🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➊➌】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کچھ ایسی خواہش ابھر رہی ہے کہ تمہارے ساتھ ہی چلی چلوں ،کچھ ایسا لگتا ہے جیسے تم سے جدا ہو کر مجھے دلی افسوس ہوگا ،اس بدبخت منگیتر نے میرا دل مسل ڈالا ہے ،اور میں کچھ اور ہی سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں، یہ بات بھی دل میں کھٹکنے لگی ہے کہ میرے شاہی خاندان میں عزت و غیرت اور حمیت ختم ہوتی جارہی ہے شاہی خاندان میں بدکاری ایک جائز رواج کی طرح چلتی ہے۔
میں نے تمہارے متعلق ایسی کوئی بات سوچی ہی نہیں۔۔۔ عباس نے کہا۔۔۔ اور میں ایسی بات سوچوں گا بھی نہیں تم جو سوچنا چاہتی ہوں سوچتی رہو میں اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کروں گا۔
ایک سوچ اور آتی ہے۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ تمہارے ساتھ تو چلی چلوں لیکن معلوم نہیں تمہارا خاندان کیسا ہے؟،،،، میرا مطلب یہ ہے کہ,,,,,,,,,,, میں تمہارا مطلب جان گیا ہوں عباس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ تم یہ معلوم کرنا چاہتی ہو کہ میں بھی تمہاری طرح شاہی خاندان کا فرد ہوں، یا میرے خاندان کی حیثیت کیا ہے ؟،،،،اگر میں کہہ دوں کہ میں بہت ہی امیر کبیر خاندان کا فرد ہوں تو تم میرے ساتھ چل پڑوں گی ورنہ نہیں۔
نوشی ہنس پڑی اس کی ہنسی کا مطلب یہی ہوسکتا تھا کہ عباس بن طلحہ ٹھیک سمجھا۔
تم سن کر شاید حیران ہوگی نوشی۔۔۔ عباس نے کہا ۔۔۔اسلام میں کوئی شاہی خاندان نہیں ہوتا ہم جنہیں اپنا حکمران بناتے ہیں وہ بھی شاہی خاندان کے نہیں ہوتے ،ہم سب ایک ہیں اور سب کے حقوق اور سب کی حیثیت مساوی ہے ،اگر ہمارے خلیفہ ہمارے لشکر میں آ جائیں تو تم مانو گی ہی نہیں کہ یہ شخص ایک فاتح قوم کا سب سے بڑا سردار ہے، تم کہو گی کہ یہ تو بالکل عام سا آدمی ہے، اسلام میں بادشاہ اور رعایا کا کوئی تصور نہیں، بنی نوع انسان کی محبت اور ہمدردی ہمارا ایمان ہے، میں نے تمہیں اس لئے اس شیطان سے نہیں بچایا کہ تم بڑی خوبصورت اور شاہی خاندان کی لڑکی ہو، بلکہ اس لئے کہ تم مجبور اور بے سہارا لڑکی ہو، اور جذبات میں آکر غلط اور پرخطر راستے پر چل نکلی تھی۔
تو کیا مسلمانوں کے متعلق جو کچھ سنتی رہی ہوں وہ غلط ہے؟،،،،،، نوشی نے کہا ۔۔۔میں نے سنا ہے کہ مسلمان لٹیرے اور وحشی لوگ ہیں۔
مجھ سے نہ پوچھو ۔۔۔عباس نے کہا ۔۔۔ہم نے مصر کے دو بڑے شہر عریش اور فرما فتح کئے ہیں، اس کے درمیان اور اردگرد بے شمار گاؤں ہیں وہاں جاکر عیسائیوں سے پوچھنا کہ مسلمانوں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے، تمہیں اپنے سوال کا جواب مل جائے گا,,,,,,,,,, میں شاہی خاندان کا ہی فرد ہوں اور تم میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو تو بھی میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں لے جاؤں گا ، کیونکہ تم میرے ہاتھ میں ایک امانت ہو,,,,,,,, اپنے ماں باپ کی امانت,,,,,,, میرے مذہب کا حکم ہے کہ امانت ان تک پہنچاؤ جن کی ملکیت ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ٹھہرو!،،،،،، عباس نے گھوڑے کی باگ کھینچ کر کہا۔۔۔ گھوڑے کی ٹاپ سن رہی ہو۔
نوشی نے بھی اپنے گھوڑے کی باگ کھینچی اور کان کھڑے کیے دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ بڑی ہی دور کی آواز کی طرح سنائی دے رہے تھے ،وہ گھوڑسوار کوئی بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن ان دونوں کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ نوشی کے منگیتر کو جب پتہ چلے گا کہ نوشی اور سیلی نوش غائب ہیں تو وہ ان کے تعاقب میں ضرور آئے گا، یہ گھوڑسوار نوشی کا منگیتر ہوسکتا تھا ،اور وہ کوئی بدو بھی ہو سکتا تھا ،کسی نے دیکھ لیا ہوگا کہ ہامون مرا پڑا ہے اور سیلی نوش نوشی کے ساتھ لاپتہ ہے ،قتل کا شک بلکہ یقین انہیں پر ہوسکتا تھا۔ لہذا کوئی بدو ان کے تعاقب میں آرہا ہوگا۔
گھوڑے کے ٹاپ اب واضح ہوگئے تھے اور لگتا تھا جیسے گھوڑا انہی کی طرف آرہا ہے۔ اور دونوں مڑ مڑ کر دیکھتے چلتے ہی گئے۔
گھوڑا خاصی تیز دوڑتا آ رہا تھا ان دونوں کی رفتار معمولی تھی پورا چاند اوپر آگیا تھا اور جنگل کی چاندنی پہلے سے زیادہ شفاف ہو گئی تھی ۔اب جو انہوں نے پیچھے دیکھا تو انھیں گھوڑا نظر آنے لگا وہ رک گئے ۔ وہ گھوڑسوار کوئی عام مسافر ہوتا تو معمول کی چال چلتا لیکن وہ سرپٹ گھوڑا دوڑاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے بالکل قریب آ گیا۔
نوشی!،،،،، گھوڑسوار نے للکار کر کہا۔۔۔ اتنی آسانی سے نہیں جا سکو گی ، تلوار نکال لے او بدو پھر نہ کہنا کہ میں نے تجھے مقابلے کی مہلت نہ دی تھی۔
وہ نوشی کا منگیتر ہی تھا۔ وہ تلوار لہراتا رہا تھا ۔ اس نے گھوڑا روکا اور عباس کو للکار کر گھوڑا عباس اور نوشی کے اردگرد آہستہ آہستہ دوڑانے لگا۔
میں تجھے موقع دیتا ہوں اے رومی !،،،،،عباس بن طلحہ نے کہا۔۔۔ میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ نہیں لے جا رہا اسے اس کے ماں باپ کے پاس لے جا رہا ہوں۔
جھوٹے بدو!،،،،، منگیتر نے کہا۔۔۔ میں جانتا ہوں تو اسے کہاں لے جا رہا ہے۔
نوشی نے عباس سے کہا کہ وہ تلوار نکال لے اور اس کے ساتھ کوئی بات نہ کرے۔
نوشی نے اپنی تلوار نکال لی منگیتر نے کچھ ایسے ناروا باتیں کہہ دی کے عباس کو تلوار نکالنی ہی پڑی ۔ ورنہ عباس کی کوشش یہ تھی کہ لڑنے تک نوبت نہ آئے، مگر منگیتر غصے سے باؤلا ہوا جا رہا تھا اور بڑھ بڑھ کر تلوار عباس کے آگے لہراتا تھا۔
آخر عباس اور نوشی کے منگیتر میں تیغ زنی شروع ہوگئی دونوں اپنے گھوڑوں کو گھما پھرا کر اور پینترے بدل بدل کر ایک دوسرے پر وار کر رہے تھے۔وار روک بھی رہے تھے، دونوں ماہر تیغ زن تھے۔ تلوار ٹکراتی اور جسموں سے دور رہتی تھی۔
نوشی بھی تلوار لہرا کر منگیتر پر حملہ آور ہوئی لیکن عباس نے اسے ڈانٹ کر پیچھے کر دیا اور کہا کہ ایک کے مقابلے میں دو تلواروں کا آنا بزدلی ہے،،،،،،، ان کی لڑائی تیز اور تیز تر ہوتی چلی گئی نوشی اس قدر غصے میں بپھری ہوئی تھی کہ وہ اس لڑائی سے الگ رہ نہ سکی باربار درمیان میں آتی تھی لیکن دو مردوں کی لڑائی میں اس کی دخل اندازی کامیاب نہیں ہوتی تھی۔
عباس بار بار اسے پیچھے رہنے کو کہتا تھا۔
آنے دے آگے اسے ۔۔۔۔منگیتر نے غضب ناک آواز میں کہا۔۔۔ اسے میری ہی تلوار سے مرنا ہے تم دونوں زندہ نہیں جاسکوگے۔
تم پیچھے ہٹ جاؤ عباس!،،،، نوشی نے کہا۔۔ یہ میرے ہاتھوں مرنا چاہتا ہے۔
پیچھے رہ نوشی !،،،،،عباس نے گرج کر کہا۔۔۔ میں اسے زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔
منگیتر گھوڑا ایک طرف لے گیا اور ان دونوں کے اردگرد دوڑانے لگا۔
کیا نام لیا ہے اس کا؟،،،، منگیتر نے پوچھا
عباس بن طلحہ۔۔۔ عباس نے کہا۔۔۔ میرا نام سیلی نوش نہیں، میں مسلمان ہوں۔
ہاہا ۔۔۔۔منگیتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے۔
اب منگیتر قہر اور غضب سے عباس پر حملہ آور ہوا لیکن عباس کی تلوار منگیتر کے پہلو میں اتر گئی عباس نے تلوار کھینچ کر اس کی گردن پر ایسا وار کیا کہ آدھی گردن کاٹ دی منگیتر گھوڑے سے ایک طرف گر پڑا۔
چلو نوشی!،،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں نے اسے زندہ رہنے کا بہت موقع دیا تھا لیکن اسے اسی انجام کو پہنچنا تھا۔
نوشی کی طرف سے عباس کو کوئی جواب نہ ملا جیسے نوشی وہاں تھی ہی نہیں۔
عباس نے ادھر دیکھا جدھر نوشی کو ہونا چاہیے تھا لیکن ادھر نوشی کا گھوڑا کھڑا تھا اور نوشی گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں تھی۔
عباس کو نوشی زمین پر گری نظر آئی، عباس کود کر گھوڑے سے اترا اور نوشی تک پہنچا نوشی کے کپڑے خون سے لال ہو گئے تھے۔
عباس نوشی کے پاس بیٹھ گیا اور پوچھا کہ یہ کیا ہوا ہے؟،،،،، نوشی درد سے کراہتی اتنا ہی کہہ سکی کہ بدبخت مرتے مرتے تلوار میرے سینے میں اتار گیا ہے، یہ نوشی کے آخری الفاظ تھے اور اس کا سر ایک طرف ڈھک گیا۔
عباس کو پتا ہی نہیں چل سکا تھا کہ نوشی کو اس کے منگیتر نے کس وقت اور کس طرح تلوار ماری تھی اس لیے عباس بار بار نوشی سے کہتا تھا کہ وہ دور رہے نوشی کسی وقت اتنی قریب آگئی تھی کہ اس کا منگیتر اس پر وار کر گیا۔
عباس بن طلحہ نے دونوں کی لاشیں وہیں چھوڑیں، ان کے گھوڑوں کی باگیں اپنے گھوڑوں کے پیچھے باندھی اور چل پڑا وہ اتنی اچھی نسل کے گھوڑے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اسے ذرا سا بھی افسوس نہ ہوا کہ اتنی خوبصورت لڑکی ماری گئی ہے، اسے اطمینان ہوا کہ اللہ نے اسے اس فرض سے سے جو اس نے خود ہی اپنے لئے پیدا کرلیا تھا جلد ہی سبکدوش کر دیا ہے اور اس نے امانت میں خیانت نہیں کی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسی رات کی بات ہے کہ سیلی نوش اور نوشی ،بدوّ کے جادوگر ہامون کو قتل کرکے بدو ملازم اور منگیتر کو سوتا چھوڑ کر وہاں سے چل پڑے تھے ،وہ مطمئن تھے کہ منگیتر اور ملازم کو پتہ نہیں چلا کہ یہ دونوں یہاں سے چلے گئے ہیں دونوں کچھ دور نکل آئے تھے۔
منگیتر کو موت اس طرف لے آئی تھی ورنہ نوشی اور عباس کو خیمے سے غائب پا کر وہ ان کی تلاش میں کسی اور طرف چل پڑا تھا۔ پھر وہ اس طرف کیوں آگیا؟،،،،، اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ منگیتر کو عباس کے ہاتھوں ہی قتل ہونا تھا اور اصل جواب بھی مل گیا وہ اس طرح کہ جب عباس نوشی اور اس کے منگیتر کی لاشیں وہیں چھوڑ کر اور ان کے گھوڑے ساتھ لے کر ذرا ہی دور گیا تھا کہ اسے اسی طرف سے جس طرف سے منگیتر آیا تھا دوڑتے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دینے لگے، عباس نے یوں نہ کیا کہ ادھر ادھر ہو کر یا کہیں چھپ کر دیکھتا کہ اب کون آرہا ہے ،اس نے گھوڑا وہیں روک لیا اور آنے والے گھوڑسوار کا انتظار کرنے لگا۔
گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز قریب تر آتے گئ، کچھ ہی دیر بعد شفّاف چاندنی میں اسے گھوڑا اور گھوڑسوار کا ہیولہ نظر آنے لگا وہ کوئی اکیلا آدمی تھا صاف نظر آتا تھا کے اس کے ہاتھ میں تلوار نہیں ہے۔
عباس نے اپنا ایک ہاتھ تلوار کے دستے پر رکھ لیا وہ کوئی بدوّ ہی ہوسکتا تھا۔
وہ گھوڑسوار اس جگہ رک گیا جہاں نوشی اور اس کے منگیتر کی لاشیں پڑی تھیں۔
وہ گھوڑے سے اترا اور دونوں لاشوں کے پاس بیٹھ کر انہیں دیکھنے لگا چاندنی تو بڑی صاف تھی لیکن اتنی دور سے چہرہ نہیں پہچانا جاتا تھا ۔ عباس کو یوں لگا جیسے وہ نوشی کا بدو ملازم ہے۔ عباس اس کی طرف چل پڑا وہ بدو ملازم ہی تھا۔ جو عباس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ عباس گھوڑے سے اترا اور اس کے پاس چلا گیا اس ملازم سے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا اس لیے کہ وہ ملازم تھا اور دوسرے اس لیے کہ وہ بدو تھا۔
یہ کیا ہوا ہے؟،،،، بدوّ ملازم نے ڈھیلی سی آواز سے پوچھا۔
اس بدقسمت کو موت ادھر لے آئی تھی۔۔۔ عباس نے کہا ۔۔۔۔اور تمہاری یہ شہزادی اسی منگیتر کے ہاتھوں قتل ہوئی ہے یہ شخص میری تلوار سے مارا گیا ہے کیا تم انکے پیچھے آئے ہو۔
میں شہزادی کے پیچھے آیا تھا۔۔۔ ملازم نے جواب دیا ۔۔۔بڑی اچھی شہزادی تھی مجھے ملازم سمجھتی ہی نہیں تھی اس کے آنسو نکل آئے۔
بدو ملازم نے عباس بن طلحہ کو بتایا کہ منگیتر کس طرح اس طرف آگیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ جب عباس اپنے خیمے سے زینیں لےکر نکل رہا تھا تو اس ملازم کی آنکھ کھل گئی تھی وہ چونکہ چھوٹی حیثیت کا آدمی تھا اس لئے عباس سے یہ پوچھنے کی جرات نہ کی کہ وہ زینیں کہا لے جا رہا ہے۔ لیکن یوں کیا کہ جب عباس نکل گیا تو ملازم نے اٹھ کر اسے دیکھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟
ملازم نے عباس کو گھوڑوں پر زین کستے دیکھا پھر عباس اور نوشی کو گھوڑوں پر سوار ہوتے دیکھا ،اور پھر یہ دیکھا کہ وہ کس طرف گئے ہیں اس نے یہ جرات بھی نہ کی کہ نوشی کے منگیتر کو بتاتا کہ عباس اور نوشی کہیں چلے گئے ہیں وہ اپنے خیمے میں جا کر بیٹھ گیا۔
خاصا وقت گزر گیا تو بدو ملازم نے نوشی کے منگیتر کو دیکھا کہ وہ خیمے سے نکل کر چند قدم آگے جا رکا تھا اور ہامون کے خیمے کی طرف دیکھ رہا تھا ذرا دیر وہاں رک کر منگیتر ہامون کے خیمے کی طرف چلا گیا، اس وقت ملازم اپنے خیمے سے باہر آیا اور منگیتر کو دیکھنے لگا اس وقت بھی اس نے یہ ہمت نہ کی کے منگیتر کو بتا دے کہ وہ دونوں کہاں چلے گئے ہیں؟
کچھ وقت بعد منگیتر دوڑتا ہوا اپنے خیمے کی طرف آیا اس وقت ملازم آگے ہوا اور پوچھا کہ وہ کیوں دوڑا آرہا ہے ؟،،،،منگیتر نے اسے بتایا کہ ہامون مرا پڑا ہے اور وہ بدو (عباس )اور نوشی کہیں بھی نظر نہیں آ رہے۔
تم ضرور جانتے ہو گے کہ بدو کہاں رہتے ہیں؟،،،، نوشی کے منگیتر نے ملازم سے کہا۔۔۔ وہ بدو ہامون کو قتل کرکے نوشی کو اپنے ساتھ لے گیا ہے وہ یقیناً اسے اپنے گھر لے گیا ہے تم آؤ اور میرے ساتھ چلو اور مجھے بتاؤ کہ یہ بدوّ کہاں کہاں رہتے ہیں ،ان کے سردار سے مجھے ملاؤ۔
ملازم ابھی اسے کچھ بتا ہی نہیں سکا تھا کہ منگیتر دوڑتا اپنے خیمے میں گیا اور زین اٹھا لایا اس نے ملازم سے کہا کہ فوراً اپنی زین اٹھا لائے اور گھوڑا تیار کرے۔
ملازم نے اسے بتایا کہ سیلی نوش اور نوشی اس طرف نہیں گئے جدھر بدو رہتے ہیں ۔وہ فرما یا بلبیس کی طرف گئے ہیں۔
یہ بدوّ سیلی نوش نہ فرما جائے گا نہ بلبیس نوشی کے منگیتر نے بھپری آواز میں کہا ۔۔۔تم یہ بتاؤ کیا اس طرف بھی بدوؤں کے کوئی قبیلے رہتے ہیں؟
بہت دور جا کر راستہ دائیں کو مڑتا ہے۔۔۔ ملازم نے جواب دیا۔۔۔ یہ راستہ خاصہ آگے جا کر پھر دائیں کو مڑتا ہے اور کچھ اور آگے جا کر ایک علاقہ آتا ہے جس میں بدووں کے دو قبیلے رہتے ہیں۔
کیا تم سیلی نوش کو جانتے ہو ؟،،،،منگیتر نے پوچھا۔۔۔ وہ کون سے قبیلے کا سردار ہے۔
نہیں!،،،، ملازم نے جواب دیا۔۔۔ میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا مجھے کچھ ایسا شک بھی ہوتا ہے کہ یہ شخص بدو ہے ہی نہیں۔
مجھے بھی یہی شک ہے۔۔۔ منگیتر
نے کہا۔۔۔ وہ لڑکی کو لے اڑا ہے تم بھی میرے ساتھ چلو۔
ملازم نے غلامانہ سے انداز سے بات کرتے ہوئے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اس نے کہا کہ وہ گھوڑا اتنی تیز نہیں دوڑا سکتا اور اگر کہیں لڑنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ لڑ بھی نہیں سکے گا،،،،،،،، نوشی کا منگیتر اس قدر غصے اور ایسی جلدی میں تھا کہ ملازم کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کیا اور گھوڑا دوڑا دیا۔
ملازم نے عباس کو بتایا کہ نوشی کا منگیتر تو چل پڑا لیکن وہ خود وہاں زیادہ دیر رک نہ سکا اس نے سوچا کہ اب اپنے ہی گھر چلا جائے اور واپس بلبیس نہ جائے وہ شاہی محل کی سیاست سے تنگ آ گیا تھا یہ سوچ کر وہ اپنے قبیلے کی طرف چلنے لگا تو اسے نوشی کا خیال آگیا اس نے سوچا کہ ایسا نہ ہو نوشی واپس بلبیس چلی جائے تو پھر وہ اپنے دو چار فوجی اس کے قبیلے میں بھیج کر اسے گرفتار کروا کے بلا لے گی۔
اصل بات یہ تھی کہ بدو ملازم کوئی فیصلہ کر بھی نہ سکا اور بلبیس کی طرف چل پڑا۔
اس نے راستے میں نوشی اور اس کے منگیتر کی لاشیں دیکھی تو وہ وہیں رک گیا۔ عباس نے اسے سنایا کہ یہ دونوں کس طرح مرے ہیں پھر اسے کہا کہ وہ بلبیس جائے تو نوشی کے ماں باپ کو بتائے کہ کیا واقعہ ہوا تھا۔ لیکن ملازم نے کہا کہ اب تو وہ اپنے قبیلے میں ہی جائے گا کیونکہ اسے ڈر ہے کہ وہ بلبیس گیا تو نوشی کا جرنیل باپ غصے میں اسے ہی قتل کر دے گا۔
یہ مسئلہ عباس بن طلحہ کا نہیں تھا ۔نوشی کے والدین کو اطلاع ملتی نہ ملتی۔بدوّ ملازم وہاں جاتا یا اپنے قبیلے میں چلا جاتا۔ عباس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ عباس فرما کی طرف چل پڑا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عباس بن طلحہ ڈیڑھ یا دو دنوں کی مسافت کے بعد فرما پہنچا اور سیدھا سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس گیا۔ عباس عمرو بن عاص کے جاسوسی کے اس نظام کا ایک بڑا ہی قابل اور دانشمند فرد تھا جو انہوں نے سارے مصر میں ایک جال کی طرح پھیلا دیا تھا۔ عباس ایک مہینے اور کچھ دن بعد جاسوسی کا مشن پورا کرکے واپس آیا تھا کوئی نئی خبر لائے ہو؟،،، عمرو بن عاص نے عباس سے پوچھا۔۔۔
عباس نے اپنی جاسوسی کی پوری رپورٹ سپہ سالار کو پیش کی اور آخر میں نوشی اور ہامون کا واقعہ سنایا کوئی ایک بھی بات چھپائی نہیں اور ذرا ذرا سی تفصیل سنا ڈالی۔ سپہ سالار نے عباس کو ہلکی سی سرزنش کی کہ وہ خواہ مخواہ دوسروں کے مسائل میں اپنی ٹانگ اڑاتا ہے یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ لڑکی کے منگیتر کی بجائے وہ منگیتر کے ہاتھوں قتل ہو جاتا۔
میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا سپہ سالار!،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں نے جب لڑکی کی زبانی سنا کے وہ ان بدوؤں کو رومی فوج میں شامل کرنے کے لئے آئی ہے، اور اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ بدوؤں کا جو لشکر مسلمانوں سے جا ملا ہے اسے ورغلا کر مسلمانوں سے ہٹایا جائے تو میں نے اپنا فرض سمجھا کہ اپنی شناخت بدل کر ان کے ساتھ ہو لوں۔ یہ دیکھنا بہت ہی ضروری تھا کہ یہ لوگ کیا کاروائی کرتے ہیں اور انھیں کچھ کامیابی حاصل ہوتی ہے یا نہیں ہمارے لیے یہ معاملہ بڑا ہی اہم اور نازک تھا،،،،،،،
اس ہامون جادوگر کو میں نے ایک تو اس وجہ سے قتل کیا کہ وہ ایک ایسی لڑکی کی آبروریزی کرنا چاہتا تھا جو اس کے لیے رضامند نہیں تھی، اور اس سے نفرت کرتی تھی، اسے قتل کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ مجھے پتہ چلا کہ بدووں کے سرداروں پر اس کا ایسا اثر ہے کہ وہ اس کے اشاروں پر چلتے ہیں میں نے سوچا کہ ایسا نہ ہوجائے کہ یہ شخص اس لڑکی کو حاصل کرنے کی خاطر سرداروں سے کہہ دے کہ وہ اپنا ایک لشکر تیار کرکے رومی فوجی کو دے دیں، میں نے ہامون کو قتل کرکے یہ خطرہ ہی ختم کردیا۔ پھر شاہی خاندان کی یہ لڑکی بھی ماری گئی اور اس کا منگیتر بھی اب ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ اس علاقے کے بدو رومیوں سے جا ملیں گے اور ہمارے پاس آئے ہوئے بدوّ ہمارا ساتھ چھوڑ جائیں گے،،،،،،
یہ بھی دیکھیں سپہ سالار!،،،، ان دونوں سے کتنی اہم معلومات مل گئی ہیں بعض معلومات کی تصدیق ہو گئی ہے اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ مقوقس اور اطربون آپس میں متفق نہیں کہ وہ مصر کا دفاع کس طرح کریں۔ مقوقس محتاط رویہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اور اطربون لڑنے کے حق میں ہے۔ اس رومی لڑکی نے مجھے بتایا تھا کہ ہرقل نے ان دونوں کو پورے اختیارات دے دئے ہیں لیکن یہ بھی کہا ہے کہ قبطی عیسائیوں پر نظر رکھنا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بغاوت کردیں اس صورت میں مصر کو مسلمانوں سے بچانا ممکن نہیں رہے گا،،،،،
لڑکی شاہی خاندان کی تھی اس لیے میں نے اس کی ہر بات قابل اعتماد سمجھی، وہ ہرقل کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی اور کہتی تھی کہ وہ ہمت ہار بیٹھا ہے، شام کی شکست نے اس کی کمر توڑ دی ہے، اس لئے مصر سے دور رہنا چاہتا ہے کہ ایک اور شکست کا داغ اس کے ماتھے پر نہ لگے۔
یہ بدوّ ہمارا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔
۔انہیں ہم نے فرما کا مال غنیمت اسی حساب سے دیا ہے جس حساب سے ہم نے اپنے لشکر میں تقسیم کیا ہے وہ بہت ہی خوش ہیں۔
آخری فیصلہ تو آپ کو ہی کرنا ہے
سپہ سالار!،،،، عباس بن طلحہ نے مشورہ دیا۔۔۔ میں جو کچھ دیکھ آیا ہوں اس کے پیش نظر میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کو کمک کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اور فوراً پیش قدمی کرکے بلبیس پہنچنا چاہیے رومیوں کو سنبھلنے اور دم لینے کا موقعہ نہ دیں انہیں سوچنے کی مہلت نہ دیں۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کو کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی وہ غیر معمولی طور پر دانشمند اور جرات مند تھے ان میں خالد بن ولید والی صفات پائی جاتی تھیں ،حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا تھا کہ عمرو بن عاص کو مصر پر حملے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ یہ خالد بن ولید کی طرح بے خطر اور بےدھڑک ایسے خطروں میں کود جاتے ہیں ،جہاں مجاہدین کے پورے لشکر کی ہلاکت صاف نظر آنے لگتی ہے۔
*تاریخ گواہی دیتی ہے کہ سپہ سالار عمروبن عاص کمک کے انتظار میں وقت ضائع کرنے کے حق میں نہیں تھے انہوں نے پہلے ہی لشکر کو تیاری کی حالت میں رکھا ہوا تھا اور اپنے ماتحت سالاروں اور کمانڈروں سے کہہ دیا تھا کہ وہ دشمن کے تعاقب میں رہیں اور اسے دم نہ لینے دیں۔*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*جب نوشی بدوؤں کے علاقے میں چلی گئی تھی، اس کا شکست خوردہ جرنیل باپ بلبیس پہنچا اور فرما کی شکست کی خبر سنائی تو وہاں موت کا سکوت طاری ہو گیا ۔ اس کی فوج کے بکھرے ہوئے سپاہی جب ایک ایک دو دو کر کے بلبیس پہنچے تو انہوں نے مسلمانوں کی شجاعت اور بہادری کی ایسی باتیں سنائی کہ بلبیس میں جو فوج تھی اس پر دہشت سی طاری ہو گئی ۔*
*دو یورپی مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رومی فوج میں یہ بات پھیل گئی اور سپاہیوں کی زبان پر چڑھ گئی کے مسلمانوں کی فوج کی تعداد بہت ہی تھوڑی نظر آتی ہے لیکن جب لڑائی شروع ہوتی ہے تو ان کی تعداد کئی گناہ بڑھ جاتی ہے ،اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ مسلمانوں میں کوئی پراسرار اور غیبی طاقت ہے ورنہ انسان اس طرح نہیں لڑ سکتے۔*
*جاسوسوں نے سپہ سالار عمر بن عاص کو رومی فوج کی یہ کیفیت بھی بتا رکھی تھی، یہ اس جذبہ جہاد کا کرشمہ تھا جس سے مجاہدین سرشار تھے اور انہوں نے اپنا تعلق براہ راست اللہ کے ساتھ جوڑ رکھا تھا۔*
*فتح اور شکست کے فیصلے میدان جنگ میں ہی ہوا کرتے ہیں اور تاریخ ان فوجوں اور ان کے جرنیلوں کی ہی کہانیاں سناتی ہے جو میدان جنگ میں لڑتے ہیں ،لیکن جنگ کے پس پردہ کچھ اور ڈرامے بھی ہوتے ہیں جو آنے والی نسلوں تک کم ہی پہنچتے ہیں یہ ان لوگوں کی انفرادی کہانیاں ہوتی ہیں جو میدان جنگ سے دور ایسا کردار ادا کرتے ہیں جو فتح یا شکست پر اثرانداز ہوتا ہے، لیکن ایسے کردار تاریخ سے متعارف نہیں ہوتے کبھی کوئی اس دور کا وقائع نگار تاریخی نوعیت کے احوال و کوائف اکٹھے کرتے ہوئے کسی ایسے گمنام کردار سے متعارف ہو گیا تو اس نے پردوں کے پیچھے ایک کہانی تاریخ کے دامن میں پوری تفصیل سے ڈال دی،*
*ان میں غدار بھی ہوتے ہیں اور نوشی اور عباس بن طلحہ جیسے وہ کردار بھی جو جذبوں سے سرشار ہو کر کسی دنیاوی لالچ کے طلبگار نہیں ہوتے، نوشی ایسی ہی ایک لڑکی تھی جسے قومی جذبے نے دیوانہ بنا ڈالا تھا لیکن وہ آخر انسان تھی اور نوجوان۔*
*ایسی کہانیاں اگلی نسلوں تک سینہ بسینہ پہنچتی ہیں یا کوئی وقائع نگار تفصیل سے ایسے واقعات بیان کر کے نئی روایت آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر جاتا ہے۔*
*آئیے مدینہ چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں سے ابھی تک سپہ سالار عمرو بن عاص کو کمک کیوں نہیں بھیجی گئی تھی،،،،،، عمرو بن عاص امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو جنگی صورتحال سے قاصدوں کے ذریعے آگاہ رکھتے تھے ،اور ہر بدلتی صورت تفصیل سے لکھوا کر بھیجتے تھے ۔تیز رفتار اور بڑی ہی سخت جان قسم کے قاصد تھے جنہیں اس کام کی خصوصی تربیت دی گئی تھی۔*
*نقشے پر مصر اور مدینہ کا نقشہ دیکھیں بڑا ہی زیادہ فاصلہ ہے ،وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس دور میں گھوڑے کی پیٹھ پر یہ فاصلہ ایک مہینے میں طے ہوتا تھا ، یا اس سے زیادہ دن لگتے تھے لیکن تیز رفتار قاصد چند دنوں میں یہ فاصلہ طے کر لیا کرتے تھے۔ یہ راستہ ان علاقوں میں سے گزرتا تھا جو مجاہدین اسلام نے سلطنت اسلامیہ میں شامل کر لیے تھے، قاصد خشکی کے راستے سے بحیرہ قلزوم پھر بحر احمر کے کنارے کنارے مدینہ تک آتے جاتے تھے۔ تمام راستے میں چوکیاں بنا دی گئی تھی جن میں نہایت اعلی نسل کے تازہ دم گھوڑے تیار رکھے جاتے تھے۔ قاصد تھکے ہوئے گھوڑوں کو چوکی پر چھوڑتے اور تازہ دم گھوڑے پر سفر جاری رکھتے تھے۔ کہیں کہیں وہ کھانے پینے اور ذرا سا سستانے کے لئے رک جاتے تھے لیکن کیا دن اور کیا رات وہ گھوڑے کی پیٹھ پر مسلسل سفر میں رہتے تھے اس طرح پیغام رسانی کا نظام صحیح معنوں میں برق رفتار بنادیا گیا تھا۔*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہر چند روز کے بعد عمرو بن عاص کا قاصد مدینہ پہنچتا اور تازہ صورتحال کا پیغام امیرالمومنین تک پہنچاتا تھا۔ تاریخ کے مطابق ہر پیغام میں عمرو بن عاص کمک کے لیے لکھتے تھے لیکن انہوں نے ایسی بات کبھی نہیں لکھی تھی کہ انہیں کمک نہ ملی تو وہ پیش قدمی روک دیں گے اور یہ جنگی مہم آگے نہیں بڑھ سکے گی، ان کا ہر پیغام حوصلہ افزا ہوتا تھا جیسے انہیں کسی بھی قسم کی مایوسی نہیں۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس قسم کے حوصلہ افزا پیغامات کو دیکھ کر کمک کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے، ان کی زیادہ تر توجہ مصر پر ہی مرکوز تھی کیونکہ عمرو بن عاص بہت ہی تھوڑی نفری لے کر ایسی صورتحال میں مصر چلے گئے تھے کہ امیرالمؤمنین کے اہم ترین اور بزرگ مشیر اس مہم جوئی کے خلاف تھے۔
خود حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بہت ہی سوچ بچار کے بعد عمرو بن عاص کو مصر پر لشکر کشی کی اجازت دی تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ یقیناً سوچتے ہونگے کہ مصر میں ناکامی ہوئی تو انہیں مصاحبوں اور مشیروں کے آگے شرمسار ہونا پڑے گا کہ منع کرنے کے باوجود مجاہدین کے لشکر کو یقینی ہلاکت میں ڈال دیا گیا تھا۔
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مصر پر لشکر کشی کے سب سے بڑے مخالف بزرگ صحابی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ تھے اس مخالفت میں وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ناراضگی تک بھی پہنچ گئے تھے ،لیکن اب وہی حضرت عمر پر زور دے رہے تھے کہ عمرو بن عاص کو کمک بھیجی جائے پھر کیا وجہ تھی کہ کمک میں تاخیر ہورہی تھی ۔ تاریخ نویسوں نے اس سوال پر قیاس کے گھوڑے دوڑائے ہیں اور اس طرح کچھ وجوہات سامنے آگئی ہیں۔
یہ خاص طور پر پیش نظر رکھیں کہ اس دور کے مشیر اور دیگر سرکردہ افراد جن سے امیرالمومنین مشورے طلب کیا کرتے تھے ہمارے آج کے سیاسی لیڈروں جیسے نہیں تھے، ان کے یہاں اپنی انا کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں، ان کے پیش نظر دین اور ملت کا سودوزیاں رہتا تھا ،ایسا نہیں ہوتا تھا کہ معلوم کرلیتے کے امیرالمومنین کیا چاہتے ہیں اور پھر ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتے، ایسا بھی نہیں ہوتا تھا کہ مخالفین اپنی مخالفت کو برحق ثابت کرنے کے لئے اس کام میں بھی روڑے اٹکاتے جو دین اور سلطنت اسلامیہ کے لیے بہتر ہوتا تھا ،وہ سب اپنے آپ کو سربراہ مملکت کے آگے نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالی کے آگے جواب دہ سمجھتے تھے، پہلے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کمک بھیجنے پر زور دے رہے تھے پھر دوسرے مخالفین نے بھی کہنا شروع کردیا کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو یوں تنہا نہ چھوڑاجائے سب جانتے تھے کہ عمرو بن عاص خالد بن ولید کی طرح خطرہ مول لینے والے سپہ سالار ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پورے لشکر کو جانوں کے خطرے میں ڈال دیں۔
آخر ایک روز امیرالمؤمنین نے فجر کی نماز کے بعد سب کو روک لیا اور کمک کے مسئلہ پر بات شروع کی حضرت عمر بڑے ہی اثر انگیز انداز سے اور دلوں کو موہ لینے والے الفاظ میں بات کیا کرتے تھے ،انہوں نے ایسا نہ کہا کہ آج مخالفین بھی کمک بھیجنے پر زور دے رہے ہیں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اچھی نیتوں کا اجر بہت اچھا دیا کرتا ہے ،پھر انہوں نے کمک کی تاخیر کی وجوہات بیان کیں جو مختصراً یوں ہے کہ عراق سے کسریٰ ایران کو بے دخل کر دیا گیا تھا لیکن اس کی حالت اس شیر جیسی تھی جو بری طرح زخمی ہو چکا ہو لیکن ابھی مرا نہ ہو خطرہ تھا کہ زخمی شیر آخری حملہ ضرور کرے گا اس خطرے کے پیش نظر عراق کے محاذ سے کوئی نفری نکالی نہیں جاسکتی تھی۔
ادھر پورے کا پورا ملک شام سلطنت اسلامیہ میں شامل کر لیا گیا تھا لیکن طاعون کی وباء مجاہدین کے لشکر کا تقریباً تیسرا حصہ چاٹ گئی تھی، اور بہت سے نامور سپہ سالار دنیا سے اٹھ گئے تھے ،اس قدرتی آفت کی پیدا کردہ کمی کو پورا کرنا تھا اس میں مزید کمی نہیں کی جاسکتی تھی۔
پھر حضرت عمر نے ایک وجہ یہ بتائی کہ انھیں یقین ہے کہ عمرو بن عاص عریش کو فتح کر چکے ہیں اور زیادہ سے زیادہ آگے بڑھے تو فرما تک جائیں گے اور وہاں کمک کا انتظار کر کے آگے بڑھیں گے۔
حضرت عمر کو پہلے عمرو بن عاص نے یہ پیغام بھیج دیا تھا کہ بدوؤں کا ایک لشکر ان کے ساتھ آن ملا ہے۔ جس نے رسد کا مسئلہ حل کر دیا ہے اور اب یہ لشکر لڑائی میں بھی شامل ہو گا۔ حضرت عمر کو اس پیغام سے تسلی ہوگئی تھی کہ کمک کی ضرورت پوری ہو گئی ہے اس روز انہوں نے اور سب نے خوشی کا اظہار کیا تھا کہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہو تو اللہ کس طرح مدد کرتا ہے ،کسی کو توقع تھی ہی نہیں کہ غیرمسلم بدوؤں کی اتنی زیادہ نفری مجاہدین سے آن ملے گی اور رسد اور کچھ اور ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ پھر فرما کی فتح کی اطلاع بھی آگئی امیرالمومنین نے کہا کہ اسی کمک سے اتنا بڑا شہر فتح کرلیا گیا ہے اور اب عمرو بن عاص مدینہ کی کمک کے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے۔
مسجد میں جو حضرات موجود تھے ان میں سے بعض نے کچھ مشورے دیے اور اس مسئلہ پر کچھ باتیں ہوئیں آخر سب مطمئن ہوگئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
چند ہی دن گزرے تھے کہ فرما سے عمرو بن عاص کا ایک اور پیغام آ گیا، پچھلے پیغام میں انہوں نے صرف فتح کی اطلاع دی تھی، اب انہوں نے تفصیلات لکھ کر بھیجی تھی جس میں یہ بتایا کہ اپنا کتنا جانی نقصان ہوا ہے اور بدو کتنے مارے گئے ہیں، ان تفصیلات میں ایسے شدید زخمیوں کا بھی ذکر تھا جو ہمیشہ کے لئے یا کچھ عرصے کیلئے لڑائی کے قابل نہیں رہے تھے ۔فرما کی فتح نے جانوں کی قربانی خاصی زیادہ لی تھی۔ بدو اس لیے زیادہ مارے گئے تھے کہ انھیں کسی منظم لشکر کے ساتھ رہ کر لڑنے کا تجربہ نہیں تھا۔ عمرو بن عاص نے لکھا کہ اللہ کی طرف سے انہیں کمک مل گئی تھی لیکن اب اپنے لشکر اور بدوؤں کی اس کمک کی تعداد اتنی رہ گئی ہے کہ کمک کی شدید ضرورت ہے۔
عمرو بن عاص نے یہ بھی لکھا کہ وہ اگلی صبح بلبیس کی طرف کوچ کر رہے ہیں ۔
اس اطلاع نے امیرالمومنین کو پریشان کردیا انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اتنے تھوڑے لشکر کے ساتھ بلبیس کو محاصرے میں لینا کس قدر بڑا خطرہ ہے۔ عمرو بن عاص نے اتنی جلدی پیش قدمی کے فیصلے کا جواز بھی لکھا تھا ہم یہ جواز پہلے بیان کرچکے ہیں ، یعنی رومیوں کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے اور انہیں یہ تاثر بھی نہ ملے کہ مسلمان کمزور ہوگئے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس جواز سے بڑی اچھی طرح واقف تھے ، وہ جانتے تھے کہ رومیوں کی چال یہ ہے کہ مسلمان مصر میں اور زیادہ اندر آ جائیں اور پھر انہیں گھیرے میں لے لیا جائے، اور اسکے رسد کمک کے راستے بند کردیئے جائیں، لیکن دشمن کی چالوں سے صرف واقف ہو جانا ہی کافی نہیں ہوتا ۔ ان چالوں کو بے کار کرنے کے لئے کوئی نئی چال سوچنی پڑتی ہے۔
عمرو بن عاص انکی چال اور نیت کو سمجھ کر ہی فرما سے کوچ کر رہے تھے، اور جلدی سے جلدی بلبیس پہنچنا چاہتے تھے، لیکن سوال یہ تھا کہ ان کے ساتھ مجاہدین کی جو تعداد تھی کیا وہ بلبیس کو فتح کرنے کے لئے کافی تھی؟،،،،
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو لشکر تھا اس کی نفری رومیوں کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑی تھی، بعض مؤرخوں نے یہ تعداد چار ہزار لکھی ہے بعض نے کچھ کم بعض نے ذرا زیادہ لکھی ہے، ان سب کی بتائی ہوئی تعداد پر غور کیا جائے تو اندازہ یہ ہے کہ بدوؤں کو ملا کر لشکر کی تعداد پانچ ہزار سے چند سو زیادہ تھی۔
لشکروں کو باقاعدہ فوج کی حیثیت حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ہی دی تھی ،باقاعدہ تنخواہ اور مراعات مقرر کی تھیں لیکن مصر پر فوج کشی کے وقت تک یہ تبدیلی نہیں لائی گئی تھی۔ لوگ رضاکارانہ طور پر لشکروں میں شامل ہوتے تھے۔ اب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے شدت سے محسوس کیا کہ عمرو بن عاص کیلئے کمک بھجوانا ہے۔ تو انہوں نے وہی طریقہ اختیار کیا جو اس وقت رائج تھا وہ یہ کہ مسجد میں اعلان کیا گیا کہ مصر کیلئے کم از کم چار ہزار تعداد کا لشکر بھیجنا ہے اور لوگ آگے آئیں ۔
مشہور ومعروف مؤرخ ابن الحکم نے چند ایک مؤرخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر پہلے ہی ایک صحابی پر تھی جن کا نام گرامی زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ تھا ،جنگ کا بہت تجربہ رکھتے تھے اور قیادت کی مہارت میں خاصے مشہور تھے زبیر بن العوام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔
ایک روایت تو یہ ہے کہ امیرالمومنین کی نظر ان پر تھی لیکن ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب سے عمرو بن عاص مصر میں داخل ہوئے تھے زبیر رضی اللہ عنہ نے چند مرتبہ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ انہیں مصر عمرو بن عاص کے لشکر میں بھیجا جائے ۔ تاریخ میں یہ ذکر نہیں کہ انھیں کیوں نہ بھیجا گیا ، قرین قیاس یہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے انہیں ریزرو میں رکھا ہوگا کہ جہاں صورتحال بہت ہی مخصوص ہو جائے زبیر کو وہاں بھیجا جائے بہرحال اب حضرت عمر نے انہیں بلایا۔
ابوعبداللہ ۔۔۔۔امیرالمومنین نے زبیر کو ان کے دوسرے نام سے مخاطب ہوکر پوچھا ۔۔۔کیا تو مصر کی امارت کا خواہشمند ہے؟
نہیں امیرالمومنین!،،،،، زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔۔۔ مجھے امارت کی ضرورت ہے نہ خواہش۔ اگر آپ مجھے کسی محاذ پر بھیجنا چاہتے ہیں تو میں جہاد اور مجاہدین کی اعانت کے لیے جاؤں گا ،دل میں کوئی لالچ لے کر نہیں، میں جانتا ہوں آپ مجھے مصر بھیجنا چاہتے ہیں میں سن چکا ہوں کہ مصر کے لیے کمک تیار ہو رہی ہے ،میں جاؤں گا اور جب دیکھوں گا کہ عمرو بن عاص نے مصر فتح کر لیا ہے تو اس کے کسی کام میں دخل نہیں دوں گا اور اسے امارت کے رتبے پر دیکھ کر روحانی مسرت کا اظہار کروں گا۔
اس وقت کے عربی معاشرے میں زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو جو حیثیت حاصل تھی اس کا مختصر سا ذکر ہو جائے تو بے محل نہ ہوگا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد بھائی اور صحابی ہونا ہی ان کی عظمت کی بہت بڑی دلیل تھی۔ لیکن انھیں اس سے زیادہ عظمت عطا ہوئی تھی ،انہوں نے سولہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا، حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں شامل تھے، اور جب مکہ سے مدینہ کو ہجرت ہوئی تو اس میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ،یہ شرف زبیر کو ہی حاصل تھا کہ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، اور ہر بار جان کی بازی لگا کر لڑے۔
جنگ خندق میں ضرورت محسوس ہوئی کے عیسائیوں کے دو قبیلوں کے متعلق معلوم کیا جائے کہ وہ اہل قریش کا ساتھ دے رہے ہیں یا نہیں اور اگر ان کا ساتھ دے رہے ہیں تو ان کی کتنی نفری ہے اور کب کمک کے طور پر آرہی ہے، یہ بڑا ہی خطرناک کام تھا جس کے لیے زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور دشمن کے اندر جاکر صحیح خبر لے آئے، پھر ایک اور موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاسوسی کی ضرورت محسوس کی تو آپ کو رضاکار ڈھونڈنے پڑے یہ بھی بڑا ہی پرخطر کام تھا اس کے لئے بھی زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر دشمن کی بستیوں میں گئے اور صحیح خبریں لے آئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦