👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟙 𝟙 𝟙⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟙  𝟙  𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حطین میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے جو فتح حاصل کی تھی، وہ معمولی نوعیت کی نہیں تھی۔ سات صلیبی حکمران متحد ہوکر سلطان ایوبی کی جنگی قوت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور اس کے بعد مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ پر قبضہ کرنے آئے تھے لیکن وہ اپنی جنگی قوت کا یہ حشر کرا بیٹھے جیسے صحرا کا ٹیلہ آندھی سے ریت کے ذروں کی صورت میں صحرا میں بکھر جاتا ہے۔
چار مشہور اور طاقت ور حکمران جنگی قیدی بنے جن میں یروشلم (بیت المقدس) کا حکمران گائی آف لوزینان قابل ذکر ہے۔ صلیبی فوج کا مورال ٹوٹ گیا اور سلطان ایوبی کی فوج کا مورال بلند ہوگیا۔
جنگ ختم ہوچکی تھی، چھاپہ ماروں کی جنگ جاری تھی۔ وہ بھاگنے والے صلیبی سپاہیوں کو پکڑ رہے تھے۔ صلیبیوں کے حوصلے اس حد تک پست ہوچکے تھے کہ قاضی بہائوالدین شداد کے الفاظ میں ''ایک شخص نے جس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ سچ بولتا ہے، مجھے بتایا کہ اس نے اپنی فوج کے سپاہی کو د یکھا جو تیس صلیبی سپاہیوں کو خیمے کی ایک ہی رسی سے باندھے ہوئے لارہا تھا''۔ ایسے مناظر تو کئی ایک دیکھنے میں آئے کہ ایک ایک مسلمان سپاہی کئی کئی صلیبی سپاہیوں کو نہتہ کرکے ہانک کر لا رہا ہے۔ بعض یورپی مؤرخوں نے صلیبیوں کی اس شکست کے اسی قسم کے کئی واقعات لکھے ہیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی جنگی اہلیت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
بحیرۂ روم کے ساحل پر اسرائیل کے شمال میں عکرہ ایک مشہور شہر تھا جسے بعض نے علّہ بھی لکھا ہے۔
اس شہر کی شہرت کی وجہ یہ ہے کہ وہاں صلیب اعظم کا محافظ پادری رہتا تھا۔ پچھلی قسط میں سنایا جاچکا ہے کہ وہ صلیب عکرہ کے بڑے گرجے میں رکھی تھی جس کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی پر مصلوب کیا گیا تھا۔ اسے صلیب الصلبوت کہتے تھے۔ سلطان ایوبی کے خلاف لڑنے والے بلکہ دنیائے عرب پر قبضہ کرنے کے لیے لڑنے والے عیسائی اسی صلیب پر حلف اٹھاتے تھے۔ اسی لیے انہیں صلیبی کہا گیا تھا۔ حلف اٹھانے والے ہر صلیبی کے گلے میں لکڑی کی چھوٹی سی صلیب تعویذ کی طرح ڈال دی جاتی تھی۔ لہٰذا جتنے صلیبی فوجی جنگ میں گرتے تھے، اتنی ہی صلیبیں گرتی تھیں۔ علامہ اقبال نے اس کو فصلِ صلیبی کہا ہے۔
حطین اور اس کے گردونواح کے میل ہا میل علاقے میں اور اس سے بھی دور دور جہاں جہاں جنگ لڑی گئی تھی، صلیبیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ مرنے والے تڑپ تڑپ کر مرے تھے۔ معمولی طور پر زخمی ہونے والے بھی مر گئے تھے جس کی وجہ زخم نہیں پیاس تھی۔ آہن پوش نائٹوں کے لیے زرہ بکتر تنور بن گئی اور ان کی موت کا باعث بنی تھی۔ زخمیوں کو پانی پلانے والا کوئی نہ تھا، نہ کوئی ان کی مرہم پٹی کرنے والا تھا۔ ان میں مسلمان زخمی اور شہید بھی تھے۔ انہیں رات مشعلوں کی روشنی میں اٹھا لیا گیا تھا۔
آج کے دور کا ایک مؤرخ انتونی ویسٹ اس دور کے مؤرخوں کے حوالے سے لکھتا ہے کہ حطین کے میدان جنگ میں لاشوں کی تعداد تیس ہزار سے اوپر تھی۔ لاشیں اٹھانے کا کوئی انتظام نہ کیا گیا۔ ان کے جو ساتھی زندہ رہے، وہ جنگی قیدی ہوگئے یا تتر بتر ہوکر بھاگ گئے تھے۔ انتونی ویسٹ نے لکھا ہے کہ ان لاشوں کو مردار خور پرندوں اور درندوں نے کھایا۔ مردار خور اتنے نہیں تھے جتنی لاشیں تھیں۔ بہت سی لاشیں چند دنوں میں ہڈیوں کے سالم ڈھانچوں میں بدل گئیں۔ بلندی سے دیکھنے والے کو حد نگاہ تک زمین ہڈیوں کی وجہ سے سفید نظر آتی تھی۔ ان ہڈیوں میں ہزاروں چھوٹی چھوٹی صلیبیں بکھری ہوئی تھیں جیسے پکے ہوئی فصل سے پھل گر کر خشک ہوگیا ہو۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہ فصل کاٹ ڈالی تھی۔ اسے اس علاقے کو لاشوں سے صاف کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اسے وہاں رکنا نہیں تھا۔ اس کی منزل بیت المقدس تھی لیکن وہ باتیں عکرہ کی کررہا تھا۔ عکرہ کے متعلق ہم بتا چکے ہیں کہ صلیب الصلبوت کی بدولت اسے وہی مقام حاصل ہوگیا تھا جو ہمارے لیے مکہ معظمہ کا ہے۔ تمام صلیبی حکمران عکرہ جاکر صلیب کے محافظ اعظم سے دعا لیتے اور صلیب اعظم کو چوم کر میدان جنگ میں جاتے تھے لیکن اب یہ صلیب سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے کے باہر پڑی تھی۔ اس کا محافظ اعظم پادری مارا جاچکا تھا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ صلیبی دل چھوڑ بیٹھے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
''ہمیں اب سیدھا عکرہ پر یلغار کرنی ہے''… سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں اور نائب سالاروں سے کہا… ''اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے پورا محفوظہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑی''… اس نے سب پر نگاہیں دوڑائیں اور مسکرا کر کہا… ''یہ نہ سمجھو کہ مجھے آپ کی اور آپ کے دستوں کی تھکن کا احساس نہیں۔ اس کا اجر تمہیں اللہ دے گا۔ تمہارا حج مسجد اقصیٰ میں ہوگا۔ اگر ہم یہاں آرام کرنے بیٹھ گئے تو صلیبی کہیں جمع ہوکر تازہ دم ہوجائیں گے۔ میں انہیں زخم چاٹنے کی بھی مہلت نہیں دینا چاہتا''۔
سالار قدرے حیران ہوئے۔ انہیں توقع تھی کہ سلطان بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کا حکم دے گا مگر اس نے عکرہ پر حملے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس کے پیچھے صلیب الصلبوت رکھی تھی۔ اس نے صلیب کو دیکھا اور کچھ دیر دیکھتا رہا۔ حاضرین پر خاموشی طاری رہی۔ اس نے اچانک تیزی سے سالاروں کی طرف گھوم کر کہا… ''میرے رفیقو! یہ د و عقیدوں کی جنگ ہے۔ یہ حق اور باطل کا تصادم ہے، اس صلیب پر جما ہوا خون دیکھو۔ یہ خون حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نہیں، یہ خون اس پادری کا نہیں جسے عیسائی دنیا اس صلیب کا محافظ مانتی تھی اور یہ خون ان راہبوں کا بھی نہیں جنہوں نے یہ اتنی بڑی صلیب میدان جنگ میں اٹھا رکھی تھی۔ وہ سب اللہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں لیکن یہ خون ان میں سے کسی کا بھی نہیں۔ یہ باطل کا خون ہے، یہ بے بنیاد عقیدے کا اور یہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظریئے کا خون ہے''۔
سلطان ایوبی کی آواز میں جذبات کا جوش پیدا ہوگیا۔ اس نے کہا… ''میں ہر جنگی مہم جمعہ کے روز شروع کرتا ہوں۔ پیش قدمی جمعہ کے روز کرتا ہوں، جمعہ مبارک دن ہے۔ میں ہر مہم کی ابتداء جمعہ کے خطبے کے وقت کیا کرتا ہوں کیونکہ یہ وقت قبولیت ایزدی کا ہوتا ہے اور جب تم دشمن سے لڑ رہے ہوتے ہو، تم پر تیروں کا مینہ برس رہا ہوتا ہے، دشمن کی منجنیقیں تم پر آگ اور پتھر برسا رہی ہوتی ہیں، اس وقت قوم کے ہر فرد بشر کے ہاتھ اللہ کے حضور تمہاری سلامتی اور فتح کے لیے اٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ تم نے دیکھا نہیں کہ میں نے کوچ جمعہ کے روز کیا تھا اور اس جنگ کی ابتدا بھی جمعہ کے روز کی تھی؟ اور تم فاتح ہو۔ تمہیں اللہ کی خوشنودی حاصل ہے۔ یہ ہمارے عظیم عقیدے اور نظریئے کی فتح ہے۔ یہ چاند ستارے اور چوبی صلیب کا معرکہ تھا جو چاند ستارے نے جیت لیا… میں تم سے یہ باتیں کیوں کہہ رہا ہوں؟ اس لیے کہ تم میں سے کسی کے دل میں اپنے عقیدے کے متعلق کچھ شک ہو تو وہ رفع ہوجائے اور تم اللہ کی رسی کو اور زیادہ مضبوطی سے پکڑ لو''…
''تم شاید حیران ہورہے ہو کہ میں نے عکرہ پر حملے کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔ جذباتی لحاظ سے اس کی وجہ یہ ہے کہ صلیبیوں نے ایک بار مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ شہزادہ ارناط (کائونٹ ریجنالڈ) مکہ معظمہ سے صرف دو کوس دور رہ گیا تھا۔ میں نے ارناط سے مکہ معظمہ کو بری نظر سے دیکھنے کا انتقام لے لیا۔ اب مجھے صلیبیوں کے حکمرانوں اور نائٹوں سے انتقام لینا ہے۔ عکرہ ان کا مکہ ہے۔ میں اسے تہہ تیغ کروں گا۔ مسجد اقصیٰ کی جو بے حرمتی ہورہی ہے ، میں اس کا انتقام لوں گا… اور جنگی لحاظ سے بیت المقدس سے پہلے عکرہ پر قبضہ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے صلیبیوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے''۔
سلطان ایوبی نے بہت بڑا نقشہ جو اس نے اپنے ہاتھ سے بنا رکھا تھا، کھول کر سب کے آگے پھیلایا اور حطین پر انگلی رکھ کر کہا… ''تم اس وقت یہاں ہو''… وہ اپنی انگلی اس طرح عکرہ تک تیزی سے لے گیا جیسے اس نے کچھ کاٹنے کے لیے خنجر کی نوک چلائی ہو۔ کہنے لگا… ''میں صلیبیوں کے حکمرانوں کو دو حصوں میں کاٹ کر ان حصوں کے درمیان آجائوں گا ۔ عکرہ پر قبضہ کرکے میں ٹائِر، بیروت، حیفہ، عسقلان اور چھوٹے بڑے تمام ساحلی شہروں اور قصبوں کو تباہ و بربادکروں گا۔ کسی بھی صلیبی کو خواہ وہ فوجی ہے یا غیرفوجی ان علاقوں میں نہیں رہنے دوں گا۔ ساحلی علاقوں پر قبضہ اس لیے بھی ضرورت ہے کہ یورپ کی کچھ اور بادشاہیاں اپنے صلیبی بھائیوں کی مدد کے لیے اپنی فوجیں، مال ودولت اور جنگی سامان بھیجیں گی۔ ساحل تمہارا ہوگا تو دشمن کا کوئی بحری جہاز ساحل کے قریب نہیں آسکے گا۔ یہاں سے ہم بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ ہمیں جنگ جاری رکھنی ہے''۔
اگر آپ فلسطین (موجودہ اسرائیل) اور لبنان کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو جھیل گیلیلی کے کنارے پر حطین اور اس کے بالمقابل سمندر کے کنارے عکرہ نظر آئیں گے۔ جنوب میں یروشلم (بیت المقدس) ہے۔ حطین سے عکرہ پچیس میل اور حطین سے بیت المقدس ستر میل ہے۔ آج کے لبنان اور فلسطین پر صلیبی قابض تھے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے پلان بنایا تھا کہ حطین سے عکرہ تک اس طرح پیش قدمی کرے گا کہ راستے میں آنے والے علاقوں پر قبضہ کرتا جائے گا اور وہاں کے صرف مسلمان باشندوں کو وہاں رہنے دے گا اور صلیبیوں کو وہاں سے نکال دے گا۔ جنگی علوم کے ماہرین نے اسے نہایت عمدہ پلان کہا ہے۔ سلطان ایوبی نے یہ پلان صلیبیوں کی جنگی قوت کو دو حصوں میں کاٹنے کے لیے ہی بنایا تھا۔ اس کی فوج صلیبیوں کے مقابلے میں صلیبیوں کے اتنے زیادہ جانی نقصان کے باوجود کم تھی لیکن اس کی جنگی چالیں صلیبیوں سے برتر اور نقل وحرکت کی رفتار بہت تیز تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
''عکرہ کا دفاع بہت مضبوط ہے''… سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں سے کہا… ''ہمارے جاسوسوں نے بتایا ہے کہ وہاں جوان اور تندرست مسلمان باشندے قید میں پڑے ہیں۔ عورتیں اور بچے بھی قید میں ہیں، وہاں کے عیسائی شہری شہر کے دفاع میں جان کی بازی لگا کر لڑیں گے۔ چونکہ مسلمان قید میں ہیں، اس لیے وہ اندر سے ہماری کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔ میں لمبا محاصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ تمہاری یلغار طوفانی ہونی چاہیے۔ عکرہ تک ہماری پیش قدمی کی حفاظت چھاپہ مار کریں گے۔ پیش قدمی پھیل کر ہوگی۔ راستے میں کوئی بستی آباد نہ رہے مگر سپاہی مال غنیمت کے لیے رکیں نہیں۔ اس کام کے لیے الگ جیش مقرر کردئیے گئے ہیں''۔

عکرہ میں مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ کوئی بوڑھا یا ا پاہج مسلمان آزاد ہوگا۔ باقی سب دہشت زدگی کی زندگی گزار رہے تھے۔ بہائوالدین شداد نے ان مسلمانوں کی تعداد جو قید میں تھے، چار ہزار سے زائد لکھی ہے۔ شداد کے علاوہ اس دور کے دو وقائع نگاروں نے پانچ اور چھ ہزار کے درمیان لکھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ عکرہ مسلمانوں کے لیے قید خانہ تھا۔ کسی مسلمان کی بہو بیٹی کی عزت محفوظ نہیں تھی۔ صلیبیوں کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان چلتی پھرتی لاشیں بن کے رہ جائیں اور ان کے بچوں میں مذہب اور قومیت کا احساس ہی پیدا نہ ہو، وہاں کی مسجدیں ویران ہوگئی تھیں۔
٤جولائی ١١٨٧ء کے بعد وہاں کے مسلمانوں پر صلیبیوں نے ظلم وتشدد کا اضافہ کردیا۔ گھروں میں جو مسلمان تھے، انہیں بھی ہانک کر کھلے قید خانے میں لے گئے۔ یہ ایک طرح کا بیگار کیمپ تھا۔ وہاں مسلمانوں سے مویشیوں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔ ٥جولائی ١١٨٧ء کے بعد انہیں کام کے لیے باہر نہ نکالا گیا اور ان پر پہرہ اور سخت کردیا گیا۔ اس سے ان بدنصیبوں نے اندازہ لگا لیا کہ صلیبیوں کو کہیں شکست ہوئی ہے یا اسلامی فوج نے شہر کا محاصرہ کرلیا ہے۔ عورتیں خدا کے حضور گڑگڑانے لگیں۔ سجدوں پہ سجدے کرنے لگیں۔ قید خانے میں سسکیاں سنائی دینے لگیں، مائوں نے ننھے ننھے بچوں کے ہاتھ پکڑ کر دعا کے لیے اٹھائے اور کہا… ''بیٹا! کہو اللہ اسلام کو فتح دے، کہو میرے اللہ باہر کے مسلمانوں کو ہمت دے کہ ہمیں ظالموں کی بستی سے نکال لے جائیں''۔
سینکڑوں بچے اور سینکڑوں عورتیں اللہ کے حضور دست بدعا تھیں۔ بچے اپنی مائوں کو سسکتا دیکھ کر رونے لگے تھے۔ انہیں آہ وبکا سنائی دی اور اس کے ساتھ کوڑوں کے زناٹے بھی سنائی دینے لگے۔ سب سہم گئے، انہوں نے دیکھا کہ بہت سے قیدی لائے جارہے تھے۔ یہ شہر کے وہ باشندے تھے جو گھروں میں تھے۔ ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی ساتھ لے آئے تھے، ان پر کوڑے برسائے جارہے تھے۔
٧/٦جولائی کی درمیانی رات آدھی گزر گئی تھی جب شہر میں بڑبونگ بپا ہوگئی اور آگ کے شعلے کہیں کہیں سے بلند ہونے لگے۔ تیر اس کھلے قید خانوں میں بھی گرنے لگے۔ ان قیدیوں کے اردگرد خشک زردار جھاڑیوں کی گھنی باڑ بچھی ہوئی تھی اور رسوں کے جال بھی تنے ہوئے تھے۔ رات کو قید خانے کے اردگرد جگہ جگہ مشعلیں جلا کر رکھ دی گئیں تاکہ قیدیوں پر نظر رکھی جاسکے۔ کسی قیدی نے باہر سے آیا ہوا ایک تیر اٹھا کر مشعل کی روشنی میں دیکھا تو اس نے چلا کر کہا… ''میں اس تیر کو پہچانتا ہوں، یہ اسلامی فوج کا تیر ہے''۔
رسوں کے جال میں سے ایک تیر سنسناتا آیا جو اس قیدی کے سینے میں اتر گیا۔ یہ کسی صلیبی سنتری نے اس مسلمان کو خاموش کرنے کے لیے چلایا تھا۔ شہر جاگ اٹھا۔ شہر اور قلعے کی دیواروں پر بھاگ دوڑ اور شور میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور کمانوں سے تیر نکلنے کی آوازیں بڑھتی جارہی تھی۔ باہر ''اللہ اکبر'' کے نعرے گرجنے لگے تھے، دھمک دھمک کی آوازیں بھی سنائی دینے لگی تھیں۔ یہ بڑے بڑے پتھر تھے جو سلطان ایوبی کی فوج کی منجنیقیں دیوار کے کسی ایک مقام پر پھینک رہی تھیں۔
یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا محاصرہ تھا جو محاصرہ کم اور یلغار زیادہ تھی۔ شہر میں آگ پھینکنے والی منجنیقوں کے علاوہ دروازوں اور دیوار پر وزنی پتھر پھینکنے والی بڑی منجنیقیں بھی استعمال کی جارہی تھیں۔ بلند مچانیں ساتھ لائی گئی تھیں، ہر ایک مچان میں دس اور بیس تک سپاہی کھڑے ہوسکتے تھے۔ ان کے نیچے پہئے تھے، انہیں گھوڑے یا اونٹ کھینچتے تھے۔ یہ متحرک مچانیں دیوار تک لے جائی جاتی تھیں مگر صلیبی شہر کے دفاع میں بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ شہر ی بھی اپنی فوج کے دوش بدوش لڑ رہے تھے۔ وہ سلطان ایوبی کی متحرک مچانوں پر تیروں کی بوچھاڑیں مار کر مسلمان سپاہیوں کو ختم کردیتے تھے۔
بعض مچانیں جو دیوار کے قریب چلی گئی تھیں، ان پر صلیبیوں نے جلتی ہوئی مشعلیں پھینکیں اور آتش گیر سیال کی
ہنڈیاں پھینک کر انہیں جلا ڈالا ..
اندر قیدی کیمپ میں اب یہ کیفیت تھی کہ ہزار ہا قیدی ایک ہی آواز میں لا الہ الا اللہ کا ورد کررہے تھے۔ عورتوں نے جھولیاں پھیلا رکھی تھیں اور بہتے آنسوئوں سے مردوں کے ساتھ آواز ملا کر کلمہ شریف کا ورد کررہی تھیں۔ پھر کسی نے بلند آواز سے کہا… ''نصر من اللہ وفتح وقریب''… فوراً ہی تمام مردوں، عورتوں اور بچوں کی آوازیں ایک آواز بن گئی جو جنگ کے شوروغل سے زیادہ بلند تھیں اور سارے شہر میں سنائی دے رہی تھی۔
دو تین سنتری اندر آگئے، وہ قیدیوں کو خاموش کرانے کی کوشش کرنے لگے، تین چار جوشیلے جوان اٹھے اور سنتریوں پر ٹوٹ پڑے۔ پھاٹک کھلا تھا، باقی قیدی باہر کو دوڑے مگر تیروں کی بوچھاڑ نے آگے والوں کو گرا دیا، پھر گھوڑے سرپٹ دوڑتے آئے۔ سواروں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں، قیدی اندر کو بھاگے اور جو پیچھے رہ گئے تھے، وہ سواروں کی برچھیوں سے شہید ہوگئے۔ فرار کامیاب نہ ہوسکا۔ عورتیں اور بچے اللہ کے حضور سجدے کرنے لگے اور پھر سب ایک ہی آواز میں کلام پاک کا ورد کرنے لگے۔
رات بھر سلطان ایوبی کے جانباز جیش دیوار تک پہنچنے اور شگاف ڈالنے یا سرنگ کھودنے کے لیے آگے بڑھتے رہے اور اوپا جال توڑنے کی کوشش کررہے تھے۔
سلطان ایوبی ان سے دور ہی رک گیا۔ یہ تو انسانی لاشیں تھیں، اس نے عورتوں اور بچوں کو دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
''جائو، رسے کاٹ دو۔ انہیں آزاد کردو''… سلطان ایوبی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا… ''اور انہیں یہ نہ بتانا کہ میں شہر میں موجود ہوں، میں ان کا سامنا نہیں کرسکتا''۔
سلطان ایوبی کے حکم پر چند ایک سوار سرپٹ گھوڑے دوڑا کر پہنچے۔ انہوں نے لکڑی کا پھاٹک توڑ دیا۔ کئی جگہوں سے رسوں کا جال کاٹ کر جھاڑیاں ہٹا دیں۔ قیدیوں کا ہجوم بھگدڑ کے انداز سے نکل رہا تھا۔ سواروں نے ان پر قابو پانے کے لیے چلا چلا کر کہا… ''آرام سے نکلو، اب تمہیں پکڑنے کوئی نہیں آئے گا۔ وہ دیکھو، قلعے پر تمہارا جھنڈا لہرا رہا ہے''۔
''انہوں نے ہمارے گناہوں کی سزا بھگتی ہے''… سلطان ایوبی نے اپنے پاس کھڑے ایک سالار سے کہا… ''یہ غداروں کے گناہ تھے جن کی سزا ان معصوموں کو ملی۔ اپنے دین کے دشمنوں کو دوست سمجھنے والوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ قوم کا کیا حشر ہوگا۔ اگر میرا راستہ تخت وتاج کے شیدائی اور غدار نہ روک لیتے تو ہمارے ان ہزاروں بچوں اور بیٹیوں کی یہ حالت نہ ہوتی… حضرت عیسیٰ علیہ ا لسلام نے محبت اور امن کا سبق دیا تھا لیکن صلیب کے پجاریوں میں مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت بھری ہوئی ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کے فرمان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ دنیا میں صرف دو مذہب باقی رہیں گے۔ اسلام اور عیسائیت۔ اگر ہم نے دل سے دنیا کی جھوٹی لذتوں کو نہ نکالا تو عیسائیت ہماری اس کمزوری سے اسلام کا خاتمہ کردے گی''۔
سلطان ایوبی اس جگہ گیا جہاں صلیبی جرنیل اور دیگر کمانڈر الگ کھڑے تھے۔ اس نے کہا… ''ان سب کو ساحل پر لے جائو اور سب کو قتل کرکے سمندر میں پھینک دو۔ دوسرے جنگی قیدیوں میں سے چھانٹی کرلو، جنہیں زندہ رکھنا چاہتے ہو، انہیں دمشق بھیج دو اور باقی سب کو ختم کردو۔ کسی نہتے شہری پر ہاتھ نہ اٹھانا۔ ان میں سے جو شہر سے جانا چاہتے ہیں انہیں مت روکو، جو یہاں رہنا چاہتے ہیں، انہیں عزت سے رہنے دو''۔
٨جولائی ١١٨٧ء عکرہ پر قبضہ مکمل ہوچکا تھا۔
رات جب سلطان ایوبی کھانے سے فارغ ہوا تو اسے اطلاع دی گئی کہ ایک نہایت اہم قیدی اس کے سامنے لایا جارہا ہے۔
''کون ہے وہ؟''
''ہرمن''۔ سلطان کو بتایا گیا۔ ''صلیبیوں کا علی بن سفیان''۔
قارئین نے اس سلسلے کی پچھلی کہانیوں میں ہرمن کا نام کئی بار پڑھا ہوگا۔ یہ علی بن سفیان کی طرح صلیبیوں کی انٹیلی جنس کا سربراہ تھا اور کردار کشی کا ماہر، جو صلیبی اور یہودی لڑکیاں مسلمان علاقوں میں جاسوسی اور کردار کشی کے لیے بھیجی جاتی تھیں، انہیں ٹریننگ دینے والا ہرمن تھا۔ وہ اپنی بہت سی لڑکیوں کے ساتھ عکرہ میں تھا اور پکڑا گیا۔ وہ شہر سے نکل رہا تھا لیکن ایوبی کا ایک جاسوس اس کے تعاقب میں تھا۔ اس نے ہرمن کو اس کے بہروپ میں بھی پہچان لیا۔ وہ لڑکیوں کو کسان عورتوں جیسا لباس پہنا کر ساتھ لے جارہا تھا۔ جاسوس نے ایک کمان دار کو بتایا۔
کمان دار نے دو تین سپاہیوں کے ساتھ ہرمن اور اس کے زنانہ قافلے کو گھیر لیا۔ ہرمن لڑکیوں کے علاوہ اپنے ساتھ سونا بھی لے جارہا تھا۔ اس نے لڑکیاں کمان دار اور اس کے سپاہیوں کے سامنے کھڑی کردیں اور سونا ان کے آگے رکھ دیا۔ بولا… ''جسے جو لڑکی پسند ہے لے لے اور یہ سونا بھی آپس میں بانٹ لو''۔
''مجھے تمام لڑکیاں پسند ہیں''۔ کمان دار نے کہا… ''اور میں سارا سونا لے لوں گا۔ تم بھی میرے ساتھ چلو''۔
وہ ان سب کو ساتھ لے آیا اور ان سب کو سونے سمیت سلطان ایوبی کے ذاتی عملے کے حوالے کردیا۔ ہرمن سلطان ایوبی کے لیے اہم اور قیمتی قیدی تھا۔ اسے سلطان ایوبی کے کمرے میں داخل کردیا گیا۔
''تم میری زبان جانتے ہو ہرمن!''… سلطان ایوبی نے کہا… ''اس لیے میری زبان میں بات کرو۔ میں تمہارے فن اور تمہاری دانشمندی کا اعتراف کرتا ہوں۔ تمہاری قدر جتنی میں کرسکتا ہوں، اتنی تمہارے حکمران نہیں کرسکے۔ میں تمہارے ساتھ کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں''۔
''اگر آپ مجھ سے باتیں کیے بغیر میرے قتل کا حکم دے دیں تو زیادہ اچھا ہوگا''۔ ہرمن نے کہا… ''اگر مجھے عکرہ کی فوج کے جرنیلوں اور کمانڈروں کی طرح قتل ہونا اور میری لاشوں کو مچھلیوں کی خوراک بننا ہے تو باتیں کرنے سے کیا حاصل؟''۔
''تم قتل نہیں ہوگے ہرمن!''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں جسے قتل کرایا کرتا ہوں، اس کی صرف صورت دیکھا کرتا ہوں، اس سے کبھی بات نہیں کرتا''۔
سلطان نے دربان کو بلایا اور اسے کہا کہ ہرمن کو شربت پیش کرے۔ ہرمن کے چہرے پررونق آگئی۔ وہ عرب کے اس رواج سے واقف تھا کہ عربی میزبان دشمن کو پانی یا شربت پیش کرے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے دل سے دشمنی نکال دی ہے اور اس نے جاں بخشی کردی ہے۔ دربان نے شربت پیش کیا جو ہرمن نے پی لیا۔
''آپ مجھ سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کون کون سے علاقے میں ہماری کتنی کتنی فوج ہے''… ہرمن نے کہا… ''اور آپ یہ جاننا چاہیں گے کہ ان کی لڑنے کی اہلیت کیسی ہے''۔
''نہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''یہ تم مجھ سے پوچھو کہ تمہارے کس علاقے میں کتنی فوج ہے۔ میرے جاسوس تمہارے سینے کے اندر بیٹھے رہے ہیں… اور اب مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ کہاں کتنی فوج ہے۔ حطین میں تمہاری فوج تھوڑی نہیں تھی۔ تھوڑی فوج میری تھی۔ اب اور تھوڑی رہ گئی ہے۔ ارض مقدس سے اب مجھے کوئی فوج نہیں نکال سکتی۔ تم یہ خبر سنو گے کہ صلاح الدین ایوبی مرگیا ہے، پسپا نہیں ہوا''۔
''اگر آپ کے تمام کمان دار اس کمان دار کے کردار کے ہیں جو مجھے پکڑ لایا ہے تو میں آپ کو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ کو بڑی سے بڑی فوج بھی یہاں سے نہیں نکال سکتی''۔ ہرمن نے کہا… ''میں نے اسے جو لڑکیاں پیش کی تھیں، انہوں نے آپ کے پتھروں جیسے سالاروں اور قلعہ داروں کو موم کیا اور صلیب کے سانچے میں ڈھالا ہے اور سونا ایسی چیز ہے جس کی چمک آنکھوں کو نہیں، عقل کو اندھا کردیتی ہے۔ میں سونے کو شیطان کی پیداوار کہا کرتا ہوں۔ آپ کے کمان دار نے سونے کی طرف دیکھا تک نہیں، میری نظر انسانی فطرت کی کمزوریوں پر رہتی ہے۔ لذت اور ذہنی عیاشی ایمان کو کھا جاتی ہے۔ میں نے آپ کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کیا ہے۔ جب یہ کمزوریاں کسی جرنیل میں پیدا ہوجاتی ہیں یا پیدا کردی جاتی ہیں تو شکست اس کے ماتھے پر لکھ دی جاتی ہے۔ میں نے آپ کے ہاں جتنے غدار پیدا کیے ہیں، ان میں پہلے یہی کمزوریاں پیدا کی تھیں۔ حکومت کرنے کا نشہ انسانوں کو لے ڈوبتا ہے''۔
''میری فوج کے کردار کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟'' سلطان ایوبی نے پوچھا۔
''اگر آپ کی فوج کا کردار ویسا ہی ہوتا، جیسا میں بنانے کی کوشش کررہا تھا تو آج آپ کی فوج یہاں نہ ہوتی''… ہرمن نے کہا… ''اگر آپ بدکردار حکمرانوں، امیروں، وزیروں اور سالاروں کو ختم نہ کرچکے ہوتے تو وہ آپ کو کبھی کے ہماری قید میں ڈال چکے ہوتے۔ میں آپ کی تعریف کروں گا کہ آپ نے دل میں حکومت کی خواہش نہیں رکھی''۔
''ہرمن!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''میں نے تمہاری جان بخشی کی ہے، تمہیں اپنا دوست کہا ہے، مجھے یہ بتائو کہ میں اپنی فوج کے کردار کو کس طرح مضبوط اور بلند رکھ سکتا ہوں اور میرے مرنے کے بعد یہ کردار کس طرح مضبوط رہ سکتا ہے''۔
''محترم سلطان!'' ہرمن نے کہا… ''میں آپ کو جاسوسی اور سراغ رسانی کا استاد سمجھتا ہوں۔ آپ صحیح مقام پر ضرب لگاتے ہیں۔ آپ کا جاسوسی کا نظام نہایت کارگر ہے، علی بن سفیان، حسن بن عبداللہ اور بلبیس جیسے جاسوسی کے ماہرین کی موجودگی میں آپ ناکام نہیں ہوسکتے مگر میں آپ کو یہ بتا دو کہ یہ صرف آپ کی زندگی تک ہے۔ ہم نے آپ کے ہاں جو بیج بویا ہے، وہ ضائع نہیں ہوگا۔ آپ چونکہ ایمان والے ہیں، اس لیے آپ نے بے دین عناصر کو دبا لیا ہے۔ خانہ جنگی کس نے کرائی تھی؟… ہم نے۔ ہم نے آپ کے امراء کے دلوں میں حکومت، دولت، لذن اور عورت کا نشہ بھر دیا ہے۔ آپ کے جانشین اس نشے کو اتار نہیں سکیں گے۔ میرے جانشین اس نشے کو تیز کرتے رہیں گے''…
''محترم سلطان! یہ جنگ جو ہم لڑ رہے ہیں، یہ میری اور آپ کی یا ہمارے بادشاہوں کی اور آپ کی جنگ نہیں۔ یہ کلیسا اور کعبہ کی جنگ ہے جو ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گی۔ ہم میدان جنگ میں نہیں لڑیں گے۔ ہم کوئی ملک فتح نہیں کریں گے، ہم مسلمانوں کے دل ودماغ کو فتح کریں گے۔ ہم مسلمانوں کے مذہبی عقائد کا محاصرہ کریں گے، ہماری یہ لڑکیاں، ہماری دولت اور ہماری تہذیب کی کشش، جسے آپ بے حیائی کہتے ہیں، اسلام کی دیواروں میں شگاف ڈالیں گی، پھر مسلمان اپنی تہذیب سے نفرت اور یورپ کے طور طریقوں سے محبت کریں گے۔ وہ وقت آپ نہیں دیکھیں گے، میں نہیں دیکھوں گا۔ ہماری روحیں دیکھیں گی''۔
سلطان ایوبی جرمن نژاد ہرمن کی باتیں بڑی غور سے سن رہا تھا۔ ہرمن کہہ رہا تھا… ''ہم نے فارس، افغانستان یا ہندوستان پر جا قبضہ کیوں نہیں جمایا؟ ہم نے عرب کو کیوں میدان جنگ بنایا ہے؟… صرف اس لیے کہ ساری دنیا کے مسلمان اسی خطے کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے ہیں اور یہاں مسلمانوں کا کعبہ ہے۔ ہم مسلمانوں کے اس مرکز کو ختم کررہے ہیں۔ آپ کا عقیدہ ہے کہ آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصیٰ سے آسمانوں پر گئے تھے، ہم نے اس کی منڈیر پر صلیب رکھ دی ہے اور وہاں کے مسلمانوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ ان کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ ان کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی یہاں آئے اور یہاں سے معراج کو گئے تھے''۔
''ہرمن!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''میں تمہارے نظریئے اور عزائم کی تعریف کرتا ہوں، اپنے مذہب کے ساتھ ہر کسی کو اسی طرح وفادار ہونا چاہیے جیسے تم ہو۔ زندہ وہی قوم رہتی ہے جو اپنے مذہب اور اپنی معاشرتی اقدار کی پاسبانی کرے اور ان کے گرد ایسا حصار کھینچے کہ کوئی باطل نظریہ انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ میں جانتا ہوں کہ یہودی ہمارے ہاں نظریاتی تخریب کاری کررہے ہیں اور وہ تمہارا ساتھ دے رہے ہیں۔ میں بیت المقدس جارہا ہوں اور اسی غرض سے جارہا ہوں جس غرض سے تم یہاں آئے ہو۔ یہ ہمارے عقیدوں کا مرکز ہے۔ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہاں سے معراج کی سعادت بخشی تھی۔ میں اسے صلیب کے قبضے سے چھڑائوں گا''۔
''پھر کیا ہوگا؟'' ہرمن نے کہا… ''پھر آپ اس دنیا سے اٹھ جائیں گے۔ مسجد ا قصیٰ پھر ہماری عبادت گاہ بن جائے گی۔ میں جو پیشن گوئی کررہا ہوں، یہ اپنی اور آپ کی قوم کی فطرت کو بڑی غور سے د یکھ کر کررہا ہوں۔ ہم آپ کی قوم کو ریاستوں اور ملکوں میں تقسیم کر کے انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیں گے اور فلسطین کا نام ونشان نہیں رہے گا۔ یہودیوں نے آپ کی قوم کے لڑکوں اور لڑکیوں میں لذت پرستی کا بیج بونا شروع کردیا ہے۔ ان میں سے اب کوئی نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوگا''۔
سلطان ایوبی کا ذہن فارغ نہیں تھا۔ اس نے ہرمن سے مسکرا کر ہاتھ ملایا اور کہا… ''تمہاری باتیں بہت قیمتی ہیں۔ میں تمہیں دمشق بھیج رہا ہوں، وہاں تمہیں معزز قیدیوں میں رکھا جائے گا''۔
''اور یہ لڑکیاں جو میرے ساتھ ہیں؟''
سلطان ایوبی گہری سوچ میں کھوگیا۔ کچھ دیر بعد بولا… ''میں عورتوں کو جنگی قیدی نہیں بنایا کرتا، انہیں قتل کرکے سمندر میں پھینک سکتا ہوں''۔
''محترم سلطان! یہ بہت ہی خوبصورت لڑکیاں ہیں''۔ ہرمن نے کہا… ''آپ انہیں ایک نظر دیکھیں تو آپ انہیں قتل نہیں کریں گے، قید میں بھی نہیں ڈالیں گے۔ آپ کے مذہب میں لونڈی کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت ہے، لونڈیوں کو حرم میں رکھا جاسکتا ہے''۔
''میرے مذہب نے ایسی عیاشی کی اجازت کبھی نہیں دی''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''میں اپنے گھر میں یا کسی بھی مسلمان کے گھر سانپ نہیں پال سکتا''۔
''مگر ان کا کوئی قصور نہیں''۔ ہرمن نے کہا… ''انہیں اس کام کے لیے بچپن سے تیار کیا گیا تھا''۔
''اسی لیے میں ان کے قتل کا حکم نہیں دے رہا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''میں انہیں چلے جانے کی اجازت دیتا ہوں۔ میں تمہاری اس سوچ کی تعریف کرتا ہوں کہ تم یہ شیریں زہر میری قوم میں پھیلانا چاہتے ہو لیکن میں بھی تمہاری طرح سوچ سکتا ہوں۔ انہیں کہہ دو کہ عکرہ سے نکل جائیں۔ ان میں کوئی بھی یہاں کہیں یا جہاں کہیں میں گیا نظر آگئی تو اسے قتل کردیا جائے گا''۔
سلطان ایوبی نے دو تین دنوں میں عکرہ میں اپنی حکومت قائم کردی۔ مسجدوں کو صاف کرایا۔ جو مال غنیمت ہاتھ آیا تھا، اس میں سے خاصا حصہ اپنی فوج میں تقسیم کیا۔ کچھ ان مسلمان گھرانوں کو دیا جو قید میں پڑے رہے تھے مگر اس کی دلچسپیوں کا مرکز فلسطین کا نقشہ تھا۔ اس کی انگلی آج کے لبنان اور اسرائیل کے ساحل کے ساتھ ساتھ نقشے پر چل رہی تھی اور اس کے دل ودماغ پر بیت المقدس غالب تھا۔ اسے ادھر ادھر کی کوئی ہوش نہیں تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کا کون سا دستہ کہاں ہے۔ چھاپہ مار دستوں کی تقسیم نہایت اچھی تھی۔ ان کا دوسرے دستوں کے ساتھ باقاعدہ رابطہ تھا۔
''سلطان عالی مقام!'' سلطان ایوبی کو حسن بن عبداللہ کی آواز سنائی دی۔
''حسن!'' سلطان نے نقشے سے آنکھیں ہٹائے بغیر کہا… ''جو کہنا ہوتا ہے، فوراً کہہ دیا کرو۔ ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہر بات سرکاری طور طریقوں سے کریں۔ میرا مقام اس روز عالی ہوگا جس روز میں فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوں گا''۔
''تریپولی سے اطلاع آئی ہے کہ ریمانڈ مرگیا ہے''۔
''زخمی تھا؟''
''نہیںسلطان!'' حسن بن عبداللہ نے جواب دیا… ''وہ صحیح وسلامت تریپولی پہنچا تھا۔ دوسرے دن اپنے کمرے میں مرا ہوا پایا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے خودکشی کی ہو''۔
''وہ اتنا خوددار اور غیور نہیں تھا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''وہ پہلے بھی کئی بار شکست کھا کر میدان سے بھاگ چکا ہے۔ بہرحال مجھے اس کے مرنے کا افسوس ہے۔ اس نے مجھے قتل کرانے کے لیے حشیشین سے تین حملے کرائے تھے''۔
مؤرخین نے ریمانڈ آف تریپولی (موجودہ لبنان) کی موت کی مختلف وجوہات لکھی ہیں۔ قاضی بہائوالدین شداد نے پھیپھڑوں کی بیماری لکھی ہے لیکن زیادہ تر نے لکھا ہے کہ اسے حشیشین نے زہر دے دیا تھا۔ ریمانڈ دوغلے کردار کا اور سازشی ذہن کا صلیبی حکمران تھا۔ مسلمانوں میں خانہ جنگی کرانے میں اس کا بھی ہاتھ تھا۔ صلیبی حکمرانوں میں منافرت پھیلانے سے بھی باز نہیں آتا تھا۔ اس کا یارانہ حسن بن صباح کے فدائیوں کے ساتھ تھا۔ سلطان ایوبی پر اس نے ایک دو قاتلانہ حملہ کرائے تھے۔ اس نے ایک دو صلیبی حکمرانوں کو بھی فدائی حشیشین سے قتل کرانے کی کوشش کی تھی مگر نہ صرف ناکام رہا بلکہ جنہیں وہ قتل کرانا چاہتا تھا، انہیں اس کے منصوبے کا علم بھی ہوگیا تھا۔ اس دور کے کاتبوں اوروقائع نگاروں کی غیرمطبوعہ تحریروں میں ایسے اشارے ملتے ہیں کہ ریمانڈ اتحادیوں کے ساتھ صلیب الصلبوت پر حلف اٹھا کر حطین کے میدان میں گیا تھا لیکن بھاگ آیا۔ تریپولی پہنچا تو اگلے ہی روز اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا۔ زندگی کی آخری رات حشیشین کا سردار شیخ سنان اس کے پاس گیا تھا۔ اس سے پہلے ایک ا ور مشہور صلیبی حکمران بالڈون مرگیا تھا۔ یہ فرنگیوں (فرینکس) کا جنگجو بادشاہ تھا۔ آپ نے اس کا ذکر ان کہانیوں میں کئی بار پڑھا ہوگا۔ بیت المقدس اس کی عملدارل میں تھا۔ بالڈون جنگی امورکا ماہر تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سلطان ایوبی بیت المقدس کو فتح کرنا چاہتا ہے۔ بالڈون نے بیت المقدس کو بچانے کا یہ اہتمام کیے رکھا کہ اپنی فوجیں مسلمان علاقوںمیں گھماتا پھراتا اور لڑتا رہا اور یہ اس کی قابلیت کا ثبوت ہے کہ اس نے عزالدین، سیف الدین اور گمشتگین کو متحد کرکے سلطان ایوبی کے خلاف محاذ آرا کردیا تھا اور اس محاذ کو وہ جنگی سازوسامان، شراب، زروجواہرات ارو حسین لڑکیوں سے مستحکم کرتا رہتا تھا۔ بوڑھا آدمی تھا، جنگ حطین سے چند روز پہلے مرگیا۔ اس کی جگہ گائی آف لوزینان نے بیت المقدس کی حکومت سنبھال لی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تاریخ آج تک کمانڈو اور گوریلا آپریشن کی ایسی مثال پیش نہیں کرسکی جیسی سلطان ایوبی کے چھاپہ مار دستوں نے کی تھی۔ چھاپہ مار دشمن کے ہاں تباہی بپا کرسکتے ہیں لیکن کسی علاقے پر قبضہ نہیں کرسکتے۔ قبضہ فوج کیا کرتی ہے بشرطیکہ وہ فوج تیز ہو اور چھاپہ ماروں کی بپا کی ہوئی افراتفری اور تباہی کے فوراً بعد حملہ کردے۔ سلطان ایوبی نے چھاپہ ماروں اور فوج کو مشن دے دیا تھا، جو مختصراً یوں تھا کہ بیت المقدس کے اردگرد، دوردور تک کے علاقوں سے صلیبی کو بے دخل اور تباہ کرنا، ساحلی علاقوں کی قلعہ بندیوں پر قبضہ کرنا اور دشمن کا جس قدر اسلحہ اور رسد ہاتھ آئے، اسے محفوظ مقامات پر ذخیرہ کرنا۔
سلطان ا یوبی نے اپنی فوج کو واضح مقصد دے رکھا تھا۔ یہی اس کی اصل قوت تھی۔ سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں سے کہہ رکھا تھا کہ جس شہر اور قصبے پر قبضہ کرو، وہاں کے مسلمانوں کی حالت اپنے سپاہیوں کو دکھائو، انہیں وہ مسجدیں دکھائو جنہیں صلیبیوں نے ویران کیا اور بے حرمتی کی تھی۔ انہیں وہ مسلمان خواتین دکھائو جو صلیبیوں کے ہاتھوں بے آبرو ہوتی رہیں۔ انہیں اچھی طرح دکھائو کہ ہمارا دشمن کیسا ہے اور اس کے عزائم کیا ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ سلطان ایوبی کی فوج کا چھوٹے سے چھوٹا دستہ بڑے سے بڑے دستے پر قہر بن کر ٹوٹا۔ سپاہیوں نے وہ سب کچھ دیکھ لیا تھا جو سلطان ایوبی انہیں دکھانا چاہتا تھا۔ یہ دیوانگی کی کیفیت تھی، ایک جنون تھا، سلطان ایوبی کے کانوںمیں ایک ہی آواز پڑتی تھی… ''فلاں قصبے پر قبضہ کرلیا گیا ہے… فلاں مورچے سے صلیبی پسپا ہوگئے ہیں''… سپاہی آرام کے بغیر مسلسل لڑ اور بڑھ رہے تھے مگر ایک روز سلطان ایوبی سر سے پائوں تک ہل گیا۔
وہ اپنے کمرے میں نقشے پر جھکا ہوا اپنی ہائی کمان کے سالاروں اور مشیروں سے اگلا پلان تیار کررہا تھا، باہر شور اٹھا۔ ''میں تمہارے سلطان کو بھی قتل کردوں گا۔ تم صلیب کے پجاری ہو، چھوڑ دو مجھے… نعرۂ تکبیر… اللہ اکبر''… یہ ایک ہی آدمی کی آواز تھی۔ اس کے ساتھ کئی اور آوازیں سنائی دے رہی تھیں… ''یہاں سے لے جائو اسے… سلطان خفا ہوں گے… ماردو، جان سے مار دو اسے… اس کے منہ پر پانی پھینکو… پاگل ہوگیا ہے''۔
سلطان ایوبی دوڑ کر باہر نکلا۔ اسے توقع تھی کہ کوئی صلیبی سپاہی ہوگا مگر وہ اس کی اپنی فوج کا ایک کمان دار تھا جس کے دونوں ہاتھ خون سے لال تھے اور اس کے کپڑوں پر خون ہی خون تھا۔ اس کی آنکھیں خون کی طرح گہری لال تھیں اور اس کے ہونٹوں کے کونوں سے جھاگ پھوٹ رہی تھی۔ اسے چار آدمیوں نے بازوئوں سے جکڑ رکھا تھا، وہ قابو میں نہیں آرہا تھا۔
''چھوڑ دو اسے''۔ سلطان ایوبی نے گرج کرکہا۔
''سلطان!'' اس کمان دار نے قہر بھری آواز میں کہا۔ ''یہاں آکر تمہاری سب فوج بے غیرت ہوگئی ہے، کفار کیوں زندہ نکل رہے ہیں۔ تم ہمارے سلطان بنے پھرتے ہو، تم نے ان مسلمان عورتوں اور بچوں کو دیکھا تھا جو قید میں پڑے تھے؟''
سلطان کے محافظ دستے کے کمانڈر نے لپک کر اس کمان دار کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ کمان دار نے اس کمانڈر کے بازو کو پکڑ کر اتنی زور سے جھٹکا دیا کہ کمانڈر اس کے کندھوں کے اوپر سے ہوتا ہوا سلطان ایوبی کے سامنے جاپڑا۔
''مت روکو اسے بولنے سے''… سلطان ایوبی نے ایک بار پھر گرج کر کہا… ''آگے آئو دوست! امجھے بتائو انہوں نے تمہیں کیوں پکڑ لیا ہے؟''
بات یہ کھلی کہ وہ ایک جیش کا کمان دار تھا۔ اسے یہ فرض سونپا گیا تھا کہ جو مسلمان کنبے قید میں پڑے رہے تھے، ان کے گھروں میں اناج وغیرہ پہنچائے اور ان میں جو بیمار ہیں، انہیں فوج کے طبیبوں کے پاس بھیجے۔ اس کام کے لیے سو سو سپاہیوں کے دو جیش مقرر کیے گئے تھے۔ یہ کمان دار مظلوم مسلمانوں کے گھروں میں جاتا رہا۔ ان سے اسے معلوم ہوتا رہا کہ عیسائیوں نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا۔ یہ تفصیلات بڑی ہی دردناک اور بڑی ہی شرمناک تھیں۔ اس کمان دار نے اپنی فوج کے سپاہیوں کو مسجدیں صاف کرتے دیکھا۔ ایک مسجد میں دو عورتوں کی برہنہ لاشیں نکلیں جو گل سڑ رہی تھیں۔ یہ اس کمان دار نے دیکھ لیں۔
لاشیں نکالنے اور مسجد کو صاف کرنے والے سپاہیوں کے آنسو بہہ رہے تھے۔ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا۔ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی یہ حالت ہوتی رہی اورہمارے سلطان نے کفار کو اجازت دے دی ہے کہ جو یہاں سے جانا چاہے، اپنے کنبے کو لے کر چلا جائے۔
اس کمان دار کا خون کھول اٹھا۔ وہ آگے گیا تو پندرہ بیس لڑکیاں اسے جاتی نظر آئیں، ان کے ساتھ اس کا ایک ساتھی کمان دار چند ایک سپاہیوں کے ساتھ جارہا تھا۔ لڑکیاں بہت خوبصورت تھیں، کمان دار نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ یہ لڑکیاں کون ہیں اور ان کے ساتھ سپاہیوں کیوں جارہے ہیں؟
''یہ وہ لڑکیاں ہیں جنہوں نے مصر اور شام میں غدار پیدا کیے تھے''… کمان دار نے اسے بتایا۔ وہ اسے قافلے کے ساتھ چل پڑا۔ اس کے ساتھی نے اسے سنایا… ''ان کی کارستانیاں تم سنتے رہے ہو۔ ان کا سردار (ہرمن) پکڑا گیا ہے۔ یہ سب صلیبی ہیں۔ سلطان نے ان کے سردار کو قید میں ڈال دیا ہے اور لڑکیوں کے متعلق حکم دیا ہے کہ انہیں شہر سے دور لے جا کر ان عیسائیوں کے حوالے کردو جو عکرہ سے جارہے ہیں''۔
''اور تم انہیں زندہ چھوڑ آئو گے؟'' کمان دار نے پوچھا۔
''ہاں، حکم یہی ملا ہے''۔
''کیا یہ ہماری ان بہنوںسے زیادہ پاک اور مقدس ہیں جن کی برہنہ لاشیں مسجدوں سے نکل رہی ہیں اور جنہیں قید میں رکھ کر بے آبرو کیا جاتا رہا ہے؟''
اس کے ساتھی نے آہ بھر کر کہا… ''میں حکم کا پابند ہوں''۔
کمان دار رک گیا اور اس قافلے کو جاتے دیکھتا رہا۔ا چانک اس نے تلوار نکال لی اور ان کی طرف دوڑ پڑا۔ اس نے نعرہ لگایا… ''میں کسی کا پابند نہیں''… اس نے تلوار اس قدر تیز چلائی کہ پلک جھپکتے ہی تین چار لڑکیوں کے سر کاٹ ڈالے۔ ان کا محافظ کمان دار اسے پکڑنے کو دوڑا۔ لڑکیاں چیختی چلاتی ادھر ادھر بھاگیں۔ کمان دار ایک ایک لڑکی کے پیچھے گیا اور مزید تین چار لڑکیوں کو ختم کردیا۔ ایک سپاہی اسے پکڑنے کے لیے قریب گیا تو اس نے اس سپاہی کے پیٹ میں تلوار برچھی کی طرح گھونپ دی۔ پھر اس کے قریب کوئی نہیں جاتا تھا۔ اس نے باقی لڑکیوں کو دیکھا جو ادھر ادھر بھاگ گئی تھیں۔
اس طرح وہ شہر سے باہر نکل گئے۔ اسے کچھ عیسائی شہر سے جاتے نظر آئے۔ کمان دار نے ان پر حملہ کردیا۔ اس کے سامنے جو آیا، اسے اس نے قتل کیا اور یہی نعرے لگاتا رہا… ''میں بے غیرت نہیں ہوں۔ اللہ اکبر''۔
اس کے ساتھی کمان دار کے واویلے پر کئی ایک سپاہی اکٹھے ہوگئے جنہوں نے اسے گھیر کر پکڑ لیا۔ اسے گھسیٹ کر لارہے تھے کہ اس عمارت کے قریب سے گزرے جہاں سلطان ایوبی اپنے عملے کے ساتھ قیام پذیر تھا۔ کسی نے کہا کہ اسے سلطان کے عملے کے حوالے کردو۔ وہ ڈرتے تھے کہ سلطان کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی ہے، کسی نہتے شہری پر ہاتھ اٹھانے کا جرم قرار دیا گیا تھا۔ یہ کمان دار چلا رہا تھا۔ اس کا شور سن کر سلطان ایوبی باہر نکل آیا۔
سلطان ایوبی نے یہ واردات سنی اور کمان دار کی لعن طعن بھی سنی۔ سب ڈر رہے تھے کہ سلطان اسے قید میں ڈال دے گا لیکن سلطان نے اسے گلے لگا لیا اور اندر لے گیا۔ اسے شربت پلایا اور اسے ذہن نشین کرایا کہ ان کا مقصد صلیبیوں کا قتل نہیں بلکہ اپنے قبلۂ اول کو آزاد کرکے اس تمام سرزمین عرب سے صلیبیوں کو نکالنا ہے۔ کمان دار کی ذہنی حالت ٹھکانے نہیں تھی۔ اسے سلطان ایوبی نے اپنے طبیب کے حوالے کردیا۔
''فوج کو اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہیے''۔ سلطان ایوبی نے سالاروں اور مشیروں سے کہا… ''لیکن ایمان دیوانگی کی حد تک ہی پختہ ہونا چاہیے۔ ہمارا یہ کمان دار ہوش اور عقل کھو بیٹھا ہے۔ اگر مسلمان اپنے دین کے دشمن کو دیکھ کر دیوانے ہوجائیں تو اسلام کا پرچم وہاں تک پہنچ جائے جہاں یہ زمین ختم ہوجاتی ہے''۔
ہرمن کی جو لڑکیاں اس کمان دار سے بچ کر بھاگ گئی تھیں، ان میں سے دو سمندر کے کنارے جا پہنچیں۔ سمندر دور نہیں تھا۔ وہ خوف سے کانپ رہی تھیں اور پناہ ڈھونڈ رہی تھیں۔ وہ ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئیں۔ فوراً بعد ایک کشتی کنارے آلگی۔ اس میں دو ملاح تھے، تیسرا کوئی افسر معلوم ہوتا تھا۔ وہ سلطان ایوبی کی بحریہ کا ایک افسر تھا جس کا نام الفارس بیدرین لکھا گیا ہے۔ بحریہ کا سب سے بڑا کمانڈر عبدل الحسن تھا جو رئیس البحرین (دو سمندروں، بحرۂ روم اور بحیرۂ احمر) کا ''ہائی ایڈمرل'' کہلاتا تھا۔ اس کے نیچے امیر البحر حسام الدین لولو تھا۔
سلطان ایوبی کے حکم سے بحری بیڑہ جس کا ہیڈکوارٹر سکندریہ میں تھا، بحیرۂ روم میں گشت کرتا تھا کہ یورپ سے صلیبیوں کے لیے کمک اور سامان وغیرہ آئے تو ان کے جہازوں کو راستے میں ہی روکا جاسکے۔ حسام الدین لولو، بحیرۂ احمر میں تھا۔ سلطان ایوبی چونکہ ساحلی علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، اس لیے مصری بیڑے کو حکم بھیجا تھا کہ چھ بحری جہاز ساحل کے ساتھ بھیج دئیے جائیں۔ یہ جنگی جہاز تھے جن میں منجنیقوں کے علاوہ دور مار تیر انداز اور لڑاکا دستے بھی تھے۔
رئیس البحرین نے الفارس بیدرین کی کمانڈ میں چھ جہاز بھیجے تھے اور الفارس اپنے بحری جہاز سے کشتی میں آیا تھا۔ وہ احکام لینے کے لیے سلطان ایوبی کے پاس جارہا تھا۔ ساحل پر اسے یہ دو صلیبی لڑکیاں نظر آئیں جو کسانوں کے لباس میں تھیں۔ الفارس ان کے قریب چلا گیا اور پوچھا کہ وہ کون ہیں اور یہاں کیا کررہی ہیں؟ لڑکیوں نے بتایا کہ وہ خانہ بدوش قبیلے کی ہیں جو جنگ کی زد میں آگیا تھا۔ ان کے بہت سے مرد مارے گئے اور باقی ادھر ادھر بھاگ گئے ہیں۔
''…اور ہم چھپتی پھر رہی ہیں''۔ ایک لڑکی نے کہا… ''عیسائیوں سے ہم اس لیے ڈرتی ہیں کہ وہ ہمیں مسلمان سمجھتے ہیں اور مسلمان ہمیں عیسائی سمجھتے ہیں''۔
''تم مسلمان ہو یا عیسائی؟''
''ہمارا مذہب وہی ہے جو ہمارے مالک کا ہوگا''۔ دوسری لڑکی نے کہا… ''ہمیں کسی نہ کسی کے ہاتھ فروخت ہی ہونا ہے''۔
الفارس بیدرین بحری لڑائی کا ماہر اور غیرمعمولی طور پر دلیر کمانڈر تھا۔ ان خوبیوں کے علاوہ اسے اس لیے بھی پسند کیا جاتا ہے کہ وہ شگفتہ طبیعت کا زندہ مزاج آدمی تھا۔ اس دور میں اس کی حیثیت کے آدمی بیک وقت دو دو تین تین بیویاں رکھتے تھے لیکن اس نے شادی ہی نہیں کی تھی۔ وہ جنگ وجدل کا زمانہ تھا۔ بحریہ کو کئی کئی مہینے سمندر میں رہنا پڑتا اور خشکی دیکھنی نصیب نہیں ہوتی تھی۔ ہر بحری جہاز کا کپتان اپنی بیوی یا بیویوں کو ساتھ رکھتا تھا۔
الفارس کو ان لڑکیوں کے حسن نے ایسا متاثر کیا کہ اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوگیا کہ وہ تین مہینوں سے زیادہ عرصے سے سمندر میں گھوم پھر رہا ہے، اس نے لڑکیوں سے پوچھا کہ وہ اس کے ساتھ رہنا پسند کریں تو انہیں اپنے جہاز میں رکھے گا۔

''ہم بے بس اور کمزور لڑکیاں ہیں، ہمارے ساتھ دھوکہ نہیں ہونا چاہیے''۔
''میں تمہیں فروخت نہیں کروں گا''۔ الفارس نے کہا۔ ''مصر لے جائوں گا اور دونوں کے ساتھ شادی کرلوں گا''۔
لڑکیوں نے ایک دوسری کی طرف دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ طے کیا اور الفارس کے ساتھ چلنے کی رضا مندی ظاہر کردی۔ الفارس نے اپنی کشتی کے ملاحوں سے کہا… ''انہیں میرے جہاز میں لے جائو۔ انہیں میرے کمرے میں کھانا دو اور انہیں وہیں چھوڑ کر واپس یہیں آجائو اور میرا انتظار کرو''۔
لڑکیوں کو کشتی میں بٹھا کر الفارس رومانی گیت گنگناتا عکرہ کو چل دیا۔
''الفارس!'' سلطان ایوبی نے اسے کہا… ''میں تمہارے نام سے واقف ہوں۔ تمہارے دو تین بحری کارنامے بھی سنے ہیں لیکن اب صورتحال کچھ اور ہے۔ پہلے تم اکا دکا معرکہ لڑتے رہے ہو۔ اب بڑے پیمانے کی بڑی جنگ کا امکان ہے۔ میں بیت المقدس فتح کرنے آیا ہوں لیکن اس سے پہلے میں تمام بڑی بڑی بندرگاہوں پر قبضہ کرنا اور شمال سے جنوب تک کے ساحلی علاقوں کو اپنی تحویل میں لینا ضروری سمجھتا ہوں۔ ان ساحلی شہروں میں بیروت، ٹائر اور عسقلان بہت اہم ہیں۔ تمہارے ساتھ میرا رابطہ قاصدوں سے ہوگا۔ تمہاری دو تین کشتیاں ساحل کے ساتھ موجود رہنی چاہئیں۔میں خشکی پر جدھر جائوں گا تمہیں اطلاع دیتا رہوں گا۔ تمہارے جہاز سمندر میں گشت کرتے رہیں گے… تمہاری جہازوں میں اسلحہ اور رسد کی کمی تو نہیں؟''
''ہم ہر لحاظ سے تیار ہوکر آئے ہیں''۔ الفارس بیدرین نے جواب دیا۔
''بڑے پیمانے کی جنگ کا بھی امکان ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''صلیبیوں نے حطین میں جو شکست کھائی ہے اور جس برے طریقے سے یہ بھاگے ہیں، یہ دنیائے صلیب کے لیے معمولی سا واقعہ نہیں۔ ان کے چار حکمران میری قید میں ہیں، ایک کو میں نے قتل کردیا ہے۔ ریمانڈ مر گیا ہے۔ ان کا بڑا ہی قابل اور دلیر بادشاہ بالڈون بھی مرگیا ہے۔ اس کے فرنگی بہت بڑی طاقت ہیں، مجھے قاہرہ سے علی بن سفیان نے اطلاع دی ہے کہ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ اور جرمنی کا بادشاہ فریڈرک ارض فلسطین پر صلیب کی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے اپنی فوجوں اور بحری بیڑے کے ساتھ آنے کی تیاری کررہے ہیں۔ وہ آئے تو میں فیصلہ کرسکوں گا کہ انہیں خشکی پر آنے دوں یا سمندر میں ہی روکنے کی کوشش کروں۔ انگلستان کے بحری بیڑے کے متعلق سنا ہے کہ زیادہ طاقت ور ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے بارود تیار کیا ہے اور ایسی نلکیوں میں بھرا ہے جنہیں آگ لگائو تو نلکیاں اڑتی ہوئی آتی اور جہازوں کو آگ لگا دیتی ہیں۔ میں ایسی نلکیاں حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔ ہم خود بنا لیں گے… بہرحال تم ساحل کے ساتھ اپنے جہازوں کو رکھنا۔ رئیس البحرین المحسن کھلے سمندر میں رہے گا''۔
الفارس نے مزید احکامات لیے اور چلا گیا۔ کشتی اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ اپنے بحری جہاز میں جاکر اس نے د وسرے جہازوں کے کپتانوں کو بلایا، انہیں ہدایات اور احکامات دے کر رخصت کردیا اور اپنے کیبن میں چلا گیا جہاں دو لڑکیاں اس کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔ وہ بھولی بھالی بنی رہیں اور اس سے پوچھتی رہیں کہ وہ سمندر میں کیا کرتا ہے۔ الفارس لمبے عرصے سے سمندر میں تھا۔ اس پر ہنسنے کھیلنے کی کیفیت طاری ہوگی۔ ان لڑکیوں کو مردوں کی اس کیفیت میں لانے اور انہیں اپنے رنگ میں استعمال کرنے کی مہارت حاصل تھی۔
٢٠ جولائی ١١٨٧ء کے روز سلطان صلاح الدین ایوبی عکرہ سے نکلا۔ اس کے چھاپہ مار دستوں نے اس کے لیے راستہ صاف کررکھا تھا۔ ساحل کے ساتھ ساتھ اس نے کئی ایک قلعے اور قصبے فتح کرلیے۔ ٣٠جولائی ١١٨٧ء کے روز اس نے بیروت کا محاصرہ کیا۔ صلیبیوں نے اس اہم شہر کو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن سلطان ایوبی نے بے دریغ قربانی دے کر بیروت لے لیا۔ وہاں بھی مسلمانوں کی وہی حالت تھی جو عکرہ میں تھی۔
٢٩جولائی تک بیروت کو اپنی عمل داری میں لے کر سلطان ایوبی نے ایک اور مشہور ساحلی شہر ٹائر کا رخ کیا۔ وہ جاسوسوں اور دیکھ بھال کے جیشوں سے رپورٹیں لیے بغیر پیش قدمی نہیں کیا کرتا تھا۔ اسے بتایا گیا کہ اپنی فوج بہت زیادہ علاقے میں پھیل گئی ہے اور ادھر ادھر سے بھاگے ہوئے صلیبی ٹائر میں جمع ہوکر منظم ہورہے ہیں۔ تمام فرنگی بھی ساحلی علاقے سے پسپا ہوکر ٹائر چلے گئے تھے۔ سلطان ایوبی نے ٹائر پر حملے کا ارادہ ترک کردیا۔ وہ بیت المقدس کے لیے فوج بچا کر رکھنا چاہتا تھا۔
اس دوران الفارس بیدرین کے بحری جہاز ساحل سے دور گشت اور دیکھ بھال کرتے رہے۔ دونوں لڑکیاں اس کے جہاز میں رہیں۔ وہ اس کے دل پر غالب آگئی تھیں لیکن اس نے اپنے فرائض میں کوتاہی نہ کی۔ جب کوئی بحری جہاز ساحل کے قریب لنگر انداز ہوتا تھا، چھوٹی کشتیاں اس کے اردگرد گھومنے لگتی تھیں۔ یہ غریب دیہاتیوں کی کشتیاں تھیں جو پھل، انڈے اور مکھن وغیرہ ملاحوں اور فوجی دستوں کے پاس بیچتے تھے۔ جہازوں کے کپتان ان میں سے کسی کو رسہ پھینک کر جہاز میں اٹھا لیتے اور اس سے خشکی کی دنیا کی خبریں سنتے تھے۔
ایک روز الفارس کا جہاز ساحل پر چلا گیا۔ اسے وہاں سے بری فوج کے کسی کمان دار سے کچھ پوچھنا تھا۔ دونوں لڑکیاں جہاز کے عرشے پر جنگلے کا سہارا لیے کھڑی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی تین چار کشتیاں آگئیں۔ ان میں پھل وغیرہ تھا۔ ان کے ملاح جہاز والوں کی منتیں کرنے لگے کہ وہ ان سے کچھ لے لیں۔ ایک کشتی میں ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا، جس کے جسم پر تہمند کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ بہت غریب معلوم ہوتا تھا۔ اس نے دونوں لڑکیوں کو جہاز میں کھڑے دیکھا تو کشتی قریب لے گیا۔
''کچھ لے لو شہزادی!'' اس نے کہا… ''بہت غریب آدمی ہوں''۔
لڑکیوں نے اسے نظر بھر کر دیکھا تو اس نے بائیں آنکھ سے خفیف سا اشارہ کردیا۔ دونوں نے حیران سا ہوکے ایک دوسری کی طرف دیکھا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھ کر سینے پر انگلی اوپر نیچے اور پھر دائیں بائیں چلا کر صلیب کا نشان بنایا۔ ایک لڑکی نے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی پر دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی رکھ کر کراس بنایا۔ آدمی مسکرایا۔ ایک لڑکی نے جہاز کے ملاح سے کہا کہ اس آدمی کو اوپر لائو۔
ملاحوں کو معلوم تھا کہ یہ لڑکیاں ان کے جہاز کے کپتان کی ہیں جو تمام جہازوں کا کمانڈر ہے۔ انہوں نے فوراً رسوں کی سیڑھی پھینکی۔ وہ آدمی ٹوکری میں مختلف چیزیں رکھ کر اوپر لے آیا اور ٹوکری لڑکیوں کے آگے رکھ دی۔ لڑکیاں چیزیں دیکھنے لگیں۔ کسی اور کو ان کے قریب آنے کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی۔
''تم یہاں کیسے پہنچ گئی ہو؟'' کشتی کے ملاح نے پوچھا۔
''اتفاق کی بات ہے''۔ ایک لڑکی نے جواب دیا… ''ہرمن پکڑا گیا ہے''… اس نے اس آدمی کو سارا واقعہ سنا دیا اور الفارس کے متعلق بتایا کہ وہ انہیں خانہ بدوش سمجھ کر اپنے ساتھ لے آیا ہے۔
''کچھ سوچا ہے کیا کروگی؟'' ملاح نے پوچھا۔ ''جائو گی کہاں؟''
''ابھی تو صرف جان بچانے کا بندوبست کیا ہے''۔ لڑکی نے جواب دیا… ''کمانڈر الفارس کی رگوں پر ہم نے قبضہ کرلیا ہے۔ کہیں موقعہ ملا تو بھاگنے کی کوشش کریں گی۔ اگر تم رہنمائی کرو تو یہیں رہ کر کچھ اور کریں گی''۔
یہ غریب سا ماہی گیر ملاح صلیبیوں کا جاسوس تھا اور وہ ان لڑکیوں کو اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ بھی اسے جانتی تھیں۔ اس نے کہا… ''ساحل پر اتر کر بھاگنے کی کوشش نہ کرنا۔ بہت بری موت مروگی۔ بیروت تک مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ ہماری صلیبی فوج ہر جگہ سے پسپا ہورہی ہے۔ اب ٹائر ایک جگہ رہ گئی ہے جہاں تمہیں پناہ مل سکتی ہے۔ ابھی اسی جہاز میں رہو۔ میں تمہیں ملتا رہوں گا۔ ہمارے لیے حالات بہت ہی خطرناک ہوگئے ہیں۔ ہر طرف مسلمان سپاہی دندناتے پھر رہے ہیں''۔
''تم یہاں کیا کررہے ہو؟''
''صلیب پر ہاتھ رکھ کر جو حلف اٹھایا تھا، وہ پورا کرنے کی کوشش کررہا ہوں''۔ اس نے جواب دیا… ''ان چھ جہازوں کی نقل وحرکت دیکھ رہا ہوں۔ انہیں تباہ کرانے کا انتظام کروںگا''۔
''اپنے جہاز کہاں ہیں؟''
''ٹائر کے قریب''۔ اس نے بتایا… ''یہ جہاز ادھر گئے تو اپنے جہازوں کو پہلے سے اطلاع کردوں گا۔ اب اتفاق سے تم کمانڈر کے جہاز میں آگئی ہو۔ تم میری مدد کرسکو گی اور میں تمہیں اس جہاز سے نکال کر ٹائر پہنچا سکوں گا۔ مجھے اب جانا چاہیے۔ اشارے مقرر کرلو۔ میں ان جہازوں کے ساتھ سائے کی طرح لگا ہوا ہوں۔ یہ جہاز کہیں بھی ساحل کے قریب لنگر ڈالے گا، وہاں اسی بھیس میں موجود ہوں گا''۔
انہوں نے اشارے مقرر کرلیے۔ لڑکیوں نے اس کی ٹوکری میں سے کچھ چیزیں اٹھالیں۔ اسے پیسے دئیے اور وہ رسوں کی سیڑھی سے اپنی کشتی میں اتر گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
٢ستمبر١١٨٧ء کے روز سلطان ایوبی نے ایک اور مشہور ساحلی شہر عسقلان کا محاصرہ کرلیا۔ یہاں بھی وزنی پتھر پھینکنے والی منجنیقیں اور پہیوں پر چلنے والی مچانیں استعمال کی گئیں۔ سرنگیں کھودنے والے جیش رات کو دیوار توڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ قریب ہی ایک بلندی تھی۔ وہاں سے منجنیقوں سے شہر کے اندر پتھر اور آتشیں گولے پھینکے گئے۔ دوسرے دن محصورین نے گھبرا کر شہر کے دروازے کھول دئیے اور ہتھیار ڈال دئیے۔
اس شہر پر فرینکس نے ١٩ ستمبر ١١٥٣ء میں قبضہ کیا تھا۔ پورے چونتیس برس بعد یہ شہر آزاد کرایا گیا۔
عسقلان سے بیت المقدس چالیس میل مشرق کی سمت واقع ہے۔ سلطان ایوبی کے تیز رفتار دستوں کے لیے یہ دو دن کا سفر تھا۔ اس کے بعض دستے اور چھاپہ مار جیش پہلے ہی بیت المقدس کے قریب پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے صلیبیوں کی بیرونی چوکیاں تباہ کردی تھیں۔ بچے کھچے صلیبی بیت المقدس پہنچ رہے تھے۔سلطان ایوبی نے اپنے بکھرے ہوئے دستوں کو عسقلان میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا اور بیت المقدس پر حملے کی تیاری کرنے لگا۔
سلطان ایوبی کی فتوحات اور طوفانی پیش قدمی کی خبریں دمشق، بغداد، حلب، موصل اور ادھر قاہرہ تک پہنچ چکی تھیں۔آخری خبر یہ پہنچی کہ سلطان عسقلان میں ہے اور بیت المقدس پر حملہ کرنے والا ہے۔ قاضی بہائوالدین شداد جو اس حملے میں سلطان ایوبی کے ساتھ تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ سلطان ایوبی کی فوج مسلسل فتوحات کی بدولت تھکن کے احساس سے بیگانہ تھی۔ وہ جوں جوں ان مقبوضہ علاقوں میں مسلمانوں کی حالت دیکھتی گئی، قہر بنتی گئی جو بیت المقدس پر ٹوٹنے کو بے تاب تھا۔ یہ تو سلطان کی جنگی قوت تھی۔ قاضی شداد لکھتا ہے کہ عسقلان میں سلطان ایوبی کے پاس روحانی قوت بھی پہنچنے لگی۔ یہ دمشق، بعداد اور دیگر بڑے شہروں کے علماء درویش اور صوفی منش لوگ تھے۔ وہ سلطان ایوبی کے ساتھ بیت المقدس میں داخل ہونے آئے تھے۔ انہوں نے آکر سلطان ایوبی کو دعائیں دیں اور اس کی فوج کو بیت المقدس کی اہمیت اور تقدس بتایا اور سپاہیوں کو آگ بگولا کردیا۔ سلطان ایوبی علماء اور درویشوں کا بہت احترام کیا کرتا تھا۔ انہیں اپنے ساتھ دیکھ کر اس کی تھکن ختم ہوگئی اور اس نے جوش وجذبات سے کہا… ''اب دنیا کی کوئی طاقت مجھے شکست نہیں دے سکتی''۔
عسقلان سے کوچ سے دو چار روز پہلے سلطان ایوبی کے پاس حلب سے ایک مہمان آیا جسے دیکھ کر سلطان حیران رہ گیا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا… یہ نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ رضیع خاتون تھی جس نے عزالدین کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ وہ گھوڑے پر سوار تھی۔ کود کر گھوڑے سے اتری اور دوڑ کر سلطان ایوبی کو گلے لگا لیا۔ دونوں کے جذبات ابھر آئے ارو ان پر رقت طاری ہوگئی۔
ذرا دیر بعد اونٹوں کی ایک لمبی قطار آرکی۔ ان پر کم وبیش دو سو لڑکیاں سوار تھیں۔
''یہ کیا؟'' سلطان ایوبی نے رضیع خاتون سے پوچھا۔

''زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے تربیت یافتہ لڑکیاں''۔ رضیع خاتون نے جواب دیا۔ ''میں نے انہیں لڑائی کی تربیت بھی دے رکھی ہے۔ تیر اندازی کی بھی انہیں خاصی مشق ہے… مجھے معلوم ہے کہ تم عورت کو میدان جنگ میں نہیں دیکھنا چاہتے لیکن میرے اور ان کے جذبے کو کچلنے کی کوشش نہ کرنا۔ تم نہیں جانتے کہ شام میں جو ان لڑکیوں پر قابو پانا محال ہورہا ہے، جسے دیکھو وہ محاذ پر پہنچنے کے لیے بے تاب ہے۔ اگر تم اجازت دو تو میں ایک ہزار لڑکیاں محاذ پر بھیج دوں۔ سپاہیوں کی طرح لڑیں گی، جن مائوں کے بیٹے یہاں لڑ رہے ہیں، وہ مائیں ان کی خیریت کی نہیں، فتح کی خبر سننا چاہتی ہیں۔ آبادیوںمیں ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے… ''محاذ کی کیا خبر ہے؟''… کہو صلاح الدین! کتنی لڑکیاں بھیجوں؟''
''میں انہیں اپنے ساتھ رکھ لوں گا''… سلطان ایوبی نے کہا… ''اور کسی کو نہ بھیجنا''۔
''اس اونٹ پر ایک منبر لدا ہوا ہے''… رضیع خاتون نے کہا۔ یہ کہتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ذرا خاموش رہنے کے بعد کہنے لگی… ''تمہیں شاید یاد نہیں، میرے مرحوم شوہر (نورالدین زنگی) نے یہ منبر اس عہد کے ساتھ بنواکر پاس رکھ لیا تھا کہ بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کرائے گا تو یہ منبر مسجد اقصیٰ میں رکھے گا۔ بہت خوبصورت منبر ہے۔ یہ دمشق میں رکھا تھا، اٹھا لائی ہوں۔ اللہ تمہیں فتح دے صلاح الدین اور میں دیکھوں کہ تم نے یہ منبر مسجد اقصیٰ میں رکھ کر میرے مرحوم شوہر کا عہد پورا کردیا ہے''۔
سلطان ایوبی پر رقت طاری ہوگئی۔ اس کے منہ سے سسکی سی نکلی… ''اللہ یہ عہد مجھ سے پورا کرائے''۔
ایک جواں سال لڑکی ان کے قریب آکھڑی ہوئی اور سلطان ایوبی کو مسکرا کر سلام کیا۔ رضیع خاتون نے کہا… ''پہچانا نہیں صلاح الدین؟ یہ میری بیٹی شمس النساء ہے''… سلطان ایوبی نے لپک کر اسے گلے لگا لیا اور پھر وہ اپنے آنسو نہ روک سکا۔ اس نے اس لڑکی کو اس وقت دیکھا تھا جب یہ بہت چھوٹی تھی۔
''یہ تمہارے ساتھ محاذ پر رہے گی''۔ رضیع خاتون نے کہا… ''لڑکیاں اس کی کمان میں رہیں گی۔ مجھے واپس جانا ہے''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ علماء اور درویش وغیرہ جو سلطان ایوبی کے پاس آگئے تھے، ورد، وظیفے اور دعائوں میں مصروف رہتے یا سپاہیوں میں گھومت پھرتے اور انہیں روحانی حوصلہ دیتے رہتے۔ وہ عسقلان سے باہر وہاں تک بھی گئے جہاں دستے اور جیش موجود تھے۔ ان کے وعظ اور خطبوں کے الفاظ کچھ اس قسم کے تھے… ''نوے سال سے کفار تمہارے قبلۂ اول پر قابض ہیں۔ قرآن کے احکام پڑھو تو قبلۂ اول کو کفار کے ناپاک قبضے سے چھڑانے تک کسی مسلمانوں کو نیند نہیں آنی چاہیے تھی۔ وہ مسجد اقصیٰ جہاں سے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بلاوے پر معراج پر تشریف لے گئے تھے، کفار کی عباد گاہ بنی ہوئی ہے۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مقدس ہم پر لعنت بھیج رہی ہے۔ ہم پر نیند، کھانا، پینا اور ہم پر اپنی بیویاں حرام ہونی چاہئیں تھیں مگر نوے سال سے ہم گہری نیند سورہے ہیں اور عیش وعشرت میں مگن ہیں''…
''اللہ کے سپاہیو! ہمارے حکمرانوں نے صلیبیوں اور یہودیوں کے خوبصورت جال میں پھنس کر ان کے خلاف خانہ جنگی کی، جنہوں نے قبلۂ اول کو آزاد کرانے کا عہد کیا تھا۔ بیت المقدس وہ پاک جگہ ہے جہاں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدم ا ئے اور ان کی جبین مبارک نے یہاں سجدے کیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ہمارے جانے کتنے انبیاء نے یہاں ورد فرمایا مگر نوے سال سے یہاں مسلمانوں پر جو قہر ٹوٹ رہا ہے، وہ تم شہر میں جاکر دیکھو گے۔ مسجد اقصیٰ پر صلیب کھڑی ہے۔ مسجدیں اصطبل بنی ہوئی ہیں۔ مسلمانوں کا قتل عام اس طرح ہوا ہے کہ گلیوں میں خون ندی کی طرح چلتا رہا۔ مسلمان قیدوبند کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہماری بیٹیاںکفار کی لونڈیاں بنا دی گئی ہیں''…
''اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پر مرمٹنے والو! اللہ نے یہ سعادت تمہیں عطا کی ہے کہ بیت المقدس کو آزاد کرائو، پاک کرو اور اگر تم ناکام رہو تو وہاں سے تمہاری لاشیں اٹھائی جائیں… اور تم سن کر حیران ہوگے کہ جس بیت المقدس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی نوع انسان کو محبت کا سبق دیا تھا، وہاں صلیب کے پجاریوں نے یہاں تک درندگی کی ہے کہ جب انہیں کسی محاذ پر فتح ہوتی تو وہ بیت المقدس میں جشن مناتے جس میں ہماری بیٹیوں کو برہنہ کرکے نچاتے اور چند ایک تندرست وتوانا مسلمانوں کو ذبح کرکے ان کا گوشت پکا کر کھاتے… اب تمہیں ایک ایک معصوم کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لینا ہے۔ دمشق سے سلطان نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ وہ منبر لائی ہے جو مرحوم نے مسجد اقصیٰ میں رکھنے کے لیے بنوایا تھا۔ یہ خاتون دو سو لڑکیوں کے ساتھ بہت دور کا سفر کرکے آئی ہے۔ یہ عہد تمہیں پورا کرنا ہے''۔
اس دوران سلطان ایوبی اپنے دستوں کو یکجا کرکے ان کی تقسیم کرتا رہا اور جاسوسوں کی رپورٹوں کے مطابق بیت المقدس کے محاصرے کا پلان بناتا رہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی