اداسیوں نے مری آتما کو گھیرا ہے
اداسیوں نے مری آتما کو گھیرا ہے
رو پہلی چاندنی ہے اور گھپ اندھیرا ہے
کہیں کہیں کوئی تارہ کہیں کہیں جگنو
جو میری رات تھی وہ آپ کا سویرا ہے
قدم قدم پہ بگولوں کو توڑتے جائیں
ادھر سے گزرے گا تو راستہ یہ تیرا ہے
افق کے پار جو دیکھی ہے روشنی تم نے
وہ روشنی ہے خدا جانے یا اندھیرا ہے
سحر سے شام ہوئی شام کو یہ رات ملی
ہر ایک رنگ سمے کا بہت گھنیرا ہے
خدا کے واسطے غم کو بھی تم نہ بہلاؤ
اسے تو رہنے دو میرا یہی تو میرا ہے
مینا کماری ناز
اداسیوں نے مری آتما کو گھیرا ہے
Reviewed by میاں محمد شاہد شریف
on
أغسطس 01, 2024
Rating:
ليست هناك تعليقات: