👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟚 𝟙 𝟙⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟚  𝟙  𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
لڑکیاں جو بحریہ کے کمان دار الفارس بیدرون کے جہاز میں تھیں اسی کی طرح شگفتہ مزاج اور بذلہ سنج تھیں۔ سمندر کی تنہائی میں یہ دونوں لڑکیاں الفارس کے دل کو نئی زندگی دے رہی تھیں لیکن یہ اس کے لیے معمہ سا بن گئی تھیں اور ان کے لیے الفارس عجیب آدمی بنا ہوا تھا۔ لڑکیوں نے اسے بتایا تھا کہ وہ خانہ بدوش ہیں۔ ان کا قبیلہ جنگ کی زد میں آگیا تھا اور وہ دونوں بڑی مشکل سے چھپتی چھپاتی ساحل تک پہنچی ہیں مگر الفارس دیکھ رہا تھا کہ دونوں کی عادتیں اور طور طریقے خانہ بدوشوں والے نہیں۔ خانہ بدوش حسین ہوسکتی تھیں مگر ان میں یہ شائستگی نہیں ہوسکتی تھی جو ان دونوں میں تھی۔ ان دونوں لڑکیوں میں کسی حد تک بے حیائی بھی تھی جو خانہ بدوش عورتوں میں عموماً نہیں ہوا کرتی تھی۔
لڑکیوں کے لیے الفارس عجیب آدمی تھا۔ لڑکیوں کو توقع تھی کہ وہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو ہر اس مرد نے ان کے ساتھ کیا ہے جس کے ذہن پر قبضہ کرنے کے لیے انہیں بھیجا گیا تھا۔ الفارس نے ان میں اس قسم کی دلچسپی کا اظہار نہ کیا جس سے یہ لڑکیاں ابتداء میں مایوس ہوئیں لیکن انہوں نے اس کی ایک اور کمزوری بھانپ لی۔ وہ یہ تھی کہ وہ فرض کے معاملے میں جہاں بڑا ہی سخت گیر اور سخت کوش تھا وہاں فراغت کے وقت کھلنڈرہ بچہ بن جایا کرتا تھا۔ ان لڑکیوں کے ساتھ وہ ہم راز سہیلیوں کی طرح کھیلتا اور ان کے حسن اور ان کی شوخیوں سے لطف اٹھاتا تھا۔ ان کے بکھرے بکھرے ریشمی بالوں سے کھیلتا اور ان میں مگن ہوکر دنیا کو بھول جاتا تھا۔
ایک روز ایک لڑکی نے جب دوسری لڑکی کمرے میں نہیں تھی، اس کے جذبات کو مشتعل کرنے کی یا یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اس آدمی کے اندر جذبات ہیں بھی یا نہیں تو الفارس نے یہ کھلے اشارے سمجھتے ہوئے کہا۔ ''میں نے جب تمہیں پہلے روز ساحل پر کہا کہ میں تمہیں اپنے جہاز میں پناہ دے سکتا ہوں تو تم نے کہا تھا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے کہا تھا کہ تمہیں مصر لے جائوں گا اور شادی کرلوں گا… میں اپنے اس وعدے پر قائم رہنا چاہتا ہوں۔ شادی سے پہلے میں کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گا جس سے تمہیں یہ شک ہو کہ میں وقتی طور پر دل بہلانے کے لیے تمہیں یہاں لایا ہوں۔ میں تمہاری مجبوری اور بے بسی سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا۔ مصر جانے تک تم سوچ لو۔ اگر میرے ساتھ رہنا پسند نہیں کروگی تو جہاں کہو گی، وہاں بھیج دوں گا''۔
لڑکی نے بے تابی سے بازو اس کے گلے میں ڈال دئیے اور گال اس کے گال کے ساتھ لگا کر کہا… ''ہم دونوں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گی۔ تم پہلے مرد ملے ہو جس کے دل میں انسانیت کی پاکیزگی ہے، شیطانیت اور حیوانیت نہیں''۔
لڑکی نے والہانہ محبت کااظہار ایسے الفاظ میں اور ایسے انداز سے کیا کہ الفارس کو پانی پر تیرنے والا بحری جہاز فضا کی وسعتوں میں اڑتا محسوس ہونے لگا۔ یہی اس کی کمزوری تھی جو انسانی فطرت کی سب سے زیادہ خطرناک کمزوری ہے۔ سمندر میں اتنا طویل عرصہ دن رات گشت کرتے رہنے سے اور وقتاً فوقتاً چھوٹی موٹی جھڑپیں لڑنے سے اس کے اعصاب پر جو تھکن اور ذہن پر جو کوفت تھی، وہ ختم ہوگئی۔ اعصاب پرسکون ہوگئے۔ اب تو اس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں چھ جہازوں کی کمانڈ تھی اور وہ فلسطین کے ساحل سے کچھ دور گشت کرتا رہتا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی بجلی کی طرح ارض فلسطین پر ٹوٹ پڑا تھا۔ اس نے ساحلی علاقوں پر قبضہ کرلیا اور اب عسقلان میں بیت المقدس پر حملے کی تیاری کررہا تھا۔ الفارس بیدرون کی ذمہ داری یہ تھی کہ سمندر کی طرف سے صلیبیوں کے لیے مدد اور رسد وغیرہ آئے تو اسے ساحل تک نہ پہنچنے دے۔ اس ذمہ داری نے اس کی نیندیں بھی حرام کررکھی تھیں۔ یہ دو لڑکیاں اس کے اعصاب کو سہلا لیا کرتی تھیں۔
الفارس نے ان لڑکیوں سے ایک روز کہا کہ ان میں خانہ بدوشوں والی عادتیں نہیں، ان کے بجائے ان میں شائستگی اور نفاست ہے۔ یہ ان میں کہاں سے آگئی ہے۔
''ہم بڑے بڑے عیسائی گھروں میں نوکری کرتی رہی ہیں''… ایک لڑکی نے جواب دیا… ''انہوں نے ہمیں میزبانی کے آداب اور اونچے درجے کے مہمانوں کے ساتھ سلوک اور برتائو کے طور طریقے سکھا دئیے تھے۔ اگر آپ معمولی آدمی ہوتے تو ہم آپ کے ساتھ خانہ بدوشوں جیسا سلوک کرتیں۔ ہماری باتیں اور حرکتیں خانہ بدوشوں جیسی ہوتی۔ آپ بحریہ کے اتنے برے کمانڈر ہیں اور آپ کے دل میں ہماری اتنی زیادہ محبت ہے کہ ہم آپ کے ساتھ اجڈوں جیسا سلوک نہیں کرسکتیں''۔
دوسرے پانچ جہازوں کے کپتانوں کو پتہ چل چکا تھا کہ ان کا کمانڈر الفارس اپنے جہاز میں دو لڑکیاں لایا ہے۔ سب یہ خبر سن کر ہنسے یا مسکرائے تھے لیکن سب نے محسوس کیا تھا کہ جہاز میں جنگ کے دوران اپنی بیوی کو تو رکھا جاسکتا ہے، اجنبی لڑکیوں کو رکھنا خطرے سے خالی نہیں۔ انہوں نے الفارس سے بات کی تھی اور اس نے سب کو مطمئن کردیا تھا۔ سب اس لیے جلدی مطمئن ہوگئے تھے کہ وہ الفارس کو عرصے سے جانتے تھے۔ وہ بدکار آدمی نہیں تھا۔ فرائض سے کوتاہی برداشت نہیں کرتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بیت المقدس کے اندر کی کیفیت غیرمعمولی تھی۔ یہاں مسلمانوں پر جو ظلم وتشدد ہورہا تھا، اس کی مثال کم از کم فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں نہیں ملتی تھی۔ اس ظلم وتشدد کی تاریخ پرانی تھی۔ ١٠٩٩ء میں صلیبیوں نے بیت المقدس فتح کیا تھا۔ یہ مسلمانوں کی بے اتفاقی اور اقتدار کی خاطر غداری کرنے والوں کا کرشمہ تھا۔ تاریخ میں حملہ آوروں نے اس سے زیادہ بڑے اور اہم شہر فتح کیے ہیں لیکن صلیبیوں نے بیت المقدس فتح کیا تو اسے اس قدر اہمیت دی جیسے انہوں نے آدھی دنیا فتح کرلی ہو، سارے یورپ بلکہ تمام تر عیسائی دنیا اور کلیسا کی نظریں بیت المقدس پر لگی ہوئی تھیں۔
اس اہمیت کی وجہ یہ تھی کہ بیت المقدس کو عیسائی اپنا مقدس مقام سمجھتے تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی علاقے میں کہیں مصلوب کیا گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہیں سے معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ اس لحاظ سے مسجد اقصیٰ کا تقدس خانہ کعبہ سے کم نہ تھا۔ مسلمان بیت المقدس کو اپنا نظریاتی مرکز سمجھتے تھے۔ یہ ہمارے عقیدوں کا مرکز تھا۔ (اور اب بھی ہے) عیسائی مسلمانوں کے اس نظریاتی سرچشمے پر قبضہ کرکے ہمارے نظریات اور عقائد کو باطل قرار دینا چاہتے تھے۔ صلیبیوں کی انٹیلی جنس کے سربراہ ہرمن نے غلط نہیں کہا تھا کہ صلیبی جنگیں مسلمانوں اور عیسائیوں کے بادشاہوں کی نہیں، یہ کلیسا اور کعبہ کی جنگیں ہیں جو اس وقت تک لڑی جاتی رہیں گی جب تک دونوں میں اس ایک ختم نہیں ہوجاتا۔
جس طرح ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کو اور مسلمانوں کو شکست دینے کو اور مسلمانوں کو نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ دھوکے سے بھی قتل کرنے کو مذہبی فریضہ قرار دے رکھا ہے، اسی طرح عیسائیوں کے پادریوں نے بھی مسلمان کے قتل کو کارِ ثواب قرار دے رکھا تھا۔ عیسائیوں کو جنگ کے احکام بڑے پادری (پوپ) کی طرف سے ملتے تھے۔ آپ نے پڑھ لیا ہے کہ حطین کی جنگ میں عکرہ کا پادری اس صلیب کے ساتھ میدان جنگ میں موجود تھا جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا تھا۔ یہ ثبوت ہے اس حقیقت کا کہ کعبہ کے خلاف جنگ کلیسا نے شروع کی تھی اور یہ دو مذہبوں اور دو نظریات کی جنگ تھی۔
یہ بتایا جاچکا ہے کہ صلیبی جنگوں میں شامل ہونے والے بادشاہوں، جرنیلوں اور ادنیٰ سپاہیوں تک سے صلیب الصلبوت پر صلیب سے وفاداری اور جان ومال کی قربانی کا حلف لیا جاتا تھا۔ اس حلف سے وہ صلیبی کہلائے اور بیت المقدس کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں، انہیں صلیبی جنگیں کہا گیا۔ عیسائی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جنگ اور سرزمین عرب پر قبضہ کرنے کو ایسا جنون بنا دیا گیا تھا کہ عورتیں اپنے زیورات اور مال ودولت کلیسا کے حوالے کردیتی تھیں۔ جنون کی انتہا یہ تھی کہ جوان لڑکیوں نے اپنی عصمتیں صلیب کی فتح اور مسلمانوں کی شکست کے لیے پیش کردیں۔ کلیسا نے کھلی اجازت دے دی کہ مسلمانوں کی کردار کشی اور نظریاتی تخریب کاری کے لیے عیسائی لڑکیوں کو استعمال کیا جائے۔ لڑکیوں کو یقین دلایا گیا کہ کلیسا کے مقاصد اور عزائم کی خاطر عصمت قربان کرنے والی لڑکی بہشت میں جائے گی۔
اسی عقیدے کے تحت خوبصورت لڑکیوں کو باقاعدہ تربیت دے کر مسلمانوں کے علاقوں میں بھیجا گیا۔ یہ مسلمان امراء کے حرموں میں داخل ہوئیں اور وہ تباہی بپا کی جو آپ اس سلسلے کی کہانیوں میں پوری تفصیل سے پڑھ چکے ہیں۔ اس مقابلے میں مسلمان آپس میں ٹکراتے رہے اور صلیبیوں کے پھیلائے ہوئے اس حسین جال میں ایسے آئے کہ مذہبی نظریات اور عقائد کو نظرانداز کرکے تخت وتاج کے شیدائی ہوگئے۔ انہوں نے ایمان نیلام کردئیے۔ پھر بھی کچھ لوگ ابھی زندہ تھے جن کی روحیں ایمان کے نور سے منور تھیں۔ وہ بیت المقدس کی پاسبانی کرتے اور لہو کے نذرانے دیتے رہے مگر یہ قانون فطرت ہے کہ ایک غدار ساری قوم کو بے وقار کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے اور جب غدار صاحب اقتدار ہو تو دشمن سے دس گنا زیادہ فوج بھی شکست کھا جاتی ہے۔
اسی کانتیجہ تھا کہ صلیبی ١٥جولائی ١٠٩٩ء (٢٣شعبان ٤٩٢ہجری) کے روز بیت المقدس پر قابض ہوگئے۔ اس فتح میں جن مسلمان امراء اور ریاستوں کے حکمرانوں نے صلیبیوں کو مدد دی اور جس طرح مدد دی، وہ ایک طویل اور شرمناک کہانی ہے۔ مثال کے طور پر اتنا ہی بتانا کافی ہوگا کہ جب صلیبی فوج بیت المقدس کی طرف بڑھ رہی تھی تو شہزاء کے امیر نے نہ صرف یہ کہ اس فوج کو نہ روکا بلکہ اسے رسد بھی دی اور رہبر (گائیڈ) بھی دئیے۔ حماة اور تریپولی کے مسلمان امراء نے بھی صلیبی فوج کو راستہ دے کر رسد بلکہ تحائف بھی دئیے اور اپنے قبلۂ اول کی طرف روانہ کیا۔ راستے میں کئی ایک مسلمان ریاستیں آتی تھیں۔ انہوں نے اپنی ریاست اور حکومت کے تحفظ کی خاطر صلیبیوں کے دلکش اور حسین تحفے قبول کیے اور ان کے عوض صلیبی فوج کی ضروریات پوری کیں۔
عرقہ کا امیر مردمومن تھا جس کی جنگی طاقت صلیبیوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی لیکن اس نے صلیبی فوج کے جرنیلوں کے مطالبے پر بھی انہیں کچھ نہ دیا بلکہ ان کے چیلنج کو قبول کرکے انہیں مقابلے کے لیے للکارا۔ صلیبی فوج نے عرقہ کو محاصرے میں لے لیا۔ ١٤فروری سے ١٣مئی ١٠٩٩ء تک عرقہ کے مسلمانوں نے ایسی بے جگری سے مقابلہ کیا کہ صلیبی فوج نے بہت سا جانی نقصان اٹھا کر محاصرہ اٹھا لیا اور راستہ بدل کر آگے چلی گئی۔ اگر یہ تمام مسلمان امراء اپنے اپنے علاقے میں بیت المقدس کی طرف بڑھتی ہوئی صلیبی فوج کے سامنے مزاحم ہوتے رہتے تو ان کا اپنا نقصان تو ضرور ہوتا لیکن صلیبی فوج کا خون قطرہ قطرہ بہہ کر ختم ہوجاتا۔ یہ فوج اپنے پلان سے دو اڑھائی سال تاخیر سے بیت المقدس پہنچتی اور اس کے جسم میں خون کا ایک قطرہ نہ ہوتا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ کہنا غلط نہیں کہ صلیبیوں کو بیت المقدس تک مسلمان امراء نے تازہ دم اور رسد سے مالا مال کرکے پہنچایا۔ اس کی سزا ان مسلمانوں کو ملی جو بیت المقدس میں آباد تھے۔ وہاں مسلمان زائرین بھی گئے ہوئے تھے، وہ بھی کچلے گئے۔ ٧جون ١٠٩٩ء کے روز صلیبیوں نے اس عظیم اور مقدس شہر کا محاصرہ کیا، وہاں حکومت مصر کا گورنر افتخار الدولہ تھا، جس نے محاصرے میں بے مثال شجاعت اور عسکری ذہانت سے مقابلہ کیا۔ شہر کے جیش قلعے سے نکال کر صلیبیوں پر حملے کرائے گئے مگر صلیبیوں کے پاس سازوسامان کی افراط تھی اور فوج تو بے شمار تھی۔ ١٥جولائی ١٠٩٩ء صلیبی فوج شہر میں داخل ہوگئی۔
تمام تر یورپ اور ہر عیسائی ملک میں جشن منائے گئے مگر بھیانک اور ہولناک جشن وہ تھا جو فاتح صلیبیوں نے بیت المقدس کے اندر منایا۔ صلیبی سپاہی مسلمانوں کے گھروں میں گھس گئے۔ لوٹ مار کی، کسی گھر میں کسی فرد کو، خواہ وہ بوڑھا تھا یا دودھ پیتا بچہ، زندہ نہ چھوڑا۔ زندہ رہنے دیا تو صرف جوان لڑکیوں کو جوان کی درندگی کی اذیتوں سے مریں۔ گلیوں میں بھاگتے ہوئے مسلمان بچوں، عورتوں اور مردوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ صلیبی ننھے ننھے بچوں کو برچھیوں کی انیوں میں اڑس کر اوپر اٹھاتے اور چیخ چیخ کر قہقہے لگاتے تھے۔ کھلے عام آبروریزی اور مقتولین کے سرکاٹ کر انہیں ٹھڈ مارنا صلیبیوں کا من پسند کھیل بن گیا تھا۔
مسلمانوں کو ایک ہی پناہ نظر آتی تھی جس کے متعلق انہیں یقین تھا کہ جان کی امان ملے گی اور کسی بھی مذہب کا پیروکار وہاں ان پر زیادتی کرنے کو گناہ سمجھے گا۔ یہ تھی مسجد اقصیٰ۔ مسلمان اپنے بال بچوں کو لے کرمسجد اقصیٰ میں چلے گئے جنہیں وہاں پائوں رکھنے کو بھی جگہ نہ ملی۔ وہ باب دائود اور دوسری مسجدوں میں چلے گئے۔ خود عیسائی مؤرخین لکھتے ہیں کہ ان پناہ گزین مسلمانوں کی تعداد ستر ہزار کے لگ بھگ تھی۔ صلیبی جو مسجد اقصیٰ کو اپنی عبادت گاہ کہتے تھے، اس کے احترام کا ذرہ بھر خیال نہ کیا۔ وہ پناہ گزینوں پر ٹوٹ پڑے۔ کسی ایک کو زندہ نہ چھوڑا۔ مسجد اقصیٰ، باب دائود اور تمام مسجدیں لاشوں سے اٹ گئیں اور خون باہر بہنے لگا۔ مؤرخین نے ان الفاظ میں یہ کیفیت بیان کی ہے… ''صلیبیوں کے گھوڑوں کے پائوں ٹخنوں تک مسلمان شہریوں کے خون میں ڈوب گئے تھے''۔
لڑکیوں کو مسجدوں اور مسلمانوں کے دیگر مقدس مقامات میں لے جا کر بے آبرو کیا جاتا تھا۔ سب سے زیادہ بدنصیب یہ لڑکیاں تھیں اور ان کے جنگی قیدی۔ جنگی قیدیوں کو مویشی بنا لیا گیا تھا۔ انہیں کھانے کو کم دیا جاتا اور مشقت زیادہ لی جاتی۔ جن کاموں میں پہلے گھوڑے اور اونٹ استعمال ہوتے تھے، ان میں اب جنگی قیدی استعمال ہونے لگے۔ ان کے ہاتھوں مسجدیں مسمار کرائی گئیں۔ جنہوں نے انکار کیا، انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا۔ کسی وحشی صلیبی نے ایک جنگی قیدی کو قتل کرکے اس کے جسم کا گوشت کاٹا اور پکا کر کھا گیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ گوشت لذیذ ہے۔ اس کے بعد صلیبیوں نے انسان خوری (بلکہ مسلمان خوری) شروع کردی۔ جب کبھی کوئی جشن یا تقریب مناتے ایک دو تندرست اور توانا مسلمان کو قتل کرکے ان کا گوشت کھاتے تھے۔
اس کی تردید عیسائی مؤرخین نے کی ہے لیکن انسان خوری کے واقعات خود یورپین مؤرخوں نے ہی اپنی تحریروں میں بیان کیے ہیں۔
مسجدوں کو حرام کاری کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ صلیبیوں نے ان میں گھوڑے باندھے، مسجد اقصیٰ میں مختلف مسلمان سلاطین اور دیگر دولت مند زائرین نے سونے اور چاندی کے فانونس اور قندیلیں لگوائی تھیں۔ تحفے کے طور پر سونے اور چاندی کی کئی ایک اشیاء رکھی تھیں۔ صلیبیوں نے یہ تمام فانون، قندیلیں اور بیش قیمت اشیاء اٹھا لیں اور مسجد کے منڈیر پر صلیب نصب کردی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان صلاح الدین ایوبی کو بیت المقدس کی بے حرمتی اور وہاں کے مسلمانوں پر وحشیانہ مظالم کی یہ روئیداد اس کے باپ نجم الدین ایوبی نے بچپن سے سنانی شروع کردی تھی۔ نجم الدین ایوبی کو یہ روئیداد اس اس کے باپ (سلطان ایوبی کے دادا) شادی نے سنائی تھی۔ یہ روئیداد سلطان ایوبی کے خون میں شامل ہوگئی تھی۔ اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ بیت المقدس کو آزاد کرائے گا، اب جبکہ وہ اس مقدس شہر کو فتح کرنے نکلا تھا تو اس کے دو بیٹے، الملک الافضل اور الملک الظاہر جوان تھے اور اس کی فوج میں تھے۔ بیت المقدس کے متعلق جو باتیں اسے اپنے باپ نے سنائی تھیں، وہ اس نے اپنے بیٹوں کو یوں سنا دی تھیں جیسے ایک قیمتی ورثہ ان کے حوالے کیا ہو۔
''بے مقصد جینے سے قبل از وقت مرجانا بہتر ہے''۔ اس نے اپنے بیٹوں کی جنگی تربیت مکمل کرکے انہیں اپنی فوج میں شامل کرتے وقت کہا تھا… ''یہ الفاظ تمہارے دادا مرحوم کے ہیں جو انہوں نے مجھے اس وقت کہے تھے جب میں چچا شیر کوہ کے ساتھ صلیبیوں کے خلاف پہلی جنگ لڑنے کے لیے چلا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، مجھے نظر آرہا ہے کہ تم کسی جگہ کے حکمران بنو گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم سلطان بن جائو۔ یاد رکھو بیٹے! تم آج سے میرے بیٹے نہیں، قوم کے بیٹے ہو۔ قرآن کا حکم ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرو۔ اب تمہارے ماں باپ قوم اور سلطنت ہے۔ اولاد کو ماں باپ پر حکم چلانے اور ان کا دل دکھانے سے اللہ نے منع کیا ہے۔ خیال رکھنا یوسف! قوم کا دل نہ دکھانا۔ دیکھنا کہ تم پر قوم کے کیا کیا حقوق ہیں۔ یہ ادا کرنا''…
''اور میرے عزیز بیٹو! تمہارے دادا نے کہا تھا کہ جو لوگ قوم کی آن پر اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ہیں، انہیںنہ بھولنا۔ جو قوم اپنے شہیدوں کو بھول جاتی ہے، اس قوم کو خدا بھول جاتا ہے۔ جس قوم سے خدا نظریں پھیر لیتا ہے، تم نہیں جانتے کہ یہ دنیا اس کے لیے جہنم بن جاتی ہے۔ اس کی عبادت گاہیں اصطبل اور اس کی بیٹیاں دشمن کی عیاشی کا سامان بن جاتی ہیں۔ اس قوم کی تقدیر اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے… جب تمہیں حکومت کی مسند پر بٹھایا جائے گا تو قوم کو رعایا نہ سمجھنا۔ بندوں پر حکومت کا حق صرف اللہ کا ہے، بندوں پر حکومت کرکے اللہ کی برابری کاگناہ کرو گے تو انجام مصر کے فرعونوں والا ہوگا۔ حکومت کا مطلب وہ ذمہ داری ہوتی ہے جو قوم کی طرف سے اللہ اس کے حکمران پر عائد کرتا ہے۔ حکمران کی اپنی کوئی ذات نہیں رہتی۔ وہ فرد کی حیثیت سے مرجاتا ہے۔ وہ قوم کا امین اور قوم کا حصہ بن جاتا ہے۔ قوم کو فاقے کرنے پڑیں تو حکمران کو اپنا پیٹ نہیں بھرنا چاہیے۔ وہ اپنے منہ میں نوالہ ڈالے تو اسے یقین کرلینا چاہیے کہ قوم کے ہر فرد کے منہ میں ایسا ہی نوالا جارہا ہے۔ وہ جب گھوڑے پر سوار ہوتو دیکھے کہ اس کی گردن مسجد کے مینار کی طرح اکڑ کر سیدھی تو نہیں ہوگئی؟''…
''اور میرے عزیز بیٹو! تمہارے دادا نے کہا تھا کہ گردن اس روز اونچی کرنا جس روز مسجد اقصیٰ کو کفار سے آزاد کرالو گے۔ اطمینان کی نیند اس رات سونا جس رات مسجد اقصیٰ میں فتح کے نفل پڑھ لو گے اور اس مسجد کی دہلیز جہاں سے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج کے لیے اللہ کے حضور گئے تھے، اپنے آنسوئوں سے دھوئوگے… اور میرے بیٹو! وہ بچے جو بیت المقدس کی گلیوں اور مسجدوں میں قتل ہوئے تھے اور قوم کی وہ دو بیٹیاں جو وہاں بے آبرو ہوئی تھیں، مجھے راتوں کو سونے نہیں دیتیں۔ جس مسجد میں میرے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدم گئے اور جس مسجد میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک جبیں نے سجدے کیے تھے، اس مسجد کی اینٹیں رات بھر میرے اوپر گرتی رہتی ہیں۔ میں بدک بدک جاتا ہوں۔ کبھی ورد سے کراہتی ہوئی ایسی صدائی سنائی دیتی ہیں جیسے مسجد اقصیٰ میں قتل ہونے والے بچے بزبان گریہ اذانیں دے رہے ہوں… وہ تمہیں پکار رہے ہیں میرے بیٹو! وہ مجھے پکار رہے ہیں''…
''اور تمہارے دادا نے بڑھاپے سے کانپتے ہوئے ہاتھ مجھے دکھا کر کہا تھا کہ میں نے اپنی جوانی تمہیں دے دی ہے جو کام میں نہیں کرسکا وہ تم کرو۔ بیت المقدس جائو اور یہی تمہارے جینے کا مقصد ہوگا۔ سلطنت کی مسند پر بیٹھ کر اپنے دشمن کو اس لیے نظر انداز کیے رکھو گے کہ اطمینان سے قوم پر حکومت کرسکو تو اس مسند کی عمر طویل نہیں ہوگی۔ شہیدوں کی روحیں جنات بن کر تمہاری مسند کو الٹ دیں گی۔ جینے کا مقصد وہ رکھو جو خدا کو عزیز ہو اور جس میں قرآن کا حکم شامل ہو''…
''میرے عزیز بیٹو! آج میں اپنے باپ کا ورثہ تمہارے سپرد کرتاہوں۔ آج سے تم میرے نہیں سلطنت اسلامیہ کے بیٹے ہو۔ میں نے تمہاری ماں سے کہہ دیا کہ بھول جا تیری کوکھ نے کوئی بیٹے جنے تھے۔ اگر انہیں بھول نہ سکی تو ان کی زندگی کی دعا نہ کرنا، میں انہیں وہاں ذبح کرانے لے جارہا ہوں جہاں ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ پر قربان کرنے کے لیے اس کی گردن پر چھری رکھی تھی۔ اگر دعا کرنی ہے تو اللہ سے یہ التجا کرنا کہ تو نے جو دودھ ان بچوں کو پلایا ہے، یہ نور سے منور خون بن کر مسجد اقصیٰ کا فرش دھو ڈالے… اور اللہ کرے گا ایسا ہی ہوگا۔ عہد کرو میرے بیٹو! میں زندہ نہ رہا تو بیت المقدس کو تم آزاد کرائو گے''۔
اس نے دونوں بیٹوں کو ١٠٩٩ء کی خونچکاں داستاں سنائی اور جب اس نے بیٹوں کو جانے کی اجازت دی تو انہوں نے سلطان ایوبی کو اس طرح سلام نہ کیا جس طرح بیٹے اپنے باپ کو کیا کرتے ہیں۔ وہ اٹھے اور الافضل جو بڑا تھا، بولا… ''سلطان عالی مقام! صرف شہید ہونا کوئی کارنامہ نہیں، ہم شہادت سے پہلے بیت المقدس کی گلیوں میں دشمنوں کا اتنا خون بہائیں گے کہ آپ کے گھوڑے کے پائوں پھسلیں گے اور ہم دیکھیں گے کہ آپ مسجد اقصیٰ سے صلیب اپنے ہاتھوں اتار کر صلیبیوں کے غلیظ خون میں پھینک رہے ہیں''۔
''مگر یہ خون نہتے شہریوں کا نہیں ہوگا، الافضل''… سلطان ایوبی نے کہا۔
''یہ خون زرہ پوش صلیبیوں کا ہوگا''… الافضل نے کہا… ''یہ خون اس لوہے سے ٹپکے گا جس سے صلیبیوں نے اپنے جسم ڈھانپ رکھے ہیں۔ ایمان کی تلوار باطل کے فولاد کو کاٹنے کی طاقت رکھتی ہے''۔
''اللہ تمہاری زبان مبارک کرے''… سلطان ایوبی نے کہا۔
بیٹوں نے فوجی انداز سے باپ کو سلام کیا اور باہر نکل گئے۔
اب سلطان ایوبی بیت المقدس سے چالیس میل دور بحیرۂ روم کے کنارے عسقلان میں اس چیتے کی طرح بیٹھا جو اپنے شکار پر جھپٹنے کے لیے تیار ہو۔ جذباتی طور پر وہ فوراً بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کرنے کو تیار تھا لیکن وہ جنگ کے حقائق کو دیکھ رہا تھا۔ یہ چالیس میل کا فاصلہ تو جیسے آتش فشاں چٹانوں سے بھرا پڑا تھا۔ بیت المقدس کا دفاع ہی ایسا تھا۔ صرف شہر کے اردگرد ہی دیوار نہیں تھی بلکہ اس شہر کے اردگرد دور دور تک کے علاقے میں چھوٹی چھوٹی قلعہ بندیاں اور صلیبی فوج کی چوکیاں (آئوٹ پوسٹیں) تھیں۔ گشتی پہرے کا انتظام بھی تھا۔ گھوڑ سوار پارٹیاں ان راستوں پر گھومتی پھرتی رہتی تھیں جن سے بیت المقدس تک پہنچا جاسکتا تھا۔ اب یہ دفاعی انتظامات پہلے سے زیادہ سخت کردئیے گئے تھے۔ بیت المقدس کے اندر جو فوج تھی اس کے جرنیلوں کو سلطان ایوبی کی ہر ایک نقل وحرکت کا علم تھا مگر ان میں اب اتنی ہمت نہیں رہی تھی کہ سلطان ایوبی کو عسقلان میں روک لیتے یا اس پر جوابی حملہ کرتے۔ حطین تک سلطان ایوبی نے ان کی عسکری قوت کا بہت زیادہ خون نکال لیا تھا۔
بیت المقدس کا حکمران گائی آف لوزینان تھا جو حطین میں جنگی قیدی ہوگیا اور اب دمشق کے قید خانے میں تھا۔ وہ جو فوج اپنے ساتھ لے گیا تھا اس کا کچھ حصہ مارا گیا۔ کچھ جنگی قیدی ہوا اور باقی فوج ایسی بھاگی کہ اب اس کے افسر، سپاہی اور زرہ پوش نائٹ زخمی یا خوفزدگی کی حالت میں بیت المقدس میں آرہے تھے۔ نائٹوں کے مورال میں کچھ جان تھی کیونکہ انہیں اپنے رتبے اوراعزاز کا پاس تھا۔ دیگر فوج نے شہر میں جاکر دہشت پھیلا دی۔ جرنیلوں نے نائٹوں کو ازسرنو منظم کرلیا۔ اس طرح بیت المقدس کے اندر کی تعداد ساٹھ ہزار ہوگئی تھی۔ چونکہ یہ تمام آبادی کو معلوم ہوگیا تھا کہ سلطان ایوبی شہر پر شہر فتح کرتا آرہا ہے، اس لیے شہری بھی لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ شہر کے دفاع کو اور زیادہ مستحکم کرلیا گیا۔
شہرکے ایک دو دروازوں کو دن کے دوران کھلا رکھنا پڑتا تھا کیونکہ میدان جنگ سے بھاگے ہوئے صلیبی اکیلے اکیلے اور دو دو، چارچار کی ٹولیوں میں آتے رہتے تھے۔ سلطان ایوبی کے جاسوس پہلے ہی شہر میں موجود تھے، اب بھاگے ہوئے صلیبیوں کے بھیس میں چند اور جاسوس اندر چلے گئے اور شہر کے دفاعی انتظامات اور دیوار کو اچھی طرح دیکھ کر نکل بھی آئے۔ مسلمان پر پابندیاں پہلے سے زیادہ سخت کردی گئیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بیت المقدس سے دس بارہ میل عسقلان کی طرف صلیبیوں کی ایک چوکی تھی جس میں ایک سو کے قریب صلیبی فوجی رہتے تھے، انہوں نے خیمے نصب کررکھے تھے۔ ستمبر ١١٨٧ء کی ایک رات ان کی چوکی کے قریب ایک دھماکہ سا ہوا، پھر دو تین اور ایسے ہی دھماکے ہوئے۔ ان کے فوراً بعد شعلے اٹھے اور تین چار خیمے جلنے لگے۔ سپاہی جاگ کر ادھر ادھر بھاگے۔ جونہی فوجیوںمیں ہلچل مچی، ان پر ہر طرف سے تیر آنے لگے۔ جلتے خیموں کی روشنی میں وہ نظر آرہے تھے۔یہ آتش گیر سیال کی ہانڈیاں تھیں جو سلطان ایوبی کے ایک چھاپہ مار جیش نے چھوٹی منجنیق سے پھینکی تھیں۔ یہ چوکی میں گر کر ٹوٹیں تو جہاں یہ گری تھیں وہاں جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر چلائے گئے۔ آتش گیر سیال جل اٹھا۔
صلیبی ادھر ادھر بھاگے تو انہیں پتہ چلا کہ وہ گھیر میں آئے ہوئے ہیں اورزندہ نکل نہیں سکیں گے۔ چھاپہ ماروں نے للکارنا شروع کردیا… ''زندہ رہنا چاہتے ہو تو ہتھیار ڈال کر ایک طرف کھڑے ہوجائو''… شعلوں کی دہشت اور تباہ کاری تو اپنی جگہ تھی، سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں کی للکار نے صلیبیوں کا رہا سہا دم خم بھی ختم کردیا۔ وہ ہتھیار ڈال کر چھاپہ ماروں کی حراست میں آگئے۔ ان کی تعداد پچیس تیس رہ گئی تھی۔ ان سے ہتھیار اور گھوڑے وغیرہ لے کر پیچھے بھیج دیا گیا۔
صبح طلوع ہوئی تو اس جلی ہوئی چوکی میں سلطان ایوبی کے ہر اول دستے کاایک جیش پہنچ چکا تھا۔ اس سے فوج کی پیش قدمی خاصے دور علاقے تک محفوظ ہوگئی۔ چھاپہ ماروں کی حالت جنگی کے درندوں کی سی ہوگئی تھی۔ دو دو جانباز جھاڑیوں، ٹیکریوں اور چٹانوں میں چھپ چھپ کر گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ جہاں انہیں گشتی سواروں یا پیادہ سپاہیوں کی آواز آتی، وہ چھپ جاتے اور جب صلیبی قریب آتے یہ ان پر ٹوٹ پڑتے۔ دو آدمی اگر چھ آدمیوں پر ٹوٹ پڑیں تو دو کا کیا حشر ہوتا ہوگا۔ اس سے چھاپہ مار شہید بھی ہوتے تھے، زخمی بھی۔
یہ ان کی انفرادی جنگ تھی۔ انہیں کوئی کمانڈر نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ کہیں ادھر ادھر چھپے رہتے تو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا لیکن جسمانی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ انہیں جو روحانی اور ذہنی ٹریننگ دی گئی تھی اس نے انہیں آگ بگولا کررکھا تھا۔ حطین کی فتح کے بعد سلطان ایوبی نے جو بڑے شہر فتح کیے تھے، وہاں کے مسلمانوں کی حالت فوج کو دکھائی گئی تھی۔ انہیں مسجدوں کی بربادی اور بے حرمتی دکھائی گئی تھی اور انہیں بتایا گیا تھا کہ یہ جنگ کسی بادشاہ کی بادشاہی کے تحفظ کے لیے نہیں لڑی جارہی بلکہ یہ اسلام کے تحفظ اور اس عظیم مذہب کے دشمن کے خلاف لڑی جارہی ہے۔ اس ٹریننگ سے یہ جنگ ان کے ایمان کا جزو بن گئی تھی۔
عسقلان میں سلطان ایوبی رات کو سوتا بھی کم ہی تھا۔ چھاپہ ماروں کی طرف قاصد آتے رہتے تھے اور بیت المقدس سے کوئی جاسوس بھی آجاتا تھا۔ یہ رات کو بھی آتے تھے، سلطان ایوبی نے حکم دے رکھا تھا کہ کہیں سے کوئی پیغام کسی بھی وقت آئے تو اسے اسی وقت دیا جائے، خواہ وہ گہری نیند سورہا ہو۔ چھاپہ ماروں کی رپورٹیں یہی ہوتی تھیں کہ فلاں مقام پر صلیبیوں کی ایک چوکی پر حملہ کیا گیا۔ اتنے صلیبی مارے گئے اور اتنے چھاپہ مار شہید اور زخمی ہوئے ہیں اور فلاں راستہ صاف کرلیا گیا ہے۔ اس کے مطابق سلطان ایوبی نقشے پر پیش قدمی کے راستے کی لکیر میں ردوبدل کرتا رہتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان ایوبی نے سالاروں اور نائب سالاروں کی آخری کانفرنس منعقد کی۔ اس میں بحریہ کے کپتان الفارس بیدرون کو بھی بلایا گیا۔ الفارس کے پاس جب قاصد پہنچا، اس وقت اس کا جہاز عسقلان کے بیس میل دور کھلے سمندر میں تھا۔ کشتی اس تک پہنچتے آدھا دن لگ گیا اور الفارس اسی کشتی میں رات کو عسقلان پہنچا۔ قاصد نے اسے بتایا تھا کہ سلطان نے تمام سالاروں کو بلایا ہے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ بیت المقدس پر حملے کے متعلق اجلاس ہوگا۔ جہاز سے قاصد کے ساتھ روانہ ہوتے وقت اس نے دونوں لڑکیوں کو بتایا کہ وہ عسقلان جارہا ہے۔
''سلطان نے بلایا ہے؟''ایک لڑکی نے پوچھا۔
''کیوں بلایا ہے؟'' دوسری نے پوچھا۔
''میرے سرکاری فرائض کے متعلق تم پوچھنا کیوں ضروری سمجھتی ہو؟'' الفارس نے انہیں کہا… ''تمہیں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ میری ذات کے سوا کچھ اور نہ پوچھا کرو''۔
دونوں ہنس پڑیں۔ ایک بولی۔ ''اگر ہم اس قابل ہوتیں تو آپ کی غیرحاضری میں آپ کے جہاز کو سنبھالے رکھتیں اور دشمن کے جہاز آجاتے تو ان سے لڑائی کرتیں''۔
''تم جس قابل ہو، میں تم سے وہی کام لوں گا''۔ الفارس نے کہا… ''میری غیرحاضری میں زیادہ وقت نیچے ہی گزارنا۔ اوپر جاکر ملاحوں اور عسکریوں کے کام میں دخل نہ دینا''۔
''آپ کب واپس آئیں گے؟''
''رات شاید نہ آسکوں''۔ الفارس نے جواب دیا۔ ''کل شام تک آسکوں گا''۔
الفارس لڑکیوں میں پوری طرح گھل مل گیا تھا۔ وہ اس سے سلطان ایوبی کے آئندہ اقدامات کے متعلق اکثر پوچھتی تھیں۔ یہ بھی پوچھا کرتیں کہ بحیرۂ روم میں مصر اور شام کا بحری بیڑہ بندرگاہوں میں ہے یا سمندر میں اور کل کتنے جہاز ہیں، ان میں فوج کتنی ہے۔ الفارس نے انہیں ٹالنے کے بجائے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اس سے ایسے سوال نہ پوچھا کریں۔ اس کے باوجود اپنے حسن اور نازوادا کا طلسم طاری کرکے اس سے کوئی ایسی بات پوچھ ہی بیٹھتیں تھیں جو فوجی راز ہوتا تھا۔ الفارس جذباتی مدہوشی سے فوراً بیدار ہوجاتا اور انہیں پیار سے ڈانٹ دیا کرتا تھا۔
نشے کی حالت میں انسان دل میں چھپائی ہوئی بات اگل دیا کرتا ہے۔ نشہ خواہ شراب کا ہو یا کسی دوائی کا مگر الفارس شراب نہیں پیتا تھا، نہ جہاز میں کسی کو شراب یا کوئی اور نشہ آور چیز رکھنے کی اجازت تھی۔ الفارس بدکار بھی نہیں تھا مگر وہ اپنے آپ پر ان لڑکیوں کا نشہ طاری کرلیا کرتا تھا جس سے اس کی تھکن دور ہوجاتی اور وہ تازہ دم ہوجایا کرتا تھا۔ یہ لڑکیاں تربیت یافتہ تھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ الفارس میں نہ شراب کی عادل ہے، نہ اس کے جذبات سفلی اور حیوانی ہیں تو انہوں نے اس پر پیار اور محبت کا نشہ طاری کرنا شروع کردیا تھا مگر الفارس اپنے فرائض اور ذمہ داری کا اتنا پکا تھا کہ جذبات پر مدہوشی طاری ہوتی تو بھی اپنے فرض سے کوتاہی نہیں کرتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک رات الفارس گہری نیند سویا ہوا تھا۔ لڑکیاں اپنے کیبن میں تھیں، دونوں اوپر چلی گئیں اور عرشے کے جنگلے کے سہارے سمندر پر چاندنی کے بکھرے اور چمکتے ہوئے موتیوں سے لطف اٹھانے لگیں۔
''روزی!'' ایک لڑکی نے دوسری سے کہا… ''مجھے اپنے سامنے گہرا اندھیرا نظر آتا ہے۔ الفارس لگتا موم ہے لیکن کوئی ایسی ویسی بات پوچھو تو پتھر بن جاتا ہے۔ میرا خیال ہے ہم اپنا یہاں کام نہیں کرسکیں گی۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اینڈریو آئے تو اسے کہیں کہ ممکن ہو توہمیں یہاں سے لے جائے؟''
اینڈریو وہ آدمی تھا جو چھوٹی سی کشتی جہازوں کے قریب لے جا کر کھانے پینے اور ضروریات کی اشیاء جہاز کے ملاحوں اور سپاہیوں کے ہاتھ بیچتا تھا۔ آپ نے پچھلی قسط میں پڑھا ہے کہ یہ آدمی ان لڑکیوں کو اتفاق سے ملا تھا۔ وہ غریب ماہی گیروں کے بہروپ میں اپنی گشتی پر الفارس کے جہاز کے قریب چیزیں بیچنے آیا تھا۔ اس نے لڑکیوں اور لڑکیوں نے اسے پہچان لیا تھا اور انہوں نے رسیوں کی سیڑھی نیچے کروا کر اسے چیزیں خریدنے کے بہانے اوپر بلا لیا تھا۔ اس نے لڑکیوں کو بتایا تھا کہ وہ الفارس کے ان چھ جہازوں کے ساتھ سائے کی طرح لگا ہوا ہے اور وہ موقع ملتے ہی ان جہازوں کو تباہ کرا دے گا۔ لڑکیوں نے اسے بتایا تھا کہ وہ کس طرح الفارس سے ملی تھیں اور انہوں نے خانہ بدوش بن کر اس جہاز میں پناہ لے لی ہے۔ لڑکیوں نے اسے یہ بھی بتایا کہ وہ پناہ کے بہانے جاسوسی اور تباہ کاری کریں گی۔
اس آدمی کا نام اینڈریو تھا اور وہ تخریب کار جاسوس تھا۔ پہلی ملاقات کے بعد وہ دوبار اپنے بہروپ میں آیا اور لڑکیوں سے ملا تھا۔ لڑکیوں نے اسے بتایا تھا کہ الفارس ان کے جال میں نہیں آرہا اور وہ کوئی راز نہیں دیتا۔ اینڈریو یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ یہ جہاز کب تک اس ڈیوٹی پر رہیں گے اور یہ ٹائر کی طرف جائیں گے یا نہیں۔ اس نے لڑکیوں سے کہا تھا … ''معلوم ہوتا ہے تم اپنا فن بھول گئی ہو۔ اس جہاز میں اکیلا الفارس نہیں، اس کا نائب بھی ہے اور اس کے نیچے ایک افسر اور بھی ہے۔ ان میں سے کسی کو گانٹھ لو۔ ان میں رقابت پیدا کردو۔ الفارس کے نائب کو اس کا دشمن بنا دو۔ اپنا جادو چلائو۔ تم کیا نہیں جانتیں؟ سب جانتی ہو''۔
اس رات ایک لڑکی دوسری سے مایوس ہوکر کہہ رہی تھی کہ روزی، اینڈریو آئے تو اسے کہتے ہیں کہ ہمیں یہاں سے نکال لے جائے۔
''سنو فلوری!'' روزی نے اسے جواب دیا… ''اینڈریو ہمیں یہاں سے نہیں نکال سکے گا۔ یہ جنگی جہاز ہے۔ تم دیکھ رہی ہو کہ رات کو عرشے پر بلکہ وہ اوپر دیکھو، مستول پر مچان بنائے ایک بحری سپاہی کھڑا ہے۔ فرار کی کوشش میں ہمارے ساتھ اینڈریو کے پکڑے جانے کا بھی امکان ہے۔ ہمیں اتنی جلدی مایوس نہیں ہونا چاہیے''۔
''دوسرا حربہ استعمال کریں؟'' فلوری نے پوچھا۔
''کرنا پڑے گا''۔ روزی نے کہا… ''الفارس کا نائب کپتان تو پہلے ہی ہمیں بھوکی نظروں سے دیکھتا اور مسکراتا رہتا ہے۔ یہ لوگ بڑے لمبے عرصے سے سمندر میں ہیں۔ ان کے سروں پر موت منڈلاتی رہتی ہے۔ خدا نے مرد میں عورت کی جو کمزوری پیدا کی ہے، وہ اسی کیفیت میں ابھرتی ہے۔ اشارے کی دیر ہے۔ یہ بتا دو کہ یہ کام میں کروں یا تم کرو گی۔ تمہیں مجھ سے زیادہ تجربہ حاصل ہے''۔
''میں ہی کرلیتی ہوں''۔ فلوری نے کہا۔
''لیکن اس کام کے اصول یاد رکھنا''… روزی نے کہا… ''راز لے لینا لیکن اس کی قیمت صرف دکھا دینا، ادا نہ کرنا۔ اس شخص میں اتنی تشنگی بلکہ دیوانگی پیدا کرنا کہ یہ شخص تمہیں یا الفارس کو قتل کرنے کی باتیں کرنے لگے''۔
الفارس کا نائب رئوف کرد تھا۔ وہ ان لڑکیوں کو دیکھتا اور مسکراتا رہتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ الفارس کی بیویاں یا داشتہ نہیں اور یہ خانہ بدوش ہیں، جنہیں الفارس نے اپنے جہاز میں پناہ دی ہے۔ رئوف کرد کے دل میں لڑکیوں نے ہلچل بپا کردی تھی۔ اس رات جب یہ لڑکیاں عرشے پر جنگلے کا سہارا لیے باتیں کررہی تھیں، رئوف اپنی ڈیوٹی پر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ الفارس سلطان ایوبی کے بلاوے پر جاچکا تھا۔ اب جہاز رئوف کرد کی تحویل میں تھا۔
فلوری عرشے کے جنگلے کے ساتھ کھڑی رہی۔ روزی ٹہلنے کے انداز سے وہاں سے چل پڑی اور رئوف کرد کے قریب سے گزرتے مسکرائی۔ رئوف کرد نے اسے اپنے پاس بلایا اور رسمی سی باتیں کیں۔ روزی چلنے لگی تو رئوف کردنے اسے رکنے کو کہا۔''میں آپ کے پاس رکی رہتی تو وہ (فلوری) ناراض ہوگی''۔ روزی نے کہا۔''ناراض کیوں ہوگی؟''
''اپنے اپنے دل کی بات ہے''۔ روزی نے کہا… ''ایک روز الفارس نیچے سو رہے تھے اور میں اوپر آپ کے پاس کھڑی تھی تو اس (فلوری) نے دیکھ لیا۔ بعد میں کہنے لگی… ''میری ملکیت پر قبضہ نہ کرو۔ رئوف میرا ہے۔ جب ہم مصر جائیں گے تو میںاس کے ساتھ چلی جائوں گی''… یہ الفارس کو پسند نہیں کرتی اور اس ڈر سے آپ کے قریب نہیں آتی کہ الفارس ناراض ہوگا''۔
رئوف کرد کے جذبات میں زلزلے بپا ہوگئے۔ مردانہ فطرت کی کمزوری نے اس سے ہتھیار ڈلوا لیے۔ اس نے فلوری اور روزی سے زیادہ خوبصورت لڑکیاں بھی دیکھی تھیں لیکن ان کے حسن اور ڈیل ڈول میں جو زہد شکن کشش تھی وہ اس نے کسی لڑکی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اب اسے یہ پتہ چلا کہ ان میں سے ایک اسے چاہتی ہے تو اس کا دماغ جذبات کے بنائے اس راستے پر چلنے لگا جس پر مرد جاتے نظر آتے ہیں، واپس آتے دکھائی نہیں دیتے۔ روزی اسے طلسم ہوشربا میں چھوڑ کر چلی گئی۔ اس نے اپنے کیبن میں اترنے والی سیڑھیوں پر پائوں رکھ کر پیچھے دیکھا۔ رئوف کرد آہستہ آہستہ فلوری کی طرف جارہا تھا۔
''آج رات سوئو گی نہیں جواشی؟'' رئوف کرد نے فلوری کا وہ نام لیا جو اس نے الفارس کو بتایا تھا۔ روزی نے اپنا نام از میز بتایا تھا۔ خانہ بدوشوں کے نام اسی قسم کے ہوا کرتے تھے۔
رئوف کرد کو اپنے قریب کھڑا دیکھ کر وہ ٹریننگ کے مطابق ایسے انداز سے شرمائی اور مسکرائی کہ اس انداز سے کنواری دلہن بھی نہ شرماتی ہوگی۔ رئوف کرد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو فلوری سکڑ گئی۔
''ازمیر نے مجھے تمہارے متعلق کچھ بتایا ہے''… رئوف کرد نے کہا… ''کیا یہ سچ ہے؟''
فلوری نے اس کی طرف دیکھا اور فوراً گردن گھما کر سمندر کی طرف دیکھنے لگی۔ رئوف کرد نے اپنا سوال دہرایا اور فلوری کے اس ہاتھ پر ہاتھ رکھا جو جنگلے پر رکھا تھا۔ فلوری نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ الٹا کرکے انگلیاں رئوف کرد کی انگلیوں میں الجھا دیں… تھوڑی ہی دیر بعد فلوری اس جگہ رئوف کرد کے ساتھ بیٹھی تھی، جہاںاس کی ڈیوٹی تھی۔ جہاز نے لنگر ڈال رکھے تھے۔ دو تین چار بتیاں سمندر پر تیر رہی تھیں۔ یہ الفارس کے جہاز تھے جو گشت کررہے تھے۔
آدھی رات کو رئوف کرد کی جگہ اس کے ایک ماتحت افسر کو ڈیوٹی پر آنا تھا۔ رئوف کرد نے فلوری سے کہا کہ وہ اس کے کیبن میں چلے اور وہ آتا ہے۔ فلوری چلی گئی۔
جہاز کے عرشے سے صبح کی اذان کی آواز آئی تو فلوری رئوف کرد کے کیبن سے نکلی۔ اس نے الفارس کے اس نائب کو یقین دلا دیا تھا کہ وہ اسے دل وجان سے چاہتی ہے اور الفارس کو وہ خاوند کی حیثیت سے کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اس نے رئوف کرد سے یہ بھی کہا… ''الفارس مجھے کہتا تھا کہ رئوف کے ساتھ بات نہ کرنا، بہت برا آدمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بہت برا آدمی ہے۔ اس نے ہمیں پناہ تو دی ہے لیکن ہماری مجبوری سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اگر ہم اتنی مجبور نہ ہوتی تو اتنی زیادہ قیمت کبھی نہ دیتیں''۔
رئوف کرد کے دل میں اپنی محبت کا دھوکہ اور الفارس کی دشمنی پیدا کرکے وہ اس کے کیبن سے نکل آئی اور جو باتیں اسے الفارس نے کبھی نہیں بتائی تھیں وہ رئوف کرد نے اسے بتا دیں۔
اس رات سلطان ایوبی سویا نہیں، رات اجلاس میں گزر گئی۔ وہ ایسا کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا جس سے بیت المقدس کا محاصرہ ناکام ہوجائے۔ اس نے سالاروں وغیرہ کو بیت المقدس تک پہنچنے کا راستہ نقشے پر دکھایا۔ اس نے نقشے پر ان جگہوں پر نشان لگا رکھے تھے جہاں کچھ دن پہلے صلیبیوں کی چوکیاں تھیں اور اب وہاں اپنے چھاپہ مار تھے یا ہر اول کی تھوڑی تھوڑی نفری تھی یا وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ راستہ صاف تھا۔ ایسی جگہوں پر بھی اس نے نشان لگا رکھے تھے جہاں صلیبیوں کی قلعہ بندیوں کی ساخت کی چوکیاں ابھی موجود تھیں اور ان میں نفری کچھ زیادہ تھی۔ سلطان ایوبی نے سب کو بتایا کہ اس نے ان پر قبضہ کرنے کی کوشش ہی نہیںکی کیونکہ وہ اپنی جنگی طاقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اس کا علاج اس نے یہ بتایا کہ یہ سب چوکیاں بلندیوں پر ہیں، اس لیے انہیں نظرانداز کرکے ذرا سا دور سے گزرنا ہے۔ ان میں جو فوج ہے، وہ ان میں بیٹھی رہے۔ یہ تھوڑی تھوڑی نفری باہر آکر ہمارا راستہ روکنے کی جرأت نہیں کرے گی۔
''لیکن دور سے ہمیں دیکھ کر ان میں سے قاصد بیت المقدس جا خبر دیں گے''۔ ایک سالار نے کہا… ''پھر ہم بیت المقدس والوں کو بے خبری میں نہیں لے سکیں گے''۔
''بے خبری میں جا لینے کی امید دل سے نکال دو''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''صلیبیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم بیت المقدس جارہے ہیں۔ ان کا انداز بتاتا ہے کہ وہ بیت المقدس کے راستے میں ہمارے مقابلے میں نہیں آئیں گے۔ ایک تو شہر میں پہلی فوج ہے جو کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئی۔ یہ شہر کے دفاع کے لیے محفوظ اور تیار رکھی گئی ہے، وہاں سے جاسوس اطلاع لائے ہیں کہ یہ فوج دن رات محاصرے میں لڑنے اور محاصرہ توڑنے کی مشق کرتی رہتی ہے۔ اس میں اضافہ یوں ہوا ہے کہ ہم نے جو مقامات فتح کیے وہاں کی بھاگی ہوئی فوج بھی بیت المقدس چلی گئی ہے۔ اس میں زرہ پوش نائٹ بھی ہیں۔ ہمارے جاسوسوں نے بتایا ہے کہ محاصرے کے دوران یہ نائٹ دروازوں سے باہر آکر حملے کریں گے اور ہر حملے کے بعد شہر میں چلے جائیں گے۔ انہوں نے یہ طریقہ ہم سے سیکھا ہے۔ جھپٹا مارو اور غائب ہوجائو۔ لہٰذا یہ نہ سمجھو کہ تم دشمن کو بے خبری میں جالو گے۔ دشمن تمہارے انتظار میں تیار کھڑا ہے، پھر بھی میں نے انتظام کررکھا ہے کہ صلیبیوں کی کسی چوکی سے کوئی قاصد بیت المقدس نہ پہنچ سکے۔ بیت المقدس اور ان کی چوکیوں کے درمیان ہمارے چھاپہ مار موجود ہیں۔ کسی کو زندہ نہیں جانے دیں گے''…
''فوج کی تعداد کے متعلق جاسوس مختلف اطلاعیں لائے ہیں۔ ان سے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ بیت المقدس کے اندر صلیبیوں کی باقاعدہ فوج کی تعداد ساٹھ ہزار سے کچھ زیادہ ہوسکتی ہے، کم نہیں ہوگی۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا کہ وہاں مسلمان قید اور نظر بندی میں ہیں، اس لیے وہ اندر سے ہماری کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔ اس مقابلے میں عیسائی شہری اپنی فوج کے دوش بدوش محاصرے میں بے جگری سے لڑیں گے۔ عیسائیوں نے اپنے بچوں کو بھی تیراندازی کی تربیت دے رکھی ہے۔ شہر کی دیواروں کے اوپر سے ہم پر تیر صحیح معنوں میں موسلا دھار بارش کی طرح آئیں گے۔ یہ بھی ذہن میں رکھو کہ صلیبی تیر پھینکنے کے لیے ایک نئی کمان لائے ہیں جس کی شکل صلیب کی سی ہے۔ اس سے تیر دور بھی جاتا ہے اور نشانہ بھی صحیح ہوتا ہے''۔
سلطان ایوبی نے نقشے پر حاضرین کو تمام جگہیں اور راستے وغیرہ دکھائے پھر محاصرے کے متعلق ہدایات دیں اور سب سے پوچھا کہ یہ آخری اجلاس ہے، اس لیے کسی کے ذہن میں کوئی ذرا سا بھی شک ہو تو وہ رفع کرلے اور کوئی سوال خواہ وہ کتنا ہی بے معنی کیوں نہ ہو، پوچھ لے۔ قاضی بہائوالدین شداد جو اس تاریخی جنگی مہم میں سلطان ایوبی کے ساتھ تھا، اپنی ڈائری ''سلطان یوسف پر کیا افتاد پڑی'' میں لکھتا ہے… ''سلطان ایوبی نے (اس آخری اجلاس میں) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث سنائی… ''جس کے لیے کامیابی کا دروازہ کھل جاتا ہے، اسے فوراً داخل ہوجانا چاہیے، معلوم نہیں، یہ دروازہ کب بند ہوجائے۔ سلطان ایوبی بہت تیزی سے مقبوضہ علاقے اور قلعے فتح کرتا آرہا ہے، اس لیے وہ بیت المقدس پر یلغار کو التوا میں ڈالنے کے سخت خلاف تھا۔ اس نے کہا… ''خدا نے ہماری کامیابی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ بند ہونے سے پہلے اس میں داخل ہوجائو''۔
''میرے رفیقو!'' اس نے نقشہ الگ رکھتے ہوئے کہا… ''حطین کی جنگ سے پہلے میں نے تمہیں ایک دو باتیں کہی تھیں، انہیں دہرانا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد ہم باتیں نہیں کرسکیں گے۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ ہم ایک دوسرے کو زندہ ملیں گے بھی یا نہیں۔ اس سے پہلے ہم نے صرف لڑائیاں لڑی ہیں۔ خانہ جنگی میں ایک دوسرے کا خون بہایا اور دشمن کو وقت اور مواقع فراہم کیے ہیں کہ ہمارے علاقوں میں اپنے قلعے مضبوط اور بیت المقدس کا دفاع مستحکم کرلے، پھر ہم زمین دوز جنگ لڑتے رہے۔ صلیبی طلسماتی حسن والی اور نازو ادا اور چرب زبانی کی ماہر لڑکیاں ہمارے امیروں، وزیروں، فوجی اور شہری حاکموں کے پاس بھیجتے رہے۔ صلیبیوں نے تخریب کاری اور سازش کے ماہرین ہماری صفوں میں داخل کیے۔ ان لڑکیوں اور ان آدمیوں نے جو تباہی مچائی، اس سے تم میں سے کوئی بھی بے خبر نہیں۔ علی بن سفیان، غیاث بلبیس اور ان کے محکموں نے بڑی جانفشانی سے اس نظر نہ آنے والے محاذ پر دشمن کا مقابلہ کیا۔ میرے ہاتھوں تجربہ کار حکام اور سالار غداری کے جرم میں قتل ہوئے۔ بغاوتیں ہوئیں اور ہم نے دبائیں''…
''دشمن کا مقصد کیا تھا؟… نظریاتی تخریب کاری اور ہمارے مذہب اور ایمان کو کمزور کرنا اور ہماری اٹھتی ہوئی نسل کو ذہنی عیاشی کا عادی بنا دینا۔ دشمن نے ہمارے درمیان ایمان فروش پیدا کیے۔ دشمن کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے قبلۂ اول پر قابض رہے اور ہمارے ایمان فروش بھائیوں کی مدد سے مکہ معظمہ پر بھی قابض ہوجائے، تم بھولے نہیں ہوگے کہ پانچ سال گزرے جب میں شمالی علاقوں میں دشمن سے الجھا ہوا تھا، ریجنالڈ (شہزادہ ارناط) مدینہ منورہ سے تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا۔ یہ میرے بھائی الملک العادل اور امیر البحرحسام الدین لولو کا کمال تھا کہ انہوں نے بروقت حرکت کی اور اس صلیبی کو پسپا کیا۔ میں نے اسے اپنے ہاتھوں قتل کرکے انتقام لے لیا ہے''…
''دشمن کا مقصد ہمارے مذہب کے سرچشموں کو بند کرنا اور انہیں عیسائیت کا منبع بنانا ہے۔ ہمیں دشمن کے مقصد اور عزائم کو تباہ کرنا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس جنگ کے اس پہلو کو سامنے رکھو، یہ ہماری نظریاتی جنگ ہے۔ مذہب تلوار کے زور سے پھیلا تھا یا نہیں لیکن مذہب کے تحفظ کے لیے میں تلوار کو ضروری سمجھتا ہوں۔ قوم نے تلوار سپاہی کے ہاتھ میں دی ہے اور قوم کی تاریخ نے نظر ہم پر لگا دی ہے۔ خدائے ذوالجلال کی نظریں بھی قوم کے سپاہی پر لگی ہوئی ہیں۔ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مبارک ہمیں دیکھ رہی ہے۔ ذرا غور کرو، ہماری ذمہ داری کتنی مقدس اور ہمارا فرض کتنا عظیم ہے۔ اللہ کا سپاہی حکومت نہیں کرتا، اللہ کی حکومت کا تحفظ کیا کرتا ہے''۔
سلطان ایوبی نے جذباتی سی آہ لے کر کہا… ''آہ میرے رفیقو! سولہ ہجری کا ربیع الاول یاد کرو جب عمرو بن العاص اور ان کے ساتھی سالاروں نے بیت المقدس کو کفار سے آزاد کرایا تھا۔ حضرت عمر اس وقت خلیفہ تھے۔ وہ بیت المقدس گئے۔ حضرت بلال ان کے ساتھ تھے، ان سب نے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی تھی اور اس نماز کی اذان بڑی مدت بعد حضرت بلال نے دی تھی۔ حضرت بلال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے خاموش ہوئے تھے کہ لوگ ان کی پرسوز آواز کو ترس گئے تھے۔ انہوں نے اذان دینی چھوڑ دی تھی لیکن مسجد اقصیٰ میں آکر حضرت عمر نے انہیں کہا کہ بلال! مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے درودیوار نے بڑی لمبی مدت سے اذان نہیں سنی۔ آزادی کی پہلی اذان تم نہ دو گے؟''… حضور مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد پہلی بار حضرت بلال نے اذان دی اور جب انہوں نے کہا ''اشھدان محمد رسول اللہ'' تو مسجد اقصیٰ میں سب کی دھاڑیں نکل گئی تھیں''۔
''میرے عزیز دوستو! ہمارے دور میں ایک بار پھر مسجد اقصیٰ اذان کو ترس رہی ہے۔ نوے برسوں سے اس عظیم مسجد کے درودیوار کسی مؤذن کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ یاد رکھو، مسجد اقصیٰ کی اذانیں ساری دنیا میں سنائی دیتی ہیں۔ صلیبی ان اذانوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں… اس مقدس مقصد کو سامنے رکھو۔ ہم کوئی عام سی جنگ لڑنے نہیں جارہے ہیں، ہم اپنے خون سے تاریخ کا وہ باب پھر لکھنے جارہے ہیں جو عمرو بن العاص اور ان کے ساتھیوں نے لکھاا ور ان کے بعد آنے والوں نے اس درخشاں باب پر سیاہی پھیر دی تھی، اگر چاہتے ہو کہ خدا کے حضور ماتھوں پر روشنی لے کر جائو اور اگر چاہتے ہو کہ آنے والی نسلیں تمہاری قبروں پر آکر پھول چڑھایا کریں تو تمہیں بیت المقدس میں یہ منبر رکھنا ہوگا جو بیس سال گزرے نورالدین زنگی مرحوم ومغفور نے وہاں رکھنے کے لیے بنوایا تھا''۔
اس نے یہ منبر سب کو دکھایا اور کہا… ''یہ منبر زنگی مرحوم کی بیوہ اور اس کی بیٹی لائی ہیں۔ ہمیں اس بیٹی کی لاج رکھنی ہے جو قوم کی دو سو بیٹیاں کو ساتھ لائی ہے کہ ہم میں سے کوئی میدان جنگ میں پیاسا نہ مرجائے۔ کوئی زخموں سے اس لیے نہ مرجائے کہ مرہم پٹی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ تم جانتے ہو کہ میں میدان جنگ میں عورتوں کو لانے کے حق میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ ان لڑکیوں کو میں نے اس لیے رکھ لیا ہے کہ غیرت اور قومی وقار کی یہ علامت ہمارے سامنے رہے اور ہم سب یاد رکھیں کہ ہماری اسی قسم کی بٹیاں بیت المقدس میں کفار کی درندگی اور عیاشی کا شکار ہورہی ہیں۔ یاد رکھو میرے رفیقو! قوم کی بیٹی اور قوم کے شہید کو فراموش کردینے والی قوم کو خدا بھی فراموش کردیا کرتا ہے اور اس کی لوح تقدیر پر عمر بھر کی لعنت لکھ دی جاتی ہے… یہ فیصلہ تمہیں کرنا ہے کہ تم روز قیامت لعنتیوں میں اٹھائے جائو گے یا ان میں جن کے متعلق رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا سے کہیں گے کہ یہ ہیں وہ سرفروش جنہوں نے کفر کے طوفان کو روکا اور تیرے مذہب کا نام بلند کیا تھا''۔
سلطان ایوبی ایسی جذباتی باتیں کرنے کا عادی نہیں تھا لیکن (قاضی بہائوالدین شداد اور اس دورکے وقائع نگاروں کی غیرمطبوعہ تحریروں کے مطابق) بیت المقدس کے معاملے میں وہ اس قدر جذباتی تھا کہ جب بھی اس کا ذکر کرتا، اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے یا وہ غصے میں ایک ہاتھ کی ہتھیلی پر دوسرے ہاتھ کے گھونسے مارنے لگتا اور بے چینی سے اٹھ کر ٹہلنے لگتا تھا۔ اس آخری جنگی اجلاس میں اس نے سالاروں وغیرہ کے جذبات کی یہ حالت کردی کہ وہ جب باہر نکلے تو انہوں نے آپس میں کوئی بات نہ کی۔ ان کی چال ڈھال ہی بدل گئی تھی۔ وہ سیدھے اپنے اپنے دستوں میں گئے اور اپنے کمان داروں کی بھی جذباتی حالت وہی کردی جو ان کی اپنی اور سلطان ایوبی کی تھی۔ سب چلے گئے تو سلطان ایوبی نے بحریہ کے کمانڈر الفارس بیدرون کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ سمندر کی کیا خبر ہے۔ الفارس نے اسے تفصیل سے بتایا کہ اس کے جہاز گشت کرتے رہتے ہیں اور سکندریہ سے اسے پیغام ملتے رہتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صلیبیوں کے بحری بیڑے کے کوئی آثار نہیں۔ ٹائر کی بندرگاہ میں ان کے جنگی جہاز موجود ہیں۔ میرے جاسوس چھوٹی بادبانی کشتیوں میں ماہی گیروں کے بہروپ میں وہاں جاتے رہتے ہیں۔ ٹائر اور اس سے آگے صلیبیوں کے بیڑے میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ جو بیڑہ موجود ہے، یہ تیاری کی حالت میں ہے اور صلیبیوں نے جہازوں میں جل کر اڑنے والے بارود کی نلکیاں لگا دی ہیں جو دور سے آتی ہیں اور بادبانوں کو آگ لگا دیتی ہیں۔
''یہ نلکیاں اتنی ہی دور سے آسکتی ہیں جتنی دور تمہارے جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر جاسکتے ہیں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں''۔
''ہم میں سے کسی کے بھی دل میں ڈر نہیں''۔ الفارس نے کہا… ''بحری چھاپہ مار اس حد تک تیار ہیں کہ بحری جنگ کے دوران وہ چھوٹی کشتیوں میں دشمن کے جہازوں کے قریب جا کر ان میں سوراخ کرنے اور ان پر آگ پھینکنے کو تیار ہیں''۔
''بشرطیکہ جنگ رات کو ہو''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''دن کے وقت کسی چھاپہ مار کو سمندر میں نہ اتارنا۔ جوش میں آکر جانیں ضائع ہوں گی… محتاط رہنا الفارس! جس طرح تم ماہی گیروں کے بہروپ میں اپنے جاسوس ٹائر تک بھیجتے ہو، اسی طرح دشمن کے جاسوس تمہارے جہازوں کے قریب آتے ہوں گے۔ اپنے جہازوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنا تاکہ اچانک حملے کی صورت میں سب گھیرے میں نہ آجائیں۔ انہیں اس طرح پھیلا رکھو کہ دشمن کو گھیرے میں لے سکو۔ آپس میں رابطہ دن میں جھنڈیوں سے اور رات کو بتیوں سے رکھو''۔
جب الفارس سلطان ایوبی سے رخصت ہوا، سحر کا وقت ہوگیا تھا۔ وہ نماز کے لیے وہیں رک گیا۔
''الفارس!'' اسے اپنے قریب آواز سنائی دی۔ اس نے دیکھا، وہ انٹیلی جنس کا کمانڈر حسن بن عبداللہ تھا، اس نے الفارس سے ہاتھ ملا کر پوچھا… ''مبارک ہو بھائی! ایک ہی بار دو لڑکیوں سے شادی کرلی ہے؟ دونوں کو ساتھ رکھا ہوا ہے؟ اپنے ساتھ مروانے کا ارادہ ہے؟''
''اوہ حسن!'' الفارس نے اندھیرے میں اسے پہچانتے ہوئے کہا… ''وہ تو یار، پناہ گزین لڑکیاں ہیں، یہیں ساحل پر چھپی ہوئی تھیں۔ خانہ بدوش ہیں۔ کہتی تھیں کہ ان کا سارا قبیلہ جنگ کی زد میں آکر گھوڑوں تلے کچلا گیا ہے''۔
''اور یہ محض اتفاق ہے کہ یہ دو لڑکیاں زندہ رہیں اور ساحل تک پہنچ گئیں''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا… ''صلیبیوں نے باقی سب خانہ بدوشوں کو گھوڑوں تلے روند ڈالا اور اتنی زیادہ خوبصورت دو لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیا… سمندر میں رہ کر تم خشکی پر رہنے والے انسانوں کی فطرت کو شاید بھول گئے ہو''۔
الفارس ہنس پڑا اور بولا… ''حسن بھائی! جاسوسی کرتے کرتے تم اب چیلوں اور کوئوں کو بھی صلیبیوں کے جاسوس سمجھنے لگے ہو۔ تم یہی کہنا چاہتے ہو نا کہ یہ لڑکیاں دشمن کی جاسوس ہوں گی''۔
''ہوسکتی ہیں''۔ حسن نے کہا… ''تم کچھ زیادہ ہی زندہ دل ہو، الفارس! ان لڑکیوں کو ٹائر کے قریب ساحل پر اتار آئو۔ اجنبی لڑکیوں کو جنگی جہاز میں رکھنا مناسب نہیں''۔
''یہ نیکی نہیں ہوگی کہ میں انہیں مصر لے جا کر ان کے ساتھ شادی کرلوں؟'' الفارس نے کہا… ''یا ایک کے ساتھ شادی کرلوں اور دوسری کی شادی کسی اور اچھے آدمی سے کرادوں؟ غریب لڑکیاں ہیں۔ انہیں ساحل پر اتار دوں تو تم جانتے ہو کہ صلیبی ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے''۔
''ہوسکتا ہے، وہ صلیبی ہی ہوں''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا… ''سنو الفارس! تم بچے نہیں ہو، معمولی سپاہی بھی نہیں ہو۔ بحریہ کے تجربہ کار کمانڈر ہو۔ سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کرو، مجھے بتایا گیا ہے کہ تم فرصت کا سارا وقت ان لڑکیوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے گزارتے ہو۔ ہزار قسمیں کھائو، میں نہیں مانوں گا کہ تم نے انہیں پاک صاف اور نیک لڑکیاں بنا کے رکھا ہوا ہے۔ وہ اگر تمہیں دھوکہ نہ دیں تو تم اپنے آپ کو دھوکہ دے سکتے ہو۔ حسین اور جوان عورت کاجادو فرائض سے گمراہ کردیتا ہے… بہت کچھ ہوسکتا ہے الفارس! ان لڑکیوں کو کہیں چھوڑ آئو''۔
''اگر میں نے تمہارا کہا نہ مانا تو؟''
''تو مجھے دیکھنا پڑے گا کہ یہ لڑکیاں کیسی ہیں''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا… ''اگر مشکوک ہیں تو میں انہیں تمہارے جہاز سے اتروا کر اپنے پاس بلا لوں گا مگر میں تم پر چھوڑتا ہوں۔ ہم پرانے د وست ہیں۔ تم خود ہی کوشش کرو کہ میں فرض کی ادائیگی میں دوستی کو قربان نہ کردوں''۔
''مجھ سے کسی بے ہودگی کی توقع نہ رکھو حسن!'' الفارس نے کہا… ''تم دوستی کی بات کرتے ہو۔ میں تو فرض کی ادائیگی میں اپنی جان بھی قربان کردوں گا۔ یہ لڑکیاں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ مجھے ان پر ذرا سا بھی شک ہوا تو انہیں ساحل پر اتاروں گا نہیں، زندہ سمندر میں پھینک دو گا''۔
''واپس کس وقت جارہے ہو؟'' حسن بن عبداللہ نے پوچھا۔
''نماز پڑھ کر کچھ دیر سوئوں گا۔ بہت تھک گیا ہوں''۔ الفارس نے کہا… ''پھر چلا جائوں گا۔ شام تک کشتی جہاز تک پہنچا دے گی''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
الفارس سے فارغ ہوکر حسن بن عبداللہ اس کمرے کی طرف چلا گیا جہاں اس کے محکمے کے آدمی رہتے تھے۔ ان میں سے ایک کو باہر بلا کر اسے کہا کہ الفارس بیدرون کا جہاز فلاں مقام پر لنگر انداز ہے۔ وہ کشتی میں جہاز تک جائے اور الفارس کے نائب رئوف کرد سے کہے کہ اسے حسن بن عبداللہ نے بھیجا ہے۔ رئوف کرد کے نام حسن نے پیغام دیا کہ اس آدمی کو کسی ڈیوٹی پر لگا لے۔ اسے دونوں لڑکیوں کے متعلق معلوم کرنا ہے کہ جہاز میں ان کی کوئی درپردہ سرگرمی تو نہیں؟ اگر ہے تو لڑکیوں کو جہاز سے ہٹا کر اپنے پاس بلا لیا جائے۔
حسن بن عبداللہ نے اپنے اس آدمی کو ہدایات دیں اور ایک بادبانی کشتی کا انتظام کرکے اسے رخصت کردیا۔ ہوا کا رخ بڑا اچھا تھا اور ہوا تیز تھی۔ کشتی جلدی جہاز تک پہنچ گئی۔ جہاز سے رسہ لٹکا کر اس آدمی کو اوپر کرلیا گیا۔ وہ رئوف کرد سے ملا۔ اسے پیغام دیا اور اپنا مقصد زبانی بھی بتایا اور یہ بھی بتایا کہ وہ تجربہ کار جاسوس ہے۔ رئوف کرد کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اسے یہ آدمی اچھا نہیں لگا لیکن اس آدمی کے خلاف وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ سلطان ایوبی کے دل میں جتنی قدر ایک جاسوس کی ہے، اتنی سالار کی بھی نہیں اور ایک جاسوس کی رپورٹ پر ایک سالار کو سزائے موت دی جاسکتی ہے، چنانچہ اس نے حسن بن عبداللہ کے اس جاسوس کی خاطر تواضع کی۔
''آپ لڑکیوں کو پہلے دن سے دیکھ رہے ہیں''۔ جاسوس نے رئوف کرد سے پوچھا… ''ان کے متعلق آپ کو ذرا سا بھی شک ہے تو بتا دیں۔ ہم انہیں عسقلان تفتیش کے لیے لے جائیں گے''۔
''میں نے ابھی تک ان کی کوئی حرکت مشکوک نہیں دیکھی''۔ رئوف کرد نے جواب دیا… ''زیادہ تر الفارس کے کمرے میں رہتی ہیں''۔
رئوف کرد کو فوراً فلوری کا خیال آگیا تھا۔ اگر جاسوس ایک روز پہلے آتا تو رئوف کرد کا جواب یہ ہوتا کہ ان لڑکیوں کو یہاں سے لے جائو کیونکہ چھ جہازوں کا کمانڈر ان لڑکیوں کے ساتھ مگن رہتا ہے مگر فلوری نے گزشتہ رات اسے بتایا تھا کہ وہ اسے دل وجان سے چاہتی ہے۔ روزی ان کی ہم راز تھی۔ اب رئوف کرد کسی قیمت پر فلوری سے جدا نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس کے دل میں الفارس کی دشمنی پیدا ہوگئی تھی لیکن وہ الفارس کو لڑکیوں سے محروم نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہ خود فلوری سے محروم ہوجاتا۔
''مجھے اب آپ کے ساتھ رہنا ہے''۔ جاسوس نے کہا… ''الفارس کو معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ میں جاسوسی کے لیے یہاں آیا ہوں۔ آپ نے حکم پڑھ لیا ہے۔ میں خود دیکھوں گا کہ لڑکیاں کیسی ہیں اور کیا کرتی ہیں۔ مجھے اگر ان پر جاسوسی کا نہیں، صرف یہ شک بھی ہوا کہ الفارس ان میں فرائض کے اوقات میں محو رہے ہیں تو میں ان لڑکیوں کو یہاں نہیں رہنے دوں گا۔ اگر الفارس کو پتہ چل گیا کہ میں یہاں جاسوسی کررہا ہوں تو مجھے آپ کے خلاف یہ بیان دینا پڑے گا کہ میرے متعلق الفارس کو آپ نے بتایا ہے کیونکہ آپ کے سوا کسی کو علم نہیں کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں''۔
یہ جنگی جہاز تھا جس میں جہاز کا عملہ بھی تھا اور اس میں بحری لڑائی کی تربیت یافتہ بری فوج بھی تھی۔ جہاز کی صفائی وغیرہ، کھانا پکانے اور دیگر کاموں کے لیے فوجی ملازم بھی تھے۔ وہاں ایک آدمی کا اصل روپ چھپائے رکھنا مشکل نہ تھا۔ الفارس کمانڈر تھا۔ وہ ان چھوٹے چھوٹے ملازموں اور سپاہیوں میں سے کسی کو الگ کرکے نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ آدمی ا جنبی ہے جسے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ رئوف کرد جگہ جگہ گھوم پھر سکتا تھا مگر رئوف کو یہ شخص بالکل پسند نہیں آیا تھا۔
جاسوس نے اسی روز دونوں لڑکیوں کو دیکھ لیا اور اس نے اسی روز رئوف کرد سے کہہ دیا… ''یہ لڑکیاں خانہ بدوش نہیں اور یہ مصیبت زدہ بھی نہیں۔ مجھے شک ہوگیا ہے''۔
''اتنے دنوں سے ہمارے ساتھ ہیں''۔ رئوف کرد نے کہا… ''مجھے ان پر کوئی شک نہیں ہوا''۔
''آپ کی آنکھ وہ نہیں دیکھ سکتی جو میری آنکھ دیکھ سکتی ہے''۔ جاسوس نے کہا… ''ٹھنڈے علاقوں کی خانہ بدوش عورتوں کے رنگ ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن ان کی آنکھوں کا رنگ ایسا نہیں ہوتا اور ان میں یہ نفاست اور نزاکت نہیں ہوتی… محترم! ہماری جنگ ایسی ہی لڑکیوں سے رہتی ہے۔ یہ لڑکیاں یہاں نہیں رہیں گی''۔
''کچھ دن دیکھ لو''۔ رئوف کرد نے کہا… ''کہیں ایسا نہ ہو کہ جو واقعی مصیبت زدہ ہوں اور تم انہیں کسی اور مصیبت میں ڈال دو''۔
''ہاں!'' جاسوس نے کہا۔ ''میں جلد بازی نہیں کروں گا، کچھ دن دیکھ کر یقین کروں گا''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی