🌴⑨🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌⑨⚔️


 🌴⑨🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌⑨⚔️

مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
جلولاء 16 ہجری (637) عیسوی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(جلولا بغداد کے سواد میں ایک شہر ہے جا بسبب چھوٹے ہونے کے نقشے میں مندرج نہیں ہے۔ بغداد سے خراسان جاتے وقت راہ میں پڑتا ہے )
یہ معرکہ فتوحات عراق کا خاتمہ تھا۔ مدائن کی فتح کے بعد ایرانیوں نے جلولاء میں جنگ کی تیاریاں شروع کیں۔ اور ایک بڑی فوج جمع کر لی۔ خرزاد نے جو رستم کا بھائی اور سر لشکر تھا۔ نہایت تدبیر سے کام لیا۔ شہر کے گرد خندق تیار کرائی اور راستوں اور گزرگاہوں پر گوکھرو (ایک کانٹا جو سہ گوشہ ہوتا ہے (پنجابی) بھکڑا، لوہے کے بنے ہوئے کانٹے جو دشمن کی راہ میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ فیروز اللغات (انوار الحق قاسمی) بچھا دیئے۔ سعد کو یہ خبر پہنچی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا۔ وہاں سے جواب آیا کہ ہاشم بن عتبہ بارہ ہزار فوج لے کر اس مہم پر جائیں اور مقدمۃ الجیش پر قعقاع، میمنہ پر مشعر بن مالک، میسرہ پر عمرو بن مالک، ساقہ پر عمرو بن مرہ مقرر ہوں۔ ہاشم مدائن سے روانہ ہو کر چوتھے روز جلولاء پہنچے اور شہر کا محاصرہ کیا۔ مہینوں محاصرہ رہا۔ ایرانی وقتاً فوقتاً قلعہ سے نکل کر حملہ آور ہوتے تھے ، اس طرح اسی (80) معرکے ہوئے لیکن ایرانیوں نے ہمیشہ شکست کھائی۔ تاہم چونکہ شہر میں ہر طرح کا ذخیرہ تھا اور لاکھوں کی جمعیت تھی، بیدل نہیں ہوتے تھے اور ایک دن بڑے زور شور سے نکلے۔ مسلمانوں نے بھی جم کر مقابلہ کیا۔ اتفاق یہ کہ دفعتاً اس زور کی آندھی چلی کہ زمین آسمان میں اندھیرا ہو گیا۔ ایرانی مجبور ہو کر پیچھے ہٹے لیکن گرد و غبار کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ ہزاروں آدمی خندق میں گر کر مر گئے۔ ایرانیوں نے یہ دیکھ کر جا بجا خندق کو پاٹ کر راستہ بنایا۔ مسلمانوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا اور حملہ کی تیاریاں کیں۔ ایرانیوں کو بھی دم دم کی خبریں پہنچتی تھیں۔ اسی وقت مسلمانوں کی آمد کے رخ گوکھرو بچھوا دیئے اور فوج کو ساز و سامان سے درست کر کے قلعہ کے دروازے پر جما دیا۔ دونوں حریف اس طرح دل توڑ کر لڑے کہ لیلتہ الہریر کے سوا کبھی نہیں لڑے تھے۔ اول تیروں کا مینہ برسا، ترکش خالی ہو گئے تو بہادروں نے نیزے سنبھال لئے۔ یہاں تک کہ نیزے بھی ٹوٹ ٹوٹ کر ڈھیر ہو گئے۔ تو تیغ و خنجر کا معرکہ شروع ہوا۔ قعقاع نہایت دلیری سے لڑ رہے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ قلعہ کی پھاٹک تک پہنچ گئے۔ لیکن سپہ سالار فوج یعنی ہاشم پیچھے رہ گئے تھے۔ اور فوج کا بڑا حصہ انہیں کی رکاب میں تھا۔ قعقاع نے نقیبوں سے کہلوا دیا کہ سپہ سالار قلعہ کے دروازے تک پہنچ گیا۔ فوج نے قعقاع کو ہاشم سمجھا اور دفعتہً ٹوٹ کر گری۔ ایرانی گھبرا کر ادھر ادھر بھاگے لیکن جس طرف جاتے تھے گوکھرو بچھے ہوئے تھے۔ مسلمانوں نے بے دریغ قتل کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ مورخ طبری کی روایت کے موافق لاکھ آدمی جان سے مارے گئے اور تین کروڑ غنیمت ہاتھ آئی۔
سعد نے مژدہ فتح کے ساتھ پانچواں حصہ مدینہ منورہ بھیجا۔ زیاد نے جو مژدہ فتح لے کر گئے تھے ، نہایت فصاحت کے ساتھ جنگ کے حالات بیان کئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ان واقعات کو اسی طرح مجمع میں بیان کر سکتے ہو؟ زیاد نے کہا میں کسی سے مرعوب ہوتا تو آپ سے ہوتا، چنانچہ مجمع عام ہوا اور انہوں نے اس فصاھت اور بلاغت سے تمام واقعات بیان کئے کہ معرکہ کی تصویر کھینچ دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بول اٹھے کہ خطیب اس کو کہتے ہیں۔ انہوں برجستہ کہا :
ان جندنا الطلقونا
بالفعال لساننا
اس کے بعد زیاد نے غنیمت کا ذخیرہ حاضر کیا۔ لیکن اس وقت شام ہو چکی تھی۔ اسی لیے تقسیم ملتوی رہی اور صحن مسجد میں ان کا ڈھیر لگا دیا گیا۔ عبد الرحمٰن بن عوف اور عبد اللہ بن ارقم نے رات بھر پہرہ دیا۔ صبح کو مجمع عام میں چادر ہٹائی گئی۔ درہم و دینار کے علاوہ انبار کے انبار جواہرات تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے ساختہ رو پڑے۔ لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ یہ رونے کا کیا محل ہے ؟ فرمایا کہ جہاں دولت کا قدم آتا ہے رشک و حسد بھی ساتھ آتا ہے۔
یزدگرد کو جلولاء کی شکست کی خبر پہنچی تو حلوان چھوڑ کر رے کو روانہ ہوا اور خسرو شنوم کو جو ایک معزز افسر تھا چند رسالوں کے ساتھ حلوان کی حفاظت کے لیے چھوڑتا گیا۔ سعد خود جلولاء میں ٹھہرے اور قعقاع کو حلوان کی طرف روانہ کیا۔ قعقاع قصر شیریں (حلوان سے تین میل پر ہے ) کے قریب پہنچے تھے کہ خسرو شنوم خود آگے بڑھ کر مقابل ہوا۔ لیکن شکست کھا کر بھاگ نکلا۔ قعقاع نے حلوان پہنچ کر مقام کیا۔ اور ہر طرف امن کی منادی کرا دی۔ اطراف کے رئیس آ آ کر جزیہ قبول کرتے جاتے تھے اور اسلام کی حمایت میں آتے جاتے تھے۔ یہ فتح عراق کی فتوحات کا خاتمہ تھی۔ کیونکہ عراق کی حد یہاں ختم ہو جاتی ہے۔
فتوحات شام
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
سلسلہ واقعات کے لحاظ سے ہم اس موقع پر شام کی لشکر کشی کے ابتدائی حالات بھی نہایت اجمال کے ساتھ لکھتے ہیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آغاز 13 ہجری (634 عیسوی) میں شام پر کئی طرف سے لشکر کشی کی۔ ابو عبیدہ کو حمص پر، یزید بن ابی سفیان کو دمشق پر، شرجیل کو اردن پر، عمرو بن العاص کو فلسطین پر مامور کیا۔ فوجوں کی مجموعی تعداد 4000 تھی، عرب کی سرحد سے نکل کر ان افسروں کو ہر قدم پر رومیوں کے بڑے بڑے جتھے ملے جو پہلے سے مقابلہ کے لئے تیار تھے ، ان کے علاوہ قیصر نے تمام ملک سے فوجیں جمع کر کے الگ الگ افسروں کے مقابلے پر بھیجیں۔ یہ دیکھ کر افسران اسلام نے اس پر اتفاق کیا کہ کل فوجیں یکجا ہو جائیں۔ اس کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا کہ اور فوجیں مدد کو روانہ کی جائیں، چنانچہ خالد بن ولید جو عراق کی مہم پر مامور تھے عراق سے چل کر راہ میں چھوٹی چھوتی لڑائیاں لڑتے اور فتح حاصل کرتے دمشق پہنچے اور اس کو صدر مقام قرار دے کر وہاں مقام کیا۔ قیصر نے ایک بہت بڑی فوج مقابلے کے لیے روانہ کی جس نے اجنادین پہنچ کر جنگ کی تیاریاں شروع کیں۔ خالد اور ابو عبیدہ خود پیش قدمی کر کے اجنادین پر بڑھے اور افسروں کو لکھ کر بھیجا کہ وہیں آ کر مل جائیں۔ چنانچہ شرجیل، یزید، عمرو بن العاص وقت مقرر پر اجنادین پہنچ گئے۔ خالد نے بڑھ کر حملہ کیا اور بہت بڑے معرکے کے بعد جس میں تین ہزار مسلمان مارے گئے۔ فتح کامل حاصل ہوئی۔ یہ واقعہ حسب روایت ابن اسحاق 28 جمادی الاول 13 ہجری (634 عیسوی) میں واقع ہوا۔ اس مہم سے فارغ ہو کر خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر دمشق کا رخ کیا۔ اور دمشق پہنچ کر ہر طرف سے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرہ اگرچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں شروع ہوا، چونکہ فتح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں حاصل ہوئی، اس لئے ہم اس معرکہ کی حال تفصیل سے لکھتے ہیں۔
فتح دمشق
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
یہ شہر شام کا ایک بڑا صدر مقام تھا اور چونکہ جاہلیت میں اہل عرب تجارت کے تعلق سے اکثر وہاں آیا جایا کرتے تھے اس کی عظمت کا شہرہ تمام عرب میں تھا۔ ان وجوہ سے خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے اہتمام سے محاصرہ کے سامان کئے۔ شہر پناہ کے بڑے بڑے دروازوں پر ان افسروں کو مقرر کیا، جو شام کے صوبوں کی فتح پر مامور ہو کر آئے تھے۔ چنانچہ عمرو بن العاص باب توما پر، شرجیل باب الفرادیس پر، ابو عبیدہ باب الجلیہ پر متعین ہوئے۔ اور خود خالد نے پانچ ہزار فوج ساتھ لے کر باب الشرق کے قریب ڈیرے ڈالے۔ محاصرہ کی سختی دیکھ کر عیسائی ہمت ہارتے جاتے تھے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ انکے جاسوس جو دریافت حال کے لئے مسلمانوں کی فوج میں آتے جاتے تھے۔ آ کر دیکھتے تھے کہ تمام فوج میں ایک جوش کا عالم ہے۔ ہر شخص پر ایک نشہ سا چھایا ہوا ہے۔ ہر ہر فرد میں دلیری، ثابت قدمی، راستبازی، عزم اور استقلال پایا جاتا ہے۔ تاہم ان کو یہ سہارا تھا کہ ہرقل سر پر موجود ہے اور حمص سے امدادی فوجیں چل چکی ہیں۔ اسی اثناء میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتقال کیا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے۔
عیسائیوں کو یہ بھی خیال تھا کہ اہل عرب ان ممالک کی سردی کو برداشت نہیں سکتے ، اس لئے موسم سرما تک یہ بادل آپ سے آپ چھٹ جائے گا۔ لیکن ان کو دونوں امیدیں بیکار گئیں۔ مسلمانوں کی سرگرمی جاڑوں کی شدت میں بھی کم نہ ہوئی۔ ادھر خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذوالکاع کو کچھ فوج دے کر دمشق سے ایک منزل کے فاصلے پر متعین کر دیا تھا کہ ادھر سے مدد نہ آنے پائے۔ چنانچہ ہرقل نے حمص سے جو فوجیں بھیجی تھیں وہیں روک لی گئیں۔ دمشق والوں کو اب بالکل یاس ہو گئی۔ اسی اثناء میں اتفاق سے ایک واقعہ پیش آیا جو مسلمانوں کے حق میں ئائید غیبی کا کام دے گیا۔ یعنی بطریق دمشق کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا۔ جس کی تقریب میں تمام شہر نے خوشی کے جلسے کئے اور کثرت سے شرابیں پی کر شام سے پڑ کر سو رہے۔ خالد راتوں کو سوتے کم تھے اور محصورین کی ذرا ذرا سی بات کی خبر رکھتے تھے۔ اس سے عمدہ موقع کہاں ہاتھ آ سکتا تھا۔ اسی وقت اٹھے اور چند بہادر افسروں کو ساتھ لیا۔ شہر پناہ کے نیچے خندق پانی سے لبریز تھی۔ مشک کے سہارے پار اترے اور کمند کے ذریعے سے دیوار پر چڑھ گئے اور جا کر رسی کی سیڑھی کمند سے اٹکا کر نیچے لٹکا دی۔ اور اس ترکیب سے تھوڑی دیر میں بہت سے جانثار (یہ طبری کی روایت ہے۔ بلاذری کا بیان ہے کہ خالد کو عیسائیوں کے جشن کی خبر خود ایک عیسائی نے دی تھی اور سیڑھی بھی عیسائی لائے تھے ) فصیل پر پہنچ گئے۔ خالد نے اتر کر پہلے دربانوں کو تہ تیغ کیا۔ پھر قفل توڑ کر دروازے کھول دیئے۔ ادھر فوج پہلے سے تیار کھڑی تھی۔ دروازے کھلنے ساتھ سیلاب کی طرح گھس آئی اور پہرہ کی فوج کو تہ تیغ کر دیا۔ عیسائیوں نے یہ رنگ دیکھ کر شہر پناہ کے تمام دروازے کھول دیئے اور ابو عبیدہ سے ملتجی ہوئے کہ ہم کو خالد سے بچائیے۔ مقسلاط میں جو ٹھٹھیروں کا بازار تھا۔ ابو عبیدہ اور خالد کا سامنا ہوا۔ خالد نے شہر کا جو حصہ فتح کر لیا تھا۔ اگرچہ لڑ کر فتح کیا تھا۔ لیکن ابو عبیدہ نے چونکہ صلح منظور کر لی تھی۔ مفتوحہ حصے میں بھی صلح کی شرطیں تسلیم کر گئیں۔ یعنی نہ غنیمت کی اجازت دی گئی نہ کوئی شخص لونڈی غلام بنایا گیا۔ یہ مبارک فتح جو تمام بلاد شامیہ کی فتح کا دیباچہ تھی رجب 14 ہجری (635 عیسوی) میں ہوئی۔
فحل ذوقعدہ 14 ہجری (635 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
دمشق کی شکست نے رومیوں کو سخت برہم کر دیا اور وہ ہر طرف سے جمع ہر کو بڑے زور اور قوت کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے کے لئے آمادہ ہوئے۔ دمشق کی فتح کے بعد چونکہ مسلمانوں نے اردن کا رخ کیا تھا۔ اس لئے انہوں نے اسی صوبے کے ایک مشہور شہر وسان میں فوجیں جمع کرنی شروع کیں۔ شہنشاہ ہرقل نے دمشق کی امداد کے لئے جو فوجیں بھیجی تھیں اور دمشق تک نہ پہنچ سکی تھیں، وہ بھی اس میں آ کر شامل ہو گئیں۔ اس طرح تیس چالیس ہزار کا مجمع جمع ہو گیا۔ جس کا سپہ سالار سکار نام کا ایک رومی افسر تھا۔
موقعہ جنگ سمجھنے کے لئے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ شام کا ملک چھ ضلعوں میں منقسم ہے جن سے دمشق، حمص، اردن، فلسطین مشہور اضلاع ہیں۔ اردن کا صدر مقام طبریہ ہے جو دمشق سے چار منزل ہے۔ طبریہ کے مشرقی جانب بارہ میل کی لمبی ایک جھیل ہے جس کے قریب چند میل پر ایک چھوٹا سا شہر جس کا پرانا نام سلا اور نیا یعنی عربی نام فحل ہے۔ یہ لڑائی اسی شہر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مقام اب بالکل ویران ہے۔ تاہم اس کے کچھ کچھ آثار اب بھی سمندر کی سطح سے چھ سو فٹ بلندی پر محسوس ہوتے ہیں۔ ہیسان طبریہ کی جنوبی طرف 18 میل پر واقع ہے۔
غرض رومی فوجیں جس طرح ہیسان میں جمع ہوئیں، اور مسلمانوں نے ان کے سامنے فحل پر پڑاؤ ڈالا۔ رومیوں نے اس ڈر سے کہ مسلمان دفعتہً نہ آ پڑیں، آس پاس جس قدر نہریں تھیں سب کے بند توڑ دیئے۔ اور فحل سے ہیسان تک تمام عالم آب ہو گیا۔ کیچڑ اور پانی کی وجہ سے تمام راستے رک گئے لیکن اسلام کا سیلاب کب رک سکتا تھا۔ مسلمانوں کا استقلال دیکھ کر عیسائی صلح پر آمادہ ہوئے اور ابو عبیدہ کے پاس پیغام بھیجا کہ کوئی شخص سفیر بن کر آئے۔ ابو عبیدہ نے معاذ بن جبل کو بھیجا۔ معاذ رومیوں کے لشکر میں پہنچے تو دیکھا کہ خیمے میں دیبائے زریں کا فرش بچھا ہے وہیں ٹھہر گئے۔ ایک عیسائی نے آ کر کہا کہ گھوڑا میں تھام لیتا ہوں آپ دربار میں جا کر بیٹھئے۔ معاذ کی بزرگی اور تقدس کا عام چرچا تھا۔ اور عیسائی تک اس سے واقف تھے۔ اس لئے وہ واقعی ان کی عزت کرنی چاہتے تھے اور ان کا باہر کھڑے رہنا ان کو گراں گزرتا تھا۔ معاذ نے کہا کہ میں اس فرش پر جو غریبوں کا حق چھین کر تیار ہوا ہے بیٹھنا نہیں چاہتا۔ یہ کہہ کر زمین پر بیٹھ گئے۔ عیسائیوں نے افسوس کیا اور کہا کہ ہم تمہاری عزت کرنا چاہتے تھے۔ لیکن تم خود کو اپنی عزت کا خیال نہیں تو مجبوری ہے۔ معاذ کو غصہ آیا۔ گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور کہا کہ جس کو تم عزت سمجھتے ہو مجھ کو اس کی پرواہ نہیں۔ اگر زمین پر بیٹھنا غلاموں کا شیوہ ہے تو مجھ سے بڑھ کر کون خدا کا غلام ہو سکتا ہے ؟ رومی ان کی بے پروائی اور آزادی پر حیرت زدہ تھے ، یہاں تک ایک شخص نے پوچھا کہ مسلمانوں میں تم سے بھی کوئی بڑھ کر ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ” معاذ اللہ یہی بہت ہے کہ میں سب سے کم ترہوں۔ ” رومی چپ ہو گئے۔ معاذ نے کچھ دیر انتظار کر کے مترجم سے کہا کہ ” ان سے کہہ دو کہ اگر تم کو مجھ سے کچھ نہیں کہنا ہے تو میں واپس جاتا ہوں۔ ” رومیوں نے کہا، ہم کو یہ پوچھنا کہ تم اس طرف کس غرض سے آئے ہو۔ ابی سینا کا ملک تم سے قریب ہے ، فارس کا بادشاہ مر چکا ہے اور سلطنت ایک عورت کے ہاتھ میں ہے۔ ان کو چھوڑ کر تم نے ہماری طرف کیو رخ کیا؟ حالانکہ ہمارا بادشاہ سب سے بڑا بادشاہ ہے اور تعداد میں ہم آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر ہیں۔ معاذ نے کہا کہ سب سے پہلے ہماری یہ درخواست ہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ۔ ہمارے کعبہ کی طرف نماز پڑھو، شراب پینا چھوڑ دو۔ سور کا گوشت نہ کھاؤ۔ اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تمہارے بھائی ہیں۔ اگر اسلام لانا منظور نہیں تو جزیہ دو۔ اس سے بھی انکار ہو تو آگے تلوار ہے۔ اگر تم آسمان کے ستاروں کے برابر ہو تو ہم کو قلت اور کثرت کی پرواہ نہیں۔ ہمارے خدا نے کہا کہ ” کم من فئۃِ قلیلۃِ غلبت فئۃً کثیرۃً باذن اللہ ” تم کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان و مال کا اختیار ہے لیکن ہم نے جس کو اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اس کو درے لگائے جائیں۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں، وہ پردے میں نہیں بیٹھتا، اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا، مال و دولت میں اس کو ہم پر ترجیح نہیں۔ ” رومیوں نے کہا ” اچھا ہم تم کو بلقاء کا ضلع اوراردن کا وہ حصہ جو تمہاری زمین سے متصل ہے دیتے ہیں۔ تم یہ ملک چھوڑ کر فارس جاؤ۔ معاذ نے انکار کیا اور اٹھ کر چلے آئے۔ رومیوں نے براہ راست ابو عبیدہ سے گفتگو کرنی چاہی۔ چنانچہ اس غرض سے ایک خاص قافلہ بھیجا۔ جس وقت وہ پہنچا ابو عبیدہ زمین پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہاتھ میں تیر تھے جن کو الٹ پلٹ کر رہے تھے۔ قاصد نے خیال کیا تھا کہ سپہ سالار بڑا جاہ و حشم رکھتا ہو گا۔ اور یہی اس کی شناخت کا ذریعہ ہو گا۔ لیکن وہ جس طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا تھا سب ایک رنگ میں ڈوبے نظر آتے تھے۔ آخر گھبرا کر پوچھا کہ تمہارا سردار کون ہے ؟ لوگوں نے ابو عبیدہ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ حیران رہ گیا اور تعجب سے ان کی طرف مخاطب ہو کر کہا کیا درحقیقت تم ہی سردار ہو؟
ابو عبیدہ نے کہا! ” ہاں ” قاصد نے کہا، ہم تمہاری فوج کو فی کس دو دو اشرفیاں دیں گے ، تم یہاں سے چلے جاؤ۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا۔ قاصد برہم ہو کر اتھا۔ ابو عبیدہ نے اس کے تیور دیکھ کر فوج کو کمر بندی کا حکم دیا اور تمام حالات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھ بھیجے (فتوح الشام ازدی میں ہے کہ یہ خط ایک شامی لے کر گیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ترغیب سے مسلمان ہو گیا )۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب مناسب لکھا اور ” حوصلہ دلایا کہ ثابت قدم رہو۔ خدا تمہارا یاور اور مدد گار ہے۔ “
ابو عبیدہ نے اسی دن کمر بندی کا حکم دے دیا تھا۔ لیکن رومی مقابلے میں نہ آئے۔ اگلے دن تنہا خالد میدان میں گئے۔ صرف سوارون کا رسالہ رکاب میں تھا۔ رومیوں نے بھی تیاری کی اور فوج کے تین حصے کر کے باری باری میدان میں بھیجے۔ پہلا دستہ خالد ان کی طرف باگیں اٹھائے چلا آتا تھا کہ خالد کے اشارے سے قیس بن ببیرہ نے صف سے نکل کر ان کا اگا روکا اور سخت کشت و خون ہوا۔ یہ معرکہ ابھی سر نہیں ہوا تھا کہ دوسری فوج نکلی۔ خالد نے سبرۃ بن مسروق کو اشارہ کیا۔ وہ اپنی رکاب کی فوج کو لے کر مقابل ہوئے ، تیسرا لشکر بڑے ساز و سامان سے نکلا۔ ایک مشہور سردار اس کا سپہ سالار تھا۔ اور بڑی تدبیر سے فوج کو بڑھاتا آتا تھا۔ قریب پہنچ کر خود ٹھہر گیا۔ اور ایک افسر کو تھوڑی سی فوج کے ساتھ خالد کے مقابلہ پر بھیجا۔ خالد نے یہ حملہ بھی نہایت استقلال سے سنبھالا۔ آخر سپہ سالار نے خود حملہ کیا اور پہلی دونوں فوجیں بھی آ کر مل گئیں، دیر تک معرکہ رہا۔ مسلمانوں کی ثابت قدمی دیکھ کر رومیوں نے زیادہ لڑنا بیکار سمجھا اور الٹا واپس جانا چاہا۔ خالد نے ساتھیوں کو للکارا کہ رومی اپنا زور صرف کر چکے ہیں۔ اب ہماری باری ہے۔ اس صدا کے ساتھ مسلمان دفعتہً ٹوٹ پڑے اور رومیوں کو برابر دباتے چلے گئے۔
عیسائی مدد کے انتظار میں لڑائی ٹالتے جاتے تھے۔ خالد ان کی یہ چال سمجھ گئے اور ابو عبیدہ سے کہا کہ رومی ہم سے مرعوب ہو چکے ہیں۔ حملے کا یہی وقت ہے۔ چنانچہ اسی وقت نقیب فوج میں جا کر پکار آئے کہ کل حملہ ہو گا۔ فوج ساز و سامان سے تیار رہے۔ رات کے پچھلے پہر ابو عبیدہ بستر خواب سے اٹھے اور فوج کی ترتیب شروع کی۔ معاذ بن جبل کو میمنہ پر مقرر کیا، ہاشم بن عتبہ کو میسرہ کی افسری دی۔ پیدل فوج پر سعید بن زید متعین ہوئے۔ سوار خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں دیئے گئے۔ فوج آراستہ ہو چکی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سرے سے اس سرے تک کا ایک چکر لگایا۔ ایک ایک علم کے پاس جا کر کھڑے ہوتے تھے اور کہتے تھے۔
عباد اللہ استرحوا من اللہ النصر بالصبر فان اللہ مع الصبرین۔
“یعنی خدا سے مدد چاہتے ہو تو ثابت قدم رہو کیونکہ خدا ثابت قدموں کے ساتھ رہتا ہے۔ “
رومیوں نے جو تقریباً 500 ہزار تھے آگے پیچھے پانچ صفیں قائم کیں جن کی ترتیب یہ تھی کہ پہلی صف میں ہر ہر سوار کے دائیں بائیں دو دو قدر انداز، میمنہ اور میسرہ پر سواروں کے رسالے ، پیچھے پیادہ فوجیں، اس ترتیب سے نقارہ دمامہ بجاتے مسلمانوں کی طرف بڑھے۔ خالد چونکہ ہراول پر تھے۔ پہلے انہی سے مقابلہ ہوا۔ رومی قدر اندازوں نے تیروں کا اس قدر مینہ برسایا کہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ادھر سے پہلو دے کر میمنہ کی طرف جھکے کیونکہ اس میں سوار ہی سوار تھے ، قدر انداز نہ تھے۔ رومیوں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے کہ میمنہ کا رسالہ فوج سے الگ ہو کر خالد پر حملہ آور ہوا۔ خالد آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ رسالہ فوج سے دور نکل آیا۔ خالد نے موقع پا کر اس زور سے حملہ کیا کہ صفیں کی صفیں الٹ دیں۔ گیارہ بڑے بڑے افسر ان کے ہاتھ سے مارے گئے۔ ادھر قیس بن ببیرہ نے میسرہ پر حملہ کر کے دوسرا بازو بھی کمزور کر دیا۔ تاہم قلب کی فوج تیر اندازوں کی وجہ سے محفوظ تھی۔ ہاشم بن عتبہ نے جو میسرہ کے سردار تھے علم ہلا کر کہا ” خدا کی قسم جب تک قلب میں پہنچ کر نہ گاڑوں گا، پھرکر نہ آؤں گا۔ ” یہ کہہ کر گھوڑے سے کود پڑے۔ ہاتھ میں سپر لے کر لڑتے بھڑتے اس قدر قریب پہنچ گئے کہ تیر و خدنگ سے گزر کر تیغ و شمشیر کی نوبت آئی۔ کامل گھنٹہ بھر لڑائی رہی۔ اور تمام میدان خون سے رنگین ہو گیا۔ آخر رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور نہایت بدحواسی سے بھاگے۔ ابو عبیدہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامۂ فتح لکھا اور پوچھا کہ مفتوحین کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ (واقعہ محل کی تفصیل فتوح شام ازدی سے لی گئی ہے۔ طبری وغیرہ نے نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے اور واقعہ کی کیفیت میں بھی اختلاف ہے )۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں لکھا کہ ” رعایاؤی قرار دی جائے اور زمین بدستور زمینداروں کے قبضے میں چھوڑ دی جائے۔ “
اس معرکے کے بعد ضلع اردن کے تمام شہر اور مقامات نہایت آسانی سے فتح ہو گئے۔ اور ہر جگہ شرائط صلح میں یہ لکھ دیا گیا کہ مفتوحین کی جان، مال، زمین، مکانات، گرجے ، عبادت گاہیں سب محفوظ رہیں گے۔ صرف مسجدوں کی تعمیر کے لئے کس قدر زمین لی جائے گی۔
حمص 14 ہجری (635 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
شام کے اضلاع میں سے یہ ایک بڑا ضلع اور قدیم شہر ہے۔ انگریزی میں اکوامیشا کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس کی شہرت زیادہ اس وجہ سے ہوئی کہ یہاں آفتاب کے نام پر ایک بڑا ہیکل تھا جس کے تیرتھ کے لئے دور دور سے لوگ آتے تھے اور اس کی پجاری ہونا بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی تھی۔ دمشق اور اردن کے بعد تین بڑے بڑے شہر رہ گئے تھے جن کا مفتوح ہونا شام کا مفتوح ہونا تھا۔ بیت المقدس، حمص اور انطاکیہ، جہاں خود ہرقل مقیم تھا۔ حمص ان دونوں کی بہ نسبت زیادہ قریب اور جمعیت و سامان میں دونوں سے کم تھا۔ اس لئے لشکر اسلام نے اول اسی کا ارادہ کیا۔ راہ میں بعلبک پڑتا تھا وہ خفیف سی لڑائی کے بعد فتح ہو گیا۔ حمص کے قریب رومیوں نے خود بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا۔ چنانچہ فوج کثیر حمص سے نکل کر جوسیہ میں مسلمانوں کے مقابل ہوئی لیکن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلے ہی حملے میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ خالد نے مبرہ بن مسروق کو تھوڑی سی فوج دے کر حمص کو روانہ کیا۔ راہ میں رومیوں کی ٹوٹی پھوٹی فوجوں سے جو ادھر ادھر پھیلی ہوئی تھیں مٹھ بھیڑ ہوئی اور مسلمان کامیاب رہے۔
اس معرکے میں شرجیل حمیری نے اکیلے سات سو سواروں کو قتل کیا اور فوج سے الگ ہو کر جریدہ حمص کی طرف بڑھے۔ شہر کے قریب رومیوں کے ایک رسالہ نے ان کو تنہا دیکھ کر حملہ کیا۔ انہوں نے بڑی ثابت قدمی سے جنگ کی۔ یہاں تک کہ جب دس گیارہ شخص ان کے ہاتھ سے مارے گئے تو رومی بھاگ گئے اور ایک گرجا میں جو دیر مسحل کے نام سے مشہور تھا جا کر پناہ لی۔ ساتھ ہی یہ بھی پہنچے۔ گرجا میں ایک جماعت کثیر موجود تھی۔ یہ چاروں طرف سے گھر گئے اور ڈھیلوں اور پتھروں کی بوچھاڑ میں زخمی ہو کر شہادت حاصل کی۔ مبرۃ کے بعد خالد نے اور ابو عبیدہ نے بھی حمص کا رخ کیا۔ اور محاصرہ کے سامان پھیلا دیئے۔ چونکہ نہایت شدت کی سردی تھی اور رومیوں کو یقین تھا کہ مسلمان کھلے میدان میں دیر تک نہ لڑ سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہرقل کا قاصد آ چکا تھا کہ بہت جلد امدادی فوج تھیجی جاتی ہے۔ چنانچہ اس حکم کے موافق جزیرہ سے ایک جمعیت عظیم روانہ ہوئی۔ لیکن سعد بن ابی وقاص نے جو عراق کی مہم پر مامور تھے ، یہ خبر سن کر کچھ فوجیں بھیج دیں۔ جس نے ان کو وہیں روک لیا اور آگے بڑھنے نہ دیا۔ (کاکل ابن الاثیر)۔ حمص والوں نے ہر طرف سے مایوس ہو کر صلح کی درخواست کی۔ ابو عبیدہ نے عبادہ بن صامت کو وہاں چھوڑا اور خود حماۃ (یہ ایک قدیم شہر حمص اور قعسرین کے درمیان واقع ہے ) کی طرف روانہ ہو گئے۔ حماۃ والوں نے ان کے پہنچنے کے ساتھ صلح کی درخواست کی اور جزیہ دینا منظور کیا۔ وہاں سے روانہ ہو کر شیرز اور شیرز سے معرۃ العمان پہنچے اور ان مقامات کے لوگوں نے خود اطاعت قبول کر لی۔ ان سے فارغ ہو کر لاذقیہ کا رخ کیا۔ یہ ایک نہایت قدیم شہر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عہد میں اس کو اماثنا کہتے تھے۔ حضرت ابو عبیدہ نے یہاں سے کچھ فاصلہ پر مقام کیا۔ اور اس کی مضبوطی اور استواری دیکھ کر ایک نئی تدبیر اختیار کی۔ یعنی میدان میں بہت سے غار کھدوائے۔ یہ غار اس تدبیر اور احتیاط سے تیار ہوئے کہ دشمنوں کو خبر تک نہ ہونے پائی۔ ایک دن فوج کو کوچ کا حکم دیا۔ اور محاصرہ چھوڑ کر حمص کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر والوں نے جو مدت کی قلعہ بندی سے تنگ آ گئے تھے اور ان کا تمام کاروبار بند تھا۔ اس کو تائید غیبی خیال کیا۔ اور شہر پناہ کا دروازہ کھول کر کاروبار میں مصروف ہوئے۔ مسلمان اسی رات کو واپس آ کر غاروں میں چھپ رہے تھے۔ صبح کے وقت کمین گاہوں سے نکل کر دفعتہً حملہ کیا اور دم بھر میں شہر فتح ہو گیا۔ حمص کی فتح کے بعد ابو عبیدہ نے خاص ہرقل کے پائے تخت کا ارادہ کیا اور کچھ فوجیں اس طرف بھیج بھی دیں۔ لیکن دربار خلافت سے حکم پہنچا کہ اس سال اور آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیا جائے۔ چنانچہ اس ارشاد کے موافق فوجیں واپس بلا لی گئیں۔ اور بڑے بڑے شہروں میں افسر اور نائب بھیج دیئے گئے کہ وہاں کسی طرح کی ابتری نہ ہونے پائے۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ہزار فوج کے ساتھ دمشق کو گئے۔ عمرو بن العاص نے اردن میں مقام کیا۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود حمص میں اقامت کی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی