فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 30═(طلیطلہ کی فتح)═


  🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷

✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اہل طلیطلہ کو قلعہ پر اتنا بھروسہ تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کے آنے کی مطلق بھی پروا نہ کی-"
بلکہ نہایت اطمینان نے اپنے کاروبار میں مشغول رہے جب طارق نے صلح کے لیے قاصد بهیجا تو انہوں نے نہایت سخت اور بڑا روکها جواب دیا-
مجبور ہو کر طارق نے دریا عبور کرنے کی کوشش شروع کردی-
اس دریا پر ایک عظیم الشان پل تها مگر پل کے دونوں طرف فوجی چوکیاں نظر آ رہی تھیں اور ان چوکیوں میں کافی زیادہ فوج رہتی تھی - "
اس لئے اس طرف سے دریا عبور کرنا مشکل نظر آ رہا تھا مگر اور کسی طرف بھی ایسا کوئی موقع معلوم نہ تھا جس کے ذریعے دریا کو عبور کیا جا سکے-
وجہ یہ کہ اول تو اندلس کے قریب قریب تمام دریا نشیب میں بہتے تهے اور ان کے دونوں کنارے بہت اونچے ہوتے ہیں-
دوسرے یہ دریا پہاڑی راستوں کو کاٹ کر غاروں میں سے بہہ رہا تھا اس کا پانی کا پاٹ کافی چوڑا تھا اور گہرائی کا پتہ نہ چلتا تھا -
اگر کہیں گہرائی معلوم بھی ہو گئی تو چٹانوں سے غار میں کودنا نہ صرف انسانوں کے لیے مشکل تھا بلکہ گھوڑے بهی نہیں اتر سکتے تھے-
اس لئے اس طرف سے پل کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا پل پار کرنے کے لیے-
طارق کئی روز تک دریا کو دیکھتے رہے عیسائی سپاہی روزانہ فصیل پر چڑھ کر طارق کی راستہ تلاش میں لا حاصل سعی کرتے دیکھ کر ہنستے تھے -
کئی روز کی تلاش اور جستجو کے بعد یہی نتیجہ نکلا کہ صرف پل ہی کے ذریعے سے دریا کو عبور کیا جا سکتا ہے-
چنانچہ طارق نے پل پر دھاوا کرنے کا پروگرام بنایا اور ایک روز صبح کی نماز پڑهتے ہی دو ہزار سواروں کو لے کر پل کی طرف بڑھنا شروع کر دیا -
فصیل والے سپاہیوں نے انہیں بڑھتا دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا -
چوکیوں والوں نے بھی مسلمانوں کو دیکھ لیا تھا کہ وہ پل پر حملہ کرنا چاہتے ہیں لہذا وہ بھی مستعد ہو بیٹھے-
دونوں طرف دو زبردست چوکیاں تهیں یہ دو چھوٹے چھوٹے قلعے تهے جو کافی بلند تهے اور جن کی فصیل چٹانوں کو کاٹ کر بنائی گئی تھی -
دونوں کی فصیلیں گول تهیں جیسے اکثر برج ہوا کرتے تھے ان دونوں چوکیوں میں دو دو ہزار سپاہی ہر وقت موجود رہتے تھے اور ضرورت کے وقت ان کی تعداد میں اور بھی اضافہ کردیا جاتا تھا -
چنانچہ اب بھی ایک ایک ہزار کا اضافہ کر کے تین تین ہزار سپاہی کر دئیے تھے -
پل پر زبردست لوہے کا عالی شان گیٹ تھا -
جب پھاٹک بند کر دیا جاتا تھا تو پھر کسی طرح بھی کوئی شخص ادھر سے ادھر آ جا نہیں سکتا تھا مسلمانوں کے خوف سے وہ پھاٹک بھی بند کر گیا تھا اور چوکیوں کے پہرہ دار فصیل پر چڑھ گئے تھے -
طارق خوب سمجھ رہے تھے کہ ان کی پل کی طرف حرکت کرتے ہی ان پر تیروں کی بارش کر دی جائے گی -
وہ یہ بھی سمجھ گئے تھے کہ اگر سواروں کو لے جایا گیا تو یہ گھوڑے زخمی ہو جائیں گے یا سوار مجروح ہو کر گر پڑیں گے -
اس لیے انہوں نے تمام سپاہیوں کو دھاوا کا حکم دیا ان دو ہزار میں سے ایک ہزار پر زید کو افسر مقرر کر دیا تھا اور ایک ہزار اپنے تحت میں رکهے تهے - "
دو ہزار مجاہدین اسلام اللہ اکبر کے نعرے لگاتے پل کی طرف بڑھے -
قلعہ کی فصیل والوں نے انہیں بڑھتے ہوئے دیکھ کر اس قدر شور مچایا کہ تمام قلعہ گونج اٹھا اور لوگ شہر میں سے جنگ کا تماشا دیکھنے کے لیے قلعہ کی فصیلوں پر چڑھ آئے.
ادھر چوکیوں والے بالکل مسلح اور مستعد ہو کر موقع کا انتظار کرنے لگے - مسلمان نہایت اطمینان اور استقلال سے ڈھالوں کا قلعہ بنائے بڑهہ رہے تھے -
انہوں نے تمام اونچی چٹانیں طے کر کے نیچے والی چٹانوں پر چڑھنا شروع کر دیا مگر جونہی وہ چوکی والوں کی زد میں فوراً ہی ان پر تیروں کا مینہ برسنے لگا-
تیر اس قدر کثرت سے آنے لگے کہ ایک دفعہ تو آفتاب تیروں کے پیچھے چھپ گیا اور بہت سے مسلمان ان تیروں سے زخمی بھی ہوئے لیکن وہ زخمی ہونے پر بھی نہ جھجکے نہ رکے بلکہ برابر بڑھتے رہے اور انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ عیسائیوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ ان کے تیروں سے وہ زخمی ہو رہے ہیں -
وہ بڑھتے رہے نہایت جانبازی اور بڑی جرات کے ساتھ عیسائی انہیں اس طرح بڑھتے دیکھ کر کمال حیران ہو رہے تھے -
اول اول تو وہ سمجھے تھے کہ تیرافگنی کر کے مسلمانوں کو مجبور کر دیں گے کہ وہ ایک قدم آگے نہ بڑھ سکیں-
ان کے برابر بڑھنے سے اب وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کے تیر خالی جا رہے ہیں اور مسلمانوں پر ان کا اثر نہیں کر رہے اس سے وہ حیرت زدہ ہو کر ڈر گئے - "
انہوں نے سنا تھا کہ مسلمان عجیب لوگ ہیں ان پر آگ اثر کرتی ہے نہ پانی ہتھیاروں کا تو مطلق بھی اثر نہیں ہوتا-
اب وہ اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھ بھی رہے تھے کہ وہ تیر برسا رہے ہیں اور مسلمان تیر کها کها کر بھی بڑھتے چلے آ رہے ہیں -
انہوں نے قلعہ کی فصیل والوں کو پکار کر کہا - "
ان لوگوں پر تیروں کا بھی اثر نہیں ہوتا یہ بڑھتے چلے آ رہے ہیں یقیناً ان کا سیلاب ہمیں بہا لے جائے گا.
طلیطلہ کا گورنر فصیل پر موجود تھا اس نے للکار کر کہا گھبراو مت کوشش کرتے رہیں.
لیکن ان عیسائیوں کے دلوں پر مسلمانوں کا کچھ اس طرح رعب چھایا تھا کہ اب ان سے تیر افگنی اس شد و مد سے نہیں ہو سکی جیسے کہ شروع کی تھی-
مسلمانوں نے اس بات کو سمجھ لیا اور آپنی رفتار پہلے سے زیادہ تیز کر دی طارق سب سے آگے تهے اور مجاہدین ان کے پیچھے تهے جو لوگ زخمی ہوئے تھے انہوں نے تیروں کو اپنے جسموں سے نکال نکال کر پھینک دیا تھا اور جوش و غضب سے بڑهہ آگے بڑھ رہے تھے آخر وہ بڑھتے بڑھتے پھاٹک تک پہنچ گئے اور اسے توڑنے لگے-
اب چوکی والے عیسائیوں کے شور کا وقت آ گیا تھا وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہے تھے اور قلعہ والوں کو اپنی مدد کے لیے پکار رہے تھے -
کچھ مسلمان تو پھاٹک توڑنے لگے کچھ چٹانوں پر چڑھ کر قلعہ کی فصیلوں پر چڑھنے لگے لیکن چوکیوں والوں نے انہیں نہ دیکها اور موقع کچھ ایسا تھا کہ پھاٹک والوں پر تیر نہ برسا سکتے تھے وہ جھروکوں میں سے جھانک کر غل مچا رہے تھے -
جب کہ وہ شور کرنے میں مصروف تھے چند مسلمان فصیل پر پہنچ گئے -
انہوں نے وہاں پہنچتے ہی تلواریں سونت لیں اور عیسائیوں پر ٹوٹ پڑے عیسائیوں کو ان کے آنے کی اطلاع اس وقت ہوئی جب کہ ان کے بہت سے آدمی مارے جا چکے تھے -
چونکہ ان مسلمانوں نے پر زور حملے کر کے تمام عیسائیوں کو فصیل کے سامنے سے ہٹا دیا تھا اس لیے مسلمانوں کی آمد کا تانتا بندھ گیا اور جو شخص بھی اوپر پہنچتا وہ تلوار لے کر عیسائیوں پر ٹوٹ پڑتا اور انہیں قتل کرنا شروع کر دیتا.
عیسائی بھی تلواریں کهنیچ کر مقابلے میں آ گئے اور نہایت جوش و خروش سے مقابلہ کرنے لگے -
ان کی ہمت مسلمانوں کو کم دیکھ کر بڑهہ گئیں اور وہ بڑے ولولے سے لڑنے لگے مسلمان نہایت پهرتی اور بڑی قوت سے لڑ رہے تھے اور دور تک پھیل گئے تھے -
ان کی تلواریں عیسائیوں کو کھیتی کی طرح کاٹ رہی تھیں _
قلعہ والوں نے جب یہ کیفیت دیکهی تو وہ ان کی مدد کے لیے آگے دوڑے اور قلعہ کا پھاٹک کهول کر پل کی طرف جھپٹے.
ادھر طاہر نے جو زید کے ساتھ ملاگا وغیرہ کی فتوحات میں شامل تھے اور اس وقت ایک چٹان پر بیٹھے مسلمانوں کی کاروائی دیکھ رہے تھے - عیسائیوں کو پھاٹک پر پہنچتے دیکھ لیا-
وہ جلدی سے لوٹے اور تمام لشکر کو چڑھا لائے چونکہ اب تیرافگنی کا خدشہ باقی نہ رہا تھا اس لیے اب وہ لشکر چلا وہ سب گھوڑوں پر سوار تھے اس عرصہ میں تقریباً تین سو مسلمان برج پر چڑھ چکے تھے اور انہوں نے عیسائیوں کو قتل کر کے انہیں برج کے دوسری طرف دھکیل دیا-
طارق اور ان کے ہمراہی بھی پھاٹک توڑنے میں مصروف تھے اور آخر انہوں نے پھاٹک توڑ ڈالا-
جس وقت پھاٹک ٹوٹا اسی وقت طاہر لشکر لے کر پہنچ گئے.
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سواروں کی بر وقت آمد مسلمانوں کی ہمتیں مزید بڑھا دیں طارق کا غلام ان کا گهوڑا لے آیا تھا-
وہ جلدی سے گھوڑے پر سوار ہونے انہوں نے پیادوں کو پھاٹک پر ہی روک دیا اور سواروں کو لے کر آگے چل پڑے-
جونہی وہ پھاٹک کے دوسری طرف نکلے انہوں نے تمام پل پر عیسائیوں کو پھیلے ہوئے اور ننگی تلواریں لئے دیکها-
یہ قلعہ والے عیسائی تھے جو برج والوں کی مدد کے لیے آئے تھے یہ سب پیدل تهے طارق اور دوسرے مسلمانوں نے گھوڑے ان کی طرف دوڑائے-
عیسائی ان کی صورتیں دیکھتے ہی چلاتے ہوئے بھاگے لیکن وہ بھاگ نہ سکے اور مسلمانوں نے انہیں جا لیا اور جہنم واصل کر دیا -
اس وقت دو محاذوں پر جنگ ہو رہی تھی ایک برج میں اور دوسری پل پر اور دونوں جگہوں سے عیسائی قتل ہو ہو کر گر رہے تھے -
مسلمانوں کے دستے انہیں مارتے گراتے پھاٹک تک جا پہنچے.
عیسائی کچھ ایسے بد حواس ہوئے کہ انہیں پھاٹک بند کرنے کا بھی ہوش نہ رہا مسلمانوں نے عیسائیوں کو چاروں طرف سے گھیر کر قتل کرنا شروع کر دیا -
اس وقت عیسائیوں میں کوئی نظام باقی رہا تھا نہ کوئی ضابطہ وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے مسلمانوں کے ڈر سے قلعہ میں چھپتے پهر رہے تھے -
مسلمانوں نے قلعہ کے اندر عیسائیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے مسلمان بهی اگرچہ تیروں سے بہت زیادہ زخمی ہوئے لیکن شہید ایک بهی نہ ہوا-
عیسائیوں نے اس طرح قتل و غارت دیکھ کر ہتھیاروں کو پهینک کر امان" امان" چلانا شروع کر دیا -
طارق نے فوراً جنگ بندی کا حکم دیا اور تهوڑی دیر میں تمام فوجیوں کو گرفتار کر لیا-
اب پادریوں کی جماعت طارق کی خدمت میں حاضر ہوئی اور انہوں نے مصالحت کی گفتگو شروع کی-
جب تک ہم نے قلعہ کو فتح نہیں کیا تھا مصالحت کی بات ہو سکتی تھی اب جب کہ ہم نے بزور شمشیر قلعہ فتح کیا ہے اب مصالحت کی بات فضول ہے طارق نے کہا-"
ایک راہب نے آگے بڑھ کر کہا اچھا اگر آپ صلح نہیں کرنا چاہتے نہ کریں مگر رحم تو کریں-"
طارق نے جوش میں آ کر کہا تم لوگ وہ قوم ہو جو کسی پر رحم نہیں کرتے ہم مسلمانوں کی صفت ہے رحم کرنا چنانچہ ہم بھی رحم کریں گے -
پادری: بندہ پروری ہو گی آپ کی
طارق: ایسے نہ کہو یہ معصیت ہے بندہ پرور سوائے اللہ کے اور کوئی بھی نہیں ہے-
پادری: اچھا مہربانی سہی-
طارق : ہاں یہ کہہ سکتے ہو سنو اس شرط پر صلح کی جا سکتی ہے اس وقت شہر میں جتنے گھوڑے اور ہتھیار ہیں سب ہمارے حوالے کر دو-
اور جو شخص اس کو جبر سمجھے وہ جہاں جی چاہے چلا جائے مگر اس حالت میں اسے اپنی تمام مقبوضات سے ہاتھ دھونا پڑے گا -
جو لوگ یہاں رہنا چاہتے ہیں انہیں اطمینان دلایا جائے گا اور انہیں معمولی جزیہ دینا پڑے گا -
پادری: اور حضور قانون کونسا لازم ہو گا؟
طارق:کوئی نیا قانون جاری نہیں کیا جائے گا وہی رہے گا بلکہ حکام بھی عیسائی اور یہودی ہی رہیں گے صرف اعلی عدالت کا حکمران مسلمان ہو گا -
پادری نے حیرانگی سے کہا یہودی کیوں جناب ہمیں یہودیوں سے بچائیں.
طارق نے کہا اطمینان رکھو یہود تمہیں اور تم یہود کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.
پادری نے کہا ہمیں آپ کی شرط منظور ہے.
پادری چلے گئے انہوں نے ہتھیار اور گھوڑے مسلمانوں کے حوالے کر دئیے.
طارق نے جب شاہی محل دیکھا تو حیران رہ گئے ایک کمرہ انہوں نے اپنے لئے منتخب کیا اور اس میں ٹهہر گئے.
طارق چونکہ سارا دن کے تھکے ہوئے تھے لیٹتے ہی سو گئے.
دفعتاً ان کی آنکھ کھلی اور انہوں نے ایک حسین دوشیزہ کو اپنے سرہانے کھڑے پایا-
وہ کمال کی خوبصورتی کی مالک تهی نگاہ اس کے چہرے پر نہیں ٹهہرتی تهی.
وہ کم سن اور بھولی تهی اور اپنی فسوں خیز آنکھوں سے طارق کو دیکھ رہی تھی.
وہ رشک حور کو دیکھ کر حیران رہ گئے انہیں خیال ہوا کہ شاید وہ سو رہے ہیں اور انہیں خواب میں پری پیکر نظر آ رہی ہے.
اسی خیال سے وہ اس پری جمال کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی