🌻 *اَذان کے دوران سحری بند کرنے سے متعلق ایک حدیث کا صحیح مطلب*


 🌻 *اَذان کے دوران سحری بند کرنے سے متعلق ایک حدیث کا صحیح مطلب*


آجکل ایک حدیث شریف ذکر کرکے یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ فجر کی اذان کے دوران بھی کھا پی کر سحری بند کرنا درست ہے، حالاں کہ یہ بات دلائل کی رو سے درست نہیں۔ ذیل میں اس حدیث شریف کا صحیح مفہوم واضح کرکے اس غلط فہمی کا ازالہ کیا جارہا ہے۔ 

📿 *فجر کی اذان کے دوران سحری بند کرنے کا حکم:*
1️⃣ قرآن وسنت کے واضح دلائل سے یہ بات بخوبی ثابت ہوتی ہے کہ سحری کا وقت رات ہی کو ہے، جیسے ہی رات ختم ہوجائے اور صبح صادق کا وقت داخل ہوجائے تو اس کے بعد سحری کرنا ناجائز ہے، ایسی صورت میں روزہ درست نہیں ہوتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم سورۃ البقرۃ آیت نمبر 187 میں سحری اور افطاری سے متعلق فرماتے ہیں کہ:
وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى اللَّيْلِ.
▪️ *ترجمہ:* ’’اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح (نہ) ہوجائے، اس کے بعد رات آنے تک روزے  پورے کرو۔‘‘ (آسان ترجمہ قرآن)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رات کو سیاہ دھاگے، جبکہ صبح صادق کو سفید دھاگے سے تشبیہ دی ہےاور کھانے پینے کی آخری حدّ بھی بیان فرمادی ہے کہ اُس وقت تک کھاتے پیتے رہو جب تک صبح صادق طلوع نہ ہوجائے۔ اور خود نبی کریم ﷺ نے بھی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یوں فرمایا کہ: ’’سیاہ دھاگے سے مراد رات کی تاریکی ہے، جبکہ سفید دھاگے سے مراد دن کی روشنی ہے۔‘‘
☀ صحيح البخاري:
4510- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ؟ أَهُمَا الْخَيْطَانِ؟ قَالَ: 
«إِنَّكَ لَعَرِيضُ الْقَفَا إِنْ أَبْصَرْتَ الْخَيْطَيْنِ»، ثُمَّ قَالَ: «لَا، بَلْ هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ».
اس آیت مبارکہ اور حدیث شریف کا واضح مطلب یہ ہے کہ سحری کھانا رات ہی کو درست ہے، اور جب صبح صادق طلوع ہوجائے تو اس کے بعد سحری کرنا جائز نہیں۔ اس آیت سے سحری کا آخری وقت بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ سحری رات ہی کو بند کرنی ضروری ہے،اور اس سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ سحری بند کرنے کا تعلق صبح صادق کے ساتھ ہے نہ کہ اذان کے ساتھ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اذان بھلے نہ ہوئی ہو لیکن صبح صادق ہوچکی ہو تو اس کے بعد کھانا پینا جائز نہیں۔
2️⃣ سورۃ البقرہ کی مذکورہ  آیت کو امت کے ائمہ اربعہ اور جمہور اہلِ علم نے ایک متفق علیہ اصول قرار دیا ہے، اور ان کے نزدیک یہی راجح اور درست ہے کہ سحری بند کرنے کا تعلق رات کے ساتھ ہے نہ کہ دن کے ساتھ، اور صبح صادق طلوع ہوجانے کے بعد سحری کھانا ناجائز ہے، جیسا کہ حضرت علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ ’’سنن ابی داود‘‘ کے حاشیہ میں فرماتے ہیں کہ:
وذهب الجمهور إلى امتناع السحور بطلوع الفجر، وهو قول الأئمة الأربعة وعامة فقهاء الأمصار.
یعنی کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ صبح صادق طلوع ہوجانے کے بعد سحری کھانا ناجائز ہے، یہی چاروں ائمہ مجتہدین اور دیگر فقہائے عظام  کا مذہب ہے۔
3️⃣ ماقبل کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ صبح صادق کا وقت داخل ہوجانے کے بعد سحری کرنا ناجائز ہے، اور چوں کہ فجر کی اذان صبح صادق طلوع ہوجانے کے بعد دی جاتی ہے، اس لیے فجر کی اذان کے دوران کھانے پینے اور سحری بند کرنے سے روزہ نہیں ہوتا۔
مذکورہ مسئلے کی مزید مدلل تفصیل بندہ کے رسالے ’’روزے کے مسائل‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔

📿 *اذان کے دوران سحری بند کرنے سے متعلق ایک حدیث شریف کا درست مفہوم:*
مذکورہ مسئلے سے متعلق  بعض لوگ ’’سنن ابی داود‘‘ کی ایک حدیث شریف پیش کرتے ہیں کہ: ’’جب تم میں سے کوئی شخص اذان کی آواز سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس کو نہ رکھے بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے۔‘‘ 
2352- حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِى سَلَمَةَ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِىَ حَاجَتَهُ مِنْهُ».
اور وہ لوگ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فجر کی اذان کے دوران بھی کھا پی کر سحری بند کی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ واضح غلط فہمی ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے چند باتیں ذکر کی جاتی ہیں:
1️⃣ جب قرآن وسنت کے واضح دلائل کی روشنی میں صبح صادق کے بعد دی جانے والی فجر کی اذان کے دوران سحری کرنا جائز نہیں تو پھر مذکورہ حدیث کا ایسا مطلب بیان کرنا کہ جو اِن واضح دلائل کے خلاف ہویا ان کے مابین ٹکراؤ کی صورت پیدا کرے، ظاہر ہے کہ یہ طرزِ عمل ہرگز درست نہیں، اور نہ ہی یہ شریعت کا تقاضا ہوسکتا ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
2️⃣ مذکورہ حدیث سے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ اس حدیث میں کوئی بھی ایسا لفظ نہیں ہے کہ جس سے واضح طور پر یہ معلوم ہورہا ہو کہ اس حدیث کا تعلق سحری بند کرنے کے ساتھ ہے، یعنی نہ تو اس حدیث میں فجر کا لفظ ہے، نہ سحری کا لفظ ہے اور نہ ہی اس میں روزے اور رمضان کا لفظ ہے۔ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اس سے سحری ہی مراد لینا کسی طرح درست نہیں، بلکہ یہ لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے والی بات ہے۔
3️⃣ یہی وجہ ہے کہ جمہور ائمہ مجتہدین اور فقہائے امت نے اس حدیث سے یہ معنی مراد لیا ہی نہیں کہ صبح صادق کے بعد فجر کی اذان کے دوران بھی کھا پی کر سحری بند کی جاسکتی ہے، بلکہ حضرات اہلِ علم نے اس حدیث کے متعدد معانی بیان فرمائے ہیں، تاکہ اس حدیث شریف کا قرآن کریم کے واضح اصول اور دیگر احادیث سے ٹکراؤ بھی پیدا نہ ہو اور اس حدیث کا صحیح مطلب بھی واضح ہوسکے۔ چنانچہ بعض اہلِ علم فرماتے ہیں کہ  اس حدیث کا تعلق عام اذان کے ساتھ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ: جب تم میں سے کوئی اذان کی آواز سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس کو نہ رکھے بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے، یعنی اذان ہوجانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اذان کی وجہ سے عام کھانا پینا چھوڑ دے اور اذان کا جواب دے بلکہ وہ اس دوران بھی کھا پی سکتا ہے، گویا کہ یہ حدیث عام اذان اور عام کھانے پینے سے متعلق ہے۔ اسی طرح بعض حضرات اہلِ علم نے مذکورہ حدیث سے اسی معنی میں تکبیر یعنی اقامت مراد لی ہے کیوں کہ اقامت کو بھی اذان کہا جاسکتا ہے جیسا کہ احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
اور اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ اس حدیث کا تعلق سحری کے ساتھ ہے تو ایسی صور ت  میں اس کا ایک معنی بعض اہلِ علم نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص سحری کررہا ہو اور اسی دوران فجر کی اذان شروع ہوجائے لیکن اس کو صبح صادق طلوع ہونے کا یقین نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ اس اذان کے دوران بھی کھا پی سکتا ہے کیوں کہ اس اذان کا صبح صادق کے بعد ہونا یقینی نہیں، بلکہ مشکوک ہے تو ایسی صورت میں اس کے لیے گنجائش ہے کہ وہ اس اذان کے دوران کھا پی کر سحری بند کرلے، لیکن جہاں یقین ہوجائے کہ صبح صادق کا وقت داخل ہوچکا ہے اور اس کے بعد اذان شروع ہوجائے تو ایسی صورت میں اذان کے دوران کھانا پینا جائز نہیں۔ 
جبکہ اس حدیث کا دوسرا معنی متعدد اکابرِ امت نے یہ بیان کیا ہے کہ اس حدیث کا تعلق اُس اذان کے ساتھ ہے جو کہ صبح صادق سے پہلے دی گئی ہو، کیوں کہ حضور اقدس ﷺ کے مبارک دور میں دو اذانیں دینے کا رواج رہا: ایک اذان صبح صادق سے کافی پہلے جو کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ دیتے تھے، اور دوسری اذان صبح صادق کے بعد جو کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دیتے تھے، جس کا ذکر متعدد احادیث میں آیا ہے، اور جب صبح صادق سے پہلے بھی ایک اذان دی جانے کا رواج تھا تو ایسی صورت حال میں حضور اقدس ﷺ نے اس حدیث میں سحری سے متعلق یہ حکم واضح فرمادیا تاکہ لوگ غلطی میں مبتلا نہ ہوں کہ جب یہ صبح صادق سے پہلے دی جانے والی اذان شروع ہوجائے اور تمہارے ہاتھ میں کھانے پینے کا برتن ہو تو اس صورت میں تم کھا پی کر سحری کرسکتے ہو کیوں کہ ابھی تک صبح صادق طلوع نہیں ہوئی ہے بلکہ ابھی رات باقی ہے۔ چنانچہ ’’صحیح مسلم‘‘ کی حدیث ہے کہ: 
’’إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى تَسْمَعُوا تَأْذِينَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ.‘‘
(صحیح مسلم حديث: 1092)
یعنی کہ بلال رات کو اذان دیتے ہیں، اس لیے اس وقت تک کھا پی سکتے ہو جب تک ابن ام مکتوم کی اذان نہ ہوجائے، (کیوں کہ وہ فجر طلوع ہوجانے کے بعد اذان دیتے تھے۔)
اسی طرح ’’صحیح مسلم‘‘ کی ایک اور حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے کہ:
’’لَا يَغُرَّنَّكُمْ نِدَاءُ بِلَالٍ وَلَا هَذَا الْبَيَاضُ حَتَّى يَبْدُوَ الْفَجْرُ.‘‘ 
(صحیح مسلم حدیث: 1094)
یعنی کہ تمہیں بلال کی اذان اور صبح کاذب کہیں غلطی میں نہ ڈال دیں یہاں تک کہ فجر طلوع نہ ہوجائے۔
(▪️فائدہ: صبح صادق سے کچھ لمحات پہلے ایک روشنی سی نمودار ہوتی ہے جو عمودی شکل میں ہوتی ہے، جس سے یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ صبح صادق ہوچکی ہے لیکن چند ہی لمحوں بعد وہ غائب ہوجاتی ہے، اس کو صبح کاذب کہا جاتا ہے۔)
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ ’’سنن ابی داود‘‘ کی اس حدیث شریف کا صحیح مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے وہ اذان مراد ہو جو کہ صبح صادق سے پہلے دی جاتی تھی کہ جب یہ اذان ہوجائے اور تمہارے ہاتھ میں برتن ہو تو تم اس کو نہ رکھو بلکہ اس سے اپنی حاجت پوری کرلیا کرو، کیوں کہ ابھی تک صبح ہوئی ہی نہیں ہے۔ یہ مطلب مراد لینے کے بعد زیرِ بحث حدیث کا صحیح مطلب بھی واضح ہوجاتا ہے اور قرآن وحدیث میں باہمی ٹکراؤ کی صورت بھی پیدا نہیں ہوتی، بلکہ باہم تطبیق کی صورت نکل آتی ہے۔
(اس کی مزید مدلل تفصیل کے لیے دیکھیے: جامعہ دار العلوم کراچی کا فتویٰ نمبر: 1724/3)

⬅️ *خلاصہ:* سحری کا تعلق رات کے ساتھ ہے، اس لیے صبح صادق طلوع ہوجانے یعنی دن شروع ہوجانے کے بعد سحری کرنا ناجائز ہے اگرچہ اذان نہ ہوئی ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبح صادق کے بعد دی جانے والی فجر کی اذان کے دوران کھا پی کر سحری بند کرنا ناجائز ہے۔ جہاں تک ’’سنن ابی داود‘‘ کی زیرِ بحث حدیث کا تعلق ہے تو اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ اس حدیث میں مذکور اذان سے صبح صادق کے بعد دی جانے والی اذان مراد ہے، اسی طرح اس بات کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ اس میں کھانے پینے سے مراد صبح صادق کے بعد بند کی جانے والی سحری ہے۔ کیوں کہ اگر اس حدیث میں مذکور اذان سے صبح صادق کے بعد دی جانے والی فجر کی اذان مراد لی جائے اور کھانے پینے سے صبح صادق کے بعد بند کی جانے والی سحری مراد لی جائے تو یہ ہرگز درست نہیں کیوں کہ اول تو اس حدیث میں نہ تو فجر کا ذکر ہے، نہ سحری کا، نہ روزے کا اور نہ ہی رمضان کا۔ دوم یہ کہ یہ مطلب قرآن کریم سورۃ البقرہ کی آیت اور احادیث مبارکہ کے بھی خلاف ہے۔ سوم یہ کہ یہ مطلب چاروں ائمہ مجتہدین اور جمہور فقہائے امت کے بھی خلاف ہے۔ جہاں تک اس حدیث کے صحیح مطلب کا تعلق ہے تو اس کے متعدد درست معانی ماقبل میں ذکر ہوچکے، وہ معانی مراد لینے کی صورت میں کچھ بھی خرابی لازم نہیں آتی۔ اس لیے لوگوں کے پھیلائے گئے مغالطوں میں مبتلا ہوکر اپنے روزے خراب کرنے سے بچنا چاہیے۔

📚 *عبارات*
☀ التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ:
681- إذا سمع أحدكم النداء والإناء على يده فلا يضعه حتى يقضي حاجته منه (حم د ك) عن أبي هريرة (صح).
(إذا سمع أحدكم النداء) ..... وأريد به هنا الإقامة، ويحتمل أنه أريد به الأذان نفسه، وأن المراد به: لا يجيب الإجابة المسنونة إلا بعد فراغه (والإناء) إناء الطعام أو الشراب (على يده فلا يضعه حتى يقضي حاجته منه) وهو نظير: «إذا حضر العشاء والعشاء» تقدم، ويحتمل أن الخطاب للصائمين وأنه إذا سمع أحدهم أذان الصبح، وبهذا جزم الرافعي وغيره، (حم د ك عن أبي هريرة) رمز المصنف لصحته. قال الحاكم: على شرط مسلم وأقره الذهبي، إلا أنه قال: إنه مشكوك في رفعه. (حرف الهمزة)
☀ فيض القدير:
686- (إذا سمع أحدكم النداء) أي الأذان للصبح وهو يريد الصوم (والإناء) مبتدأ (على يده) خبره (فلا يضعه) نهي أو نفي بمعناه (حتى يقضي حاجته) بأن يشرب منه كفايته ما لم يتحقق طلوع الفجر أو يظنه يقرب منه. وما ذكر من أن المراد به أذان الصبح هو ما جزم به الرافعي فقال : أراد أذان بلال الأول بدليل إن بلالا يؤذن بلبل فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم وقيل المراد أذان المغرب فإذا سمعه الصائم والإناء في يده فلا يضعه بل يفطر فورا محافظة على تعجيل الفطر وعليه قال الطيبي: دليل الخطاب في «أحدكم» يشعر بأنه لا يفطر إذا لم يكن الإناء في يده، ويأتي أن تعجيل الفطر مسنون مطلقا لكن هذا مفهوم لقب فلا يعمل به. (حم د ك عن أبي هريرة) قال الحاكم: على شرط مسلم، وأقره الذهبي، لكن قال في «المنار»: مشكوك في رفعه. (حرف الهمزة)
☀ معالم السنن:
قال أبو داود: حدثنا عبد الأعلى بن حماد: حدثنا حماد عن محمد بن عمرو، عَن أبي سلمة، عَن أبي هريرة قال: قال رسول الله ﷺ: «إذا سمع أحدكم النداء والإناء على يده فلا يضعه حتى يقضي حاجته منه».
قلت: هذا على قوله: «إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم»، أو يكون معناه: أن يسمع الأذان وهو يشك في الصبح مثل أن تكون السماء متغمة فلا يقع له العلم بأذانه أن الفجر قد طلع لعلمه أن دلائل الفجر معه معدومة ولو ظهرت للمؤذن لظهرت له أيضا، فأما إذا علم انفجار الصبح فلا حاجة به إلى أذان الصارخ؛ لأنه مأمور بأن يمسك عن الطعام والشراب إذا تبين له الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر. 
☀ السنن الكبرى للبيهقي:
وَهَذَا إِنْ صَحَّ فَهُوَ مَحْمُولٌ عِنْدَ عَوَامِّ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّهُ ﷺ عَلِمَ أَنَّ الْمُنَادِىَ كَانَ يُنَادِى قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ بِحَيْثُ يَقَعُ شُرْبُهُ قُبَيْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ. وَقَوْلُ الرَّاوِى: «وَكَانَ الْمُؤَذِّنُونَ يُؤَذِّنُونَ إِذَا بَزَغَ» يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ خَبَرًا مُنْقَطِعًا مِمَّنْ دُونَ أَبِى هُرَيْرَةَ أَوْ يَكُونَ خَبَرًا عَنِ الأَذَانِ الثَّانِى، وَقَوْلُ النَّبِىِّ ﷺ: «إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ» خَبَرًا عَنِ النِّدَاءِ الأَوَّلِ لِيَكُونَ مُوَافِقًا لِمَا
8277- أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَةَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ وَالْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِىِّ عَنْ أَبِى عُثْمَانَ النَّهْدِىِّ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: «لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سُحُورِهِ، فَإِنَّمَا يُنَادِى لِيُوقِظَ نَائِمَكُمْ وَيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ».
(باب مَنْ طَلَعَ الْفَجْرُ وَفِى فِيهِ شَىْءٍ)

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ 
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی