ستمبر 2018
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 وہ عید کا ایک خُوب صورت، خوشیوں بھرا دن تھا اور سہ پہر کا وقت۔ دن بھر کا تھکا ہارا سورج دبے قدموں اپنی اختتامی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ جب ہم کراچی کے علاقے، سہراب گوٹھ کے قریب واقع،’’ ایدھی اولڈ ہائوس‘‘ میں داخل ہوئے۔ ذرا ہی آگے بڑھے تھے کہ ایک بہت غم گین، پُر سوز اور خُوب صورت سی آواز میں احمد فراز کی ایک دِل گداز غزل کے اشعار نے اپنی جانب متوجّہ کر لیا…رنجش ہی سہی، دِل ہی دُکھانے کے لیے آ…آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ…اب تک دِل خوش فہم کو تجھ سے ہیں اُمیدیں…یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ۔آواز کے سحر نے ماحول کو سوگوار کر دیا تھا۔ دیکھا تو سامنے ایک بزرگ ،دنیا جہاں سے بے خبر، اپنے آپ میں مگن نغمہ سرا تھے۔ اُن کا اکلوتا بیٹا چند دن بعد آنے کا کہہ کر گیا اور پھر کینیڈا کی مسحور کُن رنگین فضائوں میں غائب ہو گیا۔ دو سال گزر گئے اور اب ہر عید تیوہار پر یہ اپنے بیٹے کو یاد کر کے گھنٹوں یہ غزل گنگناتے رہتے ہیں۔ آگے بڑھے، تو ایک80 سالہ باریش بزرگ سفید کپڑے زیبِ تن کیے، ایک کرسی پر دراز، خلا میں گھور رہے تھے۔ خُوب صورت لمبی سفید داڑھی، کھلتے گندمی رنگ اور نورانی چہرے پر حسرت و یاس کا سایہ، ماتھے پرسجدوں کا بڑا سا نشان، جو ربّ سے اُن کی قربتوں کا مظہر تھا۔ نظر کے سفید ،موٹے شیشوں کے چشمے کے پیچھے، اداس پُرنم آنکھوں میں کسی کے انتظار کی موہوم اُمید کی کرنوں کی ہلکی سی چمک، لرزتے ہونٹوں پر معصوم سی مُسکراہٹ، جیسے کوئی بچّہ سوتے میں مُسکرا رہا ہو۔ اُن کا احوال سن کر تو اُن سے زیادہ ہم غم زدہ ہوگئے۔ وہ اپنے ماضی کو بڑی حسرت و یاس سے دہرا رہے تھے کہ جب عید کے دن اُن کے گھر آنگن میں خوشیاں، پریوں کی طرح اُترتی تھیں۔ پوتے، پوتیوں کے قہقہے، بڑوں کی ہنسی مذاق کی بلند آوازیں زندگی کا حُسن دوبالا کرتی تھیں۔ وہ اور اُن کی شریکِ سفر، اپنے بچّوں اور بچّوں کے بچّوں کو دیکھ، دیکھ جیتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے بچّوں کو کراچی کی بہترین درس گاہوں میں تعلیم دلوائی ۔اللہ نے دو ہی بیٹے دیے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے بعد دونوں کی امیر کبیر گھرانوں میں شادیاں کیں۔ ایک بیٹا ہر سال آنے کا وعدہ کر کے اپنے بچّوں کے ساتھ امریکا چلا گیا اور پھر ماں کے انتقال پر بھی نہ آیا۔ دوسرا بیٹا، ایک اعلیٰ حکومتی عُہدے پر فائز ہے۔ مزید ترقّی پاکر اسلام آباد ٹرانسفر ہوا، تو بیگم صاحبہ نے سُسر کو ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ’’ فرنیچر سمیت کوئی پُرانی چیز اسلام آباد کے نئے بنگلے میں نہیں جائے گی، خواہ وہ تمہارے باپ ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ پھر رشتے داروں سے بھی تعلقات ایسے نہ تھے کہ بوڑھے باپ کو وہاں چھوڑا جاتا، لہٰذا بیوی کے قدموں میں جنّت کے متلاشی، سعادت مند شوہر نے بیگم کے مشورے پر گھر کی سب سے پرانی چیز ،(والدِ محترم) کو اولڈ ہائوس میں جمع کروا دیا۔ ہاں! باپ پر یہ احسان ضرور کیا کہ اُس کے نام پر کچھ رقم جمع کر جمع کروا دی تاکہ بہتر دیکھ بھال ہو سکے۔ دو سال میں دو مرتبہ بیٹا کھڑے، کھڑے ملنے آیا، مگر وہ تو اپنی 4سالہ باتونی پوتی اور 6سالہ نٹ کھٹ پوتے کی میٹھی اور معصوم باتوں ہی میں کھوئے رہتے ہیں۔ اب شاید اُن کی باقی زندگی ان یادوں ہی کے سہارے گزرے اور یہیں سے سفرِ آخرت پر روانہ ہوں، لیکن اُنہیں یقین ہے کہ اُن کا بیٹا جلد اُن کے پاس آئے گا۔ بہ قول شاعر؎ میرے مزار پر آکے دیئے جلائے گا…وہ میرے بعد میری زندگی میں آئے گا۔


ایک اور بزرگ کو دیکھا۔ اہلیہ کے انتقال کے بعد اکلوتا بیٹا اُنہیں اپنے ساتھ امریکا لے گیا، لیکن وہاں جاتے ہی اُس نے بیوی کے مشورے پر اُنہیں اولڈ ہائوس میں جمع کروا دیا تاکہ ابّو کا دِل بھی بہلتا رہے اور بہ قول اُس کی بیوی کہ ’’پرائیویسی میں بھی دخل اندازی نہ ہو۔‘‘ اپنی درد ناک کہانی سُناتے ہوئے اُنہوں نے بتایا’’ چھے ماہ بعد ایک اتوار، جب بیٹا ملنے آیا، تو مَیں نے اپنی ٹوپی اُس کے قدموں پر رکھ دی اور اُس سے اپنی زندگی بَھر کی خدمت کی بھیک مانگتے ہوئے التجا کی کہ مجھے پاکستان واپس بھیج دے تاکہ اپنے وطن کی مٹّی میں دفن ہو سکوں۔ میرے بہتے آنسوئوں کی گرمی نے شاید اُس کے دِل میں میری محبّت کی راکھ میں چُھپی کسی اَن بُجھی چنگاری کو روشن کر دیا۔ سو، اُس نے اس شرط پر پاسپورٹ اور واپسی کا ٹکٹ دے دیا کہ’’ ابّو آپ کو اکیلے ہی جانا ہوگا۔‘‘ یوں یہ 75سالہ بزرگ کراچی ایئر پورٹ پر پہنچے۔ رشتے داروں کے پتے بیٹے نے کاغذ پر لکھ کر دیے تھے، لیکن رشتے داروں سے رسمی تعلقات کی بنا پر کسی پر مستقل بوجھ ڈالنے کی بجائے ایئر پورٹ سے سیدھے’’ ایدھی ٹرسٹ‘‘ آگئے، جو واحد سہارا تھا اور اب اپنے وطن کی مقدّس مٹّی میں دفن ہونے کی آرزو لیے موت کے انتظار میں ہیں۔ ذرا اور آگے بڑھے، تو ایک اور بزرگ نظر آئے۔ پوش ایریا میں رہنے والی اُن کی بہو اُن کی بیماری اور کھانسی سے تنگ تھی ۔اُسے اپنے معصوم بچّوں کی صحت کی بڑی فکر تھی، لہٰذا پہلے اُن کا بستر سرونٹ کوارٹر منتقل کیا، لیکن بچّے تو دادا سے ملنے وہاں بھی چلے جاتے تھے، اس لیے بہو نے اُنہیں خود ہی اولڈ ہائوس میں جمع کروا دیا۔ بیٹا دنیا بھر میں پھیلے اپنے کاروبار میں اتنا مصروف ہے کہ وہ گھر بھی مسافروں کی طرح آتا ہے، جب کہ بہو کو سماجی حلقوں میں خدمتِ خلق ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ بڑے ہوٹلز میں فیشن شوز سے کیٹ واکس تک ،سب اُسی کی ذمّے داری ہے۔

ذرا آگے کرسی پر بیٹھے، جُھریوں بَھرے چہرے والے ایک بارُعب بزرگ کی اداس نگاہیں بڑی دیر سے ہمارا پیچھا کر رہی تھیں۔ اُن کے پاس پہنچے اور چھوٹا سا’’ عید گفٹ پیک‘‘ اُن کے حوالے کیا، تو مُسکراتے ہوئے گویا ہوئے’’ شُکریہ! یہ دن بھی دیکھنے تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم خوشی کے تہواروں میں خود اسپتالوں میں گفٹس بانٹا کرتے تھے۔‘‘ بزرگوار کی ڈبڈبائی آنکھوں نےبہت کچھ کہہ دیا، لیکن ہم اُن کی زبانی کچھ سُننا چاہتے تھے۔’’ جناب! یہاں تک کیسے پہنچے؟‘‘ سوال نے دِل کے تاروں کو چھیڑا، تو تڑپ اٹھے اور اپنی رعب دار آواز میں گویا ہوئے ’’میاں! اللہ کا شُکر ہے کہ مجھے بیٹا یا کوئی اور نہیں لایا، بلکہ مَیں خود بیٹے کے گھر کی جیل توڑ کر اس گوشۂ عافیت میں آیا ہوں۔ آؤ، اپنی داستان تم کو سُناؤں تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ میری بیوی پرائیوٹ اسکول میں ٹیچر اور مَیں ایک کمپنی میں ملازم تھا۔ اللہ نے تین بیٹے اور ایک بیٹی عنایت فرمائی۔ زندگی بڑی پُرسکون تھی، ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا بھیجا۔ دو لَوٹ کر نہیں آئے اور شہریت کے چکر میں وہاں شادیاں کر لیں۔ ایک پڑھ کر واپس آیا اور کسٹم میں لگ گیا۔ اللہ نے ترقّی دی۔ دولت، عزّت، شہرت ملی، تو رشتوں کی پہچان ختم ہو گئی۔ بیٹی کی شادی کر دی تھی، وہ بیاہ کر کینیڈا چلی گئی۔ بیٹے نے جلد ڈیفینس میں عالی شان بنگلا خرید لیا اور ہم اپنا پرانا گھر بہ مع سامان اونے پونے بیچ کر پیسے بیٹے کے حوالے کر کے محل نُما بنگلے میں شفٹ ہو گئے۔ اتنی کم مدّت میں یہ شان و شوکت دیکھ کر حیران ہوتے تھے، سو ایک دن ہم دونوں نے ڈرتے ڈرتے سوال کر ہی لیا’’ بیٹے! تم لاکھ بڑے افسر سہی، لیکن دولت کی یہ ریل پیل تن خواہ میں تو ممکن نہیں؟‘‘ ،سوال سُن کر یوں لگا، جیسے صاحب زادے نے نیم کے پتے چبا لیے ہوں۔ بڑے سرد لہجے میں مختصر سا جواب ملا’’ ابّا! آم کھائو، پیڑ گننے کی ضرورت نہیں۔‘‘پھر جلد ہی مغرب زدہ گھرانے کی ایک فیشن زدہ لڑکی سے پسند کی شادی کر لی۔ اب ماں کا برقعہ، باپ کا شلوار کُرتا اور سَر پر ٹوپی معیوب سمجھی جانے لگی۔ بہو جدید تہذیب اور روشن خیالی پر اٹھتے، بیٹھتے لیکچر دینے لگی۔ چناں چہ وسیع گھر میں محدود زندگی گزارنے میں عافیت سمجھی۔ جمع شدہ پونجی بچّوں پر خرچ کر چُکے تھے۔ تمہیں پتا ہے، پرائیوٹ اداروں میں پینشن نہیں ہوتی، لہٰذا، بیٹے کے گھر دو وقت کی روٹی کھانا مجبوری تھی۔ اللہ نے بہو تو اچھی نہ دی، لیکن دونوں پوتیاں چُھپ چُھپا کر دادا، دادی کا خیال رکھتیں۔ پھر وہ بھی شادی ہو کر باہر چلی گئیں۔ پوتیوں کے جدا ہونے کے بعد بیٹے اور بہو کی بے رُخی، ہتک آمیز رویّے نے حسّاس ماں کی ذہنی بیماری میں مزید اضافہ کر دیا اور ایک دن، جب بہو، بیٹے یورپ کے دَورے پر تھے، ہماری رفیقِ حیات ہمیں اکیلا چھوڑ کر اپنے ربّ کے پاس چلی گئیں۔ بچّوں کو اطلاع دی، لیکن سب بہت مصروف تھے، چناں چہ چند رشتے داروں اور ملازمین کے ساتھ مل کر اُسے اللہ کے سُپرد کر دیا۔ میاں! شریکِ حیات کی قدر تب ہوتی ہے، جب وہ چھوڑ کر کہیں دُور چلی جاتی ہے۔‘‘ بڑے صاحب اپنے بہتے اشکوں کو رومال میں جذب کرنے کے بعد پھر سے گویا ہوئے’’ مَیں جب بہت پریشان اور دِل گرفتہ ہو کر بستر پر پڑجاتا، تو وہ پیار سے سر پہ انگلیاں پھیرتے ہوئے کہتیں’’ خان صاحب! آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ آپ کے ساتھ میں ہوں ناں۔‘‘ کچھ توقّف کے بعد پھر گویا ہوئے’’ گھر میں مخلوط پارٹیز اور فنکشنز آئے دن کا معمول تھے۔ وہ ایسی ہی ایک غم گین اور افسردہ شام تھی۔ بیٹے کی چند خواتین دوست ڈرائنگ روم میں موجود تھیں۔ اُس نے ملازم کو بلانے کے لیے گھنٹی بجائی، اتفاقاً کوئی موجود نہ تھا۔ وہ بار بار گھنٹی بجاتا رہا۔ آخر کو مَیں باپ تھا، یہ سوچ کر جلدی سے اندر چلا گیا کہ نہ جانے کس چیز کی ضرورت ہے۔ مجھے خواتین کی موجودگی کا علم نہ تھا۔ میری شکل دیکھ کر بیٹے کے چہرے پر غصّے کے آثار نمو دار ہوئے اور ڈانٹتے ہوئے باہر جانے کو کہا۔ ابھی واپسی کے لیے مُڑا ہی تھا کہ اُس نے اپنی دوستوں سے انگریزی میں میرا تعارف کروایا کہ’’یہ بوڑھا ہمارے والد کا پرانا خادم ہے۔ ہم نے اِسے والد کی نشانی سمجھ کر رکھا ہوا ہے۔‘‘ ایک لڑکی نے پوچھا’’ تمہارے والد تو فوت ہو گئے ہیں ناں؟ صاحب زادے نے جواب دیا ’’ہاں، وہ تو بہت پہلے مر گئے تھے۔‘‘ بیٹے کی اس ڈھٹائی نے مجھے مشتعل کر دیا اور مَیں نے پلٹ کر گرجتے ہوئے کہا’’ یہ جھوٹ بولتا ہے۔ مَیں اِس کے باپ کا خادم نہیں، بلکہ اِس کا اصل باپ ہوں اور یہ ناخلف میری اولاد ہے، سگی اولاد۔‘‘ اور پھر مَیں اُسی وقت غصّے کی حالت میں گھر سے باہر نکلا، چند گھنٹے بلا مقصد سڑکوں پر گھومتا رہا۔ شام، رات کے اندھیروں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ بے منزل مسافر کی طرح، کہیں رات بسر کرنے کی فکر میں تھا کہ اچانک ایک ایمبولینس نہایت آہستگی سے میرے پاس سے گزری۔ مَیں نے بے اختیار اُسے رُکنے کا اشارہ کیا اور پھر ڈرائیور کی مہربانی سے اِس گوشۂ عافیت میں آگیا، جہاں عبدالسّتار ایدھی صاحب نے ہمارے لیے گھر سے زیادہ آرام مہیا کیا ہوا ہے۔‘‘ ’’ کیا آپ کے بچّوں نے آپ سے کوئی رابطہ کیا؟‘‘ ’’ وہ کیوں کریں گے؟ اُن کے لیے تو ’’خس کم، جہاں پاک‘‘ والا معاملہ ہوا۔ ہاں! بیٹی کا خیال ضرور آتا ہے کہ وہ کبھی، کبھی کینیڈا سے فون کر لیتی تھی۔ ایک مرتبہ آئی بھی تھی، لیکن بھائی، بھابھی کے غلط رویّے کی وجہ سے یہ کہہ کر کہ’’ ابّا! اب کبھی نہیں آئوں گی‘‘ روتی پیٹتی واپس چلی گئی۔ مَیں اچانک گھر سے نکلا تھا، اس لیے میرے پاس کسی کا رابطہ نمبر نہیں ہے۔ شاید وہ میرے لیے فون کرتی ہو، مگر اُسے کون بتائے کہ اُس کا باپ ان دنوں کہاں ہے؟ میاں! مَیں تمہارے توسّط سے تمام والدین کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنا سب کچھ بچّوں پر نچھاور کرنے سے پہلے، اپنے بڑھاپے کا کچھ نہ کچھ بندوبست ضرور کر رکھیں تاکہ بچّوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ذلیل وخوار ہونے سے محفوظ رہ سکیں۔

خواتین کے حصّے میں پہنچے، تو چاندی کے تاروں کی طرح سفید بالوں والی کورنگی کی رہائشی، جنّت بی بی سے ملاقات ہوئی۔ اُن کا اصرار تھا کہ ہمیں عید والے دن اُن کے بیٹوں نے امّاں کی خیریت پوچھنے کے لیے بھیجا ہے۔ ہم نے بھی اُن کا مان رکھا اور ہاں کر دی۔ وہ پوتے، پوتیوں کی باتیں اور بیٹیوں کی تعریفیں کرتی نہ تھکتی تھیں، مگر اپنی بہوئوں سے نالاں تھیں، جو آپس کی ملی بھگت سے اُنہیں یہ کہہ کر یہاں چھوڑ گئیں کہ’’ امّاں! ہم سے اپنا پورا نہیں ہوتا، تمہیں کہاں سے کِھلائیں۔‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ’’ بیٹا! وہاں ایک چپاتی صبح، ایک شام کھاتی تھی۔ اب ماشاء اللہ ایدھی والے تین وقت اچھا کھانا کِھلاتے ہیں۔‘‘ اُنہیں بیٹوں سے شکایت تو ہے کہ ملنے نہیں آتے، لیکن اس کے باوجود اُن کے لَبوں پر بیٹوں اور اُن کے بچّوں کے لیے دُعائیں ہی دعائیں تھیں۔ واقعی، ماں تُو کتنی معصوم ہے…!!سامنے ہی ایک دبلی پتلی بزرگ خاتون مصلّے پر بیٹھی نظر آئیں۔ شاید اذان کے انتظار میں تھیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ’’ بہوئوں کی شکایت پر بیٹا اکثر مجھے ڈانٹتا اور کبھی دوچار ہاتھ بھی جڑ دیتا، حالاں کہ گھر کے سب کام مَیں کرتی تھی۔ ایک دن برتن دھوتے ہوئے مہمانوں کے لیے نکالے گئے بہو کے ڈنر سیٹ کی ایک پلیٹ مجھ سے ٹوٹ گئی۔ بہو بہت ناراض ہوئی۔ مَیں نے اُس سے ہاتھ جوڑ کر التجا کی کہ بیٹے کو نہ بتائے، لیکن وہ بہو تھی، بیٹی نہیں۔ شام کو بیٹا آفس سے آیا ہی تھا کہ بہو نے ایک پلیٹ کو، کئی پلیٹوں کے ٹوٹنے تک بڑھا کر رونا شروع کردیا۔ دوسری بہو بھی کمرے میں آگئی اور اُس نے بھی لقمے دینے شروع کردیے۔ بیٹا ویسے ہی تھک کر آیا تھا، بیوی کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہ ہوسکے۔ اٹھا اور غصّے میں میری پٹائی کردی۔ مَیں رات بھر چارپائی پر پڑی اپنے مَرے ہوئے شوہر اور گزری زندگی کو یاد کرتی رہی۔ اسی اثنا میں آنکھ لگ گئی تو دیکھا کہ مجھے میرے شوہر ایدھی ٹرسٹ کا راستا بتاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ’’ اللہ کی بندی! وہاں چلی جا۔‘‘ مَیں نے اکیلے کبھی گھر سے باہر قدم نہ رکھا تھا، لیکن اُس دن اللہ نے مجھے ہمّت دی۔ فجر کی اذانیں ہورہی تھیں۔ مَیں نے نماز پڑھی اور اللہ کا نام لے کر گھر سے نکل کھڑی ہوئی۔ سڑک پر ایک رکشے والا کھڑا تھا۔ مَیں نے اُس کی خوشامد کی کہ’’ مجھے ایدھی سینٹر چھوڑ دے، اُسے ترس آگیا اور مَیں یہاں آگئی۔ اللہ کا بڑا کرم ہے، یہاں بہت آرام اور سکون سے ہوں۔ شوہر کو مرکر بھی میرا خیال تھا۔‘‘ اُنھوں نے مزید بتایا کہ’’ ایک دن دونوں بیٹے مجھے لینے آئے، مگر مَیں نے اُن کے ساتھ جانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مَیں نے زندگی بھر تمہارے باپ کا حکم مانا ہے۔ اب اُن کے حکم کو کیسے ٹال سکتی ہوں؟‘‘۔

مسجد سے’’ اللہ اکبر‘‘ کی صدائیں بلند ہورہی تھیں اور اب مجھ ہم بھی مزید دِل خراش کہانیاں سُننے کی ہمّت بھی نہ رہی تھی، لہٰذا اپنے آنسوئوں کو رومال میں جذب کرتے واپس ہولیے۔ آج پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں ضعیف والدین نہایت کسم پرسی کی حالت میں اپنی عُمر کا آخری حصّہ، اپنی جوان اولاد کے مضبوط بازؤں کے سہاروں کے بغیر ،محتاج خانوں اور خیراتی اداروں میں گزارنے پر مجبور ہیں، جب کہ اُن کی اولاد خوش حال زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی والدین کی بے توقیری و بے عزّتی کے بہت سے واقعات آئے دن ہماری نظروں سے گزرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوق بنایا اور رشتوں کی اہمیت و افادیت کو اوّلین ترجیح دی۔ ماں، باپ کے رشتے کو دنیا کا سب سے مقدم و مکرّم رشتہ قرار دیتے ہوئے اسے نعمت گراں قدر اور گنج ہائے گراں مایہ قرار دیا۔ دنیا کے تمام مذاہب نے والدین کی تعظیم و تکریم اور اُن کی خدمت و اطاعت کی تلقین کی ہے۔ توریت میں تحریر ہے’’ تُو اپنے ماں، باپ کو عزّت دے تاکہ ربّ کریم کی جانب سے دی گئی تیری عُمر، تیرا خدا دراز کرے۔‘‘ انجیلِ مقدّس میں یہ الفاظ تحریر ہیں’’ اپنے ماں باپ کی عزّت کرو اور جو ماں باپ پر لعن کرے، جان سے مارا جائے۔‘‘ جدید تہذیب کے عَلم بردار، مغرب کے مادہ پرست، تعفّن زدہ معاشرے نے والدین کی اہمیت و افادیت کو ختم کرکے خاندانی نظام کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ آج والدین کی محبّت کو’’ مدرز ڈے‘‘ اور’’ فادرز ڈے‘‘ تک محدود کرکے سال میں ایک مرتبہ پوسٹ کارڈ یا زیادہ سے زیادہ اولڈ ہائوسز میں ایک مختصر سی ملاقات اُن کی عُمر بھر کی خدمات کا نہایت آسان نعم البدل قرار پایا۔ اور پھر مغرب ہی پر کیا موقوف، اُن کی اندھی تقلید نے ہمیں بھی تو اُن ہی راہوں کا مسافر کردیا ہے۔ 

اسلام میں والدین کے بارے میں چند احکامات:
ربّ کی اطاعت کے بعد والدین کی اطاعت حکمِ الٰہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جگہ جگہ اپنے ساتھ والدین کا ذکر فرمایا ہے۔
والدین اللہ کے بعد اولاد کے سب سے بڑے محسن ہیں، جن کے حقوق ہر چیز پر مقدم ہیں۔
والدین کی خوش نودی، اللہ کی خوش نودی اور والدین کی ناراضی، اللہ کی ناراضی ہے۔
والدین کو کبھی اُف تک نہ کہو، اُن کے سامنے ہمیشہ انکساری کے ساتھ جُھکے رہو۔
والدین مالک و آقا کی طرح ہیں جب کہ اولاد، غلام اور کنیز کی طرح۔ اُن کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو، جیسا ایک وفادار غلام، اپنے آقا کے ساتھ کرتا ہے۔
والدین کے ساتھ ہمیشہ ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے، پیار سے اور آہستہ لہجے میں بات کرو۔
والدین سے اونچی آواز میں گفتگو، دوزخ کی آگ کا ایندھن بنادے گی۔
والدین تمہاری جنّت بھی ہیں اور دوزخ بھی۔ ان کی اطاعت و خدمت کرکے جنّت میں جائو گے، جب کہ نافرمانی دوزخی بنادے گی۔
ماں کے قدموں تلے جنّت ہے اور باپ اس جنّت کا دروازہ ہے۔
والدین کی خدمت دنیا کی سب سے بڑی سعادت، سب سے بڑی خوش نصیبی اور جہاد سے افضل ہے۔
والدین کو محبّت بھری نظر سے دیکھنا ،حج مبرور کے ثواب کے برابر ہے۔
والدین کی آواز پر لبیک کہنا، نفلی عبادت سے افضل ہے۔
والدین کی دُعا ہر حال میں قبولیت کے درجے پر فائز ہوتی ہے۔
والدین اللہ تعالیٰ کی گراں قدر نعمت ہیں، ان کے ساتھ حُسن سلوک کرو، خواہ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہوں۔
اگر دنیا میں عزّت و خوش حالی، رزق میں برکت و کشادگی اور آخرت میں جنّت کے طلب گار ہو، تو والدین کی خدمت کو اپنا شعار بنالو۔ زندگی میں کبھی کسی کے محتاج نہ رہو گے۔
تمہارا مال و دولت اور تمہاری کمائی سب پر تمہارے والدین کا مکمل حق اور اختیار ہے۔
والدین کی خدمت و فرماں برداری کرو تمہاری اولاد تمہاری فرماں برداری و خدمت گزار ہوگی۔
والدین کی نافرمانی و ایذا رسانی گناہِ کبیرہ ہے۔ ایسا شخص دوزخ کی آگ کا ایندھن بنے گا۔
والدین کی دُعائیں لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دو۔
والدین سے ہمیشہ پیار و محبّت کی باتیں کیا کرو تاکہ وہ خوش ہوکر دعائیں دیں۔
والدین کے ساتھ وقت گزارا کرو تاکہ اُن کے تجربات سے تمہیں سیکھنے کا موقع ملے۔
والدین کی خدمت و راحت میں مال خرچ کرنے والا کبھی مفلس نہیں ہوگا۔
والدین کو ان کے ذوق اور پسند کے مطابق تحفے تحائف دیا کرو تاکہ وہ خوش ہوکر تمہیں دعائوں کے تحفے دیں۔
والدین پر دل کھول کر خرچ کیا کرو۔ ربّ تمہیں تمہاری سوچوں سے بڑھ کر دے گا۔
والدین کے لیے دُعائیں کرتے رہا کرو۔ ان کی زندگی میں بھی اور اُن کے مرنے کے بعد بھی۔
والدین کی بددعا سے بچو، باپ کی بددعا اولاد کے دین و دنیا تباہ کردیتی ہے۔
والدین کی اجازت اور خوشی کے بغیر دوسرے مُلک ہجرت کرنا جائز نہیں۔
والدین کے دوست احباب، عزیز رشتے داروں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو۔
والدین کے انتقال کے بعد ان کے لیے دعائے مغفرت و استغفار کرتے رہو۔
والدین کے عہد کو پورا کرو اور ان کی طرف سے صدقہ و خیرات کرتے رہا کرو۔
یاد رکھیے ،والدین کے حقوق کی مکمل ادائی کسی صورت ممکن نہیں۔ جن کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک بھی حیات ہے، ان کی خدمت کرکے دین اور دنیا میں سرخ رُو ہوجائیں اور جن کے والدین وفات پاچکے ہیں ،وہ اُن کے لیے کثرت سے دعائے مغفرت کریں۔


 سورہ البقرۃ آیت نمبر 62
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِئِیۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۪ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۶۲﴾
ترجمہ:  حق تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا نصرانی یا صابی، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے وہ اللہ کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہوں گے اور ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے (٤٨)
تفسیر:  48: بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور ان کی نافرمانیوں کے تذکرے کے بیچ میں یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے ایک باطل گھمنڈ کی تردید کے لئے آئی ہے، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف انہی کی نسل اللہ کے منتخب اور لاڈلے بندوں پر مشتمل ہے، ان کے خاندان سے باہر کا کوئی آدمی اللہ کے انعامات کا مستحق نہیں ہے، (آج بھی یہودیوں کا یہی عقیدہ ہے، اسی لئے یہودی مذہب ایک نسل پرست مذہب ہے اور اس نسل کے باہر کا کوئی شخص یہودی مذہب اختیار کرنا بھی چاہے تو اختیار کر ہی نہیں سکتا، یا ان کے حقوق کا مستحق نہیں ہوسکتا جو ایک نسلی یہودی کو حاصل ہیں) اس آیت میں واضح فرمایا کہ حق کسی ایک نسل میں محدود نہیں ہے، اصل اہمیت ایمان اور نیک عمل کو حاصل ہے، جو شخص بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لانے اور عمل صالح کی بنیادی شرطیں پوری کردے گا خواہ وہ پہلے کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتا ہو اللہ کے نزدیک اجر کا مستحق ہوگا، یہودیوں اور نصرانیوں کے علاوہ عرب میں کچھ ستارہ پرست لوگ رہتے تھے جنہیں صابی کہا جاتا تھا اس لئے ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اللہ پر ایمان لانے میں اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے، لہذا نجات پانے کے لئے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا بھی ضروری ہے ؛ چنانچہ پیچھے آیت ٤٠۔ ٤١ میں اسی لئے تمام بنی اسرائیل کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مزید دیکھئے قرآن کریم کی آیات ٥: ٦٥ تا ٦٨، ٧: ١٥٥ تا ١٥٧۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *31* ۔۔۔۔

"زرتشت کے پجاریو!"اندرزغر نے اپنی سپاہ سے خطاب کیا۔" یہ ہیں وہ مسلمان جن سے ہمارے ساتھیوں نے شکست کھائی ہے۔انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لو، کیا ان سے شکست کھا کر تم ڈوب نہیں مرو گے۔کیا تم انہیں فوج کہو گے؟یہ ڈاکوؤں اور لٹیروں کا گروہ ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ جائے۔"وہ دن یونہی گزر گیا۔سالار ایک دووسرے کی فوج کو دیکھتے اور اپنی اپنی فوج کی ترتیب سیدھی کرتے رہے۔اگلے روز خالدؓ نے اپنی فوج کو حملے کا حکم دے دیا۔فارس کی فوج تہہ در تہہ کھڑی تھی۔مسلمانوں کا حملہ تیز اور شدید تھا لیکن دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ مسلمانوں کوپیچھے ہٹنا پڑا۔ دشمن نے اپنی اگلی صف کو پیچھے کرکے تازہ دم سپاہیوں کو آگے کر دیا۔خالدؓ نے ایک اور حملے کیلئے اپنے چند ایک دستوں کو آگے بھیجا۔ گھمسان کا معرکہ رہا لیکن مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔آتش پرستوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور وہ نیم زرہ پوش بھی تھے۔ مسلمانوں کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ ایک دیوار سے ٹکرا کر واپس آ گئے ہوں ۔ خالدؓ نے کچھ دیر اور حملے جاری رکھے مگر مجاہدین تھکن محسوس کرنے لگے۔متعدد مجاہدین زخمی ہو کر بیکار ہو گئے۔ خالدؓ نے اس خیال سے کہ ان کی فوج حوصلہ نہ ہار بیٹھے خود حملے کیلئے سپاہیوں کے ساتھ جانے لگے۔اس سے مسلمانوں کا جذبہ تو قائم رہا لیکن ان کے جسم شل ہو گئے۔ آتش پرست ان پر قہقہے لگا رہے تھے۔اس وقت تک مسلمانوں نے خالدؓ کی زیرِ کمان جتنی لڑائیاں لڑی تھیں ان میں یہ پہلی لڑائی تھی جس میں مسلمانوں میں اپنے سالارکے خلاف احتجاج کیا۔احتجاج دبا دبا ساتھا لیکن فوج میں بے اطمینانی صاف نظر آنے لگی۔ خالدؓ جیسے عظیم سالار کے خلاف سپاہیوں کی بے اطمینانی عجیب سی بات تھی۔وہ پوچھتے تھے کہ اپنا سوار دستہ کہاں ہے؟ وہ محسوس کر رہے تھے کہ خالدؓ اپنے مخصوص انداز سے نہیں لڑ رہے۔خالدؓ سپاہیوں کی طرح ہر حملے میں آگے جاتے تھے پھر بھی ان کے سپاہیوں کو کسی کمی کا احساس ہو رہا تھا۔دشمن کی اتنی زیادہ نفری دیکھ کر بھی مسلمانوں کے حوصلے ٹوٹتے جا رہے تھے۔ انہیں شکست نظر آنے لگی تھی۔آتش پرستوں نے ابھی ایک بھی ہلہ نہیں بولا تھا۔ اندرزغر مسلمانوں کو تھکا کر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ مسلمان تھک چکے تھے ۔خالدؓاپنی فوج کی یہ کیفیت دیکھ رہے تھے اسی لیے انہوں نے حملے روک دیئے تھے ،وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اب کیا چال چلیں کہ آتش پرستوں کی طرف سے ایک دیو ہیکل آدمی سامنے آیا اور اس نے مسلمانوں کو للکار کر کہاکہ جس میں میرے مقابلے کی ہمت ہے آگے آ جائے۔یہ ہزار مرد پہلوان اور تیغ زن تھا۔فارس میں "ہزار مرد" کا لقب اس جنگجو پہلوان کو دیا جاتا تھا جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا تھا۔ ہزار مردکا مطلب تھا کہ یہ ایک آدمی ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے۔اندرزغر اس دیو کو آگے کرکے مسلمانوں کا تماشہ دیکھنا چاہتا تھا ۔مسلمانوں میں اس کے مقابلے میں اترنے والا کوئی نہ تھا۔ خالدؓ گھوڑے سے کود کر اترے تلوار نکالی اور ہزار مرد کے سامنے جا پہنچے۔ کچھ دیردونوں کی تلواریں ٹکراتی رہیں اور دونوں پینترے بدلتے رہے۔آتش پرست پہلوان مست بھینسالگتا تھا ۔اس میں اتنی طاقت تھی کہ اس کا ایک وار انسان کو دو حصوں میں کاٹ دیتا ۔خالد ؓنے یہ طریقہ اختیار کیا کہ وار کم کر دیئے اسے وار کرنے کا موقع دیتے رہے تاکہ وہ تھک جائے اس پر انہوں نے یہ ظاہر کیا جیسے وہ خود تھک کر چور ہو گئے ہوں۔
🛡️⚔️🛡️
ایرانی پہلوان خالدؓ کو کمزور اور تھکا ہوا آدمی سمجھ کر ان کے ساتھ کھیلنے لگا۔کبھی تلوار گھماکر کبھی اوپر سے نیچے کو وار کرتا اور کبھی وار کرتا اور ہاتھ روک لیتا ۔وہ طنزیہ کلامی بھی کر رہا تھا۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں لاپرواہ سا ہو گیا۔ ایک بار اس نے تلوار یوں گھمائی جیسے خالدؓ کی گردن کاٹ دے گا۔ خالد ؓیہ وار اپنی تلوار پر روکنے کے بجائے تیزی سے پیچھے ہٹ گئے۔ پہلوان کا وار خالی گیا تو وہ گھوم گیا۔اس کا پہلو خالدؓ کے آگے ہو گیا۔خالدؓ اسی کے انتظا رمیں تھے انہوں نے نوک کی طرف سے پہلوان کے پہلو میں تلوار کا اس طرح وار کیا کہ برچھی کی طرح تلوار اس کے پہلو میں اتار دی۔وہ گرنے لگا تو خالدؓ نے اس کے پہلو سے تلوار کھینچ کر ایسا ہی ایک اور وار کیا،اور تلوار اس کے پہلو میں دور اندر تک لے گئے ۔طبری اور ابو یوسف نے لکھا ہے کہ پہلوان گرا اور مر گیا۔خالدؓ اس کے سینے پر بیٹھ گئے اور حکم دیا کہ انہیں کھانا دیا جائے۔ انہیں کھانا دیا گیا جو انہوں نے ہزار مرد کی لاش پر بیٹھ کر کھایا ۔اس انفرادی معرکے نے مسلمانوں کے حوصلے میں جان ڈال دی۔ آتش پرست سالار اندرزغر نے بھانپ لیا تھا کہ مسلمان تھک گئے ہیں چنانچہ اس نے حملے کا حکم دے دیا ۔اسے بجا طور پراپنی فتح کی پوری امید تھی ۔یہ آتش پرست سمندر کی موجوں کی طرح آئے، مسلمانوں کو اب کچلے جانا تھا۔ انہوں نے اپنی جانیں بچانے کیلئے بے جگری سے مقابلہ کیا ۔ایک ایک مسلمان کا مقابلہ دس دس بارہ بارہ آتش پرستوں سے تھا۔اب ہر مسلمان ذاتی جنگ لڑ رہا تھا اس کے باوجود انہوں نے ڈسپلن کا دامن نہ چھوڑا اور بھگدڑ نہ مچنے دی۔اس موقع پر بھی سپاہیوں کو خیال آیا کہ خالدؓ اپنے پہلوؤں کو اس طریقے سے کیوں نہیں استعمال کرتے جو ان کا مخصوص طریقہ تھا۔خالد ؓخود سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے اور ان کے کپڑوں پر خون تھا۔جو ان کے کسی زخم سے نکل رہا تھا۔چونکہ ایرانیوں کی نفری زیادہ تھی اس لئے جانی نقصان انہی کا زیادہ ہو رہا تھا۔اندرزغر نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹالیا اور تازہ دم دستوں سے دوسرا حملہ کیا۔یہ حملہ زیادہ نفری کا تھا۔مسلمان ان میں نظر ہی نہیں آتے تھے اندرزغر کا یہ عہد پورا ہو رہا تھا کہ ایک بھی مسلمان کو زندہ نہیں جانے دیں گے۔اندرزغر نے مسلمانوں کا کام جلدی تمام کرنے کیلئے مزید دستوں کو ہلہ بولنے کا حکم دے دیا۔اب تو مسلمانوں کیلئے بھاگ نکلنا بھی ممکن نہ رہا۔وہ اب زخمی شیروں کی طرح لڑ رہے تھے۔ خالدؓ اس معرکے سے آگے نکل گئے تھے ،ان کا علمبردار ان کے ساتھ تھا۔انہوں نے علم اپنے ہاتھ میں لے کر اوپر کیا اور ایک بار دائیں اور ایک بار بائیں کیا پھر علم علمبردار کو دے دیا،یہ ایک اشارہ تھا ۔اس کے ساتھ ہی میدانِ جنگ کے پہلوؤں میں جو ٹیکریاں تھیں ان میں سے دو ہزار گھوڑ سوار نکلے ۔ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں جو انہوں نے آگے کر لیں، گھوڑے سر پڑ دوڑے آ رہے تھے۔ وہ ایک ترتیب میں ہو کر آتش پرستوں کے عقب میں آ گئے ۔جنگ کے شوروغل میں آتش پرستوں کو اس وقت پتا چلا کہ ان پر عقب سے حملہ ہو گیا ہے جب مسلمانوں کے گھوڑ سوار ان کے سر پر آ گئے۔یہ تھے مسلمان کے وہ سوار دستے جنہیں اندرزغر ڈھونڈ رہا تھا ۔خود خالدؓ کی سپاہ پوچھ رہی تھی کہ اپنے سواار دستے کہاں ہیں۔خالد ؓنے اپنی نفری کی کمی اور دشمن کی نفری کی افراط دیکھ کر یہ طریقہ اختیار کیا کہ رات کو تمام گھوڑ سواروں کو ٹیکری کے عقب میں اس ہدایت کے ساتھ بھیج دیا تھا کہ اپنی فوج کو بھی پتا نہ چل سکے۔ان کے علم کے دائیں بائیں ہلنے کا اشارہ مقرر کیا تھا گھوڑوں کو ایسی جگہ چھپایا گیا تھا جو دشمن سے ڈیڑھ میل کے لگ بھگ دور تھیں۔وہاں سے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز دشمن تک نہیں پہنچ سکتی تھی ۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ رات کو گھوڑوں کے منہ باندھ دیئے گئے تھے ان دو ہزار گھوڑ سواروں کے کماندار بُسر بن ابی رہم اور سعید بن مرّہ تھے۔
🛡️⚔️🛡️
 جب صبح لڑائی شروع ہوئی تھی تو ان دونوں کے کمانداروں نے گھوڑ سوار وں کو پابرکاب کر دیا تھا اور خود ایک ٹیکری پر کھڑے ہوکر اشارے کا انتظار کرتے رہے تھے۔آتش پرستوں پر عقب سے قیامت ٹوٹی ،توخالد ؓ نے اگلی چال چلی جو پہلے سے طے کی ہوئی تھی۔ پہلوؤں کے سالاروں عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم نے لڑتے ہوئے بھی اپنے آپ کو بچا کررکھا ہوا تھا انہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔جب گھوڑ سواروں نے دشمن پر عقب سے ہلہ بولا تو پہلوؤں کے ان دونوں سالاروں نے اپنے اپنے پہلو پھیلا کر آتش پرستوں کو گھیرے میں لے لیا۔دشمن کو دھوکا دینے کیلئے خالدؓنے اپنا محفوظہ(ریزرو) بھی معرکے میں پہلے ہی جھونک دیا تھا۔ آتش پرستوں کے فتح کے نعرے آ ہ وبکا میں تبدیل ہو گئے ۔مسلمان گھوڑ سواروں کی برچھیاں انہیں کاٹتی اور گراتی جا رہی تھیں۔دشمن میں بھگدڑ تو ان ہزاروں عیسائیوں نے مچائی جنہیں جنگ کا تجربہ نہیں تھا اور اس بھگدڑ میں اضافہ دشمن کے ان سپاہیوں نے کیا جو پہلے معرکوں سے بھاگے ہوئے تھے ۔وہ جانتے تھے کہ مسلمان کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔اب مسلمانوں کے نعرے گرج رہے تھے ۔جنگ کا پانسہ ایسا پلٹا کہ زرتشت کی آگ سرد ہو گئی ۔بعض مؤرخوں نے دلجہ کے معرکے کو دلجہ کا جہنم لکھا ہے۔ آتش پرستوں کیلئے یہ معرکہ جہنم سے کم نہ تھا۔اتنا بڑا لشکر ڈری ہوئی بھیڑ بکریوں کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ بھاگ رہے تھے کٹ رہے تھے ۔گھوڑ ے تلے روندے جا رہے تھے۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اندرزغر زندہ بھاگ گیا لیکن مدائن کی طرف جانے کے بجائے اس نے صحرا کا رخ کیا ،اسے معلوم تھا کہ اگر وہ واپس گیا تو اردشیر اسے جلاد کے حوالے کر دے گا۔وہ صحرا میں بھٹکتا رہا اور بھٹک بھٹک کر مر گیا۔دوسرے آتش پرست سالار بہمن جاذویہ کی فوج ابھی تک دلجہ نہیں پہنچی تھی ۔مسلمانوں کو ایسا ہی ایک اور معرکہ لڑنا تھا ۔ آتش پرستوں کے دوسرے سالار بہمن جاذویہ کو بھی دلجہ پہنچنا تھا اور کسریٰ اردشیر کے مطابق اس کے لشکر کو اپنے ساتھی سالار اندرزغر کے لشکر کے ساتھ مل کر خالدؓ کے لشکر پر حملہ کرنا تھا مگر وہ دلجہ سے کئی میل دور تھااور اسے یقین تھا کہ وہ اور اندرزغر مسلمانوں کو تو کچل ہی دیں گے، جلدی کیا ہے ۔اس کا لشکر آخری پڑاؤ سے چلنے لگا تو چار پانچ سپاہی پڑاؤ میں داخل ہوئے ۔ان میں دو زخمی تھے اور جو زخمی نہیں تھے ان کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں ۔تھکن اتنی کہ وہ قدم گھسیٹ رہے تھے ۔چہروں پر خوف اور شب بیداری کے تاثرات تھے اور ان تاثرات پر دھول کی تہہ چڑھی ہوئی تھی۔"کون ہو تم؟"ان سے پوچھا گیا۔"کہاں سے آ رہے ہو؟"، "ہم سالار اندرزغر کے لشکر کے سپاہی ہیں۔" ان میں سے ایک نے تھکن اور خوف سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔"سب مارے گئے ہیں۔" دوسرے نے کہا۔" وہ انسان نہیں ہیں۔" ایک اور کراہتے ہوئے بولا۔" تم نہیں مانو گے ……تم یقین نہیں کرو گے دوستوں!" "یہ جھوٹ بولتے ہیں ۔"جاذویہ کے لشکر کے ایک کماندار نے کہا۔" یہ بھگوڑے ہیں اور سب کو ڈرا کر بے قصور بن رہے ہیں ۔انہیں سالار کے پاس لے چلو ۔ہم ان کے سر قلم کر دیں گے۔ یہ بزدل ہیں۔" انہیں سالار بہمن جاذویہ کے سامنے لے گئے ۔"تم کون سی لڑائی لڑ کر آرہے ہو؟"جاذویہ نے کہا۔" لڑائی تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی ہے ۔میرا لشکر تو ابھی……"
🛡️⚔️🛡️
"محترم سالار!" ایک نے کہا۔"جس لڑائی میں آپ نے شامل ہونا تھا وہ ختم ہو چکی ہے ۔سالار اندرزغر لاپتا ہیں ،ہمارے تیغ زن پہلوان ہزار مرد مسلمانوں کے سالارکے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ہم جیت رہے تھے ،مسلمانوں کے پاس گھوڑ سوار دستے تھے ہی نہیں ۔ہمیں حکم ملا کہ عرب کے ان بدوؤں کو کاٹ دو ۔ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی، ہم ان کے جسموں کی بوٹیاں بکھیرنے کیلئے نعرے لگاتے اور خوشی کی چیخیں بلند کرتے آگے بڑھے۔ جب ہم ان سے الجھ گئے تو ہمارے پیچھے سے نا جانے کتنے ہزار گھوڑ سوار ہم پر آ پڑے۔ پھر ہم میں سے کسی کو اپنا ہوش نہ رہا۔""سالاراعلی مقام!"زخمی سپاہی نے ہانپتے ہوئے کہا ۔"سب سے پہلے ہمارا جھنڈا گرا۔ کوئی حکم دینے والا نہ رہا۔ہر طرف نفسا نفسی اور بھگدڑ تھی۔مجھے اپنوں کی صرف لاشیں لظر آتی تھیں۔""میں کس طرح یقین کر لوں کہ اتنے بڑے لشکر کو اتنے چھوٹے لشکر نے شکست دی ہے ؟"جاذویہ نے کہا۔اتنے میں اسے اطلاع دی گئی کہ چند اور سپاہی آ ئے ہیں ۔انہیں بھی اس کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔یہ تیرہ چودہ سپاہی تھے ۔ان کی حالت اتنی بری تھی کہ تین چار گر پڑنے کے انداز سے بیٹھ گئے۔"تم مجھے ان میں سب سے زیادہ پرانے سپاہی نظر آتے ہو۔"جاذویہ نے ایک ادھیڑ عمر سپاہی سے جس کا جسم توانا تھا ‘کہا۔"کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ میں نے جو سنا ہے یہ کہاں تک سچ ہے؟تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ بزدلی کی ، میدانِ جنگ سے بھاگ آنے کی اور جھوٹ بولنے کی سزا کیا ہے؟""اگر آپ نے یہ سنا ہے کہ سالار اندرزغر کی فوج مدینہ کی فوج کے ہاتھوں کٹ گئی ہے تو ایسا ہی سچ ہے جیسا آپ سالار ہیں اور میں سپاہی ہوں۔ "اس پرانے سپاہی نے کہا۔"اور یہ ایسے ہی سچ ہے جیسے وہ آسمان پر سورج ہے اور ہم سب زمین پر کھڑے ہیں۔میں نے مسلمانوں کے خلاف یہ تیسری لڑائی لڑی ہے۔ ان کی نفری تینوں لڑائیوں میں کم تھی۔بہت کم تھی۔زرتشت کی قسم !میں جھوٹ بولوں تو یہ آگ مجھے جلا دے جس کی میں پوجا کرتا ہوں۔ ان کے پاس کوئی ایسی طاقت ہے جو نظر نہیں آتی ‘ان کی یہ طاقت اس وقت ہم پر حملہ کرتی ہے جب انہیں شکست ہونے لگتی ہے۔""مجھے اس لڑائی کا بتاؤ۔" سالار بہمن جاذویہ نے کہا۔"تمہارے لشکر کو شکست کس طرح ہوئی؟"اس سپاہی نے پوری تفصیل سے سنایا کہ کس طرح مسلمان اچانک سامنے آ گئے اور انہوں نے حملہ کر دیا اور اس کے بعد یہ معرکہ کس طرح لڑا گیا۔ "ان کی وہ جو طاقت ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے ۔"سپاہی نے کہا۔" وہ گھوڑ سوار دستے کی صورت میں سامنے آئی۔اس دستے میں ہزاروںگھوڑے تھے ان کے حملے سے پہلے یہ گھوڑے کہیں نظر نہیں آئے تھے۔ اتنے ہزار گھوڑوں کو کہیں چھپایا نہیں جا سکتا۔ہمارے پیچھے دریا تھا‘ گھوڑے دریا کی طرف سے آئے اور ہمیں اس وقت پتا چلا جب مسلمان سواروں نے ہمیں کاٹنا اور گھوڑوں تلے روندنا شروع کر دیا تھا۔اعلی مقام! یہ ہے وہ طاقت جس کی میں بات کر رہا ہوں ۔"
🛡️⚔️🛡️
"تم میں ایمان کی طاقت ہے۔"خالدؓ اپنے لشکر سے خطاب کر رہے تھے۔" یہ خدائے وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ تم میں صرف بیس ایما ن والے ہوئے تو وہ دو سو کفار پر غالب آ ئیں گے۔" آتش پرستوں کا لشکر اور ان کے ساتھی عیسائی بھاگ کر دور نکل گئے تھے ۔ میدانِ جنگ میں لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور ایک طرف مالِ غنیمت کا انبار لگا ہوا تھا۔خالدؓ اس انبار کے قریب اپنے گھوڑے پر سوار اپنی فوج سے خطاب کر رہے تھے۔ "خدا کی قسم!" خالدؓ کہہ ر ہے تھے ۔"قرآن کا فرمان تم سب نے عملی صورت میں دیکھ لیا ہے ۔کیا تم آ تش پرستوں کے لشکر کو دیکھ کر گھبرا نہیں گئے تھے؟آنے والی نسلیں کہیں گی کہ یہ کمال خالد بن ولید کا تھا کہ اس نے اپنے سواروں کو چھپا کر رکھا ہوا تھا اور انہیں اس وقت استعمال کیا جب دشمن مسلمانوں کو کاٹنے اور کچلنے کیلئے آگے بڑھ آیا تھا لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ کرشمہ ایمان کی قوت کا تھا۔ خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جو اس کے رسولﷺکی ذات پر ایمان لاتے ہیں۔ میرے دوستو !ہمیں اور آگے جانا ہے ۔یہ آتش پرستوں کی نہیں اﷲکی سرزمین ہے اور ہمیں زمین کے آخری سرے تک اﷲکا پیغام پہنچانا ہے۔"میدانِ جنگ فتح و نصرت کے نعروں سے گونج رہا تھا ۔اس کے بعد خالدؓ نے اپنی سپاہ میں مالِ غنیمت تقسیم کیا۔معلوم ہوا کہ اب کے مالِ غنیمت پہلی دونوں جنگوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ خالدؓ نے حسبِ معمول مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال کیلئے مدینہ بھجوا دیا۔
🛡️⚔️🛡️
 اس وقت تک آتش پرستوں کے سالار بہمن جاذویہ کو پوری طرح یقین آ گیا تھا کہ اندرزغر کا لشکر مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گیا ہے اور اندرزغر ایسا بھاگا ہے کہ لاپتا ہو گیا ہے۔ بہمن جاذویہ نے اپنے ایک سالار جابان کو بلایا۔ "تم اندرزغر کا انجام سن چکے ہو۔" جاذویہ نے کہا۔" ہمارے لیے کسریٰ کا حکم یہ تھا کہ ہم دلجہ میں اندرزغر کے لشکر سے جا ملیں ۔اب وہ صورت ختم ہو گئی ہے۔ کیا تم نے سوچا ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟""ہم اور جو کچھ بھی کریں ۔"جابان نے کہا ۔"ہمیں بھاگنا نہیں چاہیے۔" ، "لیکن جابان!" جاذویہ نے کہا ۔"ہمیں اب کوئی کارروائی اندھا دھند بھی نہیں کرنی چاہیے ۔مسلمان ہمیں تیسری بار شکست دے چکے ہیں۔ کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ وہ وقت گزر گیا ہے جب ہم مدینہ کے لشکر کو صحرائی لٹیرے اور بدو کہا کرتے تھے۔ اب ہمیں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔""ہماری ان تینوں شکستوں کی وجہ صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہمارا جو بھی سالار مدینہ والوں سے ٹکر لینے گیا وہ اس انداز سے گیا جیسے  وہ چند ایک صحرائی قزاقو ں کی سرکوبی کیلئے جا رہا ہو ۔"جابا ن نے کہا۔"جو بھی گیا وہ دشمن کو حقیر اور کمزور جان کر گیا۔ہماری آنکھیں پہلی شکست میں ہی کھل جانی چاہیے تھیں لیکن ایسا نہ ہوا۔ آپ نے بھی تو کچھ سوچا ہو گا؟""سب سے پہلی سوچ تو مجھے یہ پریشان کررہی ہے۔" جاذویہ نے کہا۔"کہ کسریٰ اردشیر بیمار پڑا ہے ۔میں جانتا ہوں ا سے پہلی دو شکستوں کے صدمے نے بستر پر ڈال دیا ہے ایک اور شکست کی خبر اسے لے ڈوبے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شکست کی خبر پہنچانے والے کو وہ قتل ہی کرا دے۔""لیکن جاذویہ!" جابان نے کہا۔"ہم کسریٰ کی خوشنودی کیلئے نہیں لڑ رہے ۔ہمیں زرتشت کی عظمت اور آن کی خاطر لڑنا ہے۔"، "میں تم سے ایک مشورہ لینا چاہتا ہوں جابان !"جاذویہ نے کہا۔"تم دیکھ رہے ہو کہ کسریٰ نے ہمیں جو حکم دیا تھا وہ بے مقصد ہو چکا ہے ۔میں مدائن چلا جاتا ہوں ۔کسریٰ سے نیا حکم لوں گا۔ میں اس کے ساتھ کچھ اور باتیں بھی کرنا چاہتا ہوں۔ اسے بھی یہ کہنے کی عادت ہو گئی ہے کہ جاؤ اور مسلمانوں کو کچل ڈالو ۔اسے ابھی تک کسی نے بتایا نہیں کہ جنگی طاقت صرف ہمارے پاس نہیں ،میں نے مان لیا ہے کہ لڑنے کی جتنی اہلیت اور جتنا جذبہ مسلمانوں میں ہے وہ ہمارے یہاں نا پید ہے۔ جابان! طاقت کے گھمنڈ سے کسی کو شکست نہیں دی جا سکتی۔""میں بھی اسی کو بہتر سمجھوں گا۔"جابان نے کہا۔"آپ کوچ کو روک دیں اور مدائن چلے جائیں۔""کوچ روک دو۔"جاذویہ نے حکم کے لہجے میں کہا۔"لشکر کو یہیں خیمہ زن کر دو۔ میری واپسی تک تم لشکر کے سالار ہو گے۔""اگر آپ کی غیر حاضری میں مسلمان یہاں تک پہنچ گئے یا ان سے آمنا سامناہو گیا تو میرے لیے آپ کا کیا حکم ہے ؟"جابان نے پوچھا۔" کیا میں ان سے لڑوں یا آپ کے آنے تک جنگ شروع نہ کروں ؟""تمہاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ میری واپسی تک تصادم نہ ہو۔" جاذویہ نے کہا۔آتش پرستوں کے لشکر کا کوچ روک کر اسے وہیں خیمہ زن کر دیا گیا اور بہمن جاذویہ اپنے محافظ دستے کے چند ایک گھوڑ سواروں کو ساتھ لے کر مدائن کو روانہ ہوگیا۔
🛡️⚔️🛡️
بکربن وائل کی بستیوں میں ایک طرف گریہ و زاری تھی اوردوسری طرف جوش و خروش اور جذبہ انتقام کی للکار۔اس عیسائی قبیلے کے وہ ہزاروں آدمی جو للکارتے اور نعرے لگاتے ہوئے آتش پرست لشکر کے ساتھ مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکالنے گئے تھے وہ میدانِ جنگ سے بھاگ کر اپنی بستیوں کو چلے گئے تھے ۔ یہ وہ تھے جو زندہ نکل گئے تھے ان کے کئی ساتھی مارے گئے تھے ۔ان میں بعض زخمی تھے جو اپنے آپ کو گھسیٹتے آ رہے تھے مگر راستے میں مر گئے تھے ۔یہ عیسائی جب سر جھکائے ہوئے اپنی بستیوں میں پہنچنے لگے تو گھر گھر سے عورتیں ،بچے اور بوڑھے نکل گئے ۔ان شکست خوردہ ٹولیوں میں عورتیں اپنے بیٹوں، بھائیوں اور خاوندوں کو ڈھونڈنے لگیں ۔بچے اپنے باپوں کو دیکھتے پھر رہے تھے۔ انہیں پہلا صدمہ تو یہ ہوا کہ وہ پٹ کر لوٹے تھے ۔پھر صدمہ انہیں ہوا جب کے عزیز واپس نہیں آئے تھے، بستیوں میں عورتوں کی آہ و فغاں سنائی دینے لگی ۔وہ اونچی آواز سے روتی تھیں۔"پھر تم زندہ کیوں آ گئے ہو؟" ایک عورت نے شکست کھا کر آنے والوں سے چلّاچلّاکر کہا۔" تم ان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے وہیں کیوں نہیں رہے۔"یہ آواز کئی عورتوں کی آواز بن گئی۔ پھر عورتوں کی یہی للکار سنائی دینے لگی ۔"تم نے بکر بن وائل کا نام ڈبودیا ہے ۔تم نے ان مسلمانوں سے شکست کھائی ہے جو اسی قبیلے کے ہیں۔جاؤ اور شکست کا انتقام لو۔مثنیٰ بن حارثہ کا سر کاٹ کر لاؤ جس نے ایک ہی قبیلے کو دو دھڑوں میں کاٹ دیا ہے۔"مثنیٰ بن حارثہ اسی قبیلے کا ایک سردار تھا۔ اس نے کچھ عرصے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اس کے زیرِ اثر اس قبیلے کے ہزاروں لوگ مسلمان ہو گئے تھے ۔ان مسلمانوں میں سے کئی خالد ؓکی فوج میں شامل ہو گئے تھے۔ اسی طرح ایک ہی قبیلے کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئے تھے ۔ طبری اور ابنِ قطیبہ نے لکھا ہے کہ شکست خوردہ عیسائی اپنی عورتوں کے طعنوں اور ان کی للکار سے متاثر ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو گئے۔ بیشتر مؤرخین نے لکھا ہے کہ عیسائیوں کو اس لئے بھی طیش آیا تھا کہ ان کے اپنے قبیلے کے کئی ایسے افراد نے اسلام قبول کر لیا تھا جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی لیکن وہی افراد اسلامی فوج میں جا کر ایسی طاقت بن گئے تھے کہ فارس جیسے طاقتور شہنشاہی کو نا صرف للکار رہے تھے بلکہ اسے تیسری شکست بھی دے چکے تھے۔"اب ان لوگوں کو اپنے مذہب میں واپس لانا بہت مشکل ہے۔" بکر بن وائل کے ایک سردار عبدالاسود عجلی نے کہا۔"ان کا ایک ہی علاج ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے ۔"عبدالاسود بنو عجلان کا سردار تھا۔یہ بھی بکر بن وائل کی شاخ تھی ۔ا سلئے وہ عجلی کہلاتا تھا ۔مانا ہوا جنگجو عیسائی تھا۔ "کیا تم مسلمانوں کے قتل کو آسان سمجھتے ہو؟" ایک بوڑھے عیسائی نے کہا۔" میدانِ جنگ میں تم انہیں پیٹھ دکھا آئے ہو۔""میں ایک مشورہ دیتا ہوں۔" اس قبیلے کے ایک اور بڑے نے کہا۔" ہمارے ساتھ جومسلمان رہتے ہیں انہیں ختم کر دیا جائے ۔پہلے انہیں کہا جائے کہ عیسائیت میں واپس آ جائیں اگر انکار کریں تو انہیں خفیہ طریقوں سے قتل کیا جائے۔" "نہیں!" عبدالاسود نے کہا۔"کیا تم بھول گئے ہو کہ ہمارے قبیلے کے ان مسلمانوں نے خفیہ کارروائیوں سے فارس کی شہنشاہی میں کیسی تباہی مچائی تھی۔انہوں نے کتنی دلیری سے فارس کی فوجی چوکیوں پر حملے کیے تھے۔انہوں نے کسریٰ کی رعایا ہو کر کسریٰ کی فوج کے کئی کمانداروں کو قتل کر دیا تھا۔ اگر تم نے یہاں کسی ایک مسلمان کو خفیہ طریقے سے قتل کیا تو مثنیٰ بن حارثہ کا گروہ خفیہ طریقوں سے تمہارے بچوں کو قتل کر جائے گا اور تمہارے گھروں کو آگ لگا دے گا۔ ان میں سے کوئی بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئے گا۔""پھر ہم انتقام کس طرح لیں گے؟"ایک نے پوچھا۔"تمہارے لیے تو انتقام بہت ہی ضروری ہے کیونکہ تمہارے دو جوان بیٹے دلجہ کی لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں ۔""شہنشاہِ فارس اور مسلمانوں کی اپنی جنگ ہے ۔"عبدالاسود نے کہا۔"ہم اپنی جنگ لڑیں گے لیکن فارس کی فوج کی مدد کے بغیر شاید ہم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکیں گے۔ اگر تم لوگ مجھے اجازت دو تو میں مدائن جا کر شہنشاہِ فارس سے ملوں گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ ہمیں مدد دے گا۔ اگر اس نے مدد نہ دی تو ہم اپنی فوج بنا کر لڑیں گے۔تم ٹھیک کہتے ہو ۔مجھے مسلمانوں سے اپنے دو بیٹوں کے خون کا حساب چکانا ہے۔"عیسائیوں کے سرداروں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ جس قدر لوگ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو سکیں وہ دریائے فرات کے کنارے اُلیّس کے مقام پر اکھٹے ہو جائیں اور ان کا سردارِ اعلیٰ عبدالاسود عجلی ہو گا۔قبیلہ بکر بن وائل اور اس کے ذیلی قبیلوں کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ ان کے زخم تازہ تھے ۔مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے گھروں میں ماتم ہورہا تھا۔ ان حالات اور اس جذباتی کیفیت میں نوجوان بھی اور وہ بوڑھے بھی جو اپنے آپ کو لڑنے کے قابل سمجھتے تھے ‘لڑنے کیلئے نکل آ ئے ۔یہ لوگ اس قد ربھڑکے ہوئے تھے کہ جوان لڑکیاں بھی مردوں کے دوش بدوش لڑنے کیلئے تیار ہو گئیں۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے
🛡️⚔️🛡️
 عراقی عیسائیوں کے عزائم، جنگی تیاریاں اور الیس کے مقام پر ان کاایک فوج کی صورت میں اجتماع خالدؓ سے پوشیدہ نہیں تھا۔ خالدؓکی فوج وہاں سے دور تھی لیکن انہیں دشمن کی ہر نقل و حرکت کی اطلاع مل رہی تھی ان کے جاسوس ہر طرف پھیلے ہوئے تھے ۔عیسائیوں کے علاقے میں عرب کے مسلمان بھی رہتے تھے۔ ان کی ہمدردیاں مدینہ کے مسلمانوں کے ساتھ تھیں۔مسلمانوں کی فتوحات کو دیکھ کر انہیں آتش پرستوں سے آزادی اور دہشت گردی سے نجات بڑی صاف نظر آنے لگی تھی۔ وہ دل و جان سے مسلمانوں کے ساتھ تھے ۔وہ کسی کے حکم کے بغیر خالدؓکیلئے جاسوسی کررہے تھے۔خالدؓ کے لشکر کے حوصلے بلند تھے۔ اتنی بڑی جنگی طاقت پر مسلسل تین فتوحات نے اور بے شمار مالِ غنیمت نے اور اسلامی جذبے نے ان کے حوصلوں کو تروتازہ رکھا ہوا تھا لیکن خالد ؓجانتے تھے کہ ان کے مجاہدین کی جسمانی حالت ٹھیک نہیں ۔مجاہدین کے لشکر کوآرام ملا ہی نہیں تھا ۔وہ کوچ اور پیش قدمی کی حالت میں رہے یا میدانِ جنگ میں لڑتے رہے تھے ۔"انہیں مکمل آرام کرنے دو۔"خالدؓ اپنے سالاروں سے کہہ رہے تھے۔" ان کی ہڈیاں بھی دکھ رہی ہوں گی۔ جتنے بھی دن ممکن ہوسکا میں انہیں آرام کی حالت میں رکھوں گااور ان دستوں کو بھی یہیں بلا لو جنہیں ہم دجلہ کے کنارے دشمن پر نظر رکھنے کیلئے چھوڑ آئے تھے۔ تم میں مجھے مثنیٰ بن حارثہ نظر نہیں آ رہا؟""وہ گذشتہ رات سے نظر نہیں آیا۔"ایک سالار نے جواب دیا۔ایک گھوڑے کے ٹاپ سنائی دیئے جو قریب آرہے تھے ۔گھوڑا خالدؓ کے خیمے کے قریب آکر رکا۔"مثنیٰ بن حارثہ آیا ہے۔" کسی نے خالد ؓکو بتایا۔مثنیٰ گھوڑے سے کود کر اترا اور دوڑتا ہوا خالدؓ کے خیمے میں داخل ہوا۔"تجھ پر اﷲکی رحمت ہو ولید کے بیٹے !"مثنیٰ نے پر جوش آواز میں کہا اور بیٹھنے کے بجائے خیمے میں ٹہلنے لگا ۔"خدا کی قسم ابنِ حارثہ!" خالدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔"تیری چال ڈھا ل اور تیرا جوش بتا رہا ہے کہ تجھے کہیں سے خزانہ مل گیا ہے۔""خزانے سے زیادہ قیمتی خبر لایا ہوں ابنِ ولید !"مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔"میرے قبیلے کے عیسائیوں کا ایک لشکر تیار ہو کر الیس کے مقام پر جمع ہونے کیلئے چلا گیا ہے۔ان کے سرداروں نے دروازے بند کر کے ہمارے خلاف جو منصوبہ بنایا ہے وہ مجھ تک پہنچ گیاہے۔" "کیا یہی خبر لانے کیلئے تو رات سے کسی کو نظر نہیں آیا ؟"خالد نے پوچھا۔"ہاں !"مثنیٰ نے جواب دیا۔"وہ میرا قبیلہ ہے‘ میں جانتاتھا کہ میرے قبیلے کے لوگ انتقام لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔میں اپنا حلیہ بدل کر انکے پیچھے چلا گیا تھا جس مکان میں بیٹھ کر انہوں نے ہمارے خلاف لڑنے کا منصوبہ بنایا ہے‘ میں اس کے ساتھ والے مکان میں بیٹھا ہوا تھا۔میں وہاں سے پوری خبر لے کر نکلا ہوں۔ دوسری اطلاع یہ ہے کہ ان کے سردار اس مقصد کیلئے مدائن چلے گئے ہیں اور وہ اردشیر سے فوجی مدد لے کر ہم پر حملہ کریں گے۔""تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اپنے لشکر کو آرام کی مہلت نہیں دے سکوں گا۔"خالدؓ نے کہا۔"کیا تم پسند نہیں کرو گے جس طرح ہم نے دلجہ میں آتش پرستوں کو تیاری کی مہلت نہیں دی تھی اسی طرح ہم عیسائیوں اور آتش پرستوں کے اجتماع سے پہلے ہی ان پر حملہ کر دیں۔" "خدا تیری عمر دراز کرے ابنِ ولید!"مثنیٰ نے کہا۔"طریقہ یہی بہتر ہے کہ دشمن کا سرا ٹھنے سے پہلے ہی کچل دیاجائے۔"خالدؓنے اپنے دوسرے سالاروں کی طرف دیکھا جیسے وہ ان سے مشورہ مانگ رہے ہوں ۔  "ہونا تو ایسا ہی چاہیے۔"سالار عاصم بن عمرو نے کہا۔"لیکن لشکر کی جسمانی حالت دیکھ لیں۔ کیا ہمارے لیے یہ فائدہ مند نہ ہوگا کہکم از کم دو دن لشکر کو آرام کرنے دیں؟"" ہاں ابنِ ولید!"دوسرے سالار عدی بن حاتم نے کہا۔"کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلی تین فتوحات کے نشے میں ہمیں شکست کا منہ دیکھنا پڑے۔""ابنِ حاتم!"خالد ؓنے کہا۔"میں تیرے اتنے اچھے مشورے کی تعریف کرتا ہوں لیکن یہ بھی سوچ کہ ہم نے دودن عیسائیوں کو دے دیئے تو کیاایسا نہیں ہو گا کہ فارس کا لشکر ان سے آن ملے؟""ایسا ہو سکتا ہے۔"عدی بن حاتم نے کہا۔"لیکن بہتر یہ ہو گا کہ آتش پرستوں کے لشکر کو آنے دیں۔یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم بکر بن وائل کے عیسائیوں سے الجھے ہوں اور آتش ہرست عقب سے ہم پر آپڑیں۔جس جس کو ہمارے خلاف لڑنا ہے اسے اس میدان میں آنے دیں جہاں وہ لڑنا چاہتے ہیں۔""ابنِ ولید !"مثنیٰ بن حارثہ نے کہا ۔"کیا تو مجھے اجازت نہیں دے گا کہ عیسائیوں پر حملے کی پہل میں کروں؟""تو نے ایسا کیوں سوچا ہے؟"خالدؓ نے پوچھا۔"اس لیے کہ جتنا انہیں میں جانتا ہوں اتنا کوئی اور نہیں جانتا۔"مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔"اور میں اس لیے بھی سب سے آگے ہو کر ان پر حملہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے قبیلے کے جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے انہیں قتل کر دیا جائے۔میں انہیں کہوں گا کہ دیکھو کون کسے قتل کر رہا ہے؟""اس وقت ہماری نفری کتنی ہے؟"خالدؓ نے پوچھا۔"اٹھارہ ہزار سے کچھ زیادہ ہی ہوگی۔"ایک سالار نے جواب دیا۔"جب ہم فارس کی سرحد میں داخل ہوئے تھے تو ہماری نفری اٹھارہ ہزار تھی۔"خالدؓ نے کہا۔"اس علاقے کے مسلمانوں نے میری نفری کم نہیں ہونے دی۔"مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ان تین جنگوں میں بہت سے مسلمان شہید اور شدید زخمی ہوئے تھے ۔بعض نے لکھا ہے کہ نفری تقریباًآدھی رہ گئی تھی لیکن مثنیٰ بن حارثہ کے قبیلے نے نفری کی کمی پوری کر دی تھی۔
🛡️⚔️🛡️
آتش پرستوں کا سالار بہمن جاذویہ اردشیر سے نیا حکم لینے مدائن پہنچ چکا تھا ۔لیکن شاہی طبیب نے اسے روک لیا۔ "اگر کوئی اچھی خبر لائے ہو تو اندر چلے جاؤ۔"طبیب نے کہا۔"اگر خبر اچھی نہیں تو میں تمہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔""خبر اچھی نہیں۔"جاذویہ نے کہا۔"ہماری فوج تیسری بار شکست کھا چکی ہے۔اندرزغر ایسا بھاگا ہے کہ لاپتا ہو گیا ہے۔""جاذویہ!"طبیب نے کہا۔"اردشیر کیلئے اس سے زیادہ بری خبر اور کوئی نہیں ہو سکتی۔اندرزغر کو تو کسریٰ اردشیر اپنی جنگی طاقت کا سب سے زیادہ مضبوط ستون سمجھتا تھا۔جب سے یہ سالار گیا ہے،شہنشاہ دن میں کئی بار پوچھتا رہا کہ اندرزغر مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکال کر واپس آیا ہے یا نہیں؟تھوڑی دیر پہلے بھی اس نے پوچھا تھا۔", "محترم طبیب!"جاذویہ نے کہا۔"کیا ہم ایک حقیقت کو چھپا کر غلطی نہیں کر رہے؟کسریٰ کو کسی نہ کسی دن تو پتا چل ہی جائے گا۔""جاذویہ!"طبیب نے کہا۔"میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ اگر تم نے یہ خبر شہنشاہ کو سنائی تو اس کا خون تمہاری گردن پر ہوگا۔"جاذویہ وہیں سے لوٹ گیا لیکن اپنے لشکر کے پاس جانے کی بجائے اس خیال سے مدائن میں رُکا رہا کہ اردشیر کی صحت ذرا بہترہوگی تو وہ اسے خود شکست کی خبر سنائے گا۔اور اسکے ساتھ وعدہ کرے گا کہ وہ مسلمانوں سے تینوں شکستوں کا انتقام لے گا۔اس روز یا ایک دو روز بعد عیسائیوں کا ایک وفد اردشیر کے پاس پہنچ گیا۔اس کا طبیب اور شاہی خاندان کا کوئی بھی فرد قبل از وقت نہ جان سکا کہ یہ وفد کس مقصد کیلئے آیا ہے۔اردشیر کوچونکہ معلوم تھا کہ عیسائیوں نے اس لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی ہے اس لیے اس نے بڑی خوشی سے ان عیسائیوں کو ملاقات کی اجازت دے دی۔اس وفد نے اردشیر کو پہلی خبر ی سنائی کہ سالار اندرزغر شکست کھا گیا ہے۔"اندرزغر شکست نہیں کھا سکتا۔"اردشیر نے ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔"کیا تم لوگ مجھے یہ جھوٹی خبر سنانے آئے ہو؟……کہاں ہے اندرزغر؟اگر ا س کی شکست کی خبر صحیح ہے تو یہ بھی صحیح ہے کہ جس روز وہ مدائن میں قدم رکھے گا وہ اس کی زندگی کا آخری روز ہو گا۔""ہم جھوٹی خبر سنانے نہیں آئے۔"وفد کے سربراہ نے کہا۔"ہم آپ کی اس تیسری شکست کو فتح میں بدلنے کا عہد لے کر آئے ہیں لیکن آپ کی مدد کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔"اردشیر کچھ دیر چپ چاپ خلا ء میں گھورتا رہا،اس کی بیماری بڑھتی جا رہی تھی۔وہ بہت کمزور ہو چکا تھا۔دواؤں کا اس پر الٹا اثر ہو رہاتھا۔اب تیسری شکست کی خبر نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔اس کا طبیب اس کے پاس کھڑاتھا۔"کسریٰ کو اس وقت آرام کی ضرورت ہے۔"طبیب نے کہا۔"معزز مہمان اس وقت چلے جائیں تو کسریٰ کیلئے بہتر ہوگا۔"عیسائیوںکا وفد اٹھ کھڑا ہوا۔"ٹھہرو!"اردشیر نے نحیف آواز میں کہا۔"تم لوگوں نے شکست کو فتح میں بدلنے کی بات کی تھی۔تم کیا چاہتے ہو؟""اپنے کچھ دستے جن میں سوار زیاد ہ ہوں ہمیں دے دیں۔"وفد کے سردارنے کہا۔"ہمارا پورا قبیلہ الیس پہنچ چکا ہوگا۔""جو مانگو گے دوں گا۔"اردشیر نے کہا۔"بہمن جاذویہ کے پاس چلے جاؤاور اس کا لشکر اپنے ساتھ لے لو۔جاذویہ دلجہ کے قریب کہیں ہوگا۔""بہمن جاذویہ مدائن میں ہے۔"کسی نے اردشیر کو بتایا۔"وہ شہنشاہ کے پاس آیا تھا لیکن طبیب نے اسے آپ تک آنے نہیں دیا۔""اسے بلاؤ!"اردشیر نے حکم دیا۔"مجھ سے کچھ نہ چھپاؤ۔"
🛡️⚔️🛡️
جب جاذویہ اردشیر کو بتا رہا تھا کہ اسے میدانِ جنگ تک پہنچنے کاموقع ہی نہیں ملا۔اس وقت الیس میں صورتِ حال کچھ اور ہو چکی تھی۔جاذویہ اپنے دوسرے سالار جابان کو لشکر دے آیا تھا اور اس نے جابان سے کہا تھا کہ وہ اسکی واپسی تک مسلمانوں سے لڑائی سے گریز کرے۔جابان الیس کے کہیں قریب تھا۔اسے ایک اطلاع یہ ملی کہ عیسائیوں کا ایک لشکر الیس کے گردونواح میں جمع ہے اور دوسری اطلاع یہ ملی کہ مسلمانوں کا لشکر الیس کی طرف بڑھ رہا ہے،جابان کیلئے حکم تو کچھ اور تھا لیکن اس اطلاع پر کہ مسلمان پیش قدمی کررہے ہیں،وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا۔اس نے اپنے لشکر کو کوچ کاحکم دیا اور الیس کا رخ کر لیا۔ابھی جاذویہ واپس نہیں آیا تھا،جابان تک اردشیر کا بھی کوئی حکم نہیں پہنچا تھا۔چونکہ وہ وہاں موجود تھا ا س لئے یہ اس کی ذمہ دار ی تھی کہ مسلمانوں کو روکے،تاریخ میں بکر بن وائل کے ان عیسائیوں کی تعداد کا کوئی اشارہ نہیں ملتاجو الیس میں لڑنے کیلئے پہنچے تھے۔ان کا سردار اور سالارِ اعلیٰ عبدالاسود عجلی تھا ۔وہ مدائن سے اپنے وفدکی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔خالدؓ انتظار کرنے والے سالار نہیں تھے۔انہوں نے اپنی فوج کو تھوڑا سا آرام دینا ضروری سمجھا تھا پھر انہوں نے الیس کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا۔رفتار معمول سے کہیں زیادہ تیز رکھی۔مثنیٰ بن حارثہ اپنے جانبازوں کادستہ لیے باقی لشکر سے الگ تھلگ جا رہا تھا۔"اﷲکے سپاہیو!"مثنیٰ نے راستے میں اپنے دستے سے کہا۔"یہ لڑائی تم اس طرح لڑو گے جس طرح ہم کسریٰ کی سرحدی چوکیاں تباہ کرنے کیلئے لڑتے رہے ہیں……چھاپہ مار لڑائی……شب خون……تم ان لوگوں سے لڑنے جا رہے ہو جو تمہاری طرح لڑنا نہیں جانتے۔انہیں تم جانتے ہو۔وہ تمہارے ہی قبیلے کے لوگ ہیں ۔ہم انہیں بھگا بھگا کر لڑائیں گے۔اسی لیے میں نے تمہیں لشکر سے الگ کر لیا ہے۔لیکن یہ خیال رکھنا کہ ہم اسی لشکر کے سالار کے ماتحت ہیں اور یہ بھی خیال رکھنا کہ یہ مذاہب کی جنگ ہے،دو باطل عقیدے تمہارے مقابلے میں ہیں ۔تمہیں ثابت کرنا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے……خدا کی قسم! یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف ہمیشہ مخبری کی اورآتش پرستوں کے ہاتھوں ہمارے گھروں کو نذرِ آتش کرایا ہے۔"سواروں کا یہ دستہ پر جوش نعرے لگانے لگالیکن مثنیٰ نے روک دیا او رکہا کہ خاموشی برقرار رکھنی ہے دشمن کو اس وقت پتا چلے کہ ہم آ گئے ہیں جب ہماری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں۔عیسائیوں کا لشکر الیس کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے مدائن سے اپنے وفد کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔ "ہوشیار!دشمن آ رہاہے۔"عیسائی لشکر کے سنتریوں نے واویلا بپا کر دیا ۔"خبر دار…… ہوشیار…… تیار ہو جاؤ۔"ہڑبونگ مچ گئی۔ان کے سرداروں نے درختوں پر چڑھ کر دیکھا ایک لشکر چلا آ رہا تھا۔ 
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟


 سورہ البقرۃ آیت نمبر 59
فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا قَوۡلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمۡ فَاَنۡزَلۡنَا عَلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ ﴿٪۵۹﴾
ترجمہ:  مگر ہوا یہ کہ جو بات ان سے کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر ایک اور بات بنالی (٤٥) نتیجہ یہ کہ جو نافرمانیاں وہ کرتے آرہے تھے ہم نے ان کی سزا میں ان ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا
تفسیر:  45 : اسی صحرا میں رہتے ہوئے جب مدت گزر گئی اور بنی اسرائیل من وسلوی سے بھی اکتا گئے تو انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر گزارہ نہیں کرسکتے، ہم زمین کی ترکاریاں وغیرہ کھانا چاہتے ہیں، ان کا یہ مطالبہ آگے آیت نمبر : ٦١ میں آرہا ہے، اس موقع پر ان کی یہ خواہش بھی پوری کی گئی اور یہ اعلان فرمایا گیا کہ اب تمہیں صحرا کی خاک چھاننے سے نجات دی جاتی ہے، سامنے ایک شہر ہے اس میں چلے جاؤ؛ لیکن اپنے گناہوں پر ندامت کے اظہار کے طور پر سر جھکائے ہوئے اور معافی مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہو، وہاں اپنی رغبت کے مطابق جو حلال غذا چاہو کھاسکوگے، لیکن ان ظالموں نے پھر ضد کا مظاہرہ کیا، شہر میں داخل ہوتے ہوئے سر تو کیا جھکاتے سینے تان تان کر داخل ہوئے اور معافی مانگنے کے لئے انہیں جو الفاظ کہنے کی تلقین کی گئی تھی ان کا مذاق بناکر ان سے ملتے جلتے ایسے نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئے جس کا مقصد مسخرہ پن کے سوا کچھ نہ تھا، جو لفظ انہیں معافی مانگنے کے لئے سکھایا گیا تھا وہ تھا  حطۃ  (یا اللہ ہمارے گناہ بخش دے) انہوں نے اسے بدل کر جس لفظ کے نعرے لگائے تھے وہ تھا  حنطۃ  یعنی گندم۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *30* ۔۔۔۔

اندرزغر! اردشیر نے کہا۔ ہم اب ایک اور شکست کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ مسلمانوں سے صرف شکست کا انتقام نہیں لینا ۔ان کی لاشیں فرات میں بہا دینی ہیں ۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ تم زیادہ سے زیادہ فوج لے کر جاؤ۔ تم اس علاقے سے واقف ہو۔ تم بہتر سمجھتے ہو کہ مسلمانوں کو کہاں گھسیٹ کر لڑانا چاہیے۔ وہ ریگستان کے رہنے والے ہیں۔ اندرزغر نے کہا۔ اور وہ ریگستان میں ہی لڑ سکتے ہیں۔ میں انہیں سر سبز اور دلدلی علاقے میں آنے دوں گااور ان پر حملہ کروں گا۔میری نظر میں دلجہ موزوں علاقہ ہے۔ اس نے کماندار سے پوچھا۔ ان کے گھوڑ سوار کیسے ہیں؟ ان کے سوار دستے ہی ان کی اصل طاقت ہیں۔ کماندار نے کہا۔ ان کے سوار بہت تیز اور ہوشیار ہیں۔ دوڑتے گھوڑوں سے ان کے چلائے ہوئے تیر خطا نہیں جاتے ۔ان کے سواروں کا حملہ بہت ہی تیز ہوتا ہے۔ وہ جم کر نہیں لڑتے۔ ایک ہلہ بول کر اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ راز ہے جو ہمارے سالار نہیں سمجھ سکتے۔ اندرزغر نے اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہا۔ مسلمان آمنے سامنے کی جنگ لڑ ہی نہیں سکتے۔ ہم ان سے کئی گنا زیادہ فوج لے جائیں گے۔ میں انہیں اپنی فوج کے نیم دائرے میں لے کر مجبور کر دوں گا کہ وہ اپنی جان بچانے کیلئے آمنے سامنے کی لڑائی لڑیں۔ اندرزغر! اردشیر نے کہا۔ یہاں بیٹھ کر منصوبہ بنا لینا آسان ہے لیکن دشمن کے سامنے جا کر اس منصوبے پر اس کے مطابق عمل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کماندار نے ایک بات بتائی ہے اس پر غور کرو۔ یہ کہتا ہے کہ مسلمان اپنے مذہب اور اپنے عقیدے کے وفادار ہیں اور وہ اپنے خدا اور اپنے رسول کا نام لے کر لڑتے ہیں۔کیا ہماری فوج میں اپنے مذہب کی وفاداری ہے؟، اتنی نہیں جتنی مسلمانوں میں ہے اور اس پر بھی غور کرو اندرزغر!مسلمان اپنے علاقے سے بہت دور آ گئے ہیں۔ یہ ان کی کمزوری ہے۔ یہاں کے لوگ ان کے خلاف ہوں گے۔ نہیں شہنشاہ!کماندار نے کہا۔ فارس کے جن علاقوں پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا ہے، وہاں کے لوگ ان کے ساتھ ہو گئے ہیں۔ ان کا سلوک ایسا ہے کہ لوگ انہیں پسند کرنے لگتے ہیں۔وہ قتل صرف انہیں کرتے ہیں جن پر انہیں کچھ شک ہوتا ہے۔ یہاں کے وہ عربی لوگ ان کے ساتھ نہیں ہو سکتے جو عیسائی ہیں۔ اندرزغر نے کہا۔میرے دل میں ان لوگوں کی جو محبت ہے اسے وہ اچھی طرح جانتے ہیں ۔میں انہیں اپنی فوج میں شامل کروں گا۔ ہم یہاں کے مسلمانوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ یہ ہمیشہ باغی رہے ہیں۔ان پر ہمیں کڑی نظر رکھنی پڑے گی ۔ان کی وفاداریاں مدینہ والوں کے ساتھ ہیں۔ ان مسلمانوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ برا سلوک کرو۔ اردشیر نے کہا۔ انہیں اٹھنے کے قابل نہ چھوڑو۔ ہم نے انہیں مویشیوں کا درجہ دے رکھا ہے۔ اندرزغر نے کہا۔ انہیں بھوکا رکھا ہے۔ان کے کھیتوں سے ہم فصل اٹھا کر لے آتے ہیں اور انہیں صرف اتنا دیتے ہیں جس پر وہ صرف زندہ رہ سکتے ہیں۔لیکن وہ اسلام کا نام لینے سے باز نہیں آتے۔ بھوکے مر جانا پسند کرتے ہیں لیکن اپنا مذہب نہیں چھوڑتے۔ یہی ان کی قوت ہے۔ کماندار نے کہا۔ ورنہ ایک آدمی دس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔کپڑوں میں ملبوس آدمی زرہ پوش کر قتل نہیں کر سکتا۔مسلمانوں نے یہ کر کے دکھا دیا ہے۔ میں اس قوت کو کچل ڈالوں گا۔ اردشیر نے بلند آواز سے کہا۔ اندرزغر ابھی ان مسلمانوں کو نہ چھیڑنا جو ہماری رعایا ہیں۔ انہیں دھوکا دو کہ ہم انہیں چاہتے ہیں۔پہلے ان کا صفایا کرو جنہوں نے ہماری شہنشاہی میں قدم رکھنے کی جرات کی ہے۔اس کے بعد ہم ان کا صفایا کریں گے جو ہمارے سائے میں سانپوں کی طرح پل رہے ہیں۔ اسی روز اردشیر نے اپنے وزیر اندرزغر اور اس کے ماتحت سالاروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم مدینہ پر حملہ کرتے اور اسلام کا وہیں خاتمہ کر دیتے۔لیکن حملہ انہوں نے کر دیا ہے اور ہماری فوج ان کے آگے بھاگی بھاگی پھر رہی ہے۔

صرف دو معرکوں میں ہمارے چار سالار مارے گئے ہیں۔ اردشیر نے کہا۔ ان چاروں کو میں اپنی جنگی طاقت کے ستون سمجھتا تھا۔ لیکن ان کے مر جانے سے کسریٰ کی طاقت نہیں مر گئی۔سب کان کھول کر سن لو جو سالار یا نائب سالار شکست کھا کر واپس آئے گا اسے میں جلاد کے حوالے کر دوں گا۔اس کیلئے یہی بہتر ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو خود ہی ختم کر لے یا کسی اور طرف نکل جائے۔فارس کی سرحد میں قدم نہ رکھے۔ اندرزغر! تم مدائن اور اردگرد سے جس قدر فوج لے جانا چاہو، لے جاؤ۔ سالار بہمن کومیں نے پیغام بھیج دیا ہے کہ وہ اپنی تمام تر فوج کے ساتھ فرات کے کنارے دلجہ کے مقام پر پہنچ جائے۔تم اس سے جلدی دلجہ پہنچ جاؤ گے وہاں خیمہ زن ہو کر بہمن کا انتظار کرنا جونہی وہ آجائے دنوں مل کر مسلمانوں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کرنا۔ ان کا کوئی آدمی اور کوئی ایک جانور بھی زندہ نہ رہے۔ ان کی تعداد تمہارے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔میں کوئی مسلمان قیدی نہیں دیکھنا چاہتا۔میں ان کی لاشیں دیکھنا چاہتا ہوں۔میں دیکھنے آؤں گا کہ ان کے گھوڑوں اور اونٹوں کے مردار ان کی لاشوں کے درمیان پڑے ہیں۔تمہیں زرتشت کے نام پر حلف اٹھانا ہوگا کہ فتح حاصل کرو گے یا موت۔ اندرزغردونوں فوجوں کاسپہ سالار ہوگا۔ اندرزغر تمہارے ذہن میں کوئی شک یا وسوسہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی سوچ لو کہ مسلمان اور آگے بڑھ آئے اور ہمیں ایک اور شکست ہوئی تورومی بھی ہم پر چڑھ دوڑیں گے۔ شہنشاہِ فارس اب شکست کی آواز نہیں سنیں گے۔ سالار اندرزغرنے کہا۔ مجھے اجازت دیں کہ میں عیسائیوں کو اپنے ساتھ لے لوں اس سے میری فوج میں بے شمار اضافہ ہو سکتا ہے۔ تم جو بہتر سمجھتے ہو وہ کرو۔ اردشیر نے کہا۔ لیکن میں وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ اگر عیسائی تمہارے ساتھ وفا کرتے ہیں تو انہیں ساتھ لے لو، یہ عراق کا علاقہ تھا ۔جہاں عیسائیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ بکر بن وائل آباد تھا۔یہ لوگ عرب کے رہنے والے تھے۔ اسلام پھیلتا چلا گیا اور یہ عیسائی جو اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے عراق کے اس علاقے میں اکھٹے ہوتے رہے اور یہیں آباد ہو گئے۔ ان میں وہ بھی تھے جو کسی وقت ایرانیوں کے خلاف لڑے اور جنگی قیدی ہو گئے تھے۔ایرانیوں نے انہیں اس علاقے میں آباد ہونے کیلئے آزاد کر دیا تھا۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔انہیں مثنیٰ بن حارثہ جیساقائد مل گیا تھا جس نے انہیں پکا مسلمان بنادیا تھا۔ مسلمانوں پر تو ایرانی بے پناہ ظلم و تشدد کرتے تھے لیکن عیسائیوں کے ساتھ ان کا رویہ کچھ بہتر تھا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے زرتشتی سالار اندرزغر ہرمز کی طرح ظالم نہیں تھا۔مسلمانوں پر اگر وہ ظلم نہیں کرتا تھا تو انہیں اچھا بھی نہیں سمجھتا تھا ۔عیسائیوں کے ساتھ اس کا سلوک بہت اچھا تھا، اسے اب عیسائیوں کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی۔اس نے ان کے قبیلے بکر بن وائل کے بڑوں کو بلایا۔وہ اطلاع  ملتے ہی دوڑے آئے۔اگر تم میں سے کسی کو میرے خلاف شکایت ہے تو مجھے بتاؤ۔ اندرزغر نے کہا۔ میں اس کا ازالہ کروں گا۔ کیایہ بہتر نہیں ہوگا کہ سالار ہمیں فوراًبتا دے کہ ہمیں کیوں بلایا گیا ہے۔ ایک بوڑھے نے کہا۔ ہم آپ کی رعایا ہیں، ہمیں شکایت ہوئی بھی تو نہیں کریں گے۔ ہمیں کوئی شکایت نہیں۔ ایک اور نے کہا۔ آپ نے جو کہنا ہے وہ کہیں۔ مسلمان­ بڑھے چلے آ رہے ہیں، اندرزغر نے کہا، شہنشاہَِ فارس کی فوج انہیں فرات میں ڈبو دے گی لیکن ہمیں تمہاری ضرورت ہے ہمیں تمہارے جوان بیٹوں کی ضرورت ہے۔

اگر شہنشاہِ فارس کی فوج اسلامی فوج کو فرات میں ڈبو دے گی تو آپ کو ہمارے بیٹوں کی کیا ضرورت پیش آ گئی ہے؟ وفد کے بڑوں میں سے ایک نے پوچھا۔ ہم سن چکے ہیں کہ فارس کی فوج کے چار سالار مارے گئے ہیں۔ آپ ہم سے پوچھتے کیوں ہیں؟ ہم آپ کی رعایا ہیں،ہمیں حکم دیں۔ ہم سرکشی کی جرات نہیں کر سکتے۔ میں کسی کو اپنے حکم کا پابند کرکے میدانِ جنگ میں نہیں لے جانا چاہتا۔ اندرزغر نے کہا۔ میں تمہیں تمہارے مذہب کے نام پر فوج میں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔ہمیں زمین کے کسی خطے کیلئے نہیں اپنے مذہب اور اپنے عقیدوں کے تحفظ کیلئے لڑنا ہے۔ مسلمان صرف اس لئے فتح پر فتح حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے مذہب کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ وہ جس علاقے کو فتح کرتے ہیں وہاں کے لوگوں کو اسلام قبول کرنے کیلئے کہتے ہیں ۔جو لوگ اسلام قبول نہیں کرتے ان سے مسلمان جذیہ وصول کرتے ہیں۔ کیا یہ غلط ہے کہ تم میں وہ بھی ہیں جو اس لئے اپنے گھروں سے بھاگے تھے کہ وہ اسلام قبول نہیں کرنا چاہتے تھے؟ کیا تم پسند کرو گے کہ مسلمان آجائیں اور تمہاری عبادت گاہوں کے دروازے بند ہو جائیں؟ کیا تم برداشت کر لو گے کہ مسلمان تمہاری بیٹیوں کو لونڈیاں بنا کر اپنے ساتھ لے جائیں؟ ذرا غور کرو تو سمجھو گے کہ ہمیں تمہاری نہیں بلکہ تمہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے ۔ہم تمہیں ایک فوج دے رہے ہیں ۔اسے اور زیادہ طاقتور بناؤ اور اپنے مذہب کو ایک بے بنیاد مذہب سے بچاؤ۔ اندرزغرنے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف ایسا مشتعل کیا کہ وہ اسی وقت واپس گئے اور (مؤرخوں کی تحریر کے مطابق) اپنے قبیلے کی ہر بستی میں جاکر اعلان کرنے لگے کہ مسلمانوں کا بہت بڑا لشکر قتل و غارت اور لوٹ مار کرتا چلا آ رہا ہے ۔وہ صرف اسی کوبخشتے ہیں جو ان کا مذہب قبول کر لیتا ہے۔ وہ جوان اور کم سن لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ اپنی لڑکیوں کو چھپا لو۔ مال و دولت زمین میں دبا دو۔ عورتیں بچوں کو لے کر جنگلوں میں چلی جائیں۔ جوان آدمی ہتھیار گھوڑے اور اونٹ لے کر ہمارے ساتھ آ جائیں۔ شہنشاہِ فارس کی فوج ہمارے ساتھ ہے۔ یسوع مسیح کی قسم! ہم اپنی عزت پر کٹ مریں گے۔ اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے۔ ایک شور تھا، للکار تھی جو آندھی کی طرح دشت و جبل کو جن و انس کو لپیٹ میں لیتی آرہی تھی۔ کوئی بھی کسی سے نہیں پوچھتا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کس نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے؟کدھر سے آ رہا ہے؟ جوش و خروش تھا۔ عیسائی مائیں اپنے جوان بیٹوں کو رخصت کر رہی تھیں۔ بیویاں خاوندوں کو اور بہنیں بھائیوں کو الوداع کہہ رہی تھیں۔ایک فوج تیار ہوتی جا رہی تھی جس کی نفری تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی۔ کسریٰ کی فوج کے کماندار وغیرہ آ گئے تھے۔ وہ ان لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرتے جا رہے تھے جو کسریٰ کی فوج میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے آ رہے تھے۔

ایک بستی میں لڑنے والے عیسائی جمع ہو رہے تھے۔سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا۔ بستی میں مشعلیں گھوم پھر رہی تھیں اور شور تھا۔ بستی دن کی طرح بے دار اور سر گرم تھی۔ دو آدمی جو اس بستی والوں کیلئے اجنبی تھے بستی میں داخل ہوئے اور لوگوں میں شامل ہو گئے۔ ہم ایک للکار سن کر آئے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ ہم روزگار کی تلاش میں بڑی دور سے آئے ہیں اور شاید مدائن تک چلے جائیں۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ تم ہو کون؟ کسی نے ان سے پوچھا۔ مذہب کیا ہے تمہارا؟ دونوں نے اپنی اپنی شہادت کی انگلیاں باری باری اپنے دونوں کندھوں سے لگائیں اور اپنے سینے پر انگلیاں اوپر نیچے کرکے صلیب کا نشان بنایا اور دونوں نے بیک زبان کہا کہ وہ عیسائی ہیں۔ پھر تم مدائن جا کر کیا کرو گے؟ انہیں ایک بوڑھے نے کہا۔ تم تنومند ہو۔ تمہارے جسموں میں طاقت ہے۔ کیا تم اپنے آپ کو کنواری مریم کی آبرو پر قربان ہونے کے قابل نہیں سمجھتے؟کیا تمہارے لیے تمہارا پیٹ مقدس ہے؟ نہیں! ان میں سے ایک نے کہا۔ ہمیں کچھ بتاؤ اور تم میں جو سب سے زیادہ سیانا ہے ہمیں اس سے ملاؤ۔ ہم کچھ بتانا چاہتے ہیں۔ وہاں فارس کی فوج کا ایک پرانا کماندار موجود تھا۔ ان دونوں کو اس کے پاس لے گئے۔ سنا ہے تم کچھ بتانا چاہتے ہو؟ کماندار نے کہا۔ ہاں۔ ایک نے کہا۔ ہم اپنا راستہ چھوڑ کر ادھر آئے ہیں ۔سنا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف ایک فوج تیار ہو رہی ہے۔ ہاں ہو رہی ہے۔ کماندار نے کہا۔ کیا تم اس فوج میں شامل ہونے آئے ہو؟ عیسائی ہو کر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس فوج میں شامل نہیں ہوں گے۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ ہم کاظمہ سے تھوڑی دور کی ایک بستی کے رہنے والے عرب ہیں ۔ہم مسلمانوں کے ڈر سے بھاگ کر ادھر آئے ہیں۔ اب آگے نہیں جائیں گے۔ تمہارے ساتھ رہیں گے۔ ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔لیکن سامنے وہ بہت تھوڑی تعداد کو لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری فوج ان سے شکست کھا جاتی ہے۔ اسے زمین پر لکیریں ڈال کر سمجھاؤ۔ اس کے دوسرے ساتھی نے اسے کہا۔ پھر ایرانی کماندار سے کہا۔ ہمیں معمولی دماغ کے آدمی نہ سمجھنا۔ ہم تمہیں اچھی طرح سمجھا دیں گے کہ مسلمانوں کے لڑنے کا طریقہ کیاہے؟اور وہ اس وقت کہاں ہیں؟اور تم لوگ انہیں کہاں لا کر لڑاؤ تو انہیں شکست دے سکتے ہو۔ ہم جو کچھ بتائیں یہ اپنے سالار کو بتا دینا۔ ایک مشعل لاکر اس کا ڈنڈہ زمین میں گاڑھ دیا گیا۔یہ دونوں آدمی زمین پر بیٹھ کر انگلیوں سے لکیریں ڈالنے لگے ۔انہوں نے جنگی اصطلاحوں میں ایسا نقشہ پیش کیاکہ کماندار بہت متاثر ہوا۔ اگر ہمیں پتا چل جائے کہ مدائن کی فوج کس طرف سے آ رہی ہے تو ہم تمہیں بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ اور کچھ خطروں سے بھی خبردار کر سکتے ہیں۔ دو فوجیں مسلمانوں کو کچلنے کیلئے آ رہی ہیں۔ کماندار نے کہا۔ مسلمان ان کے آگے نہیں ٹھہر سکیں گے۔ بشرطیکہ دونوں فوجیں مختلف سمتوں سے آئیں۔ ایک اجنبی عیسائی نے کہا۔

وہ مختلف سمتوں سے آ رہی ہیں۔ کماندار نے کہا۔ ایک فوج مدائن سے ہمارے بڑے ہی دلیر اور قابل سالار اندرزغر کی زیرِ کمان آ رہی ہے اور دوسری فوج ایسے ہی ایک نامور سالار بہمن جازویہ لا رہا ہے۔ دونوں دلجہ کے مقام پر اکھٹی ہوں گی۔ ان کے ساتھ بکر بن وائل کا پورا قبیلہ ہو گا ۔چند چھوٹے چھوٹے قبیلوں نے بھی اپنے آدمی دیئے ہیں۔ تو پھر تمہارے سالاروں کو جنگی چالیں چلنے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے نے کہا۔ تمہاری فوج تو سیلاب کی مانند ہے۔ مسلمان تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے۔ کیا تم ہم دونوں کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو؟ ہم نے تم میں خاص قسم کی ذہانت دیکھی ہے۔ تم سالار نہیں تو نائب سالار کے عہدے کے لائق ضرور ہو۔ تم میرے ساتھ رہ سکتے ہو۔ کماندار نے کہا۔’’ہم اپنے گھوڑے لے آئیں؟‘‘ دونوں میں سے ایک نے کہا۔ ہم تمہیں صبح یہیں ملیں گے۔ صبح کوچ ہو رہا ہے۔ کماندار نے کہا۔ ان تمام لوگوں کو جو لڑنے کیلئے جا رہے ہیں ایک جگہ جمع کیاجا رہا ہے۔ تم ان کے ساتھ آ جانا۔ میں تمہیں مل جاؤں گا۔‘‘دونوں بستی سے نکل گئے۔ انہوں نے اپنے گھوڑے بستی سے کچھ دور جا کر ایک درخت کے ساتھ باندھ دیئے اور بستی میں پیدل گئے تھے۔ بستی سے نکلتے ہی وہ دوڑپڑے اور اپنے گھوڑوں پر جا سوار ہوئے۔ کیا ہم صبح تک پہنچ سکیں گے بن آصف! ایک نے دوسرے سے پوچھا۔ خدا کی قسم! ہمیں پہنچنا پڑے گا خواہ اڑکر پہنچیں۔ بن آصف نے کہا۔ یہ خبر ابنِ ولید تک بر وقت نہ پہنچی توہماری شکست لازمی ہے۔ گھوڑے تھکے ہوئے نہیں۔ﷲکا نام لو اور ایڑھ لگا دو۔ دونوں نے ایڑھ لگائی اور گھوڑے دوڑ پڑے۔ اشعر! بن اآصف نے بلند آواز سے اپنے ساتھی سے کہا۔ یہ تو طوفان ہے۔ اب آ تش پرستوں کو شکست دینا آسان نہیں ہو گا۔صرف بکر بن وائل کی تعداد دیکھ لو، کئی ہزار ہو گی۔ میں نے اپنے سالار ابنِ ولید کو پریشانی کی حالت میں دیکھا تھا۔ اشعر نے کہا۔ کیا تم اس کی پریشانی کو نہیں سمجھے اشعر؟ بن آصف نے کہا۔ ہم اتنے طاقتور دشمن کے پیٹ میں آ گئے ہیں۔ ﷲہمارے ساتھ ہے۔ اشعر نے کہا۔ آتش پرست اس زمین کیلئے لڑ رہے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہے اور ہم ﷲ کی راہ میں لڑ رہے ہیں جس کی یہ زمین ہے۔‘‘یہ دونوں گھوڑ سوار خالدؓ کے اس جاسوسی نظام کے بڑے ذہین آدمی تھے جو خالدؓ نے فارس کی سرحد کے اندر آ کر قائم کیا تھا۔ انہیں احساس تھا کہ وہ مدینہ سے بہت دور اجنبی زمین پر آ گئے ہیں جہاں ﷲ کے سوا ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ خالد ؓنے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے ہر طرف اپنے ٓنکھیں بچھا رکھی تھیں۔ یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

 خالدؓ فجر کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ان کے خیمے کے قریب دو گھوڑے آ رکے۔سوار کود کر اترے۔ خالدؓ نماز با جماعت پڑھ کر آ رہے تھے ان سواروں کو دیکھ کران کے قریب جا رکے۔ گھوڑوں کا پسینہ اس طرح پھوٹ رہا تھا جیسے دریا میں سے گزر کر آئے ہوں۔ان کی سانسیں پھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔ سواروں کی حالت گھوڑوں سے بھی بری تھی۔اشعر! خالد ؓنے کہا۔ بن آصف ،کیا خبر لائے ہو؟ اندر چلو، ذرا دم لے لو۔ںدم لینے کا وقت نہیں سالار! بن آصف نے خالدؓ کے پیچھے ان کے خیمے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ آتش پرستوں کا سیلاب آ رہا ہے۔ ہم نے یہ خبرعیسائیوں کی ایک بستی سے لی ہے۔ بکر بن وائل کی الگ فوج تیار ہو گئی ہے، یہ مدائن کی فوج کے ساتھ اندرزغر نام کے ایک سالار کی زیرِ کمان آ رہی ہے۔دوسری فوج بہمن جازویہ کی زیرِ کمان دوسری طرف سے آ رہی ہے۔ کیا یہ فوجیں ہم پر مختلف سمتوں سے حملہ کریں گی؟ خالدؓ نے پوچھا۔ نہیں۔ اشعر نے جواب دیا۔ دونوں فوجیں دلجہ میں اکھٹا ہوں گی۔ اور تم کہتے ہو کہ سیلاب کی طرح آگے بڑھیں گی۔ خالدؓ نے کہا۔ کماندار نے یہی بتایا ہے۔ بن آصف بولا۔ ان دونوں کی رپورٹ ابھی مکمل ہوئی تھی کہ ایک شتر سوار خیمے کے باہر آ رکا اور اونٹ سے اتر کر بغیر اطلاع خیمے میں آ گیا۔ اس نے خالد ؓکو بتایا کہ فلاں سمت سے ایرانیوں کی ایک فوج بہمن جاذویہ کی قیادت میں آ رہی ہے۔ یہ بھی ایک جاسوس تھا جو کسی بھیس میں اس طرف نکل گیا تھا جِدھر سے بہمن کی فوج آ رہی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اندرزغر اور بہمن جاذویہ کو اس طرح کوچ کرنا تھا کہ دونوں کی فوجیں بیک وقت یا تھوڑے سے وقفے کے دلجہ پہنچتیں۔ مگر ہوا یوں کے اندرزغر پہلے روانہ ہوگیا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ کسریٰ اردشیر کے قریب تھا اس لئے اردشیر اس کے سر پر سوار تھا۔ بہمن دور تھا۔ اسے کوچ کا حکم قاصد کی زبانی پہنچا تھا وہ دو دن بعد روانہ ہوا۔کسی بھی مؤرخ نے اس فوج کی تعداد نہیں لکھی جو اندرزغر کے ساتھ تھی۔ بہمن کی فوج کی تعدادبھی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صرف یہ ایک بڑا واضح اشارہ ملتا ہے کہ آتش پرستوں کی فوج جو مسلمانوں کے خلاف آ رہی تھی وہ واقعی سیلاب کی مانند تھی۔ اردشیر نے کہا تھا کہ وہ ایک اور شکست کا خطرہ نہیں مول لے گا۔ چنانچہ اس نے اتنی زیادہ فوج بھیجی تھی جتنی اکھٹی ہو سکتی تھی۔ اندرزغر کی فوج کا تو شمار ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ اپنی باقاعدہ فوج کے علاوہ اس نے بکر بن وائل کے معلوم نہیں کتنے ہزار عیسائی اپنی فوج میں شامل کر لیے تھے۔ ان میں پیادہ بھی تھے اور سوار بھی۔ اس فوج میں مزید اضافہ کوچ کے دوران اس طرح ہوا کہ جنگِ دریا میں آتش پرستوں کے جو فوجی مسلمانوں سے شکست کھاکر بھاگے تھے وہ ابھی تک قدم گھسیٹتے مدائن کو جا رہے تھے ۔وہ صرف تھکن کے مارے ہوئے نہیں تھے ان پر مسلمانوں کی دہشت بھی طاری تھی۔ پسپائی کے وقت مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی فوج کا قتلِ عام ہوا تھا۔ انہوں نے کشتیوں میں سوار ہوکر بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے وہ خالدؓ کے مجاہدین کیلئے بڑا آسان شکار ہوئے تھے۔ اس بھگدڑ میں جو کشتیوں میں سوار ہو گئے تھے ان پر مجاہدین نے تیروں کا مینہ برسا دیا تھا ۔ایسی کشتیوں میں جو سپاہی زندہ رہے تھے، ان کی ذہنی حالت بہت بری تھی۔ ان کی کشتیوں میں ان کے ساتھی جسموں میں تیر لیے تڑپ تڑپ کر مر ہے تھے۔ اس طرح زندہ سپاہیوں نے لاشوں اور تڑپ تڑپ کر مرتے ساتھیوں کے ساتھ سفر کیا تھا،کشتیاں خون سے بھر گئی تھیں۔زندہ سپاہیوں کو کشتیاں کھینے کی بھی ہوش نہیں تھی،کشتیاں دریا کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ خود ہی بہتی کہیں سے کہیں جا پہنچی تھیں،اور دور دور کنارے سے لگی تھیں اور زرتشت کے یہ پجاری بہت بری جسمانی اور ذہنی حالت میں مدائن کی طرف چل پڑے تھے۔ وہ دو دو چار چار اور اس سے بھی زیادہ کی ٹولیوں میں جا رہے تھے۔

 پرانی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ ان میں کئی ایک نے جب اندرزغر کی فوج کو آتے دیکھا تو بھاگ اٹھے۔ وہ تیز دوڑ نہیں سکتے تھے۔ انہیں پکڑ لیا گیا اور فوج میں شامل کر لیا گیا۔کچھ تعداد ایسے سپاہیوں کی ملی جو دماغی توازن کھو بیٹھے تھے ان میں کچھ ایسے تھے جو بولتے ہی نہیں تھے۔ ان سے بات کرتے تھے تو وہ خالی خالی نگاہوں اور بے تاثر چہروں سے ہر کسی کو دیکھتے تھے۔ بعض بولنے کے بجائے چیخیں مارتے اور دوڑ پڑتے تھے۔ "پیشتر اس کے کہ یہ ساری فوج کیلئے خوف و ہراس کا سبب بن جائیں ۔انہیں فوج سے دور لے جا کر ختم کر دو"۔ ان کے سالار اندرزغر نے حکم دیا۔ اس کے حکم کی تعمیل کی گئی۔ مدائن کی یہ فوج تازہ دم تھی۔اس نے ابھی مسلمانوں کے ہاتھ نہیں دیکھے تھے لیکن دریا کے معرکے سے بچے ہوئے سپاہی جب راستے میں اس تازہ دم فوج میں شامل ہوئے تو ہلکے سے خوف کی ایک لہر ساری فوج میں پھیل گئی۔ شکست خوردہ سپاہیوں نے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے اور یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ وہ بے جگری سے لڑے ہیں، مسلمانوں کے متعلق اپنی فوج کو ایسی باتیں سنائیں جیسے مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت طاقت ہو اور وہ جن بھوت ہوں۔ خالدؓ کی جنگی قیادت کی یہ خوبی تھی کہ وہ دشمن کو جسمانی شکست ایسی دیتے تھے کہ دشمن پر نفسیاتی اثر بھی پڑتا تھا جوایک عرصے تک دشمن کے سپاہیوں پر باقی رہتا اور اسی دشمن کے ساتھ جب ایک اور معرکہ لڑاجاتا تو وہ نفسیاتی اثر خالد ؓکو بہت فائدہ دیتا تھا۔ یہ اثر پیدا کرنے کیلئے خالدؓ دشمن کو پسپا کرنے پر ہی مطمئن نہیں ہو جاتے تھے بلکہ دشمن کا تعاقب کرتے اور اسے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچاتے تھے۔ خالدؓ کے جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی انہیں دی کہ پچھلے معرکے کے بھاگے ہوئے سپاہی بھی مدائن سے آنے والی فوج میں شامل ہورہے ہیں۔ خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں نئی صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ "میرے عزیرساتھیو! خالدؓنے انہیں کہا۔ ہم یہاں صرف ﷲکے بھروسے پر لڑنے کیلئے آئے ہیں۔ جنگی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے توہم فارس کی فوج سے ٹکر لینے کے قابل نہیں۔ اپنے وطن سے ہم بہت دور نکل آئے ہیں ہمیں کمک نہیں مل سکتی۔ ہم واپس بھی نہیں جائیں گے۔ ہم فارسیوں کو اور کسریٰ کو نہیں آگ کے خداؤں کو شکست دینے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ میں تم سب کے چہروں پر تھکن کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ تمہاری آنکھیں بھی تھکی تھکی سی ہیں اور تمہاری باتوں میں بھی تھکن ہے لیکن ربِ کعبہ کی قسم !ہماری روحیں تھکی ہوئی نہیں۔ ہمیں اب روح کی طاقت سے لڑناہے"۔ ایسی باتیں زبان پر نہ لا ابنِ ولید! ایک سالار عاصم بن عمرو نے کہا۔ ہمارے چہروں پر تھکن کے آثار ہیں مایوسی کے نہیں، ہمارے ارادوں میں کوئی تھکن نہیں، ابنِ ولید! دوسرے سالار عدی بن حاتم نے کہا، ہم نے آرام کر لیا ہے ۔سپاہ نے بھی آرام کر لیا ہے۔ میں اسی لیے یہاں خیمہ زن ہوگیاتھا کہ ﷲکے سپاہی آرام کر لیں،  خالدؓ نے کہا۔ تمہارے ارادے تھکے ہوئے نہیں تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میں دوسری باتیں کرنا چاہتا ہوں جو زیادہ ضروری ہیں۔ تم نے دیکھا ہے کہ ہم نے فارسیوں کو پہلے معرکے میں شکست دی تو وہ پھر ہمارے سامنے آ گئے ۔ان کے ساتھ ان کے وہ سپاہی بھی آ گئے جو پہلے معرکے سے بھاگے تھے ۔اب مجھے پھر اطلاع ملی ہے کہ دوسرے معرکے سے بھاگے ہوئے سپاہی مدائن سے آنے والی فوج کے سا تھ راستے میں ملتے آ رہے ہیں۔ اب تمہیں یہ کوشش کرنی ہے کہ اگلے معرکے میں آتش پرستوں کا کوئی سپاہی زندہ نہ جا سکے۔ ہلاک کرو یا پکڑ لو۔ کسریٰ کی فوج کا نام و نشان مٹا دینا چاہتا ہوں۔ ہمارا ﷲ یونہی کرے گا۔ تین چار آوازیں سنائی دیں۔ سب ﷲکے اختیار میں ہے۔ خالدؓ نے کہا۔ ہم اسی کی خوشنودی کیلئے گھروں سے اتنی دور آگئے ہیں ۔اب جو صورت ہمارے سامنے ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرو۔ یہ فیصلے جذبات سے نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ اس حقیقت کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کہ فارسیوں کی جنگی طاقت اور تعداد جواب آ رہی ہے ،ہم اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ۔لیکن پسپائی کو دل سے نکال دو۔ تازہ اطلاعوں کے مطابق مدائن کی فوج دجلہ عبور کر آئی ہے۔آج رات فرات کو بھی عبورکر لے گی،پھر وہ دلجہ پہنچ جائے گی، ان کی دوسری فوج بھی آ رہی ہے۔ ہمارے جاسوس اس کا کوچ دیکھ رہے ہیں اور مجھے اطلاعیں دے رہے ہیں، خدائے ذوالجلال ہماری مدد کر رہا ہے ۔یہ اسی کی ذاتِ باری کا کرم ہے کہ فارس کی یہ دوسری فوج جو اک سالار بہمن جاذویہ کی زیرِ کمان آ رہی ہے۔ اس کی رفتار تیز نہیں ۔وہ پڑاؤ زیادہ کر رہی ہے۔ ہم اپنی قلیل نفری سے دونوں فوجوں سے ٹکر لے سکتے ہیں ۔میری عقل اگر صحیح کام کر رہی ہے تو میں یہی ایک بہتر طریقہ سمجھتا ہوں کہ مدائن کی فوج جو سالار اندرزغر کے ساتھ آ رہی ہے وہ دلجہ تک جلدی پہنچ جائے گی۔پیشتر اس کے کہ بہمن کی فوج بھی اس سے آ ملے، ہم اندرزغر پر حملہ کر دیں گے ،کیا میں نے بہتر سوچا ہے؟۔

اس سے بہتر اورکوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ سالار عاصم نے کہا۔ مجھے مدائن کی اس فوج میں ایک کمزوری نظر آرہی ہے۔ اس فوج میں عیسائیوں کی فوج کے قبیلوں کے لوگ بھی ہیں جو لڑنا تو جانتے ہوں گے لیکن انہیں جنگ اور باقاعدہ معرکے کا تجربہ نہیں ۔میں انہیں ایک مسلح ہجوم کہوں گا ۔دشمن کی دوسری کمزوری وہ سپاہی ہیں جو پچھلے معرکے سے بھاگے ہوئے مدائن کی فوج کو راستے میں ملے تھے۔مجھے یقین ہے کہ وہ ڈرے ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے اپنے ہزاروں ساتھیوں کو تلواروں تیروں اور برچھیوں کا شکار ہوتے دیکھا ہے، پسپائی کی صورت میں وہ سب سے پہلے بھاگیں گے۔ خدا کی قسم عمرو! خالدؓ نے پرجوش آواز میں کہا۔ تجھ میں وہ عقل ہے جو ہر بات سمجھ لیتی ہے۔ خالدؓ نے ان سب پر نگاہ دوڑائی جو وہاں موجود تھے۔انہوں نے کہا۔ تم میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اس بات کو نہ سمجھ سکاہو۔ لیکن دشمن کے اس پہلو کو نہ بھولنا کہ اس کے پاس سازوسامان اور رسد اور کمک کی کمی نہیں۔صرف اندرزغر کی فوج ہماری فوج سے چھ گنا زیادہ ہے۔میں نے جو طریقہ سوچا ہے وہ موزوں اور موثر ضرور ہوگا لیکن آسان نہیں۔ لڑنا سپاہ نے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔ پھر بھی انہیں اچھی طرح سے سمجھا دوکہ ہم واپس جانے کیلئے نہیں آئے اور ہم مدائن میں ہوں گے یا خدائے بزرگ و برتر کے حضور پہنچ جائیں گے۔ دومؤرخوں طبری اور یاقوت نے لکھا ہے کہ یہ فہم و فراست کی جنگ تھی۔ اگر تعداد اور سازوسامان اور دیگر جنگی احوال وکوائف کو دیکھا جاتا تو آتش پرستوں اور مسلمانوں کا کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔ خالدؓ کا چہرہ اُترا ہوا تھا۔ ان کی راتیں گہری سوچ میں گذر رہی تھیں۔ خیمہ گاہ میں وہ چلتے چلتے رک جاتے اور گہری سوچ میں کھو جاتے۔ انہیں زمین پر بیٹھ کر انگلی سے مٹی پر لکیریں ڈالتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ خالدؓ کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ آتش پرستوں سے فیصلہ کن معرکہ لڑے بغیر واپس نہ آنے کا عہدکر چکے تھے۔ انہوں نے حسبِ معمول اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلے کی طرح دائیں اور بائیں پہلوؤں پر سالارعاصم بن عمرو اور سالار عدی بن حاتم کو رکھا۔ اپنے ساتھ انہوں نے صرف ڈیڑھ ہزار نفری رکھی جن میں پیدل تھے اور گھڑ سوار بھی۔ اس تقسیم کے بعد انہوں نے کوچ کاحکم دیا۔ یہ حکم انہوں نے جاسوس کی اس اطلاع کے مطابق دیا کہ اندرزغر کی فوج دریائے فرات عبور کر رہی ہے۔ خالد ؓنے اپنی رفتار ایسی رکھی کہ آتش پرست دلجہ میں جونہی پہنچیں ،وہ اس کے سامنے ہوں۔ یہ جنگی فہم وفراست کا غیر معمولی مظاہرہ تھا۔ ایسے ہی ہوا ،جیسے انہوں نے سوچاتھا۔ اندرزغرکی فوج دلجہ پہنچی تو اسے خیمے گاڑنے کا حکم ملا کیونکہ اسے بہمن کی فوج کا انتظار کرناتھا۔فوج اتنے لمبے سفر کی تھکی ہوئی خیمے گاڑنے لگی اور اس کے ساتھ ہی شور بپا ہو گیا کہ بہمن جاذویہ کی فوج آ رہی ہے۔ تمام سپاہ اس کے استقبال میں خوشی کا شوروغل مچانے لگی لیکن یہ شور اچانک خاموش ہو گیا۔ "یہ مدینہ کی فوج ہے"۔ کسی نے بلند آواز سے کہااور اس کے ساتھ یہ کئی آوازیں سنائی دیں۔ دشمن آگیا ہے ……تیار ……ہوشیار۔

اندرزغر گھوڑے پر سوار آگے گیااور اچھی طرح دیکھا۔یہ خالدؓ کی فوج تھی اور جنگی ترتیب میں رہ کر پڑاؤ ڈال رہی تھی،یہ فوج خیمے نہیں گاڑ رہی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان لڑائی کیلئے تیار ہیں۔ سالارِ اعلیٰ! اندرزغرکو ایک سالار نے کہا، ہماری دوسری فوج نہیں پہنچی۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ ابھی دور ہے۔ ورنہ ہم ان مسلمانوں کو ابھی کچل ڈالتے۔ یہ تیار ہیں اور ہماری سپاہ تھکی ہوئی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ ان کی تعداد کتنی تھوڑی ہے۔اندرزغر نے کہا۔ بمشکل دس ہزار ہوں گے۔میں انہیں چیونٹیوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ ان کے گھوڑ سوار دستے کہاں ہیں؟ کہاں ہو سکتے ہیں؟ اس کے سالار نے کہا۔ کھلا میدان ہے، جو کچھ ہے صاف نظر آ رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سالاروں کو اور کمانداروں کو ایک ایک کے چھ چھ نظر آتے رہے ہیں۔اندرزغر نے کہا۔ شکست کھا کر بھاگنے والوں نے مدائن میں بتایا تھا کہ مسلمانوں کا رسالہ بڑا زبردست ہے اور اس کے سوار لڑنے کے اتنے ماہر ہیں کہ کسی کے ہاتھ نہیں آتے…… مجھے تو ان کارسالہ کہیں نظر نہیں آرہا۔ ہمیں جھوٹی اطلاعیں دی گئی ہیں۔ سالار نے کہا۔ہم بہمن کا انتظارنہیں کریں گے، اس کے آنے تک ہم ان مسلمانوں کو ختم کر چکے ہوں گے۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے گھوڑ سوار وہاں نہیں تھے ۔وہی تھوڑے سے سوار تھے جو پیادوں کے ساتھ تھے یا خالد ؓکے ساتھ کچھ گھوڑ سوار محافظ تھے ۔آتش پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے ۔اندرزغر کیلئے یہ فتح بڑی آسان تھی۔ خالد ؓنے اتنی تھوڑی سی نفری کے ساتھ اتنے بڑے لشکر کے سامنے آکر غلطی کی تھی۔جس میدان میں دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں وہ ہموار میدان تھا ۔اس کے دائیں اور بائیں دو بلند ٹیکریاں تھیں۔ ایک ٹیکری آگے جا کر مڑ گئی تھی۔ اس کے پیچھے ایک اور ٹیکری تھی۔ خالدؓ نے اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کر رکھا تھا ۔ادھر آتش پرست بھی جنگی ترتیب میں ہو گئے اور دونوں فوجوں کے سالار ایک دوسرے کا جائزہ لینے لگے۔ خالدؓ نے دیکھا کہ آتش پرستوں کے پیچھے دریا تھا لیکن اندرزغرنے اپنی فوج کو دریا سے تقریباً ایک میل دور رکھا تھا۔ آتش پرستوں کے پہلے سالاروں نے اپنا عقب دریا کے بہت قریب رکھا تھا تاکہ عقب محفوظ رہے۔لیکن اندرزغر نے اپنے عقب کی اتنی احتیاط نہ کی ۔اسے یقین تھا کہ یہ مٹھی بھر مسلمان اس کے عقب میں آنے کی جرات نہیں کریں گے۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *29* ۔۔۔۔

قارن بن قریاس ابھی دریائے معقل کے کنارے پر خیمہ زن تھا ۔اس نے وہاں اتنے دن اس لئے قیام کیا تھا کہ ہرمز کی فوج کے بھاگے ہوئے کماندار اور سپاہی ابھی تک چلے آ رہے تھے۔قارن انہیں اپنے لشکر میں شامل کرتا جارہاتھا۔ہرمز کے دونوں سالار قباذ اور انوشجان اس کے ساتھ ہی تھے ۔وہ اپنی شکست کا انتقام لینے کا عہد کیے ہوئے تھے۔ان کے کہنے پر قارن پیش قدمی میں محتاط ہو گیا تھا۔قیام کے دوران اس کے جاسوس اسے اطلاعیں دے رہے تھے کہ مسلمانوں کی سرگرمیاں اور عزائم کیا ہیں۔ان اطلاعوں سے اسے یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان واپس نہیں جائیں گے بلکہ آگے آ رہے ہیں۔خالدؓ نے جنگِ سلاسل جیتنے کے بعد کاظمہ، ابلہ اور چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔جب وہ ان آبادیوں میں گئے تو وہاں کے مسلمانوں نے چِلّا چِلّا کرخالد زندہ باد……اسلام زندہ باد……خلافتِ مدینہ زندہ باد کے نعرے لگائے ۔وہ سر سبز اور شاداب علاقہ تھا۔عورتوں نے خالدؓ اور اس کے محافظوں کے راستے میں پھول پھینکے۔اس علاقے کے مسلمانوں کو بڑی لمبی مدت بعد ایرانی جورواستبداد سے نجات ملی تھی۔ ’’خالدؓ کیا تو ہماری عصمتوں کا انتقام لے گا؟‘‘خالدؓ کو کئی عورتوں کی آوازیں سنائی دیں۔’’ہمارے جوان بیٹوں کے خون کا انتقام……انتقام……خالد انتقام……‘‘یہ ایک شور تھا ،للکار تھی اورخالدؓ اس شور سے گزرتے جا رہے تھے۔’’ہم واپس جانے کیلئے نہیں آئے۔‘‘خالدؓ نے وہاں کے مسلمانوں سے کہا۔’’ہم انتقام لینے آئے ہیں۔‘‘مسلمانوں کے ایک وفد نے خالدؓ کو بتایا کہ اس علاقے کے غیر مسلموں پر وہ بھروسہ نہ کرے۔’’یہ سب فارسیوں کے مددگار ہیں۔‘‘وفد نے خالد ؓکو بتایا۔’’مجوسیوں نے ہمیشہ ہمارے خلاف مخبری کی ہے۔ہمارے بیٹے جب فارسی فوج کی کسی چوکی پر شب خون مارتے تھے تو مجوسی مخبری کر کے ہمارے بیٹوں کو گرفتار کرا دیتے تھے۔‘‘’’تمام عیسائیوں اور یہودیوں کو گرفتار کر لو۔‘‘خالدؓ نے حکم دیا۔’’اور مسلمانوں میں سے جو اسلامی لشکر میں آنا چاہتے ہیں ‘آجائیں۔‘‘’’وہ پہلے ہی مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ چلے گئے ہیں۔‘‘خالدؓ کوجواب ملا۔فوراً ہی مجوسیوں اور دیگر غیر مسلموں کی پکڑ دھکڑشروع ہوگئی۔ان میں سے صرف انہیں جنگی قیدی بنایا گیا جن کے متعلق مصدقہ شہادت مل گئی کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگی کارروائیاں کی تھیں یا مخبری کی تھی۔نظم و نسق کیلئے اپنے کچھ آدمی کاظمہ میں چھوڑ کر خالدؓ آگے بڑھ گئے۔اب ان کی پیش قدمی کی رفتار تیز نہیں تھی کیونکہ کسی بھی مقام پر ایرانیوں سے لڑائی کا امکان تھا۔خالد ؓنے اپنے جاسوس جو اس علاقے کے مسلمان تھے ،آگے اور دائیں بائیں بھیج دیئے تھے۔مثنیٰ بن حارثہ آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔وہ دریائے معقل عبور کرنا چاہتا تھا لیکن دور سے اسے ایرانیوں کی خیمہ گاہ نظر آئی۔وہ بہت بڑا لشکر تھا ۔

مثنیٰ کے پاس ڈیڑھ ہزار سے کچھ زیادہ سوارتھے۔اتنی تھوڑی تعداد سے مثنیٰ ایرانی لشکر سے ٹکر نہیں لے سکتا تھا۔’’ہمیں یہیں سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔‘‘مثنیٰ کے ایک ساتھی نے کہا۔’’یہ لشکر ہمیں گھیرے میں لے کر ختم کر سکتا ہے۔‘‘’’سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’اگر ہم پیچھے ہٹے تو فارسیوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔ہمارے سپہ سالار خالد نے کہا تھا کہ پیشتر اس کے کہ فارسیوں کے دلوں سے ہماری دہشت ختم ہو جائے ہم ان پر حملے کرتے رہیں گے۔ہمیں اپنی دہشت برقرار رکھنی ہے۔میں آگ کے ان پجاریوں کی فوج کو یہ تاثر دوں گا کہ ہم اپنے لشکر کا ہراول دستہ ہیں۔ ہم لڑنے کیلئے بھی تیار رہیں گے۔اگر لڑنا پڑا تو ہم ان سے وہی جنگ لڑیں گے جو ایک مدت سے لڑ رہے ہیں……ضرب لگاؤ اور بھاگو……کیا تم ایسی جنگ نہیں لڑ سکتے؟‘‘مثنیٰ نے ایک سوار کو بلایا اور اسے کہا۔’’گھوڑے کو ایڑ لگاؤ ۔سپہ سالار خالد بن ولید کاظمہ یا ابلہ میں ہوں گے ۔انہیں بتاؤ کہ معقل کے کنارے فارس کا ایک لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے ۔انہیں کہنا کہ میں اس لشکر کو آگے نہیں بڑھنے دوں گااور آپ کا جلدی پہنچنا ضروری ہے۔‘‘ خالدؓ پہلے ہی کاظمہ سے چل پڑے تھے۔انہیں گھوڑوں اور بار بردار اونٹوں کیلئے چارے اور لشکر کیلئے کھانے پینے کے سامان کی کمی نہیں تھی۔اس علاقے کے مسلمانوں نے ہر چیز کا بندوبست کر دیا تھا۔خالد ؓکا رستہ کوئی اور تھا۔وہ ابلہ سے کچھ دور کھنڈروں کے قریب سے گزر رہے تھے۔سامنے ایک گھوڑ سوار بڑی تیز رفتار سے آ رہا تھا۔خالدؓ نے اپنے دو محافظوں سے کہا کہ وہ آگے جا کر دیکھیں یہ کون ہے۔محافظوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آنے والے سوار کو راستہ میں جالیا۔اس سوار نے گھوڑا روکا نہیں۔دونوں محافظوں نے اپنے گھوڑے اس کے پہلوؤں پر کرلئے اور اس کیساتھ آئے۔’’مثنیٰ بن حارثہ کا پیغام لایا ہے۔‘‘دور سے ایک محافظ نے کہا۔’’فارس کا ایک تازہ دم لشکر دریائے معقل کے کنارے پڑاؤ کیے ہوئے ہے۔‘‘مثنیٰ کے قاصد نے خالد ؓکے قریب آکر رکتے ہوئے کہا۔’’تعداد کا اندازہ نہیں۔آپ کے اورمثنیٰ کے لشکر کی تعداد سے اس لشکر کی تعداد سات آٹھ گنا ہے۔فارس کے بھاگے ہوئے سپاہی بھی اس لشکر میں شامل ہو گئے ہیں۔‘‘’’مثنیٰ کہاں ہے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’فارسیوں کے سامنے۔‘‘قاصد نے کہا۔’’مثنیٰ نے حکم دیا ہے کہ کوئی عسکری پیچھے نہیں ہٹے گا اور ہم فارسیوں کو یہ تاثر دیں گے کہ ہم اپنے لشکر کا ہراول ہیں……مثنیٰ نے پیغام دیا ہے کہ جلدی پہنچیں۔‘‘خالد ؓنے اپنی فوج کی رفتار تیز کردی اور رخ ادھر کر لیا جدھر مثنیٰ بن حارثہ تھے۔خالد ؓکی فوج مثنیٰ کے سواروں سے جاملی۔خالد ؓنے سب سے پہلے دشمن کا جائزہ لیا۔وہ مثنیٰ کے ساتھ ایک اونچی جگہ پر کھڑے تھے۔دشمن جنگ کی تیاری مکمل کر چکا تھا۔

’’فارسی ہمیں آمنے سامنے کی لڑائی لڑانا چاہتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے مثنیٰ سے کہا۔’’دیکھ رہے ہو ابنِ حارثہ……انہوں نے دریا کو اپنے پیچھے رکھا ہے۔‘‘’یہ فارسی صرف آمنے سامنے کی لڑائی لڑ سکتے ہیں۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’مجھے ان کے ایک قیدی سے پتا چلا ہے کہ ان کے دو سالار جن کے خلاف ہم لڑے ہیں زندہ پیچھے آ گئے ہیں ۔ایک کا نام قباذ ہے اور دوسرے کا نام انوشجان۔انہوں نے اپنے سپہ سالار کو بتایا ہوگا کہ ہمارے لڑنے کے انداز کیسے ہیں۔اسی لیے انہوں نے اپنے عقب کو ہم سے اس طرح محفوظ کر لیا ہے کہ اپنے پیچھے دریا کو رکھا ہے……زیادہ نہ سوچ ولید کے بیٹے!میں ان کے خلاف زمین کے نیچے سے لڑتا رہا ہوں۔‘‘’’اﷲتجھے اپنی رحمت میں رکھے ابن ِ حارثہ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اﷲتمہارے ساتھ ہے ……میں نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ ہم دریاپار نہیں کر سکتے۔‘‘’’اﷲکا نام لے ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’مجھے امید ہے کہ ہم ان کی صفیں اس طرح درہم برہم کر دیں گے کہ ہمیں ان کے پہلوؤں سے آگے نکلنے اور پیچھے سے ان پر آنے کا موقع مل جائے گا ۔میرے سوار رک کر لڑنے والے نہیں ۔یہ گھوم پھر کر لڑنے والے ہیں۔انہیں آگے دھکیلنے کی ضرورت نہیں۔مشکل یہ پیش  آئے گی کہ انہیں پیچھے کس طرح لایا جائے۔فارسیوں کو دیکھ کر تو یہ شعلے بن جاتے ہیں۔انہوں نے فارسیوں کے ہاتھوں بہت زخم کھائے ہیں۔ابنِ ولید !تم جانتے ہو انہوں نے کس قسم کی غلامی دیکھی ہے۔فارس کے ان آتش پرستوں نے اس علاقے کے مسلمانوں کوانسانوں کی طرح زندہ رہنے کے حق سے محروم رکھا تھا۔‘‘, ’’ہم زرتشت کی اس آگ کو سرد کر دیں گے ابنِ حارثہ! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ خود مانیں گے کہ عبادت کے لائق صرف ایک اﷲہے۔جس کی راہ میں ہم اپنی جانیں قربان کرنے آئے ہیں……آؤ ‘میں زیادہ دیر انتظار کرنا نہیں چاہتا۔یہ جس طرح رکے ہوئے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ محتاط ہیں اور ان پر ہماری دھاک بیٹھی ہوئی ہے……تم اپنے سواروں کے ساتھ قلب میں رہو۔‘‘مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے بہت سوچا کہ کسی طرح انہیں چالیں چلنے کا موقع مل جائے لیکن ایرانیوں کا سالار قارن بن قریاس دانشمند آدمی تھا۔اسے پتا چل گیا تھا کہ خالدؓ کس طرح لڑتا ہے۔قارن نے اپنے شکست خوردہ سالاروں قباذ اور انوشجان کو پہلوؤں پر رکھااور اپنے لشکر کوآگے لے آیا۔اس لشکر کی اپنی ہی شان تھی۔پتہ چلتا تھا کہ کسی شہنشاہ کی فوج ہے۔ان کے قدموں کے نیچے زمین ہلتی تھی۔ادھر یثرب کے سرفروش تھے۔ظاہری طور پر ان کی کوئی شان نہیں تھی۔ ایرانیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ہتھیار بھی کمتر رکھتے تھے۔لباس بھی یونہی سے تھے اور ان کی تعداد ایرانیوں کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔

خالدؓ نے اپنی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا تو ہزاروں قدموں کی دھمک اور گھوڑوں کے ٹاپوں کے ساتھ کلمہ طیّبہ کا ورد کوئی اور ہی تاثر پیدا کر رہا تھا۔یہ فوج تھکی ہوئی تھی اور زرتشت تازہ دم تھے۔دونوں فوجوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تو خالدؓ نے اپنی فوجوں کو روک لیا۔مثنیٰ بن حارثہ اپنے سوار دستے کے ساتھ خالدؓ کے پیچھے تھے۔دائیں اور بائیں پہلوؤں پر خالدؓ کے مقرر کیے ہوئے دو سالار عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم تھے۔اس دور کی جنگوں کے دستور کے مطابق زرتشتوں کا سپہ سالار قارن آگے آیااور اس نے مسلمانوں کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارا۔’’مدینہ کا کوئی شتربان میرے مقابلے میں آ سکتا ہے؟‘‘اس نے دونوں فوجوں کے درمیان آکر اور للکار کر کہا۔’’میرے مقابلے میں آنے والا یہ سوچ کر آئے کہ میں شہنشاہِ فارس کا سپہ سالار ہوں۔‘‘’’میں ہوں تیرے مقابلے میں آنے والا۔‘‘خالدؓ نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور للکارے۔’’قارن آ اور اپنے سالار ہرمز کے قتل کا انتقام لے۔میں ہوں اس کا قاتل۔‘‘خالدؓ ابھی قارن سے کچھ دور ہی تھے کہ خالدؓ کے عقب سے ایک گھوڑا تیزی سے آیا اور خالدؓ کے قریب سے گزر گیا۔ ’’پیچھے رہ ابنِ ولید!‘‘یہ گھوڑ سوار للکارا۔’’آتش پرستوں کا یہ سالار میرا شکار ہے۔‘‘ خالدؓ نے دیکھا۔وہ ایک مسلمان سوار معقل بن الاعشی تھا وہ پہلوانی اور تیغ زنی میں مہارت اور شہرت رکھتا تھا۔یہ ڈسپلن کے خلاف تھا کہ کوئی سپاہی یا سوار اپنے سالار پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کرتا لیکن وہ وقت ایسا تھا کہ بندہ و صاحب اور محتاج و غنی ایک ہو گئے تھے۔سپاہی اور سوار جنگ کا مقصد سمجھتے تھے۔جو جذبہ سپاہیوں میں تھا وہی سالاروں میں تھا ۔معقل بن الاعشی یہ برداشت نہ کر سکا کہ اس کا سالار ایک آتش پرست کے ہاتھوں گھائل ہو۔خالدؓ اپنی سپاہ کے جذبے کو سمجھتے تھے ۔وہ رک گئے۔انہوں نے اپنے اس سوار کے جذبہ کو مارنے کی کوشش نہ کی۔معقل کے گھوڑے کی رفتار تیز تھی۔گھوڑا ایرانیوں کے سالار قارن بن قریاس سے آگے نکل گیا۔معقل نے آگے جا کر گھوڑے کو موڑا اور قارن کو للکارا۔قارن نے پہلے ہی تلوار اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی۔اس کے سر پر زنجیروں والا خود تھا۔اور اس کا اوپر کا دھڑ زرہ میں تھا۔اس کی ٹانگوں پر موٹے چمڑے کے خول چڑھے ہوئے تھے۔اس کے چہرے پر انتقام کے تاثرات کے بجائے تکبر تھا جیسے لوہے اور موٹے چمڑے کا یہ لباس اسی مسلمان کی تلوار سے بچا لے گا۔قارن نے اپنے گھوڑے کی باگ کوجھٹکا دیا۔دونوں کے گھوڑے ایک دوسرے کے اردگرد ایک دو چکر لگا کر آمنے سامنے آگئے۔’’اے آگ کے پوجنے والے!‘‘معقل نے بڑی بلند آواز سے کہا۔’’میں سپاہی ہوں ،سالار نہیں ہوں۔‘‘قارن کے چہرے پر رعونت کے آثار اور زیادہ نمایاں ہو گئے۔دونوں گھوڑے ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ان کے سواروں کی تلواریں بلند ہوئیں۔پہلے وار میں تلواریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور دونوں سوار پیچھے ہٹ گئے۔

گھوڑے ایک بار پھر ایک دوسرے کی طرف آئے۔تلواریں ایک بار پھر ہوا میں ٹکرائیں۔اس کے بعد گھوڑے پیچھے ہٹ ہٹ اور گھوم گھوم کر ایک دوسرے کی طرف آئے ۔دونوں سوار اک دوسرے پر وار کرتے رہے۔آخری بار قارن نے تلوار بلند کی معقل نے وہ وار روکنے کے بجائے اس کی بغل کو ننگا دیکھا تو تلوار برچھی کی طرح اس کی بغل میں اتنی زور سے ماری کہ تلوار قارن کے جسم میں دور تک اتر گئی۔قارن کے اسی ہاتھ میں تلوار تھی جو اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔قارن گھوڑے پر ایک طرف کو جھکا۔معقل نے اب اس کی گردن دیکھ لی۔جس سے قارن کے آہنی خود کی زنجیریں ہٹ کر پیچھے کو لٹک آئی تھیں۔معقل نے پوری طاقت سے گردن پر ایسا وار کیا کہ تکبر اور رعونت سے اکڑی ہوئی گردن صاف کٹ گئی۔مسلمانوں کے لشکر سے دادوتحسین اور اﷲاکبر کے نعرے رعد کی طرح کڑکنے لگے۔قارن بن قریاس کا سر زمین پر پڑا تھا۔اس کے زنجیروں والے خود کے نیچے اس کی حیثیت کے مطابق ایک لاکھ درہم کے ہیروں والی ٹوپی تھی۔ایسی ہی ٹوپی ہرمز کے سر پر بھی تھی۔قارن کا باقی دھڑ گھوڑے سے لڑھک گیالیکن اس کا ایک پاؤں رکاب میں پھنس گیا ۔معقل نے قارن کے گھوڑے کو ٹھُڈا مارا۔گھوڑاقارن کے جسم کو گھسیٹتا دونوں فوجوں کے درمیان بے لگام دوڑنے لگا۔ایرانیوں کے لشکر پر موت کا سنّاٹا طاری تھا۔ آتش پرستوں کی صفوں سے دو گھوڑے آگے آئے۔’’کون ہے ہمارے مقابلے میں آنے والا؟‘‘ان دو میں سے ایک گھوڑ سوار للکارا۔’’ہم اپنے سپہ سالار کے خون کا انتقام لیں گے۔‘‘’’میں اکیلا دونوں کیلئے کافی ہوں۔‘‘خالدؓنے دشمن کی للکار کا جواب دیا اور ایڑ لگائی۔انہیں للکارنے والے دونوں ایرانی سالار قباذ اور انوشجان تھے۔اچانک خالدؓ کے عقب سے دو گھوڑے آئے۔جواس کے دائیں بائیں سے آگے نکل گئے۔خالد ؓکو ایک للکار سنائی دی۔’’پیچھے ہو ولید کے بیٹے!ان دونوں سالاروں نے ہمارے ہاتھ دیکھے ہوئے ہیں۔اب ہم انہیں بھاگنے کی مہلت نہیں دیں گے۔‘‘خالدؓ کے لشکر کے دوسرے سوار نے کہا۔ خالدؓ نے دیکھا یہ دونوں سوار جو اس کے قریب سے گزر کر دشمن کے مقابلے پر چلے گئے تھے اس کے لشکر کے دائیں اور بائیں پہلوؤں کے سالار عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم تھے۔ان دونوں نے کپڑوں کا لباس زیب تن کر رکھا تھا اور وہ جن کے مقابلے میں گئے تھے وہ سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈوبے ہوئے تھے ۔مسلمان سالاروں کو اپنے اﷲپر بھروسہ تھا اور آتش پرست اس زرہ پر یقین رکھتے تھے جو انہوں نے پہن رکھی تھی۔انہیں معلوم نہ تھا کہ تلوار کے وار کو آہن نہیں عقیدہ روکا کرتا ہے۔دونوں طرف تجربہ کار سالار تھے۔جو تیغ زنی کی مہارت رکھتے تھے۔ان کی تلواریں ٹکرانے لگیں۔مسلمانوں کی تلواریں آتش پرستوں کی زرہ کو کاٹنے سے قاصر تھیں اس لئے وہ محتاط ہو کر وار کرتے تھے تاکہ تلواروں کی دھار کو نقصان نہ پہنچے۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے

عاصم اور عدی اس تاک میں تھے کہ دشمن کا کوئی نازک اور غیر محفوظ جسم کاحصہ سامنے آئے تو وہ معقل کی طرح وار کریں۔آخرکار ان دونوں نے باری باری معقل کی ہی طرح اپنے اپنے دشمن کے قریب جا کر انہیں موقع دیا کہ وہ اوپر سے تلوار کا وار کریں۔آتش پرستوں کے سالاروں نے وہی غلطی کی جو قارن نے کی تھی۔انہوں نے بازو اوپر کیے اور تلواریں ان کی بغلوں میں داخل ہو گئیں اور دونوں کی تلواریں گر پڑیں۔خالدؓ نے جب دیکھا کہ زرتشتوں کا سپہ سالار مارا گیا اور اس کے بعد اس کے دونوں سالار بھی جنہیں اپنے لشکر کو منظم طریقے سے لڑانا تھا،مارے گئے ہیں تو خالدؓ نے اپنے لشکر کو حملے کا حکم دے دیا۔ایرانیوں کے لشکر میں وہ سپاہی بھی شامل تھے جو اپنے دلوں پر مسلمانوں کی دہشت لیے ہوئے جنگِ سلاسل سے بھاگے تھے۔اب انہوں نے اپنے تین سالاروں کو مرتے دیکھا تو انکی دہشت میں اضافہ ہو گیا۔انہوں نے یہ دہشت اپنے سارے لشکر پر حاوی کر دی۔لشکر کاحوصلہ تو پہلے ہی مجروح ہو چکا تھا۔یہ لشکر مقابلے کیلئے بہرحال تیار ہو گیا۔ایرانیوں کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ ان کے پیچھے دریا تھا جس نے ان کے عقب کو محفوظ کیا ہوا تھا۔اس دریا کا دوسرا فائدہ انہیں یہ نظر آ رہا تھا کہ اس میں بڑی کشتیاں بندھی ہوئی تھیں جو لشکر کے ساتھ آئی تھیں۔پسپاہونے کیلئے ان کشتیوں نے ان کے کام آناتھا۔انہیں یہ ڈر بھی نہ تھا کہ مسلمان تعاقب میں آسکیں گے۔ خالدؓ کے حملے کاانداز ہلّہ بولنے والا یا اندھا دھند ٹوٹ پڑنے والا نہیں تھا۔انہوں نے ایک ہی بار اپنے تمام دستے جنگ میں نہ جھونک دیئے۔انہوں نے قلب کے دستوں کو باری باری آگے بھیجا اور انہیں ہدایت یہ دی کہ وہ دشمن کی صفوں کے اندر نہ جائیں بلکہ دشمن کو اپنے ساتھ آگے لانے کی کوشش کریں۔اس کے ساتھ ساتھ خالدؓ پہلوؤں کو اسطرح پھیلاتے چلے گئے کہ وہ دشمنوں پر پہلوؤں سے حملہ کر سکیں۔دشمن کے سپہ سالار اور دو سالاروں کی لاشیں گھوڑوں کے سُموں تلے کچلی مسلی گئی تھیں۔یہ فارس کی شہنشاہی کا غرور تھا جو مسلمانوں کے گھوڑوں تلے کچلا جا رہا تھا۔اس صورتِ حال میں آتش پرستوں کے حوصلے مر سکتے تھے۔بیدار نہیں ہو سکتے تھے۔مسلمانوں کے نعرے اور ان کی للکار ان کے پاؤں اکھاڑ رہی تھی۔’’زرتشت کے پجاریو!اﷲکو مانو……‘‘’’ہم ہیں محمد ﷺکے شیدائی……‘‘اور اﷲاکبر کے نعروں سے فضاکانپ رہی تھی۔ جوش وخروش تو مثنیٰ بن حارثہ کے سواروں کا تھا۔ان کی للکار الگ تھلگ تھی۔’’اپنے غلاموں کی ضرب دیکھو۔‘‘’’آج ظالموں سے خون کا حساب لیں گے۔‘‘’’بلاؤ اردشیر کو……‘‘’’زرتشت کو آواز دو۔‘‘ایرانی سپاہ کے حوصلے جواب دینے لگے۔ان کی دوسری کمزوری نے ان کے جسم توڑ دیئے۔یہ کمزوری ان کے ہتھیاروں کا اور زِرہ کا بوجھ تھا۔وہ تھکن محسوس کرنے لگے۔

خالدؓ نے جو اپنی سپاہ کے ساتھ سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے،بھانپ لیا کہ آتش پرست ڈھیلے پڑتے جا رہے ہیں۔انہوں نے جس شدت سے مقابلے اور جوابی حملوں کا آغاز کیا تھا۔اس شدت میں نمایاں کمی نظر آنے لگی۔خالدؓ نے اپنے قاصد پہلوؤں کے سالاروں عاصم بن عدی کی طرف اس حکم کے ساتھ دوڑا دیئے کہ اپنے اپنے پہلوؤں کو اور باہر لے جا کر بیک وقت دشمن کے پہلوؤں پر حملہ کریں۔اس کے ساتھ ہی خالدؓ نے قلب کے پیچھے رکھے ہوئے محفوظہ (ریزرو)کے دستے کو دشمن کے قلب پر حملے کا حکم دے دیا۔ان دستوں کو جو پہلے موج در موج کے اندا ز سے حملے کر رہے تھے ،خالد ؓنے پیچھے ہٹا لیا تاکہ وہ جوش و خروش میں ایسی تھکن محسوس نہ کرنے لگیں جو ان کی برداشت سے باہر ہو جائے۔ایرانی لشکر مسلمانوں کے نئے حملوں کی تاب نہ لا سکا۔ان کا جانی نقصان بہت ہو چکا تھا۔اب وہ بِکھرنے لگے۔مسلمانوں نے دیکھا کہ پیچھے جو ایرانی سپاہی تھے وہ دریا کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔اس وقت مسلمانوں کو وہ کشتیاں دکھائی دیں جو سینکڑوں کی تعداد میں دریا کے کنارے بندھی تھیں۔’’کشتیاں توڑ دو۔‘‘ایک مسلمان کی للکار سنائی دی۔’’دشمن بھاگنے کیلئے کشتیاں ساتھ لایا ہے۔‘‘ایک اور للکار سنائی دی۔جب یہ للکار خالدؓ تک پہنچی تو انہوں نے دائیں بائیں قاصد اس حکم کے ساتھ دوڑا دیئے کہ دشمن کے عقب میں جانے کی کوشش کرواور ان کی کشتیاں توڑ دو یا ان پر قبضہ کرلو۔قبضہ کر لینے کی صورت میں یہ کشتیاں خالدؓ کے لشکر کے کام آ سکتی تھیں،اُنہیں بھی دریا پار کرنا تھا۔جب یہ حکم سالاروں تک اور سالاروں سے سپاہیوں تک پہنچاتو یہی ایک للکار بلند ہونے لگی۔ ’’کشتیوں تک پہنچو……کشتیاں بیکار کر دو……کشتیاں پکڑ لو۔‘ اس للکار نے آتش پرستوں کا رہا سہا دم خم بھی توڑ دیا۔زندہ بھاگ نکلنے کا ذریعہ یہی کشتیا ں تھیں جو مسلمانوں نے دیکھ لی تھیں۔ایرانیوں نے لڑائی سے منہ موڑ کر کشتیوں کا رخ کیا۔وہ ایک دوسرے سے پہلے کشتیوں میں سوارہونے کیلئے دھکم پیل کرنے لگے۔ان کی حالت ڈری ہوئی بھیڑوں کی مانند ہو گئی۔جو ایک دوسرے کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کیا کرتی ہیں۔ایرانی سپاہیوں نے کشتیوں پر سوار ہونے کیلئے گھوڑے چھوڑ دیئے۔حالانکہ کشتیاں اتنی بڑی تھیں کہ ان پر گھوڑے بھی لے جائے جا سکتے تھے۔یہ تھا وہ موقع جب مجاہدینِ اسلام کے ہاتھوں آتش پرستوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔وہ کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش میں کٹ رہے تھے۔ان میں سے جوکشتیوں میں سوار ہو گئے اور رسّے کھول کر کشتیاں کنارے سے ہٹا لے گئے ،ان میں زیادہ تر مسلمانوں کے تیروں کا نشانہ بن گئے ۔پھر بھی کچھ خوش نصیب تھے جو بچ کر نکل گئے۔تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس معرکے میں تیس ہزار ایرانی فوجی مارے گئے۔زخمیوں کی تعداد کسی نے نہیں لکھی۔

تصور کیاجا سکتا ہے کہ جہاں اتنی اموات ہوئیں وہاں زخمیوں کی تعداد ان کے ہی لگ بھگ ہو گی۔اس کا مطلب یہ تھاکہ شہنشاہِ فارس کی اس جنگی قوت کابت ٹوٹ گیا تھا جسے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔اﷲکی تلوار نے کِسریٰ کی طاقت اور غرور پر کاری ضرب لگائی تھی جس نے مدائن میں کسریٰ کے ایوانوں کو ہلا ڈالا تھا۔دریائے معقل کے کنارے خون میں ڈوب گئے تھے۔میدانِ جنگ کا منظر بڑا ہی بھیانک تھا۔دور دور تک لاشیں اور تڑپتے زخمی بکھرے نظر آتے تھے۔زخمی گھوڑے دوڑتے پھرتے اور زخمیوں کو روندتے پھررہے تھے۔مجاہدین ِ اسلام اپنے زخمی ساتھیوں کو اور شہیدوں کی لاشوں کو اٹھا رہے تھے۔میدان خون سے لال ہو گیا تھا۔خالدؓ ایک بلند جگہ پر کھڑے میدانِ جنگ کو دیکھ رہے تھے۔ایک طرف سے ایک گھوڑ سوار گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا آیا۔اس نے خالدؓ کے قریب آکر گھوڑا روکا۔وہ مثنیٰ بن حارثہ تھے۔گھوڑا خالدؓکے پہلوکے ساتھ کرکے مثنیٰ گھوڑے پر ہی خالدؓ سے بغلگیر ہو گئے۔ ’’ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے جذبات سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’میں نے آج مظلوم مسلمانوں کے خون کا انتقام لے لیا ہے۔‘‘’’ابھی نہیں ابنِ حارثہ!‘‘خالد ؓنے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا۔’’ابھی تو ابتداء ہے۔ہمارے لیے اصل خطرہ اب شروع ہوا ہے۔کیا تم نے ان کشتیوں کی تعداد نہیں دیکھی ؟کیا تم نے نہیں دیکھا کہ یہ کشتیاں کتنی بڑی اور کتنی مضبوط تھیں؟اور تم نے یہ بھی دیکھا ہو گاکہ فارسیوں کے پاس سازوسامان کس قدر زیادہ ہے۔ان کے وسائل بڑے وسیع ہیں۔ہم اپنے وطن سے بہت دورآگئے ہیں۔ہمیں اب انہی سے ہتھیار اور رسد چھین کر اپنی ضرورت پوری کرنی ہے۔یہ کام آسان نہیں ہے ابنِ حارثہ۔اور میرے لیے یہ بھی آسان نہیں ہے کہ میں ان دشواریوں اور محرومیوں سے گھبراکر یہیں سے واپس چلا جاؤں۔‘‘’’ہم واپس نہیں جائیں گے ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے پرعزم لہجے میں کہا۔’’ہمیں کسریٰ کے ایوانوں کی اینٹ سے اینٹ بجانی ہے۔ہمیں ان آتش پرستوں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ جھوٹے خدا کسی کی دستگیری نہیں کر سکتے۔‘‘, خالدؓنے اپنے سالاروں کو بلایا۔اس سے پہلے وہ مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کا حکم دے چکے تھے۔’’ہماری مشکلات اب شروع ہوئی ہیں۔خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’ہم اس وقت دشمن کی سرزمین پر کھڑے ہیں ۔یہاں کے درخت اور یہاں کے پتھر اور اس مٹی کا ذرہ ذرہ ہمارا دشمن ہے۔یہاں کے لوگ ہمارے لیے اجنبی ہیں ۔ان لوگوں پر فارس کی شہنشاہی کی دہشت طاری ہے،یہ لوگ اردشیر کو فرعون سمجھتے ہیں۔یہ بڑی مشکل سے مانیں گے کہ کوئی ایسی طاقت بھی ہے جس نے فارس کی شہنشاہی کا بت توڑ ڈالاہے……‘‘’’میرے رفیقو!یہاں کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملائے بغیر ہم یہاں اک قدم بھی نہیں چل سکتے۔ہم کسی سے تعاون کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ہم محبت سے ان کے دل موہ لینے کی کوشش کریں گے اور جس پر ہمیں ذرا سا بھی شک ہوگا کہ وہ ہمیں ظاہری طور پر یا درپردہ نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہاہے ۔ہم اسے زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیں گے۔ہم ان لوگوں کو غلام بنانے نہیں آئے۔ہم انہیں غلامی سے اور باطل کے عقیدوں سے نجات دلانے آئے ہیں۔

جو علاقے ہم نے لے لیے ہیں ان کے انتظامی امور کی طرف فوری توجہ دینی ہے۔یہاں مسلمان بھی آباد ہیں ۔وہ یقینا ہمارا ساتھ دیں گے ،لیکن میرے دوستو! کسی پر صرف اس لئے اعتبار نہ کرلینا کہ وہ مسلمان ہے غلامی اتنی بری چیز ہے کہ انسانوں کی فطرت بدل ڈالتی ہے……‘‘’’یہاں کے مسلمانوں کو اعتماد میں لے کر ان سے معلوم کرنا ہے کہ شہنشاہِ فارس کے حامی کون کون ہیں؟ان کی چھان بین کرکے ان کے درجے مقرر کرنے ہیں۔ جن پر ذرا سا بھی شک ہو اسے گرفتار کر لو اور جو غیر مسلم سچے دل سے ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہے اسے اسلام کی دعوت دو……میں مختلف شعبے قائم کر رہا ہوں۔ــ‘‘خالدؓ نے مفتوحہ علاقوں کے باشندوں پر سب سے زیادہ توجہ دی۔انہوں نے اعلان کیاکہ جو غیر مسلم باشندے مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لیں گے ان سے جذیہ وصول کیا جائے گا اور مسلمان انہیں اپنی پناہ میں سمجھیں گے ۔ان کی ضروریات اور ان کی جان و مال کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہو گی۔اس اعلان کے ساتھ ہی بیشتر باشندے مسلمانوں کی پناہ میں آ گئے ۔خالدؓ نے اس علاقے سے جذیہ اور محصولات وغیرہ جمع کرنے کیلئے ایک شعبہ قائم کر دیا جس کا نگران ــ’’سوید بن مقرن‘‘ کو مقررکیا گیا ۔دوسرا شعبہ جس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ جاسوسی کا شعبہ تھا اب باقاعدہ اور ماہرانہ جاسوسی کی ضرورت تھی۔ خالدؓ نے اسی وقت اپنے جاسوس جو اسی علاقے کے رہنے والے مسلمان تھے دریائے فرات کے پاربھیج دیئے ۔جب مالِ غنیمت جمع ہو گیا تو دیکھا کہ یہ جنگِ سلاسل کی نسبت خاصا زیادہ تھا۔خالدؓ نے اس کے پانچ حصے کیے۔ چار اپنی سپاہ میں تقسیم کرکے پانچواں حصہ مدینہ بھیج دیا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے خالد ؓکو اتنا سنجیدہ ااور اتنا متفکر کبھی نہیں دیکھا گیاتھا جتنا وہ اب تھے۔ مئی ۶۳۳ء کے پہلے ہفتے جو ماہِ صفر ۱۲ ہجری کا تیسرا ہفتہ تھا زرتشت کے پجاریوں کیلئے دریائے فرات کا سر سبز و شاداب خطہ جہنم بن گیا تھا۔ کس قدر ناز تھا انہیں اپنی جنگی طاقت پر، اپنی شان و شوکت پر ،اپنے گھوڑوں اور ہاتھیوں پر، وہ تو فرعونوں کے ہم پلہ ہونے کا دعویٰ کرنے لگے تھے اور کسریٰ دہشت کی علامت بنتا جا رہا تھا ۔دجلہ اور فرات کے سنگم کے وسیع علاقے میں خالدؓ نے جنہیں رسولِ اکرمﷺ نے اﷲکی تلوار کا خطاب دیاتھا فارس کے زرتشتوں کو بہت بری شکستیں دی تھیں اور ان کے ہرمز قارن بن قریانس ،انوشجان اور قباذ جیسے سالاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا لیکن کسریٰ اردشیر نے ابھی شکست تسلیم نہیں کی تھی۔اس کے پاس ابھی بے پناہ فوج موجود تھی اور مدینہ کے مجاہدین کو وہ اب بھی بدو اور صحرائی لٹیرے کہتا تھا ۔اس نے شکست تسلیم تو نہیں کی تھی لیکن شکست اور اپنے نام ور سالاروں کی مسلمانوں کے ہاتھوں موت کا جو اسے صدمہ ہوا تھا اسے وہ چھپا نہیں سکا تھا ۔ ہرمز کی موت کی اطلاع پر وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دہرا ہو گیا تھا ۔اس نے سنبھلنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن ایسے مرض کا آغاز ہو چکا تھا جس نے اسے بستر پر گرا دیا تھا۔ مؤرخوں نے اس مرض کو صدمہ کا اثر لکھاہے۔

’’کیا میرے لیے شکست اور پسپائی کے سوا اب کوئی خبر نہیں رہ گئی ؟‘‘اس نے بستر پہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے گرج کر کہا ۔’’کیا مدینہ کے مسلمان جنات ہیں؟کیا وہ کسی کو نظر نہیں آتے؟اور وار کر جاتے ہیں۔‘‘طبیب، اردشیر کی منظورِ نظر دوجواں سال بیویاں اور اس کا وزیر حیران و پریشان کھڑے اس قاصد کو گھور رہے تھے جو ایرانیوں کی فوج کی ایک اور شکست اور پسپائی کی خبر لایا تھا۔اس کے آنے کی جب اطلاع اندر آئی تو طبیب نے باہر جاکر قاصد سے پوچھا تھا کہ وہ کیا خبر لایا ہے؟ قاصد نے خبر سنائی تو طبیب نے اسے کہا تھا کہ وہ کسریٰ کو ابھی ایسی بری خبر نہ سنائے کیونکہ اس کی طبیعت اس کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔لیکن یہ قاصد کوئی معمولی سپاہی نہیں تھا کہ وہ طبیب کا کہا مان جاتا ۔وہ پرانا کماندار تھا۔ اس کا عہدہ سالاری سے دو ہی درجہ کم تھا۔اسے کسی سالار نے نہیں بھیجا تھا ۔اسے بھیجنے کیلئے کوئی سالار زندہ نہیں بچا تھا۔طبیب کے روکنے سے وہ نہ رکا اس نے کہا کہ اسے کسریٰ کی صحت کا نہیں، فارس کی شہنشاہی اور زرتشت کی عظمت کا غم ہے۔اگر شہنشاہ اردشیرکو اس نے دجلہ اور فرات کی جنگی کیفیت کی پوری اطلاع نہ دی تو مسلمان مدائن کے دروازے پر آ دھمکیں گے ۔اس نے طبیب کی اور کوئی بات نہ سنی ،اندر چلا گیااور اردشیر کو بتایا کہ مسلمانوں نے فارس کی فوج کو بہت بری شکست دی ہے۔اردشیر لیٹاہوا تھا ،اٹھ بیٹھا ،غصے سے اس کے ہونٹ اور اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔’’شہنشاہِ فارس!‘‘ کماندار نے کہا۔’’مدینہ والے جنات نہیں ۔وہ سب کو نظر آتے ہیں لیکن……‘‘ ’’کیا قارن مر گیا تھا؟‘‘اردشیر نے غصے سے پوچھا۔’’ہاں شہنشاہ !‘‘کماندار نے جواب دیا۔’’وہ ذاتی مقابلے میں مارا گیاتھا۔اس نے دونوں فوجوں کی لڑائی تو دیکھی ہی نہیں۔‘‘’’مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ قباذ اور انوشجان بھی اس کے ساتھ تھے۔‘‘’’وہ بھی قارن کے انجام کو پہنچ گئے تھے۔‘‘کماندار نے کہا۔’’وہ قارن کے قتل کا انتقام لینا چاہتے تھے ۔دونوں نے اکھٹے آگے بڑھ کر مدینہ کے سالاروں کو للکارا اور دونوں مارے گئے۔شہنشاہِ فارس! کیا فارس کی اس عظیم شہنشاہی کو اس انجام تک پہنچنا ہے؟نہیں نہیں……گستاخی کی معافی چاہتا ہوں، اگر کسریٰ نے صدمے سے اپنے آپ کو یوں روگ لگالیا تو کیا ہم زرتشت کی عظمت کو مدینہ کے بدوؤں سے بچا سکیں گے؟‘‘, ’’تم کون ہو؟‘‘اردشیر نے پوچھا۔’’میں کماندار ہوں ۔‘‘کماندار نے جواب دیا۔’’میں کسی کا بھیجا ہوا قاصد نہیں ۔میں زرتشت کا جانثا ر ہوں۔‘‘’’دربان کو بلاؤ۔‘‘اردشیر نے حکم دیا۔’’تم نے مجھے نیا حوصلہ دیا ہے۔مجھے یہ بتاؤکیا مسلمانوں کی نفری زیادہ ہے؟کیا ان کے پاس گھوڑے زیادہ ہیں؟کیا ہے ان کے پاس؟‘‘دربان اندر آیااور حکم کے انتظار میں جھک کر دہرا ہو گیا۔’’سردار اندرزغر کو فوراًبلاؤ۔‘‘اردشیر نے دربان سے کہااور کماندار سے پوچھا ۔’’کیا ہے ان کے پاس؟ بیٹھ جاؤ اور مجھے بتاؤ۔‘‘’’ہمارے مقابلے میں ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔‘‘کماندار نے جواب دیا۔’’ان میں لڑنے کا جذبہ ہے ۔میں نے ان کے نعرے سنے ہیں۔وہ نعروں میں اپنے خدا اور رسول ﷺکو پکارتے ہیں ۔میں نے ان میں اپنے مذہب کا جنون دیکھا ہے۔ وہ اپنے عقیدے کے بہت پکے ہیں اور یہی ان کی طاقت ہے۔ہر میدان میں انکی تعداد تھوڑی ہے۔‘‘’’ٹھہر جاؤ۔‘‘اردشیر نے کہا۔’’اندرزغر آ رہا ہے۔مجھے اپنے اس سالار پر بھروسہ ہے۔ اسے بتاؤ کہ ہماری فوج میں کیا کمزوری ہے کہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے ہوئے بھاگ آتی ہے۔‘‘’’اندرزغر!‘‘ اردشیر بستر پرنیم دراز تھا۔اپنے ایک اور نامور سالار سے کہنے لگا۔’’کیا تم نے سنا نہیں۔کہ قارن بن قریان بھی مارا گیا ہے۔قباذ بھی مارا گیا اور انوشجان بھی مارا گیا ہے۔‘‘اندرزغر کی آنکھیں ٹھہر گئیں جیسے حیرت نے اس پر سکتہ طاری کر دیا ہو۔’’اسے بتاؤ کماندار!‘‘ اردشیر نے کماندار سے کہا۔’’کیا میں ان حالات میں زندہ وہ سکوں گا؟‘‘کماندار نے سالار اندرزغر کو تفصیل سے بتایا کہ مسلمانوں نے انہیں دریائے معقل کے کنارے کس طرح شکست دی ہے اور یہ بھی تفصیل سے بتایا کہ مدائن کی فوج کس طرح بھاگی ہے۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget