہ میرے اور میرے ساتھیوں کے حاصل کیے ہوئے ہوتے ہیں''۔
اس سے کچھ اور باتیں پوچھی گئیں جن کے جواب میں اس نے ایسے انداز سے باتیں کیں کہ سب نے اسے قابل اعتماد سمجھ لیا۔ کسی کو ذرا سا بھی شبہ نہ ہوا کہ یہ صلاح الدین ایوبی کا بڑا ہی خطرناک جاسوس ہے جس کا اصل نام حسن الادریس ہے۔ خدا نے اس کے چہرے مہرے اور جسم کی ساخت میں ایسی جاذبیت پیدا کی تھی کہ دیکھنے والا اسے نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے اپنی زبان اور لب ولہجے میں ایسا جادو پیدا کرلیا تھا جسے سننے والا مسحور ہوجاتا تھا۔ وہ اداکاری اور لہجہ بدل کر بات کرنے کا ماہر تھا۔ موصل میں سلطان ایوبی کے جو جاسوس تھے، ان کا رابطہ حکام کے حلقے تک بھی تھا۔ انہوں نے معلوم کرلیا تھا کہ اس درویش سے والئی موصل عزالدین بھی متاثر ہے۔ اس نے موصل کے ہر باشندے کی طرح تسلیم کرلیا تھا کہ درویش کو آسمان سے اشارہ ملے گا اور اس کے بعد عزالدین اپنی فوج کو باہر نکالے گا پھر یہ فوج فتح پر فتح حاصل کرتی چلی جائے گی۔
جاسوسوں کو عزالدین کے عقیدے کے متعلق اس کی بیوی رضیع خاتون (بیوہ نورالدین زنگی) نے اطلاع دی تھی۔ اس خاتون کے متعلق آپ پچھلی اقساط میں پڑھ چکے ہیں۔ وہ سلطان ایوبی کی عقیدت مند تھی۔ محل کی خبریں اسی کے ذریعے باہر آتی تھیں۔ اس نے جاسوسوں کو تفصیل سے بتایا تھا کہ عزالدین صلیبیوں کے جال میں بری طرح پھنس گیا ہے۔ صلیبیوں نے اس پر جادو ساکردیا ہے۔ یہ درویش اگر صلیبیوں کا کوئی ڈھونگ نہیں اور درویش ہی ہے تو یہ کوئی پاگل ہے۔ اس کا یہ کہنا ہے کہ خدا اسے فتح کا اشارہ دے گا، ہمارے اسلامی عقیدے کے منافی ہے۔ اس پیغام کے ساتھ رضیع خاتون نے جاسوسوں سے کہا تھا کہ اس درویش کو بے نقاب کریں اور ممکن ہو تو قتل کردیں۔ رضیع خاتون نے اس شک کا بھی اظہار کیا کہ صلیبی ان پہاڑیوں کے اندر کچھ اور کررہے ہیں۔ معلوم کرو کہ یہ کیا ہے اور اس کی اطلاع سلطان ایوبی تک پہنچائو۔
حسن الادریس درویش کی پراسرار دنیا میں داخل ہوگیا تھا اور اس نے ان صلیبیوں میں اعتماد حاصل کرلیا تھا جو پہاڑیوں میں رہتے تھے مگر اسے ایک حد سے آگے پہاڑیوں میں نہیں جانے دیا جاتا تھا جو راز تھا، وہ اس حد سے آگے تھا۔ وہاں پہاڑیاں اونچی تھیں اور ان میں گھری ہوئی چٹانیں تھیں۔ حسن الادریس درویش کو دیکھنا چاہتا تھا مگر وہ اسے نظر نہیں آتا تھا۔ وہ کسی سے پوچھتا نہیں تھا، تاکہ اس پر کوی شک نہ کرے۔ اس نے اس قدر اعتماد حاصل کرلیا تھا کہ وہ اسے رعدی کے اغوا کے لیے بھی ساتھ لے گئے تھے۔
رعدی اس نیم زمین دوز سائبان میں رہنے والے دو تین صلیبیوں کے تفریح کا سامان بن گئی تھی۔ ان میں جو ان کا سربراہ تھا، وہ رعدی کو تفریح کے ذریعے سے کچھ زیادہ اہمیت دینے لگا تھا۔ اس لیے وہ اس لڑکی کو ہر کسی کا کھلونا بننے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہ رعدی کے حسن کا اثر بھی تھا جو بازاری قسم کی ناچنے والیوں کی نسبت پاک اور معصوم لگتا تھا اور یہ اثر اس کی باتوں کا بھی تھا جو ناچنے والیوں جیسی نہیں تھیں۔ ایک رات اس سربراہ نے اس سے پوچھا… ''کیا تم میری خوشنودی کے لیے ناچتی ہو اور کیا تم میرے ساتھ راتیں گزارنے میں خوشی محسوس کرتی ہو؟''
''نہ آپ کو خوش ہونا چاہیے، نہ میں خوش ہوں''۔ رعدی نے متانت سے کہا… ''مجبوری نے مجھے کھلونا بنا دیا ہے۔ میں دل کی بات کہنے سے ڈروں گی نہیں۔ مجھے آپ سے نفرت ہے۔ میں آپ کے ہر حکم کی تعمیل شدید حقارت سے کرتی ہوں''۔
''تم جانتی ہو کہ اس بدزبانی کی پاداش میں، میں تمہارا سر تن سے جدا کرسکتا ہوں؟'' سربراہ نے کہا۔ ''میں تمہارا یہ حسین چہرہ گدھوں کے آگے پھینک سکتا ہوں''۔
''اور یہ میرے لیے بہت بڑا انعام ہوگا''۔ رعدی نے کہا… ''میرے لیے یہ بہت سخت سزا ہے کہ میرا سر میرے تن کے ساتھ ہے اور آپ جیسا گدھ میری رو ح کو کھا رہا ہے۔ آپ اپنے آپ کو جنگجو اور بہادر سمجھتے ہیں، ایک بے بس اور مجبور لڑکی کو قید میں رکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں، مردانگی اور تلوار کے زور سے آپ مجھے اپنی لونڈی بنانا چاہتے ہیں۔ میرے دل پر اس طرح حکومت کریں کہ آپ مجھ سے یہ نہ پوچھیں کہ میں آپ کی خوشنودی کے لیے آپ کا حکم مانتی ہوں؟ بلکہ میں آپ سے پوچھوں کہ میرے رقص اور میرے وجود سے آپ کو مسرت حاصل ہوتی ہے یا نہیں؟''
''اگر میں تمہارے سامنے سونے کی ڈلیاں رکھ دو تو دل سے مجھے اپنا آقا تسلیم کرلو گی؟''
''نہیں''۔ رعدی نے جواب دیا… ''مجھے جس انعام کی ضرورت ہے، وہ تمہارے پاس نہیں ہے۔ وہ جس کے پاس تھا وہ مرگیا۔ وہ انسان تھا، جسے میرے جسم کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی… اور تم؟… تم گدھ ہو، گیڈر ہو، بھیڑیے ہو''۔
''اس نے تمہیں محبت دی تھی''۔ سربراہ نے کہا… ''اگر میں تمہیں وہی محبت دے دوں تو؟''
''میں نہیں، میری روح محبت کی پیاسی ہے''۔ اس نے کہا۔ سربراہ نے شراب کا پیالہ اٹھایا۔ منہ سے لگانے لگا تو رعدی نے پیالہ پکڑ لیا اور اس کے ہاتھ سے لے کر رکھا نہیں بلکہ پرے پھینک دیا ور کہا… ''مجھے باتوں پر اکسایا ہے تو میری باتیں سن لو۔ شراب پی لو گے تو تمہاری عقل اور جذبات پر بھی پردے پڑ جائیں گے۔ تم نے پوچھا ہے کہ تم مجھے وہی محبت دے دو تو میں قبول کرلوں گی؟ مجھے پہلے اپنی محبت دکھائو۔ یہ سچی ہوئی تو مجھے اپنے ساتھ جلتے ہوئے صحرا میں لے چلو گے تو ہنسی خوشی چلوں گی۔ تمہارے ساتھ جل کر مرجائوں گی''۔
سربراہ نے اسے دیکھا۔ اس نے اس لڑکی کے جسم کے روئیں روئیں کو دیکھا تھا۔ کئی روز سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے بھورے بھورے، بکھرے بکھرے بالوں کے گداز سے بھی لطف اندوز ہوا تھا۔ اس نے ان ریشمی بالوں کا سحر اس وقت بھی دیکھا تھا، جب یہ بال اس کے عریاں سینے پر اور عریاں پیٹھ پر بکھرے ہوئے ہوتے تھے۔ وہ لڑکی کے جسم سے اتنا ہی واقف ہوگیا تھا جتنا اپنے جسم سے واقف تھا مگر لڑکی نے نفرت اور حقارت کا اظہار ایسی بے خوفی سے کردیاا ور اس کے ہاتھ سے پیالہ چھین کر پرے پھینک دیا تو اس شخص کی مردانگی جواب دے گئی۔ اس نے اپنے آپ میں ایسی بے بسی محسوس کی جیسے یہ لڑکی اس پر طلسم بن کر غالب آگئی ہو۔ یہ مرد کی فطرت ہے کہ دس مردوں کا مقابلہ کرسکتا ہے، درندوں سے بھی لڑ جاتا ہے مگر ایک عورت جسے وہ پسند کرتا ہے، وہ اسے کہہ دے کہ مجھے تم سے نفرت ہے تو وہ ریت کی ڈھیری بن جاتا ہے۔ یہی جذباتی حالت اس شخص کی ہوئی جس نے جوانی میدان جنگ میں گزاری اور مسلسل موت سے کھیل رہا تھا۔
''میں تمہیں اپنے کسی ساتھی کے ہاتھ کھلونا نہیں بننے دوں گا''۔
''میں حکم کی پابند ہوں''۔ رعدی نے کہا… ''میں خودکشی نہیں کروں گی۔ یہ بزدلی ہے۔ میں بھاگنے کی بھی کوشش نہیں کروں گی، یہ دھوکہ ہے۔ میں خودکشی کرچکی ہوں،اپنا من مار دیا ہے''۔
وہ آہستہ آہستہ اٹھا اور اس طرح قدم پھونک کر رعدی کی طرف بڑھا جیسے اس لڑکی نے اسے ہیپناٹائز کرلیا ہو۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ اٹھایا اور رعدی کے بالوں پر ہاتھ پھیر کربولا… ''تم میرے تصوروں سے بھی زیادہ خوبصورت ہو''۔ اس نے ہاتھ پیچھے کرلیا اور بولا… ''میں نے آج پہلی بار محسوس کیا کہ تمہاری آواز میں سوز ہے، تم رقاصہ ہو۔ مغنیہ تو نہیں؟''
''میں گاتی بھی ہوں''۔ رعدی نے کہا… ''لیکن نغمہ وہ سنائوں گی جو مجھے پسند ہوگا، جس میں میرا درد ہوگا''۔
وہ گنگنانے لگی ''چلے قافلے حجاز کے''۔
سائبان کے اندر کے ماحول پر وجد طاری ہوگیا۔ آواز رعدی کے دل سے نکل رہی تھی۔ اس نغمے میں اس کی محبت کے بین تھے۔ دل کی آہیں تھیں، آرزوئوں کا سوز تھا اور اس کے ان خوابوں کا حسن تھا جو حجاز کے راستے میں شہید ہوگئے تھے۔ رعدی کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے، اس کی لے اور پرسوز ہوگئی… اور عجیب بات یہ ہوئی کہ صلیبی سربراہ کی ایسی غنودگی آنے لگی جو اسے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ اسے ہر رات شراب مدہوش کرتی اور وہ اسی مدہوشی میں سوجایا کرتا تھا۔
وہ گہری نیند سوگیا تو رعدی کی نظر اس خنجر پر پڑی جو پلنگ کے قریب تپائی پر پڑا تھا۔ رعدی نے آہستہ سے خنجر نیام سے نکالا۔ اس کی نوک پر انگلی رکھی اور خنجر مضبوطی سے پکڑ کر سوئے ہوئے صلیبی کے قریب گئی۔ اس نے خنجر کی نوک اس کی شہ رگ کے قریب کی، پھر دل کے قریب لے گئی۔ ہاتھ اوپر اٹھایا تو اسے آواز سنائی دی… ''شی''… اس نے ادھر دیکھا۔ سائبان کا پردہ اٹھائے وہی خوبرو آدمی کھڑا تھا جس نے کہا تھا کہ وہ صلیبیوں کا جاسوس ہے۔ وہ حسن الادریس تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن الادریس نے رعدی کو اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ رعدی نے خنجر نیام میں ڈالا اور پردے تک گئی… حسن الادریس نے اسے بازو سے پکڑا اور باہر لے گیا، بولا… ''آج رات یہ اکیلا ہے، دوسرے بہت دنوں کے لیے چلے گئے ہیں۔ یہ شخص میری ذمہ داری اور حفاظت میں ہے لیکن میں سوئے ہوئے کو قتل نہیں کروں گا۔ اسے جو قتل کرنے آئے گا، وہ میرے ہاتھوں مارا جائے گا… تم تو اسے کہہ رہی تھی کہ میں خود کشی نہیں کروں گی کہ یہ بزدلی ہے اور میں بھاگوں گی نہیں کہ یہ دھوکہ ہے، مگر سوئے ہوئے کو قتل کرنے لگی تھیں، کیا یہ دھوکہ نہیں؟''
''تم اسے بتا دو گے کہ میں نے اس کی شہ رگ اور دل پر خنجر رکھا تھا؟'' اس نے پوچھا اور آہ لے کے بولی… ''بتا دینا۔ وہ مجھے قتل کردے گا۔ اس سے میرا بھلا ہوجائے گا اور وہ تمہیں انعام دے گا، اس سے تمہارا بھلا ہوجائے گا''۔
''مجھے اس شخص سے اتنی ہی نفرت ہے جتنی تمہارے دل میں ہے''۔ حسن الادریس نے کہا… ''میں اسے کچھ نہیں بتائوں گا''۔
''اور مجھ سے اس کا انعام مانگو گے؟'' رعدی نے پوچھا… ''بلکہ مجھے انعام کے طور پر مانگو گے؟''
''نہیں'' حسن الادریس نے کہا… ''مجھے کسی انعام کی ضرورت نہیں''… وہ لڑکی کو ذرا پرے لے گیا اور اپنائیت کے لہجے میں بولا… ''میں بھی تمہارے طرح حجاز کا مسافر ہوں۔ ہم نے جس رات تمہیں ان آدمیوں سے چھینا تھا، اس رات تم نے اپنی زندگی کی کہانی سنائی تھی۔ تم نے اپنے جذبات اور اپنی ایک خواہش کا بھی ذکر کیا تھا۔ میں اس رات سے سوچ رہا ہوں کہ تمہیں کون سی نیکی بتائوں جس سے تم خدا کی خوشنودی حاصل کرسکتی ہو''۔ حسن الادریس کی زبان کے سحر نے رعدی کو مسحور کرلیا۔ وہ بولتا رہا، وہ سنتی رہی۔ سلطان ایوبی کے اس جاسوس نے اس حسینہ کے دل پر قبضہ کرلیا… رعدی وہاں سے اٹھنے پر آمادہ نہیں تھی… حسن الادریس نے اسے جانے پر مجبور کیا تو وہ چلی گئی۔
وہ تین چار راتیں ملے۔ حسن الادریس نے رعدی کو اپنی جذباتی باتوں اور نیک نیتی کے جادو میں گرفتار کرلیا تھا۔ رعدی اس سے حجاز کی باتیں پوچھتی تھی اور وہ جذباتی انداز میں اسے حجاز کی دلکش باتیں سناتا تھا۔ دن کے وقت حسن الادریس اس کوشش میں لگا رہتا کہ معلوم کرسکے کہ جہاں اسے نہیں جانے دیا جاتا، وہاں کیا ہے مگر وہ کچھ بھی معلوم نہ کرسکا۔ ایک رات اس نے لڑکی کو اعتماد میں لے لیا اور کہا کہ ان لوگوں نے ان پہاڑوں میں کیا چھپا رکھا ہے۔ رعدی نے فوراً جواب دیا۔ ''جنگی سامان ہے۔ اس (سربراہ) نے مجھے بتایا تھا۔ کہتا تھا کہ اس میں آگ لگانے والا تیل اتنا زیادہ ہے کہ مسلمانوں کے سارے شہروں کو جلا کر بھی ختم نہ ہو… بے شک میں اس شخص کی لونڈی بلکہ داشتہ ہوں لیکن یہ میرے آگے غلاموں جیسی حرکتیں کرتا ہے''۔
''کیا تم اس سے خوش ہو کہ تم اتنے اونچے رتبے والے صلیبی کی داشتہ ہو اور یہ تمہارا غلام ہے؟''
''نہیں!'' رعدی نے اداس لہجے میں جواب دیا… ''میں اپنے جسم کی بات کررہی ہوں۔ میری روح کبھی خوش نہیں ہوگی۔ مجھے جو حجاز کے راستے سے اغوا کرکے لائے تھے، وہ کہتے تھے کہ خدا تم سے ناراض ہے۔ کوئی ایسی نیکی کرو کہ خدا تمہارے گناہ بخش دے اور جو مجھے حجاز لے جارہا تھا اور جسے میں نے چاہا تھا، کہتا تھا کہ حج کرکے ہم پاک ہوجائیں گے، پھر وہیں شادی کریں گے۔ میں تو گناہوں میں ڈوبتی چلی جارہی ہوں۔ میں کیا نیکی کروں گی۔ خدا مجھے سزا دیتا چلا جائے گا''۔
''زم زم کا پانی ہی نہیں، آگ بھی تمہیں پاک کرسکتی ہے''… حسن الادریس نے ہنس کر کہا… ''تم حجاز نہ پہنچ سکی، پاسبان حجاز کو خوش کردو تو خدا تمہاری روح کو گناہوں سے پاک کردے گا، تم نجات پالو گی''۔
''کون ہے پاسبان حجاز؟'' رعدی نے حیران ہوکر پوچھا… ''اور یہ کون سی آگ ہے جو مجھے پاک کرسکتی ہے؟''
''پاسبان حجاز سلطان صلاح الدین ایوبی ہے''۔ حسن الادریس نے کہا… ''اور آگ یہ ہے جو ان پہاڑوں میں کنستروں اور مٹکوں میں تیل کی صورت میں بھری پڑی ہے۔ اس سے حجاز تک کو آگ لگائی جائے گی۔ تم کسی طرح مجھے وہاں تک پہنچا دو، جہاں آگ اور جنگ کا سامان بھرا پڑا ہے''۔
رعدی کچھ سمجھ نہ سکی۔ حسن الادریس نے اسے بڑی لمبی کہانی سنائی۔ سلطان ایوبی کا عزم اور اس کا کردار بتایا۔ صلیبیوں کے عزائم بتائے اور اسے ایسی باتیں سنائیں کہ اس کے دل میں صلیبیوں کی نفرت پیدا ہوگئی اور اسے حق اور باطل کا تضاد معلوم ہوگیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دوسرے دن حسن الادریس نے دیکھا کہ رعدی گھوڑے پر سوار صلیبی سربراہ کے ہمراہ پہاڑیوں کے اس حصے کی طرف جارہی تھی جدھر حسن الادریس کو اور صلیبی پہرہ داروں کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی… رات کو سربراہ رعدی سے دل بہلا کر گہری نیند سوگیا۔ یہ نیند بہت ہی گہری تھی کیونکہ رعدی نے حسن الادریس کو دیا ہوا چٹکی بھر سفوف اس کے شراب کے پیالے میں ڈال دیا تھا۔ جاسوس بے ہوش کرنے والا سفوف اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ رعدی اس جگہ پہنچ گئی جہاں حسن الادریس اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔
''وہاں تو بہت بڑا غار ہے''۔ رعدی نے اسے بتایا… ''ان لوگوں نے کھود کھود کر اسے زیادہ وسیع کرلیا ہے۔ اتنا چوڑا اور لمبا کہ دہانے سے دوسرا سرا نظر نہیں آتا۔ اندر آگ لگانے والے تیل کے ہزار ہا مٹکے اور کنستر رکھے ہیں۔ ساتھ ہی برچھیاں، تیروکمان، اناج، خیمے، کپڑے اور بے انداز سامان پڑا ہے… میں نے اس صلیبی سردار سے بچوں کی طرح کہا کہ میں ان پہاڑیوں کے اندر سیر کرنا چاہتی ہوں۔ اس نے کہا کہ کل دن کو لے چلوں گا۔ تم تو میری ملکہ ہو۔ کسی کو بتانا مت کہ میں تمہیںادھر لے گیا تھا۔ وہ مجھے لے گیا''… رعدی نے اسے بتایا کہ اس غار میں سامنے دو آدمی پہرے پر کھڑے رہتے ہیںاور غار کا دہانہ کھلا رہتا ہے۔ غار سے سو ڈیڑھ سو گز دور پہرہ دار دستے کے خیمے ہیں۔ رعدی نے کہا… ''غار سے ذرا پرے ایک خیمہ ہے جس کے باہر ایک ضعیف آمی بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ سربراہ نے اسے پائوں کی ٹھوکر سے بیدار کرکے کہا… ''اوئے درویش! کوئی تکلیف تو نہیں؟ کھانا ٹھیک ملتا ہے؟… بوڑھے نے صغیف آواز میں پوچھا۔ ''جناب، مجھے کب رہا کرو گے؟ مجھے اب جانے دو''… سربراہ نے نفرت سے کہا… ''ابھی انتظار کرو، بہت انعام ملے گا''… یہ شاید وہی درویش ہے جس کا تم نے ذکر کیا تھا''۔
''ہاں!'' حسن الادریس نے کہا… ''یہ صلیبیوں کا وہی ڈھونگ ہے جس نے موصل کے باشندوں اور ان کے والئی عزالدین کو بھی دیوانہ بنا رکھا ہے… آئو رعدی! ہم دونوں مل کر خدا سے تمہارے گناہوں کی بخشش حاصل کریں گے''۔
دونوں چل پڑے مگر چھپ چھپ کر۔ رات کا اندھیرا فائدہ دے رہا تھا۔ وہ چٹانوں کی تنگ گلیوں سے گزرتے، رکتے، ادھر ادھر دیکھتے، کان کھڑے کیے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے، جہاں دو پہرہ دار کھڑے تھے۔ ان کے قریب ایک مشعل جل رہی تھی جس کا ڈنڈا زمین میں گڑھا ہوا تھا۔ حسن الادریس اور رعدی ان سے پندرہ بیس قدم دور چھپے رہے۔ دونوں اپنی اپنی جان کی بازی لگانے آئے تھے۔ خدا دیکھ رہا تھا۔ حسن الادریس کھانسا اور رعدی کو ایک طرف کردیا اور خود بیٹھ گیا۔ ایک سنتری ''کون ہے؟'' پکار کر ادھر آیا۔ اندھیرے میں اسے کچھ نظر نہ آیا۔ حسن الادریس نے پیچھے سے اس کی گردن بازو کے گھیرے میں جکڑ لی اور دوسرے ہاتھ سے خنجر کے تین چار وار اس کے دل کے مقام پر کیے۔ سنتری گر پڑا۔
حسن الادریس انتظارکرتا رہا۔ دوسری سنتری نے اپنے ساتھی کو پکارا۔ اسے جواب نہ ملا تو وہ آہستہ آہستہ ادھر آیا۔ وہ جب اپنے مرے ہوئے ساتھی کے قریب پہنچا تو اندھیرے میں اسے کوئی زمین پر پڑا نظر آیا۔ اس نے جھک کر دیکھا اور وہ حسن الادریس کے شکنجے میں آگیا۔ رعدی نے انتظار نہ کیا۔ وہ غار کی طرف دوڑی اور زمین سے مشعل اکھاڑ کر غار کے اندر چلی گئی۔ حسن الادریس نے دوسرے سنتری کو بھی ختم کردیا۔ پہرے داروں کا دستہ خیموں میں سویا ہوا تھا۔ حسن الادریس نے رعدی کو پکارا مگر وہ وہاں نہیں تھی۔ وہ غار کی طرف دوڑا۔ وہاں مشعل بھی نہیں تھی۔
اتنے میں غار میں ایک شعلہ اٹھا۔ رعدی دوڑتی باہر آئی۔ اس کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی۔ اس نے غار کے اندر آتش گیر سیال کا ایک مٹکا اوندھا کرکے مشعل سے اسے آگ لگا دی تھی۔ اسے معلوم نہ تھا کہ یہ سیال کس طرح بھڑک کر جل اٹھتا ہے۔ شعلے نے پھیل کر رعدی کو بھی رد میں لے لیا۔ جب حسن الادریس نے اسے پکڑا، اس وقت اس کا اتنا حسین چہرہ سیاہ ہوچکا تھا ور اس کے ریشم جیسے بال جل چکے تھے۔ حسن الادریس نے اس کے کپڑوں کی آگ بجھاتے اپنے ہاتھ جلا لیے۔ کپڑوں کی آگ تو بجھ گئی مگر رعدی پر غشی طاری ہورہی تھی۔ اس کی آنکھیں جھلس کر بند ہوگئی تھیں۔
حسن الادریس نے اسے کندھے پر اٹھایا اور دوڑ پڑا۔ ممنوعہ علاقے سے نکل کر اسے اگلے علاقے سے پوری واقفیت تھی۔ غار میں رُکی ہوئی آگ نے بند کنستروں اور مٹکوں کو اتنی حرارت دے دی کہ ایک مہیب دھماکہ ہوا جس سے زمین زلزلے کی طرح کانپی۔ ہزاروں من بند آتش گیر سیال ایک ہی بار پھٹ گیا تھا۔ اس نے جہاں تباہی کا سارا سامان تباہ کیا، وہاں صلیبیوں کا چھپایا ہوا تمام تر اسلحہ اور دیگر سامان بھی بھسم ہوگیا۔
دھماکے نے موصل شہر کو جگا دیا۔ لوگوں پر دہشت طاری ہوگئی۔ حسن الادریس شہر میں داخل نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ شہر کے دروازے بند تھے۔ وہ شہر کے بجائے نصیبہ کی طرف چل پڑا۔ وہ خطرے سے نکل گیا تھا۔ اس نے رعدی کو کندھے پر ڈال رکھا تھا۔ بہت دور جاکر وہ تھک گیا۔ رُکا اور رعدی کو زمین پر لٹا دیا۔ رعدی نے سرگوشی کی… ''آگ نے مجھے پاک کردیا ہے''… وہ ہنسی اور خواب میں بڑبڑانے کے لہجے میں بولی… ''قافلہ حجاز کو جارہا ہے۔ وہاں جاکر شادی کریں گے''۔
''رعدی، رعدی''۔ حسن الادریس نے اسے بلایا۔
''خدا نے میرے گناہ بخش دئیے ہیں نا؟'' رعدی نے پوچھا۔ وہ اٹھ بیٹھی اور بازو آگے کرکے بولی… ''وہ جارہے ہیں، دیکھو۔ وہ قافلے حجاز کو جارہے ہیں۔ میں بھی جارہی ہوں''۔
وہ ایک طرف گری۔ حسن الادریس نے اسے بلایا، ہلایا، آخر نبض پر ہاتھ رکھا… رعدی کی روح حجاز کے قافلے کے ساتھ جاچکی تھی۔
حسن الادریس نے خنجر سے قبر کھودی۔ صبح تک وہ دو اڑھائی فٹ گہرا اور رعدی کے قد جتنا لمبا گڑھا کھود سکا۔ اس نے رعدی کو اس میں لٹایا اور اوپر مٹی ڈال دی۔
جب کچھ روز بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کو صلیبیوں کے ذخیرے کی تباہی کی اطلاع ملی تو اس وقت وہ ایک مشہور مقام تل خالد کی طرف پیش قدمی کررہا تھا۔ تل خالد ایک بڑی ریاست تھی جس کا حکمران سوکمان القطبی شاہ ارمن تھا۔ وہ اس وقت ہر زم کے مقام پر تھا جہاں اسے والئی موصل عزالدین کو فوج اور دیگر جنگی مدد دے۔ سلطان ایوبی کو اس ملاقات کا علم قبل از وقت ہوگیا۔ اس نے شاہ ارمن کے دارالحکومت تل خالد کو محاصرے میں لینے کے لیے پیش قدمی کردی۔
صلیبیوں کے لیے یہ چوٹ معمولی نہیں تھی کہ انہوں نے مسلمان کے علاقے موصل کے قریب پہاڑیوں کے غاروں کو وسیع کرکے اتنا زیادہ اسلحہ اور آتش گیر سیال چھپا کر رکھا تھا جس سے وہ سلطنت اسلامیہ کی تمام تر قلعہ بندیوں کو کھنڈروں میں بدل سکتے تھے، مگر سلطان ایوبی کے تباہ کار جاسوسوں نے اسے اڑا دیا۔ یہ سامان چونکہ پہاڑی کے اندر وسیع غار میں تھا۔ اس کے دھماکے نے دور دور تک زمین یوں ہلا دی تھی جیسے زلزلہ آیا ہو۔ یہ تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ تباہی کس طرح بپا کی گئی ہے جس سے صرف صلیبیوں کی ہی نہیں بلکہ صلیبیوں کے سب سے بڑے اتحادی عزالدین کی بھی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ انہوں نے سلطان ایوبی کے خلاف جو درپردہ معاہدہ کررکھا تھا، اس معاہدے کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ صلیبیوں کو یقین تھا کہ یہ سلطان ایوبی کے جاسوسوں کا کام ہے۔ انہوں نے سوچا ہی نہیں کہ یہ اتفاقیہ حادثہ بھی ہوسکتا ہے۔
پچھلی قسط میں تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے کہ صلیبی موصل کے والی عزالدین کو اپنا اتحادی بنا کر موصل کے پہاڑی علاقے کو اپنا فوجی اڈہ اور اسلحہ بارود اور دیگر رسدکا بہت بڑا ذخیرہ بنانا چاہتے تھے مگر رعدی نام کی صرف ایک لڑکی نے اپنے ساتھی حسن الادریس کے تعاون سے ان کا ذخیرہ تباہ کردیا۔ اس علاقے سے لوگوں کو دور رکھنے کے لیے ایک درویش کی نمائش کرکے اس کی زبانی یہ مشہور کرادیا گیا تھا کہ یہ درویش اس علاقے کی ایک پہاڑی پر بیٹھے گا اور اسے خدا موصل کی فتح کا اشارہ دے گا پھر موصل یعنی عزالدین کی سلطنت دور دور تک پھیل جائے گی۔ اس درویش کا یہ انجام ہوا کہ اسلحہ اور آتش گیر سیال کی تباہی کے ساتھ ہی تباہ ہوگیا۔
دوسرے دن موصل کے لوگوں پر دہشت طاری تھی۔ انہیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ رات یہ دھماکہ اور زمین کا لرزہ کیسا تھا اور پہاڑیوں میں سے یہ جو سیاہ بادل اٹھ اٹھ کر آسمان کو جارہے ہیں، یہ کیسے ہیں۔ آتش گیر سیال کئی روز جلتا رہا تھا۔ اس کے ساتھ وسیع غار میں اندر جو سامان رکھا تھا، وہ بھی جل رہا تھا۔ ڈر کے مارے کوئی ادھر جاتا نہیں تھا۔ سب اسے درویش کی کرامات یا قہر سمجھ رہے تھے۔ ایسی دہشت زدگی کی اذیت ناک کیفیت میںانہیں ایک صدا سنائی دی… ''وہ جہنم کی آگ میں جل گیا ہے۔ وہ اپنے جہنم میں جل گیا ہے''۔
یہ ایک اور درویش تھا جو سبز قبا میں ملبوس تھا۔ سر کے بال لمبے اور سفید تھے، داڑھی بھی لمبی اور سفید تھی۔ اس کے چہرے پر بڑھاپے کی جھریاں تھیں۔ ایک ہاتھ میں لمبا عصا اور دوسرے میں قرآن تھا۔ یہ اسی درویش کی مانند تھا جو اسی کی طرح اچانک نمودار ہوا اور جب وہ بازار میں آیا تو خوف سے کانپتے ہوئے لوگوں نے اسے روک کر گھیر لیا۔ اس کی آنکھیں نیم وا تھیں۔ اس نے رک کر کہا… ''وہ جہنم میں جل گیا ہے جو کہتا تھا خدا اشارہ دے گا۔ اس کے انجام سے عبرت حاصل نہ کرنے والو! تم سب اسی جہنم میں، اسی دنیا میں جلو گے۔ خدا نے تمہیں رات کو بجلی کی کڑک کی آواز سے اشارہ دے دیا ہے۔ وہ سیاہ دھواں دیکھو۔ اللہ کے قہر سے ڈرو۔ اس کتاب کو مانو جو میرے ہاتھ میں ہے۔ یہ اللہ کا کلام ہے۔ یہ قرآن پاک ہے''۔
''خدا کے لیے ہمیں کچھ بتا''۔ ایک بوڑھے نے آگے ہوکر پوچھا۔ ''یہ سب کچھ کیا تھا؟ وہ کون تھا؟ تم کون ہو؟ ہمیں بتا کہ رات زمین کیوں لرزی تھی اور یہ سیاہ دھواں کیسا ہے؟''۔
''وہ مجذوب تھا''۔ نئے د رویش نے کہا… ''پاگل تھا، اس نے اللہ کے رازوں کی دنیا میں دخل دیا۔ اللہ کے سوا کوئی اور فتح کا یا کسی خوشخبری کا اشارہ نہیں دے سکتا۔ فتح اور شکست، خوشی اور غم اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے اپنے آپ کو اللہ کا ایلچی کہا اور گناہ گار ہوا۔ اس نے سزا پالی۔ جاکر دیکھو، اس کی ایک ہڈی بھی نظر نہیں آئے گی۔ وہ جس پہاڑ پر بیٹھا تھا، اس پہاڑ کو بھی سزا ملی۔ وہ سیاہ دھواں دیکھو، پہاڑ ابھی تک جل رہا ہے۔ اس جھوٹے درویش کو اب بھی سچا مانو گے تو تم بھی جلو گے''۔
''ہمیں بتا سچا کون ہے؟'' لوگوں نے پوچھا… ''کیا تو سچا ہے؟''
''نہیں''۔ اس نے جواب دیا اور قرآن بلند کرکے کہا… ''اللہ کا یہ کلام سچا ہے۔ اس درویش کو بھول جائو، اس کتاب کی بات مانو جو اشارے اللہ نے اس میں دئیے ہیں، وہ کوئی انسان نہیں دے سکتا''۔
وہ آگے چل پڑا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ دن بھر موصل میں یہی صدا لگاتا پھرتا رہا… ''وہ جہنم کی آگ میں جل گیا ہے، وہ اپنی آگ میں جل گیا ہے، جہاں اسے لوگ روک لیتے، وہ اس موضوع پر وعظ دیتا کہ غیب کا حال کوئی انسان نہیں جانتا اور خدا کے اشارے یہی ہیں جو قرآن میں ہیں۔ اس نے ظہر کی نماز ایک مسجد میں پڑھی، عصر کی کسی دوسری مسجد میں اور مغرب کی ایک اور مسجد میں پڑھی۔ وہ جس مسجد میں گیا وہاں نمازیوں کے ہجوم جمع ہوگئے۔ اس نے ہر مسجد میں یہی وعظ دیا کہ برحق صرف قرآن پاک ہے اور اے لوگو! قرآن کے اشاروں پر عمل کرو''۔
وہ مغرب کی نماز پڑھ کر نکلا تو رات گہری ہورہی تھی۔ وہ ایک ویرانے کی طرف چل پڑا۔ لوگ بھی اس کے پیچھے چل پڑے۔ اس نے سب کو روک کر کہا… ''اب میرے پیچھے کوئی نہ آئے۔ میں ساری رات ویرانے میں عبادت کروں گا اور تمہارے گناہوں کی بخشش مانگوں گا''۔
اس نے لوگوں پر ایسا تاثر پیدا کردیا تھا کہ ان کے دلوں میں پہلے درویش کی دہشت نکل گئی تھی۔ اس نے لوگوں سے وہیں رکنے کو کہا تو وہ رک گئے۔ اس نے دعائیہ الفاظ کہے اور اندھیرے میں غائب ہوگیا۔ لوگ وہیں کھڑے چہ میگوئیاں کرتے رہے۔ کسی میں اس کے پیچھے جانے کی جرأت نظر نہیں آتی تھی مگر ایک آدمی ایسا تھا جو اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کی نظریں بچا کر درویش کے پیچھے جارہا تھا۔ درویش لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوکر تیز چلنے لگا تھا۔ اس کے پیچھے جانے والے آدمی نے بھی قدم تیز کرلیے۔ اس کے قدموں کی آواز پر درویش رکا اور پیچھے دیکھا۔ وہ آدمی جسے اندھیرے میں درویش سائے کی طرح نظر آرہا تھا، فوراً رکا اور بیٹھ گیا۔ درویش کو کچھ بھی نظر نہ آیا تو وہ چل پڑا لیکن وہ بار بار گھوم کر دیکھتا تھا۔
کچھ اور آگے گئے تو یہ آدمی درویش کے قریب پہنچ گیا۔ درویش نے بلند آواز سے کچھ پڑھنا شروع کردیا۔ یہ کسی آیت کا ورد تھا۔ اس نے قدم سست کرلیے۔ پیچھے والے آدمی نے اپنے کمر بند سے خنجر نکالا اور دبے پائوں وہ فاصلے طے کیا جو اس کے اور درویش کے درمیان رہ گیا تھا۔ اس نے خنجر والا ہاتھ اوپر کیا۔ وہ پیچھے سے درویش پر وار کرکے اسے ختم کرنے کو تھا۔ خنجر ابھی اوپر ہی تھا کہ درویش بجلی کی تیزی سے گھوما۔ اس نے اپنا موٹا عصا اوپر کو گھمایا۔ عصا اس آدمی کی خنجر والی کلائی پر لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اس آدمی کے پیٹے میں ایسی لات جمائی کہ وہ آدمی دہرا ہوگیا۔ درویش کے ایک ہاتھ میں قرآن تھا، اس لیے وہ ایک ہی ہاتھ سے لڑ سکتا تھا۔ اس نے عصا اس آدمی کے سر پر مارا۔ اس کا خنجر اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
درویش نے خنجر اٹھا لیا۔ وہ آدمی آہستہ آہستہ اٹھ رہا تھا۔ درویش نے اسے کہا… ''خنجر میرے ہاتھ میں ہے، پیٹ کے بل لیٹے رہو''۔
وہ آدمی پیٹ کے بل لیٹ گیا۔ درویش نے منہ سے کسی جانور کی آواز نکالی۔ ایسی ہی آواز دور سے بھی سنائی دی۔ اس نے پھر آواز نکالی۔ اندھیرے میں دوڑتے قدموں کی آہٹیں سنائی دیں۔ دو آدمی درویش کے قریب آرکے۔ درویش نے ہنس کر کہا… ''اس بدبخت نے وہی حرکت کی ہے جس کا ہمیں پہلے ہی خطرہ تھا۔ مجھے تو امید تھی کہ دن کے وقت موصل کے کسی دریچے سے تیر آئے گا اور میرے دل میں اتر جائے گا لیکن انہوں نے مجھے رات کو اس سے قتل کرانے کی کوشش کی ہے۔ یہ لو اس کا خنجر''… درویش نے زمین پر لیٹے ہوئے آدمی کو عصا کی ہلکی سے ضرب لگا کر کہا… ''اٹھ مردود! تو مسلمان ہے؟''
''ہاں میرے بزرگ!'' اس شخص نے ادب سے کہا… ''میں مسلمان ہوں''۔
درویش اور اس کے دونوں ساتھیوں نے قہقہہ لگایا۔ درویش نے اسے کہا… ''مجھے بزرگ نہ کہو دوست! میں تم سے زیادہ جوان ہوں''۔
''تمہارا بہروپ کامیاب رہا ہے''۔ درویش کو اس کے ایک ساتھی نے کہا۔
اس آدمی کو تینوں اپنے ساتھ دور ایک خیمے میں لے گئے جس کے قریب چار پانچ اونٹ بندھے تھے۔ اردگرد چٹانیں تھیں۔ اس آدمی کو خیمے میں بٹھایا گیا۔ ایک دیا جل رہا تھا، اس نے دیکھا کہ درویش کا چہرہ تو جھریوں بھرا تھا جیسے وہ اسی سال کا بوڑھا ہو لیکن اب اس کی آواز جوانوں جیسی تھی۔ درویش نے سفید داڑھی اور سر کے لمبے بال اتار دئیے۔ اس کے ایک ساتھی نے اسے پانی میں بھیگا ہوا کپڑا دیا جو درویش نے اپنے منہ پر رگڑا۔ بڑھاپے کی جھریاں غائب ہوگئیں۔ ان میں سے جو چہرہ برآمد ہوا، وہ ایک جوان آدمی کا چہرہ تھا، جس پر سلیقے سے تراشی ہوئی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی۔
''تم اصل میں کون ہو؟'' حملہ کرنے والے نے اس سے پوچھا۔
''جسے تم قتل کرنے آئے تھے''۔ اس نے کہا… ''اب تم بتا دو کہ تمہیں کس نے میرے قتل کے لیے بھیجا تھا۔ کچھ چھپانے کی کوشش کرو گے تو بہت بری موت مرو گے''۔
''میرے پاس چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں''۔ اس آدمی نے جواب دیا… ''مجھے محل کے ایک حاکم احمد بن عمرو نے کہا تھا کہ شہر میں ایک درویش پھر رہا ہے۔ اس نے مجھے تمہارا حلیہ اور تمہاری صدائیں بتائی تھیں اور کہا تھا کہ اس درویش کو اندھیرے میں قتل کرنا ہے۔ کسی کو پتہ نہ چلے۔ احمد بن عمرو نے کہا تھا کہ درویش کو قتل کرکے آئو گے تو دو سو دینار ملیں گے''۔
''کیا احمد بن عمرو مجھے بوڑھا درویش سمجھ رہا تھا؟''
''اس نے بتایا نہیں''۔ اس آدمی نے جواب دیا… ''اس نے یہی کہا تھا کہ درویش کو قتل کرنا ہے''۔
درویش کا بہروپ دھارنے والے اس کے دونوں ساتھی صلاح الدین ایوبی کے زمین دوز گروہ کے آدمی تھے جو موصل میں کام کررہے تھے۔ پچھلی کہانی میں جس درویش کا ذکر آیا ہے، اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے سلطان ایوبی کے گروہ کے ان آدمیوں نے ایک آدمی کو درویش بنایا اور اسے شہر میں گھمایا تھا۔ لوگ توہم پرست تھے، درویشوں کو خدا کی آواز سمجھتے تھے۔ پہلے درویشوں کو صلیبیوں نے اپنے ایک فریب کی کامیابی کے لیے استعمال کیا تھا۔ سلطان ایوبی کے آدمیوں نے اپنے ایک جوان ساتھی کو درویش کے بہروپ میں پیش کرکے لوگوں کو توہم پرستی سے ہٹا کر قرآن کی طرف مائل کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی۔
احمد بن عمرو جو موصل میں بن عمرو کے نام سے مشہور تھا، والئی موصل عزالدین کی انتظامیہ کا ایک اعلیٰ حاکم تھا جس کی حیثیت وزیر جتنی تھی۔ اسے اطلاع ملی کہ ایک درویش شہر میں پہلے درویش کے خلاف صدائیں لگاتا پھر رہا ہے تو وہ سمجھ گیا کہ یہ سلطان ایوبی کے حامی گروہ کا آدمی ہے، لہٰذا اسے قتل کرنا ضروری ہے، ورنہ لوگوں کو پہلے درویش کی اصلیت کا علم ہوجائے گا اور انہیں یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ پہاڑوں میں کیا جل رہا ہے۔ سلطان ایوبی کے اس آدمی کو قتل کرنے کے لیے محل کے حفاظتی دستے کا ایک سپاہی منتخب کیا گیا اور اسے دو سو دینار کا لالچ دے کر ''درویش'' کے قتل کے لیے بھیجا گیا۔ کرائے کا یہ قاتل جسے بوڑھا سمجھ رہا تھا، وہ ایک جوان آدمی نکلا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ بوڑھے کے بہروپ میں یہ جوان آدمی تجربہ کار لڑاکا جاسوس اور چھاپہ مار ہے۔
بن عمرو کے بھیجے ہوئے اس قاتل کو دئیے کی روشنی میں خیمے میں بٹھا کر بہت کچھ پوچھا گیا، لیکن اس سے کوئی راز معلوم نہ ہوسکا۔ وہ صلیبیوں کے کسی باقاعدہ جاسوس یا تخریب کار گروہ کا آدمی نہیں تھا۔ وہ اجرت پر صرف قتل کرنے آیا تھا۔ جس آدمی نے درویش کا بہروپ دھارا تھا، اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ تینوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ طے کرلیا۔ ان میں سے ایک اٹھا اور خیمے سے رسی کا ایک گز بھر لمبا ٹکڑا اٹھایا۔ وہ کرائے کے اس قاتل کے پیچھے ہوا اور تیزی سے رسی اس کے گردن کے گرد لپیٹ کر ایسا پھندا بنایا کہ یہ آدمی تڑپنے لگا اور ذرا سی دیر میں ٹھنڈا ہوگیا۔ دوسرے دن احمد بن عمرو والئی موصل عزالدین کے دیوڑھی نما کمرے میں اس کے پاس کھڑا تھا۔ وہ غصے میں تھا اور عزالدین کے چہرے پر پریشانی تھی۔ احمد بن عمرو کے ہاتھ میں ایک کاغذ ان کے سامنے فرش پر ایک لاش پڑی تھی جس کی گردن کے گرد رسی لپٹی ہوئی تھی اور اس رسی کے ساتھ یہ کاغذ بندھا ہوا تھا جو عزالدین کے پاس تھا۔ یہ حفاظتی دستے کے اس سپاہی کی لاش تھی جسے اس نے نئے درویش کو اندھیرے میں کہیں جاکر قتل کرنے کو بھیجا تھا۔ بن عمرو ساری رات اس سپاہی کا انتظار کرتا رہا تھا۔ صبح اسے اطلاع ملی کہ اس کے گھر کے سامنے ایک لاش پڑی ہے۔ وہ باہر آیا۔ زمین پر اس کے سپاہی کی لاش پڑی تھی۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھی، زبان باہر آگئی تھی۔ گردن کے گرد رسی تھی اور رسی کے ساتھ کاغذ بندھا تھا۔
کاغذ پر لکھا تھا۔ ''عزالدین والئی موصل کے نام… تمہارے ایک حاکم احمد بن عمرو نے اس آدمی کو میرے قتل کے لیے بھیجا تھا۔ میں اس کی لاش عزت واحترام سے احمد بن عمرو کی دہلیز پر رکھ چلا ہوں۔ یہ بدنصیب سپاہی مجھے قتل نہیں کرسکتا۔ تم بھی اس طرح کی بدنصیب ہو جو سلطان ایوبی کا ابھی تک کچھ نہیں بگاڑ سکے اور آئندہ بھی کچھ نہیں بگاڑ سکو گے۔ کفار کی دوستی سے تم ذلت کے سوا کچھ حاصل نہیں کرسکو گے۔ ہم تمہیں چین سے جینے نہیں دیں گے۔ ایک روز تمہاری لاش بھی تمہارے محل کی دہلیز پر پڑی ہوگی۔ احمد بن عمرو جیسے حاکموں اور مشیروں سے بچو۔ یہ خوشامدی ٹولہ تمہارا کبھی وفادار نہیں ہوسکتا۔ یہی لوگ تمہارے زوال کا باعث بنیں گے۔ ہماری طاقت دیکھو، تمہارا فوجی مشیر احتشام الدین بیروت صلیبیوں کے ساتھ درپردہ معاہدے کے لیے گیا لیکن ہم نے اسے لاپتہ کردیا۔ وہ اب سلطان ایوبی کے پاس ہے۔ تمہارے صلیبی دوستوں نے پہاڑیوں کو کھود کر ان کے اندر جنگی سامان رکھا۔ ہم نے یہ سامان نذرآتش کرکے تمہاری ریاست کو زلزلے کا جھٹکا دیا۔ تم نے اپنے ایک سپاہی کو میرے قتل کے لیے بھیجا اور ہم نے تمہارے سپاہی کی لاش تم تک پہنچا دی۔ ہم جنوں اور بھوتوں کی طرح تم پر غالب رہیں گے مگر تم ہمیں دیکھ نہیں سکو گے۔ تمہارا زوال شروع ہوچکا ہے۔ تمہاری نجات اسی میں ہے کہ سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کرلو اور اپنی فوج اس کے حوالے کردو۔ ہمیں قبلہ اول آزاد کرانا ہے۔ اس دنیاوی بادشاہی اور جاہ وجلال سے باز آجائو۔ تخت وتاج نے کسی کا کبھی ساتھ نہیں دیا''۔
احمد بن عمرو نے لاش اپنے گھر کے سامنے سے اٹھوائی اور عزالدین کے سامنے جا رکھوائی۔ عزالدین نے بھی یہ تحریر پڑھی اور کاغذ بن عمرو کو دے کر گہری سوچ میں کھو گیا۔احمد بن عمرو غصے کا اظہار کررہا تھا لیکن عزالدین کا غصہ سرد پڑ چکا تھا۔
''مجھے اطلاع ملی ہے کہ مسجدوں میں بھی اس نئے درویش کے چرچے ہورہے ہیں''… عزالدین نے کہا … ''اور اب اس تحریر سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ کوئی درویش نہیں بلکہ صلاح الدین ایوبی کا کوئی آدمی ہے''۔ اس نے کاغذ مروڑ کر لاش پر پھینک دیا۔
''میں اسے تلاش کرلوں گا''… احمدبن عمرو نے غصے سے کہا… ''اور سرعام اس کا سرتن سے جدا کرائوں گا''۔
''ٹھنڈے دل سے سوچو''… عزالدین نے کہا… ''اس ایک آدمی کو قتل کردینے سے تم صلاح الدین ایوبی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ہمیں کچھ اور کرنا ہے، کچھ اور سوچنا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ صلیبی صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردیتے، مگر معلوم نہیں وہ آگے کیوں نہیں آرہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں صلاح الدین ایوبی سے براہ راست ٹکر لوں، پھر وہ میری مدد اس طرح کریں گے کہ ان کے چھاپہ مار دستے صلاح الدین ایوبی کے پہلوئوں اور عقب پر اور اس کی رسد پر شب خون مارتے رہیں گے۔ اس طرح مجھے میدان جنگ میں برتری اور کامیابی حاصل ہوگی''۔
''اور ضرور ہوگی''… احمد بن عمرو نے فرش پر پائو مارتے ہوئے کہا۔
''اس تحریر میں صحیح لکھا ہے کہ تم خوشامدی ہو''… عزالدین نے کہا… ''میں ایک الجھن میں پڑا ہوا ہوں اور تم خوش کرنے کے لیے بچوں کی طرح باتیں کررہے ہو۔ کیا تم مجھے کوئی بہتر مشورہ نہیں دے سکتے؟''… اس نے تالی بجائی۔ ایک نوجوان خادمہ دوڑی آئی۔ اس نے جھک کر سلام کیا۔ عزالدین نے کہا… ''دربان سے کہو کہ یہ لاش اٹھوالے اور کہیں دفن کردے''… یہ کہہ کر وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا جو اس کا خاص کمرہ تھا۔ احمد بن عمرو بھی ساتھ تھا۔ عزالدین پھر ادھر آیا اور خادمہ سے کہا… ''صراحی اور پیالے لے آئو۔ دربان سے کہو کسی کو ادھر نہ آنے دے''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
خادمہ نے لاش دیکھی تو وہ ڈر گئی۔ اس کی نظر مروڑے ہوئے کاغذ پر پڑی۔ وہ عربی پڑھ سکتی تھی۔ اس نے تحریر پڑھی اور کاغذ اپنے کپڑوں کے اندر چھپا لیا۔ دوڑ کر باہر گئی۔ دربان سے کہا کہ لاش اٹھوا کر دفن کرادے اور صراحی اور دو پیالے سنہری تھال میں رکھ کر عزالدین کے کمرے میں چلی گئی۔
''شاہ آرمینیا نے میرے پیغام کا جواب دے دیا ہے''… عزالدین بن عمرو سے کہہ رہا تھا… ''اس نے مجھے اپنے دارالحکومت تل خالد میں ملنے کے بجائے مجھے ہر زم بلایا ہے۔ وہ تل خالد سے روانہ ہوگیا ہے۔ میں دو روز بعد اسے ملنے جارہا ہوں''۔
خادمہ نے پیالوں میں جلدی جلدی شراب ڈالنے کے بجائے کپڑے سے پیالے پونچھنے شروع کردئیے۔ اس کے کان عزالدین کی باتوں پر لگے ہوئے تھے۔
''میرا خیال ہے شاہ آرمینیا تل خالد سے ہرزم جانے کی غلطی کررہا ہے''… احمد بن عمرو نے کہا۔
''کیونکہ صلاح الدین ایوبی تل خالد کی طرف پیش قدمی کررہا ہے''… عزالدین نے کہا… ''تمہیں یہ ڈر ہے کہ شاہ آرمینیا کی غیر حاضری میں صلاح الدین ایوبی تل خالد کو محاصرے میں لے لے گا… ایسا نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہوا بھی تو ہم صلاح الدین ایوبی کی فوج پر عقب سے حملہ کردیں گے۔ ہم اس لڑائی کو طول دیں گے اور صلیبیوں کو اطلاع دیں گے کہ وہ بھی صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردیں۔ مجھے یقین ہے کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج پس کے رہ جائے گی''۔
''آپ کب جارہے ہیں؟''…احمد بن عمرو نے پوچھا۔
''دو روز بعد''… عزالدین نے جواب دیا۔
خادمہ شراب پیش کرنے میں اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے پیالوں میں شراب ڈالی اور دونوں کو پیش کی۔ عزالدین نے اسے کہا کہ وہ چلی جائے۔ وہ ڈیوڑھی نما کمرے میں گئی تو وہاں سے لاش اٹھائی جاچکی تھی۔ خادمہ ابھی وہاں سے باہر نہیں جاسکتی تھی۔ اسے ڈیوٹی پر رہنا تھا۔ وہ بیٹھ گئی اور سوچنے لگی۔ اچانک اس کے منہ سے ''ہائے'' نکلی۔ اس نے دونوں ہاتھ پیٹ پر رکھ لیے اور دوہری ہوگئی۔ دربان اور دوسرے ملازم دوڑے آئے۔ اس نے کراہتے ہوئے بتایا کہ اسے پیٹ میں اچانک درد اٹھا ہے۔ اس کی جگہ فوراً دوسری خادمہ بلا کر وہاں بٹھا دی گئی اور اسے طبیب کے پاس لے گئے۔ طبیب کو اس نے بتایا کہ اسے پیٹ میں درد ہے۔ اسے دوائی دی گئی۔ اس نے کہا کہ وہ کام کے قابل نہیں رہی۔
کچھ دیر بعد اس کی طبیعت سنبھل گئی۔ طبیب نے اسے دو دنوں کی چھٹی لکھ دی اور اسے کہا کہ اپنے گھر چلی جائے ۔ وہ اپنے گھر کو جانے کے بجائے غلام گردشوں وغیرہ سے گزرتی عزالدین کی بیوی رضیع خاتون کے کمرے میں چلی گئی۔ رضیع خاتون کے متعلق پہلے تفصیل سے بتایا جاچکا ہے کہ نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ تھی۔ عزالدین نے اس کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ رضیع خاتون نے اس امید پر شادی قبول کرلی تھی کہ عزالدین کو وہ سلطان ایوبی کا دوست اور اتحادی بنا دے گی اور مسلمان امراء اور حکمران متحد ہوکر فلسطین سے صلیبیوں کو نکال دیں گے مگر عزالدین نے جس نیت سے شادی کی تھی وہ رضیع خاتون کی نیت سے الٹ تھی۔ دمشق، بغداد اور ان مقامات کے گردونواح کے تمام علاقوں پر رضیع خاتون کا اثر تھا اور رضیع خاتون اپنے مرحوم خاوند نورالدین زنگی کی طرح سلطان ایوبی کی معتقد اور اس کے نیک عزائم کی حامی تھی۔ اس نے جوان لڑکیوں کی فوج بنا رکھی تھی۔
عزالدین نے اس عظیم خاتون کے ساتھ اس نیت سے شادی کی تھی کہ اسے سلطان ایوبی کے خلاف استعمال کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہوسکا کہ اسے زوجیت کی قید میں رکھے تاکہ دمشق اور بغداد کے لوگ اس کی قیادت سے محروم ہوجائیں۔ رضیع خاتون نے شادی کے بعد اس کی نیت پہچان لی تھی۔ پہلے تو اس نے احتجاج کیا لیکن عورت عقل والی تھی۔ اس نے عزالدین پر اپنا اعتماد پیدا کرکے جاسوسی شروع کردی اور شہر میں سلطان ایوبی کے جو جاسوس تھے، ان کے ساتھ درپردہ رابطہ قائم کرلیا۔ اس کی بیٹی (جو زنگی کی بیٹی تھی) شمس النساء جوان تھی۔ وہ بھی جاسوسی کررہی تھی۔ ماں بیٹی نے سلطان ایوبی تک بڑے ہی قیمتی راز پہنچائے تھے۔ اس کے ساتھ ہی رضیع خاتون نے عزالدین کے دو سالاروں اور ایک مشیر کو اپنے ہاتھ میں کرلیا تھا۔ عزالدین کو اس نے یقین دلا دیا تھا کہ وہ اب سلطان ایوبی کے حق میں نہیں رہی یا کم از کم اس کے خلاف نہیں رہی۔ رضیع خاتون خوبصورت عورت تھی۔ اس نے نسوانیت کی شیرینی اور زبان کی چاشنی سے عزالدین کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی محل کے اندر بھی جاسوسوں کا گروہ بنا لیا تھا۔
وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی کہ عزالدین کی نوجوان خادمہ اندر آئی۔
''پیٹ درد کا بہانہ کرکے آئی ہوں''… خادمہ نے رضیع خاتون سے کہا… ''طبیب نے آج اور کل کی چھٹی دے دی ہے''… اس نے قمیض کے اندر سے وہ کاغذ نکالا جو اس نے لاش سے اٹھایا تھا۔ کاغذ رضیع خاتون کو دیا اور اسے بتایا کہ یہ کاغذ ایک سپاہی کی لاش کے ساتھ تھا۔
رضیع خاتون نے تحریر پڑھی اور بولی… ''آفرین، ہمارے مجاہد کام کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کم بختوں نے ہمارے آدمی کو قتل کرانے کی کوشش کی تھی۔ مجھے اطلاع مل چکی ہے کہ ہمارے اس درویش نے لوگوں کے دلوں سے صلیبیوں کے درویش کی دہشت اور وہم نکال دیا ہے''۔
''یہ تحریر اسی کی ہے''… خادمہ نے کہا… ''میں اس کا ہاتھ پہچانتی ہوں''۔
رضیع خاتون نے ہنس کر کہا… ''مجھے معلوم ہے کہ تم اس کا ہاتھ ہی نہیں، اس کا دل بھی پہچانتی ہو، لیکن یہ خیال رکھنا کہ دلوں کے جال میں نہ الجھ جانا۔ فرض پہلے''۔
خادمہ شرما سی گئی۔ کہنے لگی… ''ابھی تک اپنے جذبات کو فرض کے راستے میں نہیں آنے دیا۔ میں فہد کو بھی یہی کہا کرتی ہوں کہ اسے مجھ سے دلی محبت ہے تو اپنے فرض کو جذبات پر حاوی رکھے''۔
فہد وہی جواں سال آدمی تھا جس نے نئے درویش کا روپ دھارا تھا۔ وہ بغداد کا رہنے والا تھا۔ اس میں جاسوس بننے کی تمام تر خوبیاں موجود تھیں۔ خوبرو جوان تھا، دو سال سے موصل میں مقیم تھا اور کامیابی سے جاسوسی کررہا تھا اور نظریاتی محاذ پر بھی اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نمایاں کامیابیاں حاصل کرلی تھیں۔ اسی سلسلے میں اس کی ملاقات عزالدین کی خادمہ سے ہوئی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے دل میں اتر گئے تھے۔ خادمہ شہر میں رہتی تھی لیکن اس کا زیادہ وقت محل میں گزرتا تھا۔ جاسوسی کی زمین دوز کارروائیوں کے علاوہ بھی ان دونوں کی ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔
''میں جو خبر لائی ہوں، وہ ابھی بتائی ہی نہیں''… خادمہ نے رضیع خاتون سے کہا… ''عزالدین دو روز بعد شاہ آرمینیا سے ملنے ہر زم جارہے ہیں۔ میں نے شراب پیش کرنے کے دوران اس سے یہ بات سنی ہے۔ وہ احمد بن عمرو کو بتا رہے تھے کہ شاہ آرمینیا نے انہیں پیغام بھیجا ہے کہ وہ تل خالد سے ہرزم روانہ ہورہا ہے اور عزالدین اسے وہاں ملیں… میں رات تک فارغ نہیں ہوسکتی تھی۔ میں نے پیٹ درد کا بہانہ بنایا اور آپ تک پہنچی ہوں''۔
رضیع خاتون نے اپنے زانو پر ہاتھ مار کر کہا… ''صلاح الدین ایوبی تل خالد کی طرف پیش قدمی کررہا ہے، مجھے معلوم نہیں کہ تل خالد میں اپنے جاسوس ہیں یا نہیں۔ یہ خبر صلاح الدین ایوبی تک پہنچنی چاہیے۔ ہوسکتا ہے وہ ان دونوں کو ہرزم میں پکڑ لے۔ یہ کام تم ہی کرو۔ فہد یا اس کے کسی اور ساتھی تک پہنچو اور اسے یہ خبر سنا کر میرا پیغام دو کہ صلاح الدین ایوبی ابھی تل خالد کے راستے میں ہوگا، یہ خبر اس تک پہنچا دو۔ ابھی جائو''۔
خادمہ چلی گئی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی