ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋-سورہ یوسف آیت نمبر 70🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَایَةَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْهِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُهَا الْعِیْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ
ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 لفظی ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
فَلَمَّا : پھر جب جَهَّزَهُمْ : انہیں تیار کردیا بِجَهَازِهِمْ : ان کا سامان جَعَلَ : رکھ دیا السِّقَايَةَ : پینے کا پیالہ فِيْ : میں رَحْلِ : سامان اَخِيْهِ : اپنا بھائی ثُمَّ : پھر اَذَّنَ : اعلان کیا مُؤَذِّنٌ : منادی کرنیوالا اَيَّتُهَا الْعِيْرُ : اے قافلے والو اِنَّكُمْ : بیشک تم لَسٰرِقُوْنَ : البتہ چور ہو
ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
پھر جب یوسف نے ان کا سامان تیار کردیا تو پانی پینے کا پیالہ اپنے (سگے) بھائی کے کجاوے میں رکھوا دیا، پھر ایک منادی نے پکار کر کہا کہ : اے قافلے والو ! تم چور ہو، (46)۔
ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 تفسیر 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
46: یہاں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود اپنی طرف سے پیالہ ان کے سامان میں رکھنے کے بعد اتنے و ثوق کے ساتھ ان کو چور قرار دینا کیسے جائز ہوسکتا ہے اس کے جواب میں بعض حضرات نے تو یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے پیالہ خفیہ طور پر رکھوایا تھا اور عملے کے لوگوں کو پیالہ نہ ملا تو انہوں نے اپنی طرف سے ان لوگوں کو چور قرار دیا۔ حضرت یوسف ؑ کے حکم سے نہیں ۔ لیکن جس سیاق میں قرآن کریم نے یہ واقعہ بیان فرمایا ہے۔ اس میں یہ احتمال بہت بعید معلوم ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کو چور قرار دینا ایک توریہ تھا اور ان کو چور اس معنی میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے حضرت یوسف ؑ کو بچپن میں اپنے والد سے چرا لیا تھا۔ تیسرے بعض مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ یہ تدبیر چونکہ خود اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو سکھائی تھی جس یا کہ آگے آیت 76 میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ اس طرح ہم نے یوسف کی خاطر یہ تدبیر کی اس لیے جو کچھ ہوا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا۔ اور جس طرح سورة کہف میں حضرت خضر ؑ نے کئی کام بظاہر شریعت کے خلاف کیے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم سے تھے۔ اس لیے ان کے لیے جائز تھے۔ اسی طرح یہاں حضرت یوسف ؑ نے جو عمل کیا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا، اس لیے ان پر کوئی اشکال نہیں ہونا چاہیے۔