🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر: عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد* : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
تیسری قسط ۔۔۔۔
خالد کو اپنے لشکر کا کوچ یاد تھا۔ اسی رستے سے لشکر مدینہ کو گیا تھا۔ اس نے ایک بلند جگہ کھڑے ہو کر لشکر کو دیکھا تھا۔ اس کا سینہ فخر سے پھیل گیا تھا۔ اسے مدینہ کے مسلمانوں پر رحم آ گیا تھا لیکن اس رحم نے بھی اسے مسرت دی تھی۔ یہ خون کی دشمنی تھی ،یہ اس کے وقار کا مسئلہ تھا۔
مسلمانوں کو کچل ڈالنا اس کا عزم تھا۔جنگِ احد کے بہت دن بعد اسے پتاچلا تھا کہ جب مکہ میں قریش اپنا لشکر جمع کر رہے تھے تو اطلاع رسولِ کریمﷺ کو مل گئی تھی اور جب یہ لشکر مدینہ کے راستے میں تھا تو رسولِ خدا ﷺکو اس کی رفتار ،پڑاؤ اور مدینہ سے فاصلے کی اطلاعیں مسلسل ملتی رہی تھیں۔
آپﷺ کو لشکر کے مکہ سے کوچ کی اطلاع حضرت عباسؓ نے دی تھی۔قریش کے اس لشکر نے مدینہ سے کچھ میل دور کوہِ احد کے قریب ایک ایسی جگہ کیمپ کیا تھا جو ہری بھری تھی اور وہاں پانی بھی تھا ۔
خالد کو معلوم نہ تھا کہ مسلمانوں کے دو جاسوس اس لشکر کی پوری تعداد دیکھ آئے ہیں اور رسولِ کریمﷺ کوبتا چکے ہیں۔
21مارچ 625ءکے روز رسولِ کریمﷺ نے اپنی فوج کو کوچ کا حکم دیا اور شیخین نامی ایک پہاڑی کے دامن میں جا خیمہ زن ہوئے۔ آپﷺ کے ساتھ ایک ہزار پیادہ مجاہدین تھے جن میں ایک سَو نے سروں پر زِرہ پہن رکھی تھی۔ مجاہدین کے پاس صرف دو گھوڑے تھے جن میں سے ایک نبیﷺ کے پاس تھا ۔
اس موقع پر منافقین کے نفاق کا پہلا خطرناک مظاہرہ ہوا جو غداری کے مترادف تھا۔ مدینہ کے بعض ایسے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا جو دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ انہیں رسولﷺ نے منافقین کہا تھا۔
کسی کے متعلق یہ معلوم کرنا کہ وہ سچا مسلمان ہے یا منافق‘ بہت مشکل تھا ۔جب مجاہدین مدینہ سے شیخین کی پہاڑی کی طرف کوچ کرنے لگے تو ایک بااثر آدمی جس کا نام ”عبداﷲ بن ابی “تھا۔ رسول ﷺ کے ساتھ اس بحث میں الجھ گیا کہ قریش کا لشکر تین گنا ہے اس لیے مدینہ سے باہر جاکر لڑنا نقصان دہ ہو گا۔
آپﷺ نے مجاہدین کے دوسرے سرداروں سے رائے لی تو اکثریت نے یہ کہا کہ شہر سے باہر لڑنا زیادہ بہتر ہوگا۔ آپﷺ عبداﷲ بن ابی کے ہی ہم خیال تھے لیکن آپﷺ نے اکثریت کا فیصلہ ہی منظور فرمایا اور کوچ کا حکم دے دیا۔ عبداﷲ بن ابی نے شہر سے باہر جانے سے انکار کر دیا اس کے پیچھے ہٹنے کی دیر تھی کہ لشکر میں سے تین سو آدمی پیچھے ہٹ گئے۔ تب پتا چلا کہ یہ سب منافقین تھے اور عبداﷲ ان کا سردار ہے۔اب تین ہزار کے مقابلے میں مجاہدین کی نفری صرف سات سو رہ گئی۔رسول اﷲﷺ دلبرداشتہ نہ ہوئے اور سات سو ہی کو ساتھ لے کر کوہِ احد کے دامن میں شیخین کے مقام پر مجاہدین کو جنگی ترتیب میں کردیا۔
خالد نے ایک بلند ٹیکری پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کی ترتیب دیکھی تھی اور اس نے اپنے سالار ابو سفیان کو بتا کر اپنے دستے کی جگہ طے کرلی۔رسولِ اکرمﷺ نے مجاہدین کو کم و بیش ایک ہزار گز لمبائی میں پھیلا دیا۔ پیچھے وادی تھی ۔مجاہدین کے ایک پہلو کے ساتھ پہاڑی تھی لیکن دوسرے پہلو پر کچھ نہیں تھا۔ اس پہلو کو مضبوط رکھنے کیلئے رسول ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو قریب کی ایک ٹیکری پر بٹھا دیا ۔ان تیر اندازوں کے کمانڈر عبداﷲ بن جبیر تھے ۔
”اپنی ذمہ داری سمجھ لو عبداﷲ ۔“رسولِ خداﷺ نے اسے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ۔”اپنے عقب کو دیکھو، دشمن ہمارے عقب میں نقل و حرکت کر سکتا ہے جو ہمارے لیے خطرہ ہے ۔دشمن کے پاس گھڑ سوار زیادہ ہیں۔وہ ہمارے پہلو پر گھڑ سواروں سے حملہ کر سکتا ہے۔ اپنے تیرانداوں کو گھڑ سواروں پر مرکوز رکھو۔ پیادوں کا مجھے کوئی ڈر نہیں۔“ تقریباً تمام مستند مؤرخین جن میں ابن ہشام اور واقدی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ،لکھتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ نے عبداﷲ بن جبیر ؓکو واضح الفاظ میں کہا تھا” ہماراعقب صرف تمہاری بیداری اور مستعدی سے محفوظ رہے گا۔ تمہاری ذرا سی کوتاہی بھی ہمیں بڑی ذلت آمیز شکست دے سکتی ہے ۔یاد رکھو عبداﷲ! اگر تم دشمن کو بھاگتے ہوئے اور ہمیں فتح یاب ہوتے ہوئے دیکھ لو، تو بھی اس جگہ سے نہ ہلنا ۔اگر دیکھو کہ ہم پر دشمن کا دباؤ بڑھ گیا ہے اور تمہیں ہماری مدد کیلئے پہنچنا چاہیے تو بھی یہ جگہ نہ چھوڑنا۔ پہاڑی کی یہ بلندی دشمن کے قبضے میں نہیں جانی چاہیے ۔یہ بلندی تمہاری ہے ،وہاں سے تم نیچے اس تمام علاقے کے حکمران ہو گے جہاں تک تمہارے تیر اندازوں کے تیرپہنچیں گے۔“
خالد نے مسلمانوں کی ترتیب دیکھی اور ابو سفیان کو بتایا کہ مسلمان کھلے میدان کی لڑائی نہیں لڑیں گے ۔ابو سفیان کو اپنی کثیر نفری پر ناز تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ لڑائی کھلے میدان میں یعنی لا محدود محاذ پر ہو تاکہ وہ اپنے پیادوں اور گھوڑوں کی افراط سے مجاہدینِ اسلام کو کچل ڈالے۔ خالد کو اپنے باپ نے جنگی چالوں کی تربیت بچپن سے دینی شروع کر دی تھی۔ دشمن پر بے خبری میں پہلو یا عقب سے جھپٹنا اور دشمن کو چکر دے دے کر مارنا اپنے دستوں کی تقسیم اور ان پر کنٹرول اس کی تربیت میں شامل تھا۔ جو اسے باپ نے دی تھی ۔اس نے تجربے کار سردار کی نگاہوں سے مجاہدین کی ترتیب دیکھی تو اس نے محسوس کیا کہ مسلمان فن و حرب کے کمالات دِکھا سکتے ہیں۔
ابو سفیان اپنی فوج کو مسلمانوں کے بالمقابل لے گیا۔ اس نے گھڑ سواروں کو مسلمانوں کے پہلوؤں پر حملہ کر نے کیلئے بھیجا ۔ایک پہلو پر خالد اور دوسرے پر عکرمہ تھا۔ دونوں کے ساتھ ایک سو گھڑ سوار تھے ۔تمام گھڑ سواروں کا کمانڈر عمرو بن العاص تھا۔ پیادوں کے آگے ابو سفیان نے ایک سو تیر انداز رکھے ۔قریش کا پرچم طلحہ بن ابو طلحہ نے اٹھا رکھاتھا ۔اس زمانے کی جنگوں میں پرچم کو دل جیسی اہمیت حاصل تھی۔ پرچم کے گرنے سے فوج کا حوصلہ ٹوٹ جاتا اور بھگدڑ مچ جاتی تھی۔
قریش نے جنگ کی ابتداءاس طرح کی کہ ان کی صفوں سے ایک شخص ابو عامر فاسق آگے ہو کر مجاہدین کے قریب چلا گیا ۔اس کے پیچھے قریش کے غلاموں کی کچھ تعداد بھی تھی۔ ابو عامر مدینہ کا رہنے والا تھا۔ وہ قبیلہ اوس کا سردار تھا۔ جب رسولِ کریمﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ گئے تو ابو عامر نے قسم کھالی تھی کہ وہ آپ ﷺ کو اور تمام مسلمانوں کو مدینہ سے نکال کر دم لے گا۔ اس پر ایک بڑی ہی حسین یہودن کا اور یہودیوں کے مال و دولت کا طلسم طاری تھا۔ یہودیوں کی اسلام دشمن کارروائیاں زمین دوز ہوتی تھیں ۔بظاہر انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی اور فرمانبرداری کا معاہدہ کر رکھا تھا ۔ابو عامر انہی کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنا ہوا تھا۔ لیکن ان یہودیوں نے اسے قریش کا دوست بنا رکھا تھا۔
اب مجاہدین قریش کے خلاف لڑنے کیلئے مدینہ سے نکلے تو ابو عامر قریش کے پاس چلا گیا ۔اس کے قبیلہ اوس کے بہت سے آدمی رسولِ کریمﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کر چکے تھے اور وہ قریش کے مقابلے میں صف آراءتھے ۔ابو عامر آگے چلا گیا اور مجاہدین سے بلند آواز سے مخاطب ہوا ۔رسولِ کریمﷺ نے اسے فاسق کا خطاب دیا تھا۔ ”قبیلہ اوس کے غیرت مند بہادرو !“ابو عامر فاسق نے کہا۔” تم مجھے یقیناً پہچانتے ہو ۔میں کون ہوں ؟میری بات غور سے سن لو“ وہ اپنی للکار پوری نہ کر پایا تھا کہ مجاہدینِ اسلام کی صف سے قبیلہ اوس کے ایک مجاہد کی آواز گرجی ۔”او فاسق بدکار! ہم تیرے نام پر تھوک چکے ہیں ۔“
خالد کو وہ وقت یاد آ رہا تھا۔ مجاہدینِ اسلام کی صف سے ابو عامر اور اس کے ساتھ گئے ہوئے غلاموں پر پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ پتھر برسانے والے قبیلہ اوس کے مجاہدین تھے۔ابو عامر اور غلام جو مجاہدین کے پتھروں کی زد میں تھے ایک ایک دو دو پتھر کھا کر پیچھے بھاگ آئے ۔
یہودی مدینہ میں بیٹھے لڑائی کی خبروں کا انتظار کر رہے تھے۔ جس یہودن کے طلسم میں ابو عامر گرفتار تھا وہ اپنی کامیابی کی خبر سننے کیلئے بے تاب تھی ۔اسے ابھی معلوم نہ تھا کہ اس کے حسن و جوانی کے طلسم کو مسلمانوں نے سنگسار کر دیا ہے۔ (اس سلسلے کی آنے والی اقساط میں یہودیوں اور قریش کی عورتوں کی زمین دوزکارروائیوں کی تفصیلی داستان سنائی جائے گی)۔
ابو عامر فاسق کے اس واقعہ سے پہلے وہ عورتیں جو قریش کے لشکر کے ساتھ گئی تھیں لشکر کے درمیان کھڑی ہو کر سریلی آوازوں میں ایسے گیت گا رہی تھیں جن میں بدر میں مارے جانے والے قریش کا ذکر ایسے الفاظ میں ایسی طرز میں کیا گیا تھا کہ سننے والوں کا خون کھولتا اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے ۔ان عورتوں میں سے ایک دو نے جوشیلی تقریر کی صورت میں بھی قریش کے خون کو گرمایا تھا۔عورتوں کو پیچھے چلے جانے کاحکم ملا تو ابو سفیان کی بیوی ہند نے ایک گھوڑے پر سوار ہو کر ایک گیت گانا شروع کر دیا۔ اس کی آوا ز بلندتھی اور اس میں سوز بھی تھا ۔تاریخ لکھنے والوں نے اس گیت کے پورے اشعار قلم بند نہیں کیے ۔انہوں نے لکھا ہے کہ یہ گیت فحش تھا جس میں مردوعورت کے درپردہ تعلقات کا ذکر تھا۔ اشعار جو تاریخ میں آئے ہیں وہ اس طرح ہیں ۔ان میں جس عبدالدار کا نام آتا ہے ،یہ بنو عبدالدار ہے۔ بنو امیہ اسی کی ایک شاخ تھی بنو عبدالدار قریش کا بہت اونچا خاندان تھا۔
عبدالدار کے سپوتو!۔۔۔ہمارے گھرانو کے پاسبانو!۔۔۔۔ہم رات کی بیٹیاں ہیں۔۔۔ہم تکیوں کے درمیان حرکات کرتے ہیں ۔۔۔اس حرکت میں لطف اور لذت ہوتی ہے ۔۔۔تم دشمن پر چڑھ دوڑے تو ہم تمہیں اپنے سینوں سے لگالیں گی۔۔۔تم بھاگ آئے تو ہم تمہارے قریب نہیں آئیں گی ۔۔۔
اس کے بعد ابو عامر فاسق پر مجاہدینِ اسلام کی طرف سے سنگ باری ہوئی اور اس کے فوراً بعد قریش نے مجاہدین پر تیر پھینکنے شروع کر دیئے ۔مجاہدین نے اس کے جواب میں تیر برسائے ۔خالد اپنے پہلو والے مسلمانوں کے پہلو پر حملہ کرنے کیلئے اپنے ایک سو سواروں کے ساتھ تیزی سے بڑھا اسے معلوم نہ تھا کہ بلندی پر تیر انداز چھپے بیٹھے ہیں ۔اس کے سوار بے دھڑک چلے آ رہے تھے۔ راستہ ذرا تنگ تھا ۔سواروں کو آگے پیچھے ہونا پڑا۔
خالد سوچ سمجھ کر اپنے سوار دستے کو اس پہلو پر لایا تھا۔ اپنے باپ کی تربیت کے مطابق اسے بڑی خود اعتمادی سے توقع تھی کہ وہ ہلہ بول کر مسلمانوں کو اس پوزیشن میں لے آئے گا کہ وہ پسپا ہو جائیں گے اور اگر جم کر نہ لڑے تو قریش کے گھوڑوں تلے کچلے جائیں گے ۔مگر مسلمانوں کے پہلو سے اس کے سوار ابھی دور ہی تھے کہ اوپر سے تیر اندازوں نے اس کے اگلے سواروں کو نا آگے جانے کے قابل چھوڑا نہ وہ پیچھے ہٹنے کے قابل رہے ۔ایک ایک سوار کئی کئی تیر کھا کر گرا اور جن گھوڑوں کو تیر لگے انہوں نے خالد کے سوار دستے کیلئے قیامت بپا کردی۔ پیچھے والے سواروں نے گھوڑے موڑے اور پسپا ہو گئے۔
ادھر قریش کی عورتوں نے دف اور ڈھولک کی تھاپ پر وہی گیت گانا شروع کر دیا جو ہند نے اکیلے گایا تھا۔” عبدالدا ر کے سپوتو! ہم رات کی بیٹیاں ہیں ہم تم تکیوں کے درمیان “، مؤرخ واقدی لکھتا ہے کہ عربی جنگجوؤں کے اس وقت رواج کے مطابق ایک ایک جنگجو کے لڑنے کا مرحلہ آیا۔ سب سے پہلے قریش کے پرچم بردار طلحہ بن ابو طلحہ نے آگے جا کر مجاہدین ِ اسلام کو للکارا کہ اس کے مقابلے کیلئے کسی کو آگے بھیجو ۔”آ میرے دین کے دشمن !“حضرت علیؓ نے تند ہوا کے جھونکے کی طرح آگے آ کر کہا۔” میں آتا ہوں تیرے مقابلے کیلئے ۔“، طلحہ اپنے قبیلے کا پرچم تھامے تلوار لہراتے ہوئے بپھرا ہوا آیا مگر ا س کا وار ہوا کو چیرتا ہوا گزر گیا ۔وہ ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ حضرت علیؓ کی تلوار نے اسے ایسا گہرا زخم لگایا کہ پہلے اس کا پرچم گرا پھر وہ خود گرا ۔قریش کا ایک آدمی دوڑا آےا اور پرچم اٹھا کر پیچھے چلا گیا۔ علیؓ اسے بھی گرا سکتے تھے مگر انفرادی مقابلوں میں یہ روا ج نہ تھا۔
طلحہ کو اٹھا کر پیچھے لے آئے۔ اس کے خاندان کا ایک اور آدمی آگے بڑھا۔ میں انتقام لینے کا پابند ہوں ۔“وہ للکار کر آگے گیا۔” علی آ میری تلوار کی کاٹ دیکھ۔“ حضرت علیؓ خاموشی سے اس کے مقابلے پر آگئے ۔دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک چکر کاٹا۔ پھر ان کی تلواریں اور ڈھالیں ٹکرائیں اور اس کے بعد سب نے دیکھا کہ حضرت علیؓ کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے اور ان کا مد مقابل زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔
پھر قریش کے متعدد آدمی باری باری للکارتے ہوئے آگے بڑھے۔ مجاہدین کے مقابلے میں مرتے گئے۔ قریش کا سالارِ اعلیٰ ابو سفیان اپنے آدمیوں کو گرتا دیکھ کر غصے سے بے قابو ہو گیا۔ جنگی دستور کے مطابق اسے انفرادی مقابلے کیلئے نہیں اترنا چاہیے تھا کیونکہ وہ سالار تھا۔ اس کے مارے جانے سے اس کی فوج میں ابتری پھیل سکتی تھی لیکن وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا وہ گھوڑے پر سوار تھا۔ اس نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور للکارتا ہوا آگے چلا گیا۔ اس کی بیوی ہند نے اسے جاتے دیکھا تو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آگے چلی گئی اور بڑی بلند آواز سے وہی گیت گانے لگی ۔جس کے اشعار یہ بھی تھے کہ تم بھاگے آئے تو ہم تمہیں اپنے قریب نہیں آنے دیں گی۔“ابو سفیان گھوڑے پر سوار تھا لیکن اس کے مقابلے کیلئے جو مسلمان آگے آیا وہ پیادہ تھا۔ تاریخ اسے ”حنظلہ بن ابو عامرؓ“ کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ابو سفیان کے ہاتھ میں لمبی برچھی تھی۔ کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ تلوار والا ،پیادہ برچھی والے گھڑسوار سے زندہ بچ جائے گا۔ ابو سفیان کا گھوڑا حنظلہؓ پر سر پٹ دوڑا آیا ۔ابو سفیان نے برچھی تول کر پھر تاک کر ماری لیکن حنظلہؓ پھرتی سے ایک طرف ہو گیا ۔اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ تیسری مرتبہ ابو سفیان کا گھوڑا نکل گیا تو حنظلہؓ اس کے پیچھے دوڑ پڑا ۔گھوڑا رک کر پیچھے کو مڑا تو حنظلہؓ اس تک پہنچ چکا تھا ۔ابو سفیان اسے دیکھ نہ سکا ۔حنظلہؓ نے گھوڑے کی اگلی ٹانگوں پر ایسا زور دار وار کیا کہ گھوڑا گر پڑا ۔ابو سفیان دوسری طرف گرا ۔حنظلہؓ اس پر حملہ کرنے کو آگے بڑھا تو ابو سفیان گرے ہوئے گھوڑے کے اردگرد دوڑ دوڑ کر اپنے آپ کو بچانے لگا اور اس کے ساتھ ہی اس نے قریش کو مدد کیلئے پکارا۔ قریش کا ایک پیادہ دوڑا آیا۔ مسلمان اس غلط فہمی میں رہے کہ یہ آدمی ابو سفیان کو اپنے ساتھ لے جائے گا لیکن اس نے بے اصولی کا مظاہرہ کیا۔ پیچھے سے حنظلہ ؓپر وار کر کے اسے شہید کر دیا ۔ابو سفیان اپنی صفوں میں بھاگ گیا۔
آخری مقابلے کیلئے قریش کی طرف سے عبدالرحمٰن بن ابو بکر آیا۔ مؤرخ واقدی نے یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہےکہ عبدالرحمٰن بن ابو بکر کی للکار پر اس کے والد حضرت ابو بکر صدیقؓ جو اسلام قبول کرکے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ تھے۔ تلوار نکال کر اپنے جوان بیٹے کے مقابلے کیلئے نکلے۔
” آ گے آ مسلمان باپ کے کافر فرزند! “حضرت ابو بکر صدیقؓ نے للکار کر کہا۔رسولِ کریمﷺ نے دیکھاکہ باپ بیٹا مقابلے پر اتر آئے ہیں تو آپﷺ نے دوڑ کر حضرت ابو بکر صدیقؓ کو روک لیا ۔”تلوار نیام میں ڈالو ابو بکر “۔رسولِ کریمﷺ نے فرمایااور ابو بکر صدیقؓ کو پیچھے لے گئے۔
خالد کو جنگ کا شوروغل اب بھی سنائی دے رہاتھا۔ وہ منظر اس کی آنکھوں نے اپنی پلکوں میں محفوظ کر رکھا تھا ۔انفرادی مقابلے ختم ہوتے ہی قریش نے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا۔ رسولِ اکرمﷺ نے احد کی پہاڑی کو اپنے عقب میں رکھا ہوا تھا۔ اس لیے مجاہدینِ اسلام کو عقبی حملے کا خطرہ نہیں تھا ۔آمنے سامنے کا معرکہ خونریز تھا۔ مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی تھی۔ اس کمی کو انہوں نے جذبہ تیغ زنی کے کمالات سے پورا کر دیا۔ اگرقریش کو نفری کی افراط حاصل نہ ہوتی تو وہ مسلمانوں کے آگے نہیں ٹھہر سکتے تھے ۔وہ نفری کے زور پر لڑ رہے تھے ۔خالد کی نظر رسولِ کریمﷺ پر تھی۔ آپﷺ ایک پہلو پر تھے ۔ یہی پہلو تھا کہ جس پر خالد کو حملہ کرنا تھا۔اب کے اس نے اپنے سواروں کو یہ حکم دیا کہ وہ گھوڑوں کو سر پٹ دوڑاتے تنگ راستے سے آگے نکل جائیں اور مسلمانوں کے پہلو پر ہلہ بولیں مگر عبداﷲ بن جبیرؓ کے پچاس تیر اندازوں نے سواروں کو اس طرح پسپا کر دیا کہ وہ چند گھوڑے اور زخموں سے کراہتے ہوئے گھڑ سواروں کو پیچھے چھوڑ گئے۔
معرکہ عروج پر تھا۔ صرف ایک آدمی تھا جو لڑ نہیں رہا تھا۔ وہ میدان ِ جنگ میں برچھی اٹھائے یوں گھوم پھر رہا تھا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہا ہو۔ وہ وحشی بن حرب تھا۔ وہ حمزہ ؓکو ڈھونڈ رہاتھا ۔حمزہ ؓکو قتل کرنے کے اس کیلئے دو انعام تھے۔ ایک یہ کہ اس کا آقا اسے آزاد کر دے گا اور دوسرا ابو سفیان کی بیوی ہند کے وہ زیورات جو اس نے پہن رکھے تھے ۔اسے حمزہؓ نظر آ گئے وہ قریش کے ایک آدمی سبا بن عبدالعزیٰ کی طرف بڑھ رہے تھے۔
عرب میں رواج تھا کہ ختنہ عورتیں کیا کرتی تھیں ۔مؤرخ ابن ہشام کے مطابق ا سلام سے پہلے ہی عربوں میں ختنہ کا رواج موجود تھا۔ حمزہؓ نے جس سبا کو للکارا تھا اس کی ماں ختنہ کیاکرتی تھی ۔”ختنہ کرنے والی کے بیٹے “حمزہ ؓنے اسے للکارا۔”ا دھر آ اور مجھے آخری بار دیکھ لے۔“ سبا بن عبدالعزیٰ حمزہؓ کی طرف بڑھا ۔غصہ سے اس کا چہرہ لال تھا ۔وہ تلوار اور ڈھال کی لڑائی کا ماہر تھا ۔حمزہؓ بھی کچھ کم نہ تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے اور ایک دوسرے پر وار کرنے لگے۔دونوں کی ڈھالیں وار روک رہی تھیں ۔وہ پینترے بدل بدل کر وار کرتے تھے ۔لیکن ڈھالیں تلواروں کے رستے میں آجاتی تھیں۔
اس وقت وحشی بن حرب جھکا ہوا ہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسے زمین اور جھاڑیوں نے اوٹ دے رکھی تھی۔ حمزہ ؓاپنے دشمن کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ سبا کے سوا انہیں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔وحشی ان کے قریب پہنچ گیا۔ برچھی نشانے پر پھینکنے کا وہ ماہر تھا۔ وہ اتنا قریب ہو گیا جہاں سے اس کی برچھی خطا نہیں جا سکتی تھی ۔وہ اٹھ کھڑا ہوا اور برچھی کو ہاتھ میں تولا پھر اسے پھینکنے کی پوزیشن میں لایا۔ حمزہؓ نے سبا پر یکے بعددیگرے تزی سے دو تین وار کیے ۔آخری وار ایسا پڑا کہ حمزہ ؓکی تلوار سبا کے پیٹ میں اتر گئی۔ حمزہؓ نے تلوار اس کے پیٹ سے اس طرح نکالی کہ اس کا پیٹ اور زیادہ پھٹ گیااور وہ حمزہؓ کے قدموں میں گر پڑا۔ حمزہؓ ابھی سنبھلے ہی تھے کہ وحشی نے ان پر پوری طاقت سے برچھی پھینکی۔ فاصلہ بہت کم تھا ۔برچھی حمزہ ؓکے پیٹ میں اتنی زیادہ اتر گئی کہ اس کی انی حمزہؓ کی پیٹھ سے آگے نکل گئی ۔حمزہؓ گرے نہیں ۔انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا انہیں وحشی دِکھائی دیا۔ حمزہ ؓبرچھی اپنے جسم میں لیے ہوئے وحشی کی طرف بڑھے۔ وحشی جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہا۔ حمزہؓ چار پانچ قدم چل کر گر پڑے۔ وحشی ان کے جسم کو ہلتا جلتا دیکھتا رہا ۔جب جسم کی حرکت بند ہو گئی تو وحشی ان تک آیا ۔وہ شہید ہو چکے تھے۔ وحشی نے ان کے جسم سے برچھی نکال لی اور چلا گیا ۔اب وہ ہند اور اپنے آقا جبیر بن مطعم کو ڈھونڈنے لگا۔
خالد کو وہ معرکہ یاد آ رہا تھا اور اس کے دل پر بوجھ سا بڑھتا جا رہا تھا۔اس کا گھوڑا چلا جا رہا تھا۔ وہ نشیبی جگہ سے گزر رہا تھا اس لیے احد کی پہاڑی کی چوٹی اس کی نظروں سے اوجھل ہو گی تھی ۔اسے اپنے قبیلے کی عورتیں یاد آئیں جو قریش اور ان کے اتحادی قبائل کو جوش دِلا رہی تھیں ۔خالد کویاد آیا کہ وہ معرکہ کا نظارہ کرنے کیلئے ایک بلند جگہ چڑھ گیا تھا۔ اسے مسلمان عورتیں نظر آئیں۔ مسلمان اپنے جن زخمیوں کو پیچھے لاتے تھے انہیں عورتیں سنبھال لیتی تھیں ان کی مرہم پٹی کرتیں اور انہیں پانی پلاتیں ۔مسلمانوں کے ساتھ چودہ عورتیں تھیں جن میں حضرت فاطمہ ؓ بھی تھیں۔پھر یوں ہوا کہ قلیل تعداد مجاہدین ،کثیر تعداد کفار پر غالب آ گئے۔ قریش کا پرچم بردار گرا تو کسی اور نے پرچم اٹھا لیا ،وہ بھی گرا ۔پرچم کئی بار گرا۔ آخر میں ایک غلام نے پرچم اٹھا کر اونچا کیا لیکن وہ بھی مارا گےا۔ پھر مسلمانوں نے قریش کو پرچم اٹھانے کی مہلت نہ دی۔ قریش کے جذبے جواب دے گئے۔
خالد نے ان کی پسپائی دیکھی اور یہ بھی دیکھا تھا کہ مسلمان ان کا تعاقب کر رہے ہیں۔ قریش اپنے کیمپ میں بھی نہ ٹھہرے۔ اپنا مال و اسباب چھوڑ کر افراتفری کے عالم میں بھاگ گئے ۔یہاں سے جنگ کے بعد کا مرحلہ شروع ہو گیا۔ مسلمانوں نے فتح کی خوشی میں اور انتقامی جذبے کے تحت قریش کے کیمپ کو لوٹنا شروع کر دیا۔ وہ فتح و نصرت کے نعرے لگا رہے تھے۔ قریش ایسے بوکھلا کہ بھاگے کہ انہیں اپنی عورتوں کا بھی خیال نہ رہا۔ وہ پیدل بھاگی جا رہی تھیں۔ لیکن مسلمانوں نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کہ بھی نہ دیکھا ۔قریش کے گھڑ سواروں کے ایک دستے کا کمانڈر عکرمہ اور دوسرے کا خالد تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے پہلوؤں پر حملہ کرنا تھا مگر جنگ کا پانسا بری طرح پلٹ گیا تھا۔ عکرمہ اور خالد نے پھر بھی اپنے اپنے سواروں کو وہیں رکھا جہاں انہیں تیاری کی حالت میں کھڑا کیا گیا تھا۔ خالد کو اس کیفیت میں بھی توقع تھی کہ وہ شکست کو فتح میں بدل دے گا لیکن جس راستے سے اسے گزرنا تھا وہاں مسلمان تیر انداز تیار کھڑے تھے ۔ان مسلمان تیر اندازوں نے اپنی بلند پوزیشن سے دیکھا کہ قریش بھاگ گئے ہیں اور ان کے ساتھی مال غنیمت جمع کر رہے ہیں تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑنے لگے ۔ان کے کمانڈر عبداﷲ بن جبیر ؓنے انہیں کہا کہ” اپنے رسول ﷺ کی حکم عدولی نہ کرو۔ آپﷺ کا حکم ہے کہ آپﷺ کی اجازت کے بغیر یہاں سے کوئی نہ ہٹے ۔“”جنگ ختم ہو گئی ہے ۔“تیر انداز شور مچاتے ہوئے پہاڑی سے اتر نے لگے ۔”مالِ غنیمت مالِ غنیمت فتح ہماری ہے۔“ عبداﷲ بن جبیر ؓکے ساتھ صرف نو تیر انداز رہ گئے تھے۔
خالد نے یہ منظر دیکھا تو اسے ایسا لگا جیسے خواب دیکھ رہا ہو۔ وہ یہی چاہتا تھا ۔وہ تیر اندازوں کو دیکھتا رہا۔ جب وہ قریش کے کیمپ میں پہنچ گئے تو اس نے اس پہاڑی عینین پر حملہ کر دیا جہاں پر عبداﷲ بن جبیرؓ اور ان کے نو تیر انداز رہ گئے تھے۔ خالد انہیں نظر انداز بھی کر سکتا تھا لیکن ان سے وہ انتقام لینا چاہتا تھا۔ اس کے گھڑ سوار پہاڑی پر چڑھتے جا رہے تھے۔ اوپر سے تیر انداز تیزی سے تیر برسا رہے تھے۔عکرمہ نے خالد کو عینین پر حملہ کرتے دیکھا تو وہ بھی اپنے سوار دستے کو وہیں لے گیا اور ا سکے گھوڑے ہر طرف سے اوپر چڑھنے لگے ۔ سواروں کے پاس بھی تیر کمانیں تھیں۔ وہ اوپر کو تیر چلا رہے تھے۔ لیکن اتنے گھڑ سواروں کو روکنا اوپر والوں کیلئے ممکن نہ تھا۔ سوار اوپر چلے گئے ۔تیر انداز دست بہ دست لڑائی بھی لڑے اور سب زخمی ہو کر گرے۔ خالد نے زخمیوں کو پہاڑی سے نیچے پھینک دیا۔ عبداﷲ بن جبیر ؓبھی شہید ہو گئے ۔وہاں سے خالد اور عکرمہ نے اپنے گھڑ سواروں کو اتارا اور ا س مقام پر آگئے جہاں سے مسلمانوں نے لڑائی کی ابتداءکی تھی۔ خالد کے حکم پر دونوں نے مل کر مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ مسلمان لڑنے کی حالت میں نہیں تھے لیکن رسولِ کریمﷺ نے مجاہدین کی کچھ تعداد کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا ۔یہ مجاہدین گھڑ سواروں کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔
قریش کے ساتھ جو عورتیں آئی تھیں وہ بھاگ گئی تھیں لیکن عمرہ نام کی ایک عورت وہیں کہیں چھپ گئی تھی ۔اس نے جب قریش کے گھڑ سواروں کو مسلمانوں پر حملہ کرتے دیکھا تو اسے قریش کا پرچم زمین پر پڑا نظر آ گیا ۔اس عورت نے پرچم اٹھا کر اوپر کر دیا۔ ابو سفیان نے اپنے بھاگتے ہوئے پیادوں پر قابو پا لیا تھا۔ اس نے ادھر دیکھا تو اسے اپنا پرچم لہراتا ہوا نظر آ گیا۔ اس نے ہبل زندہ باد اور عزیٰ زندہ باد کے نعرے لگائے اور پیادوں کو واپس لاکر مسلمانوں کو گھیرے میں لے لیا۔
خالد کو وہ وقت یاد آ رہا تھا۔ وہ رسولِ کریمﷺ کو ڈھونڈ رہا تھا اور آج چار برس بعد وہ مدینہ جا رہا تھا۔ اس کے ذہن پر رسولِ کریمﷺ کا غلبہ تھا ۔
اُحد کی پہاڑی افق سے ابھرتی آ رہی تھی اور خالد کا گھوڑا خراماں خراماں چلا جا رہا تھا۔ خالد کی ذہنی کیفیت کچھ ایسی ہوتی جا رہی تھی جیسے اسے آگے جانے کی کوئی جلدی نہ ہو اور کبھی وہ لگام کو یوں جھٹکا دیتا جیسے اسے بہت جلدی پہنچنا ہو،لیکن جس منزل کو وہ جا رہا تھا وہ منزل ابھی اس پر پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی۔ کبھی اسے یوں لگتا جیسے ایک مقناطیسی قوت ہے جو اسے آگے ہی آگے کھینچ رہی ہے اور کبھی وہ محسوس کرتا جیسے اس کے اندر سے اٹھتی ہوئی ایک قوت اسے پیچھے دھکیل رہی ہے۔”خالد!“ اسے ایک آواز سنائی دی ۔جو اس کے اندر سے اٹھتی تھی لیکن اسے حقیقی سمجھ کر اس نے گھوڑے کی باگ کھینچی اور آگے پیچھے دیکھا وہاں ریت کے سوا کچھ بھی نہ تھا لیکن آواز آ رہی تھی ۔”خالد کیا یہ سچ ہے جو میں نے سنا ہے؟“خالد نے اس آواز کو پہچان لیا ۔یہ اس کے ساتھی عکرمہ کی آواز تھی۔
💟 جاری ہے ۔ ۔ ۔ 💟