ترک اچار میں چھپا ہے سر درد کا علاج


اچار ترک کھانوں کا لازمی جُزو ہے اور اچار کے پانی کو شدید سر درد کے لیے فوری، مزیدار اور قدرتی علاج تصور کیا جاتا ہے۔

استنبول کی گہماگہمی سے بھرپور گلی میں سادی سی دکان کے سامنے ایک بوڑھا آدمی اچار کی رنگین تھیلیوں کو ترتیب دے رہا تھا۔ وہ گوبھی، چقندر، آلوبخارے اور مرچوں کی بالٹیوں میں سے ڈھیلے نکال کر انھیں مضبوط اور شفاف پلاسٹک کی تھیلیوں میں اسی اچار کے پانی کے ساتھ بھر کر تھیلیوں کو بند کر رہا تھا۔

64 سالہ آدم التون کا خاندان تین نسلوں سے اچار ڈالنے کے کاروبار سے منسلک ہے اور وہ خود بھی یہ کام بچپن سے کر رہے ہیں۔ ان کے اچار کی دکانیں پورے شہر میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن آدم استنبول سے ملحق قارطولوش کے علاقے میں پیلت تُرشولاری میں اس برانڈ سب سے پہلی دکان پر کام کرتے ہیں۔ یہ دکان نسل در نسل منتقل ہونے والی دہائیوں پرانی تکنیک کا استعمال کرنے والی استنبول کی اچار کی بہترین دکانوں میں سے ایک ہے۔

التون کا کہنا ہے کہ ’اچار کے بغیر ہمارا کوئی کھانا مکمل نہیں ہوتا۔ کھانے کی ہر میز پر اچار ضرور موجود ہوتا ہے۔ چونکہ اچار سردیوں میں ڈالا جاتا ہے اس لیے گرمیوں میں اکثر اوقات اچار کی فروخت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔‘

لیکن میں یہاں اچار ڈالنے یا کھانے کی میز کے لیے انواع و اقسام کے اچار لینے نہیں آیا تھا۔ میں اپنے اپارٹمنٹ سے چند منٹ کی مسافت پر موجود اس دکان میں ایک مختلف مقصد کے حصول کے لیے آیا تھا۔ دراصل اس سے پچھلی رات میں نے کچھ زیادہ ہی شراب پی لی تھی اور اور اچار کے پانی کا ایک گلاس شدید سر درد کے لیے فوری، مزیدار اور قدرتی علاج کے طور پر جانا جاتا ہے۔

التون نے مجھے اچار کا پانی پیش کرتے ہوئے وضاحت کی: ’اس میں بہت زیادہ معدنیات ہوتے ہیں۔‘

ترک کھانوں کے ساتھ اچار کا استعمال عام ہے۔ جو بھی چیز زمین سے اُگتی ہے یہاں اس کا اچار ڈالا جا سکتا ہے۔ ترکی میں اچار ڈالنے کا رواج عثمانی دور جتنا پرانا ہے اور ایسے کھانے کا لازمی جُز ہے جو انتہائی متنوع، پیچیدہ اور علاقے کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے۔ ترکی میں اچار کو ’تُرشو‘ کہا جاتا ہے، یعنی کھٹی چیز۔

شہر میں اچار کی اہمیت سے روشناس ہونے کے لیے بہترین جگہ پرانے استنبول کا علاقہ ایمینونو ہے۔ آبنائے وہاں شروع ہوتی ہے جہاں باسفورس مارمارا سمندر سے ملتا ہے۔ گولڈن ہارن کے کنارے پر ہچکولے کھاتی کشتیوں میں بھوک سے نڈھال مقامی لوگوں کے لیے مچھلی والے سینڈوچ گِرل کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ اب مچھلی شہر کے نزدیک واقع پانی کے ذخائر سے نہیں آتی بلکہ درآمد کی جاتی ہے مگر ڈولتی کشتیوں کے پاس رکھی کرسیوں پر گاجر، گوبھی اور مرچ کا اچار کھانا شہر کے سب سے دلفریب تجربات میں سے ایک ہے۔

اگرچہ اچار کا پانی کھانے کے ساتھ نہیں پیا جاتا لیکن ’سالگم‘ کہلانے والی اچار کے پانی کی ایک قسم کو شام کے کھانے کے ساتھ پیا جاتا ہے۔ اس تیکھے اور ذائقےدار مشروب کو بُھنا گوشت کھاتے وقت بادیان سے لیس راکی نامی شراب کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ گہرے جامنی رنگ کے آمیزے کو لال گاجر اور شلجم استعمال کر کے بنایا جاتا ہے۔

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں دو مشہور و معروف ریستوران چلانے والے ترکش شیف سمیر سِوری اوغلو کہتے ہیں کہ ’ترکی میں موجود اچار کی دکانیں نہ صرف ترک پیداوار کی مختلف اقسام کی گواہی دیتی ہیں بلکہ ہماری طرف سے اس پیداوار کو پائیدار بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’مرچوں اور کھیروں کی اقسام سے لے کر کچے بادام، اخروٹ اور بھرے ہوئے کچے بینگن کی نادر اچار یہ واضح کرتی ہے کہ اچار ڈالنا اناطولیہ کا قدیم رواج ہے جس کے تحت تازہ سبزیاں استعمال کی جاتی ہیں اور بچی ہوئی اشیا کا اچار ڈال کر یا محفوظ کرنے کے دیگر طریقے استعمال کر کے پیداوار کو بچا لیا جاتا ہے۔‘

مجھے اچار کے پانی کے ساتھ واسطہ پڑنے کا پہلا واقعہ ایسے یاد ہے جیسے کل کی بات۔ ایمینونو کے ساحل پر کھڑی کشتیوں سے پرے جاڑے کے موسم میں ایک روز میں نے خود کو ایک خوفناک ہینگ اوور سے الجھتے پایا جو شام تک برداشت سے باہر ہو گیا، اور س ردرد تو ایسا تھا کہ اس کے ختم ہونے کے کوئی اثار نہیں تھے۔ میں اچار کے پانی والے ٹھیلے کے پاس سے گزرا اور میرے درد سے پھٹتے سر کے دماغ کی بتی روشن ہو گئی۔ میں نے ہینگ اوور کے اس علاج کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔

مجھے صرف ایک قسم کے شربت کی پیشکش کی گئی۔ مشروب کا رنگ جامنی اور گلابی کے بیچ کا تھا۔ اس میں چقندر پڑا تھا اور میں نے دو گھونٹ میں اسے حلق سے نیچے اتارا اور اپنے راستے ہو لیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ سکینڈوں میں ہینگ اوور غائب ہو گیا۔

تب سے اب تک مجھے جب بھی ہینگ اوور محسوس ہوتا ہے تو میں اچار کی دکان کی تلاش میں نکل پڑتا ہوں۔ صرف ایک ترک لیرا کے عِوض بکنے والا سستا اور صحت افزا مشروب کسی بھی درد کش دوا سے بہتر اور سستا ہے۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ دکان دار سے بات چیت ضرور کروں جو اپنی اشیا کے صحت سے وابستہ فوائد بتا کر اپنا علم ظاہر کرتے ہیں۔

ایک اور بار پیلت طورشولاری پہنچ کر مرچوں کی اپنی رغبت ظاہر کرتے ہوئے میں نے ذرا تیز مرچوں والے مشروب کا گلاس مانگا۔ التون نے اچاری چقندر اور کھیروں کے پانی کو ملایا اور تیکھے پن کا مزا دینے کے لیے تھوڑا سا اچاری مرچوں کا پانی ڈالا۔ یہ مشروب نمکین، تیز اور آرام دہ تھا اور میں نے پلاسٹک کے کپ سے اسے جھٹ پٹ حلق میں اتارا۔ یہ مشروب اتنا مزیدار تھا کہ میں نے التون سے اچار کے پانی کی ترکیب پوچھی۔انھوں نے مجھے بتایا: ’پہاڑی نمک، سرکہ اور لہسن۔‘

اصری باران غوریلر کا خاندان تین نسلوں سے اچار ڈال رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سرکے کی جگہ لیموں استعمال کرتے ہیں۔

اپنی درجنوں اقسام کی حامل دکان کے بارے میں غوریلر کا کہنا تھا کہ ’ہم صرف بند گوبھی اور کھیروں کی بات نہیں کر رہے بلکہ ہمارے پاس چیری، آلو بخارہ اور بھنڈی کی مصنوعات موجود ہیں جنھیں ہم نے نئی نسل کے سامنے پیش کیا ہے۔‘

خودساختہ اچار کی ملکہ بیگم اتکان کاروبار میں جدت اور تجربات کی قائل ہیں۔ وہ تخمیری طریقے استعمال کر کے ہنرمندانہ اور جمالیاتی اعتبار سے دلکش قسم کے آمیزے بناتی ہیں جنھیں وہ انسٹاگرام پر اپنے 14 ہزار چاہنے والوں کے ساتھ شیئر کرتی ہیں۔

وہ امریکہ میں رہتے ہوئے مختلف قوموں کے کھانوں میں تخمیری تکنیکوں کے استعمال سے متاثر ہوئیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سرکہ کا استعمال نہ کرتے ہوئے بھی آپ تخمیری تکنیک سے اچار ڈال سکتے ہیں۔ موسمِ گرما میں ڈالے جانے والے اچار میں میں لیموں کا استعمال کرتی ہوں کیونکہ وہ تازگی، صفائی اور گرمیوں کا احساس دلاتا ہے۔‘

بیگم اتکان اب کمبوچا، ہاٹ ساس اور مسٹرڈ سوس بھی بناتی ہیں۔

ان کی شہرت یہاں تک پہنچی کہ انھیں ’اچار کی ملکہ‘ کہا جاتا ہے۔ استنبول میں ان کے فن پاروں کو بہت پسند کیا جاتا ہے جہاں وہ کھانے کی اشیا کو مصالحہ لگا کر محفوظ بنانے کے طریقے سکھاتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے: ’ترکی کا اچار میری پسندیدہ غذا ہے۔ میں بچپن ہی سے اچار کی طرف مائل ہوتی تھی، مجھے اچار کی نمکین کھٹاس اور ذائقہ پسند ہے۔‘

نئی ہو یا پرانی، کلاسک ہو یا جدید، استنبول کے اچار ڈالنے والے ایسی کامل تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں جو ترک کھانوں کے انتہائی مزیدار اور بنیادی جزو کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہاں اچار صرف اچار نہیں رہا۔

التون کہتے ہیں: ’یہ کام ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ اچار ہر طرح کی سبزی یا ہر طرح کے پانی سے نہیں بنایا جا سکتا۔‘

اچار کے پانی میں شفایابی کی طاقت بخشنے والی معدنیات کی ملاوٹ ہو یا پانی کا جادوئی اثر۔۔۔ مجھے جو بات سکون پہنچاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر میں کسی اچار کی دکان کے قریب ہوں تو میرا اگلا ہینگ اوور باآسانی مٹ سکتا ہے۔ 

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی