کافی دن ہوئے کو ئی آپ بیتی ، کوئی بیتی یادیں شیئر نہیں کیں لیکن کل مؤرخہ 11 جون 2016 ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جسے جب بھی کبھی دوبارہ اپنا بلاگ بنایا تو ناقابلِ فراموش کے درجے میں پوسٹ کروں گا(یہ تحریر 12 جون 2016 کو فیس بک پر شیئر کی تھی حسب وعدہ اپنے بلاگ پر شیئر کر رہا ہوں)۔
میں اپنے کلینک کے ریسپشن پر موجود تھا (یہاں میں بطور ڈاکٹر نہیں بلکہ بطور اکاؤنٹنٹ کام کرتا ہوں۔ ہا ہا ہا ) اچانک کلینک کا دروازہ کھلا اور ایک بوڑھے شخص نے سر دروازے سے اندرکرکے مدد کا سوال کیا، میں نے غور سے اس شخص کی طرف دیکھا اور پھر ہاتھ ماتھے پر لے جاکر سلام کا اشارہ کیا (مطلب تھا کہ اللہ بھلا کرے یا معاف کرو بابا۔میں بھی کل تک اُن لوگوں میں سے تھا جو کہ پروفیشنل مانگنے والوں کو ایک روپیہ بھی دینا نہیں چاہتے) وہ بوڑھا شخص چلا گیا اور میں اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ کچھ دیر بعد پھر کسی نے دروازہ کھول کر مدد کا سوال کیا میں نے سر اُٹھا کر دیکھا تو وہی بوڑھا شخص تھا، میرے ماتھے پر ایک بل سا پڑا مگر میں نے فوری طور پر اپنے انداز کو نرم کرتے ہوئے دوبارہ ہاتھ ماتھے تک لے جاکر سلام کا اشارہ کردیا ، وہ بوڑھا پھر واپس چلا گیا۔
کچھ دیر بعد عصر کی نماز کا وقت ہوا تو میں مسجد کی جانب روانہ ہوا۔ کلینک سے نکل کر جیسے ہی برابر والی گلی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہی بوڑھا شخص گلی کے کونے میں ایک چبوترے پر بیٹھا ہے اور اسکے ہاتھ میں ایک سپارہ ہے اور وہ اُسے پڑھ رہا ہے۔ مجھے یہ منظر دیکھ کر کافی شرمندگی سی محسوس ہوئی ، میں سوچنے لگا کہ کچھ رقم اس بوڑھے کو دے دینا چاہئے تھی بلا وجہ ہر ایک کو منع نہیں کر دینا چاہئے (بدقسمتی سے میری سوچ جس قدر مضبوط ہے عمل کے معاملے میں میں اُتنا ہی کمزور ہوں )اسی سوچ و بچار میں مسجد تک پہنچ گیا، وضو کیا اور مسجد میں داخل ہوا تو خوش قسمتی سے پہلی صف میں جگہ خالی مل گئی ، جماعت میں کافی وقت تھا تو پہلے دو رکعت نفل پڑھے، جونہی سلام پھیرا تو دیکھا میرے دائیں جانب وہی بوڑھا شخص بیٹھا اٹک اٹک کرسپارہ پڑھ رہا تھا جونہی میں نے سلام پھیرا تو وہ میری جانب آگے کو ہو کر مجھ سے سبق پوچھنے لگا میں نے ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے کی جانب دیکھا پھر اُسے سبق بتانا شروع کردیا وہ مجھ سے پوچھتا رہا ، میں بتاتا رہا اور وہ پڑھتا رہا یہاں تک کہ جماعت کا وقت ہوگیا اور ایک اور نمازی ہم دونوں کے درمیاں آکھڑا ہوا۔ نماز ختم ہونے کے بعد میں وہاں بیٹھنے کے بجائے جلدی سے دعا مانگ کر اُس بوڑھے کی جانب دیکھے بغیر واپس کلینک آگیا۔
اس وقت سے میں اس ساری صورتحال کے بارے میں سوچ و بچار میں مصروف ہوں ، سمجھ نہیں پارہا کہ وہ بوڑھا کون تھا؟ یا تو سمجھ میں نہیں آرہا یا شاید سمجھ تو رہا ہوں لیکن جو سمجھ میں آرہا ہے اس پر یقین نہیں کرنا چاہتا۔ گھر آکر اپنی اہلیہ سے سارا واقعہ بیان کیا تو وہ رونے لگی اور بولی کہ کسی کو بھی منع نہ کیا کرو کچھ نہ کچھ دے دیا کرو نہ معلوم وہ باباجی کون تھے۔
میری دو عادتیں ایسی ہیں جن سے مجھے خود بہت چڑ ہے ایک تو کسی پروفیشنل مانگنے والے کو کچھ نہیں دینا اور دوسرا موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے اگر کوئی لفٹ مانگے تو اسے لفٹ نہ دینا(سوائے کہ کوئی بوڑھا بندہ اشارہ کردے)۔ اب امید ہے کہ انشا اللہ ایک عادت تو شاید ختم جائے ، دیکھیں دوسری کب تک ساتھ چلتی ہے۔