آج کی بات : اچھی بات سن کر عمل کرو


 

🌟 آج کی بات:

"اچھی بات سُن کر عمل کرو، یہ نہ دیکھو کہ کہنے والا کون ہے"


🔹 1. اسلامی اصول: بات کو دیکھو، ذات کو نہیں

قرآنِ مجید فرماتا ہے:

"فَبَشِّرْ عِبَادِ ٱلَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ ٱلْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"
"اور خوشخبری دے میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو پر عمل کرتے ہیں" (الزمر: 17-18)

یعنی:

  • اہلِ ایمان کی پہچان یہ ہے کہ وہ بات کی اچھائی پر نظر رکھتے ہیں

  • نہ کہ بولنے والے کی ذات، منصب یا شہرت پر


🔹 2. سیرتِ نبوی ﷺ — حق جہاں بھی ہو، اپنایا

نبی کریم ﷺ نے نہ صرف حق بات کو سراہا
بلکہ غیر مسلموں کی کبھی کبھی سچائی پر بھی رد نہ کیا
مثال:

  • صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت ابوسفیان (اس وقت مسلمان نہ تھے) کی بات میں وزن ہو تو رسول اللہؐ نے سنا اور حکمت سے جواب دیا

  • حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے کہا: "کئی بار میرے مخالف نے درست بات کی"


🔹 3. تاریخی حکمت: فرعون کا وزیر بھی حق بات کہہ سکتا ہے

حضرت موسیٰؑ کے قصے میں ایک موقع پر فرعون کے دربار میں ایک مؤمن شخص کہتا ہے:

"أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ ٱللَّهُ؟"
"کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرو گے جو صرف یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟" (المؤمن: 28)

یہ شخص فرعونی نظام کا فرد تھا، مگر اس کی بات سچائی پر مبنی تھی
اور قرآن نے اسے محفوظ کر کے ہمیشہ کے لیے حق پر مبنی بات کا نمائندہ بنا دیا۔


🔹 4. شخصیت پرستی: ایک مہلک بیماری

جب ہم یہ کہتے ہیں:

  • "یہ تو فلاں فرقے کا ہے"

  • "یہ تو عام آدمی ہے"

  • "یہ بات فلاں کے منہ سے؟"

تو ہم بات کے وزن کی بجائے بولنے والے کا لباس تول رہے ہوتے ہیں
یہ رویہ علم، حکمت اور خیر سے دوری کا سبب بنتا ہے۔


📜 موضوع سے ہم آہنگ اشعار

1️⃣

بات نیکی کی ہے تو کر لے قبول
کیسے بھی ہو، اگر آئینہ ہے تو جھانک لے ضرور!


2️⃣

کبھی حق چھپا نہیں چہرے کے پیچھے
کبھی شر عیاں ہے عالم کے لفظ میں


🔹 5. حضرت علیؓ کا قول:

"حق کو پہچانو، تمہیں اہلِ حق بھی پہچان میں آ جائیں گے"

یعنی شخصیت پرستی کی بجائے حق کو معیار بنا لو
پھر حق والے خود تمہیں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔


🔹 6. صوفیانہ نقطہ نظر:

صوفیاء کرام فرمایا کرتے:

"کبھی کسی فقیر کی بات میں وہ خزانہ ہوتا ہے جو عالموں کی کتابوں میں نہیں ہوتا"

بات اگر حق پر مبنی ہو، دل کو لگے، قرآن و سنت کے مطابق ہو
تو عمل میں تاخیر نہ کرو،
چاہے وہ بچہ کہے یا بوڑھا، فقیر کہے یا فلاسفر۔


نتیجہ:

بات اگر نیکی، سچائی، خیر، رشد کی طرف بلا رہی ہو —
تو اسے رد کرنا، ذات پرستی ہے

کیونکہ:
کلام کا معیار، کلام کی روشنی ہے — نہ کہ قائل کی پوزیشن


🌱 دعوتِ فکر:

"اگر تم اچھی بات کو صرف اس لیے چھوڑ دو کہ وہ تمہارے مخالف نے کہی ہے،
تو تم حق کے دشمن ہو — شخص کے نہیں"

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی