🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 6*👇





🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی

چھٹی قسط ۔۔۔۔
معرکہ احد کے بعد جب اہلِ قریش کی فوج مکہ واپس آئی تھی تو مکہ کے یہودی ایسے انداز سے ابو سفیان ،خالد اور عکرمہ کے پاس آئے تھے جیسے احد میں یہودیوں کو شکست ہوئی ہو۔ یہودیوں کے سرداروں نے ابو سفیان سے کہا تھا کہ مسلمانوں کو شکست نہیں ہوئی اور لڑائی ہار جیت کے بغیر ختم ہو گئی ہے، تو یہ قریش کی شکست ہے۔
 یہ یہودیوں کی ناکامی ہے ۔یہودیوں نے اہلِ قریش کے ساتھ اس طرح ہمدردی کا اظہار کیا تھا جیسے وہ اہلِ قریش کی ناکامی پر غم سے مرے جا رہے ہیں ۔انہی دنوں خالد نے پہلی بار یوحاوہ کو دیکھا تھا۔ وہ اپنے گھوڑے کی ٹہلائی کیلئے آبادی سے باہر نکل گیا تھا۔جب وہ واپس آ رہا تھا تو راستے میں اسے یوحاوہ مل گئی ۔یوحاوہ کی مسکراہٹ نے اسے روک دیا ۔’’میں تسلیم نہیں کر سکتی ،ولید کا بیٹا جنگ سے ناکام لوٹ آیا ہے۔‘‘ یوحاوہ نے کہا اور خالد کے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ پھیرنے لگی اور بولی۔’’ مجھے اس گھوڑے سے پیار ہے جو مسلمانوں کے خلاف لڑنے گیا ۔‘‘خالد یوں گھوڑے سے اتر آیا جیسے یوحاوہ کے جادو نے اسے گھوڑے سے زمین پر کھڑاکردیا ہو۔’’اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہو گی کہ تم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکے ۔‘‘یوحاہ نے کہا۔’’ تمہاری شکست ہماری شکست ہے۔ اب ہم تمہارا ساتھ دیں گے لیکن تمہارے ساتھ ہوتے ہوئے بھی تم ہمیں اپنے ساتھ نہیں دیکھ سکو گے۔۔‘‘خالد نے یوں محسوس کیا جیسے اس کی زبان بند ہو گئی ہو۔ تلواروں برچھیوں اور تیروں کی بوچھاڑوں کا مقابلہ کرنے والا خالد یوحاوہ کی مسکراہٹ کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ ’’اگر یہودی ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے تو ہمارے کس کام آ سکیں گے؟‘‘ خالد نے پوچھا۔’’ کیا تم سمجھتے ہو کہ صرف تیر ہی انسان کے جسم سے پار ہو جاتا ہے؟‘‘ یوحاوہ نے کہا ۔’’عورت کا تبسم تم جیسے دلیر اور جری مردوں کے ہاتھوں سے تلوار گرا سکتا ہے۔‘‘ خالد اس سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن کچھ پوچھ نہ سکا ۔یوحاوہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور پھولوں کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر تبسم آ گیا ۔یوحاوہ آگے چل پڑی ۔خالد اسے دیکھتا رہا ۔ اس کے گھوڑے نے کھر مارا تو خالد اپنے آپ میں آ گیا۔ وہ بڑی تیزی سے گھوڑے پر سوار ہوا اور چل پڑا۔ کچھ دور آ کر اس نے پیچھے دیکھا ۔یوحاوہ رک کر اسے دیکھ رہی تھی۔ یوحاوہ نے اپنا ہاتھ ذرا اوپر کر کے لہرایا ۔
اب جب کہ دو مسلمانوں کو نیلام کیا جا رہا تھا اور خالد کو ایک آدمی نے بتایا تھا کہ ان مسلمانوں کو کس طرح دھوکے میں لایا گیا ہے اور اس آدمی نے یوحاوہ کا نام بھی لیا تو اس نے ارادہ کر لیا کہ معلوم کرے گا کہ یوحاوہ نے وہ جادو کس طرح چلایا ہے۔ اسے اپنے قبیلے کاایک سرکردہ آدمی مل گیا۔ اس سے اسے پتا چلاکہ یہ مسلمان اہلِ قریش کے ہاتھ کس طرح آئے ہیں ۔تین چار سرکردہ یہودی یوحاوہ اور دو تین اور یہودیوں کو ساتھ لے کر شارجہ بن مغیث کے پاس چلے گئے ۔یہ قبیلہ تھا تو جنگجو لیکن اس پر مسلمانوں کارعب کچھ اس طرح طاری ہو گیاتھا جیسے لوگ جادوگروں سے ڈرتے تھے۔ اس قبیلے میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ رسولِ اکرمﷺ کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے۔ یہودیوں نے اپنی زمین دوز کارروائیوں کیلئے اس قبیلے کو اس لیے منتخب کیا تھا کہ وہ جنگجو قبیلہ تھا ۔یہودی بڑی دانشمند قوم تھی۔ انہوں نے سوچا کہ اگر مسلمانوں کے جادو کا وہم پھیل گیا تو دوسرے قبیلے بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ یہ یہودی اس قبیلے کے سردار شارجہ بن مغیث کے پاس گئے اور اس کا یہ وہم دور کرنے کیلئے کہ مسلمان جادوگر ہیں ،اسے بہت کچھ کہا۔ لیکن شارجہ بن مغیث نے تسلیم نہ کیا۔رات کو یہودیوں کے کہنے پر شارجہ بن مغیث نے ان مہمانوں کی ضیافت کا انتظام باہر کھلے آسمان تلے کیا۔ ان یہودیوں نے اپنے ہاتھوں اپنے میزبانوں کو شراب پلائی۔شارجہ بن مغیث اور اس کے قبیلے کے چند ایک سرکردہ افراد کوجو شراب پلائی گئی اس میں یہودیوں نے کوئی سفوف سا ملا دیا تھا، پھر یہودیوں نے اپنے جادو کے کچھ شعبدے دکھائے۔یوحاوہ نے اپنے حسن کا جادو چلایا۔ اس کا ذریعہ ایک رقص بھی تھا جس میں یہ یہودنیں نیم ہرہنہ تھیں۔ ناچتے ناچتے ان کے جسموں پر جو ادھورے سے لباس تھے وہ بھی سرک کر زمین پر جا پڑے ۔یہودی اپنے سازندے ساتھ لے گئے تھے۔
اگلے روز جب شارجہ بن مغیث کی آنکھ کھلی تو اسے محسوس ہوا جیسے وہ بڑے ہی حسین خواب سے جاگا ہو۔ اس کے خیالات بدلے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ پھر اپنے قبیلے کے دوسرے سرداروں کیساتھ یہودیوں کے پاس بیٹھا تھا۔ یہودنیں بھی وہاں موجود تھیں۔ یوحاوہ کو دیکھ کر وہ بے قابو ہو گیا۔ اس نے لپک کریوحاوہ کا بازو پکڑا اور اسے کھینچ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔’’ضروری نہیں کے دشمن کو میدان میں للکار کر اسے شکست دی جائے ۔‘‘ایک یہودی نے کہا ۔’’ہم مسلمانوں کو دوسرے طریقوں سے بھی ختم کر سکتے ہیں اس کا ایک طریقہ ہم تمہیں بتاتے ہیں۔‘‘خالد کو بتایا گیا کہ ان چھ مسلمانوں کو مدینے سے دھوکے سے لانے کا یہ طریقہ یہودیوں نے بتایا تھا اور شارجہ بن مغیث نے جو آدمی رسولِ کریمﷺ کے پاس بھیجے تھے ان میں ایک یہودی بھی تھا ۔خالد مسلمانوں کو اپنابد ترین دشمن سمجھتا تھا لیکن اسے یہ غیر جنگی طریقے اچھے نہیں لگتے تھے ۔ خالد اپنے گھر گیا۔ اپنی ایک خادمہ سے کہاکہ وہ یوحاوہ یہودن کو بلا لائے۔یوحاوہ اتنی جلدی اس کے پاس آئی جیسے وہ اس کے بلاوے کے انتظار میں قریب ہی کہیں بیٹھی تھی۔’’تم نے مسلمانوں کو کامیابی سے دھوکا دیا ہے۔‘‘خالد نے یوحاوہ سے کہا۔’’ اورمغیث کے قبیلے کے لوگ تمہیں جادوگرنی کہنے لگے ہیں۔ لیکن یہ طریقہ مجھے پسند نہیں آیا۔‘‘’’میری بات غور سے سنو خالد !’’تم اپنے قبیلے کے نامور جنگجو ہو لیکن تم میں عقل کی کمی ہے۔ دشمن کو مارناہے ۔تلوار سے مارو اور اسے تیکھی نظروں سے ہلاک کر دو، تیر اور تلوار چلائے بغیر دشمن کو کوئی مجھ جیسی عورت ہی مار سکتی ہے۔
 آج چار برس بعد وہ جب صحرا میں تنہا جا رہا تھا۔ تو یوحاوہ کی باتیں اُسے یاد آ رہی تھیں۔ اس حد تک تو وہ خوش تھا کہ یہودی ان کے ساتھ تھے لیکن اسے یہ بھی معلوم تھاکہ یہودیوں کی دوستی میں جہاں مسلمانوں کی دشمنی ہے وہاں ان کے اپنے مفادات بھی ہیں ۔البتہ ا س نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ یوحاوہ اگر جادوگرنی نہیں تو اس کے سراپا میں جادوکا کوئی اثر ضرور ہے۔خالد کا گھوڑا مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا ۔ اس کے ذہن میں پھر خبیب ؓبن عدی اور زیدؓ بن الدثنہ آگئے۔ لوگ ان کی بولیاں بڑھ بڑھ کر دے رہے تھے۔ آخر سودا ہو گیا اور قریش کے دو آدمیوں نے انہیں بہت سے سونے کے عوض خرید لیا۔ یہ دونوں آدمی ان دونوں صحابیوںؓ کو ابو سفیان کے پاس لے گئے ۔’’ہم نے اپنے عقیدے سے ہٹ کر محمد  ﷺ کے پاس چلے جانے والے ان دو آدمیوں کو اس لئے خریدا ہے کہ ان اہلِ قریش کے خون کا انتقام لیں جو احد کے میدان میں مارے گئے تھے۔‘‘ انہیں خریدنے والوں نے کہا ۔’’ہم انہیں آپ کے حوالے کرتے ہیں ۔آپ قریش کے سردار و سالار ہیں۔‘‘’’ہاں!‘‘ ابو سفیان نے کہا ۔’’مکہ کی زمین مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے ۔ان دو مسلمانوں کا خون اپنی زمین کو پلا دو۔لیکن مجھے یاد آ گیا ہے کہ یہ مہینہ جو گزر رہا ہے ہمارے دیوتاؤں عزیٰ اور ہبل کا مقدس مہینہ ہے ۔یہ مہینہ ختم ہو لینے دو ۔اگلے دن انہیں کھلے میدان میں لے جا کر لکڑی کے کھمبوں کے ساتھ باندھ دینا اور مجھے بلا لینا۔‘‘خالد نے جب ابو سفیان کا یہ حکم سنا تو وہ اس کے پاس گیا۔ ’’مجھے آپ کا یہ فیصلہ اچھا نہیں لگا ۔‘‘خالد نے ابو سفیان سے کہا ۔’’ہم دگنی اور تگنی تعداد میں ہوتے ہوئے اپنی زمین کو مسلمانوں کا خون نہیں پلا سکے تو ہمیں حق حاصل نہیں کہ دو مسلمانوں کو دھوکے سے یہاں لا کر ان کا خون بہایا جائے ۔ابو سفیان کیا آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو دھوکا دینے والی تین چار عورتیں تھیں ؟کیا آپ اپنے دشمن سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ اہلِ قریش اب عورتوں کی آڑ میں بیٹھ گئے ہیں؟‘‘
’’خالد! ‘‘ ابو سفیان نے با رعب لہجے میں کہا۔’’ خبیب اور زید کو میں بھی اتنا ہی اپنے قریب سمجھا کرتا تھا جتنا تم انہیں اپنے قریب سمجھتے تھے ۔تم اب بھی انہیں اپنے قریب سمجھ رہے ہو ؟اور یہ بھول رہے ہو کہ اب یہ ہمارے دشمن ہیں۔ اگر تم انہیں آزاد کرانا چاہتے ہو تو لاؤ اس سے دگنا سونا لے آؤ اور ان دونوں کو لے جاؤ۔‘‘ ’’نہیں!‘‘ پردے کے پیچھے سے ایک گرجدار نسوانی آواز آئی۔ یہ ابو سفیان کی بیوی ہند کی آواز تھی ۔اس نے غصے سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’ حمزہ کا کلیجہ چبا کر بھی میرے سینہ میں انتقام کی آگ سرد نہیں ہوئی ہے ۔اگر ساری دنیا کا سونا بھی میرے آگے لا رکھو گے تو بھی میں ان دو مسلمانوں کو آزاد نہیں کروں گی۔‘‘’’ابو سفیان !‘‘خالد نے کہا۔’’ اگر میری بیوی میری بات کے درمیان یوں بولتی تو میں اس کی زبان کھینچ لیتا۔‘‘’’تم اپنی بیوی کی زبان کھینچ سکتے ہو؟‘‘ہند کی آواز آئی۔’’ تمہارا باپ نہیں مارا گیا تھا۔ تمہارا کوئی بیٹا نہیں مارا گیا اور تمہارا چچا بھی نہیں مارا گیا۔ایک بھائی قید ہوا تھا اور تم مسلمانوں کے پاس جا کر منہ مانگا فدیہ دے کر اپنے بھائی کو چھڑا لائے ۔آگ جومیرے سینہ میں جل رہی ہے تم اس کی تپش سے نا آشنا ہو۔‘‘خالد نے ابو سفیان کی طرف دیکھا ۔ابو سفیان کے چہرے پر جہاں مردانہ جاہ و جلال اور ایک جنگجو سردار کا تاثر تھا۔ وہاں ایک خاوند کی بے بسی کی جھلک بھی تھی۔ ’’ہاں خالد!‘‘ ابو سفیان نے کہا ۔’’جس کے دل پر چوٹ پڑتی ہے ا سکے خیالات تم سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔کسی کو اپنا دشمن کہنا کچھ اور بات ہے لیکن اپنے دشمن کو پنے کسی عزیز کا خون بخش دینا بڑی ہی ناممکن بات ہے۔ تم کس کس کو قائل کرو گے کہ وہ ان دو مسلمانوں کی جان بخشی کر دے؟تم جاؤ خالد۔ ان دو مسلمانوں کو اپنے قبیلے کے رحم و کرم پر چھوڑ دو۔‘‘خالد خاموشی سے واپس چلا گیا۔پھر خالد کو وہ بھیانک منظر یاد آیا جب باہر میدان میں لکڑی کے دو کھمبوں کے ساتھ خبیبؓ اور زیدؓبندھے کھڑے تھے۔ تماشائیوں کا چیختا چلاتا ہوا ہجوم اکھٹا ہو گیا تھا۔ اُدھر سے ابو سفیان اور ہند گھوڑوں پر سوار ہجوم میں داخل ہوئے ۔ہجوم کے نعرے اور انتقامی نعرے پہلے سے زیادہ بلند ہو گئے۔ اگر اس ہجوم میں کوئی خاموش تھا تو صرف خالد تھا۔
ابو سفیان گھوڑے پر سوار دونوں قیدیوں کے قریب گیا اور دونوں نے اسے کہا کہ’’ وہ زندگی کی آخری نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔‘‘ ابو سفیان نے انہیں اجاز ت دے دی ۔خالد اب مدینہ کی طرف جا رہا تھا۔ اسے جب وہ منظر یاد آیا کہ دونوں قیدیوں کے ہاتھ کھول دیئے گئے اور وہ قبلہ رو ہو کر نماز پڑھنے لگے ۔خالدپر اس وقت جو اثر ہوا تھا وہ اب چار برس بعد اس کی ذات سے ابھر آیا۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے خالد کا سر جھک گیا ۔خبیبؓ بن عدی اور زیدؓ بن الدثنہ ہجوم کی چیخ و پکار سے لا تعلق پنی موت سے بے پرواہ خدا کے حضور رکوع و سجود میں محوَ تھے۔ انہوں نے نہایت اطمینان سے نماز پڑھی ۔دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے۔ کوئی نہی بتا سکتا، تاریخ بھی خاموش ہے کہ انہوں نے خدا سے کیا دعا مانگی؟ انہوں نے خدا سے یہ نہیں کہا ہوگا کہ دشمن انہیں آزاد کردے۔وہ اٹھے اورخود ہی لکڑی کے کھمبوں کے ساتھ پیٹھیں لگا کر کھڑے ہو گئے۔ ’’او بد قسمت انسانو! ‘‘ابو سفیان نے بڑی بلند آواز سے خبیبؓ اور زیدؓ سے کہا۔’’ تمہاری قسمت اور زندگی میرے ہاتھ میں ہے۔ا پنی زبانوں سے کہہ دو کہ ہم اسلام کو ترک کرتے ہیں اور اب ہم اہلِ قریش میں سے ہیں اور تین سو ساٹھ بتوں کو برحق مانتے ہیں ۔یہ اعلان کر دو اور اپنی زندگیاں مجھ سے واپس لو۔اگر نہیں تو موت کو گلے لگاؤ۔یہ بھی سوچ لو کہ تمہاری موت سہل نہیں ہو گی۔‘‘’’اے باطل کے پجاری ابو سفیان!‘‘زیدؓ کی آواز گرجی۔ ’’ہم لعنت بھیجتے ہیں پتھر کے ان بتوں پر جو اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکھی کوبھی نہیں اڑا سکتے۔ ہم لعنت بھیجتے ہیں عزیٰ اور ہبل پر جو تمہیں اگلے جہان دوزخ کی آگ میں پھینکیں گے۔ ہم پجاری ہیں اس ایک اﷲ کے جو رحمٰن اور رحیم ہے اور ہم عاشق ہیں محمد  ﷺ کے جو اﷲکے رسول ہیں۔‘‘ ’’میرا رستہ وہی ہے جو زید نے تمہیں دِکھا دیا ہے۔‘‘ خبیب نے بلند آواز سے کہا۔’’اے اہلِ مکہ !سچا وہی ہے جس کے نام پر ہم قربان ہو رہے ہیں۔ ہمیں نئی زندگی ملے گی جواس زندگی سے بہت زیادہ حسین اور مقدس ہو گی۔‘‘’’باندھ دو انہیں ان کھبوں کے ساتھ ۔‘‘ابو سفیان نے حکم دیا۔ ’’یہ موت کا ذائقہ چکھنے کے مشتاق ہیں ۔‘‘دونوں کے ہاتھ پیچھے کرکے کھمبوں کے ساتھ جکڑ دیئے گئے ۔ابو سفیان نے گھوڑا موڑا اور ہجوم کی طرف آیا۔
’’عزیٰ اور ہبل کی قسم! ‘‘ابو سفیان نے بلند آواز سے ہجوم سے کہا۔’’ میں نے اپنے قبیلے میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں دیکھا جو اپنے سردار پر اس محبت اور ایثار سے جان قربان کرنے کیلئے تیار ہو۔جس طرح محمد ﷺ  کے پیروکار اس کے نام پر فدا ہوتے ہیں ۔‘‘ہند اپنے گھوڑے پر سوار کچھ دور کھڑی تھی۔ اس کے قریب اس کے چند ایک غلام کھڑے تھے۔ ایک غلام نے اپنے آقاؤ ں کو خوش کرنے کیلئے جوش کا ایسا مظاہرہ کیا کہ برچھی تان کر دونوں قیدیوں کی طرف کسی کے حکم کے بغیر بڑی تیز دوڑا اور کھمبے سے بندھے زیدؓ کے سینے پر برچھی کااتنا زور داروار کیا کہ برچھی کی انی زید کی پیٹھ سے باہر نکل گئی۔ زیدؓ بن الدثنہ فوراً شہید ہو گئے۔اس غلام نے سینہ تان کر ہجوم کی طرف خراجِ تحسین کی توقع پر دیکھا لیکن ہجوم کچھ اور ہی قسم کا شور بلند کرنے گا ۔تماشائی کہتے تھے کہ’’ یہ کوئی تماشا نہیں ہوا ۔یہ مسلمان اتنی سہل موت کے قابل نہیں ۔ہمیں کوئی تماشا دِکھاؤ۔‘‘’’ قتل کر دو اس غلام کو جس نے ایک مسلمان پر اتنا رحم کیا ہے کہ اسے اتنی جلدی مار ڈالا ۔‘‘ہند نے دبی آواز میں کہا ۔کئی آدمی تلواریں اور برچھیاں لہراتے اس غلام کی طرف دوڑے لیکن بہت سے آدمی دوڑ کر ان آدمیون اور غلام کے درمیان آ گئے۔ ’’خبردار! پیچھے کھڑے رہو۔‘‘ ایک آدمی نے جو گھوڑے پر سوار تھا للکار کر کہا ۔’’عربی خون اتنا بزدل نہیں کہ دو آدمیوں کو باندھ کر مارنے کیلئے قریش کاپورا قبیلہ اکھٹا ہو گیا ہے ۔خداکی قسم! ابو سفیان کی جگہ اگرمیں ہوتا تو ان دونوں آدمیوں کو آزاد کر دیتا۔ یہ ہمارا خون ہیں اور یہ ہمارے مہمان ہیں ۔ہم ان سے میدان ِجنگ میں لڑیں گے۔یہ خالد تھا ۔‘‘’’یہ ٹھیک کہتا ہے۔‘‘ ہجوم میں سے کئی آوازیں سنائی دیں ۔’’دشمن کو باندھ کر مارنا عرب کی روایت کے خلا ف ہے۔‘‘تماشائیوں کے ہجوم میں سے بے شمار آوازیں ایسی سنائی دے رہی تھیں جو کہتی تھیں کہ ’’ہم تماشا دیکھیں گے۔ ہم دشمن کواس طرح ماریں گے کہ وہ مر مر کے جیئے۔‘‘تھوڑی دیر بعد تماشائیوں کا ہجوم دو حصوں میں بٹ گیا کہ ایک گروہ خبیبؓ کے قتل کے خلاف تھا اسے وہ عرب کی روایتی بہادری کے منافی سمجھتا تھا اور دوسرا گروہ خبیبؓ کو تڑپا تڑپا کہ مارنے کے نعرے لگا رہا تھا۔خالد نے جب اہلِ مکہ کو اور دور دور سے آئے ہوئے تماشائیوں کو اس طرح ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے دیکھا تو وہ دوڑتاہوا ابو سفیان تک گیا۔
’’دیکھ لیا ابو سفیان! ‘‘خالد نے کہا ۔’’دیکھ لیں ۔یہاں میرے کتنے حامی ہیں ،ایک کو مار دیا ہے دوسرے کو چھوڑ دیں ورنہ اہلِ قریش آپس میں ٹکرا جائیں گے ۔‘‘ہند نے خالد کو ابو سفیان کے پاس کھڑے دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ خالد بھی خبیبؓ کی رہائی کا حامی ہے۔ ہند نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ان دونوں کے پاس جا پہنچی۔’’خالد!‘‘ہند نے سخت بپھری ہوئی آواز میں کہا۔’’ میں جانتی ہوں تم کیا چاہتے ہو؟ کیا تم ابو سفیان کو اپنا سردار نہیں مانتے؟اگر نہیں تو یہاں سے چلے جاؤ۔ میں نے جو سوچاہے وہ ہو کر رہے گا۔ ‘‘’’خالد!‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ا گر تم سمجھتے ہو کہ میرا حکم ا ور میرے ارادے صحیح نہیں تو بھی مجھے ان پر عمل کر نے دو۔اگرمیں نے اپنا حکم واپس لے لیا تو یہ میری کمزوری ہو گی۔ پھر لوگ میرے ہر حکم پر یہ توقع رکھیں گے کہ میں اپنا حکم واپس لے لوں۔‘‘خالد کو آج مدینہ کے راستے میں یاد آ رہا تھا اور اسے افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے ابو سفیان کا حکم مان لیا تھا ۔خالد کی خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی نظم و نسق اور اپنے سردار کی اطاعت تھی۔اس نے اپنے سینے پر پتھر رکھ کر صرف اس لئے ابوسفیان کا حکم مان لیا تھاکہ اہلِ قریش میں حکم عدولی کی روایت قائم نہ ہو۔’’اے اہلِ مکہ!‘‘ ابو سفیان نے دو گروہوں میں بٹے ہوئے تماشائیوں سے بلند آواز میں کہا۔’’ا گر آج یہاں دو مسلمانوں کے قتل پرہم یوں بٹ گئے تو ہم میدانِ جنگ میں بھی کسی نہ کسی مسئلے پربٹ جائیں گے اور فتح تمہارے دشمن کی ہو گی۔ اگر اپنے سردار کی اطاعت سے یوں انحراف کرو گے تو تمہارا انجام بہت برا ہو گا۔‘‘ ہجوم کا شورور غوغا کم ہو گیا لیکن خالد نے دیکھا کہ اہلِ مکہ کے کئی ایک سردار چہروں پر نفرت کے آثار لیے واپس گھروں کو جا رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر بہت سے لوگ بھی جو تماشا دیکھنے آئے تھے واپس چلے گئے۔ خالد وہاں نہیں رکنا چاہتا تھا لیکن وہ خطرہ محسوس کر رہا تھا کہ دونوں گروہ آپس میں ٹکرا جائیں گے۔ اس کے اپنے قبیلے کے زیادہ تر لوگ تماشائیوں میں موجود تھے وہ کم از کم اپنے قبیلے کو اپنے قابو میں رکھ سکتا تھا ۔ہند نے تماشے کا پورا انتظام کر رکھا تھا۔ اس کے اشارے پر چالیس کم سن لڑکے جن کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں، دوڑتے اور چیختے چلاتے ہوئے تماشائیوں میں سے نکلے اور خبیبؓ کے اردگرد ناچنے اور چیخنے چلانے لگے۔
دو چار لڑکے برچھیاں تانے ہوئے خبیبؓ تک جاتے اوردوڑ کر خبیبؓ پر وار کرتے تھے لیکن خبیبؓکو گزند پہنچائے بغیر ہاتھ روک لیتے ،خبیب ؓبدکتے اور نعرہ لگاتے تھے۔ ’’میرا خدا سچا ہے اورمحمد ﷺ  خدا کے رسول ہیں۔‘‘ چند اور لڑکے اس طرح برچھیاں تان کران پر ہلہ بولتے جیسے خبیبؓ کے جسم کو چھلنی کر دیں گے لیکن وار کرکے وار روک لیتے۔ خبیب ؓکے بدکنے پر تماشائیوں کا ہجوم دادوتحسین کے نعرے اور قہقہے لگاتا ۔لڑکوں کا یہ کھیل کچھ دیر جاری رہا اس کے بعد لڑکوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ برچھی کا وار بڑی زور سے کرتے لیکن خبیبؓ کے جسم پر اتنا سا وار لگتا کہ برچھیوں کی انّیاں کھال میں ذرا سی اتر کر پیچھے جاتیں۔ بہت دیر تک یہی کھیل چلتا رہا۔ تماشائی دادوتحسین کے نعرے اور خبیبؓ اﷲ اکبر اور محمد رسول اﷲ ﷺ کے نعرے بلند کرتے رہے۔خبیبؓ کے کپڑے خون سے لال ہو چکے تھے ۔ابو جہل کا بیٹا عکرمہ ہاتھ میں برچھی لیے ان لڑکوں کے پاس جا پہنچا اور انہیں ہدایات جاری کرنے لگا ۔لڑکے اب اپنی برچھیاں خبیب ؓکے جسم میں چبھو رہے تھے ۔وہ گول دائرے میں گھومتے اور ناچتے تھے۔ خبیبؓ کے جسم کا کوئی بھی حصہ ایسا نہ رہا جہاں برچھی نہ چبھی ہو اور وہاں سے خون نہ ٹپک رہا ہو۔ ان کے چہرے پر بھی برچھیاں ماری گئیں ۔جب بہت دیر گزر گئی اور لڑکے ناچ ناچ کر اور برچھیاں چبھو چبھو کر تھک گئے تو عکرمہ نے لڑکوں کو وہاں سے ہٹا لیا۔ خبیبؓ خون میں نہائے ہوئے تھے اور ابھی زندہ تھے۔ اورہر طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے نعروں میں کمی نہیں آئی تھی۔ عکرمہ ان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور برچھی تان کر خبیبؓ کے سینے امیں اتنی زور سے ماری کہ فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے برچھی خبیب ؓکے جسم سے پار ہو گئی۔ خبیبؓ شہید ہو گئے۔‘‘ ’’ان کی لاشیں یہیں بندھی رہنے دو ۔‘‘ہند کی گرجدار آواز سنائی دی۔ ’’اب کئی دن ان کی لاشوں کے گلنے سڑنے کا تماشا دیکھتے رہو۔‘‘یہ واقعہ جولائی ۶۲۵ء کا تھا۔جو خالد کو یاد آ رہا تھا ۔اس نے اپنے دل میں درد کی ٹیس محسوس کی۔خبیبؓ اور زیدؓ کے قتل نے قریش کے سرداروں میں اختلاف کا بیج بو دیا تھا۔ جس طرح ان دو مسلمانوں نے آخری وقت نماز پڑھی اور اسلام سے نکل آنے پر موت کو ترجیح دی تھی۔ اس نے قریش کے کئی سرداروں پرگہرا اثر چھوڑا تھا ۔خود خالد نے اگر اسلام کی نہیں تو خبیبؓ اور زیدؓ کی دل ہی دل میں بہت تعریف کی تھی۔
ابوسفیان اور اس کی بیوی ہند کے خلاف اس کے دل میں نا پسندیدگی پیدا ہو گئی تھی۔’’ جنگجوؤں کا شیوہ نہیں تھا۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا ۔’’یہ جنگجوؤں کو زیب نہیں دیتا ۔‘‘ایک روز وہ ان سرداروں کی محفل میں بیٹھا تھا جو رسولِ خدا ﷺ کے ان دو اصحابؓ کے قتل کے خلاف تھے ۔’’کیا تم سب جانتے ہو کہ مارے جانے والے یہی دو نہیں بلکہ چھ مسلمان تھے۔‘‘خالد نے پوچھا۔’’ہاں!‘‘ ایک نے جواب دیا۔’’ یہ شارجہ بن مغیث کا کام ہے ۔وہ ان چھ مسلمانوں کو دھوکے سے پھندے میں لایاتھا۔‘‘’’اوراس کے پیچھے مکہ کے یہودیوں کا دماغ کام کر رہا ہے۔‘‘ خالد نے کہا ۔’’اور اس میں یوحاوہ یہودن نے دوتین اور یہودی لڑکیاں ساتھ لے جا کر اپنے اور ان کے حسن کا جادو چلایا۔یوحاوہ جادوگرنی ہے۔‘‘ایک سردار نے کہاکہ’’ بھائی کو بھائی کے ہاتھوں ذبح کرا سکتی ہے۔ کیا یہ خطرہ نہیں کہ یہودی ہمیں بھی ایک دوسرے کا دشمن بنا دیں گے ۔‘‘کسی اور سردار نے کہا۔’’ نہیں ۔‘‘ایک بوڑھا سردار بولا۔’’ وہ محمد کے اتنے ہی دشمن ہیں جتنے ہم ہیں ۔یہودیوں کامفاد اس میں ہے کہ وہ ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی اتنی پکی اور اتنی شدید کر دیں کہ ہم مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیں ۔‘‘’’ہمیں یہودیوں پر شک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ایک سردار نے کہا۔’’ بلکہ ضرورت یہ ہے کہ ہم یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف زمین کے نیچے استعمال کریں ۔‘‘لیکن ایسے نہیں جیسے شارجہ نے کیا ۔خالد نے کہا ور ایسے بھی نہیں کہ جیسے ابو سفیان اور اس کی بیوی نے کیا ’’کیا تم سب جانتے ہو کہ یوحاوہ مکہ کے چند ایک یہودیوں کے ساتھ مدینہ چلی گئی ہے؟‘‘ بوڑھے سردار نے پوچھا ۔اور خود ہی جواب دیا۔’’ وہ مدینہ اور اردگرد کے یہودیوں اور دوسرے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف ابھاریں گے ۔اسلام کے فروغ سے وہ لوگ خود خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ اگر محمد ﷺ  کا عقیدہ پھیلتا چلا گیا تو اور میدانِ جنگ میں محمد  ﷺ کے پیروکاروں کا جذبہ یہی رہا تو جو ہم دیکھ چکے ہیں تو خدائے یہودہ کا سورج غروب ہو جائے گا۔‘‘ ’’لیکن یہودی لڑنے والی قوم نہیں ۔‘‘خالد نے کہا ۔’’وہ میدانِ جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دی سکتی۔‘‘’’مسلمانوں کیلئے وہ میدانِ جنگ میں زیادہ مہلک ثابت ہوں گے۔‘‘ ایک اور سردار نے کہا۔’’ وہ اپنی یوحاوہ جیسی دل کش لڑکیوں کے ذریعے مسلمان سرداروں اور سالاروں کو میدانِ جنگ میں اترنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
یوحاوہ کا کردار خالد بھلا نہیں پا رہا تھا اور چار برس پرانی باتیں اسے سنائی دے رہی تھیں ۔وہ مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا اور احد کی پہاڑی اوپر اٹھتی چلی آ رہی تھی ۔پھر یہ پہاڑی اس کی نظروں سے اوجھل ہونے لگی۔اس کا گھوڑا گھاٹی اتر رہا تھا۔ یہ کوئی ایک میل لمبا اور ڈیڑھ دو فرلانگ چوڑا نشیب تھا۔ اس میں کہیں کہیں مخروطی ٹیلے کھڑے تھے۔ یہ ریتیلی مٹی کے تھے ۔خالد کو دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے چونک کراُدھر دیکھا اور اس کاہاتھ تلوار کے دستے پر چلا گیا ۔وہ چار پانچ غزال تھے جو اس سے نیچے دوڑتے جا رہے تھے ۔کچھ دور جا کرایک غزال نے دوسرے غزال کے پہلو میں ٹکرماری پھر دونوں غزال آمنے سامنے آ گئے اور ان کے سر ٹکرانے لگے ۔دوسرے غزال انہیں دیکھنے رک گئے۔’’اتنے خوبصورت جانور آپس میں لڑتے اچھے نہیں لگتے۔‘‘ خالدانہیں دیکھتا رہا ۔ایک تماشائی غزال نے خالد کے گھوڑے کو دیکھ لیا۔ا س نے گردن تانی اور کھر زمین پر مارا۔ لڑنے والے غزال جہاں تھے وہیں ساقط و جامد ہو گئے اور پھر تمام غزال ایک طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور خالدکی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔قریش کے سردار دو گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ان کی آپس میں دشمنی پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن پیار محبت اتحاد والی پہلی سی بات بھی نہیں رہی تھی۔خالد کو یاد آ رہا تھاکہ سب ابو سفیان کی سرداری اور سالاری کو تسلیم کرتے تھے۔ لیکن کھچاؤ سا پیدا ہو گیا تھا۔ جب اتحاد کی ضرورت تھی اس وقت اہلِ قریش نفاق کے راستے پر چل نکلے تھے۔ خالد کو یہ صورت حال سخت ناگوار گزرتی تھی۔’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپس کا نفاق دشمن کو تقویت دیا کرتا ہے؟‘‘خالد نے ایک روز ابو سفیان سے کہا تھا ۔’’کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس نفاق کو اتفاق میں کس طرح بدلہ جا سکتا ہے ؟‘‘’’بہت سوچا ہے خالد!‘‘ابو سفیان نے اکتائے ہوئے سے لہجے میں کہا تھا۔’’ بہت سوچا ہے۔ سب مجھے پہلے کی طرح ملتے ہیں لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ بعض کے دل صاف نہیں ۔کیا تم کوئی صورت پیدا کر سکتے ہو کہ دلوں سے مَیل نکالا جائے؟‘‘ ’’ہاں! میں نے ایک صورت سوچ رکھی ہے ‘‘۔خالد نے کہا تھا۔ ’’میں یہی تجویز آپ کے سامنے لا رہا تھا ،جن سرداروں کے دلوں میں میل پیدا ہوگئی ہے وہ اب سمجھنے لگے ہیں کہ ہم نام کے جنگجو رہ گئے ہیں اور ہم نے مسلمانوں کا ڈر اپنے دلوں میں بٹھا لیا ہے ۔شارجہ نے چھ مسلمانوں کو دھوکہ دے کر اور ان میں سے دو کو آپ کے ہاتھوں مروا کر ہماری شکل و صورت ہی بدل ڈالی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ ہم مدینہ پر حملہ کریں یا مسلمانوں کو کہیں للکاریں اور ثابت کر دیں کہ ہم جنگجو ہیں اور ہم مسلمانوں کو ختم کر کے ہی دم لیں گے۔
’’ہمارے پاس جواز موجود ہے۔ ‘‘ابو سفیان نے کہا تھا۔’’ میں نے اُحد کی لڑائی میں آخر میں محمد  ﷺ کو للکار کر کہا تھا کہ تم نے بدر میں ہمیں شکست دی تھی۔ ہم نے احد کی پہاڑی کے دامن میں انتقام لے لیا ہے ۔میں نے محمد سے یہ بھی کہا تھا کہ قریش کے سینوں میں انتقام کی آگ جلتی رہے گی ۔ہم اگلے سال تمہیں بدر کے مقام پر للکاریں گے۔‘‘’’ہاں! مجھے یاد ہے ۔‘‘خالد نے کہا۔’’ ادھر سے عمر کی آواز آئی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ ہمارے اﷲ نے چاہا تو ہماری اگلی ملاقات بدر کے میدان میں ہی ہو گی۔‘‘’’آواز تو عمر کی تھی،الفاظ محمد  ﷺ کے تھے۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’محمد ﷺ  بہت زخمی تھا۔ وہ اونچی آواز میں بول نہیں سکتا تھا۔ میں محمد ﷺ  کو پیغام بھیجتا ہوں کہ فلاں دن بدر کے میدان میں آجاؤ اور اپنے انجام کو پہنچو۔‘‘دونوں نے ایک دن مقرر کر لیا اور فیصلہ کیا کہ کسی یہودی کو مدینہ بھیجا جائے۔دوسرے ہی دن ابو سفیان نے قریش کے تمام سرداروں کو اپنے ہاں بلایا اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ اعلان کیا کہ وہ مسلمانوں کو بدر کے میدان میں للکار رہا ہے۔ قریش یہی خبر سننے کے منتظر تھے۔ انہیں اپنے عزیزوں کے خون کا انتقام لینا تھا۔ان کے دلوں میں رسول اﷲﷺ کی نفرت بارود کی طرح بھری ہوئی تھی۔جوا یک چنگاری کی منتظر تھی۔وہ کہتے تھے کہ محمد  ﷺ نے باپ بیٹے کو اور بھائی بھائی کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔ابو سفیان کے اس اعلان نے سب کے دل صاف کر دیئے اور وہ جنگی تیاریوں کی باتیں کرنے لگے۔ایک دانشمند یہودی کو پیغام دیا گیا کہ وہ مدینہ جا کر نبی کریمﷺ کو دے کر جواب لے آئے۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ وہ اس روز کس قدر مطمئن اور مسرور تھا۔ قریش کے سرداروں کے دلوں میں جو تکدر پیدا ہو گیا تھا وہ صاف ہو گیا تھا ۔خالد بڑ ہانکنے والا آدمی نہیں تھا لیکن اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ رسولِ خداﷺ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرے گا۔یہودی ایلچی جواب لے کر آ گیا۔رسول اﷲﷺ نے ابو سفیان کی للکار کو قبول کر لیا تھا۔لڑائی کا جو دن مقرر ہوا وہ مارچ ۶۲۶ء کا ایک دن تھا لیکن ہوا یوں کہ سردیوں کے موسم میں جتنی بارش ہوا کرتی تھی اس سے بہت کم ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ موسم تقریباً خشک گزر گیا اور مارچ کے مہینے میں گرمی اتنی زیادہ ہو گئی جتنی اس کے دو تین ماہ بعد ہوا کرتی تھی ۔ابو سفیان نے اس موسم کو لڑائی کیلئے موزوں نہ سمجھا۔اس یاد نے خالد کو شرمسار سا کر دیا۔وجہ یہ ہوئی تھی کہ ابو سفیان موسم کی گرمی کا بہانہ بنا رہا تھا۔ مشہور مؤرخ ابنِ سعد لکھتا ہے کہ ابو سفیان نے قریش کے سرداروں کو بلا کر کہا کہ وہ کوچ سے پہلے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا چاہتا ہے۔ اس نے یہودیوں کی خدمات حاصل کیں اور انہیں خاصی اجرت دے کر تاجروں کے بھیس میں مدینہ بھیج دیا۔انہیں ابو سفیان نے یہ کام سونپا تھا کہ وہ مدینہ میں یہ افواہ پھیلائیں کہ قریش اتنی زیادہ تعداد میں بدر کے میدان میں آ رہے ہیں جو مسلمانوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
اس مؤرخ کے مطابق ،مدینہ میں اس افواہ کو سچ مانا گیا اور مسلمانوں کے چہروں پر اس کے اثرات بھی دیکھے گئے۔جب رسولِ کریمﷺ تک یہ افواہ پہنچی اور یہ اطلاع بھی کہ بعض مسلمانوں پر خوف و ہراس کے اثرات دیکھے گئے ہیں تو رسولِ کریمﷺ نے باہر آ کر لوگوں کو جمع کیا اور اعلان کیا:’’کیا اﷲ کے نام لیوا صرف یہ سن کر ڈر گئے ہیں کہ قریش کی تعداد زیادہ ہو گی؟کیا اﷲسے ڈرنے والے آج بتوں کے پجاریوں سے ڈرگئے ہیں ؟اگر تم قریش سے اس قدر ڈر گئے ہو کہ ان کی للکار پر تم منہ موڑ گئے ہو تو مجھے قسم ہے خدائے ذوالجلال کی !جس نے مجھے رسالت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ میں بدر کے میدان میں اکیلا جاؤں گا۔‘‘رسولِ خداﷺ کچھ اور بھی کہنا چاہتے تھے لیکن رسالتِ مآبﷺ کے شیدائیوں نے نعروں سے آسمان کو ہلا ڈالا۔یہ سراغ نہ مل سکا کہ افواہ کس نے اڑائی تھی لیکن رسول اﷲ ﷺ کی پکار پر قریش کی پھیلائی ہوئی افواہ کے اثرات زائل ہو گئے اور مسلمان جنگی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ دن تھوڑے سے رہ گئے تھے۔ کوچ کے وقت مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی۔ ان میں صرف پچاس گھوڑ سوار تھے۔
جن یہودیوں کو افواہ پھیلانے کیلئے مدینہ بھیجا گیا تھا انہوں نے واپس آ کر بتایا کہ’’ افواہ نے پہلے پورا کام کیا تھا لیکن ایک روز محمد ﷺ  نے مسلمانوں کو اکھٹا کرکے چند ہی الفاظ کہے تو مسلمان بدر کو کوچ کیلئے تیار ہو گئے۔ان کی تعداد مدینہ میں ہماری موجودگی تک ڈیڑھ ہزار تک پہنچ گئی تھی ۔ہمارا خیال ہے کہ تعداد اس سے کم یا زیادہ نہیں ہو گی۔‘‘آج مدینہ کو جاتے ہوئے اس واقعہ کی یاد نے خالد کو اس لیے شرمسار کر دیا تھا کہ وہ اس وقت محسوس کرنے لگا تھا کہ ابو سفیان کسی نہ کسی وجہ سے مسلمانوں کے سامنے جانے سے ہچکچا رہا ہے۔ خالد کو جب مسلمانوں کی تعداد کا پتا چلا تو وہ بھڑکا بپھرا ہوا ابو سفیان کے پاس گیا ۔’’ابو سفیان !‘‘خالد نے اسے کہا۔’’ سردار کی اطاعت ہمارا فرض ہے ۔میں اہلِ قریش میں سردار کی حکم عدولی کی روایت قائم نہیں کر نا چاہتا لیکن مجھے قریش کی عظمت کا بھی خیال ہے۔آپ اپنے رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ قبیلہ قریش کی عظمت کا احساس مجھ میں اتنا زیادہ ہو جائے کہ میں آپ کے حکم اور رویہ کی طرف توجہ ہی نہ دوں۔ ‘‘’’کیا تم نے سنا نہیں تھا کہ میں نے یہودیوں کو مدینہ کیوں بھیجا تھا۔‘‘ ابو سفیان نے پوچھا۔’’ میں مسلمانوں کو ڈرانا چاہتا تھا۔‘’ابو سفیان! ‘‘ خالد نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے کہا۔’’ لڑنے والے ڈرا نہیں کرتے۔ کیا آپ نے مسلمانوں کو قلیل تعداد میں لڑتے ہوئے نہیں دیکھا؟ کیا آپ نے خبیب اور زید کو اہلِ قریش کی برچھیوں کے سامنے کھڑے ہو کر نعرے لگاتے نہیں سناتھا؟ میں آپ سے صرف یہ کہنے آیا ہوں کہ اپنی سرداری کا احترام کریں اور بدر کوچ کی تیاری کریں۔‘‘ دوسرے ہی دن مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ مسلمان مدینہ سے بدر کی طرف کوچ کر گئے ہیں ۔اب ابو سفیان کے کیلئے اس کے سوا اورکوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ کوچ کاحکم دے ۔قریش کی جوتعداد بدر کو کوچ کیلئے تیار ہوئی وہ دو ہزار تھی اور ایک سو گھڑ سوار اس کے علاوہ تھے۔قیادت ابو سفیان کی تھی اور اس کے ماتحت خالد ،عکرمہ اور صفوان نائب سالار تھے۔ حسبِ معمول ابو سفیان کی بیوی ہند اور اس کی چند ایک کنیزیں اور گانے بجانے والی عورتیں بھی ساتھ تھیں۔
💟 جاری ہے ۔ ۔ ۔ 💟

ایک تبصرہ شائع کریں

[blogger]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget