🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر: عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد* : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
دوسری قسط ۔ ۔ ۔ ۔
“رسولِ اکرمﷺ کا تصور خالد کے ذہن میں نکھر آیا ۔وہ آپﷺ کو اچھی طرح سے جانتا تھا لیکن اب وہ محسوس کر رہاتھا جیسے وہ محمدﷺ کوئی اور تھے جنہیں وہ بچپن سے جانتا تھا۔ا س کے بعد آپ ﷺنے جو رخ اختیار کیا تھاا س میں خالد آپ ﷺکو نہیں پہچانتا تھا ۔
نبوت کے دعویٰ کے بعد خالد کی آپﷺ کے ساتھ بول چال بند ہو گئی تھی۔ وہ آپ ﷺکے ساتھ دو دو ہاتھ کرنا چاہتا تھا ۔لیکن وہ رکانہ کی طرح پہلوان نہیں تھا۔
وہ میدانِ جنگ میں لڑنے والا اور لڑنے والوں کی قیادت کرنے والا جنگجو تھا لیکن اس وقت مسلمان فوج کی صورت میں لڑنے کے قابل نہیں تھے۔
جب مسلمان فوج کی صورت میں لڑنے کے قابل ہوئے اور قریش کے ساتھ ان کا پہلا معرکہ ہوا ۔اس وقت خالد کیلئے ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ وہ اس معرکے میں شامل نہیں ہو سکا تھا ۔ا سکا اسے بہت افسوس تھا ۔
یہ معرکہ بدر کا تھا جس میں تین سو تیرہ مجاہدینِ اسلام نے ایک ہزار قریش کو شکست دی تھی۔خالد دانت پیستا رہ گیا تھا لیکن اس روز جب وہ اس نخلستان میں لیٹا ہوا تھا اسے خیال آیا کہ تین سو تیرہ نے ایک ہزار کو کس طرح سے شکست دے دی تھی؟ اس نے شکست کھاکہ آنے والوں سے پوچھا تھا کہ مسلمانوں میں وہ کون سی خوبی تھی جس نے انہیں فتحیاب کیا تھا؟
خالد اٹھ بیٹھا اور انگلی سے ریت پر بدر کے میدان کے خدوخال بنا کر قریش اور مسلمانوں کی پوزیشنیں اور معرکے کے دوران دونوں کی چالوں کی لکیریں بنانے لگا۔ باپ نے اسے فنِ حرب و ضرب کا ماہر بنادیا تھا۔ بچپن میں اسے گھڑ سواری سکھائی،لڑکپن میں اسے اکھڑ اور منہ زور گھوڑوں کو قابو میں لانے کے قابل بنایا۔ نوجوانی میں وہ شہسوار بن چکا تھا ،شتر سواری میں بھی وہ ماہر تھا۔ اس کا باپ ہی اس کا استاد تھا ۔اس نے خالد کو نا صرف سپاہی، بلکہ سالار بنایا تھا۔ خالد کو جنگ و جدل اتنی اچھی لگی کہ وہ لڑنے اور لڑانے کے طریقوں پر غورکرنے لگااور جوانی میں فوج کی قیادت کے قابل ہو گیا تھا۔
اسے بدر کی لڑائی میں شامل نہ ہو سکنے کا افسوس تھا اور وہ انتقام کے طریقے سوچتا رہتا تھا لیکن اب اس کی سوچوں کا دھارا اور طرف چل پڑا تھا ۔
مکہ سے روانگی سے کچھ عرصہ پہلے سے وہ اس سوچ میں کھو گیا تھا کہ رسولِ اکرمﷺ نے رکانہ پہلوان کو تین بار پٹخاتھا ۔بدر میں آپ ﷺنے محض تین سو تیرہ مجاہدین سے ایک ہزار کو شکست دی۔
یہ کوئی اور ہی قوت تھی لیکن بدر کے معرکے کے بعد اس کے دل میں مسلمانوںکے خلاف انتقام کی آگ سلگ رہی تھی۔مسلمان معرکہ بدر میں قریش کے بہت سے آدمیوں کو قیدی بنا کر لے گئے تھے ۔قریش کے سرداروں کیلئے تو یہ صدمہ تھا ہی ،اس کا بہت برا اثر خالد نے قبول کیا تھا ۔
اسے یاد تھا کہ جب بدر کا معرکہ لڑا جا رہا تھا اور مکہ میں کوئی خبر نہیں پہنچ رہی تھی کہ معرکہ کا انجام کیا ہوا، مکہ کے لوگ بدر کی سمت دیکھتے رہتے تھے کہ ادھر سے کوئی سوار دوڑا آئے گا اور فتح کی خبر سنائے گا۔آخر ایک روز ایک شتر سوار آتا نظر آیا۔ لوگ اسکی طرف دوڑ پڑے ۔سوار نے عرب کے رواج کے مطابق اپنا کرتا پھاڑ دیا تھا اور وہ روتا آ رہا تھا۔ بری خبر لانے والے قاصد ایسے ہی کیا کرتے تھے ۔
وہ جب لوگوں کے درمیان پہنچا تو اس نے روتے ہوئے بتایا کہ اہلِ قریش کو بہت بری شکست ہوئی ہے ۔جس کے عزیز رشتے دار لڑنے گئے تھے وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھ بڑھ کر ان کے متعلق پوچھتے تھے کہ وہ زندہ ہیں ،زخمی ہیں یا مارے گئے ہیں ؟شکست خوردہ قریش پیچھے آ رہے تھے۔ مارے جانے والوں میں سترہ افراد خالد کے قبیلے بنو مخزوم کے تھے اور ان سب کے ساتھ خالد کا خون کا بڑا قریبی رشتہ تھا۔
ابو جہل بھی مارا گیا تھا۔ خالد کا بھائی جس کا نام ولید تھا جنگی قیدی بن گیا تھا۔ابو سفیان جو کہ قریش کے سرداروں کا سردار تھا اور ا س کی بیوی ہند بھی موجود تھے ۔”کچھ میرے باپ اور میرے چچا کے متعلق بتا اے قاصد!“ ہند نے پوچھا۔”تمہاراباپ عتبہ ،علی اور حمزہ کے ہاتھوں مارا گیا ۔“قاصد نے کہا ۔”اور تمہارے چچا شیبہ کو اکیلے حمزہ نے قتل کیا ہے اورتمہارا بیٹا حنظلہ علی کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ “
ابو سفیان کی بیوی ہند نے پہلے تو علی اور حمزہ کو بلند آواز سے برا بھلا کہا پھر بولی۔” اﷲ کی قسم! میں اپنے باپ اور اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے خون کا بدلہ لوں گی۔“ابو سفیان پر خاموشی طاری تھی۔
خالد کا خون کھول رہا تھا۔ قریش کے ستر آدمی مارے گئے تھے اور جو جنگی قیدی ہوئے تھے ان کی تعداد بھی اتنی ہی تھی ۔
خالد اٹھا ۔دری جھاڑکر لپیٹی اور گھوڑے کی زِین کے ساتھ باندھ کر سوار ہوا اور مدینہ کی سمت چل پڑا۔اس نے ذہن کو یادوں سے خالی کر دینا چاہا لیکن اس کا ذہن مدینہ پہنچ جاتا جہاں رسول اﷲﷺ تھے اور جو تبلیغِ اسلام کا مرکز بن گیا تھا۔
آپﷺ کا خیال آتے ہی اس کا ذہن پیچھے چلا جاتا اور اسے وہ منظر دکھاتا جس کے خالق حضورﷺ تھے۔
اس کے ذہن میں ہند کے الفاظ یادآ ئے جو اس نے اپنے خاوند ابو سفیان سے کہے تھے: ”میں اپنے باپ اور چچا کو بھول سکتی ہوں۔“ ہند نے کہا تھا ۔”کیا میں اپنے لختِ جگر حنظلہ کو بھی بھول جاؤں؟ ماں اپنے بیٹے کو کیسے بھول سکتی ہے ؟
اﷲکی قسم !میں محمد کو اپنے بیٹے کا خون معاف نہیں کروں گی۔یہ لڑائی محمد نے کرائی ہے۔ میں حمزہ اور علی کو نہیں بخشوں گی ۔وہ میرے باپ، میرے چچا اور میرے بیٹے کے قاتل ہیں۔“”میرے خون کو صرف میرے بیٹے کا قتل گرمارہا ہے ۔
“ابو سفیان نے کہا تھا۔” مجھ پر اپنے بیٹے کے خون کا انتقام فرض ہو گیا ہے۔ میں سب سے پہلے یہ کام کروں گا کہ محمد کے خلاف زبردست فوج تیار کرکے اسے آئندہ لڑنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔
“ مشہور مؤرخ اور وقائع نگار واقدی لکھتا ہے کہ اگلے ہی روز ابو سفیان نے تمام سرداروں کو بلایا ۔ان میں زیادہ تعداد ان سرداروں کی تھی جو کسی نہ کسی وجہ سے جنگِ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور ا ن میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی عزیز اس جنگ میں مارا گیا تھا۔ سب انتقام کاارادہ لے کر اکھٹے ہوئے ۔
کیا مجھے زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت ہے ؟ابو سفیان نے کہا۔” میرا اپنا جوان بیٹا مارا گیا ہے۔ اگر میں انتقام نہیں لیتا تو مجھے جینے کا کوئی حق نہیں۔“سب ایک ہی بار بولنے لگے۔ وہ اس پر متفق تھے کہ مسلمانوں سے بدر کی شکست کا انتقام لیا جائے ۔
” لیکن آپ میں سے کوئی بھی اپنے گھر میں نہ بیٹھا رہے ۔ “خالد نے کہا۔” بدر میں ہم صرف اس لیے ذلت میں گھرے کہ سردار گھروں میں بیٹھے رہے اور ان لوگوں کو لڑنے بھیج دیا جو قریش کی عظمت کو نہیں سمجھتے تھے ۔“
” کیا میرے باپ کو بھی قریش کی عظمت کا خیال نہ تھا؟ “خالد کے چچا زاد بھائی عکرمہ، جو ابو جہل کا بیٹا تھا۔ برہم ہوتے ہوئے کہا ۔”کیا صفوان بن امیہ کے باپ کو بھی قریش کی عظمت کا خیال نہ تھا ؟ تم کہاں تھے الولید کے بیٹے؟“۔
”ہم یہاں ایک دوسرے سے لڑنے کیلئے اکھٹے نہیں ہوئے ۔“ابو سفیان نے کہا۔” خالد! تمہیں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی جس سے کوئی اپنی بے عزتی محسوس کرے۔“، ” ہم میں سے کوئی بھی عزت والا نہیں رہا۔ “خالد نے کہا ۔”ہم سب اس وقت تک بے عزت رہیں گے جب تک ہم محمد ﷺ اور اس کے چیلوں کو ہمیشہ کیلئے ختم نہیں کر دیتے۔
مجھے اپنے گھوڑے کے سموں کی قسم! میرے خون کی گرمی نے میری آنکھیں جلا دی ہیں۔ ان آنکھوں کو مسلمانوں کا خون ٹھنڈا کر سکتا ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ اب سردار آگے ہوں گے اور میں جانتا ہوں کہ میں میدانِ جنگ میں کہاں ہوں گا۔
لیکن جنگ میں ہمارا جو سردار ہو گا میں اس کے حکم کا پابند رہوں گا اور اگر میں سمجھوں گا کہ مجھے سردار نے ایسا حکم دیا ہے جو ہمیں نقصان دے گا تو میں ایسا حکم نہیں مانوں گا۔“
سب نے متفقہ طور پر ابو سفیان کو اپنا سردار مقرر کیا۔اس سے ایک روز پہلے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ فلسطین سے مکہ واپس آیا تھا ۔یہ تجارتی قافلہ تھا ۔مکہ کے باشندوں خصوصاً قریش کے ہر خاندان نے اس تجارت میں حصہ ڈالا تھا۔ اس قافلے میں کم و بیش ایک ہزار اونٹ تھے اور جو مال گیاتھا اس کی مالیت پچاس ہزار دینار تھی۔ قافلے کا سردار ابو سفیان تھا جس نے پچاس ہزار پر پچاس ہزار دینار منافع کمایا تھا۔قافلے سے واپسی کا راستہ مدینہ سے گزرتا تھا ۔
مسلمانوں کو پتا چل گیا ۔انہوں نے پورے قافلے کو گرفتار کرنے کا ارادہ کیا اور ایک مقام پر قافلہ کو گھیرے میں لے لیا لیکن وہ زمین ایسی تھی کہ ابو سفیان نے ایک ایک آدمی اور ایک ایک اونٹ کو زمین کے اونچے نیچے خدوخال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گھیرے سے نکال دیا تھا۔
خالد کا گھوڑا خراماں خراماں مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا مگر خالد کا ذہن پیچھے کو سفر کر رہا تھا ۔اسے اس وقت کا جب قریش انتقام کی اسکیم بنانے کیلئے اکھٹے ہوئے تھے ایک ایک لفظ جو کسی نے کہا تھا سنائی دے رہا تھا۔
”اگر تم نے مجھے اپنی سرداری دی ہے تو میرے ہر فیصلے کی پابندی تم پر لازم ہے ۔“ابو سفان نے کہا ۔ ” میرا پہلا فیصلہ یہ ہے کہ میں نے ابھی پچاس ہزار دینار منافع سب میں تقسیم نہیں کیا۔ وہ میں تقسیم نہیں کروں گا۔ یہ مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں استعمال ہو گا۔“
”مجھے اور میرے خاندان کو یہ فیصلہ منظور ہے ۔“سب سے پہلے خالد نے کہا۔پھر ”منظور ہے ،ایسا ہی کرو، منظور ہے “کی آوازیں اٹھیں۔
”میرا دوسراحکم یہ ہے۔“ ابو سفیان نے کہا کہ۔” جنگِ بدر میں ہمارے جو آدمی مارے گئے ہیں ان کے لواحقین آہ و زاری کر رہے ہیں ۔میں نے مردوں کو دھاڑیں مارتے اور عورتوں کو بَین کرتے سنا ہے۔ اﷲ کی قسم! جب آنسو بہہ جاتے ہیں تو انتقام کی آگ سرد ہو جاتی ہے ۔آج سے بدرکے مقتولین پرکوئی نہیں روئے گا ۔۔۔“
”اور میرا تیسرا حکم یہ ہے کہ مسلمانوں نے بدر کی لڑائی میں ہمارے جن آدمیوں کو قید کیا ہے ان کی رہائی کیلئے کوئی کوشش نہیں کی جائے گی ۔تم جانتے ہو کہ مسلمانوں نے قیدیوں کی رہائی کیلئے ان کے درجے مقرر کر دیئے ہیں اور ان کا فدیہ ایک ہزار سے چالیس درہم مقرر کیا ہے ۔ہم مسلمانوں کو ایک درہم بھی نہیں دےں گے۔ یہ رقم ہمارے ہی خلاف استعمال ہو گی ۔“
خالد کو گھوڑے کی پیٹھ پہ بیٹھے اور مدینہ کی طرف جاتے ہوئے جب وہ لمحے یاد آ رہے تھے تو اس کی مٹھیاں بند ہو گئیں۔
غصے کی لہر اس کے سارے وجود میں بھر گئی۔
وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا تھا لیکن اب بھی اس کے اندر غصہ بیدارہو گیا تھا۔
اسے غصہ اس بات پہ آیا کہ اجلاس میں طے تھا کہ مسلمانوں کے پاس مکہ کا کوئی آدمی اپنے قیدی کو چھڑانے مدینہ نہیں جائے گا لیکن ایک آدمی چوری چھپے مدینہ چلا جاتا اور اپنے عزیز رشتے دار کو رہا کرا لاتا۔
ابو سفیان نے اپنا حکم واپس لے لیا۔
خالد کا اپنا ایک بھائی جس کا نام ولید تھا۔ مسلمانوں کے پاس جنگی قیدی تھا اگر اس وقت تک قریش اپنے بہت سے قیدی رہا نہ کرا لائے ہوتے تو خالد اپنے بھائی کی رہائی کیلئے کبھی نہ جاتا۔
اسے اپنے بھائیوں نے مجبور کیا تھا کہ ولید کی رہائی کیلئے جائے ۔
خالد کو یاد آ رہا تھا کہ وہ اپنے وقار کو ٹھیس پہنچانے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا لیکن اسے خیال آیا تھا ۔
خیال یہ تھا کہ رسولِ کریمﷺ بھی اسی کے قبیلے کے تھے اور آپﷺ کے پیروکار یعنی جو مسلمان ہو گئے تھے وہ بھی قریش اور اہلِ مکہ سے تھے۔ وہ آسمان سے تو نہیں اترے تھے۔
وہ اتنے جری اور دلیر تو نہیں تھے کہ تین سو تیرہ کی تعداد میں ایک ہزار کو شکست دے سکتے ۔اب ان میں کیسی قوت آ گئی ہے کہ وہ ہمیں نیچا دکھا کر ہمارے آدمیوں کی قمتیں مقرر کر رہے ہیں ؟ ”انہیں ایک نظر دیکھوں گا۔“ خالد نے سوچا تھا۔ ” محمدﷺ کو غور سے دیکھوں گا۔“
اور وہ اپنے بھائی ہشام کو ساتھ لے کر مدینہ چلا گیا تھا ۔اس نے اپنے ساتھ چار ہزار درہم باندھ لیے تھے ۔اسے معلوم تھا کہ بنو مخزوم کے سردار الولید کے بیٹے کا فدیہ چار ہزار درہم سے کم نہیں ہو گا ایسا ہی ہوا۔
اس نے مسلمانوں کے ہاں جا کر اپنے بھائی کانام لیا تو ایک مسلمان نے جو قیدیوں کی رہائی اور فدیہ کی وصولی پر معمور تھا ۔کہا کہ چار ہزار درہم ادا کرو۔”ہم فدیہ میں کچھ رعایت چاہتے ہیں ۔“خالد کے بھائی ہشام نے کہا ۔”تم لوگ آخر ہم میں سے ہو ۔کچھ پرانے رشتوں کا خیال کرو ۔“
”اب ہم تم میں سے نہیں ہیں ۔“مسلمانوں نے کہا ۔”ہم اﷲ کے رسولﷺ کے حکم کے پابند ہیں۔“”کیا ہم تمہارے رسول اﷲﷺ سے بات کر سکتے ہیں ؟“ہشام نے پوچھا ۔
”ہشام !“خالد نے گرج کر کہا۔” میں اپنے بھائی کو اپنے وقار پر قربان کر چکا تھا ،مگر تم مجھے ساتھ لے آئے ۔یہ جتنا مانگتے ہیں اتنا ہی دے دو۔ میں محمد ﷺ کے سامنے جا کہ رحم کی بھیک نہیں مانگوں گا“۔
اس نے درہموں سے بھری تھیلی مسلمانوں کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا ۔”گن لو اور ہمارے بھائی کو ہمارے حوالے کر دو۔“رقم گنی جا چکی تو ولید کو خالد اور ہشام کے حوالے کر دیا گیا۔
تینوں بھائی اسی وقت مکہ کو روانہ ہو گئے ۔راستے میں دونوں بھائیوں نے ولید سے پوچھا کہ”ان کی شکست کا باعث کیا تھا؟ “انہیں توقع تھی کہ ولید جو ایک جنگجوخاندان کا جوان تھا۔ انہیں جنگی فہم و فراست اور حرب و ضرب کے طور طریقوں کے مطابق مسلمانوں کی جنگی چالوں کی خوبیاں اور اپنی خامیاں بتائے گا مگر ولید کا انداز ایسا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ایسی تھی جیسے اس پر کوئی پراسرار اثر ہو۔
”ولید کچھ تو بتاؤ۔“ خالد نے اس سے پوچھا۔”ہمیں اپنی شکست کا انتقام لینا ہے ۔قریش کے تمام سردار اگلی جنگ میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہم اردگرد کے قبائل کو بھی ساتھ ملا رہے ہیں اور و ہ مکہ میں جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔“
”سارے عرب کو اکھٹا کرلو خالد۔“ ولید نے کہا ۔”تم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکو گے ۔میں نہیں بتا سکتا کہ محمدﷺ کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے یا ان کا نیا عقیدہ سچا یا کیا بات ہے کہ میں نے ان کا قیدی ہوتے ہوئے بھی انہیں نا پسند نہیں کیا۔“”پھر تم اپنے قبیلے کے غدار ہو۔“ ہشام نے کہا۔” غدار ہو یا تم پر ان کا جادو اثر کر گیا ہے۔ وہ یہودی پیشوا ٹھیک کہتا تھا کہ محمد ﷺ کے پاس کوئی نیا عقیدہ اور نیا مذہب نہیں،اس کے ہاتھ میں کوئی جادو آگیا ہے“۔” جادو ہی تھا ،ورنہ بدر میں شکست کھانے والے نہیں تھے۔ “خالد نے کہا۔
ولید جیسے ان کی باتیں سن ہی نہیں رہا تھا ۔اس کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور وہ مڑ مڑ کر مدینہ کی طرف دیکھتا تھا۔ مدینہ سے کچھ دورذی الحلیفہ نام کی ایک جگہ ہوا کرتی تھی۔ تینوں بھائی وہاں پہنچے تو رات گہری ہو چکی تھی۔ رات گزارنے کیلئے وہ وہیں رہ گئے۔
صبح آنکھ کھلی تو ولید غائب تھا۔ اس کا گھوڑا بھی وہاں نہیں تھا ۔خالد اور ہشام سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ ولید واپس مدینہ چلا گیا ہے،انہوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی اثر تھا یہ اثر مسلمانوں کا ہی ہوسکتا تھا۔ دونوں بھائی مکہ آ گئے۔ چند دنوں بعد انہیں مکہ میں ولید کا زبانی پیغام ملا کہ اس نے محمدﷺکو خدا کا سچارسول تسلیم کر لیا ہے اور وہ آپﷺ کی شخصیت اور باتوں سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ ولید بن الولید رسولِ اکرمﷺ کے منظورِ نظر رہے اور انہوں نے مذہب میں بھی اور کفار کے ساتھ معرکہ آرائی میں بھی نام پیدا کیا۔
خالد کو اس وقت بہت غصہ آیا تھا ایک تو اس کا بھائی گیا دوسرے چار ہزار درہم گئے ۔چونکہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان خونی دشمنی پیدا ہو چکی تھی اس لیے مسلمانوں نے یہ رقم واپس نہ کی ۔رقم واپس نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ولید نے رسولِ کریمﷺ کو بتا دیا تھا کہ قریش مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کر رہے ہیں اور ا س کیلئے بے انداز درہم و دینار اکھٹے کیے جا چکے ہیں۔
خالد مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا۔ اسے افق سے ایک کوہان سی ابھری ہوئی نظر آنے لگی۔ خالد جانتا تھا یہ کیا ہے۔ یہ احد کی پہاڑی تھی جو مدینہ سے چار میل شمال میں ہے۔ اس وقت خالد ریت کی بڑی لمبی اور کچھ اونچی ٹیکری پر چلا جا رہا تھا۔اُحد۔ اُحد۔ خالد کے ہونٹوں سے سرگوشی نکلی اور اسے اپنی للکار سنائی دینے لگی۔” میں ابو سلیمان ہوں ! میں ابو سلیمان ہوں ۔“اس کے ساتھ ہی اسے ایک خونریز جنگ کا شوروغل اور سینکڑوں گھوڑوں کے ٹاپ اور تلواریں ٹکرانے کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔خالد یہ جنگ لڑنے کیلئے بیتاب تھا اور اس نے یہ جنگ لڑی-
خالد کا ذہن پیچھے ہی ہٹتا گیا۔چار ہی سال پہلے کا واقعہ تھا ۔
مارچ 625ء)شوال ۳ ہجری ( کے مہینے میں قریش نے مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے جو لشکر تیار کیا تھا وہ مکہ میں اکھٹا ہو چکا تھا اس کی کل تعداد تین ہزار تھی۔
اس میں سات سو افراد نے زِرہ پہن رکھی تھی۔ گھوڑ سوار دو سو کے لگ بھگ تھے اور رسد اور سامانِ جنگ تین ہزار اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔
یہ لشکر کوچ کیلئے تیار تھا۔خالد کو ایک روز پہلے کی بات کی طرح یاد تھا کہ اس لشکر کو دیکھ کر وہ کس قدرخوش ہوا تھا۔ انتقام کی آگ بجھانے کا وقت آ گیا تھا اس لشکر کا سالارِ اعلیٰ ابو سفیان تھا اور خالد اس لشکر کے ایک حصے کا کمانڈر تھا۔ اس کی بہن بھی اس لشکر کے ساتھ جا رہی تھی۔
اس کے علاوہ چودہ عورتیں اس لشکر کے ساتھ جانے کیلئے تیار تھیں ۔ ان میں ابو سفیان کی بیوی ہند بھی تھی، عمرو بن العاص کی اور ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کی بیویاں بھی شامل تھیں ۔
باقی سب گانے بجانے والیاں تھیں ۔سب کی آواز میں سوز تھا اور ان کے ساز دف اور ڈھولک تھے۔ ان عورتوں کا جنگ میں یہ کام تھا کہ جوشیلے اور جذباتی گیت گا کر سپاہیوں کا حوصلہ بلند رکھیں اور انکی یاد تازہ کرتی رہیں جو جنگِ بدر میں مارے گئے تھے۔
خالد کو افریقہ کا ایک حبشی یاد آیا جس کا نام وحشی بن حرب تھا۔ وہ قریش کے ایک سردار جُبیر بن مُطعم کا غلام تھا۔ وہ دراز قد اور سیاہ رو اور طاقتور تھا۔ اس نے برچھی مارنے کے فن میں شہرت حاصل کی تھی۔
اس کے پاس افریقہ کی بنی ہوئی برچھی تھی۔ اس کا افریقی نام کچھ اور تھا ۔اسے عربی نام جُبیر نے اس کے جنگی کمالات دیکھ کر دیا تھا۔
”بِن حرب! “کوچ سے کچھ دیر پہلے جُبیر بن مُطعِم نے اسے کہا۔”مجھے اپنے چچا کے خون کا بدلہ لینا ہے ۔شاید مجھے موقع نہ مل سکے ،میرے چچا کو بدر کی لڑائی میں محمد ﷺ کے چچا حمزہ نے قتل کیا تھا اگر تم حمزہ کو قتل کر دو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔“
”حمزہ میری برچھی سے قتل ہو گا یا آقا!“وحشی بن حرب نے کہا۔
یہ حبشی غلام اس طرف جا نکلا جہاں وہ عورتیں اونٹوں پر سوار ہو چکی تھیں جو اس لشکر کے ساتھ جا رہی تھیں۔”ابو وسمہ!“کسی عورت نے پکارا۔یہ وحشی بن حرب کا دوسرا نام تھا۔ وہ رک گیا۔ دیکھا کہ ابو سفیان کی بیوی ہند اسے بلا رہی تھی ۔وہ اس کے قریب چلا گیا۔”ابو وسمہ! “ہندنے کہا ۔”حیران نہ ہو، تجھے میں نے بلایا ہے۔ میرا سینہ انتقام کی آگ سے جل رہا ہے۔ میرا سینہ ٹھنڈا کردے۔“
”حکم خاتون۔“غلام نے کہا۔” اپنے سالار کی زوجہ کے حکم پر اپنی جان بھی دے دوں گا۔“”بدر میں میرے باپ کو حمزہ نے قتل کیاتھا“۔ ہندنے کہا۔” تو حمزہ کو اچھی طرح پہچانتا ہے ،یہ دیکھ میں نے سونے کے جو زیورات پہن رکھے ہیں اگر تو حمزہ کو قتل کر دے گا تو یہ سب زیورات تیرے ہوں گے۔“
وحشی بن حرب نے ہند کے زیورات پر نظر ڈالی تو وہ مسکرایا اور زیرِ لب پر عزم لہجے میں بولا۔” حمزہ کو میں ہی قتل کروں گا۔“
💟 جاری ہے ۔ ۔ ۔ 💟