🌻 *نابالغ بچے کے لیے تیار کردہ لباس دوسرے بچے کو دینا*
📿 *نابالغ بچے کے لیے تیار کردہ لباس دوسرے بچے کو دینے کا حکم:*
1️⃣ اپنے نابالغ بچے کے لیے کوئی لباس وغیرہ تیار کرلیا تو اگر اس کو صرف پہننے کے لیے دیا ہے تو وہ نابالغ اس کا مالک نہیں بنا، ایسی صورت میں وہ لباس کسی دوسرے بچے کو دے سکتے ہیں، لیکن اگر اپنے نابالغ بچے ہی کے لیے تیار کیا اور زبانی یہ کہہ دیا یا اسے دے دیا تو ایسی صورت میں نابالغ بچہ اس کا مالک بن گیا، اس صورت میں وہ لباس کسی اور بچے کو دینا جائز نہیں۔ (بہشتی زیور) اس کی مزید تفصیل درج ذیل ہے:
2️⃣ اس سے معلوم ہوا کہ جو کپڑے، جوتے یا رقم وغیرہ نابالغ کی ملکیت میں ہوتے ہیں تو والدین کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی اور کو ہدیہ کردیں، البتہ اگر وہ جوتے اور کپڑے وغیرہ اس کے استعمال میں نہ آتے ہوں یعنی زائد ہوں تو ایسی صورت میں خرید وفروخت کی صورت اختیار کرتے ہوئے وہ چیزیں کسی اور کو دے کر ان کی قیمت بچے کے استعمال کے لیے رکھ دیں تاکہ نابالغ کا مال مفت میں اس کی ملکیت سے نہ نکلے، تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں۔
3️⃣ مذکورہ تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نابالغ کے مال میں والدین، بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ دار وغیرہ کو بھی احتیاط کرنی چاہیے کہ اس کے ذاتی مال میں سے مفت میں کوئی بھی چیز نہ لیں اور نہ ہی اس کا ذاتی مال خود استعمال کریں، البتہ اگر کہیں والدین کو اس کا مال استعمال کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو بعد میں اس کے بدلے اتنی ہی رقم اس کے مال میں رکھ دیں۔
4️⃣ اسی احتیاطی پہلو کی وجہ سے متعدد حضرات اہلِ علم کی جانب سے والدین کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ رقم، کپڑے اور جوتے وغیرہ بچے کی ملکیت میں نہ دیں، بلکہ صرف استعمال کرنے اور فائدہ اٹھانے کی نیت سے دیں تاکہ اگر کبھی یہ چیزیں کسی اور کو دینی پڑے تو مشکلات پیدا نہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ نابالغ کے مال میں احتیاط کرنا ایک اہم اور طویل موضوع ہے جس پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ ہے ان شاء اللہ۔
☀️ الدر المختار:
(وَتَصَرُّفُ الصَّبِيِّ وَالْمَعْتُوهِ) الَّذِي يَعْقِلُ الْبَيْعَ وَالشِّرَاءَ (إنْ كَانَ نَافِعًا) مَحْضًا (كَالْإِسْلَامِ وَالِاتِّهَابِ صَحَّ بِلَا إذْنٍ، وَإِنْ ضَارًّا كَالطَّلَاقِ وَالْعَتَاقِ) وَالصَّدَقَةِ وَالْقَرْضِ (لَا وَإِنْ أَذِنَ بِهِ وَلِيُّهُمَا.
☀️ رد المحتار على الدر المختار:
(قَوْلُهُ: وَتَصَرُّفُ الصَّبِيِّ وَالْمَعْتُوهِ إلَخْ) ذَكَرَ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ فِي هَذَا الْكِتَابِ نَظَرًا إلَى إذْنِ وَلِيِّ الصَّبِيِّ، وَكَوْنُهُ مَأْذُونًا بِإِذْنِهِ وَبَيْنَ حُكْمِهِ وَذَكَرَهَا فِي كِتَابِ الْحَجْرِ حَيْثُ قَالَ: وَمَنْ عَقَدَ مِنْهُمْ وَهُوَ يَعْقِلُهُ أَجَازَهُ وَلِيُّهُ أَوْ رَدَّهُ نَظَرًا إلَى كَوْنِهِ مَحْجُورًا وَبَيْنَ حُكْمِهِ. «يَعْقُوبِيَّةٌ». (قَوْلُهُ: الَّذِي يَعْقِلُ الْبَيْعَ وَالشِّرَاءَ) صِفَةٌ لِكُلٍّ مِنَ الصَّبِيِّ وَالْمَعْتُوهِ. ط عَن الْحَمَوِيِّ. (قَوْلُهُ: مَحْضًا) أَيْ مِنْ كُلِّ الْوُجُوهِ. (قَوْلُهُ: وَالِاتِّهَابِ) أَيْ قَبُولُ الْهِبَةِ وَقَبْضُهَا، وَكَذَا الصَّدَقَةُ، «قُهُسْتَانِيُّ». (قَوْلُهُ: وَإِنْ ضَارًّا) أَيْ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ أَيْ ضَرَرًا دُنْيَوِيًّا وَإِنْ كَانَ فِيهِ نَفْعٌ أُخْرَوِيٌّ كَالصَّدَقَةِ وَالْقَرْضِ. (قَوْلُهُ: كَالطَّلَاقِ وَالْعَتَاقِ) وَلَوْ عَلَى مَالٍ فَإِنَّهُمَا وُضِعَا لِإِزَالَةِ الْمِلْكِ وَهِيَ ضَرَرٌ مَحْضٌ، وَلَا يَضُرُّ سُقُوطُ النَّفَقَةِ بِالْأَوَّلِ وَحُصُولُ الثَّوَابِ بِالثَّانِي، وَغَيْرُ ذَلِكَ مِمَّا لَمْ يُوضَعَا لَهُ إذِ الِاعْتِبَارُ لِلْوَضْعِ، وَكَذَا الْهِبَةُ وَالصَّدَقَةُ وَغَيْرُهُمَا. قُهُسْتَانِيٌّ.
(كتاب المأذون: مبحث في تصرف الصبي ومن له الولاية عليه وترتيبها)
☀️ الفتاوى الهندية:
رَجُلٌ قَالَ: جَعَلْتُ هَذَا لِوَلَدِي فُلَانٍ كَانَتْ هِبَةً، وَلَوْ قَالَ: هَذَا الشَّيْءُ لِوَلَدِي الصَّغِيرِ فُلَانٍ جَازَ وَتَتِمُّ مِنْ غَيْرِ قَبُولٍ، كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة. (كِتَابُ الْهِبَةِ)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی