گزشتہ صدیوں میں نوآبادیاتی طاقتوں نے دنیا کے وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے بندوق، توپ اور بحری بیڑوں کا استعمال کیا۔ آج کے دور میں یہ قبضہ ٹینکوں یا جہازوں کے ذریعے نہیں، بلکہ "مصنوعی ذہانت (AI)" کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ آج کا سب سے مہنگا، سب سے بااثر اور سب سے خطرناک ہتھیار — ڈیٹا اور الگورتھمز ہیں۔
مصنوعی ذہانت: ڈیجیٹل نوآبادیات کا آغاز
مصنوعی ذہانت، ایک ایسا شعبہ جس کا مقصد انسان کے ذہن کی نقل تیار کرنا ہے، اب صرف سائنسی یا تجارتی سطح تک محدود نہیں رہا۔ یہ عالمی سیاست کا ایک مرکزی میدان بن چکا ہے۔ امریکہ، چین، اسرائیل اور دیگر طاقتور ممالک اس میدان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ وہ مستقبل کی عالمی حکمرانی اپنے ہاتھ میں رکھ سکیں۔
AI ماڈلز، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور ڈیٹا سرورز وہ جدید نوآبادیاتی آلات ہیں جن کے ذریعے ایک ملک، دوسرے ملک کی رائے، معیشت، سلامتی اور حتیٰ کہ سوچنے کے انداز پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کا عالمی کنٹرول ماڈل
امریکہ اور اسرائیل نے پچھلی دہائی میں دنیا بھر کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر ایک گرفت قائم کر لی ہے۔ Google، Facebook، Amazon، OpenAI، Palantir اور دیگر ادارے صرف کاروباری ادارے نہیں بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بھی ہیں۔ ان کے ذریعے دنیا کے ڈیٹا کو کنٹرول کیا جا رہا ہے، اور اس ڈیٹا کی مدد سے AI ماڈلز کو تربیت دی جا رہی ہے جو پالیسی سازی، جنگی حکمت عملی، اور رائے عامہ کو تشکیل دے سکتے ہیں۔
جب کوئی غیر مغربی ملک — جیسے چین — ان میدانوں میں خودمختاری کی طرف بڑھتا ہے، تو امریکہ فوراً پابندیاں لگانے، بلیک لسٹ کرنے یا چپ فراہمی روکنے جیسے اقدامات کرتا ہے۔ Huawei، TikTok، اور اب DeepSeek کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔
چین کا چیلنج: مصنوعی ذہانت ہر کسی کے لیے
چین نے AI کو صرف طاقتوروں کے ہتھیار کی بجائے عام عوام کے لیے ایک سہولت بنانے کا وژن اپنایا ہے۔ DeepSeek جیسے low-cost language models اس کا ثبوت ہیں، جنہوں نے مفت اور سستا متبادل دے کر مغربی اجارہ داری کو چیلنج کر دیا ہے۔ یہ صرف ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی ٹکراؤ ہے — "AI سب کے لیے یا صرف طاقتوروں کے لیے؟"
پابندیاں: جدید دور کی غلامی
پابندیاں اب صرف معاشی دباؤ نہیں، بلکہ ایک سیاسی ہتھیار ہیں۔ جن ممالک یا کمپنیوں کو مغربی بیانیے سے اختلاف ہو، ان پر پابندیاں لگا کر انہیں ٹیکنالوجی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی "نرم غلامی" ہے جہاں جنگ نہیں ہوتی، مگر سوچ، آزادی اور خودمختاری چھینی جاتی ہے۔
آگے کا راستہ: ڈیجیٹل خود مختاری کی جدوجہد
اگر قومیں واقعی آزاد اور خودمختار ہونا چاہتی ہیں، تو انہیں:
اپنا ڈیٹا خود کنٹرول کرنا ہو گا
مقامی AI ماڈلز پر سرمایہ کاری کرنی ہو گی
اور عالمی بیانیے میں اپنا نکتہ نظر شامل کرنا ہو گا
اسلامی دنیا، افریقہ، لاطینی امریکہ — سب کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ AI کو ایک نئے آقا کے زیرِسایہ قبول کریں گے یا اپنی شناخت، نظریات اور اقدار کے مطابق ایک متبادل نظام قائم کریں گے۔
مصنوعی ذہانت کی یہ جنگ صرف کوڈز اور چِپس کی جنگ نہیں — یہ مستقبل کی آزادی اور غلامی کے بیچ ایک فیصلہ کن معرکہ ہے۔