╰★☆☆彡 آبُوالڑیں، لڑے ہماری بلا彡☆☆★╮
ضرب المثل
(تلفظ: آ-بُوا-لڑیں، لَڑے-ہماری-بَلا)
▄︻デ معانی و مفہوم ══━一
یہ محاورہ بے نیازی، لاپرواہی اور کسی معاملے سے دُور رہنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔
یعنی "کوئی اور لڑے، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم تو اس جھگڑے سے الگ ہیں۔"
▄︻デ موقع و محل ══━一
جب کوئی دو یا زیادہ افراد آپس میں جھگڑ رہے ہوں، اور کوئی تیسرا شخص یہ ظاہر کرے کہ وہ اس جھگڑے سے لاتعلق ہے یا بننا چاہتا ہے، وہاں یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔
مثال:
دو محلے دار آپس میں زمین کے تنازعے پر جھگڑ رہے تھے، تب قاسم نے کہا:
"بھئی، آبُوالڑیں، لڑے ہماری بلا۔ ہم کیوں بیچ میں پڑیں؟"
▄︻デ تاریخی پس منظر / واقعہ ══━一
یہ محاورہ برصغیر کے دیہی معاشرے میں بہت رائج تھا، خاص طور پر پنجاب اور اتر پردیش کے علاقوں میں۔
کسی زمانے میں گاؤں کے لوگ لڑائی جھگڑوں میں اکثر مداخلت کرتے، پھر جب انہیں نقصان پہنچتا تو دوسرے لوگ ان پر طنزاً کہتے:
"بھئی، آبُوالڑیں، لڑے تمہاری بلا کیوں؟ بیچ میں کیوں کودے؟"
اسی مزاج سے یہ محاورہ بنا کہ سمجھ دار وہی ہے جو تماشائی بن کر رہے۔
▄︻デ پُرلطف قصہ ══━一
عنوان: ’’چوہدری کا صلح کار‘‘
گاؤں کے دو بڑے خاندانوں — چاچا برکت اور حاجی رحمت — میں مرغی کے انڈے پر جھگڑا ہو گیا۔ حاجی کے صحن میں برکت کی مرغی انڈا دے بیٹھی تھی، اب دونوں فریق انڈے کے مالک بننے پر بضد تھے۔
گاؤں کے سب مرد اکھٹے ہو گئے۔ کسی نے کہا:
"مرغی چاچا برکت کی ہے، انڈا بھی اُس کا!"
دوسرا بولا:
"لیکن انڈا حاجی کے صحن میں ہے، تو اب حاجی کا ہوا!"
ادھر چوہدری غلام حسین، جو ہمیشہ خود کو عقلمند کہتا، سب تماشہ دیکھ رہا تھا۔ جب لوگوں نے کہا:
"چوہدری جی! فیصلہ کیجیے!"
تو اُس نے مونچھوں کو تاؤ دے کر فرمایا:
"آبُوالڑیں، لڑے ہماری بلا! نہ انڈا ہمارا، نہ مرغی! تم آپس میں طے کرو، میں تو دودھ پینے آیا تھا۔"
سب ہنسنے لگے اور پھر آپس میں ہی صلح کر لی۔ بعد میں کسی نے چوہدری سے پوچھا:
"چوہدری جی، آپ نے بیچ بچاؤ کیوں نہ کرایا؟"
کہنے لگا:
"بھئی، انڈے کے پیچھے میری عزت کا انڈا نہ خراب ہو جاتا!"