🌻 پراویڈینٹ فنڈ سے لیے گئے قرض کو زکوٰۃ کے نصاب سے منہا کرنے کا حکم


 📿 پراویڈینٹ فنڈ سے لیے گئے قرض کو زکوٰۃ کے نصاب سے منہا کرنے کا حکم:

ملازم جب اپنی ضرورت کے لیے کمپنی سے اپنے پراویڈنٹ فنڈ میں سے قرضہ لیتا ہے جو کہ کمپنی کو واپس کرنا بھی ضروری ہوتا ہے تو اس صورت میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ ملازم جب زکوٰۃ کے نصاب کے لیے اپنے مال کا حساب لگائے گا تو یہ قرض لی ہوئی رقم منہا ہوگی یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ پراویڈنٹ سے لی گئی رقم اگرچہ معاہدے یا ضابطے کی رو سے کمپنی کو واپس کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن شرعًا یہ قرض کے حکم میں داخل نہیں، اس لیے اس کی وجہ سے ملازم کو مقروض قرار دے کر زکوٰۃ کے نصاب کا حساب لگاتے وقت اس کے مال میں سے یہ قرض کی رقم منہا نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ ”جواہر الفقہ“ میں ہے کہ:
محکمہ ملازم کو اس کے فنڈ میں سے بوقتِ ضرورت کچھ رقم بنام قرض دیتا ہے پھر اس کی اگلی  تنخواہوں سے قسط وار اتنی ہی رقم اور کچھ مزید رقم جو بنامِ سود ہوتی ہے کاٹ کر مجموعہ اسی ملازم کے  فنڈ میں جمع کردیتا ہے۔ اس طرح ملازم کو رقم دینے سے اس کے فنڈ میں جو کمی آگئی تھی وہ پوری ہوجاتی ہے، اور اختتامِ ملازمت پر کل رقم اسی کو مل جاتی ہے۔ یہ معاملہ اگرچہ سودی قرض کے نام سے کیا جاتا ہے لیکن شرعی نقطہ نظر کے لحاظ سے نہ یہ قرض ہے نہ سودی معاملہ۔ قرض تو اس لیے نہیں کہ ملازم کا جو قرض محکمہ کے ذمہ تھا اور جس کے مطالبہ کا اس کو حق تھا اس نے اسی کا ایک حصہ وصول کیا ہے۔ اور بعد کی تنخواہوں سے جو رقم ادا قرض کے نام سے کاٹی جاتی وہ بھی ادا قرض نہیں بلکہ فنڈ میں جو رقم معمول کے مطابق ہر ماہ   کٹتی تھی اسی کی طرح یہ بھی ایک کٹوتی ہے، اور  اسی کی طرح یہ بھی ملازم کا محکمہ کے ذمہ قرض ہے، کیونکہ یہ کٹوتی بھی اسی کے فنڈ میں جمع ہوکر اختتامِ ملازمت پر اسی کو مل جاتی ہے۔  (3/ 230، ناشر: مکتبہ دار العلوم کراچی)

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی