یہ بات واضح ہے کہ الزام غلط تھا۔


 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋-سورہ-یوسف آیت نمبر 77🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼ 

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
قَالُوْۤا اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ١ۚ فَاَسَرَّهَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِهٖ وَ لَمْ یُبْدِهَا لَهُمْ١ۚ قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا١ۚ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 لفظی ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

قَالُوْٓا : بولے اِنْ : اگر يَّسْرِقْ : اس نے چرایا فَقَدْ سَرَقَ : تو چوری کی تھی اَخٌ لَّهٗ : اس کا بھائی مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل فَاَسَرَّهَا : پس اسے چھپایا يُوْسُفُ : یوسف فِيْ نَفْسِهٖ : اپنے دل میں وَلَمْ يُبْدِهَا : اور وہ ظاہر نہ کیا لَهُمْ : ان پر قَالَ : کہا اَنْتُمْ : تم شَرٌّ : بدتر مَّكَانًا : درجہ میں وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا تَصِفُوْنَ : جو تم بیان کرتے ہو

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
(بہرحال) وہ بھائی بولے کہ : اگر اس (بنیامین) نے چوری کی ہے تو (کچھ تعجب نہیں، کیونکہ) اس کا ایک بھائی اس سے پہلے بھی چوری کرچکا ہے۔ (51) اس پر یوسف نے ان پر ظاہر کیے بغیر چپکے سے (دل میں) کہا کہ : تم تو اس معاملے میں کہیں زیادہ برے ہو۔ (52) اور جو بیان تم دے رہے ہو، اللہ اس کی حقیقت خوب جانتا ہے۔

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 تفسیر 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

51: ان کا مطلب یہ تھا کہ بنیامین کے بھائی یعنی یوسف ؑ نے بھی ایک مرتبہ چوری کی تھی۔ یہ الزام انہوں نے کیوں لگایا ؟ اس کی وجہ قرآن کریم نے بیان نہیں فرمائی۔ لیکن بعض روایات میں اس کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ حضرت یوسف ؑ کی والدہ ان کے بچپن ہی میں وفات پا گئی تھی۔ اور ان کی پھوپھی نے ان کی پرورش کی کیونکہ بچپن کے بالکل ابتدائی دور میں بچے کی دیکھ بھال کے لیے کسی عورت کی ضرورت تھی۔ لیکن جب وہ ذرا بڑے ہوئے تو حضرت یعقوب ؑ نے انہیں اپنے پاس رکھنا چاہا۔ پھوپی اس عرصے میں حضرت یوسف ؑ سے اتنی محبت کرنے لگی تھیں کہ ان سے ان کی جدائی برداشت نہیں ہورہی تھی۔ اس لیے انہوں نے یہ تدبیر کی کہ اپنا ایک پٹکا ان کی کمر سے باندھ کر یہ مشہور کردیا کہ وہ چوری ہوگیا ہے۔ بعد میں جب وہ پٹکا حضرت یوسف ؑ کے پاس سے بر آمد ہوا تو حضرت یعقوب ؑ کی شریعت کے مطابق انہیں یہ حق مل گیا کہ وہ حضرت یوسف ؑ کو اپنے پاس رکھ لیں۔ چنانچہ جب تک وہ پھوپھی زندہ رہیں۔ اس وقت تک حضرت یوسف ؑ ان کے پاس رہے۔ ان کی وفات کے بعد یعقوب ؑ کے پاس آئے۔ یہ واقعہ ان کے بھائیوں کو معلوم تھا۔ اور وہ جانتے تھے کہ درحقیقت پٹکا انہوں نے چوری نہیں کیا تھا۔ مگر چونکہ وہ حضرت یوسف ؑ کے مخالف تھے۔ اس لیے انہوں نے اس موقع پر چوری کا الزام بھی ان پر لگا دیا۔ (ابن کثیر وغیرہ) یہ واقعہ اس صورت میں درست ہوسکتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ کی والدہ کے بارے میں ان روایات کو صحیح قرار دیا جائے جن کی رو سے ان کا انتقال ہوچکا تھا۔ اور جن روایتوں میں یہ مذکورہ ہے کہ وہ زندہ تھیں۔ ان کے لحاظ سے چوری کے الزم کی یہ توجیہ ممکن ہیں ہے۔ بہر صورت یہ بات واضح ہے کہ الزام غلط تھا۔
52: یعنی اس چوری کے معاملے میں جس کا الزام تم مجھ پر لگا رہے ہو تمہاری حالت کہیں زیادہ بری ہے کیونکہ تم نے خود مجھے میرے باپ سے چرا کر کنویں میں ڈال دیا تھا۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی