🌻 مستحق کو امدادی سامان دینے سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم
📿 مستحقین کو راشن اور امدادی سامان فراہم کرنے سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا تفصیلی حکم:
جب کسی جگہ بارش، سیلاب اور دیگر آفات کی وجہ سے تباہی پھیل جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ شدید نقصان سے دوچار ہوجاتے ہیں اور انھیں تعاون اور امداد کی اشد ضرورت پڑتی ہے تو اس تناظر میں یہ سوال کثرت سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا مستحقین کو زکوٰۃ کی مد میں خیمے، غذائیں، ادویات اور دیگر امدادی سامان فراہم کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟ یہ سوال کافی اہم ہے جس کا جواب جاننے کے لیے درج ذیل چند باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں:
1️⃣ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے رقم ہی دینا ضروری نہیں، بلکہ کسی مستحق کو زکوٰۃ کی نیت سے جس طرح رقم دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے اسی طرح اتنی مالیت کا راشن اور امدادی سامان فراہم کرنے سے بھی زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے۔
2️⃣ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ مستحق کو مالک بنا کر اسی کے اختیار میں دے دی جائے کہ وہ اس کا مالک بن جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر زکوٰۃ کسی مستحق کو مالک بنا کر نہ دی جائے بلکہ ایسی صورت اختیار کی جائے کہ مستحق اس کا مالک بھی نہ بنے اور اس سے فائدہ بھی اُٹھا سکے تو اس طرح زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ جیسے زکوٰۃ کی نیت سے یا زکوٰۃ کی رقم سے مستحقین کے لیے کنواں کھدوا دیا تاکہ وہ اس کا پانی استعمال کرتے رہیں لیکن وہ کنواں مستحقین کی ملکیت میں نہ دیا، یا مستحقین کے لیے خیمہ لگوادیا تاکہ وہ اس میں رہائش اختیار کریں لیکن وہ خیمہ ان کی ملکیت میں نہ دیا تو ایسی صورتوں میں زکوٰۃ ادا نہ ہوگی کیوں کہ اس میں مستحقین کو مالک بنانے کی شرط نہیں پائی جاتی۔ اس بات کو علمی انداز میں یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے اِباحت کافی نہیں بلکہ تملیک ضروری ہے کہ مستحق کو زکوٰۃ کا مالک بنا کر اس کے اختیار میں دے دی جائے۔
3️⃣ ماقبل کی تفصیل کے مطابق مستحقین کو زکوٰۃ کی رقم سے یا زکوٰۃ کی نیت سے خیمے، راشن، ادویات اور دیگر امدادی سامان فراہم کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اس شرط کے ساتھ کہ یہ چیزیں انھیں مالک بنا کر دے دی جائیں۔ اسی طرح مستحق کے لیے زکوٰۃ کی رقم سے یا زکوٰۃ کی نیت سے گھر بنا کر دینا بھی اُس صورت میں جائز ہے جب اس مستحق کو اس گھر کا مالک بنا دیا جائے، تب جاکر زکوٰۃ ادا ہوگی، لیکن اگر وہ گھر مستحق کی ملکیت میں نہ دیا، بلکہ صرف رہائش کے لیے دیا تو ایسی صورت میں زکوٰۃ اد انہ ہوگی۔
‼️ تنبیہ اور وضاحت:
1️⃣ ماقبل میں زکوٰۃ کا صرف یہ پہلو بیان کیا گیا ہے کہ رقم کے علاوہ راشن یا دیگر امدادی سامان کی صورت میں زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اور راشن یا دیگر امدادی سامان کی صورت میں زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے مستحق کو ان چیزوں کا مالک بنانا ضروری ہے یا نہیں؟ اس لیے جہاں تک زکوٰۃ ادا کرنے کی دیگر شرائط کا تعلق ہے تو زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت ان کی بھی رعایت کرنا ضروری ہے جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
2️⃣ مذکورہ مسائل کی رعایت جس طرح زکوٰۃ دینے والے کی ذمہ داری ہے اسی طرح اُن رفاہی اداروں کی بھی ذمہ داری ہے جو لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرکے حاجت مندوں تک پہنچانے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ ایسے شرعی مسائل کی رعایت کے بعد ہی زکوٰۃ کی ادائیگی شریعت کے مطابق ہوسکے گی، کیوں کہ جس طرح شریعت میں صاحبِ نصاب شخص پر زکوٰۃ دینا فرض ہے اسی طرح اس کی ادائیگی کا بھی وہی طریقہ معتبر ہے جو کہ شریعت نے مقرر کیا ہے۔ اس لیے شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے خود ساختہ طریقوں سے زکوٰۃ ادا کرنا شریعت کی نظر میں معتبر اور قابلِ قبول نہیں۔
📚 فقہی عبارات
☀ الموسوعة الفقهية الكويتية:
ذَهَبَ الْحَنَفِيَّةُ إِلَى جَوَازِ التَّحَوُّل عَنِ الْوَاجِبِ إِلَى الْبَدَل فِي الزَّكَاةِ، وَإِلَيْهِ ذَهَبَ الأَوْزَاعِيُّ وَالثَّوْرِيُّ، وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ. فَيَجُوزُ لِلْمَالِكِ أَنْ يَدْفَعَ الْعَيْنَ أَوِ الْقِيمَةَ مِنَ النَّقْدَيْنِ وَالْعُرُوضِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، وَلَوْ مَعَ وُجُودِ الْمَنْصُوصِ عَلَيْهِ؛ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: «خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً». نَصَّ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ بِالْمَأْخُوذِ (صَدَقَةً)، وَكُل جِنْسٍ يَأْخُذُهُ فَهُوَ صَدَقَةٌ. وَلِقَوْل مُعَاذٍ لأَهْل الْيَمَنِ حِينَ بَعَثَهُ النَّبِيُّ ﷺ إِلَيْهِمُ: ائْتُونِي بِعَرْضِ ثِيَابٍ خَمِيصٍ أَوْ لَبِيسٍ فِي الصَّدَقَةِ مَكَانَ الشَّعِيرِ وَالذُّرَةِ، أَهْوَنُ عَلَيْكُمْ وَخَيْرٌ لأصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ بِالْمَدِينَةِ. وَكَانَ يَأْتِي بِهِ رَسُول اللهِ ﷺ وَلَا يُنْكِرُ عَلَيْهِ. وَالْفِقْهُ فِيهِ: أَنَّ الْمَقْصُودَ إِيصَال الرِّزْقِ الْمَوْعُودِ إِلَى الْفَقِيرِ، وَدَفْعُ حَاجَةِ الْمِسْكِينِ، وَهُوَ يَحْصُل بِالْقِيمَةِ أَيْضًا. قَال عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: إِنَّ اللهَ تَعَالَى فَرَضَ عَلَى الأغْنِيَاءِ قُوتَ الْفُقَرَاءِ، وَسَمَّاهُ زَكَاةً.
(تحول: التَّحَوُّل عَنِ الْوَاجِبِ إِلَى الْبَدَل: الزَّكَاةُ)
☀ الفِقْهُ الإسلاميُّ وأدلَّتُهُ:
ثالثًا: شرط المال المؤدى: يشترط أن يكون المؤدى مالًا متقومًا على الإطلاق، سواء أكان عند الحنفية منصوصَا عليه أم لا، من جنس المال الذي وجبت فيه الزكاة أم من غير جنسه. والأصل عندهم أو القاعدة: أن كل مال يجوز التصدق به تطوعًا يجوز أداء الزكاة منه، ومالا فلا. وعليه: لو أعطى الفقير سلعة من السلع كقماش أو خبز أو سكر أو سمن أو حذاء، ناويًا الزكاة: صح. وعند غير الحنفية: يتعين أداء المنصوص عليه، وقد بحث الموضوع في إخراج القيمة في الزكاة.
(البَابُ الرَّابع: الزَّكاةُ وأنْواعِها: المبحث السابع مصارف الزكاة: المطلب الثاني أحكام متفرقة في توزيع الزكاة)
☀ الفِقْهُ الإسلاميُّ وأدلَّتُهُ:
2- التمليك: يشترط التمليك لصحة أداء الزكاة بأن تعطى للمستحقين، فلا يكفي فيها الإباحة أو الإطعام إلا بطريق التمليك، ولا تصرف عند الحنفية إلى مجنون وصبي غير مراهق (مميز) إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما. وذلك لقوله تعالى: «وآتوا الزكاة» [البقرة:43/2]، والإيتاء هو التمليك، وسمى الله تعالى الزكاة صدقة بقوله عز وجل: «إنما الصدقات للفقراء» [التوبة:60/9]، والتصدق تمليك، واللام في كلمة «للفقراء» -كما قال الشافعية- لام التمليك، كما يقال: «هذا المال لزيد» .
(البَابُ الرَّابع: الزَّكاةُ وأنْواعِها: المبحث الثاني سبب الزكاة وشروطهاوركنها: شروط صحة أداء الزكاة)
☀ الموسوعة الفقهية الكويتية:
وَكَذَلِكَ التَّمْلِيكُ شَرْطٌ فِي مُصَارِفِ الزَّكَاةِ، فَلَا تُصْرَفُ الزَّكَاةُ إِلَى بِنَاءِ نَحْوِ مَسْجِدٍ كَبِنَاءِ الْقَنَاطِرِ وَالسِّقَايَاتِ وَإِصْلَاحِ الطُّرُقَاتِ وَكَرْيِ الأنْهَارِ وَالْحَجِّ وَالتَّكْفِينِ وَكُل مَا لَا تَمْلِيكَ فِيهِ. وَالْحِيلَةُ فِي جَوَازُ الدَّفْعِ لِهَذِهِ الأَشْيَاءِ مَعَ صِحَّةُ الزَّكَاةِ عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ: أَنْ يَتَصَدَّقَ عَلَى الْفَقِيرِ ثُمَّ يَأْمُرُهُ بِفِعْل هَذِهِ الأَشْيَاءِ فَيَكُونُ لَهُ ثَوَابُ الزَّكَاةِ وَلِلْفَقِيرِ ثَوَابُ هَذِهِ الْقُرَبِ.
(مَخَارِجُ الْحِيَل: الحيلة فِي مَصْرِفِ الزَّكَاةِ)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

ليست هناك تعليقات: