🤍✨🕌📿⭐️سیرت النبی ﷺ قدم بقدم🌴𝟏𝟏🌴
سرکارِ مدینیہ، سیدِ دو عالم ﷺ کی سیرت کا مکمل اور مفصل تذکرہ
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
📌 فجار کی جنگ
✍🏻 عبداللہ فارانی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
خانہ کعبہ میں تانبے کے دو بت تھے۔ ان کے نام اساف اور نائلہ تھے۔ طواف کرتے وقت مشرک برکت حاصل کرنے کے لئے ان کو چھوا کرتے تھے ۔
حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے، میں بھي آپ کے ساتھ تھا۔ جب میں طواف کے دوران ان بتوں کے پاس سے گزرا تو میں نے بھی ان کو چھوا۔ نبی پاک ﷺ نے فوراﹰ فرمایا: ان کو ہاتھ مت لگاؤ:
اس کے بعد ہم طواف کرتے رہے، میں نے سوچا، ایک بار پھر بتوں کو چھونے کی کوشش کروں گا تاکہ پتا تو چلے، ان کو چھونے سے کیا ہوتا ہے اور آپ نے کس لیے مجھے روکا ہے، چنانچہ میں نے ان کو پھر چھولیا، تب آپ نے سخت لہجے میں فرمایا: کیا میں نے تمہیں ان کو چھونے سے منع نہیں کیا تھا۔؟
اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں ،نبی پاک ﷺ نے کبھی بھی کسی بت کو نہیں چھوا، یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو نبوت عطا فرمادی اور آپ پر وحی نازل ہونے لگی۔
اسی طرح الله تعالٰی حرام چیزوں سے بھي آپ کی حفاظت فرماتے تھے ۔ مشرک بتوں کے نام پر جانور قربان کرتے تھے، پھر یہ گوشت تقسیم کردیا جاتاتھا یا پکا کر کھلا دیا جاتا تھا، لیکن آپ نے کبھی بھی ایسا گوشت نہ کھایا، خود آپ نے ایک بار ارشاد فرمایا: میں نے کبھی کوئی ایسی چیز نہیں چکھی جو بتوں کے نام پر ذبح کی گئی ہو، یہاں تک کہ الله تعالٰی نے مجھے نبوت عطا کردی:
اسی طرح آپ سے پوچھا گیا:
"کیا آپ نے بچپن میں کبھی بت پرستی کی؟
آپ نے ارشاد فرمایا نہیں " "
آپ سے پھر پوچھاگیا:
آپ نے کبھی شراب پی؟
جواب میں ارشاد فرمایا:
نہیں ! حالانکہ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ کتاب الله کیا ہے اور ایمان (کی تفصیل) کیا ہے:
آپ ﷺ کے علاوہ بھی اس زمانے میں کچھ لوگ تھے جو جانوروں کے نام ذبح کیا گیا گوشت نہیں کھاتے تھے اور شراب کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے ۔
بچپن میں آپ نے بکریاں بھي چرائیں ۔ آپ مکہ کے لوگوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔معاوضے کے طور پر آپ کو ایک سکہ دیا جاتا تھا۔ آپ فرماتے ہیں :
اللہ تعالٰی نے جتنے نبی بھیجے، ان سب نے بکریاں چرانے کا کام کیا۔ میں مکہ والوں کی بکریاں قراریط (سکہ) کے بدلے چرایا کرتا تھا۔ مکہ والوں کی بکریوں کے ساتھ آپ اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کی بکریاں بھی چرایا کرتے تھے۔
پیغمبروں نے بکریاں کیوں چرائیں، اس کی وضاحت یوں بیان کی جاتی ہے:
اس کام میں الله تعالٰی کی زبردست حکمت ہے، بکری کمزور جانور ہے، لہٰذا جو شخص بکریاں چراتا ہے، اس میں قدرتی طورپر نرمی، محبت اور انکساری کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ہر کام اور پیشے کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، مثلاﹰ قصاب کے دل میں سختی ہوتی ہے، لوہار جفاکش ہوتاہے، مالی نازک طبع ہوتاہے، اب جو شخص بکریاں چراتا رہا، جب وہ مخلوق کی تربیت کا کام شروع کرے گا تو اس کی طبیعت میں سے گرمی اور سختی نکل چکی ہوتی ہے۔ مخلوق کی تربیت کے لئے وہ بہت نرم مزاج ہوچکا ہوتا ہے اور تبلیغ کے کام میں نرم مزاجی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔
عربوں میں ایک شخص بدر بن معشر غفاری تھا۔ یہ عکاظ کے میلے میں بیٹھا کرتا تھا۔ لوگوں کے سامنے اپنی بہادری کے قصے سنایا کرتا تھا۔ اپنی بڑائیاں بیان کرتا تھا۔ایک دن اس نے پیر پھیلا کر اور گردن اکڑا کر کہا:
میں عربوں میں سے سب سے زیادہ عزت دار ہوں اور اگر کوئی خیال کرتا ہے کہ وہ زیادہ عزت والا ہے تو تلوار کے زور پر یہ بات ثابت کر دکھائے:
اس کے یہ بڑے بول سن کر ایک شخص کو غصہ آگیا۔ وہ اچانک اس پر جھپٹا اور اس کے گھٹنے پر تلوار دے ماری۔ اس کا گھٹنا کٹ گیا۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ گھٹنا صرف زخمی ہوا تھا۔ اس پر دونوں کے قبیلے آپس میں لڑ پڑے۔ ان میں جنگ شروع ہوگئی۔اس لڑائی کو فجار کی پہلی لڑائی کہا جاتا ہے، اس وقت آپ ﷺ کی عمر 10 سال تھی۔
فجار کی ایک اور لڑائی بنو عامر کی ایک عورت کی وجہ سے ہوئی۔ اس میں بنو عامر بنو کنانہ سے لڑے، کیونکہ کنانہ کے ایک نوجوان نے اس قبیلے کی کسی عورت کو چھیڑا تھا۔
فجار کی تیسری لڑائی بھی بنو عامر اور بنو کنانہ کے درمیان ہوئی۔ یہ لڑائی قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں ہوئی۔
فجار کی ان تینوں لڑائیوں میں نبي ﷺ نے کوئی حصہ نہیں لیا۔ البتہ فجار کی چوتھی لڑائی میں آپ نے شرکت فرمائی تھی۔عربوں کے ہاں چار مہینے ایسے تھے کہ ان میں کسی کا خون بہانا جائز نہیں تھا، یہ مہینے ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم، اور رجب تھے۔ یہ لڑائیاں چونکہ حرمت کے ان مہینوں میں ہوئیں، اس لیے ان کا نام فجار کی لڑائیاں رکھا گیا۔ فجار کا معنی ہے گناہ، یعنی یہ لڑائیاں ان کا گناہ تھا۔ چوتھی لڑائی جس میں نبی کریم ﷺ نے بھی حصہ لیا، اس کا نام فجار برّاض ہے، یہ لڑائی اس طرح شروع ہوئی:
قبیلہ بنو کنانہ کے براض نامی ایک شخص نے ایک آدمی عروہ کو قتل کردیا۔ عروہ کا تعلق قبیلہ ہوازن سے تھا ۔یہ واقعہ حرمت والے مہینے میں پیش آیا۔ براض اور عروہ کے خاندان کے لوگ یعنی بنو کنانہ اور ہوازن اس وقت عکاظ کے میلے میں تھے۔ وہیں کسی نے بنو کنانہ کو یہ خبر پہنچادی کہ براض نے عروہ کو قتل کردیا ہے ۔یہ خبر سن کر بنو کنانہ کے لوگ پریشان ہوئے کہ کہیں میلے ہی میں ہوازن کے لوگ ان پر حملہ نہ کردیں ،اس طرح بات بہت بڑھ جائے گی،ںچنانچہ وہ لوگ مکہ کی طرف بھاگ نکلے۔ ہوازن کو اس وقت تک خبر نہیں ہوئی تھی۔ انہیں کچھ دن یا کچھ وقت گزرنے پر خبر ہوئی، یہ بنو کنانہ پر چڑھ دوڑے لیکن بنو کنانہ حرم میں پناه لے چکےتھے۔
عربوں میں حرم کے اندر خون بہانا حرام تھا۔ اس لئے ہوازن رک گئے۔ اس دن لڑائی نہ ہوسکی لیکن دوسرے دن بنو کنانہ کے لوگ خود ہی مقابلے کے لئے باہر نکل آئے، ان کی مدد کرنے کے لیے قبیلہ قریش بھي میدان میں نکل آیا۔ اس طرح فجار کی یہ جنگ شروع ہوئی۔ یہ جنگ چار یا چھ دن تک جاری رہی، اب چونکہ قریش بھی اس جنگ میں شریک تھے، لہٰذا آپ ﷺ کے چچا آپ کو بھي ساتھ لے گئے مگر آپ نے جنگ کے سب دنوں میں لڑائی میں حصہ نہیں لیا، البته جس دن آپ میدان جنگ میں پہنچ جاتے تو بنی کنانہ کو فتح ہونے لگتی اور جب آپ وہاں نہ پہنچتے تو انہیں شکست ہونے لگتی۔ آپ نے اس جنگ میں صرف اتنا حصہ لیا کہ اپنے چچاؤں کو تیر پکڑاتے رہے اور بس۔
چھ دن کی جنگ کے بعد بھی کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ آخر دونوں گروہوں میں صلح ہوگئی لیکن یہ کافی خون خرابے کے بعد ہوئی تھی۔
اس جنگ کے فوراﹰ بعد حلف الفضول کا واقعہ پیش آیا۔ یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ قبیلہ زبید کا ایک شخص اپنا کچھ مال لے کر مکہ آیا۔ اس سے یہ مال عاص بن وائل نے خرید لیا۔ یہ عاص بن وائل مکہ کے بڑے لوگوں میں سے تھا۔ اس کی بہت عزت تھی۔ اس نے مال تو لے لیا، لیکن قیمت ادا نہ کی، زبیدی اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کرتا رہا، لیکن عاص بن وائل نے رقم ادا نہ کی۔ اب یہ زبیدی شخص اپنی فریاد لے کر مختلف قبیلوں کے پاس گیا۔ ان سب کو بتایا کہ عاص بن وائل نے اس پر ظلم کیا ہے، لہٰذا اس کی رقم دلوائی جائے۔ اب چونکہ عاص مکہ کے بڑے لوگوں میں سے تھا، اس لیے ان سب لوگوں نے عاص کے خلاف اس کی مدد کرنے سے انکار کردیا، الٹا اسے ڈانٹ ڈپٹ کر واپس بھیج دیا۔ جب زبیدی نے ان لوگوں کی یہ حالت دیکھی تو دوسرے دن صبح سویرے وہ ابوقیس نامی پہاڑی پر چڑھ گیا۔ قریش ابھی اپنے گھروں ہی میں تھے اوپر چڑھ کر اس نے بلند آواز سے چند شعر پڑھے جن کا خلاصہ یہ ہے:
" اے فہر کی اولاد! ایک مظلوم کی مددکرو، جو اپنے وطن سے دور ہے اور جس کی تمام پونجی اس وقت مکہ کے اندر ہی ہے۔
اس زبیدی شخص کی یہ فریاد آپ ﷺ کے چچا زبیر بن عبد المطلب نے سن لی۔ ان پر بہت اثر ہوا، انہوں نے عبداللہ بن جدعان کو ساتھ لیا اور اس آدمی کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر ان کے ساتھ بنو ہاشم،بنو زہرہ اور بنو اسد کے لوگ بھی شامل ہوگئے۔یہ سب عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے۔ یہاں ان سب کو کھانا کھلایا گیا۔ اس کے بعد ان سب سے خدا کے نام پر حلف لیا گیا۔ حلف کے الفاظ یہ تھے:
ہم ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیتے رہیں گے اور اس کا حق اسے دلاتے رہیں گے۔ اس حلف کا نام حلف الفضول رکھا گیا۔اس عہد اور حلف کے موقع پر الله کے رسول ﷺ بھی قریش کے ساتھ موجود تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

کوئی تبصرے نہیں: