🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ دہم 🌴

 

🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ دہم 🌴
تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم
🕌⭐🌴حرُکی آمد🌴⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
امام ِ عالی مقام  نے اپنا سفرجاری رکھا اور جب حسینی قافلہ کوہ ِ ذی حشم کے مقام پر پہنچ کر خیمہ زن ہوا تو حر بن یزید تیمی جو کہ حکومت ِ یزید کی طرف سے آپ  کو گرفتا ر کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ وہ ایک ہزار مسلح سواروں کے ساتھ پہنچ گیا۔دوپہر کا وقت تھا دشمن کے گھوڑے اور آدمی پیاسے تھے ۔
حضرت امامِ حسین  نے سب کو پانی پلایا۔ غالباً اس ہمدردی کے سبب حر آپ  سے کچھ کہنے کی جرات نہ کر سکا یہاں تک کہ ظہر کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ اور اذان پڑھی گئی تو امام ِ عالی مقام نے حمد و صلوٰة کے بعد حر اور اسکی فوج کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
”میں بارگاہ ِ خدا وند اور تمہارے سامنے اپنی صفائی پیش کرتا ہوں کہ میں اس وقت تک تمہاری طرف نہیں آیا جب تک کہ تمہارے خطوط میری طرف نہیں آگئے کہ آپ  ہماری طرف آئیں ۔
ہمارا کوئی امام نہیں ہے۔ شاید آپ  کے سبب ہم لوگوں کو خدا تعالی ہدایت پر جمع فرما دے۔ اب اگر تم لوگ اپنی بات پر قائم ہو تو میں آ ہی گیا ہوں ۔ تم مجھ سے عہد کرو تاکہ مجھے اطمینان ہو جائے تو میں تمہارے شہر میں چلوں ۔ اور اگر میرا آنا پسند نہیں کرتے تو میں جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس چلا جاؤں گا“
آپ  کی تقریر کے بعد خاموشی رہی ۔
کسی نے کوئی جواب نہ دیا ۔آپ  نے حر سے پوچھا کہ تم ہمارے ساتھ نماز پڑھو گے یاالگ پڑھنا چاہو گے ؟ حر نے کہا آپ  نماز پڑھائیں ہم آپ  کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔اور ایسا ہوا کہ دونوں طرف کے لوگوں نے امامِ عالی مقام  کے پیچھے نماز ادا کی۔اور نماز کے بعد آپ  اپنے خیمے میں چلے گئے۔(طبری ص ۲۳۰ ج ۲)
جب عصر کا وقت ہوا تو آپ  نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ روانہ ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ۔
پھر خیمہ سے باہر تشریف لائے اور اس وقت بھی دونوں طرف کے لوگوں نے آپ  کے پیچھے ہی نماز اداکی۔نماز کے بعد آپ  نے مجمع کی طرف رخ کیا اور حمد و صلوٰة کے بعد فرمایا:
”اے لوگو! اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے اور حق پہچانو گے تو اللہ تعالی کی خوشنودی پاؤ گے۔ جو تم پر ظلم و تشدد کے ساتھ حکومت کرتے ہیں اہل ِ بیت ان کے مقابلے میں خلافت کے زیادہ مستحق ہیں۔
لیکن اگر تم لوگ ہم کو پسند نہیں کرتے ہو اور ہمارے حق کو نہیں پہچانتے ہو اور تمہاری رائے اس کے خلاف ہو گئی جو کہ تمہارے خطوط سے ظاہر ہے تو میں واپس چلا جاؤں گا“
حر نے کہا کہ بخدا ہمیں نہیں معلوم کہ وہ خطوط کیسے ہیں جن کا آپ  ذکر فرما رہے ہیں۔اس پر آپ  نے خطوط کے تھیلے کو منگوا کر سب کے سامنے الٹا دیا۔حر نے کہا کہ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جنہوں نے آپ کو یہ خطوط لکھے ہیں ۔
ہم کو تو یہ حکم دیا گیا کہ جہاں بھی آپ ملیں ہم آپ  کا ساتھ نہ چھوڑیں یہاں تک کہ ابن ِ زیاد کے پاس پہنچا دیں ۔آپ  نے فرمایا کہ موت اس سے زیادہ قریب ہے۔آپ  کا مطلب تھا کہ مجھے زندہ ابن ِ زیاد کے پاس گرفتار کر کے لے جانا ناممکن ہے۔اس کے بعد حضرت امامِ حسین نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا سوار ہو جاؤ۔جب مرد اور عورتیں سوار ہو گئیں اور آپ  نے واپس لوٹنے کا ارادہ فرمایا تو حر کے لشکر نے آپ  کا راستہ روک لیا۔
اس پر حضرت ا مام حسین  نے حر سے کہا تیری ماں تجھے روئے تو کیا چاہتا ہے ؟ حر نے جواباًکہا خدا کی قسم! اگر آپ  کے علاوہ کوئی اور عرب یہ بات کہتا تو میں اس کی ماں کو بھی ایسے ہی کہتا۔لیکن میں ہر حال میں آپ  کی والدہ ماجدہ کا نام عزت و احترام سے لوں گا۔
امام ِ عالی مقام  نے فرمایاتو اب کیا چاہتے ہو؟ حر نے کہا کہ میں آپ  کو ابن ِ زیاد کے پاس لے جانا چاہتا ہوں۔
آپ  نے فرمایا خدا کی قسم! یہ نہیں ہو گا ۔حر نے کہا خدا کی قسم !میں بھی آپ  کو نہیں چھوڑوں گااس طرح تکرار ہوتی رہی۔آخر میں حر نے کہا کہ مجھے آپ  سے لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا ۔مجھے تو صرف یہ حکم ہے کہ میں آپ  کے ساتھ ساتھ رہوں۔ یہاں تک کہ آپ  کوفہ پہنچ جائیں۔اور اگر آپ  کوفہ جانے سے انکار کرتے ہیں تو جب تک ابن ِ زیاد کی رائے معلوم نہ کر لوں آپ  ایسا راستہ اختیار کریں جو نہ کوفہ جاتا ہو اور نہ مدینہ کی طرف ۔
آپ  کو اس کی یہ بات بہتر لگی آپ  نے قافلے کو کوچ کا حکم فرمایا۔اور غدیب اور قادسیہ جانے والے راستے سے بائیں جانب کو ہو لیے۔اور حر بن یزید آپ  کے ساتھ چلتا رہا۔(الطبری، البدایہ و النہایہ ، ابن اثیر)
چلتے چلتے جب آپ  نینوا کے میدان میں پہنچے تو آپ  نے کوفہ سے آئے ہوئے ایک سوار کو دیکھا ۔سب لوگ ٹھہر کر اس کاانتظار کرنے لگے ۔
وہ آیا تو اس نے حضرت امام ِ حسین اور ان کے ساتھیوں کو سلام کرنے کے بجائے حر کو سلام کیا اور ابن ِ زیاد کی طرف سے حر کو ایک خط دکھایا ۔ اس خط میں لکھا تھاکہ جس وقت میرا قاصد میرا خط لے کر تمہارے پاس پہنچے تو اسی وقت سے حسین پر سختی کرو۔پس تم اس کو سوائے ایسے کھلے میدان کے جہاں نہ کوئی پناہ گاہ ہو نہ پانی ہو۔ انہیں کہیں اور نہ اترنے دو۔
میں نے اپنے قاصد کو حکم دیا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ ہی لگا رہے اور اس وقت تک تم سے الگ نہ ہو جب تک کہ میرے پاس یہ خبر نہ پہنچ جائے کہ تم نے میرے حکم پر عمل کیا ہے۔جب حر نے یہ خط پڑھا تو اس نے حضرت امام حسین اور آپ  کے رفقاء سے کہا یہ امیرا بن زیاد کا خط ہے جس میں اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ  کے ساتھ سختی کروں اور ایسی جگہ کے سوا جہاں نہ کوئی بستی ہو اور نہ پانی ،کسی اور جگہ نہ اترنے دوں۔
آپ  نے ساتھیوں سے کہا ہم نینوا، غاضریہ اور شیفتہ میں اتریں گے۔حر نے کہا میں ایسا نہیں کر سکتا کیوں کہ اس شخص ( قاصد) کو مجھ پر نگرانی کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔(ابن اثیر)
زمینِ کربلا پر
  ابھی آپ تھوڑا سا چلے تھے کہ حر کے ساتھیوں نے آ کر روک دیا اور کہا کہ بس یہاں اتر جائیں۔ فرات یہاں سے دور نہیں ہے۔
آپ  نے پوچھا اس جگہ کا نام کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ اس کا نام کربلا ہے۔اس لفظ کو سنتے ہی آپ گھوڑے سے اتر پڑے اور فرمایا: جو مقامِ کرب و بلا ہے ۔ یہی ہمارے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔یہاں ہمارے مال و اسباب اتریں گے اور یہیں ہمارے ساتھی قتل کیے جائیں گے“۔61 ہجری محرم کی۲ تاریخ جمعرات کے دن امامِ عالی مقام ؓ اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں سمیت یہیں خیمہ زن ہو گئے۔
کربلا پہنچتے ہی حضرت امامِ حسینکو حضور نبیٴ اکرم ﷺ کی دی ہوئی بشارتیں آپ کی آنکھوں کے سامنے آ گئیں۔آپ کو بچپن کا وہ لمحہ یاد آ گیا جب حضرت امِ سلمہ  کی روایت کے مطابق آپ  ان کے گھر میں اپنے بڑے بھائی حضرت حسن  کے ساتھ آپ ﷺ کے سامنے کھیل رہے تھے کہ جبرائیلِ امین ؓ نازل ہوئے اور کہا اے محمد ﷺ بیشک آپ ﷺ کی امت میں سے ایک جماعت آپ ﷺ کے اس بیٹے حسین کو آپ ﷺ کے بعد قتل کر دے گی ۔
اور حضور ﷺکو حضرت امام حسین کی جائے شہادت کی تھوڑی سی مٹی دی۔رسولِ اکرم ﷺ نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا ”کہ اس میں رنج و بلا کی بوُ آ تی ہے“ اور حضرت محمد ﷺ نے امام ِ حسین کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور رو دیے۔ پھر آ پﷺ نے فرمایا اے امِ سلمہ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرایہ بیٹا قتل ہو گیا۔
حضرت امِ سلمہ نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا ۔
وہ ہر روز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں کہ جس دن یہ مٹی خون ہو جائے گی تو وہ دن عظیم دن ہو گا۔ یہی تو میدان تھا جس کی نسبت حضرت امامِ حسین ؓ کے محترم والد حضرت علی  نے فرمایا تھا کہ یہ ان (حسین  اور اس کے قافلے) کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور یہ اس کے خون کا مقام ہے۔ آلِ محمد ﷺ کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہو گا ۔جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔
چونکہ میدانِ کربلا اور امامِ حسینکی شہادت کے بارے میں بشارتیں پہلے سے دی جا چکی تھیں۔ اس لیے امامِ عالی مقام  نے اس مقام کو اپنے سفر کی انتہا سمجھ کر خیمے لگا دیے۔حر نے بھی آپ  کے مقابلے میں خیمے نصب کر دیے۔
حر کے دل میں اگرچہ اہل ِ بیت کی عظمت تھی اور یہاں تک کہ اس نے اپنی نمازیں بھی حضرت امامِ حسین  کے پیچھے ہی ادا کی تھیں۔
مگر وہ ابنِ زیاد کے حکم سے مجبور تھا۔ وہ ابنِ زیاد کے ظالم اورسفاک مزاج سے واقف تھا۔اور اسے علم تھا کہ اس نے حضرت امامِ حسین اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کسی قسم کی کوئی نرمی روا رکھی یا ابنِ زیاد کے حکم عدولی کی کوشش کی تو یہ بات ایک ہزار کے لشکر کے سامنے چھپی نہیں رہے گی۔ جب ابنِ زیاد کو اس کا علم ہو گا تو وہ ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ اور سخت سزا دے گا اس خوف کی وجہ سے حر ابنِ زیاد کے حکم پر برابر عمل کرتا رہا۔

عمر بن سعد کی آمد
ادھر قافلہٴ حسینی کربلا کے میدان میں خیمہ زن تھا ۔دوسری طرف یزید ی حکومت ان نفوسِ قدسیہ پر قیامت برپا کرنے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف تھی۔ 3 محر م الحرام کو عمر بن سعد چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ مقابلے کے لیے کوفہ سے کربلا پہنچ گیا۔ ابنِ زیاد نے یہ لشکر”ویلم“ کے لیے تیار کیا تھا۔
لیکن جب حضرت امامِ حسین کا معاملہ پیش آ گیا تو اس نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ پہلے حسین  کی طرف جاؤ اور اس سے فارغ ہو کر ویلم کی طرف چلے جانا۔ عمر بن سعد نے حضرت امامِ حسین  پر حملے سے انکار کر دیا۔ کیوں کہ عمر بن سعد ،حضرت سعد بن ابی وقاص  جو صحابیٴ رسولﷺ تھے اور عشرہٴ مبشرہ میں سے ہیں،انکا بیٹا تھا ۔
وہ نواسہٴ رسول ﷺ حضرت امامِ حسین  کی فضیلت سے خوب واقف تھا۔

اس لیے اس نے کہا کہ مجھے اس امر کے لیے نہ بھیجیں کیوں کہ میں یہ نہیں کر سکتا۔اور ساتھ ہی اس نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔اس پر ابن ِ زیاد نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہارا استعفیٰ منظور کر لیتا ہوں ۔مگر ا س کے ساتھ ہی میں تمہیں دوسرے علاقوں کی ولایت سے معزول کر دوں گا۔جن پر میں نے تمہیں اپنا نائب بنایا ہے۔عمر بن سعد نے اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے کچھ مہلت مانگی۔
اور پھر اس نے اس معاملے میں جس سے بھی مشورہ کیا اس نے اس کو حضرت امام ِ حسین پر حملہ کرنے سے روکا۔ حتیٰ کہ اس کے بھانجے حمزہ بن مغیرہ نے کہا کہ خدا کے لیے امامِ حسینپرگز لشکر کشی نہ کرنا۔ یہ سراسر اللہ کی نافرمانی اور قطع ِ رحمی ہے۔ خدا کی قسم! اگر تمہیں سارے جہان کی سلطنت سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں تو یہ تمہارے لیے حضرت امامِ حسین کا خون بہانے اور اپنی گردن پر لینے سے زیادہ آسان ہے۔
ابن ِسعد نے کہا کہ انشاء اللہ میں ایسا ہی کروں گا۔مگر جب ابنِ زیاد نے اسے معزول کرنے کے علاوہ قتل کرنے کی دھمکی دی تو وہ چار ہزار کے لشکر کے ہمراہ حضرت امامِ حسین  کی طرف روانہ ہو کر تین محرم کو کربلا پہنچ گیا اور پھر برابر پیچھے سے کمک پہنچتی رہی۔یہاں تک کہ ابن ِ سعد کے پاس بائیس ہزار کا لشکر جمع ہو گیا۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ حضرت امامِ حسین ؓ کے ساتھ کل72 آدمی تھے جن میں بیبیاں اور بچے بھی ہیں ۔
اور پھر جنگ کے ارادے سے بھی نہیں آئے اس لیے لڑائی کا سامان بھی نہیں رکھتے تھے۔مگر اہلِ بیتِ نبوت کی شجاعت اور بہادری کا ابن ِ زیا د کے دل پر اتنا اثر تھا کہ ان کے مقابلے کے لیے بائیس ہزار کا لشکرِ جرار بھیج دیا اور دوگنی چوگنی دس گنا تک کیا سو گنی تعداد کو بھی کافی نہ سمجھا اور کوفہ کے تمام قابل ِ جنگ افراد کو کربلا میں بھیج دیا ۔
پانی بند کرنے کا حکم
عمر بن سعد نے حضرت امامِ حسین کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ تشریف کیوں لائے ؟ آپ  نے فرمایا کہ اہلِ کوفہ نے لکھا تھا کہ میں ان کے پاس آؤں ۔
اب اگر مجھ سے بیزار ہیں تو میں واپس مکہ چلا جاتا ہوں ۔جب ابن ِ سعدکو یہ جواب ملا تو اس نے کہا کہ میری تمنا ہے کہ اللہ کسی طرح مجھے حضرت امامِ حسین  کے خلاف جنگ کرنے سے بچا لے۔ اس لیے اس نے ابنِ زیاد کو لکھ بھیجا کہ حضرت امامِ حسین  اہلِ کوفہ کی ان سے بیزاری سے مکہ واپس جانا چاہتے ہیں ۔لیکن ابنِ زیاد نے جواب دیا کہ امامِ حسین  اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دو اور حسین  سے کہو کہ وہ خود اور ان کے ہمراہی امیر المومنین یزید بن معاویہ کی بیعت کریں۔
جب وہ بات کر لیں گے تو ہم سوچیں گے کہ اب کیا کرنا ہے۔اس پر ابنِ سعد نے عمر و بن حجاج کو پانچ سو سواروں کے ایک دستہ کے ساتھ دریا ِ ئے فرات پر مقرر کر دیا کہ امامِ حسین  اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند ہو جائے۔ یہ امامِ عالی مقام  کی شہادت سے تین دن پہلے یعنی سات محرم کی بات ہے۔حضرت امامِ حسین ؓ نے اپنے بھائی عباس کے ساتھ تیس سوار اور بیس پیدل پانی لینے کے لیے بھیجے ۔عمر و بن حجاج اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مزاحمت کرنے لگا لیکن حضرت عباس اور آپ  کے ساتھی مقابلے کے بعد پانی لینے میں کامیاب ہو گئے ۔ (ابن اثیر، طبری)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی