🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر بتیس⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر بتیس⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس روز ظہر کی نماز کے وقت مسجد میں نمازیوں کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی کیونکہ سب کو معلوم ہو گیا تھا کہ ان کے محبوب امام اور خطیب امام شامی آ گئے ہیں، انہوں نے امام شامی کے پیچھے نماز پڑھی لیکن عصر کی نماز کے وقت امام مسجد میں نہ آیا، مغرب کی نماز کے وقت بھی امام غیر حاضر رہا، اور عشاء کی نماز کے وقت بھی لوگوں کا محبوب امام لاپتہ تھا، ان کے گھر سے پتا کیا گیا معلوم ہوا کہ وہ عصر کی نماز کے بعد کہیں چلے گئے تھے ایک معمہ تھا جو حل نہ ہو سکا ،کوئی بھی نہ تھا جو یہ بتاتا امام شامی کہاں چلا گیا ہے، دو یا تین آدمیوں نے بتایا کہ امام کو شہر سے باہر جاتے دیکھا گیا تھا رات کو انہیں کہاں تلاش کیا جاتا ،لوگ صبح کا انتظار کرنے لگے۔
فجر کی نماز کے وقت بھی امام شامی نہ آئے، لیکن نماز کا وقت گزر گیا تو شہر میں ایک سنسنی خیز خبر پھیل گئی، جو یہ تھی کہ ایک آدمی شہر کے باہر سے آ رہا تھا تو اس نے ویرانے میں ایک درخت کے صحن کے ساتھ کسی کا کٹا ہوا سر لٹکتا دیکھا، اس نے اچھی طرح دیکھا تو اس پر سکتہ طاری ہو گیا، یہ سر امام شامی کا تھا جو بڑی صفائی سے جسم سے کاٹا گیا تھا، لوگ حیران اس پر ہوئے کے امام شامی کے ساتھ کسی کی کیا دشمنی ہو سکتی تھی کہ انہیں اس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔
یہ خبر حسن بن صباح کو پہنچائی گئی وہ دوڑتا باہر نکلا ،لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا ،حسن بن صباح نے گھوڑا منگوایا اور اس پر سوار ہو کر اس طرف چل پڑا جدھر بتایا گیا تھا کہ امام شامی کا سر درخت کے ساتھ لٹکا دیکھا گیا ہے، شہر کے لوگ ہجوم کرکے اس کے ساتھ دوڑے جا رہے تھے۔
حسن بن صباح اس درخت تک پہنچا جہاں ابھی تک امام شامی کا سرا لٹک رہا تھا ،اس نے سر دیکھا یہ درخت کے ایک ٹہن کے ساتھ بالوں سے بندھا ہوا تھا، امام شامی کے بال شانوں تک لمبے تھے۔ 
یہ دیکھو ایک بازو!،،،،،،، کسی آدمی کی بڑی ہی بلند اور گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی۔
لوگ اس طرف دیکھنے لگے اور پھر سب اس طرف دوڑ پڑے ،حسن بن صباح بھی اس طرف گیا اور گھوڑے سے اتر کر بازو دیکھا جو کندھے سے کاٹا گیا تھا ۔
سب لوگ ادھر ادھر پھیل جاؤ۔۔۔ حسن بن صباح نے اعلان کیا ۔۔۔امام کے جسم کے کچھ اور ٹکڑے ملیں گے، میں سمجھ گیا ہوں کہ ان کا قاتل کون ہے، وہ انسان نہیں کسی اور دنیا کی مخلوق ہے جو یقینا جنات میں سے ہو گی۔
لوگ ادھر ادھر بکھر گئے اور تلاش کرنے لگے تھوڑی سی تلاش کے بعد آوازیں آنے لگیں، یہ ایک ٹانگ پڑی ہے، پھر کچھ دور سے آواز آئی،،،، یہ ایک بازو پڑا ہے، اس طرح آوازیں آتی رہیں اور امام شامی کے کٹے ہوئے اعضاء مل گئے، بازو الگ اور ٹانگیں الگ، پھینک دی گئی تھیں۔
مہدی علوی رات بھر چلّے میں بیٹھا رہا تھا اور صبح طلوع ہوتے ہی وہ سو گیا تھا، اس کا خیمہ وہاں سے کچھ دور تھا اور چٹانوں کی اوٹ میں تھا ،اسے پتہ ہی نہ چلا کہ امام شامی قتل ہو چکا ہے اور اس کے جسم کے کٹے ہوئے اعضاء اکٹھے کیے جا چکے ہیں۔ لوگوں پر خوف و ہراس طاری ہوگیا تھا وہ حسن بن صباح کے ارد گرد اکٹھا ہو گئے اور ان سے پوچھنے لگے کہ یہ حادثہ کس طرح ہوا ہے ؟،،،،حسن بن صباح پہلے بتا چکا تھا کہ امام شامی کے قاتل جنات ہیں اب اس نے دیکھا کہ لوگ اسکے گرد جمع ہوگئے ہیں، تو اس نے لوگوں کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا۔
لوگوں ہوش میں آؤ اور میری بات غور سے سنو ،حسن بن صباح نے گھوڑے پر سوار ہو کر بڑی ہی بلند آواز میں کہا۔۔۔ تم سب جانتے ہو کہ امیر شہر یہاں سے تھوڑی دور آگے چلہ کشی کر رہے ہیں، تمام شہر میں یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ کوئی شخص اس طرف نہ آئے، لوگوں کو روکنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ امیر شہر کی چلہ کشی میں خلل نہ پڑے اور اصل وجہ یہ تھی کہ وہ ایسا چلہ کر رہے ہیں کہ بہت سے جنات اس علاقے میں آ گئے ہیں، امیر شہر جو وظیفہ پڑھتے ہیں اس میں ایسا اثر ہے جو جنات کو متاثر کر لیتا ہے اور وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں، اگر کوئی آدمی اس خیال سے ادھر آئے کہ امیر شہر کو چلہ کشی کی حالت میں دیکھے تو جنات اسے روکتے ہیں اور اگر وہ نہ رکے تو اس کا وہی حال کر دیتے ہیں جو تم لوگوں نے اپنے امام کا دیکھا ہے، اسی لیے میں نے انتظام کردیا تھا کہ یہاں دور دور تک کچھ آدمی بٹھا دیے تھے جو کسی کو ادھر آنے نہیں دیتے تھے، میں تم سب کے سامنے ان آدمیوں سے پوچھتا ہوں کہ انہوں نے امام کو اس طرف آتے دیکھا ہوگا۔
یا امام!،،،،،، ہجوم میں سے ایک آدمی کی آواز سنائی دی۔۔۔ میں نے کل شام سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے امام شامی کو اس طرف آتے دیکھا تھا ،میں ان کی طرف دوڑا اور انہیں روک دیا اور بتایا کہ وہ آگے نہ جائیں، انہیں وجہ بھی بتائی لیکن انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور کہا کہ وہ ضرور آگے جائیں گے، میں یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ میں امام حسن بن صباح کا حکم مانوں یا امام شامی کا، امام شامی کے سامنے میری حیثیت ہی کیا تھی میں نے سوچا کہ یہ اللہ کے برگزیدہ اور عظیم امام ہیں جنات ان کے قریب آنے کی جرات نہیں کریں گے، میں ان کے راستے سے ہٹ گیا، وہ آگے چلے گئے اور پھر میری نظروں سے اوجھل ہو گئے کیونکہ آگے ٹیلے بھی تھے اور چٹانیں بھی، یہ تو صبح میرے ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ امام شامی کا سر ایک درخت کے ٹہن کے ساتھ بالوں سے بندھا ہوا ہے، اب تم سب نے دیکھ لیا کہ ان کے جسم کو کاٹ کر جنات نے کس طرح بکھیر دیا ہے ۔
لوگوں پر سناٹا طاری ہوگیا ،حسن بن صباح نے ہجوم پر نظر گھمائی اس نے ہر کسی کے چہرے پر خوف کا تاثر دیکھا۔
اتنا زیادہ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔ حسن بن صباح نے لوگوں سے کہا۔۔۔ تم لوگ اب احتیاط کرنا کے کوئی بھی اس علاقے میں نہ آئے ،میں اس پاگل جن کو حاضر کر کے زندہ جلا دوں گا ۔
لوگ آہستہ آہستہ شہر کی طرف چل پڑے، حسن بن صباح گھوڑے پر سوار کسی اور طرف چلا گیا ۔
قتل کے ہولناک واردات یوں ہوئی تھی کہ امام شامی جب حسن بن صباح کے گھر سے نکلا تھا تو حسن بن صباح نے اپنے آدمیوں کو بلایا تھا ،انہیں جو ہدایات دی تھیں وہ یہ تھی کہ امام شامی پر نظر رکھیں اگر وہ اس طرف جاتا ہے جہاں مہدی علوی چلہ کشی کر رہا ہے تو اسے وہیں کہیں ختم کردیں۔
یا امام !،،،،،حسن بن صباح کے ایک دست راست نے کہا۔۔۔ یہ نہ کہیں کہ اگر وہ ادھر آ جائے تو اسے قتل کیا جائے، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ امام شامی کا اس شہر کے لوگوں پر اس قدر اثر اور رسوخ ہے کہ لوگ اسے پیر اور مرشد مانتے ہیں ،میں نے گھوم پھر کر دیکھا ہے پھر آپ سے یہ بات کر رہا ہوں، اگر یہ شخص الموت میں رہا تو کوئی بعید نہیں کہ یہ ہمارے خلاف محاذ بنا لے اور ہم نے اس شہر کے لوگوں میں جس طرح اثر پیدا کیا ہے وہ رائیگاں چلا جائے، اس آدمی کا اس شہر میں رہنا بلکہ اس دنیا میں رہنا خطرناک ہوگا ۔
تو اسے ختم کر دو ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ لیکن قتل اس طرح کرو کے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ کسی انسان نے قتل کیا ہے، یہ مہدی علوی کے پاس ضرور جائے گا اسے اس ویرانے میں قتل کرو اور اس کے بازو ٹانگیں سر کاٹ کر الگ الگ پھینک دو پھر میں آکر لوگوں کو بتاؤں گا کہ اس کا قاتل کون ہے، پھر لوگ اسے بھول جائیں گے اور میرے اور زیادہ معتقد ہو جائیں گے۔
امام شامی کے دن پورے ہو چکے تھے وہ اسی شام موت کی وادی کی طرف چل پڑا اور حسن بن صباح کے آدمیوں نے اسے اسی طرح قتل کر دیا جس طرح حسن بن صباح نے بتایا تھا، اور پھر اس ابلیس نے لوگوں سے منوالیا کہ یہ قتل جنات نے کیا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہونے کو تھا جب امام شامی کو قبر میں اتارا گیا ،نماز جنازہ حسن بن صباح نے پڑھائی تھی اور اس کے بعد اس نے امام شامی کی وفات پر ایسی نوحہ خوانی کی تھی کہ لوگوں کے آنسو ہی نہیں بلکہ سسکیاں اور ھچکیاں نکل آئی تھیں۔
 اگلی صبح حسن بن صباح مہدی علوی سے ملنے چلا گیا، مہدی علوی خیمے میں زمین پر بچھے ہوئے بستر پر گہری نیند سویا ہوا تھا، یہ چلے کا اٹھواں یا نواں دن تھا ،خادم نے اسے جگایا اور بتایا کہ امام حسن آئے ہیں۔ مہدی علوی ہڑبڑا کر اٹھا ،حسن بن صباح خیمے میں آ کر اس کے پاس بیٹھ گیا تھا ، 
اس نے مہدی علوی کے چہرے کا جائزہ لیا وہ اندازہ کرنا چاہتا تھا کہ مہدی علوی پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس کی ذہنی حالت کیا ہے۔
کیا آپ یہ چلہ جاری رکھ سکیں گے؟،،،،،حسن بن صباح نے پوچھا۔
ہاں امام !،،،،،،مہدی علوی نے جواب دیا۔۔۔ میں چلہ جاری رکھوں گا مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو رہی، بلکہ ایک عجیب سا سرور محسوس ہوتا ہے جسے میں بیان نہیں کر سکتا، تصورات میں ہی حسین ذہن میں آتے ہیں اور یہ اپنے آپ ہی آ جاتے ہیں۔
آپ کو تو سکون ملتا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ لیکن آپ کے اردگرد جو علاقہ ہے یہ بڑا ہی خطرناک ہوگیا ہے، میں نے آپ کو جو وظیفہ بتایا ہے اس کے اثرات پوری کائنات پر ہوتے ہیں، یہ دراصل سلیمان علیہ السلام کا وظیفہ ہے، اسے جنات پڑھا کرتے تھے، آپ کے خیمے کے اردگرد جنات کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا ہے، یہ اس وظیفے کی کشش اور جنات کی عقیدت مندی ہے ۔
تو کیا یہ جنات مجھے نقصان نہیں پہنچائیں گے؟،،،، مہدی علوی نے ذرا ڈرے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔
نہیں امیر الموت!،،،،، حسن بن صباح نے جواب دیا۔۔۔ یہ تو آپ کی خوش نصیبی کی نشانی ہے کہ آپ کا پڑھا ہوا وظیفہ کائنات پر اثر انداز ہو رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ کچھ جنات انسانوں کے روپ میں آکر آپ کے آگے سجدہ ریز ہو جائیں ،اگر ایسا ہوا تو آپ ڈریں بالکل نہیں، وہ خاموشی سے آپ کا ورد سنتے رہیں گے اور پھر چلے جائیں گے ۔
مجھے یہ بتائیں کہ سونے کی یہ تین ایٹم کس طرح برآمد ہوئی ہیں ؟،،،،،مہدی علوی نے پوچھا۔۔۔ کیا مصلے کے نیچے سے مزید خزانہ برآمد ہوگا؟ 
میں گزشتہ رات سو نہیں سکا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ سونے کی یہ تین اینٹیں ایک اشارہ ہے ،میں رات بھر مراقبے میں رہا ہوں معلوم یہ کرنا تھا کہ یہ اشارہ کیسا ہے، صبح کاذب کے وقت مجھے یہ راز معلوم ہوا خزانہ برآمد ہو گا ،لیکن ابھی یہ پتا نہیں چل رہا کہ وہ خزانہ کہاں سے برآمد ہو گا، مجھے امید ہے کہ پندرہ سولہ دنوں بعد یہ بھی پتہ چل جائے گا سونے کے یہ تین ٹکڑے ایک بڑا واضح اشارہ ہے کہ آپ کو تین اور شہر ملیں گے، پھر الموت کو ملا کر ان چار شہروں کی ایک سلطنت بن جائے گی جس کے سلطان آپ ہونگے، اس سلطنت کو حاصل کرنے کا طریقہ یہی ایک ہے کہ آپ اسی طرح صبر و تحمل اور پوری یکسوئی کے ساتھ پورے چالیس دن یہ وظیفہ پورا کردیں۔
مہدی علوی کو باقاعدہ حشیش پلائی جا رہی تھی ،خادم حشیش کی مقدار میں اضافہ کرتا چلا جا رہا تھا ،اسے اونٹنی کا دودھ پینے کی اجازت دے دی گئی تھی یہ دودھ ہر روز اس کے خیمے میں پہنچا دیا جاتا تھا ،اس میں بھی ذرا سی حشیش ڈال دی جاتی تھی، کچھ تو اس کی اپنی خواہشات کے تصور تھے جو اس کے ذہن میں نکلتے ہی چلے آرہے تھے، کچھ حسن بن صباح کی باتوں کے اثرات تھے کہ مہدی علوی کے ذہن سے اترتا جارہا تھا کہ وہ الموت کا امیر ہے اور اس کی حیثیت ایک بادشاہ جیسی ہے۔
میں آپ کو ایک بُری خبر سنا رہا ہوں۔۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔آپ کے محبوب امام شامی اچانک حجاز سے واپس آگئے تھے، انہیں پتہ چلا کہ آپ یہاں چلہ کشی میں بیٹھے ہیں تو وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وہ آپ کو چلہ کشی سے روکیں گے ،میرے دل میں امام شامی کا بے تحاشہ احترام ہے میں نے انہیں کہا کہ وہ آپ کو چلہ کشی میں مداخلت نہ کریں ورنہ اس میں آپ کی جان جانے کا خطرہ ہے اور امیر الموت کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، ان کی اور ہم سب کی بدقسمتی کہ وہ نہ مانے اور کل آپ کے پاس آنے کے لئے چل پڑے ،ہمیں اطلاع ملی کہ ان کے سر ویرانے میں ایک درخت کے ساتھ بالوں سے لٹک رہا تھا، مجھے سب پتا چل گیا کہ انہیں جنات نے کاٹ کر پھینک دیا تھا ،کیونکہ وہ جنات کے پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام کے وظیفے کی توہین کر رہے تھے، یہ توہین ہی تھی کہ وہ آپ کو اس وظیفے سے ہٹانے آ رہے تھے، کل میں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ہے اور انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
حسن بن صباح کو توقع تھی کہ مہدی علوی کا ردعمل بڑا ہی شدید ہوگا اور وہ روئے گا، کیونکہ وہ امام شامی کا معتقد تھا بلکہ اس کا مرید تھا ،لیکن اس نے اپنے امام کی موت کی خبر سنی تو اس کا چہرہ بے تاثر رہا جیسے اس پر ذرا سا بھی اثر نہ ہوا ہو ،اس کی آنکھیں خشک رہیں ،اس کی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکلا، حسن بن صباح نے جب یہ دیکھا کہ مہدی علوی نے کوئی اثر لیا ہی نہیں تو وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوا ،وہ مہدی علوی کی حِسّیں مردہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔
میں یہ چلہ پورا کروں گا اور امام محترم !،،،،،مہدی علوی نے کہا۔۔۔یہ دیکھنا آپ کا کام ہے کہ میں اس میں کامیاب ہوجاؤں گا یا نہیں۔
وہ تو میں دیکھ چکا ہوں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اور میں آپ کو بتا بھی چکا ہوں سونے کی تین اینٹوں کا برآمد ہونا وظیفے کی کامیابی کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے، اور امام شامی کا جنات کے ہاتھوں قتل ایک اور ثبوت ہے، آپ دلجمعی سے چلہ جاری رکھیں ۔
کیا میں اونٹنی کا دودھ ہی پیتا رہوں؟،،،، مہدی علوی نے پوچھا۔
 ہاں!،،،،، حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔آج کا دن ملا کر دو دن اور آپ اونٹنی کے دودھ پر ہی رہیں گے، اس کے بعد آپ اس دودھ کے ساتھ دن رات میں صرف ایک بار آدھی روٹی کھا سکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں ۔
حسن بن صباح نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اتنے تندرست اور اتنے صحت مند جسم والا امیر شہر غذائیت کی کمی کی وجہ سے کچھ کمزور ہو گیا تھا ،حسن بن صباح نے اسے اور زیادہ کمزور کرنا تھا۔
حسن بن صباح مہدی علوی کی اور زیادہ حوصلہ افزائی کرکے وہاں سے آگیا، مہدی علوی نے حسن بن صباح کی جو پیشن گوئیاں سنی تھی انہوں نے اسے نہایت حسین اور دل پسند تصوروں میں دھکیل دیا ۔
سات آٹھ دن اور گزر گئے مہدی علوی اب ایسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہو گیا تھا جس میں اس کے ذہن کے تصورات حقیقی زندگی کی صورت میں محسوس ہونے لگے، اور حقیقی زندگی اس کے ذہن سے بہت حد تک نکل گئی۔
 پندرہ سولہ دن گزر گئے تو حسن بن صباح ایک بار پھر مہدی علوی کے خیمے میں گیا ،اس نے مہدی علوی کے چہرے کا اور ذہنی کیفیت کا اندازہ کیا، اس نے دیکھا کہ وہ بڑے اچھے نتائج حاصل کر رہا ہے، مہدی علوی بڑی جاندار آواز میں بولتا تھا لیکن صاف پتہ چلتا تھا کہ اس کا ذہنی توازن صحیح نہیں رہا، یہ شخص اس طرح زندگی کی حقیقتوں سے کٹ گیا ہے جس طرح ہرے بھرے درخت کی ایک شاخ کٹ کر گر پڑتی ہے، اس شاخ کو سوکھ کر پتّا پتّا ہو جانا ہوتا ہے، یہی کیفیت مہدی علوی کی ہو رہی تھی۔
 کیا آپ کچھ اور بھی دیکھ رہے ہیں ؟،،،،حسن بن صباح نے پوچھا ۔۔۔کوئی اور چیز آپ کو نظر آئی ہو؟
 ہاں محترم امام !،،،،،مہدی علوی نے مخمور سی آواز میں کہا۔۔۔ میں نے گزشتہ رات ایک عجیب چیز دیکھی ہے، میں وظیفہ میں مصروف تھا کہ ایک انتہائی خوبصورت لڑکی اس طرح میرے سامنے سے گزر گئی جیسے وہ چل نہیں رہی تھی بلکہ بادلوں پر تیر رہی تھی، میں چونکہ وظیفے میں مصروف تھا اس لیے میں نے اس کی طرف زیادہ نہ دیکھا ،اتنا ہی دیکھا کہ وہ میرے سامنے سے گزری اور غائب ہو گئی، میں تو کہوں گا کہ وہ آسمان سے اتری ہوئی حور تھی،،،،،،،،،، میں نے اپنی پوری کی پوری توجہ وظیفے پر مرکوز کردی ذرا ہی دیر بعد ایک اور لڑکی جو پہلی جیسی حسین اور دلکش تھی میرے سامنے سے گزر گئی، میں کچھ ڈرا بھی اور گھبرایا بھی، لیکن اپنے آپ کو یقین دلایا کہ یہ آسمان کی مخلوق ہے، پھر یہ خیال بھی آیا کہ یہ جنات ہی نہ ہوں، چونکہ آپ نے بھی کہا تھا کہ انسان کے روپ میں آ سکتے ہیں ۔
 ابھی کچھ اور چیزیں بھی آپ کو نظر آئیں گی۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔آپ جو کچھ بھی خدا سے مانگ رہے ہیں وہ سب کچھ آپ کو مل جائے گا ،یہ خدائی اشارہ ہے سونے کی تین ٹکڑوں کا اشارہ، آپ کو بتایا ہے اب آپ نے دو لڑکیاں دیکھیں ہیں آپ خود ہی سمجھ لیں کہ آپ کی یہ خواہش بھی پوری ہوجائے گی جس طرح آپ چاہتے ہیں۔
 مہدی علوی یہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ دو لڑکیاں حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی ہو سکتی ہیں، کوئی اسے بتاتا تو بھی وہ یقین نہ کرتا کیونکہ رات کے وقت شہر سے دور اس ویرانے میں کوئی لڑکی نہیں آ سکتی تھی۔ حقیقت یہ تھی جس سے وہ بے خبر تھا کہ یہ دونوں لڑکیاں شام کو ہی وہاں پہنچا دی گئی تھیں، مہدی علوی مصلے پر بیٹھ چکا تھا ۔ لڑکیاں خادم کے خیمے میں بیٹھی رہیں انہیں ایسے لباس پہنائے گئے تھے جو عام طور پر لڑکیاں نہیں پہنا کرتی تھیں، وہ رنگدار باریک ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھیں، اس کے باوجود وہ عریاں لگتی تھیں، کیونکہ کپڑے بہت ہی باریک تھے، وہ جب مہدی علوی کے آگے سے گزری تھیں تو ان کی چال عام چال نہیں تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ قدم اٹھا نہیں رہی بلکہ زمین پر کھڑے کھڑے تیرتی جا رہی ہوں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آخر چالیسویں رات بھی گزر گئی ،مہدی علوی کو اچھلتے کودتے نعرے لگاتے خیمے سے باہر آنا چاہیے تھا لیکن وہ اس طرح سر جھکائے ہوئے باہر جا رہا تھا جیسے اس نے منوں بوجھ اٹھا رکھا ہو ،خیمے سے باہر آکر اس نے دیکھا اسے اس کے خادم کا خیمہ نظر نہ آیا ،اس نے خادم کو پکارا بہت آواز دی لیکن اسے کوئی جواب نہ ملا ،وہ آہستہ آہستہ شہر کی طرف چل پڑا اسے تو جیسے یاد ہی نہ رہا تھا کہ اس نے چالیس راتیں چلہ کیا ہے اور شاید وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ اس نے چلہ کیوں کیا تھا، اس کا دماغ کسی وقت روشن ہو کر سوچنے کے قابل ہوجاتا لیکن فوراًّ ہی بعد دماغ پھر سو جاتا اس کے ذہن میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا اس کا ذہن ذرا سا اپنے آپ میں آتا تو اسے یاد آتا کہ یہاں وہ اکیلا نہیں تھا پھر وہ پریشان ہو جاتا کہ وہ اکیلا کیوں ہے، اس کا ذہن خالی ہو جاتا اور اس کیفیت میں وہاں سے قدم گھسیٹ گھسیٹ کر چلتا گیا، وہ لاشعوری طور پر چلتا جا رہا تھا یا جیسے وہ خواب میں چل رہا ہو۔
سورج بہت اوپر آ گیا تھا جب حسن بن صباح کو اس کی ایک آدمی نے اطلاع دی کہ امیر الموت آ رہا ہے، حسن بن صباح اس کے انتظار میں تھا ،اسے معلوم تھا کہ مہدی علوی کس حالت میں واپس آئے گا ،حسن بن صباح باہر نکل آیا اور اس نے دیکھا کہ مہدی علوی چلا آ رہا ہے وہ قدم گھسیٹ رہا تھا، اس کا حال اس قدر بدل گیا تھا کہ حسن بن صباح کو یہ نہ بتایا جاتا کہ امیر الموت آ رہا ہے تو وہ اسے پہچان ہی نہ سکتا ،اس کی داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی ہوتی تھی لیکن چالیس دنوں میں داڑھی لمبی اور بے ترتیب ہو گئی تھی، اس کے سر کے بال بھی کندھوں تک پہنچ رہے تھے، حسن بن صباح اسے اپنے مکان کی طرف آتا دیکھتا رہا حتیٰ کہ مہدی علوی حسن بن صباح کے سامنے آ رکا۔
پانی پلاؤ ۔۔۔مہدی علوی نے نحیف سی آواز میں کہا۔۔۔ بہت تھک گیا ہوں، پانی پلاؤ  
حسن بن صباح اسے اندر لے گیا اور اپنے کمرے میں بٹھایا، اس نے ایک آدمی سے کہا کہ اسے سادہ پانی پلاؤ ،مہدی علوی کو سادہ پانی دیا گیا جو اس نے پی لیا ۔
مجھے پانی پلاؤ ۔۔۔مہدی نے ذرا جاندار آواز میں کہا ۔
امیرالموت!،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔پانی تو آپ بھی چکے ہیں ۔
یہ پانی نہیں ۔۔۔مہدی علوی نے ذرا غصیلی آواز میں کہا۔۔۔ جو وہاں مجھے خادم پلایا کرتا تھا۔
حسن بن صباح سمجھتا تھا کہ یہ کون سے پانی کی طلب محسوس کر رہا ہے، پھر بھی اس نے اسے شربت پلایا ،مہدی علوی نے شربت پی لیا ۔
میں وہ پانی مانگ رہا ہوں ۔۔۔مہدی علوی نے اب کے ذرا بلند آواز میں کہا۔
وہ دراصل اس پانی کا عادی ہو گیا تھا جو اسے چالیس روز خادم پلاتا رہا تھا، اسے معلوم نہیں تھا کہ اس پانی میں حشیش ملی ہوئی ہوتی تھی، وہ جو سرور محسوس کرتا تھا اسے وہ روحانی سکون سمجھتا تھا اور اس سکون کو وظیفے کی فضیلت کہتا تھا، گزشتہ شام اس نے حشیش والا پانی پیا تھا، وہ وظیفے کے دوران بھی رات کو یہ پانی پیا کرتا تھا ،خادم اچھا خاصا پانی اس کے مصلے کے پاس رکھ دیا کرتا تھا ،گزشتہ شام سے اگلے دن پہلے پہر تک اسے وہ پانی نہیں ملا تھا وہ نشے سے ٹوٹا ہوا تھا ۔
آپ ہیں کون؟،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
میں امیر الموت ہوں!،،،، مہدی علوی نے جواب دیا ۔۔۔میرا نام مہدی علوی ہے۔
اس کے بعد یوں ہوا کہ الموت کی گلیوں اور بازاروں میں ایک پاگل بلند آواز سے کہتا پھرتا تھا، میں اس شہر کا امیر ہوں ،،،،میں مہدی علوی ہوں،،،، بہت سے بچے اسے پتھر اور ڈھیلے مار رہے تھے، اور وہ آگے آگے بھاگتا پھر رہا تھا، اس آدمی کا حلیہ یہ تھا کہ سر کے بال لمبے جو کندھوں پر آئے ہوئے تھے اور کچھ بال چہرے پر گرے ہوئے تھے، اس کی داڑھی لمبی تھی اور اس نے میلے کچیلے کپڑے پہن رکھے تھے۔
 شہر میں آسمان سے حوریں اتریں گی۔۔۔۔ یہ پاگل کہہ رہا تھا۔۔۔ میں آسمان سے خزانے لاؤں گا ،مجھ پر آسمان سے خزانے اتریں گے، میں اس شہر کا امیر ہوں ،حوریں آئیگی، میں تمہارا امیر ہوں۔
وہ اپنے گھر کی طرف گیا ،یہ گھر مہدی علوی کا تھا ،وہ جب گھر میں داخل ہونے لگا تو وہاں جو دو دربان کھڑے تھے انہوں نے اسے دھکے دے دے کر باہر نکال دیا، اس کی اپنی دونوں بیویوں اور اولاد نے بھی اسے پہچاننے سے انکار کر دیا ،تین چار فوجی آ گئے انہوں نے اس پاگل کو پکڑ لیا اور اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں لے گئے، سارا شہر امڈ کر اس میدان میں اکٹھا ہو گیا، فوج کا ایک دستہ وہاں آ گیا سپہ سالار اس کے ساتھ تھا۔ یہ پاگل مہدی علوی ہی تھا اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی کہ وہی اس شہر کا امیر تھا، لیکن وہ پاگل ہو چکا تھا اور لوگ مانتے ہی نہیں تھے کہ یہ مہدی علوی ہے، سپہ سالار اسے بازو سے پکڑ کر ایک ذرا بلند جگہ پر لے گیا جہاں لوگ اسے اچھی طرح دیکھ سکتے تھے۔
الموت کے لوگوں !،،،،،سپہ سالار نے اعلان کیا ۔۔۔یہ شخص پاگل ہے اور سارے شہر میں بدامنی پھیلا رہا ہے۔
کیا آپ اسے امیر شہر تسلیم کریں گے؟،،، لوگوں کے ہجوم نے اسے امیر شہر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
اگر یہ واقعی مہدی علوی ہے ۔۔۔سپہ سالار نے کہا۔۔۔ تو بھی اسے ہم امیر شہر نہیں مانیں گے، کیونکہ یہ پاگل ہو چکا ہے۔
تاریخوں میں آیا ہے کہ لوگ مخالفت کرتے یا حمایت پوری کی پوری فوج نے اس پاگل کو امیر تسلیم کرنے سے انکار کردیا، یہ پوری کی پوری فوج حسن بن صباح کی بنائی ہوئی تھی اور اس میں اس نے اپنے مریدوں کو بھرتی کیا تھا اور انھیں ذہن نشین کرایا تھا کہ اس شہر پر قبضہ کرنا ہے۔
سپہ سالار نے لوگوں سے کہا کہ اس اتنے بڑے شہر کے دفاع کے لیے فوج تھی ہی نہیں، ہم نے لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے فوج بنائی ہے اور اس کے اخراجات امام حسن بن صباح پورے کر رہے ہیں، سپہ سالار نے اعلان کیا کہ یہ فوج کا فیصلہ ہے کہ امام حسن بن صباح کو امیر شہر بنایا جائے۔
اس وقت تک بے شمار لوگ حسن بن صباح کے مرید بن چکے تھے، انہوں نے بیک زبان کہا کہ امیر شہر حسن بن صباح کو بنایا جائے، اس طرح حسن بن صباح الموت کا امیر بن گیا، اس نے مہدی علوی کی دونوں بیویوں اور اس کی اولاد کا باقاعدہ وظیفہ مقرر کروادیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مہدی علوی کو خوش و خرم فتح کے نشے سے سرشار خیمے سے نکلنا چاہیے تھا کہ اس نے چالیس راتوں کا چلّہ کامیابی سے کاٹ لیا تھا ،شہر میں آ کر وہ حسن بن صباح سے کہتا کہ اب مجھے اس کے نتائج دکھاؤ لیکن وہ خیمے سے پاگل ہو کر نکلا۔
مزمل آفندی کو قید خانے میں بند کر دیا گیا تھا اسے چالیس دنوں کے بعد قید خانے سے رہا کردیا گیا ،اسے پاگل ہو کر نکلنا چاہیے تھا لیکن وہ جب قید خانے سے نکلا تو اس کی گردن تنی ہوئی تھی اور اس کی چال ڈھال ایسی تھی جیسے اس شہر کا امیر وہی ہو، اور جو کوئی اس کے راستے میں آئے گا اسے وہ قتل کر دے گا ،وہ قید خانے سے نکل کر سیدھا حسن بن صباح کے پاس پہنچا، حسن بن صباح نے اس کا پرتپاک استقبال کیا۔
آگئے مزمل!،،،، حسن بن صباح نے اس سے دوستوں کی طرح پوچھا۔۔۔ اب کیا کرو گے۔ 
میرے کرنے کا ایک ہی کام ہے۔۔۔ مزمل آفندی نے بڑی دلیری اور جرات مندی سے جواب دیا ۔۔۔مرو جاؤں گا اور نظام الملک کو قتل کروں گا ۔
کب جاؤ گے ؟
جب آپ حکم دیں گے۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ کہیں تو میں آج ہی روانہ ہو جاتا ہوں، چند دنوں میں نظام الملک کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لا رکھوں گا۔
 حسن بن صباح نے اسے اپنے پاس بٹھائے رکھا اور اسے اپنے ہاتھوں سے شراب پیش کی ،اس رات مزمل نے کھانا بھی حسن بن صباح کے ساتھ کھایا۔
اگلی صبح اسے ایک نہایت اعلی نسل کا گھوڑا دیا گیا وہ گھوڑے پر سوار ہوا حسن بن صباح نے باہر آ کر اسے رخصت کیا ،مزمل گھوڑے پریوں تن کے بیٹھا ہوا تھا جیسے یہ سارا علاقہ دور دور تک اس کی سلطنت ہو اور وہ اس کا سلطان ہو، اس کی کمر کے ساتھ ایک تلوار لٹک رہی تھی اور اس کے پاس بڑا ہی خوبصورت خنجر بھی تھا ،وہ سلجوقیوں کے دارالسلطنت مرو جا رہا تھا۔
اس عرصے میں سلطان ملک شاہ اور نظام الملک اگر مزمل آفندی کو بھول نہیں گئے تھے تو انہوں نے اسے یاد بھی نہیں رکھا تھا، انہیں احمد اوزال نے یقین دلادیا تھا کہ مزمل قتل ہو چکا ہے اور اب اس کی واپسی کی امیدیں دل سے نکال دی جائیں۔
وہ اگر زندہ تھا تو شمونہ اور اس کی ماں میمونہ کے دلوں میں زندہ تھا، داستان گو پہلے تفصیل سے سنا چکا ہے کہ شمونہ مزمل آفندی پر دل و جان سے قربان ہو رہی تھی، یہ محبت جذباتی تو تھی ہی لیکن دونوں کا جذبہ بھی مشترک تھا، دونوں حسن بن صباح کو قتل کرنے کا عزم لیے ہوئے تھے، شمونہ اور مزمل کی محبت میں رومان کی چاشنی تو تھی ہی لیکن عزم کی گرمی زیادہ تھی۔
مزمل حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لئے روانہ ہو گیا اب شمونہ کے کانوں میں ایک ہی آواز گونجتی تھی کہ مزمل باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہو چکا ہے، مزمل کو گئے ڈیڑھ مہینہ گزر گیا تھا جب احمد اوزال خلجان سے بھاگ کر مرو آیا تھا تو اس نے یہ خبر سنائی تھی کہ مزمل آفندی حسن بن صباح کے جال میں آ گیا ہے اور اب تک وہ قتل ہو چکا ہوگا ،سلطان ملک شاہ اور نظام الملک نے تو فوراً مان لیا تھا کہ اوزال جو کچھ کہہ رہا ہے وہی ہوا ہوگا ،لیکن شمونہ نہیں مانتی تھی وہ کہتی تھی کہ مزمل زندہ ہے اور وہ احمد اوزال کے پیچھے پڑ گئی تھی کہ وہ واپس جائے اور مزمل کو ڈھونڈ کر لائے، احمد اوذال جانتا تھا کہ یہ حسین لڑکی جذبات کی رو میں بہی جا رہی ہے اور یہ حقیقت کو قبول نہیں کر رہی، احمد اوزال نے اسے یقین دلانے کی بہت کوشش کر ڈالی تھی کہ مزمل اس دنیا سے اٹھ گیا ہے ،لیکن شمونہ چیخ چیخ کر کہتی تھی کہ مزمل مر نہیں سکتا وہ حسن بن صباح کو مار کر مرے گا ،یہ الفاظ اس کی زبان پر چڑھ گئے تھے کہ حسن بن صباح زندہ ہے تو میرا مزمل بھی زندہ ہوگا۔
شمونہ اپنی ماں کو ساتھ لے کر سلطان ملک شاہ کے پاس گئی تھی اور رو رو کر اس نے سلطان کی منتیں کیں تھیں کہ وہ دو تین آدمیوں کو خلجان اور الموت بھیجے جو مزمل کو ڈھونڈ کر واپس لے آئیں ،سلطان نے اسے بڑے پیار سے اور ہمدردی سے سمجھایا تھا کہ مزمل کے زندہ نکل آنے کی کوئی صورت ہے ہی نہیں، پھر وہ نظام الملک کے پاس گئی تھی، نظام الملک نے بھی اسے وہی جواب دیا تھا جو سلطان ملک شاہ  دے چکا تھا۔
شمونہ احمد اوزال کے لئے مصیبت بن گئی تھی ،احمد اوزال نے اسے ہر بار یہی کہا تھا کہ وہ خلجان اور الموت جانے سے نہیں ڈرتا، لیکن وہاں اسے حسن بن صباح اور اس کے خفیہ آدمی بڑی اچھی طرح سے پہچانتے ہیں، اور وہ اس خفیہ گروہ کے دو آدمی قتل کر کے بھاگا ہے، وہ فورا پکڑا جائے گا اور فورا ہی اسے قتل کردیا جائے گا۔
میں خود وہاں چلی جاؤں۔۔۔ شمونہ نے کئی بار کہا تھا، لیکن حسن بن صباح کے ساتھ میں رہی ہوں، بہت سارے لوگ وہاں مجھے پہچانتے ہیں ،حسن بن صباح پہلے ہی مجھے قتل کرنے کا حکم دے چکا ہے، وہ تو مجھے دیکھتے ہی مار ڈالے گا ،وہ نہ دیکھ سکا تو اس کا کوئی بھی آدمی مجھے پہچان لے گا اور مجھے پکڑ لے گا اور حسن بن صباح کے حوالے کر دے گا۔
سلطان ملک شاہ نے شمونہ اور اس کی ماں کو مرو میں ایک بڑا اچھا مقام دے دیا تھا جس میں ماں بیٹی اکیلی رہتی تھیں، سلطان نے ان کے لیے وظیفہ بھی مقرر کر دیا تھا، سلطان اور نظام الملک کے بعد احمد اوزال سے مایوس ہوکر شمونہ نے ماں کو پریشان کرنا شروع کر دیا تھا ،ماں نے کئی بار اسے ڈانٹ دیا اور کہا کہ وہ اپنے دماغ کو اپنے قابو میں رکھے ورنہ وہ پاگل ہوجائے گی، وہ مزمل کو بھولتی ہی نہیں تھی اور یہ مانتی ہی نہیں تھی کہ مزمل قتل ہوچکا ہے، اس کا یہ روز مرہ کا معمول بن گیا تھا کہ صبح چھت پر چلی جاتی اور اس راستے کو دیکھتی رہتی تھی جو خلجان سے مرو کو آتا تھا، دن میں کئی بار اس طرف آنے والی پگڈنڈی کو دیکھنا شروع کر دیتی تھی ،کئی بار ماں چھت پر جا کر اسے گھسیٹتے ہوئے نیچے لائی اور اسے ڈانٹا لیکن شمونہ ایک ہی بات کہتی تھی کہ مزمل زندہ ہے اور وہ واپس آئے گا۔
وہ گھوڑ سواری کی شوقین تھی کبھی کبھی وہ سلطان کے اصطبل سے گھوڑا منگوا لیتی اور شہر سے باہر نکل جایا کرتی تھی، گھوڑے کو کچھ دیر دوڑاتی اور گھر آ جایا کرتی تھی، ایک روز اس نے ماں سے کہا کہ اسے گھوڑا منگوادے وہ باہر جانا چاہتی ہے ،
شمونہ ماں نے کہا اب میں تمہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دے سکتی ،تمہارا دماغ دن بدن بیکار ہوتا چلا جا رہا ہے، مجھے ڈر ہے کہ باہر جاکر خلجان کا رخ کر لو گی۔
نہیں ماں !،،،،،شمونہ نے کہا ۔۔۔میں پہلے بتا چکی ہوں کہ میں مزمل کی تلاش میں باطنیوں کے علاقے میں نہیں جا سکتی، میں پہلے نہیں گئی تو اب بھی نہیں جاؤں گی ،گھر میرا دم گھٹتا ہے مجھے ذرا کھلی ہوا میں گھومنے پھرنے کے لیے جانے دیں۔
ماں نے اسے گھوڑا منگوا دیا اور وہ گھوڑے پر سوار ہوئی اور باہر نکل گئی ،اس کی ماں بھی چاہتی تھی کہ یہ لڑکی اسی طرح گھوم پھر کر دل بہلائے رکھے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ تو پاگل ہوئی جا رہی تھی، مرو کے اردگرد بہت ہی دلفریب مناظر تھے، ندی بھی قریب سے گزرتی تھی اور ایک جگہ سے چشمہ پھوٹتا تھا ،لوگ سیر و تفریح کے لیے وہاں جایا کرتے تھے، لیکن شمونہ کو سیر کے لیے وہی پگڈنڈی اچھی لگتی تھی جو خلجان سے آتی تھی، اس روز بھی وہ گھوڑے پر سوار ہوئی شہر سے نکلی اور گھوڑا اسی پگڈنڈی پر ڈال دیا ،یہ اس کا معمول تھا اس پگڈنڈی پر جاکر وہ گھوڑے کو ایڑ لگاتی گھوڑا سر پٹ دوڑتا اور شمونہ کوئی ڈیڑھ کوس جا کر گھوڑا روک لیتی اور وہاں سے واپس آ جاتی ،اس روز بھی وہ اسی پگڈنڈی پر چلی گئی اس نے اپنے معمول کے مطابق گھوڑاسرپٹ دوڑایا سامنے سے ایک گھوڑا سوار چلا آ رہا تھا ۔
شمونہ اس کے قریب سے گزری تو اس کی طرف دیکھا بھی نہیں اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کر رہا تھا ۔
شمونہ !،،،،گھوڑے کے قدموں کے بے ہنگم شور اور ہوا کی شائیں شائیں آواز سنائی دی، پکارنے والا کوئی آدمی تھا۔
 شمونہ نے گھوڑا روک لیا اور پیچھے کو موڑا، وہ گھوڑ سوار جو اس کے قریب سے گزرا تھا اس نے بھی گھوڑا موڑ لیا اور اس کی طرف بڑی تیزی سے آرہا تھا ،دونوں گھوڑے قریب آئے اور سواروں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ مزمل !،،،،شمونہ کے منہ سے تو جیسے چیخ نکل گئی ہو۔
 شمونہ کود کر گھوڑے سے اتری وہ مزمل آفندی ہی تھا بلا شک و شبہ وہ مزمل ہی تھا، نظر کا دھوکہ نہیں تھا اور یہ خواب بھی نہیں تھا۔
شمونہ بازو پھیلا کر مزمل کی طرف دوڑی اور مزمل اسی کی طرح بازو پھیلا کر اس طرف آیا پھر دونوں ایک دوسرے کے بازوؤں میں جکڑ گئے جیسے دو جسم ایک ہوگئے ہوں ۔
میں ہر روز کہتی تھی کہ میرا مزمل زندہ ہے۔۔۔ شمونہ یہی الفاظ کہے جا رہی تھی۔
 شمونہ کی جذباتی کیفیت اور بے تابی کا یہ عالم تھا جیسے ماں کو اس کا کھویا ہوا بچہ مل گیا ہو ،وہ مزمل کو اپنے بازوؤں میں سے نکلنے ہی نہیں دے رہی تھی، بچھڑے ہوئے دو دلوں کو اس بے تابی اور دیوانگی سے ملتا ہوا دیکھ کر سورج افق کے پیچھے چھپ گیا اور ان پر شام کا پردہ ڈال دیا ،رات شمونہ مزمل کو اپنے گھر لے گئی، مزمل کو اسی گھر میں آنا تھا ۔
شمونہ کی ماں میمونہ نے بھی مزمل کو دیکھا تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔
 میں ابھی وزیراعظم نظام الملک کو اطلاع دیتی ہوں۔۔۔ میمونہ نے کہا۔۔۔ وہ سن کر بہت خوش ہوں گے کہ مزمل واپس آ گیا ہے، یہاں تو سب یقین کیے بیٹھے تھے کہ تم قتل ہوچکے ہو ۔
نہیں !،،،،،مزمل نے کہا ۔۔۔اسے کوئی اطلاع نہیں دے گا، میں خود اس کے پاس جاؤنگا۔
میمونہ نے مزمل اور شمونہ کو تنہا بیٹھنے کے لئے یوں کیا کہ نیند کا بہانہ کر کے اپنے کمرے میں چلی گئی، شمونہ یہی چاہتی تھی وہ مزمل کو اپنے کمرے میں لے گئی اور دروازہ بند کر لیا ،وہ مزمل سے سننا چاہتی تھی کہ خلجان میں اس پر کیا بیتی ہے، وہ محسوس کر رہی تھی کہ مزمل ذرا رک رک کر اور کچھ سوچ سوچ کر بات کرتا ہے 
سلطان اور وزیراعظم نظام الملک کہتے تھے کہ مزمل باطنیو کے ہاتھوں قتل ہوگیا ہے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔میں کہتی تھی کہ مزمل زندہ ہے اور وہ واپس آئے گا، یہ لوگ نہیں مانتے تھے، احمد اوزال بھی یہی کہتا تھا ۔
نظام الملک چاہتا ہی یہی تھا کہ میں قتل ہو جاؤں۔۔مزمل نے سنجیدہ سے لہجے میں کہا۔۔۔ اب دیکھنا کون کس کے ہاتھوں قتل ہو گا۔
کیا کہہ رہے ہو ۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔میں محسوس کر رہی ہو کہ وہاں تم پر بہت بری گزری ہے جس کا تمہارے دماغ پر بہت برا اثر معلوم ہوتا ہے ،کس کے قتل کی بات کر رہے ہو؟ 
بہت بری نہیں شمونہ!،،،،، مزمل نے کہا۔۔۔ مجھ پر بہت اچھی گزری ہے، میری تو آنکھیں کھل گئیں ہیں اور میرا دماغ روشن ہوگیا ہے، میں حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا وہاں جا کر مجھ پر یہ راز کھلا کہ میں نے حسن بن صباح کو نہیں بلکہ کسی اور کو قتل کرنا ہے، میں نے بہت سوچا لیکن یہ راز مجھ پر نہیں کھل رہا تھا کہ وہ کون ہے جس نے میرے ہاتھوں قتل ہونا ہے، مجھے یہ یقین ہو گیا تھا کہ میں نے کسی کو قتل ضرور کرنا ہے، کچھ دنوں بعد یہ راز کھل گیا، آنکھوں کے سامنے آ گیا تھا جس کا خون میرے ہاتھوں پر لکھا ہوا ہے ۔
کون ہے وہ ؟،،،،شمونہ نے گھبرا کر پوچھا۔ 
نظام الملک !،،،،مزمل نے کہا۔
 مزمل !،،،،شمونہ نے اسکے گالوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پوچھا ۔۔۔کیا کہہ رہے ہو، کیا تم نظام الملک کو قتل کرو گے؟ 
شمونہ!،،،، مزمل نے شمونہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اور اسے اپنے قریب کر کے کہا ۔۔۔اندازہ کرو کہ تمہاری محبت میرے دل اور روح میں کتنی گہری اتری ہوئی ہے کہ میں تمہیں ایک ایسا راز بتانے لگا ہوں جو مجھے کسی کو بھی نہیں بتا دینا چاہیے تھا، میں تمہارے بغیر ایک قدم چل نہیں سکتا، میں کسی اور ارادے سے خلجان گیا تھا لیکن اب میں کسی اور ارادے سے یہاں آیا ہوں۔
 کھل کر بات کرو مزمل !،،،،،شمونہ نے کہا۔۔۔ میں نے اپنی جان تمہارے لیے وقف کر رکھی ہے،،،،،یہ راز اپنے سینے میں چھپا کر رکھوں گی، میں تم سے یہ سننا چاہتی ہوں کہ تم پر وہاں کیا گزری ہے؟ 
وہاں مجھ پر جو گزری ہے وہ اچھی گذری ہے۔۔۔ مزمل نے بڑے سنجیدہ اور کچھ طنزیہ سے لہجے میں کہا۔۔۔ بلکہ بہت اچھی گذری ہے، وہاں تک تو میں اندھیرے میں پہنچا تھا، یہ مجھے وہاں جا کر پتہ چلا کہ میری روح اب تک بھٹکتی رہی ہے، وہاں میری روح کو روشنی ملی، پھر مجھے پتا چلا اور میں نے صاف دیکھا کہ دوست کون اور دشمن کون ہے، میرے خیالات اور میرے عقیدے بدل گئے، اگر کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی تو وہ یہ تھی کہ مجھے شمونہ سے محبت ہے اور میرا دل اس تبدیلی کو بھی قبول نہیں کرے گا کہ میرا دل شمونہ کی محبت کو نکال دے۔
شمونہ مزمل کی باتیں تو غور سے سن رہی تھی ،مگر وہ زیادہ غور ان تاثرات پر کر رہی تھی جو مزمل کے چہرے پر آ اور جا رہے تھے، اس نے ایسے تاثرات مزمل کے چہرے پر کبھی نہیں دیکھے تھے ۔
راز اپنے سینے میں چھپا کر رکھوں گی مزمل!،،،،، شمونہ نے کہا۔۔۔ میرے جسم سے جان نکل سکتی ہے یہ راز نہیں نکلے گا، لیکن یہ تو بتاؤ گے تم نظام الملک جیسے عظیم آدمی کو کیوں قتل کرو گے؟ 
عظیم انسان !،،،،مزمل نے کہا۔۔۔ عظیم نظام الملک نہیں حسن بن صباح عظیم ہے، میں اسے قتل کرنے چل پڑا تھا لیکن وہاں جاکر میں نے محسوس کیا کہ میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے اس عظیم شخصیت کے پاس آنے کا ایک بہانہ مل گیا۔
شمونہ لرز کر رہ گئی، لیکن اس نے اپنے رد عمل کا اظہار نہ کیا ،نہ مزمل کو پتہ چلنے دیا کہ اس کا رد عمل کس قدر شدید ہے جسے برداشت کرنا اس کے لئے محال ہے۔
ایک بات بتاؤ مزمل !،،،،شمونہ نے پوچھا۔۔۔ نظام الملک کو کب قتل کرو گے، میں اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ تم جلد بازی نہ کر بیٹھو، تم نے مجھے کہا ہے کہ میں تمہارے ساتھ دوں، اگر تمہیں مجھ پر اعتماد ہے تو یہ کام مجھ پر چھوڑ دو ،میں موقع پیدا کروں گی اور تم اپنا کام کر گزرنا ،لیکن میں موقع ایسا پیدا کروں گی کہ تم اسے بھی قتل کر دو اور پکڑے بھی نہ جاؤ۔
ہاں شمونہ !،،،،مزمل نے کہا۔۔۔ مجھے تم پر اعتماد ہے، اور مجھے تم سے یہی امید تھی کہ تم میرے اس کام میں میری مدد کروگی، تم موقع پیدا کرو۔
مزمل آفندی بڑے لمبے سفر سے آیا تھا اس لئے تھکا ہوا تھا باتیں کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی، شمونہ اٹھی کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور اپنی ماں کے پاس چلی گئی، اس نے اپنی ماں کو کچھ بھی نہ بتایا۔
شمونہ ساری رات سو نہ سکی وہ سمجھ گئی تھی کہ مزمل کو باطنیوں نے پکڑ لیا تھا، لیکن قتل کرنے کی بجائے انہوں نے یہ بہتر سمجھا کہ اسے قاتل ہی رہنے دیا جائے ،لیکن وہ قتل کسی اور کو کرے، شمونہ حسن بن صباح کے ساتھ رہ چکی تھی وہ حسن بن صباح کی منظور نظر داشتہ تھی، وہ قدرتی طور پر غیر معمولی ذہانت کی تھی، اس نے حسن بن صباح سے کئی ایک راز لیے تھے اور حسن بن صباح اسے راز دے بھی دیتا تھا ،کیونکہ وہ شمونہ کے حسن و جوانی کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا تھا، خود شمونہ اپنے حسن کو بڑی خوبی اور کامیابی سے استعمال کرتی تھی، وہ جانتی تھی کہ حسن بن صباح کے پاس ایسے حربے اور طریقے ہیں کہ وہ پتھر کو بھی موم کر لیتے ہیں، وہ کسی بھی شخص کو ایک خاص عمل میں سے گزار کر اس کی سوچ اس کے ارادے اور اس کے عقیدے یکسر بدل دیتے ہیں، اس کے سامنے دو آدمیوں پر یہ عمل کیا گیا تھا، یہ کوئی جادو یا روحانی عمل نہیں تھا بلکہ یہ ایک نفسیاتی طریقہ کار تھا ،شمونہ جان گئی کہ مزمل کا جسم اور اس کا نام نہیں بدلا جا سکا، اس کے کردار کو اور اس کے عقیدے کو اور اس کے ارادوں کو بالکل الٹ کر دیا گیا ہے، مہینہ ڈیڑھ مہینہ اس عمل کے لیے خاصا عرصہ تھا، اسے نظام الملک کے قتل کے لیے واپس بھیجا گیا ہے اور یہ شخص عزم لے کر آیا ہے کہ نظام الملک کو قتل کرنا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلی صبح مزمل آفندی اٹھا شمونہ خود ناشتہ لے کر اس کے کمرے میں گئی اور دونوں نے اکٹھے ناشتہ کیا ۔
اب میری بات سنو مزمل!،،،، شمونہ نے کہا۔۔۔ میں نے اپنی ماں کو یہ بات نہیں بتائی اور تم بھی نہ بتانا، نظام الملک سے ملے ہوئے مجھے کچھ دن گزر گئے ہیں، میں ابھی اس کے پاس جا رہی ہوں اور کچھ جذباتی سی باتیں کروں گی کہ میں اسے صرف ملنے آئی ہوں ،میں اسے اسی طرح دو تین مرتبہ ملوں گی اور مجھے امید ہے کہ میں اسے اپنے جذبات میں الجھا لوں گی ،اور پھر میں ایک دن اسے باہر لے جاؤں گی، تمہیں پہلے بتا دوں گی ،تم نے کوئی اوچھی اور الٹی سیدھی حرکت نہیں کرنی، میرے آخری اشارے کا انتظار کرنا ہے۔
 مزمل آفندی کے چہرے پر سکون اور اطمینان کا تاثر آگیا۔
مجھے تم سے یہی امید تھی شمونہ !،،،مزمل نے شمونہ کو اپنے ایک بازو کے گھیرے میں لے کر کہا۔۔۔ تم تصور میں نہیں لا سکتی کہ میں یہ کام کر چکا تو تمہیں کس جنت میں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا ،تم موقع پیدا کرو میں تمہارے آخری اشارے کا انتظار کروں گا۔
شمونہ کو بہت دکھ ہوا کہ مزمل جیسا پیارا اور جذبے والا آدمی اور دین اسلام پر اپنا آپ بھی قربان کرنے والا یہ خوبرو جوان کس طرح ضائع ہوگیا ہے ،اس نے مزمل پر ظاہر نہ ہونے دیا کہ اسے کتنا دکھ پہنچا ہے، اس نے اپنے ہونٹوں پر بڑی ہی جاں فضا مسکراہٹ قائم رکھی، وہ ناشتے کے بعد کمرے سے نکل آئی، ماں سے کہا کہ وہ برتن اٹھا لے اور وہ خود گھر سے نکل گئی، وہ نظام الملک سے ملنے جا رہی تھی۔
نظام الملک گھر پر ہی مل گیا ،وہ ابھی ابھی ناشتے سے فارغ ہوا تھا، اسے اطلاع ملی کہ شمونہ آئی ہے تو اس نے اسے بلا لیا اور سوچا کہ یہ لڑکی آج پھر ضد کرنے آئی ہے کہ دو تین آدمیوں کو خلجان اور الموت بھیجو جو مزمل کو ڈھونڈ لائیں، اس نے شمونہ کو اسی خیال سے بلا لیا تھا کہ اسے بہلائے پھسلائے گا اور اس کے دل سے مزمل کو نکالنے کی کوشش کرے گا۔
آؤ شمونہ!،،،،، نظام الملک نے کہا ۔۔۔بیٹھو آج شاید تمہیں پھر مزمل یاد آ رہا ہے، یا خواب میں آیا ہوگا۔
 نہیں محترم!،،،،،شمونہ نے کہا ۔۔۔وہ خواب میں نہیں آیا بلکہ وہ حقیقت میں آگیا ہے، کل شام زندہ وسلامت میرے پاس پہنچ گیا ہے 
 کیا تمہارا دماغ حاضر ہے شمونہ!،،،، نظام الملک نے اس طرح کہا جیسے اسے شک ہوا ہو کہ یہ لڑکی دماغی توازن کھو بیٹھی ہے۔۔۔ وہ میرے پاس کیوں نہیں آیا ؟،،،کیا وہ کچھ بتاتا ہے کہ اس پر کیا بیتی ہے؟ 
محترم !،،،،شمونہ نے کہا۔۔۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ وہ میرے پاس آ گیا تھا، کہیں وہ سیدھا آپ کے پاس نہ پہنچ گیا، ورنہ بات کچھ اور بن جاتی ۔
کیا کہہ رہی ہو !،،،،نظام الملک نے پوچھا۔۔۔ کیا بات بن جاتی ؟،،،معلوم ہوتا ہے تم ذہنی طور پر بہت پریشان ہو۔
ہاں محترم !،،،،شمونہ نے کہا ۔۔۔میں ساری رات سوئی نہیں ،میں تمہید باندھے بغیر یہ بتانے آئی ہوں کہ آپ نے جس کو حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا وہ آپ کو قتل کرنے کے لئے واپس آیا ہے۔
مجھے حیران نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ نظام الملک نے کہا۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ حسن بن صباح کے پاس ایسا جادو ہے جو مزمل جیسے جوانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے، مزمل پر بھی یہی جادو چل گیا ہوگا۔
محترم !،،،،شمونہ نے کہا ۔۔۔آپ نے تو صرف سنا ہے کہ حسن بن صباح کے پاس کوئی ایسا جادو ہے ،میں نے اپنی آنکھوں سے یہ جادو چلتا دیکھا ہے، یہ میں آپ کو تفصیل سے بتاؤں گی لیکن فوری طور پر یہ سوچیں کہ مزمل کا کیا کیا جائے، اسے اس طرح آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا ،میں اسے محبت کی زنجیروں میں باندھ کر رکھ سکتی ہوں لیکن یہ زنجیریں کسی وقت کچی بھی ثابت ہوسکتی ہیں، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی بھی وقت وہ آپ پر قاتلانہ حملہ کردے؟،،،،، میں ڈرتی ہوں ایسا ہو جائے گا، آپ دانش مند ہیں ،میں آپ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، ایک مشورہ ہے اگر آپ کو اچھا لگے تو مزمل کو قید خانے میں بند کر دیں۔
نہیں شمونہ !،،،،نظام الملک جو عقل و دانش کے لیے مشہور تھا بولا۔۔۔ میں اتنا خوبصورت جوان ،اور اتنا جذبہ والا جوان ،ضائع نہیں کروں گا ،اسے کچھ دنوں کے لیے آزاد رکھنا پڑے گا، لیکن میں اس کے لیے ایک جواز پیدا کروں گا ،جس طرح اسے حسن بن صباح نے اپنے مقاصد کے لیے حربہ اور آلہ کار بنایا ہے اسی طرح میں اسے واپس لاؤں گا ،اور اسے ویسا ہی مرد مومن بناؤں گا جیسا یہ تھا، اندازہ کرو شمونہ، اس نے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو دل سے اتار دیا تھا ،اور یہ ایک عزم لیے ہوئے تھا کہ حسن بن صباح کو قتل کرے گا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ حسن بن صباح کو ایک انسان سمجھ کر قتل نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ ایک باطل نظریے اورابلیسیت کا گلا کاٹنا چاہتا تھا، میں اسے صراط مستقیم پر لے آؤں گا، لیکن اس کے لئے ہمیں ایک کھیل کھیلنا پڑے گا، میں اپنے آپ کو خطرے میں ڈالوں گا۔ 
اگر اس کھیل میں میں نے کچھ کرنا ہے تو مجھے بتا دیں۔۔۔ شمونہ نے کہا۔
تمہارے ذمے ایک کام ہے ۔۔۔نظام الملک نے کہا۔۔۔ آج شام اسے میرے پاس بھیج دو، اسے کہنا کہ میں فلاں کمرے میں اکیلا ہوں گا، اسے یقین دلانا کے نظام الملک کو قتل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے، قتل کرنے کا طریقہ یہ بتانا کے نظام الملک پیٹھ پھیرے تو خنجر نظام الملک کی پیٹھ میں اتار دینا،،،، باقی میں سنبھال لوں گا۔
نہیں محترم وزیراعظم !،،،،شمونہ نے کہا۔۔۔ میں ڈرتی ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ کھیل ہی کھیل میں خنجر آپ کے دل میں اتر جائے ۔
تم اسے بھیج دینا ۔۔۔نظام الملک نے کہا۔۔۔ میں چوکنّا رہوں گا،،،،،، تم جاؤ۔
شمونہ واپس آئی اور اس نے مزمل کو ویسے ہی بتایا جیسے نظام الملک نے اسے بتایا تھا، شمونہ نے مزمل سے کہا کہ آج موقع ہے یہ کام آج ہی کر گزرو۔
نظام الملک نے شمونہ کو وہ کمرہ دکھا دیا تھا، وہ کمرہ ایسا تھا جس کا تعلق اتنے بڑے مکان کے دوسرے کمروں کے ساتھ نہیں تھا، نظام الملک صرف اس وقت اس کمرے میں بیٹھا کرتا تھا جب اسے کسی پیچیدہ مسئلے پر غور کرنا ہوتا تھا، کوئی بھی اس کے کام میں مخل نہیں ہو سکتا تھا۔
 شام کو مزمل آفندی اپنے کپڑوں کے اندر خنجر چھپائے نظام الملک کے یہاں چلا گیا، دروازے پر کوئی دربان نہیں تھا یہ بھی اس کھیل کا ایک حصہ تھا کہ دربان ہٹا دیے گئے تھے ،شمونہ نے مزمل کو وہ خاص کمرہ اچھی طرح سمجھا دیا تھا ،مزمل اس گھر میں زخمی حالت میں رہ بھی چکا تھا، پھر اس گھر میں وہ صحت یاب ہوا تھا ،اس لیے وہ اتنی بڑی حویلی سے واقف تھا ،وہ اس کمرے کے دروازے پر پہنچ گیا اور دستک دی ،نظام الملک نے خود اٹھ کر دروازہ کھولا باہر مزمل کھڑا تھا نظام الملک نے اسے گلے لگالیا اور خوشی کا اظہار کیا کہ وہ زندہ واپس آ گیا ہے، اسے کمرے میں لے جا کر اشارہ کیا کہ یہاں بیٹھ جاؤ۔
 نظام الملک نے اس کی طرف پیٹھ کی اور دو تین قدم آگے کو چلا ،اسے معلوم تھا کہ اب کیا ہوگا ،مزمل جو ابھی بیٹھ ہی رہا تھا تیزی سے کھڑا ہو گیا اور اسی تیزی سے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور نظام الملک کی پیٹھ پر مارنے کے لیے اس نے ہاتھ اوپر اٹھایا، جب اس کا ہاتھ خنجر مارنے کے لئے آگے ہوا تو اسی تیزی سے نظام الملک پیچھے کو مڑا اور اس نے خنجر والے ہاتھ کی کلائی اپنے ہاتھ پر روک لی اور اس کلائی کو مضبوطی سے پکڑ لیا ،اس کو اس نے زور سے جھٹکا دیا تو مزمل  اس کے جسم کے ساتھ لگ گیا، نظام الملک نے نیچے سے اپنا گھٹنا اوپر کو مارا جو مزمل کے پیٹ میں لگا، مزمل درد کی شدّت سے دوہرا ہو گیا ،نظام الملک نے اس کی کلائی دونوں ہاتھوں سے مروڑی مزمل اس طرف گھوما، نظام الملک نے ایسا داؤ چلا کہ مزمل پیٹھ کے بل فرش پر گرا اور اس کے ہاتھ سے خنجر گر پڑا ،نظام الملک نے اپنا پاؤں گرے ہوئے مزمل کی شہ رگ پر رکھ کر پورے جسم کا زور ڈالا ،مزمل تڑپنے لگا۔
 نظام الملک نے ایک آواز کا اشارہ مقرر کر دیا تھا جو اس نے دیا ،اس کے دونوں دربان دوڑے آئے اور آگے یہ منظر دیکھا ،خنجر فرش پر پڑا تھا اور مزمل نظام الملک کے پاؤں کے نیچے تھا، دربانوں نے مزمل کو پکڑ لیا ۔
لے جاؤ ۔۔۔نظام الملک نے کہا ۔۔۔قیدخانے میں بند کر دو، میں اسے کل دیکھوں گا۔
دربانوں نے مزمل کو پکڑ لیا، ہاتھ باندھ دیے اور اسے لے گئے۔
 نظام الملک بوڑھا آدمی تھا اس میں اگر طاقت تھی تو وہ عقل و دانش کی اور ایمان کی طاقت تھی، وہ مزمل جیسے گٹھے ہوئے جوان آدمی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھا، لیکن اس کی روحانی قوت بیدار تھی ،پھر وہ صرف عالم دین ہی نہ تھا ،وہ سالار بھی تھا، تیغ زنی اور تیر اندازی میں مہارت رکھتا تھا، اس نے اسی روز سلطان ملک شاہ کو یہ واقعہ سنایا اور کہا کہ وہ مزمل کو واپس اپنی طرف لے آئے گا ۔
سلطان مکرم !،،،،نظام الملک نے کہا۔۔۔ اب ہمیں الموت پر فوج کشی کرنی پڑے گی، اس باطل کو فوجی طاقت سے ہی کچلا جا سکتا ہے ،حملہ آور فوج کا سپہ سالار میں خود ہوں گا، آپ کی اجازت چاہیے۔
ہاں خواجہ !۔۔۔۔۔سلطان ملک شاہ نے کہا۔۔۔آپکو اجازت ہے ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی