2021
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔


آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے بددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔

تعارف

حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘

سلسلۂ نسب، حلیہ

آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘

صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ

آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔

کاتبِ وحی

حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، استقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔

غزوات میں شرکت

حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔

شہادت ہے معراجِ مردِ مومن

غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔

جنگِ نہاوند

حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑھے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔

حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی

امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔

شہنشاہی میں فقیری

جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔

سادگی مومن کی شان ہے

کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘

خالقِ حقیقی سے جا ملے

موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔


 غزوۂ بدر میں شرکت کے متمنّی جانثارانِ اسلام، عاشقانِ رسولؐ ایک قطار میں کھڑے ہیں۔ اُن میں انصار بھی ہیں اور مہاجرین بھی۔ بوڑھے ہیں، تو جوان بھی۔ سب کے دِل جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار ہیں۔ سب کفر اور اسلام کے درمیان ہونے والی پہلی جنگ میں حصّہ لینے کے لیے بےقرار اور بے تاب ہیں۔ امام الانبیاءؐ، تاج دارِ مدینہؐ، سرکارِ دو جہاںؐ، حضور رسالت مآب ﷺ محاذ پر جانے والے صحابہؓ کا چنائو فرما رہے ہیں۔ بوڑھوں، بیماروں اور پندرہ سال سے کم عُمر بچّوں کو محاذ پر جانے کی اجازت نہیں۔ ابھی آپؐ کچھ صحابہؓ کو منتخب کر کے آگے بڑھے ہی تھے کہ آپؐ نے دیکھا کہ ایک بچّہ اپنا سَر بلند کیے، گردن اکڑائے، پنجوں کے بَل کھڑا ہو کر خود کو لمبے قد کا ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، لیکن پھر بھی اُس کی تلوار، اُس کے قد سے بلند ہے۔ اللہ کے رسول،ؐ بچّے کی اس ادا پر مُسکرا اٹھے، اُس کے سَر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور فرمایا ’’بیٹے ،تم ابھی چھوٹے ہو۔‘‘ بچّہ یہ سُن کر عاجزانہ انداز میں گویا ہوا’’ یارسول اللہؐ! مَیں اور میرے ماں، باپ آپؐ پر قربان۔ مجھے اللہ اور اُس کے رسولؐ کے دشمنوں سے جنگ کرنے کا موقع عنایت فرما دیجیے۔‘‘ آپؐ نے بچّے کے جذبۂ جہاد کی تعریف فرماتے ہوئے اُسے پیار سے گھر جانے کی ہدایت کی۔ اداس اور مغموم بچّہ، بادلِ نہ خواستہ قطار سے نکل کر مایوسی کے عالم میں گھر کی طرف چل دیا۔ بچّے کی ماں اُن شمعِ حق کے پروانوں میں اپنے بیٹے کی شمولیت کی آرزو لیے قریب ہی کھڑی ہے۔ بیٹے کو مغموم کیفیت میں قطار سے نکلتا دیکھا، تو خود بھی افسردہ ہو گئی۔ ماں اور بیٹے ناکام اور مایوس گھر واپس لَوٹ گئے۔ صاحب زادے کی عُمر بہ مشکل تیرہ سال ہے، لیکن اسلام کے لیے مر مِٹنے کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی بے قابو موجوں کی طرح، دل و دماغ میں مدّ وجزر پیدا کر رہا ہے۔ اب وہ دن، رات اُن راہوں کی تلاش میں ہے کہ جن پر چل کر صحبتِ رسولؐ اور قربتِ مصطفیؐ حاصل ہو جائے۔ جہاں خوش نودیٔ رسولؐ مقصدِ حیات ہو اور محبوبِ خداؐ کا محبوب بن جانامنزلِ مُراد ہو، تو بارگاہِ خداوندی ایسے نوجوانوں کو نئی راہیں دِکھا دیتی ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد ایک دن والدہ سے گویا ہوئے’’امّاں حضور! مَیں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اللہ کے کلام کا حافظ، قاری اور عالم بنوں گا۔‘‘ ماں نے اُن کے فیصلے کو پسند کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کی اور پھر ماں کی حوصلہ افزائی نے ارادوں کو جِلا بخشی، بس پھر کیا تھا، آتشِ شوق نے جذبوں کو جُنوں میں بدل دیا۔ دن، رات اسی کام میں مصروف ہو گئے، جہاں سے کوئی سورۃ یا آیت ملتی، اُسے یاد کرتے اور بہتر سے بہتر انداز میں اُس کی قرأت کرتے۔ اللہ نے ذہانت و فطانت اور قوّتِ حافظہ خُوب عطا فرمائی تھی، ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ بہت سی آیات اور سورتیں ازبر کر لیں اور خُوب صورت انداز سے قرأت کا فن بھی سیکھ لیا۔


کاتبِ وحی

ایک دن والدہ، نوار بنتِ مالک، اُنہیں لے کر بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہوئیں’’یارسول اللہؐ! یہ زید ہے۔ یہ قرآنِ کریم کی سترہ سورتیں یاد کر چُکا ہے اور اُن کی تلاوت اُسی انداز میں کرتا ہے، جس انداز میں آپؐ پر اُتاری گئی ہیں۔ نیز، اِس کی تحریر بھی بہت عمدہ ہے اور لکھنا پڑھنا بھی جانتا ہے۔‘‘ آنحضرتؐ نے جب اُن سے قرآنِ کریم سُنا، تو یوں لگا کہ لبوں سے پھول برس رہے ہوں اور لفظوں کی صُورت میں خوش نُما، رنگ برنگے پھولوں کی کلیاں فضا کو مشک وعنّبر سے معطّر کر رہی ہوں۔ قرأت کی رُوح پرور آواز نے جیسے سماں باندھ دیا تھا۔ قرآنی الفاظ کا اُتار چڑھائو، عمدہ تجوید اور خُوب صورت انداز نے اہلِ مجلس کو مسحور کر دیا۔ ہونٹوں سے نکلے جملے یوں جھلملا رہے تھے، جیسے آسمان پر ستاروں کی کہکشاں۔ ایک طرف زیدؓ کی قرأت سامعین کی سماعتوں میں رَس گھول رہی تھی، تو دوسری طرف، سرکارِ دو عالمؐ نے اس بچّے کے لیے ایک بڑا فیصلہ کر لیا تھا۔ آپؐ، زید ؓکی کارکردگی سے بہت خوش ہوئے، اُنہیں اپنی مجلس میں بیٹھنے کی اجازت دی اور اس کے ساتھ ہی اُنہیں’’ کاتبِ وحی‘‘ کے عظیم منصب پر فائز فرما دیا۔

پیدائش اور قبولِ اسلام

حضرت زید بن ثابتؓ ہجرتِ نبویؐ سے 11 سال پہلے مدینہ منورہ (یثرب) میں پیدا ہوئے۔ آپ ؓکے والد، ثابت بن ضحاک ہجرت سے 5 سال پہلے جنگِ بعاث میں مارے گئے تھے، اُس وقت حضرت زیدؓ کی عُمر چھے برس تھی۔ آپؓ کی پرورش والدہ، نوار بنتِ مالک نے کی۔ نبوّت کے بارہویں سال، (621عیسوی) میں رسول اللہﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو اسلام کا پہلا سفیر بنا کر یثرب بھیجا، تو اُن کی کوششوں سے دیگر افراد کے ساتھ، حضرت زیدؓ اور اُن کی والدہ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔

شجرۂ نسب

آپؓ کا شجرۂ نسب یوں ہے۔ زید بن ثابت بن ضحاک بن زید بن لوزان بن عُمرو بن عبد بن عوف بن غنم بن مالک بن نجار۔ سیرت کی کُتب میں آپؓ کی تین کُنیتیں ابو سعید، ابو خارجہ اور ابو عبدالرحمٰن تحریر ہیں۔

بارگاہِ رسالت ؐ میں مقام

حضرت زیدؓ اپنے قوّتِ حافظہ، علم و دانش، فضل و کمال، فہم و فراست، ذہانت و فطانت، شیریں کلامی اور عشقِ قرآنی کی بہ دولت چھوٹی عُمر ہی میں بارگاہِ رسالت کے مقرّبینِ خاص میں شمار ہونے لگے تھے۔ آنحضرتؐ سے آپؓ کی قربت کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات آپؐ ازراہِ شفقت و محبّت اپنا زانوئے مبارک اُن کی ران پر رکھ دیتے۔ ایسے ہی ایک موقعے پر وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ’’ رسول اللہ ؐ کا زانوئے مبارک اتنا بھاری محسوس ہوا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہیں میری ران ہی نہ ٹوٹ جائے، لیکن وحی کے نزول کے بعد یہ کیفیت ختم ہو گئی۔‘‘

مختلف زبانوں پرعبور

ایک دن سرکارِ دو جہاںؐ، حضور رسالتِ مآب ﷺ نے فرمایا’’ اے زیدؓ! تم میرے لیے عبرانی (یہود کی زبان) سیکھ لو۔‘‘ اللہ کے رسولؐ کے حکم پر تو جان بھی حاضر ہے، خوش ہوتے ہوئے جواب دیا’’ یا رسول اللہؐ! بہت جلد سیکھ لوں گا۔‘‘ ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ ایک دن بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہو کر عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ؐ ! مَیں نے عبرانی پر عبور حاصل کر لیا ہے۔‘‘ حضورﷺ نے مسرّت کا اظہار فرماتے ہوئے دعائوں سے نوازا۔ پھر حضورﷺکو جب بھی ضرورت ہوتی، یہودیوں سے عبرانی میں خط و کتابت فرماتے۔ آنحضرت ؐ کے حکم پر آپؓ نے سریانی، فارسی، رومی، قبطی اور حبشی زبانیں بھی سیکھیں اور ایک وقت وہ آیا کہ رسول اللہؐ کے لیے یہ نوجوان، ترجمانِ توریت اور انجیل کے عالم بن گئے۔ کتابتِ وحی کے ساتھ، غیر مُلکی سلاطین اور سربراہان کے ساتھ خط و کتابت کے فرائض بھی حضرت زیدؓ ہی انجام دیتے تھے۔ آپؓ نے عہدِ رسالتؐ ہی میں قرآنِ پاک حفظ کر لیا تھا۔

دانائی اور حکمت پر مبنی فیصلہ

رحمتِ دو جہاںؐ، شہنشاہِ کون و مکاںؐ، حضور رسالتِ مآب ﷺ کے وصال فرمانے کے بعد خلیفۃ المسلمین کے انتخاب کے معاملے پر مختلف آراء سامنے آ رہی تھیں۔ اسی سلسلے میں سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار مشاورت کے لیے جمع ہوئے۔ سیّدنا فاروقِ اعظمؓ کو اس کی خبر ملی، تو وہ حضرت صدیقِ اکبرؓ کو لے کر وہاں پہنچے تاکہ اس معاملے کو اچھے طریقے سے حل کرلیا جائے۔ یہاں کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ انصار، مہاجرین سے زیادہ ہیں، لہٰذا خلیفہ انصار میں سے ہونا چاہیے۔ ایک صحابی، سعد بن عبادہؓ نے تجویز دی کہ دو امیر مقرّر کر لیے جائیں یعنی انصار کا امیر الگ ہو اور مہاجرین کا الگ۔ حضرت زید بن ثابتؓ خاموشی سے صُورتِ حال کا جائزہ لے رہے تھے۔ مدینے کے انصار میں آپؓ کی رسول اللہﷺ سے قربت اور علمی قابلیت کی بناء پر بڑا احترام تھا۔ سو، کچھ انصار نے آپؓ کی رائے جاننا چاہی۔ آپؓ اٹھے، اللہ کی حمد و ثنا کے بعد بڑے پُرعزم اور پُرجوش انداز میں مجمعے سے مخاطب ہوئے’’ اے مدینے کے لوگو! کیا تم بھول گئے کہ اللہ کے رسولؐ مہاجر تھے اور خلیفۃ الرسولؐ بننے کا حق بھی مہاجرین ہی کا ہے۔ جس طرح ہم رسول اللہؐ کے انصار تھے، اسی طرح ہم مہاجر خلیفہ کے بھی انصار رہیں گے۔‘‘ اس ایمان افروز تقریر کے بعد حضرت زیدؓ نے آگے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ حضرت زید بن ثابتؓ کا خطاب، انصارِ مدینہ کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام انصار صحابہؓ نے سیّدنا صدیقِ اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔یوں یہ معاملہ انتہائی خُوش اسلوبی سے حل ہوگیا۔

تدوینِ قرآن کا اہم فریضہ

حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد، نبوّت کے جھوٹے دعوے دار، مسیلمہ کذّاب کی سرکوبی کے لیے حضرت عکرمہؓ بن ابو جہل کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا، لیکن اُنھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سیّدنا صدیقِ اکبرؓ کو اس شکست کا علم ہوا، تو آپؓ نے حضرت خالدؓ بن ولید کو فوج کا امیر بنا کر روانہ کیا۔ مسیلمہ کذّاب کی سرکوبی کی اس مہم میں حضرت زید بن ثابتؓ بھی شریک تھے۔ حضرت خالدؓ بن ولید کے ساتھ تیرہ ہزار مجاہدین کی فوج تھی اور آپؓ ابھی یمامہ کے مرکزی دروازے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ مسیلمہ نے اپنے قبیلے’’ ربیعہ‘‘ کے چالیس ہزار جنگ جوؤں کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ یہ ایک انتہائی خون ریز جنگ تھی، جس میں مجاہدین کے ہاتھوں مسیلمہ کذّاب سمیت سترہ ہزار سے زاید مرتدین مارے گئے، لیکن اس جنگ میں ایک ہزار سے زاید مسلمان بھی شہید ہوئے، جن میں سات سو کے قریب حفّاظ اور قراء شامل تھے۔ حفّاظ اور قراء کا اتنی بڑی تعداد میں شہید ہونا انتہائی اہم معاملہ تھا، چناں چہ سیّدنا فاروقِ اعظمؓ نے خلیفۃ الرسولؐ، حضرت صدیقِ اکبرؓ کو مشورہ دیا کہ قرآنِ کریم کو کتابی صُورت میں جمع کر لیا جائے۔ حضرت صدیقِ اکبرؓ نے یہ اہم اور حسّاس ذمّے داری، حضرت زید بن ثابتؓ کو سونپی۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ’’ شروع میں تو مجھے یہ کام کرنے میں تامل رہا، لیکن پھر اللہ کی رضا سے مَیں نے صحابہ ؓکی ایک جماعت کے ساتھ مل کر قرآنِ کریم کے تمام اجزا، جو مختلف صحابہ کرامؓ اور اُمّ المومنین، حضرت حفصہؓ کے پاس تھے، جمع کیے۔ یہ چمڑے کے ٹکڑوں، جانوروں کی چوڑی ہڈیوں، درختوں کی چھال وغیرہ پر لکھے ہوئے تھے۔‘‘ حضرت زید بن ثابتؓ کو اس عظیم کام میں تقریباً ساٹھ صحابۂ کرامؓ پر مشتمل ٹیم کی معاونت حاصل تھی۔ خلیفۂ سوئم، حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اس نسخے کی پانچ نقلیں بنوا کر مکّہ معظّمہ، مدینہ منورہ، کوفہ، شام اور بصرہ میں رکھوائیں۔ قرآنِ کریم کے ان نسخوں کی نقول تیار کرنے کا کام بھی حضرت زید بن ثابتؓ ہی کی زیرِ نگرانی سرانجام پایا۔

خلفائے راشدین کی نظر میں حضرت زیدؓ کا مقام و مرتبہ

حضرت ابو بکر صدیقؓ جب خلیفہ بنے، تو آپؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو منصبِ کتابت پر فائز رکھا اور اُنھیں اپنی مجلسِ شوریٰ کا رُکن بھی بنایا۔ امیرالمومنین، سیّدنا عُمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں نہ صرف اُنھیں شعبۂ کتابت کے امیر کے منصب پر بحال رکھا، بلکہ مدینہ منورہ کا قاضی بھی مقرّر کیا۔ حضرت عُمر فاروقؓ فرمایا کرتے تھے’’ اہلِ مدینہ زیدؓ کے(علم کے) محتاج ہیں، کیوں کہ جو شئے زیدؓ کے پاس ہے، وہ کسی اور کے پاس نہیں۔‘‘ ایک موقعے پر حضرت فاروقِ اعظمؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا’’ لوگو! کسی کو قرآن اور فرائض کے بارے میں کچھ دریافت کرنا ہو، تو وہ زید بن ثابتؓ سے دریافت کرے۔‘‘ حضرت فاروقِ اعظمؓ کی شہادت کے بعد، حضرت عثمان غنیؓ نے اُنہیں سابقہ عُہدوں پر بحال رکھا، بلکہ 31؍ہجری میں اُنھیں بیت المال کا بھی امیر مقرّر کردیا۔ حضرت عُمرؓ اور حضرت عثمان غنیؓ جب بھی مدینہ منورہ سے باہر جاتے، تو اپنا جانشین انہی کو مقرّر کرتے۔ گو کہ حضرت زیدؓ نے جنگِ جمل اور صفین میں حضرت علیؓ کا ساتھ نہیں دیا تھا، لیکن اس کے باوجود، سیّدنا علی المرتضیٰؓ، حضرت زید بن ثابتؓ کے عزّت و احترام میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے تھے۔

فرمانِ نبوی ؐ

ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زیدؓ کی علمی قابلیت کو سراہتے ہوئے فرمایا’’میری امّت میں علمِ فرائض(علمِ میراث) کے جاننے والے زید بن ثابتؓ ہیں۔‘‘

وصال

کاتبِ وحی، عاشقِ رسولؐ، منبعِ علم و فضل، قرآنِ کریم، توریت اور انجیل کے حافظ، کئی زبانوں کے ماہر، ترجمانِ رسولؐ، چاروں خلفائے راشدین کے پیارے، حضرت زید بن ثابتؓ 45ہجری میں 56سال کی عُمر میں اللہ کے محبوب ؐکے شہر، مدینہ منورہ میں خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپؓ کی وفات کی خبر پر مدینہ منورہ سوگ میں ڈوب گیا۔ مسلمان غم سے نڈھال تھے اور پورا شہر جنازے میں اُمڈ آیا۔ حضرت ابنِ عباسؓ نے تدفین کے بعد غم زدہ لہجے میں فرمایا’’ دیکھو لوگو! علم کو جب جانا ہوتا ہے، تو اس طرح جاتا ہے۔ آج علم کا بہت بڑا ذخیرہ مٹّی تلے دفن ہوگیا۔‘‘حضرت ابوہریرہؓ کو جب انتقال کی خبر ملی، تو اُن کی زبان سے بے اختیار نکلا’’ افسوس کہ آج امّت کا بہت بڑا عالم اپنے ربّ سے جاملا۔‘‘ بارگاہِ رسالتؐ کے شاعر، حضرت حسّان بن ثابتؓ نے اپنے غم کا اظہار اس شعر میں کیا’’ حسّان اور اس کے بیٹے کے بعد ایسے اشعار کون پڑھ سکے گا اور قرآن کا مطلب ومفہوم زیدؓ کے بعد کون بیان کر سکے گا۔‘‘


 کاتبِ وحی یا کاتبینِ وحی ایک اسلامی اصطلاح ہے، جس کا اطلاق اُن صحابہ کرامؓ پر ہوتا ہے، جنہوں نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں وحی کو لکھا یا مدوّن کیا۔ کاتبینِ وحی کی تعداد کے ضمن میں تاریخی کتب میں خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔ بعض مورخین نے ان کی تعداد 16بتائی ہے۔ جب کہ بعض نے 42افراد کا ذکر کیا ہے۔ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اصل مدار تو حفظِ قرآن مجید ہی پر تھا، لیکن ساتھ ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابتِ قرآن کا بھی خاص اہتمام فرمایا۔ اُس دَور میں جب کہ لکھنے پڑھنے کے وسائل بہت کم تھے۔ صحابہ کرامؓ نے بڑی دل چسپی سے کتابت سیکھی اور سکھائی بھی۔ بعض اہلِ فن کو خدمتِ نبوی ؐ میں رہ کر وحی الٰہی کی کتابت کا شرف حاصل ہوا۔ بعض نے وحی کی کتابت فرمائی۔ بعض نے احادیث لکھیں، تو بعض نے دستاویزات اور بعض نے احکامِ زکوٰۃ و فرامینِ نبوی ؐ کی کتابت کی اور ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ آپ ؐ نے بہت سے صحابہ رضوان اللہ اجمعین کو اس مقصد کے لیے مقرر فرمایا ہوا تھا، جو حسبِ ضرورت کتابتِ وحی کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ اس زمانے میں چوں کہ عرب میں کاغذ کم یاب تھا، تو کتابتِ وحی کے لیے کھجور کی شاخیں، پتھر کی سِلیں،چمڑے کے پارچے اور جانوروں کی ہڈیاں بھی استعمال کی گئیں، لیکن یہ طے ہے کہ پورا قرآنِ کریم آپ ؐ کی نگرانی ہی میں لکھ کر محفوظ کرلیا گیا تھا۔


کتابتِ قرآن کا طریقہ ٔ کار حضرت زیدؓ نے اس طرح بیان فرمایا ’’مَیں رسول اللہؐ کےلیے وحی کی کتابت کرتا تھا۔ جب آپ ؐ پر وحی نازل ہوتی، تو آپ ؐ سخت بوجھ محسوس کرتے، جسمِ اطہر پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے۔ پھر آپ سے یہ کیفیت ختم ہو جاتی تو میں مونڈھے کی ہڈی یا کسی اور چیز کا ٹکڑا لے کر خدمتِ اقدس ؐ میں حاضر ہوتا۔ آپؐ لکھواتے رہتے، مَیں لکھتا جاتا۔ یہاں تک کہ لکھ کر فارغ ہوجاتا۔ قرآن کے نقل کرنے کے بوجھ سے مجھے ایسا محسوس ہوتا، جیسے میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہو اور مَیں کبھی چل نہیں سکوں گا۔ بہرحال، جب میں فارغ ہوتا، تو آپ ؐ فرماتے ’’پڑھو۔‘‘ میں پڑھ کر سناتا۔ اگر اس میں کوئی فروگزاشت ہوتی، تو آپ ؐ اس کی اصلاح فرمادیتے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے لے آتے۔ کتابتِ وحی کا کام صرف حضرت زید بن حارثؓ ہی کے سپرد نہ تھا۔ بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ خدمت سر انجام دی، لیکن چوں کہ ان کی تعداد کے حوالے سے کچھ تضاد پایا جاتا ہے اور یہ موضوع بھی بے حد حسّاس ہے، پھر اس پر کتب بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، تو ہم قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے چند معروف کاتبینِ وحی کی (جن کے ناموں پر سب کا اتفاق موجود ہے) حیاتِ مبارکہ سےمتعلق تفصیلی مضامین کی اشاعت کا ایک سلسلہ شروع کررہے ہیں۔ لیجیے، آج ملاحظہ کیجیے، اس سلسلے کا پہلا مضمون۔ 

………٭…٭…٭…٭…٭……

سرد رات کا دوسرا پہر شروع ہوا چاہتا ہے۔ مکّے سے4کلومیٹر کے فاصلے پر سب سے پُرخطر پہاڑ’’ثور‘‘ اللہ کے دو عظیم المرتبت مسافروں کو اپنی آغوش میں پناہ دینے کے لیے بے چین ہے۔ ربِ کائنات کے محبوبؐ آج اپنے محبوبؓ کے ساتھ اسے شرف میزبانی بخش رہے ہیں۔ ثور کی چوٹی پر برسوں سے غیر آباد غار کی بھی آج قسمت چمکنے کو ہے کہ اس میں آج کائنات کے شہنشاہ جلوہ گر ہو رہے ہیں۔ سیّدنا ابوبکرصدیقؓ غار میں جھانکتے ہوئے فرماتے ہیں’’میرے ماں باپ آپ پر قربان! اے اللہ کے رسولؐ میں پہلے اندر جاکر اطمینان کرلوں، پھر آپ اندر تشریف لائیں۔‘‘ سیّدنا ابوبکرؓ اندر جا کر غار کی صفائی کرتے ہیں، وہاں موجود چند سوراخوں کو اپنے تہ بند کے کپڑے سے بند کردیتے ہیں۔ کاملِ اطمینان کے بعد سرکار دوعالمؓ کو اندر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ دشوار گزار پہاڑ کی چڑھائی، نوکیلے پتھروں سے لہولہان پیروں اور رات بھر کی بے داری کی بناء پر آپؐ اپنے دوست کے زانوئے مبارک پر سر رکھ کر سوجاتے ہیں۔ ابھی چند ہی ساعتیں بیتی تھیں کہ اچانک ایک کھلے سوراخ سے ایک ناگ پھن پھیلائے نمودار ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ برق رفتاری سے سوراخ کے منہ پر اپنی ایڑی پھنسا دیتے ہیں۔ سانپ راستہ بند دیکھ کر غصّے سے دانت ایڑی میں پیوست کر دیتا ہے۔ شدید تکلیف کی ایک دردناک لہر تلووں سے دماغ تک سرایت کرجاتی ہے،مگر قوتِ ایمانی اور عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہونٹوں کو سی دیا، تو جسم کو ساکت کرلیا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود ڈبڈبائی آنکھوں سے ٹپکنے والے ایک خوش قسمت آنسو کو حضورؐ پُرنور کے چہرۂ انور کو چومنے کا شرف حاصل ہو ہی گیا۔ حضورؐ کی آنکھ کھلتی ہے اور دیکھتے ہیں کہ سیّدنا ابوبکرؓکا چہرہ شدّتِ تکلیف سے زرد ہو رہا ہے۔ فرمایا،’’ کیا بات ہے ابوبکرؓ.....؟‘‘۔ ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے پائوں پر سانپ نے کاٹ لیا ہے۔‘‘ یہ سن کر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کی ایڑی پر اپنا لعابِ دہن لگاتے ہیں، جس سے نہ صرف زہر کا اثرزائل ہو جاتا ہے، بلکہ درد بھی ختم ہو جاتا ہے۔صبح غصّے سے بپھرے مشرکینِ مکّہ کھوجیوں کی مدد سے غار کے دہانے تک پہنچ جاتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ان کی آوازیں سن کر فرماتے ہیں۔ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی قوم آپ کو تلاش کرتی یہاں تک آ پہنچی ہے۔‘‘ ابھی حضرت ابوبکرؓ کی بات مکمل بھی نہ ہو پائی تھی کہ اللہ نے وحی نازل فرما دی اور حضورؐ نے اپنے یارِ غار سے فرمایا ’’اے ابوبکرؓ ! فکر نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ (سورۂ توبہ۔40) اِدھر اللہ کی شانِ کریمی دیکھیں کہ مشرکین غار کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ سرکارِدوعالمؐ سے فاصلہ صرف چند گز کا ہے، لیکن غار کے منہ پر تو مکڑی کا برسوں پرانا جالا ہے اور ببول کے درخت کی جھکی شاخ نے اندر جانے کا راستہ بند کر دیا ہے۔ جنگلی کبوتروں کا گھونسلا اور انڈے بھی ہیں، چناں چہ مایوس ہو کر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تین رات قیام فرمایا۔ اس پورے عرصے میں سیدنا ابوبکرؓ اپنے خاندان سمیت آپ کی خدمت پر مامور رہے۔ عبداللہ بن ابوبکرؓ رات کو یہاں آجاتے اور مکّے کے حالات سے باخبر کرتے۔ سیدنا ابوبکرؓ کا غلام، عامر بن فہیرہ دن بھر بکریاں چَراتے اور رات کے ایک پہر کے بعد بکریاں لے آتے، تاکہ دونوں حضرات دودھ پی لیں۔14ربیع الاول پیر کے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق و ہم دَم، غم گسار و جاں باز، یارِ غار سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اَن جانی اور پُرخطر راہوں پر چل پڑتے ہیں۔ غارِ ثور میں قیام سے متعلق حضرت عمرؓ بن خطاب فرماتے ہیں کہ’’ ابوبکرؓ کی ایک رات اور ایک دن، عمرؓ کی زندگی بھر کی عبادت سے افضل ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)۔

نام و نسب: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبد اللہ، جب کہ کنیت ابوبکراور لقب صدیقؓ ہے۔ آپؓ 573عیسوی میں مکّہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو برس اور چند ماہ چھوٹے تھے۔حسن و جمال کے باعث آپؓ عتیق کے نام سے بھی مشہور ہوئے۔ والد کا نام عثمان بن عامر اور کنیت ابوقحافہ تھی اور والدہ ماجدہ کا نام سلمیٰ اور کنیت امّ الخیر تھی۔ قبولِ اسلام سے قبل آپؓ کا نام والدین نے عبدالکعبہ رکھا تھا۔ جب مشرف بہ اسلام ہوئے، تو سرور کائنات صلّی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام تبدیل کرکے عبداللہ رکھ دیا۔ آپؓ کا سلسلہ نسب بنوتمیم سے تھا، جو اس طرح ہے’’ ابوبکر بن ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعید بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نذاربن معد بن عدنان۔‘‘ امام نووی لکھتے ہیں کہ’’ طلوع ِاسلام سے قبل ہی آپ کا شمار قریش کے رئوساء میں ہوتا تھا۔‘‘

حلیہ مبارک: آپؓ کا رنگ گورا، بدن چھریرا، دونوں رخسار اندر کو دھنسے ہوئے، قد قدرے جھکا ہوا، چہرے کی رگیں نمایاں، پیشانی چوڑی اور بلند تھی۔ آنکھیں نیچی رکھتے تھے۔ مہندی اور کسم کا خضاب استعمال کیا کرتے تھے۔ جوانی میں حسین و جمیل شخصیت کے مالک تھے۔

بچپن: سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے زمانہ ٔ جاہلیت میں آنکھ کھولی،جہاں دیگر لاتعداد برائیوں اور خرابیوں کے علاوہ بدکاری و بے حیائی عام تھی، لیکن آپؓ کو ان چیزوں سے نفرت تھی۔ شروع ہی سے ذہین تھے۔ پڑھنے لکھنے کا بے حد شوق تھا، چناں چہ والد ابو قحافہ نے آپ کی تعلیم پر خصوصی توجّہ دی۔ قریش کے چند پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ ہم عمر اور ہم مزاج ہونے کی وجہ سے بچپن ہی سے حضور نبی کریمؐ سے ایک تعلق پیدا ہو گیا تھا، جو وقت کے ساتھ ساتھ گہری رفاقت اور شدید محبت میں بدل گیا اور زندگی کے آخری سانسوں تک قائم و دائم رہا۔

قبولِ اسلام: یہ نبوت کا چوتھا سال تھا کہ جب حکمِ خداوندی ہوا۔ ’’اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم! اب آپ احکام الٰہی عام کیجیے اور مشرکین کی پروا نہ کیجیے۔‘‘ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اسلام کی دعوت دی، تو آپؓ نے فوراً قبول کر لیا اور مَردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا اعزاز پایا۔ اس کے فوراً بعد سیدنا ابوبکر صدیق ؓ ہی نےسب سے پہلے اعلانیہ مشرکین کو اسلام کی دعوت دی۔ اس دور میں حق کی آواز بلند کرنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ چناں چہ آپؓکی اس جرأت پر اہلِ قریش چراغ پا ہو گئے اور شدید تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، پتھروں سے زخمی کیا جاتا، گلے میں رسّا ڈال کر بازاروں میں کھینچا جاتا، تو ایسے میں سیّدنا ابوبکر صدیقؓ آپ کی مدد کو پہنچتے۔ مشرکین سے جھگڑا کرتے، خود بھی مشرکین کے تشدد کا نشانہ بنتے، لیکن نبیؐ کا ساتھ نہ چھوڑتے۔ سائے کی طرح ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے۔

لقب: نبوت کے بعد صدیقیت ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ پوری زندگی ہر لمحہ نبی مکرمؐ کے ساتھ رہے۔ بعثت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کھلی کتاب کی طرح آپؓ کے سامنے تھی۔ آپؓ کا معمول تھا کہ حضور اکرمؐ کی ہر بات اور ہر عمل پر فوراً ’’آمین‘‘ کہہ کر تصدیق کر دیا کرتے تھے۔ کفارِ مکّہ نے جب آپؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے واقعے کا ذکر کیا، تو آپؓ نے فرمایا کہ ’’اگر یہ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے، تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔‘‘ معراج سے واپسی پر ذی طویٰ کے مقام پر آپؐ نے فرمایا۔ ’’اے جبرائیل! میری قوم میری تصدیق نہیں کرے گی۔‘‘ جبرئیل امینؑ نے کہا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی تصدیق ابوبکرؓ کریں گے، وہ صدیقؓ ہیں۔‘‘

کاتبِ وحی: قرآن کریم کی حفاظت کے لیے حضور نبی کریمؐ نے دہرے وسائل سے کام لیا۔ ایک حفظِ قرآن اور دوسرے کتابت، یعنی لکھ کر محفوظ کر لینا۔ چناں چہ جیسے ہی وحی نازل ہوتی، آپؓ اسے صحابہؓ کو حفظ کروا دیتے اور اپنی نگرانی میں اس کی کتابت کروا کر تصدیق فرماتے۔ زمانہ جاہلیت میں عربوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج عام نہ تھا، لہٰذا ابتدائی زمانے میں جو اشخاص مسلمان ہوئے، ان میں لکھنے پڑھنے والے کم تھے۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہؓ کے ساتھ آپؓ کو بھی وحی کی کتابت کی ذمّے داری عطا فرمائی۔طبقات القراء لا بن الجزریؓ اور مناہل العرفان میں آپؓ کے کاتب وحی ہونے کی صراحت موجود ہے۔

تدوینِ قرآن: قرآنِ کریم کی تدوین سیّدنا ابوبکرؓ کا بڑا کارنامہ اور امّتِ مسلمہ پر احسانِ عظیم ہے۔ جنگِ یمامہ میں70سے زائد حفاظ و قراء شہید ہو گئے تھے، چناں چہ قرآن کو کتابی صورت میں یک جا کر کے محفوظ کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی۔ سیّدنا عمر فاروقؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مشورہ دیا کہ جلد از جلد اس کام کومکمل کیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت زید بن ثابت کو یہ ذمّے داری سونپی۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ ’’شروع میں تو مجھے تامّل رہا، لیکن پھر اللہ کی رضا سے قرآنی آیات کو تلاش کر کے جمع کرنے کا کام شروع کیا، جو مجھے مختلف لوگوں اور صحابہؓ سے اونٹ، بکریوں کے شانوں کی ہڈیوں، درخت کے پتّوں اور چمڑے کے ٹکڑوں پر لکھی ہوئی ملیں۔ مَیں نے یہ سب جمع کرکے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں پیش کردیں۔‘‘ ابویعلی، حضرت علیؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’قرآن شریف سے متعلق سب سے زیادہ اجر، حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ملے گا۔ کیوں کہ آپ ہی وہ شخص ہیں، جنہوں نے اولاً قرآن شریف کو کتابی صورت میں جمع کیا۔‘‘ امام ابن حزم نے لکھا کہ ’’حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں کوئی شہر ایسا نہ تھا، جہاں لوگوں کے پاس قرآن موجود نہ ہو۔‘‘

سخاوت و فیاضی: سیّدنا ابوبکر صدیقؓ تمام صحابہ کرام میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’ جتنا نفع مجھے ابوبکرؓ کے مال نے دیا، اتنا کسی کے مال نے نہیں دیا۔ میر ے اوپر کسی کا احسان نہیں رہا، سب کا اتار دیا،البتہ ابوبکرؓ کا میرے اوپر احسان اتنا بڑا ہے کہ اس کا بدل قیامت کے روز اللہ ہی عطا کرے گا۔‘‘ (ترمذی)۔ یہ حضرت ابو بکر صدیقؓ ہی تھے، جنہوں نے غزوۂ تبوک کے موقعے پر اپنے گھر کا پورا مال و اسباب لا کر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضورؐ نے پوچھا۔ ’’اےابوبکرؓ !اپنے اہل و عیال کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے؟‘‘ تو حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا۔’’ ان کے لیے اللہ اور اس کا رسولؐ ہی کافی ہیں۔‘‘

غلاموں کو آزاد کروانا: حضرت ابوبکر صدیقؓ صاحبِ ثروت تھے، اللہ نے مال و دولت سے خوب نوازا تھا۔ مجبور، بے کس غلاموں کو آزاد کروانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ حضرت بلالؓ پر ان کا مالک، امیہ بن خلف تپتی دھوپ میں گرم ریت پر لٹا کر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا تھا،آپؓ نے اسے منہ مانگی رقم دے کر حضرت بلال حبشیؓ کوآزاد کروایا۔اس کے علاوہ آپ نےدائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے سیکڑوں افراد کو آزاد کروایا، جن میں ضعیف، بوڑھی عورتیں، نوجوان اور کم عمر بچّے بھی شامل تھے۔

غزوات میں شرکت: بعثتِ نبوت سے لے کر وصال ِرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک، دن ہو یا رات، جنگ ہو یا امن۔ برے حالات ہوں یا مصائب و آلام کے کوہِ گراں، آپؓ ہر وقت اور ہر لمحہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے۔ آپؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی اور شجاعت و بہادری کے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ آسمانوں پر فرشتے بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ غزوۂ احد اور غزوۂ حنین میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم تنہا رہ گئے، لیکن اس نازک موقعے پر بھی سیّدنا ابوبکر صدیقؓ، حضورؐ کی حفاظت کے لیے ساتھ موجود تھے۔غزوۂ بدر میں آپؓ کے صاحب زادے، عبدالرحمٰن، مشرکین کے ساتھ جنگ میں شریک تھے۔ جب عبدالرحمٰن مسلمان ہوئے، تو اپنے والد سے عرض کیا۔ ’’اے ابا جان! آپ بدر کے روز کئی مرتبہ میرے تیر کی زد میں آئے، مگر میں نے اپنا ہاتھ روک لیا۔‘‘ آپؓ نے جواب دیا۔ ’’اے جانِ پدر! واللہ اگر تو میرے نشانے پر آ جاتا، تو میں کبھی بھی نشانہ خطا نہ کرتا۔‘‘ (ابنِ عساکر)۔

صحابہ میں سب سے افضل: امام نووی تحریر کرتے ہیں کہ’’ آپ علم و فضل، سخاوت و فیّاضی، ایثار و قربانی میں سب صحابہؓ سے افضل تھے۔‘‘ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ’’آپ سب صحابہ میں زیادہ فصیح و بلیغ خطیب تھے۔ صحابہ میں عاقل، کامل اور صاحبِ رائے تسلیم کیے جاتے تھے۔‘‘

رسول اللہؐ کے سب سے زیادہ محبوب: حضرت عمرو بن العاصؓ کہتے ہیں کہ’’ میں نے رسول اللہؐ سے پوچھا۔ ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’عائشہؓ ۔‘‘ پھر میں نے پوچھا’’ مَردوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟‘‘ حضور نے فرمایا۔ ’’عائشہ کے والد ابوبکرؓ۔‘‘ (بخاری)۔

نائبِ رسول: رسول اللہؐ نے صدیق اکبرؓ کو اپنی زندگی ہی میں اپنا نائب بنا دیا تھا۔ نماز میں بھی اور حج میں بھی۔ 9ہجری کو اسلام کے پہلے حج کے موقعے پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو حاجیوں کا امیر بنا کر مکّہ روانہ کیا۔ وصال سے قبل مرض الموت میں شدت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ’’ ابوبکرؓ سے کہو نماز پڑھائیں۔‘‘ سیّدہ عائشہؓ نے کہا۔ ’’یارسول اللہؓ! میرے والد بہت رقیق القلب ہیں، وہ آپ کی جگہ نماز نہ پڑھا سکیں گے۔‘‘ لیکن چوں کہ حکمِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھا، چناں چہ سیّدنا صدیق اکبرؓ نے پہلی نماز، عشاء کی پڑھائی، پھر وصال کی صبح تک17نمازوں کی امامت کرائی۔

جنّت کی بشارت: رسول اللہؓ نے مختلف مواقع پر صدیق اکبرؓ کو جنّت کی بشارت دی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ’’حضورؐ نے فرمایا، ’’اے ابوبکرؓ !میری امّت میں سے سب سے پہلے تم جنّت میں داخل ہو گے۔‘‘ (ابو دائود)۔حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا، ’’تم غار میں میرے ساتھی رہے، حوضِ کوثر پر بھی میرے ساتھ رہو گے۔‘‘ (بخاری)۔

مرتد اور منکرِ زکوٰۃ سے جہاد: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کچھ لوگ زکوٰۃ سے منکر ہو گئے اور بہت سے نبوت کے جھوٹے دعوے دار پیدا ہو گئے تھے، آپؓ نے ان سب کے خلاف جہاد کا حکم جاری فرمایا۔ سب سے زکوٰۃ وصول کی اور فتنوں کو ختم کیا۔

عظیم الشان فتوحات: صدیق اکبرؓ کے مختصر دورِ خلافت میں مسلمانوں کو عظیم الشان فتوحات حاصل ہوئیں۔ اسلامی سلطنت میں75800مربع میل کا اضافہ ہوا، اسے اگر ان کی خلافت کے ہر دن سے تقسیم کر دیا جائے، تو ہر دن یعنی چوبیس گھنٹے میں چورانوے (94)میل روزانہ اسلامی مملکت میں اضافہ ہوتا رہا، جب کہ ان دنوں فوج کی نقل و حرکت کا ذریعہ اونٹوں اور گھوڑوں کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔

وصال: 8 جمادی الثانی 13 ہجری کو بیمار ہوئے، طبیعت زیادہ بگڑی، تو صحابہؓ کے مشورے سے حضرت عمر فاروقؓ کو اپنا جاں نشین مقرر فرمایا۔ بروز پیر 22جمادی الثانی13 ہجری بہ مطابق 22اگست634 عیسوی کو 15روز بیمار رہنے کے بعد61 سال کی عمر میں رحلت فرما گئے۔ سیّدنا عمر فاروقؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی، حجرۂ عائشہ میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں آرام فرما ہوئے۔  


 حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ مسجدِ نبویؐ میں تشریف فرما تھے۔ آپس میں محوِ گفتگو صحابۂ کرامؓ میں سے کچھ کی آوازیں بے خیالی میں معمول سے اونچی ہو گئیں۔ یہ سب اَن جانے میں ہوا، ورنہ صحابۂ کرامؓ تو حضور ﷺ کے ادب و احترام کا بہت خیال رکھتے تھے، لیکن ربّ ِ ذوالجلال کو اپنے محبوب رسولؐ کی موجودگی میں آواز کی یہ بے احتیاطی بھی پسند نہ آئی اور جبرئیل امینؑ، اللہ کا حکم لے کر حاضر ہو گئے ’’اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو‘‘ (سورۃ الحجرات)۔اس آیت کے نزول پر صحابۂ کرامؓ، اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے خوف سے مزید محتاط ہو گئے۔ حضرت ثابت بن قیسؓ کی آواز قدرتی طور پر بھاری تھی اور بلند بھی، چناں چہ اُنہوں نے خود کو گھر میں گوشہ نشین کر لیا اورباہر نکلنا بند کر دیا۔ تنہائی میں اتنا روتے کہ داڑھی آنسوئوں سے تر ہو جاتی، حتیٰ کہ کھانا پینا بھی تَرک کر دیا۔ حضور نبی کریم ﷺ اپنے صحابہؓ کے حال احوال سے باخبر رہا کرتے تھے، سو، جب کئی دن گزر گئے اور حضرت ثابت بن قیسؓ نظر نہ آئے، تو آپؐ نے حضرت سعد بن معاذؓ سے دریافت فرمایا’’ثابتؓ کا کیا حال ہے؟‘‘، حضرت سعدؓ نے جواباً عرض کیا’’یارسول اللہؐ! وہ میرے پڑوسی ہیں، مگر مجھے اُن کی بیماری وغیرہ کا تو کوئی علم نہیں ، البتہ ابھی جا کر اُن کی کیفیت معلوم کر کے آپؐ کو مطلع کرتا ہوں۔‘‘ حضرت سعدؓ جب اُن کے گھر گئے، تو وہ سر جھکائے بیٹھے تھے۔ حضرت سعدؓ نے پوچھا’’ اے ثابتؓ! کیا حال ہے؟‘‘ جس پر اُنھوں نے جواب دیا’’بُرا حال ہے۔ (میری آواز سب سے بلند اور بھاری ہے) چناں چہ بعض اوقات (غیر ارادی طور پر) میری آواز، رسول اللہؐ کی آواز سے بلند ہو جاتی تھی، لہٰذا (اس آیت کے نزول کے بعد) اب میرے سب اعمال ضائع ہو گئے اور اسی غم نے مجھے نڈھال کر رکھا ہے۔‘‘ حضرت سعدؓ نے واپس جا کر نبی کریم ﷺ کو مطلع کیا، تو آپؐ نے فرمایا’’تم اُن کے پاس جائو اور اُن سے کہو کہ وہ جنّتی ہیں‘‘(بخاری)۔


یہ ہے اللہ کے رسولؐ کی عظمت کہ صحابۂ کرامؓ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ نبیؐ کی مجلس میں بات کرو، تو ادب اور قرینے کے ساتھ، دھیمے لہجے میں کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ذرا سی بے احتیاطی عُمر بھر کی کمائی ضائع کر دے اور یہی حکم بعد کے لوگوں کے لیے بھی ہے کہ جس مجلس میں محبوبِ خدا ؐ کا ذکر ہو، وہاں ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ جو دل اللہ کے رسولؐ کے ادب اور احترام سے خالی ہے، وہ دراصل تقویٰ سے خالی ہے۔ اس کے ساتھ ہی معاشرے کے بزرگ اور عُمر رسیدہ افراد کے ساتھ بھی گفتگو کے دَوران ادب، آداب کا پورا خیال رکھتے ہوئے مدہم آواز میں بات کرنی چاہیے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا’’جب اپنے والدین سے بات کرو، تو ایسے کرو، جیسے غلام اپنے آقا سے کرتا ہے۔‘‘

سلسلۂ نسب

آپؓ کا سلسلۂ نسب یہ ہے۔ ثابت بن قیس بن شماس بن زہیر بن مالک بن امرء القیس بن مالک بن اعز بن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج اکبر۔

قبولِ اسلام

حضرت ثابت بن قیسؓ مدینہ منورہ کے سب سے معزّز، مشہور اور بڑے قبیلے، خزرج کے سرداروں میں سے تھے۔ ذہانت، فطانت، فہم و فراست، علم و حکمت، شیریں کلامی، حاضر جوابی، زورِ خطابت میں اُن کا ثانی نہیں تھا۔ بھاری، بلند، بارُعب آواز اور خُوب صورت، پُراثر تقاریر کا فن تحفۂ خداوندی تھا، جس کا بھرپور استعمال کرتے۔نیز، وہ مدینے میں اوّلین ایمان لانے والوں میں سے ایک تھے۔ بیعتِ عقبہ اولیٰ کے موقعے پر آنحضرتؐ نے ایک نوجوان صحابی، حضرت مصعب بن عمیرؓ کو یثرب میں مسلمانوں کا پہلا سفیر اور اسلام کے مبلّغ کے طور پر بھیجا، جنھوں نے نہایت جوش و خروش سے اسلام کی تبلیغ کی۔ وہ جلد ہی اپنے ایمان افروز خطابات اور مکارمِ اخلاق کی وجہ سے مبلّغ، معلّم اور استاد کی حیثیت سے مشہور ہو گئے۔ حضرت ثابت بن قیسؓ اُن کی محفلوں میں بیٹھتے اور قرآنِ کریم کی آیاتِ کریمہ سُن کر اُن پر غوروخوض کرتے، پھر ایک دن اُنہوں نے حضرت مصعبؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔

مرحبا! اے تاج دارِ مدینہؐ

امام الانبیاءؐ، تاج دارِ مدینہؐ، نبیٔ رحمتؐ، حضور رسالتِ مآبﷺ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے، تو اہلِ مدینہ شہر سے باہر آپؐ کے استقبال کے لیے صف بستہ تھے۔ اہلِ انصار کی بچّیاں بڑے ذوق و شوق، احترام و عقیدت کے ساتھ خُوب صورت اشعار پڑھ رہی تھیں۔ مدینے کی فضا خوشبوئوں سے مہک رہی تھی۔ قبیلہ خزرج کے گھڑ سواروں کا ایک بہت بڑا دستہ، حضرت ثابت بن قیس ؓکی زیرِ قیادت دنیا کی سب سے عظیم المرتبت شخصیت کے فقیدالمثال استقبال کے لیے چاق چوبند کھڑا تھا۔ اللہ کے رسولؐ اپنے یارِ غار، حضرت صدیقِ اکبرؓ کے ساتھ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے، تو حضرت ثابت بن قیسؓ نے اہلِ مدینہ کی جانب سے خوش آمدید کہتے ہوئے ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیا، جس کے اختتام پر اُنہوں نے کہا’’اے اللہ کے سچّے رسولؐ! ہمارے والدین اور ہم آپؐ پر قربان، ہم اہلِ مدینہ، اللہ کو حاضر ناظر جان کر آپؐ سے عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنی جان و مال سے زیادہ آپؐ کی اور آپؐ کے رفقاء کی حفاظت کریں گے اور تبلیغِ اسلام میں آپؐ کے معاون و مددگار بنیں گے۔ کیا اس کے عوض اللہ ہمیں کسی انعام سے نوازیں گے؟ اللہ کے محبوبؐ، نبیوں کے امامؐ، خلقِ مجسمؐ، خاتم المرسلینؐ، رحمت اللعالمینؐ کے رُخِ انور پر ایک رُوح پرور مسکراہٹ آئی اور آپؐ نے جس انعام کا اعلان کیا، وہ اہلِ ایمان کے لیے وہ تحفۂ عظیم ہے کہ جس کے حصول کی خواہش اور آرزو ہر مسلمان کے لبوں پر دعائوں کی صورت مچلتی رہتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’جنّت‘‘۔ اس اعلان نے اہلِ مدینہ کے چہروں کو خوشی سے منور کر دیا اور وہ ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے۔

خطیبِ رسول اللہؐ

حضرت ثابت بن قیسؓ کو اللہ نے تقریر و تحریر کی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا اور پھر آواز بھی بارُعب، گونج دار اور سپاٹ تھی۔ جب بات کرتے، تو اندازِ تکلّم، بلندیٔ آواز اور مدلّل گفتگو مخاطب کو بات سُننے پر مجبور کر دیتی۔ خطاب کرتے، تو تقریر کا جادو سر چڑھ کر بولتا اور الفاظ کی روانی، جملوں کی ترتیب و تشبیہات، آواز کا اُتار چڑھائو اس بہتے پُرزور دریا کی مانند ہوتا، جو اپنے سامنے آئی ہر چیز بہا لے جاتا ہے۔ پھر سُننے والا خطابت کے طلسم میں محو ہو کر جملوں کے سمندر میں ڈوبتا چلا جاتا اور تقریر کے اختتام پر حضرت ثابت بن قیسؓ کا معتقد ہو جاتا۔ اہلِ مدینہ کی ہر تقریر، ہر وعظ اور ہر خطاب حضرت ثابتؓ سے شروع ہوتا اور ان ہی پر اختتام ہوتا۔ شروع میں اہلِ مدینہ نے اُنہیں’’خطیبِ انصار‘‘ کا خطاب دیا تھا، لیکن جب اُنہوں نے اپنے آپ کو تبلیغِ دین اور خدمتِ نبویؐ کے لیے وقف کر دیا، تو پھر وہ’’خطیبِ رسول ا للہ ؐ ‘‘ کے لقب سے یاد کیے جانے لگے۔

کاتبِ وحی

حضرت ثابت بن قیسؓ مدینہ منورہ کے پڑھے لکھے لوگوں میں شامل تھے اور اُنھیں فنِ تقریر کے علاوہ تحریر میں بھی کمال حاصل تھا۔ خوش خط، پختہ، صاف اور روشن تحریر اُن کی خاص پہچان تھی۔ رسول اللہؐ نے اُنہیں’’ کاتبِ وحی‘‘ کے منصب پر فائز فرمایا، تو وہ خُوب صُورت انداز میں آیاتِ مبارکہ کی کتابت کرنے لگے۔

حضرت ثابتؓ کی فضیلت

ہجرت کے آٹھویں سال فتح ِمکہ کے بعد رسول اللہؐ واپس مدینہ منورہ آئے، تو پورے عرب سے لوگ وفود کی صورت اسلام قبول کرنے کے لیے جُوق در جُوق آنے لگے، اُن ہی میں یمامہ سے بنو حنیفہ کا آنے والا وفد بھی شامل تھا، جس کی قیادت مسیلمہ کذّاب کر رہا تھا۔ اُس وفد نے مدینے میں15روز قیام کیا۔ وفد کے تمام لوگ روزانہ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور حضرت ابی بن کعب ؓسے قرآنِ کریم کی تعلیم لیتے، لیکن مسیلمہ مال و اسباب کی حفاظت کے بہانے اپنی رہائش گاہ ہی پر رہتا۔ اُس نے بہ ظاہر تو اسلام قبول کر لیا تھا، لیکن وہ بڑا کینہ پرور، منافق اور متکبّر انسان تھا۔ اللہ کے رسولؐ کی سادگی، مسلمانوں کی عاجزی و انکساری اُسے پسند نہ آئی۔ اُس کے ذہن میں تو مسلمانوں کے بادشاہ کا تصوّر قیصر و کسریٰ جیسا تھا، چناں چہ اُس نے اسلام کو دِل سے قبول نہ کیا۔ ایک دن آنحضرتؐ نے حضرت ثابت بن قیسؓ سے فرمایا کہ آج بنو حنیفہ کے وفد سے ملاقات کریں گے، پھر آپؐ اُن کی رہائش گاہ تشریف لے گئے۔ مسیلمہ بن حبیب کذّاب، آپؐ سے مختلف سوالات پوچھتا رہا۔ آخر میں آنحضرتؐ نے فرمایا ’’اے مسیلمہ! یہ ثابت بن قیسؓ ہیں، جو میری طرف سے تجھ کو سوالوں کے جواب دیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر آپؐ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو وہاں چھوڑا اور خود تشریف لے گئے(بخاری، مسلم)۔

حضرت ثابتؓ کا ولولہ انگیز خطاب

مسیلمہ، مدینہ منورہ سے اپنے وطن یمامہ پہنچا اور نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ یہاں تک کہ اُس نے آنحضرتؐ کو خط لکھا کہ’’نبوت میں آپ اور میں دونوں شریک ہیں، لہٰذا نصف مُلک قریش کا اور نصف میرا رہے گا۔‘‘ رسول اللہؐ نے اس کا جواب لکھوا کر بنو حنیفہ کے ایک شخص رجال بن عنفوہ کے ذریعے اُس تک پہنچوایا(تاریخِ اسلام، اکبر شاہ نجیب آبادی)۔آپؐ کی رحلت کے بعد سیّدنا صدیقِ اکبرؓ نے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے عکرمہؓ بن ابی جہل کو روانہ کیا، لیکن وہ شکست کھا گئے۔ اس کے بعد آپؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو13ہزار کا لشکر دے کر روانہ کیا، جس میں حضرت ثابت بن قیسؓ بھی شامل تھے۔ مسیلمہ کذّاب نے یمامہ میں40ہزار سے زیادہ جنگجو جمع کر رکھے تھے۔ جنگ کے دَوران ایک لمحہ وہ بھی آیا کہ جب مسیلمہ کے جنگجو، مسلمانوں پر بھاری پڑ گئے، ایسے میں حضرت ثابت بن قیسؓ نے ایک پُرجوش اور ولولہ انگیز خطاب کرتے ہوئے مجاہدین کا لہو گرما دیا، جس سے اُن کے حوصلے بلند ہو گئے۔

شہادتِ مردِ مومن

دوسرے دن کا سورج طلوع ہوا، تو یمامہ کے آسمانوں نے عزم و ہمّت اور جذبۂ جہاد کا ایک ایمان افروز منظر دیکھا، جس نے جنگ کا پانسا ہی پلٹ دیا۔ حضرت ثابت بن قیسؓ نے سر سے کفن باندھا، کچھ اور صحابہؓ کو ساتھ لیا اور بپھرے شیر کی طرح دشمنوں پر حملہ آور ہو گئے۔ حضرت ثابتؓ کے جوش و جذبے کا یہ عالم تھا کہ وہ دشمنوں کی لاشوں کا ڈھیر لگاتے تنِ تنہا اُن کی صفوں کو چیرتے دُور تک نکل گئے۔ یہاں تک کہ دشمنوں نے اُنہیں چاروں طرف سے گھیر کر شہید کر دیا۔ حضرت ثابت بن قیسؓ کی اس شہادت نے مجاہدین میں شوقِ شہادت کو بیدار کر دیا اور پھر اُنہوں نے اللہ کی تائید و نصرت کے سائے میں متحد ہو کر نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کی فوج پر بھرپور حملہ کر دیا۔ اللہ نے فتح نصیب فرمائی۔ وحشی (حضرت حمزہؓ کے قاتل) نے اپنا نیزہ پھینکا، جو مسیلمہ کذّاب کی زرہ کو چیرتا ہوا اس کے جسم کے آر پار ہو گیا اور وہ جہنم رسید ہو گیا۔ جنگِ یمامہ ماہ ذی الحجہ11ہجری میں ہوئی (تاریخِ اسلام، اکبر شاہ نجیب آبادی)۔

حضرت ثابتؓ کی خواب میں وصیّت

حضرت ثابتؓ لڑائی کے وقت ایک نہایت نفیس اور عمدہ زِرہ زیبِ تن کیے ہوئے تھے۔ جب شہید ہو گئے، تو کسی نے اُن کے جسم سے زِرہ اُتار کر اپنے خیمے میں چُھپا لی۔ شہادت کی دوسری رات، ایک شخص کے خواب میں حضرت ثابتؓ آئے اور فرمایا’’مَیں ثابت ؓبن قیس ہوں، کیا تم نے مجھے پہچان لیا؟‘‘ وہ بولا’’ہاں۔‘‘ حضرت ثابتؓ نے فرمایا’’مَیں تجھے ایک وصیّت کر رہا ہوں، لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ تُو اسے خواب جان کر خاطر میں نہ لائے۔ جب کل میں شہید کر دیا گیا، تو فلاں شخص میرے پاس سے گزرا اور میری زِرہ اُتار کر اپنے خیمے میں لے گیا، اس کا خیمہ فلاں سمت میں واقع ہے۔ اُس شخص نے میری زِرہ اپنی دیگ میں رکھ کر اُس کے اوپر اونٹ کی کوہان پر رکھے جانے والے لکڑے رکھ دیے ہیں۔ تم خالد بن ولیدؓ کے پاس جائو اور اُن سے کہو کہ اس شخص سے زِرہ حاصل کر لیں۔ مَیں تمہیں ایک اور نصیحت کرتا ہوں اور دوبارہ متنبّہ کرتا ہوں کہ اسے خواب سمجھ کر ضائع نہ کرنا۔ خالدؓسے کہنا کہ جب تم مدینہ منورہ پہنچ کر خلیفۃ المسلمین سے ملو، تو اُن سے کہنا کہ ثابت بن قیسؓ پر اتنا قرض ہے اور فلاں، فلاں میرے غلام ہیں، لہٰذا میرے قرض کی ادائی کروا دیں اور میرے غلام آزاد کر دیں۔‘‘ وہ شخص نیند سے بیدار ہوا اور حضرت خالد بن ولیدؓ کو، جو کچھ دیکھا اور سُنا تھا، کہہ سُنایا۔ تمام باتیں سُن لینے کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ نے ایک صحابی کو زِرہ لانے کے لیے بھیجا اور وہ زِرہ نشان دہی کی ہوئی جگہ پر مل گئی۔جب حضرت خالدؓ مدینہ منورہ لَوٹ کر آئے، تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کو تمام حالات کہہ سُنائے اور حضرت ثابت بن قیسؓ کی خواب میں کی گئی وصیّت سے بھی آگاہ کیا، جس پر صدیق اکبرؓ نے وصیّت پوری کر دی۔ اللہ، حضرت ثابت بن قیسؓ سے راضی ہوااور وہ اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے اُن کا ٹھکانہ اعلیٰ علیین میں بنایا (نجومِ رسالت، ڈاکٹر عبدالرحمٰن پاشا)۔


بعض مرتبہ یہ سوال اُٹھتا ہے کہ تعویذ کا کیا حکم ہے؟ اور دم و تعویذ میں کیا فرق ہے؟ سو یاد رکھئے کہ ان میں وہی فرق ہے جو کلامِ الٰہی اور کتاب اللہ میں ہے۔ کتاب اللہ کو لکھا جاتا ہے اور کلام اللہ کو پڑھا جاتا ہے۔ جس طرح ہم کلام اللہ کی عزت کرتے ہیں، ناپاک ہونے کی حالت میں اُسے اپنی زبان پر نہیں لاتے، قرآن کریم کتاب کی صورت میں ہے تو اُسے چھو بھی نہیں سکتے۔ اگر یہ لکھا ہوا قرآن واجب الاحترام نہ ہوتا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ جب دشمن کے علاقے میں جاؤتو لکھا ہوا قرآن (مصحف) وہاں نہ لے جاؤ، کہیں دشمن کے ہاتھ لگے اور وہ اس کی بےاحترامی کریں۔ 
علاج بالقرآن دم سے ہو سکتا ہے تو لکھے ہوئے پاک اور طیب کلمات سے کیوں نہیں ہو سکتا؟! وہاں بھی اس میں تاثیر اذنِ الٰہی سے آتی ہے،اور تعویذ میں بھی حروف و کلمات مؤثر بالذات نہیں، اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے ،جب وہ چاہے۔ رہا پاک کلمات کو حروف میں لکھنا تو اس میں ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ان کلمات اور آیات پر دلالتِ لفظی ہو تو یہ وہ صورت ہے جو ہمیں عیاناً (کھلی ہوئی) نظر آتی ہے اور دلالتِ وضعی ہو تو یہ ان کلمات کے حروفِ ابجد ہیں اور ان میں بھی اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی آتا ہے، یہ حروف بالذات کوئی اثر نہیں رکھتے ۔

تعویذ میں روحانی اثرات 
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص اپنی نیند میں گھبرا جائے اُسے چاہیے کہ وہ یہ کلمات پڑھے : ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ۔‘‘ تو وہ خواب اُسے ہر گز نقصان نہ دے گا ، آپؓ کے پوتے کہتے ہیں کہ: حضرت عبد اللہؓ کی اولاد میں جو بالغ ہو جاتا تو آپ اُسے یہ کلمات سکھادیتے ، اور جو نابالغ ہوتا تو آپ اس کے گلے میں یہ دعا لٹکا دیتے تھے :
’’و کان عبد اللہ بن عمروؓ یعلمھا من بلغ من ولدہٖ و من لم یبلغ منھم کتبھا في صک ، ثم علقھا في عنقہٖ۔‘‘ (رواہ ابو داؤد و الترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ، ص: ۲۱۷) 
اس سے معلوم ہوا کہ کلام پاک کا پڑھنا اور کلماتِ مبارکہ تعویذ لکھ کر بنانا اور اُسے بدن سے باندھنا دونوں عمل جائز ہیں۔ اگر یہ عمل ناجائز ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابیؓ کبھی بھی اپنے بچوں کے گلے میں تعویذ نہ ڈالتے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ تعویذات کے اثر کے قائل تھے ، جبھی تو آپ نے تعویذ لکھا اور اسے اپنے بچوں کے گلے میں ڈالا۔ یہ کلمات کوئی روحانی تاثیر نہ دیتے تو آپ ہی بتلائیں کیا صحابی رسول ایسا عمل کرتے ؟ 

تاثیر میں اذنِ الٰہی کو شرط جاننا ضروری ہے 
۱: دسویں صدی کے مجدد حضرت ملا علی قاری ؒ (متوفی:۱۰۱۴ھ) اس حدیث پر لکھتے ہیں کہ : 
’’و ھٰذا أصل في تعلیق التعویذات التي فیھا أسماء اللہ تعالٰی۔‘‘ ( مرقات ،ج: ۵، ص: ۲۳۶) 
ا س سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تعویذات جو اسمائے الٰہیہ اور کلماتِ مبارکہ پر مشتمل ہوں ، اپنے اندر ایک روحانی ا ثر رکھتے ہیں اور اس سے مریضوں کا علاج کرنا علاج بالقرآن ہی ہے۔ ہاں! وہ تعویذات جو شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہوں‘ ان کی قطعاً اجازت نہیں۔ جن روایات میں تمائم اور رُقٰی کو شرک کہا گیا ہے، اس سے مراد اسی قسم کے دم اور تعویذ ہیں، جن میں شرکیہ الفاظ و اعمال کا دخل پایا جائے۔ ’’التمائم‘‘ میں ’’ الف لام‘‘ اسی کے لیے ہے ، اور جو دم اور تعویذ اس سے خالی ہوں، ان کا استعمال جائز ہے اور اس کے روحانی اثرات ثابت ہیں۔ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم دورِ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ،ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : 
’’أعرضوا عَلَیَّ رقاکم ، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک۔‘‘ (رواہ مسلم ، مشکوٰۃ، ص: ۳۸۸) 
اس سے پتہ چلتا ہے کہ دم اور تعویذ میں اصل وجہِ منع کفر و شرک ہے، جب یہ نہ ہو تو وہ دم اور تعویذ جائز ہے، چنانچہ ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ’’ مجموعۃ الفتاویٰ‘‘ میں تعویذ کے جواز پر ایک مستقل فصل ’’ فصل : في جواز أن یکتب لمصاب و غیرہ ۔۔۔ الخ‘‘ باندھ کر اس کے تحت لکھتے ہیں:
’’و یجوز أن یکتب للمصاب و غیرہ من المرضٰی شیئًا من کتاب اللہ و ذکرہ بالمداد المباح ، ویغسل و یسقٰی ، کما نص علٰی ذلک أحمد و غیرہ۔‘‘  (مجموعۃ الفتاویٰ، ج: ۱۹، ص: ۳۶، ط: مکتبۃ العبیکان ) 
کسی مریض کے لیے کتاب اللہ میں کچھ لکھ کر دینا یا اس کو دھو کر پانی میں گھول کر پلانا، یہ دونوں جائز ہیں۔حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ ’’ کفایت المفتی‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ : 
’’ قرآن شریف کی آیت تعویذ میں لکھنا جائز ہے۔‘‘ (کفایت المفتی ، الحظر والاباحۃ ، الفصل الثانی فیما یتعلق بالعوذۃ، ج: ۱۲، ص: ۴۸۲، ط: فاروقیہ) 
 حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب ’’ تکملۃ فتح الملہم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : 
 ’’ ۔۔۔۔۔۔ فتبین بھٰذا أن التمائم المحرمۃ لا علاقۃ لھا بالتعاویذ المکتوبۃ المشتملۃ علٰی أٰیات من القرآن أو شيء من الذکر ؛ فإنھا مباحۃ عند جماھیر فقھاء الأمۃ ، بل استحبھا بعض العلماء إذا کانت بأذکار مأثورۃ ، کما نقل عنھم الشوکاني في النیل ، واللہ أعلم۔‘‘ (تکملہ فتح الملہم، کتاب الطب ، باب رقیۃ المریض، کتابۃ التعویذات، ج: ۴، ص: ۳۱۸، ط: دار العلوم، کراچی ) 
وہ تعویذات جن میں اللہ کے کلام اور مسنون دعاؤں کا ذکر ہو تو وہ قطعاً حرام نہیں ، ان کاحرمت سے کوئی تعلق نہیں، ایسے تعویذات تو عام جمہور علماء کے نزدیک جائز ہیں، بلکہ بعض علماء نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے ، علامہ شوکانی ؒ نے ان سے یہ ’’نیل الأوطار‘‘ میں نقل بھی کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ’’ فتح الباري‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : 
’’أجمع العلماء علٰی جواز الرقیٰ عند اجتماع ثلاثۃ شروط: أن یکون بکلام اللہ أو بأسمائہ و صفاتہ و باللسان العربي أو بما یعرف معناہ من غیرہ و أن یعتقد أن الرقیۃ لا تؤثر بذاتھا بل بذات اللہ تعالٰی۔‘‘( فتح الباری ،ج: ۱۰ ، ص: ۱۹۵ ، ط: دار الفکر بیروت ) 
’’علماء نے دم اور تعویذ کے جواز پر اجماع کیاہے ، جب ان میں درج ذیل شرائط پائی جائیں: 
۱:- وہ اللہ کے کلام ،اسماء یا اس کی صفات پر مشتمل ہو ں۔ 
۲ :- وہ عربی زبان یاپھر ایسی زبان میں ہوں جس کا معنی سمجھ میں آتا ہو ۔ 
۳ :- یہ یقین رکھنا کہ اس میں بذاتِ خود کوئی اثر نہیں ، بلکہ مؤثر حقیقی اللہ جل شانہ کی ذات ہے۔ 
علامہ شامیؒ بھی اپنی کتاب ’’رد المحتار‘‘ میں تعویذ کا جواز نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : 
’’و إنما تکرہ العوذۃ اذا کانت بغیر لسان العرب و لا یدری ما ھو ، ولعلہ یدخلہ سحر أو کفر أو غیر ذلک و أما ما کان من القرآن أو شیء من الدعوات، فلا بأس بہ۔‘‘ ( رد المحتار ، ج: ۶، ص: ۳۶۳) 
’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے کہ : 
’’ و اختلف في الاسترقاء بالقرآن نحو : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أن یکتب في ورق و یعلق أو یکتب في طست ،فیغسل و یسقیٰ المریض ،فأباحہ عطاء و مجاھد و أبو قلابۃ و کرھہ النخعي و البصري ،کذا في ’’ خزانۃ الفتاویٰ‘‘ قد ثبت ذلک في المشاھیر من غیر إنکار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔و لابأس بتعلیق التعویذ ۔۔الخ۔‘‘ (الفتاوی الہندیۃ، الباب الثامن عشر فی التداوي ، ج: ۵، ص؛۳۵۶ ، ط: دار الفکر ) 
’’قرآنی آیات کے ذریعہ دم میں علماء نے اختلاف کیا ہے، مثلاً : ......کسی کاغذ پر قرآن کی آیت لکھ کر مریض کے جسم پر باندھ لیا جائے ، یا کسی برتن میں آیات لکھ کر دھویا جائے اور مریض کو پلایا جائے ، تو عطاءؒ ، مجاہدؒ اور ابو قلابہؒ اس کو جائز سمجھتے ہیں اور امام نخعیؒ اور بصریؒ اس کو مکروہ سمجھتے ہیں ، لیکن مشہور کتابوں میں اس کے جواز پر کوئی نکیر وارد نہیں ہوئی ہے...... آگے لکھتے ہیں کہ تعویذ کے لٹکانے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
ابن القیم الجوزیۃؒ اپنی کتاب ’’ زاد المعاد‘‘ میں لکھتے ہیں : 
’’قال المروزي : و قرأ علیٰ أبي عبد اللہ وأنا أسمع أبو المنذر عمرو بن مجمع ، حدثنا یونس بن حبان ، قال : سألت أبا جعفر محمد بن علي أن أعلق التعویذ ، فقال : إن کان من کتاب اللہ أو من کلام عن نبي اللہ فعلقہ و استشف بہ ما استطعت۔‘‘ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ، کتاب عسر الولادۃ، ج:۴، ص: ۳۳۷، ط: مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت ۔ کذا فی الطب النبوی لابن القیم الجوزیۃ، حرف الکاف ، ج: ۱ ،ص: ۳۷۰، ط: دار الہلال، بیروت ) 
’’راوی کہتا ہے کہ میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے تعویذ باندھنے کے بارے میں دریافت کیا کہ اس کا کیا حکم ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :کہ اگر وہ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر مشتمل ہو تو اس کو باندھ لیا کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ‘‘ 
تفسیر ’’روح البیان‘‘ میں ہے کہ : 
’’وأما تعلیق التعویذ و ھو الدعاء المجرب أو الآیۃ المجربۃ أو بعض أسماء اللہ تعالٰی لدفع البلاء ، فلا بأس بہٖ و لکن ینزعہ عند الخلاء و الجماع۔‘‘ (روح البیان ، سورۃ یوسف ، آیۃ : ۶۸، ج: ۴، ص:۲۹۵، ط: دار الفکر ،بیروت ) 
’’تعویذ اگر مجرب دعا ، مجرب آیت یا اللہ کے اسماء پر مشتمل ہو ، اور کسی مصیبت یا بیماری کے دفعیہ کے غرض سے لٹکایا ہو تو یہ جائز ہے ، لیکن جماع اور بیت الخلاء جانے کے وقت نکالے گا ۔ ‘‘
’’ تفسیر قرطبی‘‘ میں ہے کہ : 
’’و سئل ابن المسیب عن التعویذ أیعلق ؟ قال : إذا کان في قصبۃ أو رقعۃ یحرز، فلابأس بہٖ ۔ و ھٰذا علیٰ أن المکتوب قرآن ۔ وعن الضحاک أنہ لم یکن یری بأسا أن یعلق الرجل الشيء من کتاب اللہ إذا و ضعہ عند الجماع و عند الغائط ، و رخص أبو جعفر محمد بن علي في التعویذ یعلق علی الصبیان ، وکان ابن سیرین لا یری بأسا بالشيء من القرآن یعلقہ الإنسان۔‘‘ (تفسیر قرطبی، سورۃ الاسراء: ۸۲ ، ج:۱۰ ، ص:۳۲۰،ط: دار المعرفۃ ) 
سعید ابن المسیب ؒ ،ضحاک اور ابن سیرین جیسے اکابر علماء اس کے جواز کے قائل تھے ۔ 
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ لکھتے ہیں کہ :
 ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآنی آیات کا تعویذ جائز ہے، جبکہ غلط مقاصد کے لیے نہ کیاگیا ہو ، حدیث میں جن ٹونوں ، ٹوٹکوں کو شرک فرمایا گیا ہے، ان سے زمانۂ جاہلیت میں رائج شدہ ٹونے اور ٹوٹکے مراد ہیں، جن میں مشرکانہ الفاظ پائے جاتے تھے، اور جنات وغیرہ سے استعانت حاصل کی جاتی تھی، قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ سے ثابت ہے اور بزرگانِ دین کے معمولات میں شامل ہے۔‘‘ ( آپ کے مسائل اور ان کا حل، تعویذ گنڈے اور جادو، ج: ۲، ص: ۴۹۹، ط: مکتبہ لدھیانوی) 
علامہ شوکانی ؒ ابن ارسلانؒ سے نقل کرتے ہیں کہ : 
’’قال ابن أرسلان ،فالظاہر أن ھٰذا جائز لا أعرف الاٰن ما یمنعہ في الشرع۔‘‘ (فتاویٰ اہل حدیث، ج: ۱ ،ص: ۱۹۳ ) 
’’ابن ارسلان کہتے ہیں کہ ظاہر یہی ہے کہ یہ جائز ہیں، شریعت میں اس کے منع کی کوئی دلیل میں نہیں جانتا۔‘‘
 شفاء بنت عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں ام المؤ منین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکے پاس بیٹھی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے مجھے کہا : 
’’ألا تعلمین ھٰذہ رقیۃ النملۃ کما علمتھا الکتابۃ۔‘‘ (مسند احمد ج: ۱۷ ، ص: ۱۷۹ ،مبوب ) 
’’اے شفاء! کیا تو انھیں ( یعنی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو) نملہ کا دم نہیں سکھادیتی، جیسا کہ تو نے انھیں لکھنا سکھادیا ہے؟ ۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ دم اور تعویذ جس میں کفر و شرک اور غیر معروف الفاظ نہ ہوں اور الفاظ میں ذاتی تاثیر نہ سمجھی جائے ، اس کے منع پر کوئی دلیل وارد نہیں ۔شیخ احمد عبد الرحمٰن البنا ؒ لکھتے ہیں کہ یہ ہر گز ممنوع نہیں ، بلکہ سنت ہے:
’’فلا نھيَ فیہ ، بل ھو السنۃ۔‘‘(ایضاًص: ۱۷۷) 
نواب صدیق حسن خانؒ نے ’’ الدین الخالص‘‘ میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے ، اور انہوں نے بھی دم اور تعویذ کو جائز قرار دیا ہے، البتہ ان سے پرہیز کرنے کو افضل کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کو ابرار میں لانا ہے جو اسباب اختیار نہیں کرتے۔ حافظ عبد اللہ روپڑی صاحبؒ نواب صاحبؒ کی یہ عبارت پیش کر کے لکھتے ہیں : 
’’اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں، باقی جائز ہیں۔ ہاں! پرہیز بہتر ہے۔‘‘ ( فتاویٰ اہل حدیث ، ج: ۱ ، ص: ۱۹۳) 
حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : 
’’راجح یہ ہے کہ آیات یا کلماتِ صحیحہ دعائیہ جو ثابت ہوں ، ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ، ہندو ہو یا مسلمان، صحابہ کرام ؓ نے ایک کافر بیمار پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔‘‘ (فتاویٰ ثنائیہ، ج:۱،ص: ۳۳۹) 
اہلِ حدیث کے ایک مشہور عالم مولاناشرف الدین دہلویؒ اس کی تائید میں لکھتے ہیں کہ : 
’’ حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن العاص ؓ صحابی ’’ أعوذ بکلمات اللہ ۔۔۔۔ الخ‘‘ساری دعا لکھ کر اپنے بچوں کے گلے میں لٹکایا کرتے تھے۔‘‘ (ایضا) 
غرض یہ کہ مذکورہ بالا دلائل و حوالہ جات سے یہ بات واضح اور عیاں ہوگئی کہ علاج بالقرآن کی ایک قسم تعویذ بھی ہے، اور اس کے روحانی اثرات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے مریض تعویذوں میں لکھی گئی آیاتِ قرآنیہ اور کلماتِ دعائیہ کی برکت سے کئی لا علاج امراض سے بھی نجات پا گئے ہیں ۔ ہاں! ان میں تاثیر ان کلمات کی ذات سے نہیں، بلکہ اللہ رب العزت کے حکم ہی سے آتی ہے۔ 
اگر ان تعویذات اور دموں میں کوئی روحانی تاثیر نہ ہوتی ، اور اس کا باطنی فائدہ نہ ہوتا ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے پہلے قرآن کی آخری تین سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک نہ مارتے اور انھیں اپنے بدن پر نہ ملتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ عمل تین مرتبہ فرماتے، حتیٰ کہ مرض الوفات میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کمزوری کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے ، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہی سورتوں کو پڑھا ، اور آپ کے ہاتھوں پر پھونک لگائی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو آپ کے بدن پر مل لیا ۔ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلامنے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کیا تھا۔ (رواہ مسلم) 
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سورتوں کو پڑھ کر ہاتھوں پر دم کرنا اور پھر اپنے ہاتھوں سے پورے بدن کو ملنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ان آیات میں ضرور روحانی اثر ہے ، اور یہ شیطانی اثرات سے بچانے کا ایک خاص عمل ہے ، جو بظاہر نگاہوں سے مخفی ہوتا ہے ، لیکن باطنی آنکھ والے ان کی تاثیرات کھلے طور پر دیکھتے ہیں ، اور پڑھنے کے ساتھ ہاتھ پھیرنا یہ بھی ہر گز منع نہیں ۔ 
یاد رہے کہ کہ دم اور تعویذمیں وہی فرق ہے جو کلام میں اور کتاب میں ہے ، دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے اور دونوں کا اپنا اپنا احترام ہے ۔ لیکن تعویذ کے سلسلہ میں بعض فحش غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں ، جس کی بیخ کنی نہایت اہم ہے اور اس سے قطعی پرہیز اور کنارہ کشی اختیار کرنا بہت ہی ضروری ہے :
 ۱:- بعض جاہلوں نے لکھا ہے کہ : مسلمان کی خیر خواہی کے لیے بوقتِ ضرورت شرکیہ الفاظ سے دم کرنا جائز ہے ، سو یہ بالکل غلط ہے اور اس کا شریعت میں بالکل ثبوت نہیں ۔ 
 ۲:- اکثر عوام عملیات ( اور تعویذات وغیرہ ) کو ایک ظاہری تدبیر سمجھ کر نہیں کرتے ، بلکہ اس کو سماوی اور اور ملکوتی چیز سمجھ کر کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ تعویذ گنڈوں کے متعلق عوام کے عقائد نہایت برے ہیں، حالانکہ عملیات ،تعویذ اور گنڈے وغیرہ بھی طبی دواؤں کی طرح ایک ظاہری سبب اور تدبیر ہے ، ( کوئی آسمانی اور ملکوتی چیز نہیں ) بس جس طرح دواء سے کبھی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نہیں ، اسی طرح تعویذ میں بھی کبھی فائدہ ہوتا اور کبھی نہیں، پھر بھی دونوں برابر نہیں ، بلکہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ عملیات میں فتنہ ہے اور دواء میں فتنہ نہیں ، اور وہ فتنہ یہ ہے کہ کہ عامل کی طرف بزرگی کا خیال و اعتقاد پیدا ہوتا ہے ، طبیب کی طرف بزرگی کا خیال پیدا نہیں ہوتا ۔ 
 ۳:- ایک اور بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر تعویذ گنڈے وغیرہ سے کام نہ ہوا ، تو پھر آیاتِ الٰہیہ سے بد عقیدگی اور بد گمانی پیدا جاتی ہے۔ 
 ۴:- عملیات قریب قریب سب اجتہادی ہیں، روایات سے ثابت نہیں ، جیسا کہ عوام کا خیال ہے کہ ان عملیات کو اوپر ہی سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سمجھتے ہیں ، یہ صحیح نہیں ہے ، بلکہ عاملین مضمون کی مناسبت سے ہر کام کے لیے مناسب آیات وغیرہ تجویز کرتے ہیں ۔
 ۵:- آج کل لوگ اپنے مقاصد میں اور امراض و مصائب کے دفعیہ میں تعویذ گنڈوں کی تو بڑی قدر کرتے ہیں ، اس کے لیے کوششیںبھی کرتے ہیں، اور جو اصل تدبیر ہے یعنی اللہ سے دعا ، تو اس میں غفلت برتتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ کوئی نقش و تعویذ دعا کے برابر مؤثر نہیں، بشرطیکہ تمام آداب و شرائط کی رعایت رکھی جائے۔ 
خلاصہ یہ کہ تعویذ بذاتہ جائز ہے ، بشرطیکہ مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھی جائے ، اور درج بالا ناجائز اعتقادات سے خود کو پاک اور منزہ کیا جائے ۔ 
نوٹ: اس مقالہ کا اکثر حصہ ڈاکٹر علامہ خالد محمود کی کتاب ’’ آثار القرآن‘‘ اور حضرت تھانویؒ کی ’’اغلاط العوام‘‘ سے ماخوذ ہے ۔اس کے علاوہ بے شمار مستند کتابوں سے بھی اخذ کیا گیا ہے ۔ 

تحریر:مفتی شفیق الدین الصلاح

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget