🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➎⓿】デ۔══━一
میں ہرقل کی شکست کی وجہ بتانے لگی تھی،لوگوں نے ہرقل کی تخت نشینی پر جشن منائے تھے ، ہرقل نے بھی لوگوں کو مراعات دے کر انہیں غربت سے نجات دلائی تھی اور لوگ رضاکارانہ طور پر اس کی فوج میں شامل ہو گئے تھے، تم جانتے ہو کہ فوجی تنخواہ کی خاطر لڑا کرتے ہیں انہیں مال غنیمت کا لالچ ہوتا ہے ۔
ان کے اندر کوئی جذبہ تو ہوتا نہیں نتیجہ یہ کہ دشمن کا ذرا سا بھی دباؤ برداشت نہیں کرتے اور فوج کی فوج بھاگ اٹھتی ہے لیکن جب ہرقل نے ایرانیوں پر حملہ کیا تو اس کی فوج جانوں کی بازی لگا کر لڑی ان کے دل میں اب تنخواہ اور مال غنیمت کا لالچ نہیں تھا بلکہ قومی جذبہ تھا اور یہ لوگ اپنے قومی ساکھ بحال کرنے کے لیے خون اور جان کے نذرانے دینے پر آمادہ تھے، اور انہوں نے یہ نذرانے دیے اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو ایرانیوں کو شکست دینا بڑا ہی محال تھا ہرقل نے شام بھی فتح کرلیا اور مصر بھی رومیوں نے فتح کے جشن ایسے انداز سے منائے جیسے خوشی نے انہیں پاگل کر ڈالا ہو۔
ہرقل نے مصر اور شام کے شہری انتظامات صحیح کر کے رواں کردیا اور فوج میں جو کمی واقع ہو گئی تھی وہ پوری کی اور دونوں ملکوں کے حالات نارمل ہوگئے ہرقل نے جب دیکھا کہ اب اس کی بادشاہی کو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تو اس نے لوگوں پر ٹیکس لگانے شروع کر دیے ایرانیوں کے خلاف جنگ اسے بہت مہنگی پڑی تھی خزانہ خالی ہو گیا تھا، شاہی خاندان نے عیاشیاں بھی کرنی ہوتی ہیں، ہرقل نے شاہی اخراجات پورے کرنے کے لئے اور خالی خزانے کو بھرنے کے لئے اسی طرح لوگوں کا خون نچوڑنا شروع کردیا جس طرح شاہ فوکاس کیا کرتا تھا۔
ان ٹیکسوں کے نفاذ سے پہلے شام اور مصر کے لوگ بھی ہرقل کو پسند کرنے لگے تھے لیکن ہرقل نے ان سے نظر پھیر لی اور ان پر ایسابوجھ ڈال دیا کہ وہ ایک بار پھر نیم فاقہ کشی کی حالت کو پہنچ گئے۔۔۔۔۔
ہرقل نے اپنے مذہب عیسائیت کی طرف توجہ دی اس وقت عیسائیت چند ایک فرقوں میں بٹ گئی تھی، اگر ان فرقوں کا وجود ہی ہوتا اور ہر فرقہ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت وغیرہ کررہا ہوتا تو ہرقل اس فرقہ بندی کی طرف توجہ ہی نہ دیتا لیکن اس نے دیکھا کہ یہ فرقے ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں اور ہر لڑائی میں کچھ آدمی مارے جاتے اور کچھ ایسے زخمی ہوتے کہ ٹانگ یا بازو یا دونوں سے معذور ہیں ہوجاتے تھے۔
یہ ایسی صورت حال تھی جو خانہ جنگی کی صورت اختیار کرسکتی تھی ہرقل نے ہر فرقے کے مذہبی پیشواؤں کے ساتھ بات کی تو اس نے دیکھا کہ ہر مذہبی پیشوا اپنے اپنے محاذ پر ڈٹا ہوا ہے اور وہ اپنے ہی فرقے کو صحیح العقیدہ سمجھتا ہے۔
ہرقل نے فیصلہ کیا کہ وہ اس فرقہ بندی کو ختم کرکے دم لے گا اس نے ایک سرکاری عیسائی مذہب تشکیل دے ڈالا اور حکم نامہ جاری کیا کہ تمام فرقوں کے عیسائی اس فرقے میں آ جائیں اور کوئی دوسرا فرقہ موجود نہ رہے ، ہرقل نے فرقہ بندی کو جرم قرار دے دیا، تم جانتے ہو کہ لوگ اپنے مذہبی عقیدے سے دست بردار نہیں ہواکرتے ،لوگوں نے ہرقل کا حکم تو سن لیا لیکن اپنے اپنے فرقے کے وفادار رہے اور ہرقل کا سرکاری مذہب قبول نہ کیا ، ہرقل نے لوگوں کا یہ ردعمل اور رویہ دیکھا تو اس نے فوج کو پوری اجازت دے دی کہ وہ لوگوں کو سرکاری مذہب کی طرف لائیں اور جو کوئی مزاحمت کرتا ہے اسے قتل کردیں چاہے قید خانے میں ڈال دیں۔ فوج نے من مانی شروع کردی گھر والوں کو خوف میں مبتلا کر کے عورتوں کی بے حرمتی کرتے اور ظاہر یہ کرتے کہ یہ گھر یا یہ خاندان فرقہ بندی سے دستبردار نہیں ہو رہا۔
ایک طرف لوگ ٹیکسوں کے بوجھ تلے پڑے کراہ رہے تھے اور دوسری طرف ان پر زبردستی ایسا مذہب چھوڑ دیا گیا جسے وہ صحیح اور کامل عسائیت نہیں سمجھتے تھے، وہ لوگ بادشاہ کا تو کچھ بگاڑ نہ سکتے تھے لیکن ہوا یہ کہ ان کے دلوں میں ہرقل کی نفرت پیدا ہو گئی اور انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایک غلط قیصر روم کے خاطر قربانیاں دی تھیں۔
لوگوں کا ردعمل اس وقت سامنے آیا جب تم لوگوں نے شام پر حملہ کیا میں جانتی ہوں کہ ہمارے محل میں مسلمان کا نام آتا تھا تو سب ہنس پڑتے اور مذاق کے لہجے میں کہتے تھے کہ یہ عرب کے بدو حملہ کرنے آ رہے ہیں، وہ یہی کہتے تھے کہ یہ لوگ صرف لوٹ مار کرنا ہی جانتے ہیں لیکن میں نے دیکھا کہ ہرقل کی فوج مسلمانوں کی پہلی ضرب ہی نہ سہ سکی۔
یہ تو میں نے کبھی بھی نہیں مانا تھا کہ مسلمان اتنی بڑی طاقت ہو سکتے ہیں کہ ہماری فوج کو شکست دے دیں گے، لیکن ادھر ایرانیوں کو انہوں نے بھگا دیا اور ادھر ہرقل کے پاؤں اکھاڑ دیے۔
میں باہر نکل جایا کرتی تھی اور لوگوں سے پوچھتی تھی کہ مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور وہ اتنی بڑی طاقت کس طرح بن گئے ہیں؟ ۔۔۔آہستہ آہستہ مجھے مسلمانوں کے متعلق معلوم ہوتا گیا کہ یہ کیسے لوگ ہیں ہر کوئی کہتا تھا کہ مسلمان صرف خدا کی حکمرانی کو مانتے ہیں اور وہ بنی نوع انسان کے خیر خواہ ہیں، میں اپنے دو تین فوجی افسروں سے بھی ملی تھی جو محاذوں سے بھاگ کر پیچھے آئے تھے ،انہوں نے بتایا کہ مسلمان جب کسی شہر یا کسی بستی کو فتح کر لیتے ہیں تو وہ لوگوں کے گھروں میں لوٹ مار نہیں کرتے اور کسی عورت کو خواہ وہ کیسی ہی حسین کیوں نہ ہو ہاتھ لگانا تو دور کی بات ہے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے، پھر ان میں خوبی یہ دیکھی کہ وہ مفتوح لوگوں پر واجبی سا جزیہ عائد کر دیتے ہیں ،اور تمام لوگوں کی عزت اور جان و مال کے ضامن بن جاتے ہیں، یہاں کے لوگوں کے دلوں میں ہرقل کی نفرت بیٹھی ہوئی تھی انہوں نے مسلمانوں کا سلوک اور رویہ دیکھا تو لوگوں نے بازو پھیلا کر ان کا خیرمقدم کیا۔
لیکن شارینا!،،،، حدید نے کہا تمہاری فوج کی شکست کی وجہ صرف یہ نہیں کہ یہاں کے لوگ ہرقل سے نفرت کرتے تھے اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کی محبت پیدا ہوگئی تھی تم نے شاید سنا نہیں کہ مسلمان کس بہادری بے خوفی اور بے جگری سے لڑتے ہیں ہر محاذ پر اور ہر لڑائی میں ہماری تعداد دشمن کی فوج سے چار گناہ کم ہوتی ہے،،، سنا ہے شارینا نے کہا۔۔۔۔ مسلمان مجھے اپنے کردار اور اخلاق کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ لڑنے کے جذبے کی بدولت اچھے لگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں تمہارے ساتھ آ گئی ہوں حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس شخص ہرقل سے اتنی نفرت ہوگئی ہے کہ میں اب وہاں دل پر جبر کر کے وقت گزار رہی تھی مجھے پوری امید ہے کہ تم مجھے دھوکا نہیں دو گے۔
دھوکا دینا ہمارے ہاں گناہ ہے ۔حدید نے کہا۔۔۔ ایک عورت کو دھوکہ دینا تو ہمارے ہاں گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے میں تمہیں اتنی سی بات بتا دیتا ہوں کہ میں تم سے محبت کر سکتا ہوں لیکن اپنے فرائض اس محبت پر قربان نہیں کروں گا۔
میں تمہیں پہلے بتا چکی ہوں کہ مجھے صرف شہزادی نہ سمجھ لینا شارینا نے کہا ۔۔۔میں تمہیں بتا نہیں سکتی کہ تمہیں دیکھ کر اچانک میرے دل میں تمہاری محبت کس طرح پیدا ہوگی لیکن میں تمہارے ساتھ محبت کا جذباتی کھیل کھیلنے نہیں آئی، یہ تمہیں بتا دیتی ہوں کہ تم میرے دل میں اتر گئے ہو لیکن تمہاری جس خوبی نے مجھے تمہارا گرویدہ بنایا ہے وہ یہ تھی کہ تم نے ہرقل کے سامنے پوری جرات کے ساتھ بات کی اور بالکل صحیح بات کی یہ جانتے ہوئے کہ تم ہرقل کے قیدی ہو اور ہرقل تمہیں قتل کروا سکتا تھا تم نے وہی بات کی تھی جو تمہیں کرنی چاہیے تھی کوئی شخص ہرقل کے منہ پر ایسی بات نہیں کر سکتا میں نے مسلمانوں کے کردار کے متعلق جو کچھ سنا تھا وہ تم نے سچ ثابت کردکھایا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شارینا کا حدید پر فریفتہ ہو جانا عجیب بات نہیں تھی، حدید خوبرو اور قدآور جوان تھا اس کی تراشی ہوئی داڑھی اس کے چہرے کی رونق کو دوبالا کرتی تھی اس کے چہرے پر جلال تھا ، ایسا جلال انہی لوگوں کے چہرے پر ہوا کرتا ہے جو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔
اب وہ ایسے علاقے میں چلے جا رہے تھے جہاں ایک اور خطرہ پیدا ہو گیا تھا وہ خطرہ یہ تھا کہ روم کی فوج کے شکست خوردہ سپاہی ایسی بری طرح پسپا ہوئے تھے کہ کئی ایک جنگلوں میں جا چھپے تھے۔
یہ سب فرداً فرداً یا دو دو چار چار کی ٹولیوں میں بکھرے ہوئے کسی ایسے شہر کی طرف جارہے تھے جو ابھی تک رومی فوج کے قبضے میں تھا ۔
حدید اور شارینا نے دور سے ایسے تین فوجی دیکھے تھے لیکن وہ فوجی انہیں نہیں دیکھ سکے تھے فاصلہ خاصا زیادہ تھا۔
سورج افق پر پہنچ گیا تھا اور اب ان دونوں کو کہیں رک کر رات بسر کرنی تھی ،کچھ اور آگے گئے تو حدید نے گھوڑا روک لیا اور شارینا کے کندھے پر ہاتھ رکھا شارینا نے بھی گھوڑا روک لیا حدید نے کان کھڑے کر لیے تھے اس نے شارینا سے کہا کہ اسے گھوڑے کی ہنہنانے کی آواز سنائی دی ہے اور شاید کچھ آدمی باتیں بھی کر رہے ہیں۔
جس طرف سے یہ آوازیں آئیں تھیں حدید اور شارینا نے اس طرف دیکھا اس طرح چھوٹی چھوٹی ٹیکریاں تھیں جو اتنی اونچی نہیں تھی کہ کسی آدمی کو پوری طرح اپنے پیچھے چھپا سکتی۔
ہری گھاس اونچی تھی اور جنگلی پودے وغیرہ بھی تھے تقریبا تین سو قدم دور حدید اور شارینا کو تین آدمیوں کے کندھے اور سر نظر آئے وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور گھوڑوں کے کان نظر آ رہے تھے۔
سورج ابھی غروب ہو رہا تھا ابھی اتنی روشنی موجود تھی کہ اتنی دور سے آدمی دیکھے اور پہچانے جا سکتے تھے، حدیداور شارینا نے بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے ایک طرف کو موڑ لیے اور قریبی ٹیکری کے پیچھے چلے گئے تاکہ وہ تین آدمی انہیں نہ دیکھ سکے انہیں توقع یہی تھی کہ ان سواروں نے انھیں نہیں دیکھا وہ ایک بلند ٹیکری کے اوٹ میں ہو گئے تھے اور گھوڑوں کی رفتار ذرا تیز کر لی تھی
ان تینوں سواروں کا رخ مشرق کی طرف تھا اور حدید شارینا مغرب کی طرف جارہے تھے یعنی ان کی سمتیں ایک دوسرے سے الٹ تھی ابھی وہ ایک میل بھی دور نہیں گئے ہونگے کہ انہیں ایک بڑی ہی خوبصورت جگہ نظر آئی وہاں شفاف پانی کا چشمہ تھا اور یہ پانی چند گز لمبے چوڑے تالاب کی صورت میں اکٹھا ہو گیا تھا اور ایک طرف سے بہ رہا تھا ،ارد گرد ذرا اونچی ٹیکریاں تھیں جن پر خوشنما درخت اور ہری بھری جھاڑیاں تھیں ٹیکریاں اور پانی کے درمیان کشادہ جگہ تھی جہاں سر سبز گھاس تھی اور یہ جگہ رات گزارنے کے لئے نہایت موزوں تھی۔
وہ گھوڑے سے اترے حدید نے دونوں گھوڑوں کو گھاس کھانے کے لئے چھوڑ دیا اور خود ایک طرف بیٹھ گئے اور شارینا نے کھانے کا سامان نکالا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا لیکن چاند نے رات کو تاریک نہ ہونے دیا ہرے بھرے جنگل کی چاندنی اتنی شفاف تھی کہ سورج کے غروب ہونے کا احساس خاصہ کم رہ گیا تھا، حدید اور شارینا سونے کی تیاری کرنے لگے،
اب بے فکر ہو جاؤ حدید،،، شارینا نے کہا۔۔۔ اب ہمارے پیچھے کوئی نہیں آئے گا آرام اور اطمینان سے سو جاؤ۔
میرے پاس تلوار ہے میں بے فکر ہوں، حدید نے کہا،،، کوئی آ بھی گیا تو پورا مقابلہ کرونگا۔
وہ تین سوار جو ہم نے دیکھے تھے ہماری فوج کے تھے شارینا نے کہا ۔۔۔اچھا ہوا انہوں نے ہمیں نہیں دیکھا تھا اتنی دور سے میں پہچان تو نہیں سکی شک ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک کو میں جانتی پہچانتی ہوں وہ اگلے گھوڑے پر سوار تھا اور اس کا سر جھکا ہوا تھا وہ جو کوئی بھی تھے دور نکل گئے ہونگے حدید نے کہا ۔۔۔صاف پتہ چلتا تھا کہ کسی میدان جنگ سے بھاگ آئے ہیں اور کسی شہر کو جارہے ہیں ۔
وہ لیٹنے ہی لگے تھے کہ انہیں دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی دونوں نے چونک کر اس طرف دیکھا وہاں ایک رومی سپاہی کھڑا تھا کیا تم دوڑتے آئے تھے؟
شارینا نے اس سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟
بھوکا ہوں رومی سپاہی نے بھکاریوں کی طرح کہا ۔۔۔مسلمانوں نے ہماری فوج کو بہت نقصان پہنچایا ہے باقی جو لوگ بچ گئے وہ ایسے پسپا ہوئے کہ بکھر کر ادھر ادھر بھاگ نکلے مسلمان بڑی ظالم قوم ہے ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ عرب کے بدو ہیں جو صرف لوٹ مار کرنا جانتے ہیں ان سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں لیکن وہ تھوڑے سے مسلمان جب ہمارے مقابلے میں آئے تو ہمیں شک ہونے لگا کہ یہ انسان نہیں جنات ہیں ہماری اتنی بڑی فوج کو انہوں نے خون میں نہلادیا میں آگے جا رہا تھا آپ کو دیکھا تو آپ کے پاس چلا آیا کچھ کھانے کو دے دیں ورنہ بھوک سے مر جاؤں گا۔
میدان جنگ سے بھاگنے والے بزدلوں کو بھوکا ہی مرنا چاہیے شارینا نے کہا۔۔۔ وہیں بیٹھ جاؤ میں کھانے کو تمہیں کچھ دیتی ہوں۔
حدید نے کھانے کی ایک دو چیزیں نکالی اور اٹھ کر اس رومی سپاہی کو دے دیں ۔ وہ وہیں بیٹھ گیا تھا وہ بے تابی اور بے صبری سے کھانے لگا یہی مت بیٹھے رہو شارینا نے کہا۔۔۔ یہاں سے چلے جاؤ اور کہیں جاکر کھانا
شارینا کا انداز اور لہجہ شہزادیوں والا تھا حدید نے شارینا سے کہا کہ وہ اس طرح رعونت سے بات نہ کرے اور بیچارے کو اطمینان سے کھانا کھانے دے رومی سپاہی وہیں بیٹھا کھانا کھاتا رہا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
رات کی خاموشی میں ایک گھوڑے کی ٹاپ سنائی دینے لگیں جو قریب ہی قریب آتی جارہی تھی حدید کا ہاتھ فوراً تلوار کے دستے پر چلا گیا۔
جوں جوں رات گزرتی جا رہی تھی چاندنی اور زیادہ شفاف ہوتی چلی جا رہی تھی جس طرف سے گھوڑے کی ٹاپ آگے بڑھ رہے تھے اس طرف دو چھوٹی ٹیکریوں کے سرے آپس میں ملتے تھے لیکن ان کے درمیان راستہ تھا ایک رومی سپاہی اس راستے پر نمودار ہوا اس نے ایک گھوڑے کی باگ پکڑی ہوئی تھی اور گھوڑے پر ایک آدمی سوار تھا انہیں دیکھ کر وہ رومی سپاہی جو شارینا کا دیا ہوا کھانا کھا رہا تھا ۔ اٹھ کھڑا ہوا اور گھوڑ سوار کی طرف چل پڑا وہ تو جھکا جھکا مریل سا آدمی تھا اور لگتا تھا جیسے وہ واقعی بھوک سے مرا جا رہا ہے لیکن وہ جب اٹھ کر سوار کی طرف گیا تو اس کی چال میں تیزی بھی تھی اور مستعدی بھی حدید تلوار ہاتھ میں لیے اٹھ کھڑا ہوا لیکن اس نے آگے ایک قدم بھی نہ اٹھایا۔
شارینا بھی اٹھ کھڑی ہوئی تھی دونوں رومی سپاہیوں نے مل کر گھوڑ سوار کو گھوڑے سے اٹھایا اور اسے اٹھائے اٹھائے وہاں تک لے آئے جہاں حدید اور شارینا نے سونے کے لیے کمبل بچھا ئے تھے ۔
سپاہیوں نے سوار کو ایک کمبل پر بٹھادیا ۔
میں یقیناً خواب نہیں دیکھ رہا شارینا !،،،سوار نے کہا۔۔۔میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں یہ حقیقت ہے۔ حیران اس لئے ہو رہا ہوں کہ ہماری ملاقات کہاں آ کر ہوئی ہے تم نے مجھے نہیں دیکھا تھا میں نے تمہیں دیکھ لیا تھا۔
ہاں کیلاش!،،، شارینا نے کہا ۔۔۔تمہیں اس سے زیادہ حیران ہونا چاہئے جتنا ہو رہے ہو۔ میں نے ایسی توقع خواہش دل میں رکھی ہی نہیں تھی کہ تم مجھے راستے میں مل جاؤ گے،،، کیا تم زخمی ہو ؟
ہاں شارینا! ۔۔۔اس نے جواب دیا۔۔۔ دونوں ٹانگیں بری طرح زخمی ہیں۔
شاید ایک ٹانگ کی ہڈی بھی مجروح ہو گئی ہے تم یہاں کیسے آ پہنچی ہو اور یہ کون ہے؟
تم یقین نہیں کرو گے شارینا نے کہا ۔۔۔میں کہوں کہ میں تمہاری تلاش میں نکلی ہوں اور تمہارے پیچھے ٹھوکریں کھاتی ہوں تو تم نہیں مانو گے۔
میں نہیں مانو گا اس زخمی نے کہا اگر تمہارے ساتھ تین چار یا ایک دو ہی سہی رومی سپاہی ہوتے تو میں مان لیتا لیکن تمہارا یہ ساتھی رومی نہیں یہ عربی معلوم ہوتا ہے اور یہ تمہارا محافظ لگتا ہی نہیں میں تمہارے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتا مجھ سے تو پاؤں پر کھڑا نہیں ہوا جا رہا تم سچ بولو گی تو میں تمہارا راستہ نہیں روکوں گا نہ مجھ میں ہمت ہے بہتر ہے سچ بول دو۔
یہ زخمی خوبرو اور جواں سال آدمی تھا رومی فوج میں افسر عہدے پر تھا اور شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس کا نام کیلاش تھا وہ ایک چھاپہ مار گروہ کا کمانڈر تھا بہت ہی دلیر اور اپنی جان پر کھیل جانے کے لیے ہر وقت تیار، اس کے شب خون ہرقل کی فوج میں بہت ہی مشہور تھے ،وہ چیتے کی طرح اپنے شکار پر جھپٹتا تھا اور بیشتر اس کے کہ اس کا شکار ذرا سنبھلے وہ اپنا کام کر کے غائب ہوچکا ہوتا تھا ۔
شارینا کو یہ خوب رو چھاپا مار لڑکپن سے ہی اچھا لگتا تھا اور اس نے کیلاش کو اپنا آئیڈیل بنا لیا تھا کیونکہ وہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس لیے شارینا سے ملنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شارینا نوجوانی میں داخل ہوئی تو لڑکپن کی پسندیدگی والہانہ محبت میں بدل گئی کیلاش اسے ویسی ہی محبت سمجھتا تھا جیسے اکثر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں ہو جایا کرتی ہے لیکن شارینا کا یہ جذباتی معاملہ اس کی فطرت کا پابند تھا اس نے حدید کو اپنے متعلق سنایا تھا کہ اس کی فطرت میں عسکری جذبہ غالب حیثیت رکھتا ہے ،اس نے اپنی فطرت کا جو نقشہ حدید کو دکھایا تھا وہ کیلاش کو بھی دکھایا لیکن کیلاش اس محبت کو صرف جذباتی رنگ دیتا تھا اور اس کی تان اس پر ٹوٹی تھی کہ وہ شارینا کے ساتھ شادی کرے گا شارینا نے اسے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ جس روز وہ مسلمانوں کے کسی لشکر کو شکست دے کر آئے گا اس روز وہ اس کے ساتھ شادی کر ے گی۔
کیلاش کی بہادری اور بے جگری کو تو وہ بڑی اچھی طرح جانتی تھی اور یہی وہ وصف تھا جس نے اسے کیلاش کی محبت میں گرفتار کر لیا تھا لیکن اس محبت کا کیلاش پر یہ اثر ہوا کہ اس نے جنگ پر جانے سے گریز شروع کر دیا اور کسی نہ کسی بہانے پیچھے ہی رہنے کی کوشش کی ۔
شارینا کو اس کی یہ عادت اچھی نہ لگی وہ تو اسے کہا کرتی تھی کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو اور میں بھی مردوں کی طرح لڑوں گی کیلاش کو شارینا کی یہ باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔
وہ کہا کرتا تھا کہ وہ ایک خوشبودار پھول ہے جسے وہ پھول کی صورت میں دیکھنا اور سونگھنا چاہتا ہے ۔اور اسکی خواہش یہ ہے کہ جب وہ میدان جنگ واپس آئے تو شارینا اسے اپنے بازوؤں میں لے کر اپنے ساتھ لگا لیاکرے ۔
شارینا پر اس کا اثر یہ ہوا کہ اس نے کیلاش کی جو تصویر اپنے ذہن میں بنائی تھی اسے کیلاش نے بدنما اور داغدار کر دیا ، شارینا نے اسے یہ تو نہ کہا کہ وہ جس کیلاش سے محبت کرتی تھی وہ کیلاش محض ایک تصور تھا اور شارینا تصور پرست لڑکی نہیں بننا چاہتی۔ پھر یوں ہوا کہ خالد بن ولید، ابو عبیدہ ،شرجیل بن حسنہ، رضی اللہ عنھم اور دوسرے نامور سالاروں کے قیادت میں مجاہدین اسلام کا لشکر قیصر روم کے خلاف طوفان کی طرح بڑھا تو کیلاش کو حکم ملا کہ وہ اپنا چھاپا مار گروہ لے کر آگے چلا جائے اور مسلمانوں کے خیمہ گاہوں پر شب خون مارے۔
یہ جنگ طول پکڑتی جارہی تھی اور ہر محاذ پر فتح مسلمانوں کی ہوتی تھی اور قیصر روم کی فوج پیچھے ہی پیچھے ہٹتی آرہی تھی۔ شارینا کے خیالوں میں وہ انقلاب آنے لگا تھا جو وہ بڑی تفصیل سے حدید کو سنا چکی تھی۔
کیلاش اس کے دل سے اتر گیا تھا۔
اس رات کیلاش بستیوں اور چھوٹی بڑی آبادیوں سے دور ایک جنگل میں شارینا کے راستے میں آ گیا اور ایسی حالت میں آیا کہ اس کی دونوں ٹانگیں بہت ہی بری طرح زخمی تھی، اور ان زخموں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھی، چلنے پھرنے سے معذور تھا اسے توقع تھی کہ شارینا کے دل میں اس کی محبت اگر پہلے سے بڑھی نہیں تو کم بھی نہیں ہوئی ہوگی۔
لیکن وہ شارینا کو اس جنگل میں ایک مسلمان کے ساتھ دیکھ کر پریشان ہو گیا اور اس کا چہرہ دل سے اٹھنے والے قہر اور عتاب سے سرخ ہو گیا تھا۔
مجھے زیادہ حیرت اور پریشانی میں نہ رکھو شارینا! ۔۔۔۔کیلاش نے کہا۔۔۔ اب بتا دو کہ یہ کون ہے اور تم اس کے ساتھ کہاں جا رہی ہو؟ اگر یہ تمہیں زبردستی اپنے ساتھ لے جا رہا ہوتا تو تم ہم کو دیکھ کر خوش ہوتی اور دوڑ کر ہماری پناہ میں آ جاتیں۔
یہ مجھے نہیں لے جارہا کیلاش! ۔۔۔شارینا نے بڑی پختہ آواز میں کہا۔۔۔ میں اسے لے جا رہی ہوں اور تمہاری دنیا سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو رہی ہوں، مجھے بھول جاؤ کیلاش ہمارے راستے جدا ہوگئے ہیں۔
تمہیں لڑکیاں پاگل کہا کرتی ہیں،،، کیلاش نے کہا۔۔۔وہ ٹھیک ہی کہتی ہیں تمہیں یہاں دیکھ کر بھی مجھے یقین نہیں آتا کہ تم ایک مسلمان کے ساتھ بھاگی جا رہی ہو، تم نے شاہی خاندان کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔
کیا تمہارے شاہی خاندان کی کوئی عزت رہ گئی ہے؟،،، حدید نے مسکراتے ہوئے پوچھا اور اسے بولنے کی مہلت دیئے بغیر کہا۔۔۔ دوسروں کی عزت کے ساتھ کھیلنے والوں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے جس انجام کو تمہارا شاہی خاندان پہنچ گیا ہے ۔ان بادشاہوں کی بیویاں گن لو،، ۔۔۔شارینا بول پڑی ۔۔۔ان کی داشتائیں گن لو۔ نہیں گن سکو گے۔ شاہی خاندان کے آدمی جہاں کہیں کوئی خوبصورت لڑکی دیکھتے ہیں حکم دے دیتے ہیں کہ اسے محل میں پہنچا دو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے ماں باپ اور بھائی بہنوں سے کم سن لڑکیاں چھین جھپٹ کر اپنے ساتھ لے آتے ہیں، جو علاقے فتح کرتے ہیں وہاں ان کی فوج لڑکیوں پر ٹوٹ پڑتی ہے، میری ماں کو قافلے سے اغوا کیا گیا اور روم کے بادشاہ فوکاس کے پاس پہنچا دیا گیا تھا۔
بادشاہ کا فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ انکے والدین کی فریاد سنے جن کی بیٹیاں اغوا ہو جاتی ہیں اور ان بیٹیوں کو ڈھونڈ نکالنے کا حکم دے، لیکن یہاں بادشاہ قزاقوں سے بدتر ہیں یہی وہ وجوہات ہیں جنہوں نے میرے دل میں اس شاہی خاندان کی نفرت پیدا کی ہے۔
کیلاش بھائی! ۔۔۔حدید نے کہا ۔۔۔آج تمہاری ایک لڑکی جارہی ہے اور تم کہتے ہو کہ شاہی خاندان کی بےعزتی ہو گئی ہے میں اس لڑکی کو زبردستی نہیں لے جارہا ۔یہ میری یا کسی اور کی داشتہ نہیں بنے گی نہ اسے تفریح طبع کا ذریعہ بنایا جائے گا ،اگر میں اس کے ساتھ شادی کرنا چاہوں تو سپہ سالار کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکوں گا ایسا بھی نہیں ہوگا کہ یہ سپہ سالار کو اچھی لگے تو وہ اس پر قبضہ کر لے گا اسے ہمارے یہاں اتنی ہی عزت ملے گی اور اتنا ہی وقار ملے گا جتنا ہمارے خلیفہ کے گھر کی مستورات کو اور سپہ سالاروں کی بہو بیٹیوں کو ملتا ہے عزت اور وقار دیکھنا چاہتے ہو تو میرے ساتھ چلو وہاں تمہارا علاج ہوگا اور تم نے اگر اسلام قبول کر لیا تو تمہاری عسکری قابلیت کے مطابق تمہیں عہدہ ملے گا۔
تم خوش قسمت ہو کے میں زخمی ہوں کیلاش نے کہا۔۔۔ میں زخمی نہ ہوتا تو تمہیں اس سے زیادہ بولنے کی مہلت نہ دیتا جتنا تم بول چکے ہو، حدید کی مسکراہٹ کچھ اور زیادہ کھل اٹھی اور اس نے کچھ بھی نہ کہا ۔کیلاش کے ساتھ جو دو سپاہی تھے وہ اس کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور شاید کیلاش کے حکم کے منتظر تھے وہ اس گفتگو میں دخل نہیں دے رہے تھے ،کیلاش ایک تو افسر تھا اور دوسرے شاہی خاندان کا آدمی تھا یہی وجہ تھی کہ اس کے دونوں سپاہیوں کو بولنے کی جرات نہیں ہورہی تھی، کیلاش یہاں تک اس طرح پہنچا تھا کہ جب وہ اور اس کے دونوں سپاہی حدید اور شارینا کو دور گھوڑے پر سوار نظر آئے تھے تو ان دونوں نے ان تینوں کو دیکھ لیا تھا ان کا خیال تھا کہ کیلاش اور اس کے سپاہیوں نے انہیں نہیں دیکھا لیکن انہوں نے دیکھ لیا تھا۔
کیلاش کو کچھ شک ہوا تھا کہ یہ شارینا ہے یا جو کوئی بھی ہے اس کی شکل و صورت شارینا سے ملتی جلتی ہے اگر یہ شارینا نہیں تھی تو آخر ایک خوبصورت لڑکی تھی اور اس کے ساتھ صرف ایک آدمی تھا جبکہ کیلاش کے ساتھ دو سپاہی تھے اس نے لڑکی کو پکڑنے کے لئے اپنے گھوڑے کا رخ ادھر کو کر لیا تھا۔
حدید اور شارینا ایک بڑی لمبی ٹیکری کی اوٹ میں اپنے سفر کو جارہے تھے کیلاش کے گھوڑ سوار سپاہی انہیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔
کیلاش نے انہیں روک کر کہا کہ گھوڑوں سے اترے گھوڑے پیچھے رہنے دیں اور پاپیادہ دبے پاؤں انہیں تلاش کریں۔
کیلاش کہیں پیچھے رک گیا تھا حدید اور شارینا نے چشمہ دیکھا اور وہ جگہ انہیں اچھی لگی اور وہیں رک گئے رات تاریک ہو چکی تھی اور پورا چاند ابھر آیا تھا آخر وہ دونوں سپاہیوں کو نظر آ گئے دونوں اکٹھے آگے آئے تھے ،ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ کیلاش کو اطلاع دینے جا رہا ہے وہاں سے دوڑ پڑا اور یہ تھی وہ قدموں کی آہٹ جو حدید اور شارینا نے سنی تھی اور ادھر دیکھا تو ایک سپاہی کھڑا تھا۔
شارینا نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ دوڑتا آیا ہے،سپاہی نے یہ فریب کاری کی کہ وہ بھوکا بھکاری بن گیا اور روٹی کی بھیک مانگنے لگا شارینا نے اس پر کچھ غصہ جھاڑا تھا لیکن اسے واقعی بھوکا اور مجبور دیکھ کر کھانے کو کچھ دے دیا تھا۔ اتنے میں اس کا ساتھی کیلاش تک پہنچ گیا اور وہ کیلاش کو اور اپنے ساتھی کے گھوڑوں کو ساتھ لے آیا۔ کیلاش نے جب شارینا کو قریب سے دیکھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ تو تھی ہی شارینا اور اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ شاہی خاندان کی ایک لڑکی جنگل میں ایک اجنبی کے ساتھ پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔
کیلاش نے شارینا کے ساتھ اور بھی بہت سی باتیں کیں لیکن شارینا پر کچھ اثر نہ ہوا اس نے مسلمان پر لعن طعن کی اور اسلام کی بھی توہین کر ڈالی شارینا کو یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی کہ یہ مسلمان ڈاکو اور لٹیرے ہیں اور ان کا نہ کوئی خدا ہے نہ مذہب! میں خوش قسمت نہیں کہ تم زخمی ہو ،،،حدید نے کہا۔۔۔ تم خوش قسمت ہو کے معذور ہو اور پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکتے ہم زخمی پر عورت پر بچے اور بوڑھے پر ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تم نے میری بےعزتی کی ہے میرے مذہب کی توہین کی ہے لیکن میں تم پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا، یہ اس اسلام کا حکم ہے جسے تم اچھا نہیں سمجھ رہے بلکہ کہتے ہو کہ یہ تو کوئی مذہب ہی نہیں۔
شارینا! ۔۔۔کیلاش نے کہا۔۔۔ اگر تم برا نہ جانو تو میں اپنے ان سپاہیوں کے ساتھ رات یہیں گزار لوں۔
میں برا کیوں جانو گی؟ ۔۔۔شارینا نے کہا جہاں جی چاہتا ہے وہاں لیٹ جاؤ۔
اور ہمارے پاس کھانے کا سامان ہے ۔۔۔حدید نے کیلاش سے کہا۔۔۔ لے لو اور کھا لو ۔۔۔کوئی اور ضرورت یا تکلیف ہو تو مجھے بتانا۔
مجھے کچھ نہیں چاہیے کیلاش نے کہا ۔۔۔اور شارینا سے مخاطب ہوا شارینا تم مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو رہی ہو میری صرف یہ بات مان لو کہ تھوڑی سی دیر کے لیے الگ میرے پاس بیٹھنا۔۔۔ بیٹھ جاؤں گی شارینا نے کہا۔۔۔لیکن ایک بات میری بھی مان لوں مجھ سے دور جا کر لیٹنا۔
کیلاش نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ وہ یہاں سے تھوڑی دور ٹیکری کے قریب میرا بستر بچھا دیں ۔
سپاہی دوڑے گئے گھوڑوں سے سفری بستر کھول لائے اور کچھ دور زمین پر بچھا دیا۔ دونوں نے کیلاش کو اٹھایا اور بستر پرلیٹا دیا، کیلاش کے کہنے پر سپاہیوں نے اپنے سونے کا انتظام اس سے کچھ دور کیا۔
شارینا کیلاش کے بستر پر جا بیٹھی اور اس سے پوچھا کہ وہ اور کیا بات کہنا چاہتا ہے۔ کیلاش اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ چلی چلے۔
شارینا اسے اپنا فیصلہ سناچکی تھی کہ وہ واپس جانے کے لئے نہیں جارہی ،کیلاش منت سماجت پر اتر آیا اور پھر اسے مسلمانوں سے ڈرایا لیکن شارینا پر کچھ اثر نہ ہوا ۔
آخر شارینا اسے مایوس چھوڑ کر واپس حدید کے پاس جا پہنچی اور اس کے ساتھ بچھے ہوئے کمبل پر لیٹ گئی ،وہ دن بھر کے تھکے ہوئے تھے بڑی جلدی سو گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آدھی رات گزر چکی تھی جب قریب کے ایک درخت پر بیٹھا ہوا ایک پرندہ بڑی زور سے پھڑپھڑایا۔
شارینا کی آنکھ کھل گئی اس کے قریب سوئے ہوئے حدید کے ہلکے ہلکے خراٹے بتا رہے تھے کہ وہ بہت گہری نیند سویا ہوا ہے۔
شارینا نے ویسے ہی لیٹے لیٹے دیکھا جہاں کیلاش نے بستر بچھایا تھا۔
ان تینوں کو سویا ہوا ہونا چاہیے تھا لیکن کیلاش بیٹھا ہوا تھا اور ایک سپاہی اس کے دائیں اور دوسرا اس کے بائیں بیٹھا تھا اور کیلاش سرگوشیوں میں ان کے ساتھ کچھ بات کر رہا تھا۔
شارینا کو ایک خیال یہ بھی آیا کہ وہ کیلاش کو جاکر دیکھیے اور اس سے پوچھے کہ وہ ابھی تک کیوں جاگ رہا ہے کیا زخم اسے سونے نہیں دے رہا ہے یا وہ درد محسوس کر رہا ہے اس نے کچھ دیر سوچا اور ذرا سی دیر کیلئے اس کے دل میں رحم کی لہر اٹھی زخموں کے معاملے میں وہ کیلاش کی کوئی مدد نہیں کر سکتی تھی لیکن اسے خیال آیا کہ کیلاش کے پاس جا بیٹھے اور اس کا دھیان اپنی باتوں کی طرف کر کے اس کے ذہن سے زخموں کا خیال نکال دے وہ اٹھنے ہی لگی تھی کہ اس کے دماغ میں ایک روشنی سی چمکی اور ایک شک ابھرا۔
شک کیلاش کی نیت پہ تھا وہ یہ کہ کیلاش سپاہیوں سے کہہ رہا ہوگا کہ ایسے طریقے سے شارینا کو اٹھا لائیں کہ حدید کو پتہ نہ چل سکے مطلب یہ کہ کیلاش اسے زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی سازش کررہا ہوگا شارینا کی نیند اڑ گئی وہ لیٹی رہی اور انہیں دیکھتی رہی ہے۔
وہ سرگوشیوں میں کچھ کہہ رہا تھا اور دونوں سپاہی باربار شرینا اور حدید کی طرف دیکھتے تھے۔
شک اور پختہ ہوتا چلا گیا۔
آخر دونوں سپاہی اٹھے اور شارینا اور حدید کی طرف آنے کے بجائے دوسری طرف چلے گئے ۔
شارینا کچھ حیران ہونے لگی تھی ۔ یہ دونوں اس طرف کیوں جا رہے ہیں اس نے یہ دیکھ لیا کہ دونوں کی تلواریں ان کے ہاتھ میں تھی دونوں ساتھ والی چھوٹی سی ٹیکری کے اوٹ میں ہو گئے۔
کیلاش لیٹ گیا ۔شارینا نے کچھ اور چوکس ہو گئی ۔ اسے کچھ اطمینان ہونے لگا کے دونوں سپاہی کسی اور مقصد کے لئے اس طرف چلے گئے ہیں لیکن یہ خیال بھی آیا کہ وہ اپنے گھوڑوں پر زینیں ڈالنے کے لئے گئے ہونگے۔ آدھی رات کے وقت اس جنگل میں ان کا اور کام ہی کیا ہو سکتا تھا۔
اس وقت شارینا ایک پہلو پر لیٹی ادھر دیکھتی رہی تھی، اب اس نے کروٹ بدلنے کی ضرورت محسوس کی اور پیٹھ کے بل ہو گئی اس وقت چاند آگے نکل گیا تھا درختوں کے سائے لمبے ہو گئے تھے۔ شارینا نے محسوس کیا کہ اس پر کوئی سایہ پڑ رہا ہے جو پہلے نہیں تھا یہ دو سائے تھے جن میں سے ایک اس کے جسم پر اور دوسرا حدید کے جسم پر آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا
شارینا نے اپنا دماغ حاضر رکھا اور فوراً پیچھے نہ دیکھا۔ وہ جان گئی کہ دونوں سپاہی ان کے سروں کی طرف سے دبے پاؤں ان کی طرف آہستہ آہستہ آ رہے ہیں۔
وہ دونوں عقل کے کورے معلوم ہو تو دھوتے تھے انہوں نے چاند کو نظر انداز کر دیا تھا جو ان کی پیٹھ کی طرف تھا انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ ابھی دور ہی تھے کہ ان کے سائے شارینا اور حدید پر پڑنے لگے تھے۔ شارینا پیٹھ کے بل پڑی رہی اور اس نے کروٹ نہ بدلیں آنکھیں بند کر لی وہ ڈری تو یقینا ہوگی لیکن زیادہ ڈر یہ تھا کہ وہ حدید پر وار نہ کر جائیں۔
اسے اپنا نہیں حدید کا زیادہ خیال تھا ۔
شارینا کا دل بڑی تیزی سے دھڑکنے لگا
حدید اور شارینا کے درمیان دو تین قدموں کا فاصلہ تھا۔ ایک سپاہی ان دونوں کے درمیان آ کھڑا ہوا شارینا کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا اور اپنا چہرہ شارینا کے چہرے کے قریب لے گیا شارینا نے آنکھیں بند کر لی تھی اور اب وہ اس طرح آواز پیدا کرکے سانسیں لینے لگی جیسے گہری نیند سوئی ہوئی ہو۔
یہ سپاہی اٹھا شارینا نے کنکھیوں سے دیکھا دو سرا سپاہی حدید کے دوسرے پہلو کی طرف کھڑا تھا۔
شارینا نے دیکھا کہ دونوں نے تلوار ہاتھوں میں لے رکھی تھی رات اتنی خاموشی تھی کہ اپنے سانسوں کی آواز بھی سنائی دیتی تھی اسے ایک سپاہی کی سرگوشی سنائی دی۔
دیر نہ کر ۔
اب تو کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں تھی دونوں سپاہی حدید کے پہلوؤں کے ساتھ لگے کھڑے تھے اور انکے منہ ایک دوسرے کی طرف تھے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ وہ حدید کو قتل کرنے آئے تھے۔
کوئی وقت نہیں تھا ۔
تلوار حدید کے پاس تھی جو اس کے پہلو کے ساتھ رکھی تھی۔
شارینا کے پاس کھنجر تھا جو اس نے اپنے کپڑوں کے نیچے اڑس رکھا تھا۔
سپاہی جو شارینا اور حدید کے درمیان کھڑا تھا ، وہ جھکا۔
شارینا نے دیکھا وہ حدید کی تلوار اٹھا رہا تھا شارینا آہستہ آہستہ اپنا دایاں ہاتھ اپنے کپڑوں کے اندر لے گئی، دوسرا سپاہی جو حدید کے پہلو کے ساتھ کھڑا تھا وہ شارینا کی اس حرکت کو نہ دیکھ سکا کیوں کہ اس کے سامنے اس کا ساتھی کھڑا تھا جوں ہی یہ سپاہی حدید کی تلوار اٹھانے کے لیے جھکا شارینا بڑی تیزی سے اٹھی خنجر نکالا اور جھکے ہوئے سپاہی کی پیٹ میں اس جگہ پوری طاقت سے اتار دیا جہاں دل ہوتا ہے اس سپاہی نے سیدھا ہونے کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے کہ وہ پیچھے کو دیکھتا شارینا نے ایسا ہی ایک اور بھرپور اس کی پیٹھ پر کیا، حدید کی آنکھ ابھی تک نہیں کھلی تھی۔ سامنے والے سپاہی نے دیکھ لیا تھا کہ اس کے ساتھی کی پیٹھ پر دوبار خنجر اتر گیا ہے۔ وہ اتنی جلدی فیصلہ نہ کر سکا کہ شارینا پر تلوار کا وار کرکے یا حدید کو پہلے قتل کر دے ۔
شارینا کا دماغ زیادہ تیز تھا ۔
جس سپاہی کو اس نے خنجر مارے تھے ۔وہ ذرا سا سیدھا ہوا اور ایک طرف کو گرنے لگا لیکن گرنے سے پہلے ہی شارینا نے اس کے پیچھے اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور پوری طاقت سے اسے آگے کو دھکیلا، سپاہی سامنے والے سپاہی کے ساتھ ٹکرایا اور حدید کے اوپر گرا۔
حدید ہڑبڑا کر اٹھا زخمی سپاہی کی تلوار گر پڑی تھی۔
شارینا نے وہ تلوار اٹھالیں اور حدید کے اٹھنے سے پہلے آگے کو جست لگائی اور تلوار کا بھرپور وار سپاہی کے گردن پر کیا اور اس کی آدھی گردن کاٹ ڈالی۔
اتنے میں حدید پوری طرح بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوا تھا اسے تو کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ شارینا نے جس سپاہی کی گردن کاٹ دی تھی وہ ابھی گرا نہیں تھا۔ شارینا نے تلوار برچھی کی طرح ماری اور اس سپاہی کے پیٹ میں اتار دی ۔
اور پھر زور سے پیچھے کو کھینچی دونوں سپاہی مر گئے حدید نے شارینا سے پوچھا یہ کیا ہو گیا ہے ؟۔۔۔
میرے ساتھ آؤ شارینا نے کیلاش کی طرف چلتے ہوئے کہا۔۔۔ اس سے پوچھتے ہیں۔
یہ ساری ورادات جیسے آنکھ جھپکتے ہوگئی۔ شارینا اور حدید کیلاش کی طرف چل پڑے کیلاش لیٹ گیا تھا لیکن اب بیٹھا ہوا تھا اس سے کھڑا تو ہو ہی نہیں جاتا تھا، بدطینت انسان شارینا نے کیلاش کے پہلو میں تلوار کی نوک چبھوتے ہوئے کہا ۔۔۔کیا تم مجھے اس طرح اپنے ساتھ لے جا سکتے تھے۔۔۔کیلاش منہ کھولے اور آنکھیں پھاڑے شارینا کی طرف دیکھتا رہا وہ جان گیا تھا کہ شارینا اب وہ لڑکی نہیں جس کے ساتھ اس نے محبت کی تھی بلکہ یہ لڑکی اب اس کے لیے سراپا موت بن گئی تھی۔
سچ بول ، شاید میں تجھے معاف کر دوں!،،،حدید نے کہا۔۔۔ کیا تو نے مجھے قتل کروانا تھا۔ یا ہم دونوں کو ، تیرا ارادہ کیا تھا؟ ۔۔۔
سچی بات بتادے۔۔۔ شارینا نے اب اس کے سینے میں تلوار کی نوک چبھوئی، مجھے بخش دو شارینا!،، ۔۔۔کیلاش نے روتی ہوئی آواز سے کہا۔۔۔ میں نے تم سے محبت کی ھے اور تم کہیں بھی چلی جاؤں گی میرے دل سے اپنی محبت نہیں نکال سکو گی۔
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦
https://rebrand.ly/itdgneel