میرا پروردگار ان عورتوں کے مکر سے خوب واقف ہے


 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 سورہ یوسف آیت نمبر 50🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼ 

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِیْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّا جَآءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰى رَبِّكَ فَسْئَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ الّٰتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَهُنَّ١ؕ اِنَّ رَبِّیْ بِكَیْدِهِنَّ عَلِیْمٌ

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 لفظی ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

وَقَالَ : اور کہا الْمَلِكُ : بادشاہ ائْتُوْنِيْ : میرے پاس لے آؤ بِهٖ : ساتھ اس کے فَلَمَّا : پس جب جَآءَهُ : اس کے پاس آیا الرَّسُوْلُ : قاصد قَالَ : اس نے کہا ارْجِعْ : لوٹ جا اِلٰي : طرف (پاس) رَبِّكَ : اپنا مالک فَسْئَلْهُ : پس اس سے پوچھو مَا بَالُ : کیا حال ؟ النِّسْوَةِ : عورتیں الّٰتِيْ : وہ جو قَطَّعْنَ : انہوں نے کاٹے اَيْدِيَهُنَّ : اپنے ہاتھ اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب بِكَيْدِهِنَّ : ان کا فریب عَلِيْمٌ : واقف

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
اور بادشاہ نے کہا کہ : اس کو (یعنی یوسف کو) میرے پاس لے کر آؤ۔ چنانچہ جب ان کے پاس ایلچی پہنچا تو یوسف نے کہا : اپنے مالک کے پاس واپس جاؤ، اور ان سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا قصہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈا لے تھے ؟ میرا پروردگار ان عورتوں کے مکر سے خوب واقف ہے۔ (32)

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 تفسیر 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

32: یہاں پھر قرآن کریم نے واقعے کے وہ حصے حذف فرما دئیے ہیں جو خود سمجھ میں آسکتے ہیں۔ یعنی حضرت یوسف ؑ نے خواب کی جو تعبیر دی تھی وہ بادشاہ کو بتائی گئی۔ بادشاہ نے تعبیر سن کر ان کو قدر دانی کے طور پر اپنے پاس بلوانا چاہا۔ اور اس مقصد کے لیے اپنا ایک ایلچی بھیجا اس موقع پر حضرت یوسف ؑ نے چاہا کہ اپنی رہائی سے پہلے اس جھوٹ الزام کی واضح طور پر صفائی کروائیں جو ان پر لگایا گیا تھا۔ اس لیے اس مرحلے پر انہوں نے ایلچی کے ساتھ جانے کے بجائے بادشاہ کو یہ پیغام بھجوایا کہ آپ پہلے ان عورتوں کے معاملات کی تحقیق کریں جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے، چونکہ ان عورتوں کو ساری بات معلوم تھی، اور ان کے ذریعے حقیقت کا معلوم کرنا زیادہ آسان تھا، اسی لیے زلیخا کے بجائے ان کا حوالہ دیا۔ اور اگرچہ یہ تحقیق جیل سے رہا ہونے کے بعد بھی کی جاسکتی تھی۔ لیکن حضرت یوسف ؑ نے شاید اس لیے یہ طریقہ اختیار فرمایا تاکہ بادشاہ اور عزیز مصر وغیرہ پر یہ بات واضح ہوجائے کہ ان کو اپنی بےگناہی پر اتنا یقین ہے کہ وہ بےگناہ ثابت ہوئے بغیر جیل سے رہا ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسرے حضرت یوسف ؑ نے بادشاہ کے انداز سے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ انہیں کوئی اعزاز دیں گے۔ اس اعزاز کے ملنے کے بعد تحقیقات کے غیر جانب دارانہ ہونے میں لوگوں کو شکوک اور شبہات ہوسکتے تھے۔ اس لیے آپ نے مناسب یہی سمجھا کہ جیل سے اس وقت نکلیں جب غیر جانب دارانہ تحقیق کے نتیجے میں الزام کا ہر داغ دھل چکا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ بادشاہ کو حضرت یوسف ؑ کی سچائی کا یقین ہوگیا، اور اس نے جب ان عورتوں کو بلا کر ان سے اس انداز میں سوال کیا جیسے اسے ساری حقیقت معلوم ہے تو وہ حقیقت سے انکار نہ کرسکیں، بلکہ انہوں نے حضرت یوسف ؑ کی بےگناہی کی صاف لفظوں میں گواہی دی۔ اس مرحلے پر عزیز مصرف کی بیوی زلیخا کو بھی یہ اقرار کرنا پڑا کہ اصل غلطی اسی کی تھی۔ شاید اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنے جرم کے اقرار اور توبہ کے ذریعے وہ بھی پاک صاف ہوسکے،

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی