ایک قابل تکریم فرشتے کے سوا یہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔


  ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 سورہ یوسف آیت نمبر 31🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼ 

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَیْهِنَّ وَ اَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَاً وَّ اٰتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّیْنًا وَّ قَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْهِنَّ١ۚ فَلَمَّا رَاَیْنَهٗۤ اَكْبَرْنَهٗ وَ قَطَّعْنَ اَیْدِیَهُنَّ وَ قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا هٰذَا بَشَرًا١ؕ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا مَلَكٌ كَرِیْمٌ

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 لفظی ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

فَلَمَّا : پھر جب سَمِعَتْ : اس نے سنا بِمَكْرِهِنَّ : ان کا فریب اَرْسَلَتْ : دعوت بھیجی اِلَيْهِنَّ : ان کی طرف وَاَعْتَدَتْ : اور تیار کی لَهُنَّ : ان کے لیے مُتَّكَاً : ایک محفل وَّاٰتَتْ : اور دی كُلَّ وَاحِدَةٍ : ہر ایک کو مِّنْهُنَّ : ان میں سے سِكِّيْنًا : ایک ایک چھری وَّقَالَتِ : اور کہا اخْرُجْ : نکل آ عَلَيْهِنَّ : ان پر (ان کے سامنے) فَلَمَّا : پھر جب رَاَيْنَهٗٓ : انہوں نے اسے دیکھا اَكْبَرْنَهٗ : ان پر اس کا رعب چھا گیا وَقَطَّعْنَ : اور انہوں نے کاٹ لیے اَيْدِيَهُنَّ : اپنے ہاتھ وَقُلْنَ : اور کہنے لگیں حَاشَ : پناہ لِلّٰهِ : اللہ کی مَا ھٰذَا : نہیں یہ بَشَرًا : بشر اِنْ : نہیں ھٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر مَلَكٌ : فرشتہ كَرِيْمٌ : بزرگ

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
چنانچہ جب اس (عزیز کی بیوی) نے ان عورتوں کے مکر کی یہ بات سنی (20) تو اس نے پیغام بھیج کر انہیں (اپنے گھر) بلوا لیا۔ اور ان کے لیے ایک تکیوں والی نشست تیار کی، اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چاقو دے دیا۔ (21) اور (یوسف سے) کہا کہ : ذرا باہر نکل کر ان کے سامنے آجاؤ، اب جو ان عورتوں نے یوسف کو دیکھا تو انہیں حیرت انگیز (حد تک حسین) پایا، اور (ان کے حسن سے مبہوت ہوکر) اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے، اور بول اٹھیں کہ : حاشا للہ ! یہ شخص کوئی انسان نہیں ہے، ایک قابل تکریم فرشتے کے سوا یہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 تفسیر 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

20: ان عورتوں کی اس بات کو مکر شاید اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ کسی خیر خواہی کی وجہ سے یہ باتیں نہیں بنا رہی تھیں۔ بلکہ محض زلیخا کو بدنام کرنا مقصود تھا۔ اور کچھ بعید نہیں کہ انہوں نے حضرت یوسف ؑ کے حسن و جمال کی شہرت سن کر یہ باتیں اسی لیے کی ہوں کہ زلیخا ان کو بھی دیدار کا موقع فراہم کردے۔
21: ان کی مہمان نوازی کے لیے پھل دسترخوان پر رکھے گئے تھے۔ اور چاقو انہیں کاٹنے کے لیے دیا گیا تھا۔ لیکن شاید زلیخا کو یہ اندازہ تھا کہ جب یہ عورتیں حضرت یوسف ؑ کو دیکھیں گیں تو یہ چاقو بےخودی کی حالت میں خود ان کے ہاتھوں پر چل جائے گا۔ چنانچہ آگے بیان فرمایا گیا ہے کہ واقعی جب انہوں نے حضرت یوسف ؑ کو دیکھا تو ان کے حسن و جمال میں ایسی محو ہوئیں کہ بےخیالی میں چاقو ان کے ہاتھوں پر چل گیا۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی