🌴⑬🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌⑬⚔️
مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
عراق عجم 21 ہجری (641 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(سر زمین عراق دو حصوں پر منقسم ہے۔ مغربی حصے کو عراق عرب کہتے ہیں اور مشرقی حصے کو عراق عجم کہتے ہیں۔ عراق عجم کی حدود اربعہ یہ ہیں کہ شمال میں طبرستان جنوب میں شیراز مشرق میں خوزستان اور مغرب میں شہر مراغہ واقع ہیں۔ اس وقت اس کے بڑے شہر اصفہان، ہمدان اور رے سمجھے جاتے تھے۔ اس وقت رے بالکل ویران ہو گیا۔ اور اس کے قریب طہران آباد ہو گیا ہے جو شاہان قاچار کا دار السطنت ہے۔ )
جلولا کے بعد جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں۔ یزدگرد ” رے ” چلا گیا۔ لیکن یہاں کے رئیس آبان جدویہ نے بیوفائی کی۔ اس لئے رے سے نکل کر اصفہان اور کرمان ہوتا ہوا خراسان پہنچا۔ یہاں پہنچ کر مرو میں اقامت کی۔ “آتش پارسی” ساتھ تھی۔ اس کے لئے آتش کدہ تیار کر لیا۔ اور مطمئن ہو کر پھر سلطنت حکومت کے ٹھاٹھ لگا دیئے۔ یہیں اسے خبر ملی کہ عربوں نے عراق کے ساتھ خوزستان بھی فتح کر لیا۔ اور ہزمزان جو سلطنت کا زور و بازو تھا زندہ گرفتار ہو گیا۔ یہ حالات سن کر نہایت طیش میں آیا۔ اگرچہ سلطنت کی حیثیت سے اس کا وہ پہلا رعب و داب باقی نہیں رہا تھا، تاہم تین ہزار برس کا خاندانی اثر دفعتہً نہیں مٹ سکتا تھا۔ ایرانی اس وقت تک یہ سمجھتے تھے کہ عرب کی آندھی سرحدی مقامات تک پہنچ کر رک جائے گی۔ اس لئے ان کو اپنی خاص سلطنت کی طرف سے اطمینان تھا۔ لیکن خوزستان کے واقعہ سے ان کی آنکھیں کھلیں۔ ساتھ ہی شہنشاہ کے فرامین اور نقیب پہنچے ، اس سے دفعتہً طبرستان، جرجان، نہاوند، رے ، اصفہان، ہمدان سے گزر کر خراسان اور سندھ تک تلاطم مچ گیا۔ اور ڈیڑھ لاکھ ٹڈی دل لشکر قم میں آ کر ٹھہرا۔ یزدگرد نے مردان شاہ کو (ہرمز کا فرزند تھا) سر لشکر مقرر کر کے نہاوند کی طرف روانہ کیا۔ اس معرکہ میں درفش کاویانی جس کو عجم طال ظفر سمجھتے تھے۔ مبارک فالی کے لحاظ سے نکالا گیا۔
چنانچہ مردان ساہ جب روانہ ہوا تو اس مبارک علم کا پھریرا اس پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ عمار بن یاسر نے جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان حالات سے اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمار کا خط لئے ہوئے مسجد نبوی میں آئے اور سب کو سنا کے کہا کہ ” گروہ عرب اس مرتبہ تمام ایران کمر بستہ ہو کر چلا ہے کہ مسلمانوں کو دنیا سے مٹا دے۔ تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟” طلحہ بن عبید اللہ نے اٹھ کر كہا کہ امیر المومنین! واقعات نے آپ کو تجربہ کار بنا دیا ہے۔ ہم اس کے سوا کچھ نہیں جاتے کہ آپ جو حکم دیں بجا لائیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ” میری رائے ہے کہ شام، یمن، بصرہ کے افسروں کو لکھا جائے کہ اپنی اپنی فوجیں لے کر عراق کو روانہ ہوں اور آپ خود اہل حرم کو لے کر مدینہ سے اٹھیں، کوفہ میں تمام فوجیں آپ کے علم کے نیچے جمع ہوں، اور پھر نہاوند کی طرف رخ کیا جائے۔ حضرت عثمان کی رائے کو سب نے پسند کیا لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ چپ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف دیکھا، وہ بولے کہ “شام اور بصرہ سے فوجیں ہٹیں تو ان مقامات پر سرحد کے دشمنوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ اور آپ نے مدینہ چھوڑا تو عز میں قیامت برپا ہو جائے گی۔ اور خود اپنے ملک کا تھامنا مشکل ہو جائے گا۔ میری رائے ہے کہ آپ یہاں سے نہ جائیں۔ اور شام اور یمن، بصرہ وغیرہ میں فرمان بھیج دیئے جائیں کہ جہاں جہاں جس قدر فوجیں ہیں ایک ایک ثلث ادھر روانہ کر دی جائیں۔ ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میری رائے بھی یہی تھی۔ لیکن تنہا اس کا فیصلہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اب یہ بحث پیش آئی کہ ایسی بڑی مہم میں سپہ سالار بن کر کون جائے۔ لوگ ہر طرف خیال دوڑا رہے تھے۔ لیکن اس درجہ کا کوئی شخص نظر نہیں آتا تھا۔ جو لوگ اس منصب کے قابل تھے وہ اور مہمات میں مصروف تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مراتب کمال میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انہوں نے ملک کے حالات سے ایسی واقفیت حاصل کی تھی کہ قوم کے ایک ایک فرد کے اوصاف ان کی نگاہ میں تھے۔ چنانچہ اس موقع پر حاضرین نے خود کہا کہ اس کا فیصلہ آپ سے بڑھ کر کون کر سکتا ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نعمان بن مقرن کا انتخاب کیا۔ اور سب نے اس کی تائید کی۔ نعمان تیس ہزار کی جمیعت لے کر کوفہ سے روانہ ہوئے۔ اس فوج میں بڑے بڑے صحابہ شامل تھے۔ جن میں سے حذیفہ بن الیمان، عبد اللہ بن عمر، جریر بجلی، مغیرہ بن شعبہ، عمرو معدی کرب زیادہ مشہور ہیں۔ نعمان نے جاسوسوں کو بھیج کر معلوم کیا کہ نہاوند تک راستہ صاف ہے۔ چنانچہ نہاوند تک برابر بڑھتے چلے گئے۔ نہاوند سے 9 میل ادھر اسپدہان ایک مقام تھا۔ وہاں پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔ ایک بڑی تدبیر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کی کہ فارس میں جو اسلامی فوجیں موجود تھیں ان کو لکھا کہ ایرانی اس طرف سے نہاوند کی طرف بڑھنے نہ پائیں۔ اس طرح دشمن ایک بہت بڑی مدد سے محروم رہ گیا۔
عجم نے نعمان کے پاس سفارت کے لئے پیغام بھیجا۔ چنانچہ مغیرہ بن شعبہ جو پہلے بھی اس کام کو انجام دے چکے تھے ، سفیر بن کر گئے۔ عجم نے بڑی شان سے دربار آراستہ کیا۔ مردان شاہ کو تاج پہنا کر تخت زریں پر بٹھایا۔ تخت کے دائیں بائیں ملک ملک کے شہزادے دیبائے زرکش کی قبائیں سر پر تاج زر ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہن کر بیٹھے۔ ان کے پیچھے دور دور تک سپاہیوں کی صفیں قائم کیں۔ جن کی برہنہ تلواروں سے آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔ مترجم کے ذریعے گفتگو شروع ہوئی۔ مردان شاہ نے کہا کہ اے اہل عرب سب سے بدبخت، سب سے زیادہ فاقہ مست، سب سے زیادہ ناپاک قوم جو ہو سکتی ہے تم ہو۔ یہ قدر انداز جو میرے تخت کے گرد کھڑے ہیں ابھی تمہارا فیصلہ کر دیتے۔ لیکن مجھ کو یہ گوارا نہ تھا کہ ان کے تیر تمہارے ناپاک خون میں آلودہ ہوں۔ اب بھی اگر تم یہاں سے چلے جاؤ تو میں تم کو معاف کر دوں گا۔ ” مغیرہ نے کہا : ” ہاں ہم لوگ ایسے ہی ذلیل تھے۔ لیکن اس ملک میں آ کر ہم کو دولت کا مزہ پڑ گیا۔ اور یہ مزہ ہم اسی وقت چھوڑیں گے جب ہمارے لاشیں خاک پر بچھ جائیں۔ غرض سفارت بے حاصل گئی۔ اور دونوں طرف جنگ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ نعمان نے میمنہ اور میسرہ پر حذیفہ اور سوید بن مقرن کو مجردہ پر قعقاع کو مقرر کیا۔ ساقہ پر مجاشع متعین ہوئے۔ ادھر میمنہ پر زروک اور میسرہ پر بہمن تھا۔ عجمیوں نے میدان جنگ میں پہلے سے ہی ہر طرف گوکھرو بچھا دیئے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو آگے بڑھنا مشکل ہوتا تھا۔ اور عجمی جب چاہتے تھے شہر سے نکل کر حملہ آور ہو جاتے تھے۔ نعمان نے یہ حالت دیکھ کر افسروں کو جمع کیا۔ اور سب سے الگ الگ رائے لی۔ طلیحہ بن خالد الاسدی کی رائے کے موافق فوجیں آراستہ ہو کر شہر سے چھ سات میل کے فاصلے پر ٹھہریں اور قعقاع کو تھوڑی سی فوج دے کر بھیجا کہ شہر پر حملہ آور ہوں۔ عجمی بڑے جوش سے مقالہ کو نکلے اور اس بندوبست کے لئے کہ کوئی شخص پیچھے نہ ہٹنے پائے ، جس قدر بڑھتے آتے تھے گوکھرو بچھاتے آتے تھے۔ قعقاع نے لڑائی چھیڑ کر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ عجمی برابر بڑھتے چلے آئے۔ یہاں تک کہ گوکھرو کی سرحد سے نکل ائے۔ نعمان نے ادھر جو فوجیں جما رکھی تھیں۔ موقع کا انتظار کر رہی تھیں، جونہی عجمی زد پر آئے ، انہوں نے حملہ کرنا چاہا۔ لیکن نعمان نے روکا۔ عجمی جو تیر برسا رہے تھے اس سے سینکڑوں مسلمان کام آئے۔ لیکن افسر کی یہ اطاعت تھی زخم کھاتے تھے اور ہاتھ روکے کھڑے تھے۔ مغیرہ بار بار کہتے تھے کہ فوج بیکار ہوئی جاتی ہے۔ اور موقع ہاتھ سے نکلا جاتا ہے۔ لیکن نعمان اس خیال سے دوپہر کے ڈھلنے کا انتظار کر رہے تھے کہ رسول اللہ جب دشمن پر حملہ کرتے تھے تو اسی وقت کرتے تھے۔ غرض دوپہر ڈھلی تو نعمان نے دستور کے موافق تین نعرے مارے۔ پہلے نعرے پر فوج ساز و سامان سے درست ہو گئی۔ دوسرے پر لوگوں نے تلواریں تول لیں۔ تیسرے پر دفعتہً حملہ کیا۔ اور اس بے جگری سے ٹوٹ کر گرے کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔
میدان میں اس قدر خون بہا کہ گھوڑوں کے پاؤں پھسل پھسل جاتے تھے۔ چنانچہ نعمان کا گھوڑا پھسل کر گرا، ساتھ ہی خود بھی گرے اور زخموں سے چور ہو گئے۔ ان کا امتیازی لباس جس سے وہ معرکے میں پہچانے جاتے تھے۔ کلاہ اور سفید قبا تھی۔ جونہی وہ گھوڑے سے گرے نعیم بن مقرن کے بھائی نے علم کو جھپٹ کر تھام لیا اور ان کی کلاہ اور قبا پہن کر ان کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ اس تدبیر سے نعمان کے مرنے کا حال کسی کو معلوم نہ ہوا۔ اور لڑائی بدستور قائم رہی۔ اس مبارک زمانے میں مسلمانوں کو خدا نے ضبط و استقلال دیا تھا۔ اس کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے ہو سکتا ہے۔ نعمان جس وقت زخمی ہو کر گرے تھے اعلان کر دیا تھا کہ میں مر بھی جاؤں تو کوئی شخص لڑائی چھوڑ کر میری طرف متوجہ نہ ہو۔ اتفاق سے ایک سپاہی ان کے پاس سے نکلا، دیکھا تو کچھ سانس باقی ہے۔ اور دم توڑ رہے ہیں، گھوڑے سے اتر کر ان کے پاس بیٹھنا چاہا۔ ان کا حکم یاد آ گیا۔ اسی طرح چھوڑ کر چلا گیا۔ فتح کے بعد ایک شخص سرہانے گیا۔ انہوں نے آنکھیں کھولیں اور پوچھا کہ کیا انجام ہوا؟ اس نے کہا “مسلمانوں کو فتح ہوئی” خدا کا شکر ادا کر کے کہا “فوراً عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع دو۔ “
رات ہوتے ہی عجمیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے ہمدان تک تعاقب کیا۔ حذیفہ بن الیمان نے جو نعمان کے بعد سر لشکر مقرر ہوئے نہاوند پہنچ کر مقام کیا۔ یہاں ایک مشہور آتش کدہ تھا۔ اس کا موبد حذیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ مجھ کو امن دیا جائے تو میں ایک متاع بے بہا کا پتہ دوں۔ چنانچہ کسریٰ پرویز کے نہایت بیش بہا جواہرات لا کر پیش کئے جس کو کسریٰ نے مشکل وقتوں کے لیے محفوظ رکھا تھا۔ حذیفہ نے مال غنیمت کو تقسیم کیا اور پانچواں حصہ مع جواہرات کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہفتوں سے لڑائی کی خبر نہیں پہنچی تھی۔ قاصد نے مژدۂ فتح سنایا تو بے انتہا خوش ہوئے۔ لیکن جب نعمان کا شہید ہونا سنا تو بے اختیار رہ پڑے اور دیر تک سر پر ہاتھ رکھ کر روتے رہے۔ قاصد نے اور شہداء کے نام گنائے اور کہا کہ بہت اور لوگ بھی شہید ہوئے جن کو میں نہیں جانتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر روئے اور فرمایا کہ “عمر جانے نہ جانے خدا ان کو جانتا ہے۔ ” جواہرات کو دیکھ کر غصہ سے کہا کہ “فوراً واپس لے جاؤ۔ اور حذیفہ سے کہو کہ بیچ کر فوج کو تقسیم کر دیں۔ ” چنانچہ یہ جواہرات چار کروڑ درہم کے فروخت ہوئے۔ “
اس لڑائی میں تقریباً تیس ہزار عجمی لڑ کر مارے گئے۔ اس معرکہ کے بعد عجم نے کبھی زور نہیں پکڑا، چنانچہ عرب نے اس فتح کا نام فتح الفتوح رکھا۔ فیروز جس کے ہاتھ جس کے ہاتھ پر حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت لکھی تھی، اسی لڑائی میں گرفتار ہوا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
ایران پر عام لشکر کشی 21 ہجری (642 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایران کی عام تسخیر کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ اب تک جو لڑائیاں ہوئیں وہ صرف اپنے ملک کی حفاظت کے لئے تھیں۔ عراق کا البتہ ممالک محروسہ میں اضافہ کر لیا گیا تھا۔ لیکن وہ درحقیقت عرب کا ایک حصہ تھا۔ کیونکہ اسلام سے پہلے اس کے ہر حصہ میں عرب آباد تھے۔ عراق سے آگے بڑھ کر جو لڑائیاں ہوئیں وہ عراق کے سلسلہ میں خود بخود پیدا ہوتی گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ” کاش ہمارے اور فارس کے بیچ میں آگ کا پہاڑ ہوتا تا کہ نہ وہ ہم پر حملہ کر سکتے نہ ہم ان پر چڑھ کر جا سکتے۔ ” لیکن ایرانیوں کو کسی طرح چین نہیں آتا تھا۔ وہ ہمیشہ نئی فوجیں تیار کر کے مقابلے پر آتے تھے اور جو ممالک مسلمانوں کے قبضے میں آ چکے تھے وہاں غدر کروا دیا کرتے تھے۔ نہاوند کے معرکہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس پر خیال ہوا۔ اور اکابر صحابہ کو بلا کر پوچھا کہ ممالک مفتوحہ میں بار بار بغاوت کیوں ہو جاتی ہے۔ لوگوں نے کہا جب تک یزدگرد ایران کی حدود سے نکل نہ جائے ، یہ فتنہ فرو نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جب تک ایرانیوں کو یہ خیال رہے گا کہ تخت کیانی کا وارث موجود ہے ، اس وقت ان کی امیدیں منقطع نہیں ہو سکتیں۔”
اس بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عام لشکر کشی کا ارادہ کیا۔ اپنے ہاتھ سے متعدد علم تیار کئے۔ اور جدا جدا ممالک کے نام سے نامزد کر کے مشہور افسروں کے پاس بھیجے۔ چنانچہ خراسان کا علم احتف بن قیس کو، سابورو اردشیر کا مجاشع بن مسعود کو، اصطخر کا عثمان بن العاص الشقفی کو، افساء کا ساریہ بن رہم الکنافی کو، کرمان کا سہیل بن عدی کو، سیستان کا عاصم بن عمرو کو، مکران کا حکم بن عمیر التغسلبی کو، آذر بائیجان کا عتبہ کو عنایت کیا۔ 21 ہجری میں یہ افسر اپنے اپنے متعینہ ممالک کی طرف روانہ ہوئے۔ چنانچہ ہم ان کی الگ الگ ترتیب کے ساتھ لکھتے ہیں۔
فتوحات کے سلسلے میں سب سے پہلے اصفہان کا نمبر ہے۔ 211 ہجری میں عبد اللہ بن عبد اللہ نے اس صوبہ پر چڑھائی کی، یہاں کے رئیس نے جس کا نام استندرا تھا۔ اصفہان کے نواح میں بڑی جمیعت فراہم کی تھی جس کے ہراول پر شہربرز جادویہ ایک پرانہ تجربہ کار افسر تھا۔ دونوں فوجیں مقابل ہوئیں تو جادویہ نے میدان میں آ کر پکارا کہ جس کا دعویٰ ہو، تنہا میرے مقابلہ کو آئے۔ عبد اللہ خود مقابلے کو آئے۔ جادویہ مارا گیا اور ساتھ ہی لڑائی کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ استندار نے معمولی شرائط پر صلح کر لی۔ عبد اللہ نے آگے بڑھ کر “جے ” یعنی خاص اصفہان کا محاصرہ کیا۔ فاذوسفان یہاں کے رئیس نے پیغام بھیجا کہ دوسروں کی جانیں کیوں ضائع ہوں، ہم تم لڑ کر خود فیصلہ کر لیں، دونوں حریف میدان میں آئے۔ فاذوسفان نے تلوار کا وار کیا، عبد اللہ نے اس پامردی سے اس کے حملہ کا مقابلہ کیا کہ فاذوسفان کے منہ سے بے اختیار آفریں نکلی۔ اور کہا کہ میں تم سے نہیں لڑنا چاہتا۔ بلکہ شہر اس شرط پر حوالہ کرتا ہوں کہ باشندوں میں سے جو چاہے جزیہ دے کر شہر میں رہے اور جو چاہے نکل جائے۔ عبد اللہ نے یہ شرط منظور کر لی۔ اور معاہدہ صلح لکھ دیا۔
اسی اثناء میں خبر لگی کہ ہمدان میں غدر ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نعیم بن مقرن کو ادھر روانہ کیا۔ انہوں نے بارہ ہزار کی جمیعت سے ہمدار پہنچ کر محاصرہ کے سامان کئے۔ لیکن جب محاصرہ میں دیر لگی تو اضلاع میں ہر طرف فوجیں پھیلا دیں۔ یہاں تک کہ ہمدان چھوڑ کر باقی تمام مقامات فتح ہو گئے۔ یہ حالت دیکھ کر محصوروں نے بھی ہمت ہار دی اور صلح کر لی۔ ہمدان فتح ہو گیا۔ لیکن ویلم نے رے اور آذر بائیجان وغیرہ سے نامہ و پیام کر کے ایک بڑی فوج فراہم کی۔ ایک طرف سے فرخان کا باپ سمینیدی جو رے کا رئیس تھا، انبوہ کثیر لے کر آیا اور دوسری طرف سے اسفند یار رستم کا بھائی پہنچا۔ وادی رود میں یہ فوجیں مقابل ہوئیں۔ اور اس زور کا رن پڑا کہ لوگوں کو نہاوند کا معرکہ یاد آ گیا۔ آخر ویلم نے شکست کھائی۔ عروہ جو واقعہ جبیر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس شکست کی خبر لے کر گئے تھے ، اس فتح کا پیغام لے کر گئے تھے تا کہ اس دن کی تلافی ہو جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ویلم کی تیاریاں سن کر نہایت تردد میں تھے۔ اور امداد کا سامان کر رہے تھے کہ دفعتاً عروہ پہنچے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال ہوا کہ شگون اچھا نہیں، بے ساختہ زبان سے انا للہ نکلا۔ عروہ نے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں۔ خدا نے مسلمانوں کو فتح دی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نعیم کو نامہ لکھا کہ ہمدان پر کسی کو اپنا قائم مقام کر کے روانہ ہوں۔ رے کا حاکم اس وقت سیاؤش تھا جو بہرام چوبیں کا پوتا تھا۔ اس نے دماوند، طبرستان، قوس، جرجان کے رئیسوں سے مدد طلب کی اور ہر جگہ سے امدادی فوجیں آئیں۔ لیکن زمیندی جس کو سیاؤش سے کچھ ملال تھا۔ نعیم بن مقرن سے آ ملا۔ اس کی سازش سے شہر پر حملہ ہوا، اور حملہ کے ساتھ دفعتاً شہر فتح ہو گیا۔ نعیم نے زمیندی کو رے کی ریاست دی اور پرانے شہر کو برباد کر کے حکم دیا کہ نئے سرے سے آباد کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم کے مطابق نعیم نے خود رے میں قیام کیا۔ اور اپنے بھائی سوید کو قومس پر بھیجا، جو بغیر کسی جنگ کے فتح ہو گیا۔ اس فتح کے ساتھ عراق عجم پر پورا پورا قبصہ ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
آذربئیجان 22 ہجری (643 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(نقشہ دیکھنے سے آذربائیجان کا پتہ اس طرح لگے گا کہ شہر تبریز کو اس کا صدر مقام سمجھنا چاہیے (سابق میں شہر مراغہ دار الصدر تھا)۔ بروعہ اور اردبیل اسی صوبہ میں آباد ہیں۔ آذربائیجان کی وجہ تسمیہ میں دو روایتیں ہیں۔ ایک یہ کہ موبد آذر آباد نے ایک آتشکدہ بنایا تھا۔ جس کا نام آباد گان تھا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ لغت پہلوی میں آذر کے معنی آتش کے ہیں۔ اور بائیگان کے معنی ہیں محافظ۔ یعنی نگاہ دارانِ آتش چونکہ اس صوبے میں آتش کدوں کی کثرت تھی۔ اس کی وجہ سے یہی نام ہو گیا جس کو عربوں نے اپنی زبان میں آذر بائیجان کر لیا۔ )
جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آذر بائیجان کا علم عتبہ بن فرقد اور بکیر کو بھیجا تھا اور ان کے بڑھنے کی سمتیں بھی متعین کر دی تھیں۔ بکیر جب میدان میں پہنچے تو اسفند یار کا سامنا ہوا۔ اسفند یار نے شکست کھائی اور زندہ گرفتار ہو گیا۔ دوسرے طرف اسفند یار کا بھائی بہرام عتبہ کا سد راہ ہوا، وہ بھی شکست کھا کر بھاگ گیا۔ اسفند یار نے بھائی کی شکست کی خبر سنی تو بکیر سے کہا کہ اب لڑائی کی آگ بجھ گئی اور میں جزیہ پر تم سے صلح کر لیتا ہوں۔ چونکہ آذر بائیجان انہی دونوں بھائیوں کے قبضے میں تھا۔ عتبہ نے اسفند یار کو اس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ آذر بائیجان کا رئیس رہ کر جزیہ ادا کرتا رہے۔ مؤرخ بلاذری کا بیان ہے کہ آذربائیجان کا علم حذیفہ بن یمان کو ملا تھا۔ وہ نہاوند سے چل کر اردبیل پہنچے جو آذربائیجان کا پایہ تخت تھا۔ یہاں کے رئیس نے ماجروان، ہیمند، سراۃ، سبز، میانج وغیرہ سے ایک انبوہ کثیر جمع کر کے مقابلہ کیا اور شکست کھائی۔ پھر آٹھ لاکھ سالانہ پر صلح ہو گئی۔ حذیفہ نے اس کے بعد موقان و جیلان پر حملہ کیا۔ اور فتح کے پھریرے اڑائے۔
اسی اثناء میں دربار خلافت سے حذیفہ کی معزولی کا فرمان پہنچا اور عتبہ بن فرقد ان کی جگہ مقرر ہوئے۔ عتبہ کے پہنچتے پہنچتے آذربائیجان کے تمام اطراف میں بغاوت پھیل چکی تھی۔ چنانچہ عتبہ نے دوبارہ ان مقامات کو فتح کیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
طبرستان 22 ہجری (643 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(نقشہ میں طبرستان فتوحات شمالی میں ملے گا۔ اس لئے کہ خلافت فاروقی میں جزیہ دے کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس کی حدود اربعہ یہ ہیں۔ مشرق میں خراسان و جرجان، مغرب میں آذر بائیجان، شمال میں جوزجان اور جنوب میں بلاخیل، بصام اور استر آباد اس کے مشہور شہر ہیں۔ )
ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ نعیم نے جب رے فتح کر لیا تو ان کے بھائی سوید قومس پر بڑھے اور یہ وسیع صوبہ بغیر جنگ و جدل کے قبضہ میں آ گیا۔ یہاں سے جرجان جو طبرستان کا مشہور ضلع ہے ، نہایت قریب ہے۔ سوید نے وہاں کے رئیس روزبان سے نامہ پیام کیا۔ اس نے جزیہ پر صلح کر لی۔ اور معاہدہ صلح میں بتصریح لکھ دیا کہ مسلمان جرجان اور دہستان وغیرہ کے امن کے ذمہ دار ہیں۔ اور ملک والوں میں جو لوگ بیرونی حملوں کے روکنے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے وہ جزیہ سے بری ہیں۔ جرجان کی خبر سن کر طبرستان کے رئیس نے بھی جو سپہدار کہلاتا تھا اس شرط پر صلح کر لی کہ پانچ لاکھ درہم سالانہ دیا کرے گا اور مسلمانوں کو ان پر یا ان کو مسلمانوں پر کچھ حق نہ ہو گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
آرمینیہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(صوبہ آرمینیہ کو بلاد ارمن بھی کہتے جو ایشائے کوچک کا ایک حصہ ہے۔ شمال میں بحر اسود، جنوب میں کوہی اور صحرائی حصہ دور تک چلا گیا ہے۔ مشرق میں گرجستان اور غرب میں بلاد روم واقعہ ہیں۔ چونکہ یہ صوبہ خلافت عثمانی میں کامل فتح ہوا تھا۔ اس لئے نقشہ میں فاروقی رنگ جدا ہے۔ )
بکیر جو آذربئجان کی مہم پر مامور ہوئے تھے۔ آذربیجان فتح کر کے باب کے متصل پہنچ گئے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نئی فوج تیار کر کے ان کی مدد کو بھیجی، باب کا رئیس جس کا نام شہر براز تھا مجوسی تھا اور سلطنت ایران کا ماتحت تھا۔ مسلمانوں کی آمد کا سن کر خود حاضر ہوا۔ اور کہا مجھ کو آرمینیہ کے مکینوں سے کچھ ہمدردی نہیں ہے۔ میں ایران کی نسل سے ہوں۔ اور جب خود ایران فتح ہو چکا تو میں تمہارا مطیع ہوں، لیکن میری درخواست ہے کہ مجھ سے جزیہ نہ لیا جائے۔ جب ضرورت پیش ائے تو فوجی امداد لی جائے۔ چونکہ جزیہ درحقیقت صرف محافظت کا معاوضہ ہے اس لیے یہ شرط منظور کر لی گئی۔ اس سے فارغ ہو کر فوجیں آگے بڑھیں۔ عبد الرحمٰن بن ربیعہ، بلخیر کی طرف جو مملکت خرز کا پائے تخت تھا، روانہ ہوئے۔ شہربراز ساتھ تھا۔ اس نے تعجب سے کہا کہ کیا ارادہ ہے ؟ ہم لوگ اپنے عہد میں اسی کو غنیمت سمجھتے تھے کہ وہ لوگ ہم پر چڑھ کر نہ آئیں۔ عبد الرحمٰن نے کہا کہ ” لیکن میں جب تک اس کے جگر میں گھس جاؤں باز نہیں آ سکتا۔ ”
چنانچہ بیضا فتح کیا تھا کہ خلافت فاروقی کا زمانہ تمام ہو گیا۔ ادھر بکیر نے قان کو جہاں سے اردن کی سرحد شروع ہوتی ہے فتح کر کے اسلام کی سلطنت میں ملا لیا، حبیب بن مسلمہ اور حذیفہ نے ثقلیس اور جیال املان کا رخ کیا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہاں اسلام کا پھریرا اڑتا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ ختم ہو گیا۔ یہ تمام مہمات حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں انجام کو پہنچیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
فارس 23 ہجری (644 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(حال کے جغرافیہ میں عراق کی حدود گھٹا کر فارس کی حدود بڑھا دی گئی ہیں۔ مگر ہم نے جس وقت کا نقشہ دیا ہے اس وقت فارس کے حدود یہ تھے۔ شمال میں اصفہان جنوب میں بحر فارس مشرق میں کرمان اور مغرب میں عراق۔ عرب اس کا سب سے بڑا اور مشہور شہر شیراز ہے۔ )
فارس پر اگرچہ اول اول 17 ہجری میں حملہ ہوا۔ لیکن چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجازت سے نہ تھا اور نہ اس وقت چنداں کامیابی ہوئی۔ ہم نے اس زمانے کے واقعات کے ساتھ اس کو لکھنا مناسب نہ سمجھا۔ عراق اور اہواز جو عرب کے ہمسایہ تھے فتح ہو چکے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اور فارس کے بیچ میں آتشیں پہاڑ حائل ہوتا تو اچھا تھا۔ لیکن فارس سے ایک اتفاقی طور پر جنگ چھڑ گئی۔ علاء بن الحضرمی 17 ہجری میں بحرین کے عامل مقرر ہوئے۔ وہ بڑی ہمت اور حوصلہ کے آدمی تھے۔ اور چونکہ سعد بن وقاص سے بعض اسباب کی وجہ سے رقابت تھی۔ ہر میدان میں ان سے بڑھ کر قدم مارنا چاہتے تھے۔ سعد نے جب قادسیہ کی لڑائی جیتی تو علاء کو سخت رشک ہوا۔ یہاں تک کہ دربار خلافت سے اجازت تک نہ لی۔ اور فوجیں تیار کر کے دریا کی راہ فارس پر چڑھائی کر دی۔ خلید بن منذر سر لشکر تھے اور جارود بن المعلی اور سوار بن ہمام کے ماتحت الگ الگ فوجیں تھیں۔ اصطخر پہنچ کر جہاز نے لنگر کیا۔ اور فوجیں کنارے پر اتریں۔ یہاں کا حاکم ہیربد تھا۔ وہ ایک انبوہ کثیر لے کر پہنچا اور دریا اتر کر اس پار صفیں قائم کیں کہ مسلمان جہاز تک نہ پہنچ پائیں۔ اگرچہ مسلمانوں کی جمعیت کم تھی۔ اور جہاز بھی گویا دشمن کے قبضے میں آ گئے تھے۔ لیکن سپہ سالار فوج کی ثابت قدمی میں فرق نہ آیا۔ بڑے جوش کے ساتھ مقابلہ کو بڑھے اور فوج کو للکارا کہ مسلمانو! بے دل نہ ہونا۔ دشمن نے ہمارے جہازوں کو چھیننا چاہا ہے۔ لیکن خدا نے چاہا تو جہاز کے ساتھ دشمن کا ملک بھی ہمارا ہے۔
خلید اور جارود بڑی جانبازی سے رجز پڑھ پڑھ کر لڑے اور ہزاروں کو تہ تیغ کیا۔ جلید کا رجزیہ تھا :
یاآل عبدالقیس للنزاع
قدحفل الامداد بالجراع
وکلھم فی سنن المصاع
بحسن ضرب القوم بالقطاع
غرض سخت معرکہ ہوا۔ اگرچہ فتح مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن چونکہ فوج کا بڑا حصہ برباد ہو گیا، نہ بڑھ سکے۔ پیچھے ہٹنا چاہا۔ مگر غنیم نے جہاز غرق کر دیئے تھے۔ مجبور ہو کر خشکی کی راہ بصرہ کا رخ کیا۔ بدقسمتی سے ادھر بھی راہیں بند تھیں۔ ایرانیوں نے پہلے سے ہر طرف ناکے روک رکھے تھے۔ اور جا بجا فوجیں متعین کر دی تھیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فارس کے حملہ کا حال معلوم ہوا تو نہایت برہم ہوئے۔ علاء کو نہایت تہدید نامہ لکھا۔ ساتھ ہی عتبہ بن غزوان کو لکھا کہ مسلمانوں کے بچانے کے لیے فوراً لشکر تیار ہو اور فارس پر جائے۔ چنانچہ بارہ ہزار فوج جس کے سپہ سالار ابو سرۃ تھے تیار ہو کر فارس پر بڑھی اور مسلمان جہاں رکے پڑے تھے وہاں پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ ادھر مجوسیوں نے ہر طرف نقیب دوڑا دیئے تھے۔ اور ایک انبوہ کثیر اکٹھا کر لیا جس کا سر لشکر شہرک تھا۔ دونوں حریف دل توڑ کر لڑے۔ بالآخر ابوسرۃ نے فتح حاصل کی۔ لیکن چونکہ آگے بڑھنے کا حکم نہ تھا۔ بصرہ واپس چلے آئے۔ واقعہ نہاوند کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر طرف فوجیں روانہ کیں تو فارس پر بھی چڑھائی کی۔ اور جدا جدا فوجیں متعین کیں۔ پارسیوں نے توج کو صدر مقام قرار دے کر یہاں بڑا سامان کیا تھا۔ لیکن جب اسلامی فوجیں مختلف مقامات پر پھیل گئیں تو انکو بھی منتشر ہونا پڑا اور یہ ان کی شکست کا دیباچہ تھا۔ چنانچہ سابور، اردشیر، توج، اصطخر سب باری باری فتح ہو گئے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اخیر خلافت یعنی 23 ہجری میں جب عثمان بن ابی العاص بحرین کے عامل مقرر ہوئے تو شہرک نے جو فارس کا مرزبان تھا، بغاوت کی اور تمام مفتوحہ مقامات ہاتھ سے نکل گئے۔ عثمان نے اپنے بھائی حکم کو ایک جمیعت کثیر کے ساتھ مہم پر مامور کیا۔ حکم جزیرہ ابکادان فتح کر کے توج پر بڑھے اور اس کو فتح کر کے وہیں چھاؤنی ڈال دی۔ مسجدیں تعمیر کیں اور عرب کے بہت سے قبائل آباد کئے۔ یہاں سے کبھی کبھی اٹھ کر سرحدی شہروں پر حملہ کرتے اور پھر واپس آ جاتے۔ اس طرح اردشیر، سابور، اصطخر، ارجان کے بہت سے حصے دبا لئے۔ شہرک یہ دیکھ کر نہایت طیش میں آیا۔ اور ایک فوج عظیم جمع کر کے توج پر بڑھا۔ رامشہر پہنچا تھا کہ ادھر سے حکم خود آگے بڑھ کر مقابل ہوئے۔ شہرک نے نہایت ترتیب سے صف آرائی کی۔ فوج کا ایک دستہ اس نے پیچھے رکھا کہ کوئی سپاہی پاؤں ہٹائے تو وہیں قتل کر دیا جائے۔ غرض جنگ شروع ہوئی اور دیر تک معرکہ رہا۔ پارسیوں کو شکست ہوئی اور شہرک جان سے مارا گیا۔ اس کے بعد عثمان نے ہر طرف فوجیں بھیج دیں۔ اس معرکہ سے تمام فارس میں دھاک بیٹھ گئی۔ عثمان نے جس طرف رخ کیا، ملک کے ملک فتح ہوتے چلے گئے۔ چنانچہ گازروں، نوبند جان، ارجان، شیراز، سابور جو فارس کے صدر مقامات ہیں، خود عثمان کے ہاتھ سے فتح ہوئے۔ فساء دار البحر وغیرہ فوجیں گئیں اور کامیاب آئیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
کرمان 23 ہجری (644 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(اس کا قدیم نام کرمانیہ ہے۔ حدود اربعہ یہ ہیں : شمال میں کوہستان جنوب میں بھر عمان مشرق میں سیستان مغرب میں فارس ہے۔ امانہ سابق میں اس کا دار الصدر کر اسیر (بیروسیر) تھا۔ جس کی جگہ اب جبرفت آباد ہے۔ )
کرمان کی فتح پر سہیل بن عدی مامور ہوئے تھے۔ چنانچہ 233 ہجری میں ایک فوج لے کر جس کا ہراول بشیر بن عمر التجلی کی افسری میں تھا۔ کرمان پر حملہ آور ہوئے۔ یہاں کے مرزبان نے قفس وغیرہ سے مدد طلب کر کے مقابلہ کیا۔ لیکن وہ خود میدان جنگ میں نسیر کے ہاتھ سے مارا گیا۔ چونکہ آگے کچھ روک ٹوک نہ تھی، جبرفت اور سیرجان تک فوجیں بڑھتی چلی گئیں۔ اور بے شمار اونٹ اور بکریاں غنیمت میں ہاتھ آئیں۔ جبرفت کرمان کی تجارت گاہ اور سرجان کرمان کا سب سے بڑا شہر تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
سیستان 23 ہجری (644 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(سیستان کو عرب سجستان کہتے ہیں۔ حدود اربعہ یہ ہیں : شمال میں ہرات، جنوب میں مکران، مشرق میں سندھ اور مغرب میں کوہستان۔ یہاں کا مشہور شہرزرنج ہے جہاں میوہ افراط سے پیدا ہوتا ہے۔ رقبہ 25000 مربع میل ہے۔ )
یہ ملک عاصم بن عمر کے ہاتھ سے فتح ہوا۔ باشندے سرحد پر برائے نام لڑ کر بھاگ نکلے عاصم برابر بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ زرنج کا جو سیستان کا دوسرا نام ہے ، محاصرہ کیا۔ محصوروں نے چند روز کے بعد اس شرط پر صلح کی درخواست کی ان کی تمام اراضی حمی سمجھی جائے۔ مسلمانون نے یہ شرط منظور کر لی۔ اور اس طرح وفا کی کہ جب مرزروعات کی طرف نکلے تھے تو جلدی سے گزر جاتے تھے کہ زراعت چھو تک نہ جائے۔ اس ملکے کے قبضے میں آنے سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سندھ سے لے کر نہر بلخ تک جس قدر ممالک تھے ان کی فتح کی کلید ہاتھ میں آ گئی۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً ان ملکوں پر حملے ہوتے رہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
مکران 23 ہجری (644 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(آج کل مکران کا نصف حصہ بلوچستان کہلاتا ہے۔ اگرچہ مؤرخ بلاذری فتوحات فاروقی کی آمد سندھ کے شہر دیبل تک لکھتا ہے۔ مگر طبریٰ نے مکران ہی کو اخیر حد قرار دیا ہے۔ اس لیے ہم نے بھی نقشہ میں فتوحات فاروقی کی وہیں تک حد قرار دی ہے۔ )
مکران پر حکم بن عمرو التغلبی مامور ہوئے تھے۔ چنانچہ 233 ہجری میں روانہ ہو کر نہر مکران کے اس طرف فوجیں اتاریں، مکران کا بادشاہ جس کا نام راسل تھا خود پار اتر کر آیا اور صف آرائی کی۔ ایک بڑی جنگ کے بعد راسل نے شکست کھائی اور مکران پر قبضہ ہو گیا۔ حکم نے نامہ فتح کے ساتھ چند ہاتھی بھی جو لوٹ میں میں آئے تھے ، دربار خلافت میں بھیجے۔ صحار عبدی جو نامہ فتح لے کر گئے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے مکران کا حال پوچھا، انہوں نے کہا ” ارضً سھلھا جبلً ماء ھاوشلً و ثمر ھاوقلً و عدوھا بطلً و خیرھا قلیلً و شرھا طویلً والکثیر بھا قلیلً۔ ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا واقعات کے بیان کرنے میں قافیہ بندی کا کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں واقعی حالات بیان کرتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھ بھیجا کہ فوجیں جہاں تک پہنچ چکی ہیں وہیں رک جائیں۔ چنانچہ فتوحات فاروقی کی اخیر حد یہی مکران ہے لیکن یہ طبریٰ کا بیان ہے۔ مؤرخ بلاذری کی روایت ہے کہ دیبل کے نشیبی حصہ اور تھانہ تک فوجیں آئیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں اسلام کا قدم سندھ و ہندوستان میں بھی آ چکا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*