🌴⑭🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌⑭⚔️
مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
خراسان کی فتح اور یزدگرد کی ہزیمت۲۳ ہجری (644 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(علامہ بلاذری کے نزدیک تمام ماورا النہر فرغانہ، خوارزم، طخارستان اور سیستان کا رقبہ خراسان میں داخل تھا مگر اصل یہ ہے کہ اس کے حدود ہر زمانے میں مختلف رہے ہیں۔ اس کے مشہور شہر نیشاپور، مرو، ہرات، بلخ، طوس فسا اور ابی درد وغیرہ تھے۔ جن میں سے پچھلے با بالکل ویران ہیں۔ )
اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن جن افسروں کو ملک گیری کے علم بھیجے تھے ان میں احتف بن قیس بھی تھے۔ اور ان کو خراسان کا علم عنایت ہوا تھا۔ احتف نے 22 ہجری میں خراسان کا رخ کیا۔ طیسن ہو کر ہرات پہنچے اور اس کو فتح کر کے مرد شاہجہان پر بڑھے ، یزدگر شاہنشاہ فارس یہیں مقیم تھا۔ ان کی آمد سن کر مرور رود چلا گیا۔ اور خاقان چین اور دیگر سلاطین کو استمداد کے نامے لکھے۔ احتف نے مرد شاہجہان پر حارثہ بن النیمان باہلی چھوڑا اور خود مرورود کی طرف بڑھے۔ یزدگرد یہاں سے بھی بھاگا۔ اور سیدھا بلخ پہنچا۔ اس اثناء میں کوفہ سے امدادی فوجیں آ گئیں جس سے میمنہ و میسرہ وغیرہ کے افسر علقمہ بن الضری، ربعی بن عامر التمیمی، عبد اللہ بن ابی عقیل السقنی ابن ام غزال الہمدانی تھے۔ احتف نے تازہ دم فوج لے کر بلخ پر حملہ کیا۔ یزدگرد نے شکست کھائی اور دریا اتر کر خاقان کی حکومت میں چلا گیا۔ احتف نے میدان خالی پا کر ہر طرف فوجیں بھیج دیں اور نیشاپور طخارستان تک فتح کر لیا۔ مرورود کو تخت گاہ قرار دے کر مقام کیا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامہ لکھا کہ خراسان اسلام کے قبضہ میں آ گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتوحات کی وسعت کو چنداں پسند نہیں کرتے تھے۔ خط پڑھ کر فرمایا کہ ہمارے اور خراسان کے بیچ میں آگ کا دریا حائل ہوتا تو خوب ہوتا، احتف کے مردانہ حوصلوں کی اگرچہ تعریف کی اور فرمایا کہ احتف شرقیوں کا سرتاج ہے۔ تاہم جواب نامہ میں لکھا کہ جہاں تک پہنچ چکے ہو وہاں سے آگے نہ بڑھنا، ادھر یزدگرد خاقان کے پاس گیا اور اس نے بڑی عزت و توقیر کی۔ اور ایک فوج کثیر ہمراہ لے کر یزدگرد کے ساتھ خراسان روانہ ہوا۔ احتف جو بیس ہزار فوج کے ساتھ بلخ میں مقیم تھے ، خاقان کی آمد سن کر مرورد کو روانہ ہوا۔ اور وہاں پہنچ کر مقام کیا۔ خاقان بلخ ہوتا ہوا مرورود پہنچا۔ یزدگرد سے الگ ہو کر مروشاہجہان کی طرف بڑھا۔ احتف نے کھلے میدان میں مقابلہ کرنا مناسب نہ سمجھا، نہر اتر کر ایک میدان میں جس کی پشت پر پہاڑ تھا، صف آرائی کی۔ دونوں فوجیں مدت تک آمنے سامنے صفیں جمائے پڑی رہیں۔
صبح اور شام ساز و سامان سے آراستہ ہو کر میدان جنگ میں جاتے تھے۔ اور چونکہ ادھر سے کچھ جواب نہیں دیا جاتا تھا۔ بغیر لڑے واپس آ جاتے تھے۔ ترکوں کا عام دستور ہے کہ پہلے تین بہادر جنگ میں باری باری طبل و دمامہ کے ساتھ جاتے ہیں پھر سارا لشکر جنبش میں آتا ہے۔ ایک دن احنف خود میدان میں گئے ، ادھر سے معمول کے موافق ایک طبل و علم کے ساتھ نکلا۔ احنف نے حملہ کیا۔ اور دیر تک رد و بدل رہی۔ آخر احنف نے جوش میں آ کر کہا۔
ان علی کل رئیس حقا
ان یخضب الصعدۃ او یندقا
قاعدے کے موافق دو اور بہادر ترک میدان میں آئے اور احنف کے ہاتھ سے مارے گئے۔ خاقان جب خود میدان میں آیا تو اس نے بہادروں کی لاشیں میدان میں پڑی دیکھیں، چونکہ شگون بُرا تھا۔ نہایت پیچ و تاب کھایا اور فوج سے کہا کہ ہم بے فائدہ پرایا جھگڑا کیوں مول لیں۔ چنانچہ اسی وقت کوچ کا حکم دے دیا۔
یزد گرد مرد شاہجہان کا محاصرہ کئے پڑا تھا کہ یہ کبر پہنچی، فتح سے ناامید ہو کر خزانہ اور جواہر خانہ ساتھ لیا اور ترکستان کا قصد کیا۔ درباریوں نے یہ دیکھ کر ملک کی دولت ہاتھ سے نکلی جاتی ہے۔ روکا اور جب اس نے نہ مانا تو برسر مقابل آ کر تمام مال اور اسباب ایک ایک کر کے چھین لیا۔ یزدگرد بے سر و سامان خاقان کے پاس پہنچا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اخیر خلافت تک فرغانہ میں جو خاقان کا دارالسلطنت تھا، مقیم رہا۔ احنف نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فتح نامہ لکھا۔ قاصد مدینہ پہنچا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام آدمیوں کو جمع کر کے مژدہ فتح سنایا۔ اور ایک پُر اثر تقریر کی۔ آخر میں فرمایا کہ آج مجوسیوں کی سلطنت برباد ہو گئی۔ اور اب وہ اسلام کو کسی طرح ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن اگر تم بھی راست کر داری پر ثابت قدم نہ رہے تو خدا تم سے بھی حکومت چھین کر دوسروں کے ہاتھ میں دے دے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
مصر کی فتح 20 ہجری (641 ء)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
مصر کی فتح اگرچہ فاروقی کارناموں میں داخل ہے۔ لیکن اس کے بانی مبانی عمرو بن العاص تھے وہ اسلام سے پہلے تجارت کا پیشہ کرتے تھے۔ اور مصر ان کی تجارت کا جولا نگاہ تھا۔ اس زمانے میں مصر کی نسبت گو اس قسم کا خیال بھی ان کے دل میں نہ گزرا ہو گا۔ لیکن اس کی زرخیزی اور شادابی کی تصویر ہمیشہ ان کی نظر میں پھرتی رہتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام کو جا اخیر سفر کیا اس میں یہ ان سے ملے اور مصر کی نسبت گفتگو کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے احتیاط کے لحاظ سے انکار کیا۔ لیکن آخر ان کے اصرار پر راضی ہو گئے۔ اور چار ہزار فوج ساتھ کر دی۔ اس پر بھی ان کا دل مطمئن نہ تھا۔ عمرو سے کہا کہ خدا کا نام لے کر روانہ ہو۔ لیکن مصر پہنچنے سے پہلے اگر میرا خط پہنچ جائے تو الٹے پھر آنا۔ عریش پہنچے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط پہنچا۔ اگرچہ اس میں آگے بڑھنے سے روکا تھا۔ لیکن چونکہ شرطیہ حکم تھا۔ عمرو نے کہا اب تو ہم مصر کی حد میں آ چکے ہیں۔ (مقریزی وغیرہ میں لکھا ہے کہ قاصد مقام رفج میں عمرو سے ملا۔ انہوں نے اس خیال سے کہ آگے بڑھنے سے منع کیا ہو گا قاصد سے خط نہیں لیا اور کہا کہ جلدی کیا ہے منزل پر پہنچ کر لے لوں گا۔ عریش کے قریب پہنچے تو خط لے کر کھولا اور پڑھا اور کہا کہ امیر المومنین نے لکھا ہے کہ “مصر نہ پہنچ چکے ہو تو رک جانا۔ ” لیکن ہم تو مصر کی حد میں آ چکے ہیں لیکن عمرو بن العاص کی نسبت ایسی حیلہ بازی کے اتہام کی کیا ضرورت ہے۔ اولاً تو بلاذری وغیرہ نے تصریح کی ہے کہ خط ان کو عریش ہی میں ملا لیکن رفج ملا ہو تو بھی حرج نہیں کیونکہ رفج خود مصر میں داخل ہے )۔
غرض عریش سے چل کر فرما پہنچے ، یہ شہر بحر روم کے کنارے پر واقع ہے۔ اور گو اب ویران پڑا ہے لیکن اس زمانے میں آباد تھا۔ اور جالینوس کی زیارت گاہ ہونے کی وجہ سے ایک ممتاز شہر گنا جاتا تھا۔ یہاں سرکاری فوج رہتی تھی۔ اس نے شہر سے نکل کر مقابلہ کیا۔ اور ایک مہینے تک معرکہ کارزار گرم رہا۔ بالآخر رومیوں نے شکست کھائی۔ عمرو فرما سے چل کر بلبیس، اور ام دنین کو فتح کرتے ہوئے فسطاط پہنچے۔ فسطاط اس زمانے میں کف دست میدان تھا۔ اور اس قطعہ زمین کا نام تھا، جو دریائے نیل اور جب مقطم کے بیچ میں واقع ہے۔ اور جہاں اس وقت زراعت کے کھیت یا چراگاہ کے تختے تھے لیکن چونکہ یہاں سرکاری قلعہ تھا، اور رومی سلطنت کے حکام جو مصر میں رہتے تھے یہیں رہا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ چونکہ دریائے نیل پر واقع تھا، اور جہاز اور کشتیاں قلعہ کے دروازے پر آ کر لگتی تھیں۔ ان وجوہ سے سرکاری ضرورتوں کے لیے نہایت مناسب مقام تھا۔ عمرو نے اول اسی کو تاکا اور محاصرہ کی تیاریاں کیں۔ مقوقس جو مصر کا فرمانروا اور قیصر کا باجگزار تھا، عمرو بن العاص سے پہلے قلعہ میں پہنچا تھا اور لڑائی کا بندوبست کر رہا تھا۔ قلعہ کی مضبوطی اور فوج کی قلت کو دیکھ کر عمرو نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا۔ اور اعانت طلب کی۔ انہوں نے دس ہزار فوج اور چار افسر بھیجے اور خط میں لکھا کہ ان افسروں میں ایک ایک ہزار ہزار سوار کے برابر ہے۔ یہ افسر زبیر بن العوام، عبادہ بن الصامت، مقداد بن عمرو، سلمہ بن مخلد تھے۔ زبیر کا جو رتبہ تھا اس کے لحاظ سے عمرو نے ان کو افسر بنایا۔ اور محاصرہ وغیرہ کے انتظامات ان کے ہاتھ میں دیئے۔ انہوں نے گھوڑے پر سوار ہو کر خندق کے چاروں طرف چکر لگایا۔ اور جہاں جہاں مناسب تھا، مناسب تعداد کے ساتھ سوار اور پیادے متعین کئے۔ اس کے ساتھ منجیقوں سے پتھر برسانے شروع کئے۔ اس پر پورے ساتھ مہینے گزر گئے اور فتح و شکست کا کچھ فیصلہ ہوا۔ زبیر نے ایک دن تنگ آ کر کہا آج میں مسلمانوں پر فدا ہوتا ہوں۔ یہ کہہ کر ننگی تلوار ہاتھ میں لی اور سیڑھی لگا کر قلعہ کی فصیل پر چڑھ گئے۔ چند اور صحابہ نے ان کا ساتھ دیا۔ فصیل پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ تکبیر کے نعرے بلند کئے۔ ساتھ ہی تمام فوج نے نعرہ مارا کہ قلعہ کی زمین دہل اٹھی۔ عیسائی یہ سمجھ کر کہ مسلمان قلعہ کے اندر گھس آئے۔ بدحواس ہو کر بھاگے۔ زبیر نے فصیل سے اتر کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور تمام فوج اندر گھس آئی۔ مقوقس نے یہ دیکھ کر صلح کی درخواست کی۔ اور اسی وقت سب کو امان دے دی گئی۔
ایک دن عیسائیوں نے عمرو بن العاص اور افسران فوج کی دھوم دھام سے دعوت کی۔ عمرو بن العاص نے قبول کر لی۔ اور سلیقہ شعار لوگوں کو ساتھ لے گئے۔
دوسرے دن عمرو نے ان لوگوں کی دعوت کی۔ رومی بڑے تزک و احتشام سے آئے۔ اور مخملی کرسیوں پر بیٹھے۔ کھانے میں خود مسلمان بھی شریک تھے۔ اور جیسا کہ عمرو نے پہلے سے حکم دیا تھا سادہ عربی لباس میں تھے۔ اور عربی انداز اور عادات کے موافق کھانے بیٹھے ، کھانا بھی سادہ یعنی معمولی گوشت اور روٹی تھی۔ عربوں نے کھانا شروع کیا تو گوشت کی بوٹیاں شوربے میں ڈبو ڈبو کر اس زور سے دانتوں سے نوچتے تھے کہ شوربے کے بھینٹیں اڑ کر رومیوں کے کپڑوں پر پڑتی تھیں۔ رومیوں نے کہا کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو کل ہماری دعوت میں تھے۔ یعنی وہ ایسے گنوار اور بے سلیقہ نہ تھے۔ عمرو نے کہا ” وہ اہل الرائے تھے ، اور یہ سپاہی ہیں۔ “
مقوقس نے اگرچہ تمام مصر کے لئے معاہدہ صلح لکھوایا تھا۔ لیکن ہرقل کو جب خبر ہوئی تو اس نے نہایت ناراضگی ظاہر کی اور لکھ بھیجا کہ قبطی اگر عربوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے تو رومیوں کی تعداد کیا کم تھی۔ اسی وقت ایک عظیم فوج روانہ کی کہ اسکندریہ پہنچ کر مسلمانوں کے مقابلے کے لئے تیار ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*