اگست 2018
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 سورہ البقرۃ آیت نمبر 49
وَ اِذۡ نَجَّیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآ ءٌ  مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ ﴿۴۹﴾
ترجمہ: اور وہ (وقت یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جو تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے (٤٠) اور اس ساری صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا۔
تفسیر:  40 : فرعون مصر کا بادشاہ تھا جہاں بنی اسرائیل بڑی تعداد میں آباد تھے، اور فرعون کی غلامی میں دن گزار رہے تھے، فرعون کے سامنے کسی نجومی نے یہ پیشینگوئی کردی کہ اس سال بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو اس کی بادشاہی کا خاتمہ کردے گا، یہ سن کر اس نے یہ حکم دے دیا کے اسرائیلیوں میں جو کوئی بچہ پیدا ہو اسے قتل کردیا جائے، البتہ لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے تاکہ ان سے خدمت لی جاسکے، اس طرح بہت سے نو زائیدہ بچے قتل کئے گئے، اگرچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اسی سال پیدا ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا، اس کا مفصل واقعہ سورة طہ اور سورة القصص میں خود قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی


تخلیق ِحضرت آدمؑ کے بعد اللہ نے امّاں حوّا کو پیدا کیا اور پھر ان کی رفاقت سے نسل ِانسانی کی ابتدا ہوئی،جس سے پھر مختلف رشتے، یعنی ماں باپ، بہن بھائی، نانا نانی، دادا دادی، خالہ خالو، ماموں ممانی، چاچا چاچی سمیت درجہ بہ درجہ تمام رشتے وجود میں آئے۔ 

یہ وہ خوب صورت اور حسین رشتے ہیں کہ جن کا احساس ہی انسانوں کو ان کی محبت سے سرشار کردیتا ہے۔ ان ہی رشتوں سے خاندانوں کی تشکیل ہوئی۔ خاندانوں سے معاشرہ ظہور پزیر ہوا اور یوں بستیاں، شہر اور ملک آباد ہوتے چلے گئے۔ 

پھر اللہ نے ان کے درمیان آپس میں محبت، پیار اور خلوص کا تعلّق قائم رکھنے کے لیے سب کے حقوق و فرائض متعیّن فرمادیئے۔ سرورِ کونین، رسولِ ثقلین، خاتم النبیّین، رحمتِ دوجہاں، سرورِ کائنات، حضور نبی کریم ﷺ جب مسندِ رسالتؐ پر فائز ہوئے، تو آپ نے رشتوں کے تقدّس و احترام پر خصوصی توجّہ فرماتے ہوئے اللہ کے حکم سے مختلف احکامات نافذ فرمائے اور ان پر کاربند رہنے کی سختی سے تنبیہ بھی فرمائی۔

رشتے داروں سے مراد وہ اعزّہ ہیں، جن کا انسان سے نسب کے واسطے سے تعلّق ہوتا ہے، چاہے انہیں ترکے میں حصّہ ملے یا نہ ملے۔ اسلام نے رشتوں کو معزز واعلیٰ مقام عطا فرماکر ان کی اہمیت و عظمت کو احترام کی ان بلندیوں پر پہنچایا کہ کوئی مذہب، نظریہ اور تہذیب پہنچنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتی۔ مثلاً باپ کے بھائیوں کو باپ کا درجہ، ماں کی بہنوں کو ماں کا درجہ دے کر انہیں عظمت و توقیر کی معراج تک پہنچادیا۔ رشتے داری کو ’’صلۂ رحمی‘‘ کے نام سے تعبیر کیا اور اہلِ قرابت کے ساتھ اچھے تعلّقات رکھنے، ان کی عزت و احترام کو باعثِ ثواب و نیکی قرار دیا۔ 

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا ’’رشتے داری رحمان کی شاخ ہے، پس، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جو تجھے جوڑے گا، میں اس سے جڑوں گا اور جو تجھے کاٹے گا، میں اس سے کٹ جائوں گا۔‘‘(صحیح بخاری) قرآن کریم میں بہت سی آیات مبارکہ ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے رشتے داروں کے مقام و اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے ساتھ تعلّقات جوڑنے، اچھا برتائو کرنے اور صلۂ رحمی کرنے کے احکامات فرمائے ہیں۔ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اللہ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور رشتے داروں کو (خرچ میں مدد) دینے کا۔‘‘ 

حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ’’اللہ کے رسولؐ! مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے، جس سے میں جنّت میں داخل ہوجائوں۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔‘‘ (صحیح بخاری، مسلم)

رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک: اللہ تبارک وتعالیٰ کو اپنی عبادت اور والدین کی خدمت کے بعد رشتے داروں سے حسنِ سلوک بے حد پسند ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اور تم اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، رشتے داروں، ہم سایوں اور اجنبی ہم سایوں، پہلو کے ساتھی، مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں (نوکر، ملازم) سب کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو۔ اللہ تکبّر اور بڑائی جتانے والے کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ (سورۃ النساء) اس آیتِ مبارکہ میں اللہ نے درجہ بہ درجہ معاشرے کے تمام افراد کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم فرماتے ہوئے رشتے داروں اور قرابت داروں کا درجہ والدین کے فوراً بعد رکھا ہے اور پھر اسی مناسبت سے دیگر لوگوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے سب کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کا معاملہ کرنے کے احکامات فرمائے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں ’’میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کا رزق کشادہ ہو اور اس کی عمر لمبی ہو، اسے چاہیے کہ رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ اس حدیث سے واضح ہوا کہ رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک نہ صرف آخرت میں اجروثواب اور جنّت کے حصول کا باعث ہے، بلکہ دنیاوی فوائد یعنی رزق میں کشادگی اور عمر میں اضافے کا سبب بھی ہے۔ 

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اے نبیؐ!آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا، البتہ یہ چاہتا ہوں کہ تم رشتے داری کی محبت کو قائم رکھو۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ)۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور رشتے داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا۔‘‘ (البقرہ) اسی آیت میں اللہ تعالیٰ آگے فرماتا ہے ’’صرف چند لوگوں کے علاوہ باقی سب نے ان احکامات سے منہ موڑ لیا اور اس پر عمل پیرا نہ ہوئے، لہٰذا اللہ نے ایسی بہت سی قوموں پر اپنا عذاب نازل فرمایا۔‘‘

رشتے داروں سے قطع تعلقی: قرآنِ کریم کی سورۃ النساء میں اللہ فرماتا ہے ’’لوگو!اس اللہ سے ڈرو، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتے داروں، قرابت داروں سے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔‘‘ (سورۃ النساء) نبی کریمؐ نے فرمایا ’’اس قوم پر اللہ کی رحمت نہیں ہوتی، جس میں کوئی قطع تعلقی کرنے والا موجود ہو۔‘‘ (الادب المفرد)۔ آج ذرا ذرا سی بات پر سگے بہن، بھائیوں، یہاں تک کہ ماں باپ کے ساتھ بھی قطع تعلق کرلیا جاتا ہے۔ 

ذاتی اَنا، تکبّر اور غلط فہمیوں نے اچھے اچھے گھرانوں کو قطع رحمی میں مبتلا کر رکھا ہے، جب کہ خوفِ خدا رکھنے والا مسلمان اس کے ارتکاب کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے ’’قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں، جو اس لائق ہو کہ اس کا ارتکاب کرنے والوں کو اللہ آخرت میں سزا دینے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سزا دے۔‘‘ (ترمذی، ابنِ ماجہ) جبیربن مطعمؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ’’رسولؐ اللہ نے فرمایا، رشتے داروں سے تعلق توڑنے اور ان سے بدسلوکی کرنے والا جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘ (ترمذی) رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والوں کی بدقسمتی، بدبختی اور محرومی کے لیے نبی کریمؐ کی یہ حدیثِ مبارکہ ؐ ہی کافی ہے۔ مسندِاحمد میں روایت ہے ’’انسانوں کے اعمال ہرجمعرات کوپیش کیے جاتے ہیں، مگر قطع رحمی کرنے والے کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا۔‘‘

رشتے داروں سے تعلق قائم رکھو: قرآن کریم کی سورۃ الّروم میں اللہ حکم دیتا ہے کہ ’’تم اپنے رشتے داروں، مساکین اور مسافروں کو ان کا حق دو اور یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے، جو اللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں۔‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے کچھ رشتے دار ہیں، جن سے میں تعلق قائم کرتا ہوں، مگر وہ میرے ساتھ لاتعلقی کا رویّہ رکھتے ہیں، میں ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہوں، لیکن وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں ان کی خطائوں کو درگزر اوربرداشت کرتا ہوں، مگروہ جہالت پر اتر آتے ہیں۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا’’اگر یہی بات ہے، جو تم نے بیان کی ہے، تو گویا تم نے ان کے چہروں کو خاک آلود کردیا اور جب تک تم اس طریقۂ کار پر کاربند رہو گے، اللہ تمہاری برابر مدد فرماتا رہے گا۔‘‘ (صحیح مسلم) ترمذی کی روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا’’تم ان لوگوں میں سے نہ بنو، جو یہ کہتے ہیں کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے، تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر وہ ہم پر زیادتی کریں گے،تو ہم بھی زیادتی کریں گے، بلکہ اس کے برعکس، تم اس بات کے عادی بنو کہ لوگ تمہارے ساتھ برائی کریں، تو تم بھلائی کرو اور اگر وہ زیادتی کریں، تو تم زیادتی نہ کرو۔‘‘ (ترمذی) ایک اور موقعے پر اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’قطع تعلق کرنے والوں سے صلۂ رحمی کر، محروم کرنے والے کو عطا کر اور جس نے تجھے گالیاں دیں، ان سے درگزر کر۔‘‘ (طبرانی) ترمذی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’جو مسلمان، لوگوں کےساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف برداشت کرتا ہے، وہ اس شخص سے کہیں بہتر ہے، جو لوگوں سے الگ تھلگ کٹ کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر برداشتۂ خاطر ہوتا ہے۔‘‘ یادرکھیے! نبی کریم ؐ کا فرمان ہے کہ ’’اپنے بھائی کے لیےمسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔‘‘ آج کے اس مادہ پرست دور میں رشتے داروں، عزیزوں اور قرابت داروں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کے لیے بڑے حوصلے، حکمت، عفودرگزر اور صبرو تحمّل کی ضرورت ہے۔ 

ورنہ عدم برداشت اور غلط فہمیوں نے تعلقات کو اس نہج پر پہنچادیا ہے کہ ذرا سی بدگمانی یا ذرا سی ٹھیس، رشتوں کے ان نازک آب گینوں کو ہمیشہ کے لیے توڑ دیتی ہے اور خون کے رشتوں میں اتنی دوری پیدا ہوجاتی ہے کہ اکثرلوگ قرابت داروں کے سفرِ آخرت میں بھی شرکت نہیں کرتے۔ 

بعض اوقات آپس کی غلط فہمیاں، سگے رشتوں کے درمیان دراڑیں ڈالنے کا سبب بن جاتی ہیں، اور اس کے بعد بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ ’’اب اس سے میرا تعلق ہمیشہ کے لیے ختم۔‘‘ حالاں کہ اگر ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں، تو محسوس ہوگا کہ غیرارادی طور پر ہونے والی کوئی حرکت، بے خیالی میں نکلنے والا کوئی جملہ اور اپنوں ہی کی لگائی بجھائی، تعلقات کی اس خرابی کا باعث بنتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، آپس میں صلح صفائی اور غلطی پر معافی مانگنا، بڑائی کی علامت اورباعثِ ثواب ہے ۔

( جاری ہے)

        فرامینِ الٰہی
  lاللہ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور رشتے داروں کے حقوق ادا کرنے کا ۔(سورۃ النحل)

lاللہ کی خوش نودی چاہتے ہو، تو رشتے داروں کو ان کا حق دیتے رہو۔(سورۃ الروم)

lسچّے اور اللہ سے ڈرنے والے اپنے مال سے محبت کے باوجود اسے اپنے رشتے داروں پر خرچ کرتےہیں۔ (سورۃ البقرہ)

lاللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ، رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا۔ (سورۃ البقرہ)

lاپنے مال کو اپنے والدین، رشتے داروں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ (سورۃ البقرہ)

lرشتے داروں سے تعلقات توڑنے سے بچو، بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔ (سورۃ النساء)

l(اللہ کی جانب سے) مقرر کردہ حصّوں کے مطابق، وراثت میں سے رشتے داروں کو ان کا حصّہ دو۔ (سورۃ النساء)

lاگر میراث کی تقسیم کےوقت (غیروارث) رشتے دار، یتیم اور مسکین آجائیں، تو انہیں بھی کچھ دو۔ (سورۃ النساء)

lماں باپ، قرابت داروں، ہم سایوں اور غریب غربا کے ساتھ احسان کرو۔ (سورۃ النساء)

lرشتے داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو۔ (سورہ بنی اسرائیل)

l’’اے نبیﷺ آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، البتہ یہ چاہتا ہوں کہ تم رشتے داری کی محبت کو قائم رکھو۔‘‘ (سورئہ شوریٰ)

lتم سے بعید نہیں کہ اگر تم حاکم بن جائو، تو زمین پر فساد پیدا کرو اور رشتہ ناتے توڑ ڈالو، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے۔ (سورئہ محمد)

l(ناراض ہونے پر) صاحبِ ثروت اپنے رشتے داروں، مسکینوں اور مہاجروں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں، بلکہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں، اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورئہ نور )

lتم (اس وقت تک) نیکی حاصل نہیں کرسکتے، جب تک اپنی عزیز چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔

(سورئہ آلِ عمران)              

رشتے داروں سے صلۂ رحمی کرتے رہو: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صلۂ رحمی بڑا وسیع مفہوم رکھتی ہے۔ صرف غریب قرابت داروں پر مال خرچ کر دینا ہی صلۂ رحمی نہیں، بلکہ رشتے داروں کے ساتھ بناکسی غرض اور لالچ کے، مضبوط اور پائیدار تعلقات قائم رکھنا، ان کے ساتھ خیر خواہی، بھلائی، محبت اور خندہ پیشانی سے پیش آنا، ان کے دکھ درد غمی اور خوشی میں شامل ہونا۔ ان کی خیریت معلوم کرتے رہنا اور ان کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم رکھنا بھی صلۂ رحمی کے زمرے میں آتا ہے۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا’’ اپنے رشتوں کو ترو تازہ رکھو، خواہ سلام ہی کے ذریعے۔‘‘ (صحیح بخاری) حضرت ابنِ عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’صلۂ رحمی کرنے والا وہ نہیں، جو احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرے،بلکہ دراصل صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے، تو وہ صلۂ رحمی کرے۔ (صحیح بخاری) طبرانی کی روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا ’’لوگو! میں تم کو دنیا اور آخرت کی بہترین عادات بتلاتا ہوں۔ تم تعلقات قطع کرنے والے رشتے داروں سے صلۂ رحمی کرتے رہو، جو تمہیں محروم رکھے، اسے دیتے رہو اور جو زیادتی کرے اسے معاف کرتے رہو۔‘‘ (طبرانی)۔بلاشبہ، ایک نیک اور باشعور مسلمان ہر حال میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرتا ہے۔ وہ ان منفی اور تلخ باتوں پر قطعی توجّہ نہیں دیتا، جن سے اس کے تعلقات خراب ہوں۔

غریب رشتے داروں کی مالی معاونت: اسلامی تعلیمات صاحب ِحیثیت اور مال دار رشتے داروں کو پابند کرتی ہیں کہ وہ اپنے غریب اور نادار عزیز رشتے داروں کا خیال رکھیں۔ ان کے ساتھ اچھا برتائو کریں، ان کے دکھ، درد خوشی و غمی میں شریک ہوں اور ان کی مالی معاونت کریں۔ انہیں معاشرے میں بے یار و مدد گار نہ چھوڑیں۔ قرآنِ کریم میں اللہ کاارشاد ہے ’’اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتے داروں کو (اپنے مال سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ (سورۃ النحل) سورۃ البقرہ میں اللہ فرماتا ہے ’’سچّے اور پرہیزگار، اپنے مال سے محبت رکھنے کے باوجود اسے اپنے رشتے داروں پرخرچ کرتے ہیں۔‘‘ عزت اور دولت اللہ کی وہ نعمتیں ہیں، جن سے اللہ اپنے بندوں کو نوازتا ہے، مگریہ ان کے لیے آزمائشیں بھی ہوتی ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ لوگوں کو تاکید فرماتا ہے کہ ’’اپنی دولت کو اللہ کی خوش نودی کی خاطر اپنے غریب، نادار رشتے داروں اور غریب غرباء میں تقسیم کرو اور افضل یہ ہے کہ اس طرح تقسیم کرو کہ دوسروں کو اس کا علم نہ ہو۔ اور رازداری کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت خاموشی کے ساتھ ان کی مدد کرو۔‘‘ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’(اے محمدؐ) لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ آپ ؐ کہہ دیجیے، جو مال خرچ کرو، وہ ماں باپ کے لیے ہے اور رشتے داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کےلیے ہے، اور تم جو کچھ بھلائی کروگے، اللہ تعالیٰ کو اس کا بہ خوبی علم ہے۔‘‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’مسلمان کو رشتے داروں کے ساتھ اچھا برتائو کرنے اور ان کی مالی معاونت کرنے میں دواجر ہیں، ایک رشتے دار کا اجر اور دوسرا صدقے کا۔ غیررشتے دار مسکین کو صدقہ دینا، تو صرف صدقہ ہے اور رشتے دار کو صدقہ دینے پر دہرا ثواب ہے۔‘‘ (ترمذی) چناں چہ جب ایک نیک، متقّی اور باشعور مسلمان صلۂ رحمی کرتا ہے، تو سب سے پہلے وہ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور عزیز رشتے داروں کی خبر گیری کرتا ہے، ان کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہے، اپنے جائز اور حلال مال سے ان کی مالی مدد کرتا ہے، ان کے ساتھ خوش گوار تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔ 

اس طرح وہ ان کی دعائوں کا حق دار ہوتا ہے، جو اس کی عزت، دولت اور عمر میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ سورئہ آل عمران میں اللہ کا ارشادہے ’’تم (اس وقت تک) نیکی حاصل نہیں کر سکتے، جب تک کہ اپنی عزیز چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔‘‘ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو طلحہؓ رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ ’’اے اللہ کے رسولؐ ! میرے نزدیک میرا سب سے محبوب میرا یہ باغ ’’بئرحاء‘‘ (بئرحاء کھجور کے باغ کا نام تھا) ہے، میں اسے اللہ کی راہ میں خیرات کرتا ہوں۔ آپؐ اسے جیسے مناسب سمجھیں، خرچ فرما دیں۔‘‘ حضور ؐ، ابو طلحہ ؓ کے باغ صدقہ کرنے پر بڑے خوش ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا’’ اے ابو طلحہ ؓ! میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتے داروں پر صدقہ کردو۔‘‘ حضرت ابو طلحہؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ؐ میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘ اور پھر انہوں نے اسے اپنے رشتے داروں اور چچازاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ (صحیح بخاری/ مسلم) ایک مسلمان پر لازم ہے کہ جب وہ زکوٰۃ تقسیم کرے، تو سب سے پہلے اپنے رشتے داروں کا خیال کرے، اس کے علاوہ بھی مالی امداد کی کئی صورتیں ہیں۔ اگر کسی رشتے دار کا کوئی ذریعۂ معاش نہیں ہے، تو اس کے معاش کا معقول بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ کسی رشتے دار کی بیٹی کی شادی میں مالی مدد کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی قرابت دار کی طویل بیماری یا بچّوں کے تعلیمی اخراجات کے ضمن میں مالی مدد کرکے ثواب کمایا جاسکتا ہے۔ 

غریب اور نادار رشتے داروں کی باقاعدگی سے ماہانہ مالی معاونت اللہ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ یاد رکھیے، اللہ نے آپ کو جو مال و دولت دیا ہے، اس پر آپ کے رشتے داروں کا بھی حق ہے، اگر آج آپ اس حق کو ادا نہیں کریں گے، تو روزِ قیامت یہ قرابت دار آپ کا دامن پکڑیں گے۔ آئیے، ہم سب اپنے رشتے داروں میں ایسے عزیزوں کو تلاش کریں کہ جو اس کے مستحق ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور رشتے داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اڑائو۔‘‘ (سورئہ بنی اسرائیل)

غیرمسلم رشتے داروں کے ساتھ صلۂ رحمی: سرکارِ دو جہاں، سرورِ کونین، حضور نبی اکرم، رحمۃ الّلعالمین ہیں۔ آپﷺ پوری کائنات کے لیے رحمت اور محسنِ انسانیت بناکر بھیجے گئے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمہ:’’(اے محمدﷺ)ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔‘‘ لہٰذا آپ کی دعوتِ حق تمام جہانوں کے لیے ہے۔ آپ نے غیرمسلم اور مشرک رشتے داروں کے ساتھ بھی صلۂ رحمی، حسنِ سلوک اور احسان کا حکم فرمایا۔ حضرت اسماء بنت ِابی بکرؓ فرماتی ہیں کہ صلح حدیبیہ کے زمانے میں میری والدہ، جو مشرکہ تھیں، میرے پاس تشریف لائیں۔ مَیں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’یارسول اللہ! میری والدہ میرے پاس آئی ہیں، وہ ضرورت مند ہیں، کیا میں ان سے بھی صلۂ رحمی کروں۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’ہاں، ان سے بھی صلۂ رحمی کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ امّ المومنین حضرت صفیہؓ خانوادئہ ہارون ؑو موسیٰ ؑسے تعلق رکھتی تھیں، آپ کے والد حئی بن اخطب یہودی قبیلے، بنو نضیر کے سردار، خیبر کے رئیس اور یہودیوں کے بڑے مذہبی عالم تھے۔ حضرت عمرفاروقؓ کے عہدِ خلافت میں حضرت صفیہؓ کی ایک کنیز نے حضرت عمرفاروقؓ سے شکایت کی کہ ’’صفیہؓ ہفتے کے دن کی تعظیم کرتی ہیں اور اپنے یہودی رشتے داروں کی مدد کرتی ہیں۔‘‘ 

امیر المومنینؓ اس بات کی تحقیق کے لیے خود امّ المومنین حضرت صفیہؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ حضرت صفیہؓ نے فرمایا ’’جب سے اللہ نے مجھے جمعہ عطا فرمایا ہے، مجھے (سبت) ہفتہ کی قدر نہیں رہی، ہاں، یہودیوں میں میرے قرابت دار ہیں اور مجھے رشتے داروں سے صلۂ رحمی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔‘‘ حضرت عمرفاروقؓ یہ جواب سن کر بے حد خوش ہوئے۔ اس کے بعد حضرت صفیہؓ نے اس کنیز کو آزاد کردیا۔ (الاصابہ)جب حضرت صفیہؓ کی وفات ہوئی، تو آپ کے ترکے میں ایک لاکھ درہم کی رقم تھی، جس کا تیسرا حصّہ آپ نے اپنے یہودی بھانجے کو دینے کی وصیّت کی۔ لوگوں نے اس وصیّت پر عمل کرنے میں پس و پیش کیا۔ 

امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو جب اس بات کا علم ہوا، تو آپ ؓ نے فوراً پیغام بھیجا،’’ لوگو! اللہ سے ڈرو اور ہر صورت میں صفیہؓ کی وصیّت کو پورا کرو۔‘‘ چناں چہ انؓ کے ارشاد کے مطابق، فوری طور پر وصیت پر عمل کیا گیا۔ (طبقاتِ ابنِ سعد) ایک نیک مسلمان اپنے والدین کی اطاعت کے بعد بلاتخصیصِ مذہب اپنے رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہے اور یہی اسلامی تعلیمات کا حسن ہے کہ جس میں ہر ایک کے ساتھ صلۂ رحمی اور حسنِ سلوک کا درس دیا جاتا ہے، خواہ وہ مسلم ہو یا غیرمسلم۔

حقِ وراثت میں رشتے داروں کا حصّہ: اسلام نے وراثت میں رشتے داروں کا حصّہ مقرر کردیا ہے۔ اب یہ ورثا کی ذمّے داری ہے کہ وہ شریعت کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق، عزیز رشتے داروں کو ان کا حصّہ دیں۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے ’’جو مال، ماں باپ اور رشتے دار چھوڑ کر فوت ہوجائیں، تھوڑا یا بہت، اس میں مردوں اور عورتوں دونوں کا حصّہ ہے۔ یہ حصّے اللہ نے مقرر کیے ہوئے ہیں۔ (سورۃ النساء) اس سے آگے اللہ فرماتا ہے ’’اگر میراث کی تقسیم کے وقت (غیروارث) رشتے دار اور یتیم اور محتاج آجائیں، تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو، اور ان کے ساتھ شیریں کلامی سے پیش آیا کرو۔‘‘ (سورۃالنساء) 

                                   فرامینِ نبویﷺ
رشتے داری رحمٰن کی ایک شاخ ہے، اللہ فرماتا ہے اے رشتے داری،جو تجھے جوڑےگا، میں اس سےجڑوں گا اور جو تجھے کاٹے گا، میں اس سے کٹ جائوں گا۔ (صحیح بخاری)
رشتے داروں کے ساتھ صلۂ رحمی سے محبت بڑھتی ہے، رزق میں اضافہ ہوتا ہے اور عمر لمبی ہوتی ہے۔ (ترمذی)
اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت پہلے اپنے رشتے داروں کا خیال کرو۔ (ابودائود)
رشتے دار کو صدقہ دینا دہرا ثواب ہے، ایک صدقے کا، دوسرا صلۂ رحمی کا۔(ترمذی)
خرچ کی ابتدا اپنے اہل و عیال سے کرو، پھر اپنے عزیز و اقارب پر خرچ کرو۔(نسائی)
قطع تعلق کرنے والے رشتے داروں کو جوڑو، نہ دینے والوں کو دو، اور ظالم کے قصور معاف کردو۔ (ترغیب و ترہیب)
رشتے داروں سے تعلق توڑنے اور ان سے بدسلوکی کرنے والا جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔ (ترمذی)
جورشتے دار تم سے پیٹھ پھرلیں، ان سے بھی صلۂ رحمی کرو۔ (طبرانی)
والدین، رشتے داروں، ہم سایوں، مساکین اور یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئو۔ (صحیح بخاری)
اس قوم پر اللہ کی رحمت نازل نہیں ہوتی، جس میں کوئی رشتے داروں سے قطع رحمی کرنے والا موجود ہو۔ (بیہقی)
قطع رحمی کرنے والوں کو آخرت میں بھی سزا ملتی ہے اور دنیا میں بھی۔ (ابنِ ماجہ)
انسانوں کے اعمال ہر جمعرات کو اللہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں، مگر قطع رحمی کرنےوالے کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا۔ (مسند احمد)
جس کو یہ پسند ہو کہ اس کا رزق کشادہ اور عمر لمبی ہو،اسے چاہیے رشتے داروں سے حسنِ سلوک کرے۔ (صحیح بخاری)
بدلہ چکانا صلۂ رحمی نہیں، صلۂ رحمی وہ ہے کہ جب اس سے رشتے داری توڑی جائے، تب بھی صلۂ رحمی کرے۔ (طبرانی)
احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرنا صلۂ رحمی نہیں بلکہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے، تو وہ صلۂ رحمی کرے۔ (صحیح بخاری)
والدہ کی بہنوں کے ساتھ ہمیشہ بھلائی سے پیش آئو، خالہ کا درجہ ماں کے درجے میں ہے۔(ترمذی)
آدمی کا چچا اس کے باپ کی طرح ہے، اس کی اسی طرح اطاعت و تعظیم کرو، جیسی باپ کی کرتے ہو۔ (ابودائود)
بڑے بھائی کا اپنے چھوٹے بھائیوں پر ایسا حق ہے، جیسے باپ کا بیٹوں پر۔(ترمذی)
جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ رشتے داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔ (صحیح بخاری)
غریب رشتے داروں، قرابت داروں کا خیال رکھو، اللہ تمہارا خیال رکھے گا۔(مسندِ احمد)
تین طرح کے لوگ جنّت میں نہیں جائیں گے، شرابی، قطع رحمی کرنے والا اور جادوگر۔(ابنِ حبّان)
غیرمسلم رشتے داروں کے ساتھ بھی صلۂ رحمی کرو۔ (صحیح بخاری)
اپنے رشتوں کو تر و تازہ رکھو، خواہ سلام ہی کے ذریعےسے۔ (مروی حضرت ابنِ عباس)

تحریر: محمود میاں نجمی


مدینہ منورہ کی خوب صورت، حسین، روح پرور، شبنمی رات کا ایک پہر گزرچکا ہے۔ شعبان المعظم کی پندرہویں شب کا روشن اور پورا چاند اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جھلملاتے چمک دار ستاروں کے جھرمٹ میں دنیائے عرب کے شفّاف نیلے آسمان پر رونق افروز ہے، جس کی سنہری کرنوں نے مسجد نبویؐ سمیت پورے شہرِ مدینہ کو منور کر رکھا ہے۔ آج خلافِ معمول آسمانوں پر بھی بڑی چہل پہل ہے۔ امام الانبیاء، رحمتِ دوجہاں، سرورِ کائنات، حضور رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، امّ المومنین، سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کے حجرے میں محوِ استراحت ہیں۔ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت آہستگی سے بستر سے اٹھتے ہیں۔ 

محتاط انداز میں دروازے کی جانب قدم رنجہ فرماتے ہیں، اس بات کا خیال ہے کہ کہیں اہلیہ محترمہ سیدہ عائشہؓ کی نیند میں خلل واقع نہ ہو، آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر تشریف لے جاتے ہیں۔ دروازہ کھلنے کی آہٹ سے امّاں عائشہؓ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر جاتے دیکھتی ہیں، تو ایک لمحے کو سوچ میں پڑ جاتی ہیں، پھر جلدی سے اپنی چادر اوڑھ کرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تشریف لے جاتی ہیں۔ تجسّس ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے اس پہر کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ جنّت البقیع کی جانب ہے، اور کچھ ہی دیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنّت البقیع میں داخل ہوجاتے ہیں۔ 

امّاں عائشہؓ آپ کے پیچھے جنّت البقیع کے دروازےتک پہنچتی ہیں، تو دیکھتی ہیں کہ شاہِ دوجہاںؐ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے حضور دعاگو ہیں۔ دعا سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹتے ہیں۔ امّاں عائشہؓ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس ہوتے دیکھ کر، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے اپنے بستر پر آکر لیٹ جاتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لاتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ سیّدہ عائشہؓ بستر پر دراز ہیں اور سانس پھولی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’اے عائشہؓ کیا بات ہے؟ تم گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟‘‘ امّاں عائشہؓ خاموش رہتی ہیں۔ 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’عائشہ! اگر تم نہیں بتائوگی، تو لطیف و خبیر (اللہ) مجھے بتادے گا۔‘‘ یہ سن کر سیّدہ عائشہؓ فرماتی ہیں ’’یارسول اللہ ؐ ! میں یہ (بشری تقاضے کے تحت) سمجھی کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور زوجہ مطہرہؓ کے حجرئہ انور میں تشریف لے جا رہے ہیں۔‘‘ یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری حق تلفی کریں گے۔ 

بات یہ ہے کہ جبرائیل امینؑ میرے پاس آئے تھے، جنہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع قبرستان جائیں اور وہاں مدفون لوگوں کے لیے استغفار کریں۔ میں نے تمہیں جگانا مناسب نہ سمجھا کہ تم گھبرا جائوگی۔‘‘ (صحیح مسلم، ترمذی، مسندِاحمد)

’’شعبان‘‘ اسلامی قمری مہینوں میں آٹھواں مہینہ ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔‘‘ شعبان کے حوالے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس مہینے کی عزت و بزرگی، قدر و منزلت اور عظمت و بلندی کے لیے کافی ہے۔حضور نبی کریمؐ ماہِ رجب کا چاند دیکھ کر دعا فرمایا کرتے تھے۔ ترجمہ:’’اے اللہ! رجب اور شعبان میں ہمارے لیے برکت پیدا فرما اور خیر اور سلامتی کے ساتھ ہمیں رمضان تک پہنچا۔‘‘ علماء اس دعا کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرما کہ ہم ماہ رمضان المبارک کا استقبال اس کے شایانِ شان، نہایت عزت و احترام کے ساتھ کریں۔ 

جلیل القدر تابعی حضرت عطا بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ ’’لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے زیادہ کوئی رات افضل نہیں۔ اس شب کو ’’شبِ برات‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اسے ’’لیلۃ البراۃ‘‘ بھی کہتے ہیں یعنی جہنم سے نجات کی رات، برات کی رات، مغفرت کی رات۔ یہ رات شعبان کی چودہ تاریخ کو سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے اور دوسرے روز صبح صادق تک برقرار رہتی ہے۔امّ المومنین، سیّدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ’’بلاشبہ، اللہ تبارک وتعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب کوآسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کی مغفرت فرمادیتا ہے۔‘‘ (ترمذی) اس زمانے میں عرب میں قبیلہ بنوکلب کے پاس سب سے زیادہ بکریاں تھیں، جو اپنے کثیر بالوں کی وجہ سے مشہور تھیں، چناں چہ جس طرح بکریوں کے بالوں کا شمار نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ شب برات میں اپنے بے شمار بندوں کی بخشش فرماکر انہیں جہنّم سے نجات عطا فرماتا ہے۔ 

حضرت علی مرتضیٰؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’جب شعبان کی پندرہویں شب آئے، تو اس رات قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو، کیوں کہ اس رات غروبِ آفتاب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی خاص تجلّی اور رحمت پہلے آسمان پر اترتی ہے اور رب کریم اپنے بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ’’ کوئی ہے، جو بخشش کا طلب گار ہو، اور میں اسے بخش دوں، کوئی ہے، جو کشادگیِ رزق کا خواست گار ہو، اور میں اسے رزق عطا کردوں، کوئی ہے، جو مصیبت میں مبتلا ہو، اور میں اسے مصیبت سے نجات دوں، کوئی ہے، جو صحت و تن درستی کا طلب گار ہو، اور میں اسے شفائے کاملہ عطا کروں۔‘‘ اس طرح اللہ جل شانہ تمام حاجت مندوں کا ذکر فرما کر انہیں اپنی طرف متوجّہ کرتا ہے اور یوں غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک اللہ کی رحمت اپنے بندوں کو پکارتی رہتی ہے۔ (سنن ابنِ ماجہ)۔ 

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے مشرک، کینہ پرور، قطع رحمی کرنے والا، والدین کا نافرمان، شرابی اور زانی مرد و عورت۔‘‘ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ’’گناہ کبیرہ میں مبتلا افراد، یتیموں، مسکینوں کا حق غصب کرنے والے، والدین، بہن بھائیوں اور رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والے، رشوت لینے اور دینے والے، ناجائز دولت سمیٹنے اور سود کھانے والے، گانے بجانے، موسیقی کے دل دادہ، بے حیائی و فحاشی پھیلانے والے مرد و عورت، ظلم و زیادتی کرنے والے، جادوگر، کاہن، نجومی اور جوا کھیلنے والے، پڑوسیوں اور لوگوں کو ناحق پریشان کرنے والے، ٹخنوں سے نیچے لباس رکھنے والے مرد، غیبت، بہتان اور جھوٹ بولنے والے بدنصیب افراد اس بابرکت رات میں اللہ کے انعام و اکرام اور رحمتوں کے فیضان عام سے محروم رہیں گے، اِلاّ یہ کہ وہ نیک نیتّی کے ساتھ اللہ سے سچّی توبہ کرلیں اور آئندہ ان گناہوں سے دور رہنے کا وعدہ کرلیں۔

شب برات میں پروردگارِ عالم مغرب سے صبح فجر تک پہلے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور حاجت مندوں، ضرورت مندوں، بخشش اور معافی کے طلب گار لوگوں کا منتظر رہتا ہے۔ فرشتے صدائیں بلند کرتے ہیں کہ ’’ہے کوئی، جو آج اللہ کی رحمتوں سے فیض یاب ہو، ہے کوئی، جو اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر معافی کا طلب گار ہو۔‘‘شب ِبرات گناہوں پر ندامت، اعترافِ بندگی اور دعائوں کی قبولیت کی بابرکت رات ہے۔ کون جانے، اگلے سال یہ عظمت اور بزرگی والی رات اور یہ انمول ساعتیں نصیب بھی ہوتی ہیں یا نہیں۔ 

چناں چہ ان قیمتی لمحات کو اپنے لیے قدرت کا انعام سمجھتے ہوئے خود کو شرمندگی کے بہتے اشکوں کے نذرانے کے ساتھ اپنے رب کے حضور پیش کرکے اس مقدّس رات کو غنیمت جانتے ہوئے، اپنے رب سے وہ سب کچھ مانگ لیں، جس کے خواہش مند ہیں۔ قرآنِ کریم کی سورۃ الدّخان میں اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اس رات ہر حکمت والے کام کا ہمارے حکم سے فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔‘‘ مفسرین نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس رات پور ے سال کا حساب کتاب ہوتا ہے، یعنی بندوں کا رزق، ان کی اموات و پیدائش کے امور، بیماری وتن درستی، راحت و تکالیف، حالات و واقعات، فراخی و تنگ دستی، غرض یہ کہ تمام جملہ امور کے احکامات الگ الگ لکھ کر تقسیم کردیئے جاتے ہیں اور ہر فرشتے کو اس کا کام سونپ دیا جاتا ہے، جس کی روشنی میں وہ سال بھر کے ہر ہر لمحات میں نہایت سختی سے عمل پیرا رہتے ہیں۔ 

حضرت عطار بن یسارؒ بیان فرماتے ہیں کہ ’’شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک فہرست ملک الموت کو دے دی جاتی ہے اور اسے حکم دیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کے نام اس فہرست میں درج ہیں، ان کی روحوں کو قبض کرنا ہے۔ حالاں کہ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بندہ باغ میں پودا لگا رہا ہوتا ہے، کوئی شادی بیاہ میں مصروف ہوتا ہے، کوئی مکان کی تعمیر میں، جب کہ ان سب کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔ 

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اس کیفیت کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’بہت سے لوگوں کے کفن تیار ہو چکے ہوتے ہیں، مگر وہ ابھی تک بازاروں میں خریدوفروخت میں مصروف اور اپنی موت سے غافل ہوتے ہیں، بہت سے لوگوں کی قبریں تیار ہوچکی ہوتی ہیں، مگر ان میں دفن ہونے والے غفلت سے خوشیاں مناتے پھر تے ہیں، بہت سے لوگ ہنستے اور خوشیاں مناتے پھرتے ہیں، حالاں کہ وہ بہت جلد ہلاک ہونے والے ہیں۔‘‘ (غنیۃ الطالبین)حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ’’میں نےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماہِ رمضان کے علاوہ ماہِ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔‘‘ (صحیح بخاری/صحیح مسلم) لہٰذا شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا مستحب و مستحسن امر ہے۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ’’ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے، نماز شروع کی اور جب سجدے میں پہنچے، تو سجدہ اتنا طویل ہو گیا کہ میں پریشان ہو کر اٹھی اور پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انگوٹھے مبارک کو حرکت دی، جس سے مجھے اطمینان ہو گیا اور میں اپنی جگہ لوٹ آئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے عائشہؓ! تم جانتی ہو کہ یہ کون سی رات ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی خوب جانتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’یہ نصف شعبان کی رات ہے۔ 

اللہ تبارک و تعالیٰ اس رات خاص طور پر دنیا کی جانب توجّہ فرماتا ہے اور مغفرت مانگنے اور رحم کی دعا کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے۔‘‘حضرت ابو اسامہؓ سے مروی ہے کہ’’ پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ رجب کے مہینے کی پہلی رات، نصف شعبان کی رات، جمعے کی رات، عیدالفطراور عیدالاضحی کی رات۔‘‘ شعبان المعظم کی پندرہویں شب کو قبرستان جانا اور اپنے مرحوم والدین، عزیز و اقارب، دوست و احباب اور دیگر جملہ مومنین کی قبروں پر فاتحہ پڑھنا، ایصالِ ثواب کرنا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔ البتہ خواتین کا قبرستان جانا منع ہے۔ اسی طرح قبروں پر چراغاں کرنا، موم بتّیاں جلانا یا گھی کے چراغ جلانا سختی سے منع ہے،البتہ پھول، پانی یا کسی شاخ کی ہری ٹہنی ڈالی قبروں پر ڈالی جاسکتی ہے۔

ناپسندیدہ کاموں سے بچیں

شبِ برات کی رات شوروغل، پٹاخوں، آتش بازی، فائرنگ اور اس طرح کے دیگر گناہ کے کاموں سے اجتناب کریں۔ آتش بازی دولت کا زیاں اور جہالت کا مظاہرہ ہے، جس سے متعدد افراد زخمی اور اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جب کہ یہ رب کی ناراضی کا باعث بھی بنتی ہے۔ قبرستانوں میں قبروں پر موم بتّیاں، اگربتّیاں، گھی اور تیل کے چراغ جلانے سے اجتناب کریں، قبرستانوں میں قبروں پر آگ کا جلانا منع ہے۔ 

قبرستانوں میں نظم و ضبط کا خیال رکھیں، قبروں پر چڑھنا سخت گناہ ہے۔ اجتماعی شب بے داری کے دوران آپس میں بیٹھ کر گپ شپ لگانا، ہنسی مذاق اور دنیاوی باتیں کرنے سے اجتناب کریں۔

شبِ برات میں کرنے والے کام

شب برات میں توبہ و استغفار، ذکر و اذکار، مناجات و تسبیحات کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ تلاوتِ کلام پاک اور ادائیگی نوافل میں وقت گزاریں۔ مساجد میں اجتماعی شب بے داری میں شامل ہوں یا گھر پر انفرادی عبادت کریں۔ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنے رب کو راضی کرنے میں صَرف کریں۔ ذکر و اذکار کریں اور رات کی تنہائی میں اپنے رب کے آگے آنسو بہائیں، گڑگڑائیں، التجا و مناجات کریں۔ 

دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی حاجات کے لیے اپنے ہاتھوں کو اس کے آگے پھیلادیں، جب شرمندگی کے آنسو اور درد میں ڈوبی التجائیں رب کے دربار میں پہنچتی ہیں، تو اپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرنے والا رب، اپنے فیوض و برکات، رحمتوں اور انعام و اکرام سے لبریز کردیتا ہے۔ شب برات کی رات قبرستان جاکر قبور زیارت کریں، اپنے مرحومین اور جملہ مومنین کی مغفرت کی دعا کریں۔ 

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبورِ زیارت کا ایک مقصد یہ بھی بتایا ہے کہ اس طرح انسان اپنی موت کو یاد رکھتا ہے اور اسے یہ یاددہانی ہوجاتی ہے کہ جلد یا بدیر ایک دن اسے بھی یہاں آنا ہے۔ پندرہ شعبان کے روزے کے لیے سحری کا خصوصی اہتمام کریں کہ سحری کھانا سنّت ہے۔

تحریر: محمود میاں نجمی


اسلام دین فطرت ہے، اس کا پیغام امن و آشتی اور محبت کا پیغام ہے، اور رحمتِ کریمی صرف انسانوں تک محدود نہیں، ہر ذی روح تک محیط ہے۔ اس کے فیوض و برکات نے جہاں عالمِ انسانیت کو سیراب کیا، وہیں بے زبان جانوروں کو بھی اپنی رحمتِ بے کراں سے مالامال کیا۔ زمانہ ٔ جاہلیت میں اہلِ عرب جانوروں کے ساتھ نہایت وحشیانہ سلوک کرتے تھے۔ نزولِ اسلام کے بعد گویا ان بے زبان جانوروں کو بھی جائے اماں ملی۔ اللہ ربّ العزت اور محسنِ انسانیت، حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حقوق متعیّن کرکے رہتی دنیا تک انہیں تحفظ فرما دیا اور ان سے بدسلوکی کرنے والوں کو دوزخ کے عذاب کی وعید سنائی۔ جانوروں کی اہمیت اور ان کی خصوصیات بیان کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے دو سو آیات میں جانوروں کا ذکر فرمایا ہے، جب کہ کچھ سورتوں کے تونام ہی جانوروں کے نام پر ہیں۔ جیسے سورۃ البقرہ (گائے)، سورئہ نحل (شہد کی مکھی)، سورئہ نمل (چیونٹی)، سورئہ عنکبوت (مکڑی)، سورئہ فیل (ہاتھی)۔قرآن کریم میں35جانوروں کا ذکر آیا ہے۔ پرندوں میں بٹیر، ہدہد، کوّےکا۔ 

آبی جانوروں میں وہیل مچھلی، مینڈک کا۔ پالتو جانوروں میں گائے، بکرے، بھیڑ، اونٹ، گدھے، خچر، کتّے اور گئوسالہ (بچھڑے)کا۔ جنگلی جانوروں میں شیر، ہاتھی، بندر، سوّر، اژدھے کا اور حشرات میں مچھر، مکّھی، مکڑی، تتلی، ٹڈی، چیونٹی، شہد کی مکّھی وغیرہ۔ قرآنِ کریم میں حقیر جانوروں کا ذکر کرنے پر کچھ کفار نے اعتراض بھی کیا، جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا۔ ترجمہ: ’’بے شک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لیے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے، (خواہ) مچھر کی ہو یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بھی بڑھ کر ہو، تو جو لوگ ایمان لائے، وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی طرف سے حق (کی نشان دہی) ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ)۔ اللہ رب العزت نے دنیا میں کوئی بھی شے بلامقصد پیدا نہیں کی۔ اسی طرح جانوروں سے حاصل ہونے والے فوائد و خصائص کو قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا گیا۔ ترجمہ: ’’اسی نے چوپائے پیدا کیے، جن میں تمہارے لیے گرمی کے لباس ہیں اور بھی بہت سے منافع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے۔ جب چَرا کر لائو، تب بھی اور جب چَرانے لے جائو، تب بھی اور وہ تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں، جہاں تم زحمتِ شاقہ کے بغیر پہنچ ہی نہیں سکتے۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے اور اسی نے گھوڑے، خچّر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (وہ تمہارے لیے) رونق و زینت (بھی ہیں)۔ (سورۃ النحل)۔ حضور نبی کریمﷺ نے بعض جانوروں کی مخصوص صفات اور منفرد خوبیوں کی وجہ سے ان کے ساتھ بہتر سلوک کا حکم فرمایا۔ گھوڑے کے متعلق فرمایا۔ ’’گھوڑے کے ساتھ قیامت کے دن تک خیر وابستہ ہے۔‘‘ (مسلم)۔ مرغ کے بارے میں فرمایا ’’مرغ کو گالی نہ دو، کیوں کہ وہ نماز کے لیے اٹھاتا ہے۔‘‘ (ابودائود)۔

جانوروں کا حقِ خوراک:جانوروں کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان کے چارے، دانے، غذا اور پانی کا خیال رکھیں۔ انسان کچھ جانور اور پرندے شوق کی خاطر پالتا ہے، تو کچھ دودھ، گوشت وغیرہ کے لیے اور کچھ آمدورفت کے لیے۔ ہر جانور کو ویسا ہی چارہ یا دانہ دیا جائے، جیسا وہ کھاتا ہے۔ جانور کو بھوکا رکھنے کا مطلب خدا کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے، جہاں ایک اونٹ بندھا ہوا تھا۔ اونٹ نے جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، تو اس نے بلبلا کر غم ناک آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپؐ اس کے پاس تشریف لے گئے اور شفقت سے اس کی دونوں کنپٹیوں اور کوہان پر ہاتھ پھیرا۔ پھر آپؐ نے دریافت کیا کہ یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری آگے آیا اور بولا۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ میرا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اس بے زبان جانور کے بارے میں اللہ سے ڈر، جسے اللہ نے تیرے اختیار میں دے رکھا ہے، یہ اونٹ اپنے آنسوئوں اور اپنی آواز کے ذریعے مجھ سے تیری شکایت کررہا ہے۔‘‘حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ اس نے ایک بلّی کو قید کرکے رکھا ہوا تھا، وہ اسے غذا دیتی اور نہ اس کو آزاد کرتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرگئی۔‘‘ (بخاری)۔

جانوروں پر رحم کرنا:جانوروں کا ایک حق یہ ہے کہ ان پر رحم کیا جائے، ان کے گھونسلوں کو نہ توڑا جائے، پرندوں کو بلاضرورت نہ پکڑا جائے، پرندوں کے گھونسلوں سے ان کے انڈوں اور بچّوں کو نہ نکالا جائے، پرندوں پر رحم نہ کھانا، ظلم، زیادتی اور گناہ ہے، جس پر عذاب کی وعید ہے۔ حضرت عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک کمبل پوش شخص آیا، اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی، جو کمبل میں چھپی ہوئی تھی۔ اس نے کہا۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں گھنے جنگل سے گزر رہا تھا، وہاں میں نے پرندوں کی آوازیں سنیں، تو ان کے گھونسلوں سے ان کے بچّوں کو پکڑ کر اپنے کمبل میں چھپالیا، ان بچّوں کی ماں میرے سر پر منڈلانے لگی، میں نے کمبل کھولا، تو وہ بھی کمبل کے اندر اپنے بچّوں کے پاس آگئی، لہٰذا میں نے اسے بھی چھپالیا۔ اب وہ بھی میرے کمبل میں موجود ہے۔‘‘ حضورؐ نے اس کی بات سن کر فرمایا۔ ’’ان سب کو نیچے رکھو۔‘‘ اس نے سب کو کمبل سے نکال کر سامنے رکھ دیا، تو ان بچّوں کی ماں بے قراری کے ساتھ بچّوں کے گرد طواف کرنے لگی اور فرطِ محبت سے انہیں چمٹانے لگی۔ یہ دیکھ کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تم لوگ ماں کی اپنے بچّوں کے ساتھ محبت پر حیران ہورہے ہو، اس ربِ کائنات کی قسم، جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، وہ رب اپنے بندوں کے ساتھ اس ماں سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔‘‘ پھر اس شخص سے فرمایا۔ ’’جائو، ان بچّوں کو ان کی ماں کے ساتھ وہیں چھوڑ آئو، جہاں سے لائے ہو۔‘‘ (ابو دائود)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران رسول اللہؐ نے ایک جگہ مختصر قیام فرمایا۔ 

آپؐ کی جماعت کے ایک شخص نے قریبی گھونسلے سے ایک چڑیا کا انڈا اٹھالیا۔ چڑیا آئی اور حضورؐ کے سر پر پھڑپھڑانے لگی۔ آپؐ نے فرمایا ’’تم میں سے کس نے اس کے انڈوں کے بارے میں اسے دکھ پہنچایا ہے۔‘‘ ایک شخص نے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے اس کے انڈے کو اٹھا لیا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’اس پر رحم کرتے ہوئے اس کے انڈے کو واپس رکھ دو۔‘‘ (الادب المفرد)۔عموماً لوگ باربرداری کے جانوروں، خاص طور پر گدھوں اور خچّروں پر بے تحاشا بوجھ لاد دیتے ہیں، جو ان کی سکت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، پھر جب وہ جانور بوجھ اٹھا نہیں پاتا تو اسے بے دردی سے پِیٹتے ہیں۔ جانوروں کو مارنا پِیٹنا، ان پر ہمّت سے زیادہ بوجھ ڈالنا ظلم ہے۔ بے زبان جانور، ظالم مالک سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن اللہ سے اس کے لیے بددعا ضرور کرتا ہے۔ لہٰذا جانوروں کے ساتھ رحم کا برتائو کرکے ان کی بددعائوں سے بچنا چاہیے۔

جانوروں کو اذیّت نہ دیں: جانوروں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ انہیں اذیت نہ دی جائے۔ جانوروں کو مارنا، ان کے جسم کو داغنا، جسم کے مختلف حصّوں پر چیرے لگانا اور چھوٹے معصوم پرندوں پر نشانہ بازی کرنا اذیت کے زمرے میں آتا ہے، جو نہایت ناپسندیدہ فعل ہے۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی، جو کسی ذی روح کو نشانہ بنائے۔‘‘(متفق علیہ)۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گزرا، جس کے منہ پر داغا گیا تھا۔ آپؐ نے یہ دیکھ کر فرمایا ’’اس شخص پر لعنت ہو، جس نے اس کو داغا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے چہرے پر مارنے اور اسے داغنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم)۔ اکثر لوگ نشانہ بازی کی مشق یا شوق کی خاطر جانوروں کو باندھ کر کھڑا کرتے ہیں اور پھر ان پر تیر یا نیزے وغیرہ سے نشانہ بازی کرتے ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے۔ بندوق یا غلیل وغیرہ سے چھوٹے معصوم پرندوں کو نشانہ بنانا بھی سخت منع ہے۔ 

زندہ جانور کے جسم کے کسی بھی حصّے کا گوشت کاٹنا نہایت قبیح اور مکروہ فعل ہے۔ حضور نبی کریمؐ جب مدینہ تشریف لائے، تو آپؐ نے دیکھا کہ لوگ اونٹ کے کوہان اور دنبوں کی چکّیاں کاٹ لیتے ہیں اور انہیں نہایت شوق سے کھاتے ہیں۔ آپؐ نے حکم فرمایا کہ ’’زندہ جانور کے جسم سے جو حصّہ کاٹ لیا جائے، وہ مردار ہے، اسے نہ کھایا جائے۔‘‘ (ترمذی، ابودائود)۔ جانوروں کو آپس میں لڑوانا، چاہے وہ مرغ ہوں یا بٹیر، مینڈھے ہوں یا کوئی اور جانور، نہایت ناپسندیدہ فعل ہیں، جن کی سخت ممانعت ہے۔حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مویشیوں کو آپس میں لڑوانے سے منع فرمایا ہے۔ (ترمذی)۔اسی طرح کم زور جانور پر تین آدمیوں کی سواری کو ناپسندیدہ کہا گیا ہے۔

جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک:جانوروں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے۔ ایک صحابی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ’’میں نے بہ طورِ خاص اپنے اونٹوں کے لیے ایک حوض بنا رکھا ہے، اس پر بسا اوقات بھولے بھٹکے جانور بھی پانی پینے آجاتے ہیں، اگر میں انہیں بھی سیراب کردوں، تو کیا اس پر بھی مجھے ثواب ملے گا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’ہاں، ہر پیاسے یا ذی روح کے ساتھ حسنِ سلوک سے ثواب ملتا ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’ایک بدکار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی کہ ایک مرتبہ اس کا گزر ایک ایسے کنویں پر ہوا، جس کے قریب ایک کتّا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا اور قریب المرگ تھا، اس وقت کنویں سے پانی نکالنے کے لیے کچھ موجود نہ تھا۔ 

عورت نے جب یہ دیکھا، تو جلدی سے اپنا چرمی موزا اتار کر اسے اپنی اوڑھنی کے پلّو سے باندھا اور کنویں سے پانی نکال کر اس کتّے کو پلایا۔ اس عورت کا یہ فعل بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوا اور اس کی بخشش کردی گئی۔‘‘ اس موقعے پر صحابہؓ نے دریافت کیا کہ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا جانوروں کے ساتھ بھلائی کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’ہاں! ہر ذی روح کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں صدقے کا اجر ہے۔‘‘ (بخاری)۔

جانوروں کے آرام کا خیال رکھنا: جانوروں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے آرام کا خیال رکھا جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے جانوروں کے آرام کا خیال رکھنے کی بڑی تلقین فرمائی ہے۔ جانوروں کو تنگ کرنا، بلاضرورت دوڑانا، پریشان کرنا سخت ناپسندیدہ فعل ہے۔ قربانی کے جانور اللہ کے مہمان ہوتے ہیں، عموماً دیکھا گیا ہے کہ دن رات کا خیال کیے بغیر انہیں گلی، محلّوں میں دوڑایا جاتا ہے، ان کی نمائش کرکے تماشا بنایا جاتا ہے، گھروں کے بچّے انہیں کھیل اور تفریح سمجھ کر گھسیٹتے پھرتے ہیں، جب کہ گھر کے بڑے جانوروں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم پر خوش ہوتے ہیں۔ یہ سب ناپسندیدہ اور گناہ کے کام ہیں۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات سے واپسی پر دورانِ سفرعقب سے اونٹوں کو مارنے اور انہیں تیز ہنکانے کی آواز سنیں، تو آپؐ نے فرمایا ’’لوگو! آرام سے چلو، اونٹوں کو دوڑانا اجر کا سبب نہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم سبزے والی زمین پر سفر کرو، تو اونٹوں کو ان کا حصّہ دو۔‘‘ (صحیح مسلم)۔صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ جب سفر پر ہوتے اور راستے میں سبزے والی جگہ نظر آتی، تو اپنے سفر کو تھوڑی دیر کے لیے موقوف کر کے اونٹوں کو چَرنے کے لیے چھوڑ دیتے ۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب ہم کسی منزل پر اترتے ،تو نماز اس وقت تک نہیں پڑھتے، جب تک کہ اونٹوں کے کجاوے کو کھول نہیں دیتے تھے۔‘‘

ذبح کرتے وقت احتیاطی تدابیر: جانور کو ہمیشہ تیز دھارآلے سے ذبح کیا جائے، تاکہ اسے تکلیف نہ ہو، ذبح کرنے سے قبل جانور کو دانہ پانی دیں۔ خیال رکھیں کہ وہ بھوکا نہ ہو۔ چھری کو پہلے سے تیز کر لیں۔ جانور کو قبلہ رخ لٹائیں۔ تکبیر کہہ کر تیز دھار آلے سے ذبح کریں۔ کھال اتارنے میں جلدی نہ کریں۔ جانور کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کریں۔ ایک جانور کو دوسرے کے سامنے ذبح نہ کریں۔ عیدِ قرباں میں ایسے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ قسائی وقت کی بچت کی خاطر ان باتوں کا خیال نہیں رکھتے، لہٰذا اہلِ خانہ پر لازم ہے کہ وہ قسائیوں سے ان پر عمل کروائیں۔ حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص نے رحم کیا، اگرچہ ذبح کیے جانے والے جانور ہی پرہو، تو اللہ قیامت کے دن اس پر رحم فرمائے گا۔‘‘ (طبرانی)۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’ایک شخص بکری کو لٹاکر اس کے سامنے چھری تیز کرنے لگا، تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا تم اسے دو موت مارنا چاہتے ہو۔ تم نے اپنی چھری اسے لِٹانے سے قبل تیز کیوں نہیں کرلی۔‘‘ (مستدرک حاکم)۔ 

جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے، وہ بھی جب تک ایذا نہ دیں، انہیں بلاوجہ جان سے مار ڈالنا درست نہیں۔ اسی طرح صرف تفریحِ طبع کی خاطر کسی حلال جانور کی جان لے لینا بھی درست عمل نہیں۔ حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان ضروری قرار دیا ہے، لہٰذا جب کسی چیز کو جان سے ختم کرنا ہو، تو اسے اچھی طرح ختم کردو۔ جب کسی کو ذبح کرو، تو اچھی طرح ذبح کرو اور تم اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کرلیا کرو اور ذبیحہ کو آرام دیا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم)۔

موذی جانوروں کو مارنے میں احسان کا حکم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موذی اور تکلیف دہ جانوروں مثلاً سانپ، بچّھو، گرگٹ، چھپکلی وغیرہ کو مارنے کا حکم تو دیا ہے، لیکن انہیں مارنے میں بھی احسان اور بھلائی کا حکم ہے۔ حضورؐ نے ایک جانور کو آگ سے جھلسا دیکھا، تو فرمایا ’’کسی کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ جانور کو آگ سے تکلیف پہنچائے، سوائے آگ کے پیدا کرنے والے کے۔ (ابودائود)۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو شخص گرگٹ کو ایک ہی وار میں مارڈالے اس کے لیے سو نیکیوں کا ثواب ہے۔ 

دوسرے وار میں اس سے کم اور تیسرے وار میں اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ حضرت سالم بن عبداللہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سانپوں کو قتل کرو۔ اس سانپ کو بھی قتل کردو، جس کی پشت پر سیاہ نقطے ہوتے ہیں۔ اسی طرح چھوٹی دم والے سانپ کو بھی قتل کرو، کیوں کہ یہ دونوں بینائی کو زائل اور حمل کو گرادیتے ہیں۔ (ترمذی)۔

تحریر: محمود میاں نجمی




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *21* ۔۔۔۔

 ابوبکرؓ کے حکم کا پسِ منظر یہ تھاکہ تبوک اور مُوتہ کے معرکوں کے بعد رسولِ اکرمﷺ نے یہ ضروری سمجھاتھاکہ رومیوں پر حملہ کرکے ان کا دم خم توڑا جائے۔تبوک اور موتہ کے معرکوں میں تو یہ کامیابی حاصل کی گئی تھی کہ ان قبیلوں کو مطیع کر لیا گیا تھا جن کا خطرہ تھا کہ وہ رومیوں کے ساتھ اتحاد کرلیں گے۔ان رومیوں کو ختم کرناضروری تھا۔یہ فیصلہ ملک گیری کی خاطر نہیں بلکہ نظریاتی دفاع کیلئے کیا گیا تھا۔یہودی اور نصرانی اسلام کے خلاف رومیوں کے کیمپ میں چلے گئے تھے۔رسول اﷲﷺ نے رومیوں پرحملہ کیلئے ایک لشکر تیار کیا تھا جس میں مہاجرین اور انصار کے سرکردہ افراد بھی شامل تھے۔اس لشکر کے سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ کے بیٹے اسامہؓ تھے۔ان کی عمر بمشکل بیس سال تھی۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اسامہؓ کو رسول اﷲﷺ نے اس لئے سپہ سالار مقرر کیا تھا کہ نوجوانوں میں قیادت کا شوق پیدا ہو اور وہ اپنے آپ میں اسامہؓ جیسی صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اسامہؓ کو رسولِ کریمﷺ ویسے بھی بہت چاہتے تھے۔اسامہؓ کے والد زیدؓ بن حارثہ جنگِ موتہ میں شہید ہو گئے تھے۔اسامہؓ میں لڑکپن میں ہی عسکری صلاحیتیں اور شجاعت پیدا ہو گئی تھی۔جنگِ احد کے وقت اسامہؓ بچے تھے اس لیے اس جنگ میں شریک نہ ہو سکے لیکن اسلامی لشکر مدینہ سے روانہ ہوا تو اسامہ ؓ رستے میں کہیں چھپ کر بیٹھ گئے۔جب لشکر ان کے قریب سے گزرا تو وہ لشکر میں شامل ہو گئے۔ان کی مراد پھر بھی پوری نہ ہوئی۔انہیں میدانِ جنگ میں دیکھ لیا گیا اور واپس بھیج دیا گیا ۔البتہ جنگِ حنین میں انہوں نے سب کو دکھا دیا کہ شجاعت کیا ہو تی ہے۔جب رسولِ مقبولﷺ نے اسامہؓ کو رومیوں پر حملہ کرنے والے لشکر کی سپہ سالاری سونپی تھی تو بعض لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ جس لشکر میں ابو بکرؓ اور عمرؓ جیسے اعلیٰ حیثیت اور تجربے کے بزرگ شامل ہیں ،اس لشکر کی سپہ سالاری کل کے بچے کو دینا مناسب نہیں۔یہ اعتراض رسول اﷲﷺ تک اس وقت پہنچا جب آپﷺ زندگی کے آخری بخار میں مبتلا تھے۔آپﷺ میں بولنے کی بھی سکت نہیں تھی۔آپﷺ نے بخار سے نجات پانے کیلئے اپنی ازواج سے کہا کہ آپﷺ کو غسل کرائیں۔آپﷺ پر پانی کے سات مشکیزے ڈالے گئے ۔اس سے بخار خاصا کم ہو گیا۔نقاہت زیادہ تھی۔پھر بھی آپﷺ مسجد میں چلے گئے جہاں بہت سے لوگ موجود تھے۔جن میں اعتراض کرنے والے سرکردہ افراد بھی تھے۔ ’’اے لوگو!‘‘رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔’’اسامہ کے لشکر کو کوچ کرنے دو۔تم نے اس کی سپہ سالاری پر اعتراض کیا ہے۔تم نے اس کے باپ کی سپہ سالاری پر بھی اعتراض کیا تھا۔میں اسامہ کو اس منصب کے قابل سمجھتا ہوں۔اس کے باپ کو بھی میں نے اس منصب کے قابل سمجھا تھااور تم نے دیکھا کہ میں نے سپہ سالاری اسے سونپ کر غلطی نہیں کی تھی۔‘‘
اعتراض ختم ہو گیااور رومیوں کے خلاف لشکر کوچ کر گیا۔لیکن جرف کے مقام پر اطلاع ملی کہ رسولِ کریمﷺ کی بیماری تشویشناک صورت اختیار کر گئی ہے۔اسامہؓ میں نوجوانی میں ہی بزرگوں جیسی دوراندیشی پیدا ہو گئی تھی۔انہوں نے لشکر کو جرف کے مقام پر روک لیااور خود رسول اﷲﷺ کو دیکھنے مدینہ آئے۔ایک تحریر میں اسامہؓ کا بیان ان الفاظ میں ملتا ہے:’’اطلاع ملی کہ رسول اﷲﷺ کی حالت بگڑ گئی ہے تو میں اپنے چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مدینہ آیا۔ہم سیدھے رسول اﷲﷺ کے حضور گئے۔آپﷺ پرنقاہت طاری تھی ،اتنی کہ بول بھی نہ سکتے تھے۔آپﷺ نے دو تین بارہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف کئے اور ہر بار ہاتھ میرے اوپر رکھ دیئے ،میں سمجھ گیا کہ حضورﷺ میرے لئے دعا کر رہے ہیں۔‘‘دوسرے روز اسامہؓ پھر آپﷺ کے حضور گئے اور کہا۔’’یا رسول اﷲﷺ!لشکر جرف میں میرا منتظر ہے۔اجازت فرمائیے۔‘‘رسول اﷲﷺ نے ہاتھ اوپر اٹھائے مگر ہاتھ زیادہ اوپر نہ اٹھ سکے۔ضعف بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔اسامہؓ دل پر غم کا بوجھ ،آنکھوں میں آنسو لے کرروانہ ہو گئے۔تھوڑی ہی دیر بعد رسول اﷲﷺ وصال فرماگئے۔قاصد اسامہؓ کے پیچھے دوڑا اور راستے میں جالیا۔اسامہؓ نے حضورﷺ کے وصال کی خبر سنی ۔گھوڑا سرپٹ دوڑایا اپنے لشکر تک پہنچے۔وصال کی خبر نے لشکر میں کہرام برپا کر دیا۔اسامہؓ لشکر کو مدینہ لے آئے۔خلیفۂ اول کی بیعت ہو چکی تھی۔انہوں نے اسامہؓ کو بلا کر پوچھا کہ رسول اﷲﷺ نے انہیں کیا حکم دیا تھا؟’’یہ حکم تو آپ کو بھی معلوم ہے۔‘‘اسامہؓ نے جواب دیا۔’’مجھ سے ہی سننا ہے تو سن لیں۔رسول اﷲﷺ نے حکم دیا تھا کہ میں فلسطین میں بلقاء اور دوام کی سرحد سے آگے جاکر رومیوں پر حملہ کروں لیکن وہاں تک لشکر اس طرح پہنچے کہ دشمن کو حملے تک لشکر کی آمد کی خبر تک نہ ہو سکے۔‘‘’’جاؤ اسامہ!‘‘ ابو بکرؓ نے کہا۔’’اپنالشکر لے جاؤ اور رسول اﷲﷺ کے حکم کی تعمیل کرو۔‘‘لشکر کو جب یہ حکم ملا تو ابو بکر ؓ پر اعتراض ہونے لگے۔سب کہتے تھے کہ جب ہر طرف سے خطروں کے طوفان نے گھیر لیا ہے ،اتنی بڑی جنگ اور وہ بھی اتنی دور ،شروع نہیں کرنی چاہیے۔اس لشکر کی ان فتنوں کی سرکوبی کیلئے ضرورت ہے جو بڑی تیزی سے اٹھ رہے ہیں۔’’قسم ہے اس اﷲ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’اگر مجھے جنگل کے درندے چیرنے پھاڑنے کیلئے آ جائیں تو بھی میں اسامہ کے لشکر کو نہیں روکوں گا۔میں اس حکم کی خلاف ورزی کس طرح کر سکتا ہوں جو رسول اﷲﷺ نے اپنی زندگی میں دیا تھا؟میں اگر مدینہ میں اکیلا رہ گیا تو بھی اس لشکر کو نہیں روکوں گا۔‘‘ ’’تم پر سلامتی ہوابو بکر!‘‘عمرؓ نے کہا۔’’اعتراض کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگرلشکر کو بھیجنا ہی ہے توسپہ سالاری اسامہ کے بجائے کسی تجربے کار آدمی کو دیں۔‘‘’’اے ابنِ خطاب!‘‘ابو بکرؓ نے جواب دیا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ اسامہ کو رسول اﷲﷺ نے سپہ سالار مقرر کیا تھا ؟کیا تم جرات کرو گے کہ رسول اﷲﷺ کے حکم کو منسوخ کردو؟‘‘’’میں ایسی جرات نہیں کروں گا۔‘‘عمرؓ نے کہا۔’’مجھ میں اتنی جرات نہیں۔‘‘’’میری سن ابنِ خطاب!‘‘ابو بکر ؓ نے کہا۔’’اپنی قوم کو دیکھ۔پوری قوم غم سے نڈھال ہے۔غم کے ساتھ ساتھ ایک خوف ہے جو ہر کسی کے دل میں اترتا جا رہا ہے۔یہ خوف ان بغاوتوں کا ہے جو ہمارے اردگرد اٹھ رہی ہیں،ہر روز ایک خبر آتی ہے کہ آج فلاں قبیلہ باغی ہو گیا ہے ۔بعض قبیلے اسلام سے منحرف ہو گئے ہیں ۔اسلام بھی خطرے میں آگیاہے اور مدینہ بھی۔یہودیوں اور نصرانیوں نے بڑی خوفناک افواہیں پھیلانی شروع کر دی ہیں ۔ان سے اور زیادہ خوف پھیل رہا ہے۔اگر ہم نے رومیوں پر حملہ روک لیا تو دو نقصان ہوں گے۔ایک یہ کہ قوم سمجھے گی کہ ہم کمزور ہو گئے ہیں۔دوسری یہ کہ رومی اور مجوسی ہم کو کمزور سمجھ کر ہم پر چڑھ دوڑیں گے۔میں قوم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم کمزور نہیں ہو گئے۔ہمارااﷲ ہمارے ساتھ ہے۔میں قوم کے حوصلے اور جذبے پہلے کی طرح مضبوط رکھنا چاہتا ہوں۔رسول اﷲﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا میرا فرض ہے۔‘‘عمرؓ کو اس استدلا ل نے مطمئن کر دیا ۔ابو بکرؓ نے کوچ کاحکم دے دیا۔
اسامہؓ کا لشکر روانہ ہوا تو ابوبکرؓ کچھ دور تک پیدل ہی ساتھ چل پڑے۔اسامہؓ گھوڑے پر سوار تھے۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک سپہ سالار اور وہ بھی نوجوان ،گھوڑے پر سوارتھااور خلیفہ اس کے ساتھ ساتھ پیدل جا رہے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ ؓہر کسی کو دِکھانا چاہتے تھے کہ سپہ سالار اسامہؓ تعظیم و تکریم کے قابل ہے۔’’اے خلیفۂ رسولﷺ !‘‘اسامہؓ نے کہا۔’’آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں یا میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا۔‘‘’’نہ میں سوار ہوں گا اور نہ تم پیدل چلو گے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں روحانی تسکین محسوس کر رہا ہوں کہ اﷲ کی راہ کی گَرد میرے پاؤں پر بھی پڑ رہی ہے"۔ عمرؓ بھی اس لشکر میں شامل تھے۔ابو بکرؓ کو محسوس ہوا کہ مدینہ میں انہیں عمرؓ کی ضرورت ہو گی۔ ’’اسامہ!‘‘خلیفہ نے سپہ سالار سے کہا۔’’اگر تم اجازت دو تو میں عمر ؓکو مدینہ میں رکھ لوں۔مجھے اس کی مددکی ضرورت ہو گی۔‘‘ اسامہؓ نے عمرؓ کو لشکر میں سے نکل کر واپس جانے کی اجازت دے دی۔ابو بکرؓ بہت بوڑھے تھے۔ایک جگہ رک گئے۔اسامہؓ نے لشکر کو روک لیا۔ابو بکرؓ نے ذرا بلند جگہ پر کھڑے ہو کر لشکر سے خطاب کیا۔’’اسلام کے مجاہدو!میں تمہیں دس نصیحتیں کرتا ہوں۔انہیں یاد رکھنا۔خیانت نہ کرنا،چوری نہ کرنا،دشمن کے لاشوں کے اعضاء نہ کاٹنا،بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا،کھجوروں اور پھلوں کے درخت نہ کاٹنا،کھانے کی غرض کے سوا کسی جانور کو ذبح نہ کرنا،تمہیں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں نظر آئیں گی جن مین تارک الدنیا لوگ بیٹھے ہوں گے انہیں پریشان نہ کرنا،کسی بستی کے لوگ برتنوں میں تمہارے لیے کھانا لائیں گے یہ کھانا اﷲ کا نام لے کر کھانا،تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے اپنے سروں میں شیطان کے گھونسلے بنا رکھے ہیں ۔ان کے سروں کے درمیان کا حصہ منڈھا ہوا ہو گااور باقی بال بہت لمبے لمبے ہوں گے،انہیں قتل کر دینا۔اپنی حفاظت اﷲکے نام سے کرنا،خدا حافظ مجاہدو!اﷲتمہیں شکست اور وبا سے دور رکھے۔‘‘لشکر کی مدینہ سے روانگی کی تاریخ ۲۴ جون ۶۳۲ء  یکم ربیع الثانی ۱۱ہجری تھی۔یہ کہانی چونکہ شمشیرِ بے نیام کی ہے اس لئے ہم وہ واقعات بیان کریں گے جن کا تعلق خالدؓ بن ولید سے ہے۔رسول اﷲﷺ نے خالدؓ کو اﷲ کی تلوار کہاتھا۔اسامہؓ کےلشکر کے متعلق اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ انہوں نے صرف چالیس دنوں میں ہی رومیوں کے خلاف وہ کامیابی حاصل کرلی جورسول ِکریمﷺ حاصل کرنا چاہتے تھے۔اسامہؓ سالاری کے ہر پہلو پر پورے اترے اور جب وہ فتح یاب ہو کر مدینہ میں آئے تو ان سب نے انہیں گلے لگایا جنہوں نے ان کی سپہ سالاری پر اعتراض کیے تھے۔دوسری بڑی جنگ مرتدین کے خلاف تھی۔ ابو بکرؓنے اپنی فوج کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کے سالار مقرر کیے اور ان کیلئے محاذ مقرر کر دیئے۔یعنی ہر سالار کو ایک ایک علاقہ بتا دیا گیا جہاں انہیں حملہ کرنا تھا۔اس تقسیم میں ابو بکرؓ نے خاص طور پر یہ خیال رکھا تھاکہ ہر دشمن کی طاقت اور لڑنے والی نفری دیکھ کر اس کے مطابق سالار مقرر کیے جائیں۔سب سے زیادہ طاقتور اور مکار دو مُرتد تھے۔ایک طلیحہ اور دوسرا مسیلمہ،ان دونوں نے نبوت کا دعویٰ کرکے ہزار ہا پیروکار پیدا کر لیے تھے۔خالدؓ بن ولید کو ابو بکرؓ نے حکم دیا کہ وہ طلیحہ کی بستیوں پر حملہ کریں اوراس سے فارغ ہوکر بطا ح کا رخ کریں۔جہاں بنی تمیم کے سردار مالک بن نویرہ نے بغاوت کر دی تھی۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
تمام سالار اپنے اپنے محاذوں اور مہموں کو روانہ ہو گئے۔خالدؓ اپنی مہم کے علاقے میں حسبِ عادت اتنی تیزی سے پہنچے کہ دشمن کو خبر تک نہ ہوئی۔انہوں نے کچھ بستیوں کو گھیرے میں لے لیا تو خالد ؓکے پاس کچھ آدمی آئے اور انہیں بتایا کہ بعض قبیلے طلیحہ کے فریب کا شکار ہیں۔ان کی خونریزی مناسب نہیں ہو گی۔اگر خالد ؓذرا انتظار کریں تو قبیلہ طئی کے کم و بیش پانچ سو آدمی خالد ؓکے دستے میں شامل ہو جائیں گے۔خالدؓ نے انتظار کیا اور یہ آدمی قبیلہ طئی کے پانچ سو آدمی لے آئے جو طلیحہ کے قبیلے اور اس کے زیرِ اثر قبیلوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ تھے۔وہ مسلح ہو کر آئے تھے۔اسی طرح قبیلہ جدیلہ بھی خالدؓ کے ساتھ مل گیا۔طلیحہ کو پتا چلا تو وہ بہت گھبرایا لیکن ایک شخص عینیہ اس کے ساتھ تھا۔وہ بنی فرازہ کا سردار تھا۔اس کے دل میں مدینہ والوں کے خلاف اتنا عناد بھرا ہوا تھا کہ اس نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ مدینہ والوں کی حکومت کو کسی قیمت پر تسلیم نہیں کر سکتا۔غزوۂ احزاب میں جن تین لشکروں نے مدینہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ،ان میں سے ایک لشکر کا سالار یہی شخص عینیہ بن حصن تھا۔رسولِ کریمﷺ نے اپنے اس اصول کے مطابق کہ دشمن کو تیاری کی حالت میں پکڑو ،مدینہ سے نکل کر ان تینوں لشکروں پر حملہ کر دیا تھا ۔سب سے زیادہ نقصان عینیہ کے لشکر کو اٹھانا پڑا۔اس نے مجبور ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اسلام کے خلاف سر گرم رہا۔خالدؓ کو پتا چلا کہ طلیحہ کے ساتھ عینیہ ہے تو انہوں نے عہد کیا کہ ان دونوں کو نہیں بخشیں گے۔خالدؓ نے پیش قدمی سے پہلے اپنے دو آدمیوں عکاشہ بن محصن اور ثابت بن اقرم انصاری کو لشکر سے آگے بھیج دیا کہ وہ دشمن کی نقل و حرکت یا کوئی اور بات دیکھیں جو لشکر کی پیش قدمی کے کام آ سکے تو پیچھے اطلاع دیں۔دونوں چلے گئے اور خالد ؓاپنے دستوں کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔بہت دور جا کر ان دونوں میں سے کوئی بھی واپس آ تا دکھائی نہ دیا۔کچھ دور گئے تو تین لاشیں پڑیں ملیں جو خون میں نہائی ہوئی تھیں۔ دو لاشیں انہی دو آدمیوں عکاشہ اور ثابت کی تھیں جنہیں خالد ؓنے آگے بھیجا تھا۔تیسری لاش کسی اجنبی کی تھی ۔بعد میں جو انکشاف ہوا (طبری اور قاموس کے مطابق)کہ یہ دونوں آگے جا رہے تھے ۔راستے میں انہیں ایک شخص حبال مل گیا۔ایک مؤرخ کامل ابنِ اثیر لکھتا ہے کہ حبال طلیحہ کا بھائی تھا لیکن طبری اور قاموس اسے طلیحہ کا بھتیجا لکھتے ہیں،عکاشہ اور ثابت نے اسے للکار کر قتل کر دیا۔ اس کی اطلاع طلیحہ کو مل گئی۔وہ اپنے بھائی سلمہ کو اپنے ساتھ لے کر آ گیا۔عکاشہ اور ثابت ابھی اور آگے جا رہے تھے ۔طلیحہ اور سلمہ نے گھات لگائی اور دونوں کو مقابلے کی مہلت دیئے بغیر ہی قتل کر دیا۔خالدؓ آگ بگولہ ہو گئے اور طلیحہ کی بستی پر جا دھمکے ۔عینیہ ،طلیحہ کی فوج کی کمان کر رہا تھا اور طلیحہ ایک خیمہ میں نبی بنا بیٹھا تھا۔عینیہ نے مسلمانوں کا قہر اور غضب دیکھا تو وہ اپنے لشکر کو لڑتا چھوڑ کر طلیحہ کے پاس گیا ،وہ طلیحہ کو سچا نبی مانتا تھا۔
’’یا نبی! ‘‘عینیہ نے طلیحہ سے پوچھا۔’’مشکل کا وقت آن پڑا ہے ،جبرئیل کوئی وحی لائے ہیں ؟‘‘’’ابھی نہیں۔‘‘طلیحہ نے کہا۔’’تم لڑائی جاری رکھو۔‘‘عینیہ دوڑتا گیا اور لڑائی میں شامل ہو گیا ۔مسلمانوں کا قہر اور بڑھ گیا تھا ۔خالدؓ کی چالیں جھوٹے نبی کے لشکر کے پاؤں اکھاڑ رہی تھیں۔عینیہ ایک بار پھر طلیحہ کے پاس گیا۔’’یا نبی!‘‘اس نے طلیحہ سے پوچھا۔’’کوئی وحی نازل ہوئی؟‘‘’’ابھی نہیں۔‘‘طلیحہ نے کہا۔’’تم لڑائی جاری رکھو۔‘‘’’وحی کب نازل ہو گی؟‘‘عینیہ نے جھنجھلا کر پوچھا۔’’تم کہا کرتے ہو کہ مشکل کے وقت وحی نازل ہوتی ہے۔‘‘’’خدا تک میری دعا پہنچ گئی ہے۔‘‘طلیحہ نے کہا۔’’وحی کا انتظا رہے۔‘‘عینیہ اپنے لشکر میں چلا گیا مگر اب اس کا لشکر خالد ؓکے گھیرے میں آ گیا تھا۔عینیہ گھبراہٹ کے عالم میں ایک بار پھر طلیحہ کے پاس گیا اور اسے اپنے لشکر کی کیفیت بتا کر پوچھا کہ وحی نازل ہوئی ہے یا نہیں۔’’ہاں!‘‘طلیحہ نے جواب دیا۔’’وحی نازل ہو چکی ہے۔‘‘’’کیا؟‘‘’’یہ کہ……‘‘طلیحہ نے جواب دیا۔’’مسلمان بھی جنگ لڑ رہے ہیں تم بھی جنگ لڑ رہے ہو ۔تم اس وقت کو کبھی نہ بھول سکو گے۔‘‘عینیہ کوکچھ اور توقع تھی ۔لیکن طلیحہ نے اسے مایو س کر دیا ۔اسے یہ بھی پتا چل گیا کہ طلیحہ جھوٹ بول رہا ہے ۔’’لا ریب ایسا ہی ہو گا۔‘‘عینیہ نے غصے سے کہا۔’’وہ وقت جلد ہی آ رہا ہے جسے تم ساری عمر نہیں بھول سکو گے۔‘‘عینیہ دوڑتا باہر گیا اور چلا چلا کر اپنے قبیلے سے کہنے لگا ۔’’اے بنو فرازہ! طلیحہ کذاب ہے ۔جھوٹے نبی کے پیچھے جانیں مت گنواؤ ۔بھاگو، اپنی جانیں بچاؤ۔‘‘بنو فرازہ تو بھاگ اٹھے ۔طلیحہ کے اپنے قبیلے کے لڑنے والے لوگ طلیحہ کے خیمہ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ خالدؓ تماشہ دیکھنے لگے۔طلیحہ کے خیمے کے ساتھ ایک گھوڑا اور ایک اونٹ تیار کھڑے تھے۔قبیلہ طلیحہ سے پوچھ رہا تھا کہ پھر اب کیا حکم ہے؟طلیحہ کی بیوی جس کا نام نوار تھا، اس کے ساتھ تھی۔طلیحہ گھوڑے پر سوار ہو گیا اور اس کی بیوی اونٹ پر چڑھ بیٹھی۔’’لوگو! ‘‘طلیحہ نے اپنے قبیلے سے کہا۔’’میری طرح جس کے پاس بھاگنے کا انتظام ہے، وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر بھاگ جائے۔‘‘ اس طرح اس کذاب کا فتنہ ختم ہو گیا ۔عمرؓ کے دورِ خلافت میں طلیحہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور مسلمان ہو گیاتھا۔
خالدؓ نے اور کئی قبیلوں کو مطیع کیا اور انہیں ارتداد کی کڑی سزا دی۔ان پر اپنی شرائط عائد کیں،اسلام سے جو منحرف ہو گئے تھے انہیں دوبارہ حلقہ بگوش اسلام کیا۔طلیحہ کی نبوت کو بھی خالدؓ نے ختم کر دیا اور عینیہ جو یہودیوں سے بڑھ کر مسلمانوں کا دشمن تھا،ایسا بھاگا کہ اس نے عراق جا دم لیا،مگر اس کا زہر ابھی پیچھے رہ گیا تھا۔ یہ زہر ایک عورت کی شکل میں تھا جو سلمیٰ کہلاتی تھی۔اس کا پورا نام امِ زمل سلمیٰ بنت مالک تھا۔سلمیٰ بنو فرازہ کے سرداروں کے خاندان کی ایک مشہور عورت ام قرفہ کی بیٹی تھی۔رسولِ کریمﷺ کی زندگی کا واقعہ ہے کہ زید بن حارثہؓ(اسامہؓ کے والد)بنی فرازہ کے علاقے میں جا نکلے ۔یہ قبیلہ مسلمانوں کا جانی دشمن تھا۔وادی القراء میں زید ؓکا سامنا بنی فرازہ کے چند آدمیوں سے ہو گیا۔زیدؓ کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے۔بنی فرازہ کے ان آدمیوں نے ان سب کو قتل کر دیا اور زیدؓ کو گہرے زخم آئے۔وہ گرتے پڑتے مدینہ پہنچ گئے ۔جب ان کے زخم ٹھیک ہو گئے تو رسولِ اکرمﷺ نے انہیں باقاعدہ فوجی دستے دے کر بنو فرازہ پر حملہ کیلئے بھیجا تھا۔مسلمانوں نے بنی فرازہ کے بہت سے آدمیوں کو ہلاک اور کچھ کو قید کر لیا۔جھڑپ بڑی خونریز تھی ۔ان قیدیوں میں ام قرفہ فاطمہ بنت بدر بھی تھی۔اس عورت کی شہرت یہ تھی کہ اپنے قبیلے کے علاوہ دوسرے قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی رہتی تھی۔اسے مدینہ لا کر سزائے موت دے دی گئے۔اس کے ساتھ اس کی کم سن بیٹی ام زمل سلمیٰ بھی تھی۔رسولِ کریمﷺ نے یہ لڑکی ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کے حوالے کر دی۔اسے پیار سے رکھا گیا مگر وہ ہر وقت اداس رہتی تھی۔عائشہ صدیقہؓ نے اس پر رحم کرتے ہوئے اس کو آزاد کر دیا۔بجائے اس کے کہ سلمیٰ مسلمانوں کی شکر گزار ہوتی کہ اسے لونڈی نہ رہنے دیا گیا اور اسے آزاد کر کے اونچی حیثیت میں واپس بھیج دیا گیا اس نے اپنے دل میں اپنی ماں کے قتل کا انتقام رکھ لیا اور جنگی تربیت حاصل کرنے لگی۔وہ سرداروں کے خاندان کی لڑکی تھی ۔اس میں قیادت کے جوہر بھی پیدا ہو گئے۔اس نے مسلمانوں کے خلاف ایک لشکر تیارکر لیا اور مدینہ پر حملے کیلئے پر تولنے لگی۔مگر مسلمان ایک جنگی قوت بن چکے تھے اس لیے سلمیٰ مدینہ کے قریب آنے کی جرات نہ کر سکی۔اب طلیحہ اور عینیہ کو شکست ہوئی تو سلمیٰ میدان میں آ گئی۔ اس کی ماں عینیہ کی چچازاد بہن تھی ،جن قبیلوں نے خالدؓ سے ٹکر لی تھی انہیں یہ لڑائی بڑی مہنگی پڑی تھی۔جو بچ گئے تھے وہ اِدھر اُدھر بھاگ گئے تھے۔ ان میں غطفان ،طئی ،بنو سلیم اور ہوازن کے بعض سرکردہ لوگ سلمیٰ کے ہاں جا پہنچے اور عہد کیا کہ سلمیٰ اگر ان کا ساتھ دے تو وہ مسلمانوں سے انتقام لینے کیلئے جانیں قربان کر دیں گے۔سلمیٰ تو موقع کی تلاش میں تھی وہ تیار ہو گئی اور چند دنوں میں اپنا لشکر تیار کرکے روانہ ہو گئی۔
 اس وقت خالدؓ بزاخہ میں تھے جہاں انہوں نے طلیحہ کو شکست دی تھی۔ اُنہیں اطلاع ملی کہ بنو فرازہ کا لشکر آ رہا ہے ۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو تیار کر لیا۔جس طرح سلمیٰ کی ماں اپنے جنگی اونٹ پر سوار ہو کر لشکر کے آگے آگے چلا کرتی تھی ،اسی طرح سلمیٰ بھی اپنے لشکر کے آگے آگے تھی۔اس کے ارد گرد ایک سو شتر سواروں کا گھیرا تھا جو تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے۔یہ لشکر جوش و خروش بلکہ قہر اور غضب  کے نعرے لگاتا آ رہا تھا ۔خالدؓ نے انتظار نہ کیاکہ دشمن اور قریب آئے۔ان کے ساتھ نفری تھوڑی تھی ،وہ دشمن کواتنی مہلت نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ حملہ کی ترتیب یا قلیل تعداد مسلمانوں کو نفری کی افراط کے بل بوتے پرگھیرے میں لینے کی پوزیشن میں آئے۔خالدؓنے ہلہ بولنے کے انداز سے حملہ کر دیا، انہیں معلوم تھا کہ دشمن کا لشکر سفر کا تھکا ہوا ہے۔ خالدؓ نے دشمن کی اس جسمانی کیفیت سے بھی فائدہ اٹھایا ۔سلمیٰ جو ایک سو جانباز شتر سواروں کے حفاظتی نرغے میں تھی ۔اشتعال انگیز الفاظ سے اپنے لشکر کے جوش و خروش میں جان ڈال رہی تھی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ بنو فرازہ نے خالدؓ کو بڑا ہی سخت مقابلہ دیا۔نفری تھوڑی ہونے کی وجہ سے خالدؓ مجبور ہوتے جا رہے تھے اور دشمن کے حوصلے بڑھتے جا رہے تھے۔سلمیٰ کی للکار اور الفاظ جلتی پر تیل کا کام کر رہے تھے ۔خالدؓ نے سوچا کہ صرف یہ عورت ماری جائے تو بنو فرازہ کے قدم اُکھڑ جائیں گے۔ انہوں نے اپنے چند ایک منتخب جانبازوں سے کہا کہ وہ سلمیٰ کا حفاظتی حصار توڑ کر اسے اونٹ سے گرا دیں ۔سلمیٰ کے محافظ بھی جانباز ہی تھے، وہ خالدؓ کے جانبازوں کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ ان جانبازوں نے یہ طریقہ اختیار کیاکہ ایک ایک محافظ شتر سواروں کو دوسروں سے الگ کر کے مارنا شروع کر دیا۔اس طرح جانبازوں نے گھیرا توڑ دیا لیکن کوئی جانباز سلمیٰ تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔زخمی ہو کر پیچھے آ جاتا تھا۔ آخر پورے ایک سو محافظ مارے گئے ۔خالدؓ کو اس کی بہت قیمت دینی پڑی ۔جانبازوں نے تلواروں سے سلمیٰ کے کچاوے کی رسیاں کاٹ دیں ۔کچاوہ سلمیٰ سمیت نیچے آ پڑا ۔جانبازوں نے خالدؓ کی طرف دیکھا کہ کیا حکم ہے، قیدی بنانا ہے یا قتل کرنا ہے؟خالدؓ نے ہاتھ سے اشارہ کیا ۔ایک جانباز نے تلوار کے ایک ہی وار سے سلمیٰ کا سر تن سے جدا کر دیا۔بنو فرازہ نے یہ منظر دیکھا تو ان میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ اپنی لاشوں اور زخمیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔
مدینہ سے تقریباً دو سو پچھتر میل شمال مشرق میں بطاح نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں بدؤوں کے چند ایک کنبے آباد ہیں ۔اس گاؤں کو کوئی اہمیت کوئی حیثیت حاصل نہیں۔اگر وہاں اِدھر اُدھر غور سے دیکھیں تو ایسے آثار ملتے ہیں جیسے یہاں کبھی شہر آباد رہا ہو۔ چودہ صدیاں گزریں،یہاں ایک شہر آباد تھا ،اس کا نام بطاح تھا۔جو آج تک زندہ ہے مگر شہر سکڑ سمٹ کر چھوٹا سا گاؤں رہ گیا ہے۔ اس شہر میں خوبصورت لوگ آباد تھے ،وہ بہادر تھے نڈر تھے اور باتیں ایسے انداز سے کرتے تھے جیسے کوئی نظم سنا رہے ہوں۔ عورتیں حسین تھیں اور مرد وجیہہ تھے۔یہ ایک طاقت ور قبیلہ تھا جسے ’’بنی تمیم ‘‘کہتے تھے۔بنو یربوع بھی ایک قبیلہ تھا لیکن الگ تھلگ نہیں بلکہ بنی تمیم کا سب سے بڑا حصہ تھا۔اس کا سردار ’’مالک بن نویرہ‘‘ تھا۔بنی تمیم کا مذہب مشترک نہیں تھا ۔ان میں آتش پرست بھی تھے، قبر پرست بھی لیکن اکثریت بت پرست تھی۔بعض عیسائی ہو گئے تھے ،یہ لوگ سخاوت، مہمان نوازی اور شجاعت میں مشہور تھے ۔رسولِ اکرمﷺ نے ہر طرف قبولِ اسلام کے پیغام جن قبیلوں کو بھیجے تھے ان میں بنو تمیم خاص طور پر شامل تھے۔ اسلام کے فروغ اور استحکام کیلئے بنو تمیم جیسے طاقتور اور با اثر قبیلے کو ساتھ ملانا ضروری تھا۔یہ ایک الگ کہانی ہے کہ اس قبیلے نے اسلام کس طرح قبول کیا تھا، مختصر یہ کہ بنی تمیم کی غالب اکثریت نے اسلام قبول کرلیا ۔مالک بن نویرہ منفرد شخصیت اور حیثیت کا حامل تھا۔ وہ آسانی سے اپنے عقیدے بدلنے والا آدمی نہیں تھا۔لیکن اس نے دیکھا کہ بنو تمیم کے بیشتر قبائل مسلمان ہو گئے ہیں تو اس نے اپنی مقبولیت اور اپنی سرداری کو قائم رکھنے کیلئے اسلام قبول کرلیا ۔چونکہ یہی شخص زیادہ با رعب اور اثر و رسوخ والا تھا اس لئے رسولِ کریمﷺ نے اسے بطاح کا امیر مقرر کر دیا تھا۔زکوٰۃ ،عشر دیگر محصول اور واجبات وصول کرکے مدینہ بھجوانا اس کی ذمہ داری تھی ۔مشہور مؤرخ بلاذری اور محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ مالک بن نویرہ بڑا وجیہہ اور خوبصورت آدمی تھا ۔اس کے قد کاٹھ میں عجیب سی کشش تھی ۔اسکے سر کے بال لمبے اور خوبصورت تھے ۔شہسوار ایسا کہ کوئی اس کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا تھا ۔اچھا خاصا شاعر تھا ۔آواز میں مٹھاس اور ترنم تھا اور اس میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہنس مکھ تھا۔ غم کے مارے ہوؤں کو ہنسا دیتا تھا۔ اس میں خرابی یہ تھی کہ اس میں غرور اور تکبر بہت تھا ۔اس کی ایک وجہ تو اس کی وہ حیثیت تھی جو اسے بنو تمیم میں اور خصوصاً اپنے قبیلے میں حاصل تھی دوسری وجہ اس کا مردانہ حسن اور دیگر مردانہ اوصاف تھے۔جو ایک طلسم کی طرح دوسروں پر حاوی ہو جاتے تھے ۔اس کا تعلق متعدد عورتوں کے ساتھ تھا۔ قبیلے کی جوان لڑکیاں اس کا قرب حاصل کرنے کی خواہاں اور کوشاں رہتی تھیں ۔لیکن وہ وقتی تعلق رکھتا اور کسی کو بیوی نہیں بناتا تھا۔کہتا تھا کہ اس طرح ایک عورت اس کے ہم پلہ ہو جائے گی حالانکہ اس وقت بیویوں کو یہ مقام حاصل نہیں تھا۔وہ قبیلے کی عورتوں کے دلوں میں بستا تھا۔اُس کے دِل کو مسخر کرنے والی عورت کا نام لیلیٰ تھا۔مالک بن نویرہ نے لیلیٰ سے شادی کر لی لیلیٰ کو قبیلے نے اُمّ تمیم کا نام دیا تھا۔
 رسولِ کریمﷺ کے وصال کی خبر ملتے ہی مالک بن نویرہ نے مدینہ والوں سے نظریں پھیر لیں اور ظاہر کر دیا کہ اس نے اسلام قبول کیا تھا ایمان نہیں۔اس نے زکوٰ ۃ اور محصولات وصول کرکے اپنے گھر میں رکھے ہوئے تھے ۔چند دنوں تک اس نے یہ مال مدینہ کو بھیجنا تھا۔ اس نے قبیلے کے لوگوں کو اکھٹا کرکے انہیں زکوٰ ۃ اور محصولات واپس کردیئے۔’’اب تم آزاد ہو۔‘‘مالک نے کہا۔’’میں نے مدینہ کی زنجیر توڑ ڈالی ہے۔اب جو کچھ تم کماؤ گے وہ سب تمہارا ہو گا۔‘‘لوگو ں نے دادوتحسین کے نعرے بلندکیے ۔مالک بہت خوش تھا کہ مدینہ سے تعلق توڑ کر وہ اپنے قبیلے کا پھر خود مختار سردار بن گیا ہے مگر اس کی خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔دو تین قبیلوں کے سرکردہ آدمیوں نے مالک سے کہا کہ اس نے مدینہ سے تعلق توڑ کر اچھا نہیں کیا۔ مالک نے انہیں مدینہ کے خلاف کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی زبان کا جادو نا چل سکا۔زکوٰۃ اور محصولات کی ادائیگی کے مسئلے پر بنو تمیم تین حصوں میں بٹ گئے۔ ایک وہ تھے جو زکوٰۃ وغیر ہ کی ادائیگی کرنا چاہتے تھے ۔دوسرے وہ جو مدینہ والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے اور تیسرے وہ تھے جن کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ وہ کیا کریں۔ان سب کے اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ قبیلوں کی آپس میں خونریز لڑائیاں شروع ہو گئیں۔اتنے میں سجاع اپنا لشکر لے کر آ گئی ۔سجاع کا ذکر پہلے آ چکا ہے اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا ۔الحارث کی بیٹی سجاع اپنے لشکر کے ساتھ مالک بن نویرہ کے قبیلے بنو یربوع کے علاقے میں جا خیمہ زن ہوئی ۔اس نے مالک بن نویرہ کو بلاکر کہا کہ وہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔’’اگر تم اپنے قبیلے کو میرے لشکر میں شامل کر دو توہم مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتے ہیں ۔‘‘سجاع نے کہا۔’’تمہیں معلوم ہو گا کہ میں بنو یربوع میں سے ہوں ۔‘‘’’خدا کی قسم!‘‘ مالک بن نویرہ نے کہا۔’’میں تمہارا دستِ راست بن جاؤں گا لیکن ایک شرط ہے جو دراصل ہماری ضرورت ہے۔ تم دیکھ رہی ہوکہ بنو تمیم کے قبیلوں میں دشمنی پیدا ہو چکی ہے۔ ان سب کو مصالحت کی دعوت دے کر انہیں مدینہ پر حملہ کیلئے تیار کریں گے ۔اگر یہ مصالحت پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم انہیں تباہ و بربادکر دیں گے۔اگر تم نے انہیں ختم نہ کیا تو یہ سب مل کر تمہارے خلاف ہو جائیں گے۔ ان میں مدینہ کے وفادار بھی ہیں، انہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کرلیا ہے۔‘‘مالک بن نویرہ کی خواہش یہ تھی کہ سجاع کے لشکر کو ساتھ ملا کر بنی تمیم کے مسلمانوں کو اور اپنے دیگر مخالفین کو ختم کیاجائے ۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ سجاع ،مالک بن نویرہ کے مردانہ حسن و جلال سے متاثر ہو گئی تھی ۔اس نے مالک کی بات فوراً مان لی ۔دونوں نے تمام قبیلوں کے سرداروں کو مصالحت کے پیغامات بھیجے۔پیغام میں یہ بھی شامل تھا کہ مدینہ پر حملہ کیا جائے گا۔ صرف ایک قبیلے کا سردار’’ وکیع بن مالک‘‘ تھا جس نے ان سے مصالحت قبول کرلی۔باقی تمام قبیلوں نے انکار کر دیا۔اس کے نتیجے میں سجاع ،مالک اور وکیع کے متحدہ لشکر نے دوسرے قبیلوں پر حملہ کردیا۔بڑی خونریز لڑائیاں لڑی جانے لگیں۔بنو تمیم جو سخاوت، مہمان نوازی اور زبان کی چاشنی کیلئے مشہور تھے ۔ایک دوسرے کیلئے وحشی اور درندے بن گئے ۔بستیاں اجڑ گئیں ،خون بہہ گیا ،لاشیں بکھر گئیں ۔لیلیٰ کو اپنے دروازے پر عورتوں کی آہ و بکا سنائی دی۔کچھ عورتیں بَین کر رہی تھیں۔’’کیا میں بیوہ ہو گئی ہوں ؟‘‘لیلیٰ ننگے پاؤں باہر کو دوڑی ۔وہ کہہ رہی تھی۔’’ مالک بن نویرہ کی لاش لائے ہیں۔‘‘اس نے دروازہ کھولا تو باہر دس بارہ عورتیں کھڑی بَین کر رہی تھیں۔لیلیٰ کو دیکھ کر ان کی آہ و زاری اور زیادہ بلند ہو گئی ۔تین عورتوں نے اپنے بازوؤں پر ننھے ننھے بچوں کی لاشیں اٹھا رکھی تھیں ۔لاشوں پر جو کپڑے تھے وہ خون سے لال تھے۔’’لیلیٰ کیا تو عورت ہے؟‘‘ایک عورت اپنے بچے کی خون آلود لاش لیلیٰ کے آگے کرتے ہوئے چلائی ۔’’تو عورت ہوتی تو اپنے خاوند کا ہاتھ روکتی کہ بچوں کا خون نہ کر۔‘‘’’یہ دیکھ۔‘‘ایک اور عورت نے اپنے بچے کی لاش لیلیٰ کے آگے کرتے ہوئے کہا۔’’یہ بھی دیکھ۔‘‘ایک اور بچے کی لاش لیلیٰ کے آگے آگئی۔’’یہ دیکھ میرے بچے ۔‘‘ایک عورت نے اپنے دو بچے لیلیٰ کے سامنے کھڑے کرکے کہا۔’’یہ یتیم ہو گئے ہیں ۔‘‘لیلیٰ کو چکر آنے لگا۔عورتوں نے اسے گھیر لیا اور چیخنے چلانے لگیں۔’’تو ڈائن ہے۔‘‘’’تیرا خاوند جلاد ہے۔‘‘’’سجاع کو نبوت کس نے دی ہے؟‘‘’’سجاع تیرے خاوند کی داشتہ ہے۔‘‘’’سجاع تیری سوکن ہے۔‘‘’’تیرے گھر میں ہمارے گھروں کا لوٹا ہوا مال آ رہا ہے۔‘‘’’مالک بن نویرہ تجھے ہمارے بچوں کا خون پلا رہا ہے۔‘‘’’ہمارے تمام بچوں کو کاٹ کر پھینک دے ،ہم سجاع کی نبوت نہیں مانیں گی۔‘‘’’ہمارے نبی محمدﷺ ہیں ۔محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘بستی کے لوگ اکھٹے ہوگئے ۔ان میں عورتیں زیادہ تھیں۔ لیلیٰ نے اپنا حسین چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔اس کا جسم ڈولنے لگا۔دو عورتوں نے اسے تھام لیا۔اس نے اپنے سر کو زور زور سے جھٹکا اور وہ سنبھل گئی۔ اس نے عورتوں کی طرف دیکھا ۔’’میں تمہارے بچوں کے خون کی قیمت نہیں دے سکتی۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’میرا بچہ لے جاؤ اور اسے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔‘‘’’ہم چڑیلیں نہیں۔‘‘ایک شور اٹھا ۔’’ہم ڈائنیں نہیں۔لڑائی بند کراؤ۔لوٹ مار اور قتل و غارت بند کراؤ۔تمہارا خاوند وکیع بن مالک اور سجاع کے ساتھ مل کر لوٹ مار کر رہا ہے ۔‘‘’’لڑائی بند ہو جائے گی۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’بچوں کی لاشیں اندر لے آؤ۔‘‘مائیں اپنے بچوں کی لاشیں اندر لے گئیں۔ لیلیٰ نے تینوں لاشیں اس پلنگ پر رکھ دیں جس پر وہ اور مالک بن نویرہ سویا کرتے تھے۔
مالک بن نویرہ لیلیٰ کا پجاری تھا۔اس پر لیلیٰ کا حسن جادو کی طرح سوار تھا۔اس زمانے میں سردار اپنی بیویوں کو لڑائیوں میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔لیکن یہ لڑائی اس قسم کی تھی کہ مالک لیلیٰ کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا تھا۔لیلیٰ سے وہ زیادہ دیرتک دور بھی نہیں رہ سکتا تھا۔اگر کہیں قریب ہوتا تو رات کو لیلیٰ کے پاس آجایا کرتا تھا۔وہ اس رات آ گیا۔کیا اس پلنگ پر کوئی سویا ہوا ہے؟‘‘مالک بن نویرہ نے پوچھا۔’’نہیں۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’تمہارے لیے ایک تحفہ ڈھانپ کر رکھا ہوا ہے……تین پھول ہیں لیکن مرجھا گئے ہیں۔‘‘مالک نے لپک کر چادر ہٹائی اور یوں پیچھے ہٹ گیا جیسے پلنگ پہ سانپ کنڈلی مارے بیٹھاہو۔اس نے لیلیٰ کی طرف دیکھا۔’’خون پینے والے درندے کیلئے اس سے اچھا تحفہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘لیلیٰ نے کہا اور اسے سنایا کہ ان کی مائیں کس طرح آئی تھیں اور کیا کچھ کہہ گئی ہیں۔اس نے اپنا دودھ پیتا بچہ مالک کے آگے کر کے کہا۔’’جا!لے جا اسے اور اس کا بھی خون پی لے۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’کیا تو وہ مالک بن نویرہ ہے جسے لوگ ہنس مکھ کہتے ہیں؟کیایہ ہے تیری سخاوت اور شجاعت کہ تو ایک عورت کے جال میں آکر لوٹ مار کرتا پھر رہا ہے ؟اگر تو بہادر ہے تو مدینہ پر چڑھائی کر۔یہاں نہتے مسلمانوں کو قتل کرتا پھر رہا ہے۔‘‘مالک بن نویرہ معمولی آدمی نہیں تھا۔اس کی شخصیت میں انفرادیت تھی جودوسروں پر تاثر پیدا کرتی تھی۔اس نے طعنے کبھی نہیں سنے تھے۔اس کا سر کبھی جھکا نہیں تھا۔’’کیایہ ہے تیرا غرور؟‘‘لیلیٰ نے اسے خاموش کھڑا دیکھ کر کہا۔’’کیا تو ان معصوم بچوں کی لاشوں پر تکبر کرے گا؟……ایک عورت کی خاطر……ایک عورت نے تیرا غرور اور تکبر توڑ کر تجھے قاتل اور ڈاکو بنا دیا ہے۔میں اپنے بچے کو تیرے پاس چھوڑ کر جا رہی ہوں۔پیچھے سے ایک تیر میری پیٹھ میں اتار دینا۔‘‘ ’’لیلیٰ!‘‘مالک بن نویرہ گرج کربولا مگر بجھ کہ رہ گیااور مجرم سی آواز میں کہنے لگا۔’’میں کسی عورت کے جال میں نہیں آیا۔‘‘’’جھوٹ نہ بول مالک!‘‘ لیلیٰ نے کہا۔’’میں جا رہی ہوں۔سجاع کو لے آ یہاں ……یہ یاد رکھ لے۔تیری سرداری ،تیری خوبصورتی ،تیری شاعری اور تیری خونخواری تجھے ان مرے ہوئے بچوں کی ماؤں کی آہوں اور فریادوں سے بچا نہیں سکیں گی۔یہ تو صرف تین لاشیں ہیں ۔بستیوں کولوٹتے معلوم نہیں کتنے بچے تیرے گھوڑوں کے قدموں تلے کچلے گئے ہوں گے۔تو سزا سے نہیں بچ سکے گا ۔تیرا بھی خون بہے گا اور میں کسی اور کی بیوی ہوں گی۔‘‘ مالک بن نویرہ نے یوں چونک کر لیلیٰ کی طرف دیکھا جیسے اس نے اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ہو ۔وہ آہستہ آہستہ چلتا باہر نکل گیا۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟


عباسی خلیفہ، ہارون رشید اپنے لائو لشکر کے ساتھ شہر ’’رقہ‘‘ میں خیمہ زن تھے۔ اتفاق سے اس موقعے پر امام الحدیث، حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کا وہاں سے گزر ہوا۔ ان کے استقبال کا یہ عالم تھا کہ لوگ جوق در جوق راستوں پر اس طرح کھڑے تھے، جیسے انسانوں کا سمندر ہو۔ تاحدِنظر لوگوں کے سر ہی سر تھے۔ اُفق پر شدید گرد و غبار چھایا ہوا تھا۔ امام الحدیث کی ایک جھلک دیکھنے کی جدوجہد میں لوگوں کے پیروں کی جوتیاں اُتر چکی تھیں، کپڑے پھٹ چکے تھے۔ خلیفہ کی ایک کنیز نے جب شوق ِدید میں یہ منظر دیکھا، تو حیرت زدہ ہو کر پوچھا ’’یہ کیا ماجرا ہے اور یہ سب کس کے انتظار میں ہیں؟‘‘ اسے بتایا گیا کہ ’’خراسان کے امام و عالم، شیخ الحدیث، حضرت عبداللہ بن مبارکؒ شہر میں تشریف لا رہے ہیں اور یہ خلقت، ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار ہے۔‘‘ یہ سن کر کنیز بے ساختہ کہہ اُٹھی ’’بہ خدا، بادشاہت اس کو کہتے ہیں۔ ہارون کی کیا بادشاہت ہے، جن کے لیے لوگ، اہل کاروں کے زور اور دبائو کے باعث جمع ہوتے ہیں۔‘‘

خواجہ حسن بصریؒ اپنے علم و فضل کی وجہ سے عوام النّاس میں بے انتہا مقبول تھے۔ لوگ ان سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ بنو اُمیّہ کا سخت مزاج حاکم، حجّاج بن یوسف بصرے کا گورنر تھا۔ ایک دن اس نے خالد بن صفوان سے پوچھا ’’بصرے کا سردار کون ہے؟‘‘ اس کا خیال تھا کہ خالد بن صفوان اس کا نام لیتے ہوئے تعریفی کلمات کہیں گے، لیکن خالد نے جواب دیا کہ ’’حسن‘‘ حجّاج نے حیران ہوکر تعجب سے پوچھا کہ ’’یہ کیوں کر ممکن ہے، حسن تو غلاموں کی اولاد ہے۔‘‘ خالد نے نڈر ہوکر بھرے دربار میں جواب دیا۔ ’’حسن اس لیے سردار ہیں کہ لوگ اپنے دین میں ان کے محتاج ہیں اور وہ ان کی دُنیا میں کسی کے محتاج نہیں۔ بہ خدا! میں نے بصرے میں کسی عزت دار کو نہیں دیکھا، جو حسن کے حلقے میں پہنچنے کی کوشش نہ کرتا ہو۔ ہر شخص ان کا وعظ سننے اور ان سے علم حاصل کرنےکا آرزومند رہتا ہے۔‘‘ یہ سن کر حجّاج بے اختیار بول پڑا، ’’خدا کی قسم یہی سرداری ہے۔‘‘ ان دو واقعات سے علماء کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خود قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت اپنے محبوبؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ’’(اے نبی!) ان سے پوچھو کہ کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنےوالے کبھی یکساں ہوسکتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الزمر)

علماء انبیاء کے وارث: امام الانبیاء، خاتم النبیین سیّدالمرسلین، رسالت مآب، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’علماء، انبیاء کے بعد ان کے وارث اور قائم مقام ہوں گے۔‘‘ (مشکوٰۃ) انبیاء کے علم کی بنیاد، وحی الٰہی تھی۔ علم، انبیاء علیہ السلام اور خاص طورپر اللہ کے آخری رسول، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلیم کی میراث ہے۔ اس مقدس میراث کو علمی اور عملی شکل میں رہتی دُنیا تک عوام النّاس تک پہنچانے کی ذمّے داری اہلِ علم کے حصّے میں آئی، جو وارثِ انبیاء اور جا نشینانِ نبوت کہلائے۔ گزرتے وقت کے ساتھ تیز رفتار معاشرتی تبدیلیوں، سماجی پیچیدگیوں، ماحولیاتی تغیّر اور نت نئے مسائل کا حل احکاماتِ الٰہی اور فرمانِ نبویؐ کی روشنی میں تلاش کرکے اس کی درست، احسن اور قابلِ عمل تشریح و توضیح پیش کرنے کی بھاری ذمّے داری بھی علمائے حق ہی کےکاندھوں پر ہے۔ کفر و الحاد کے اس دور میں کہ جب پوری دُنیا مسائل کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں امّتِ مسلمہ کی رہنمائی کسی جاہل یا کم علم انسان کے بس کی بات نہیں، اسی لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علمائے حق کو نبیوں کا وارث اور ان کا قائم مقام قرار دیا۔ آسمان کے فرشتوں سے لے کر زمین کی چیونٹیوں اور دریائی مچھلیوں تک تمام مخلوقات ان سے محبت کرتی اور ان کے لیے دُعائے خیر کرتی ہیں۔

عالم کو باعمل ہونا چاہیے: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’آدمی اس وقت تک عالم نہیں ہوتا، جب تک وہ اپنے علم پر عمل کرنے والا نہ ہو۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓنے حضرت کعبؓسے پوچھا ’’اہلِ علم کون لوگ ہیں؟‘‘ حضرت کعبؓ نے جواب دیا، ’’وہ جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں۔‘‘(مشکوٰۃ)حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں، ’’اے علم والو! اپنے علم پر عمل کرو، کیوں کہ عالم وہی ہے، جو علم حاصل کر کے عمل کرے اور جس کے علم و عمل میں تضاد نہ ہو۔ جلد ایسے لوگ پیدا ہوں گے، جو علم تو رکھیں گے، مگر علم ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا۔ ان کا باطن ان کے ظاہر سے مختلف ہوگا۔ ان کا علم ان کےعمل کے خلاف رہے گا۔‘‘ حضرت زین العابدینؓ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ کی مہرِ مبارک پر کندہ تھا ’’جان چکا، عمل کر۔‘‘ حضرت مالک بن دینار کا فرمان ہے، ’’بے عمل عالم کی نصیحت دلوں پر ویسا ہی اثر کرتی ہے، جیسے بارش سنگلاخ چٹانوں پر، جس طرح بارش سے سنگلاخ چٹان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اسی طرح بے عمل عالم کی نصیحت کا بھی سننے والے کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔‘‘ خود قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتےہو۔‘‘ (سورۃ البقرہ) قرآن مجید میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ’’مومنو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو، جو خود نہیں کرتے۔ (سورۃ الصف)

علماء کی قِسمیں: بصرے کے مشہور عالم، حضرت ابو قلابہؒ فرماتے ہیں کہ عالم تین قسم کے ہوتے ہیں۔ (1) ایک وہ، جو اپنے علم سے خود تو زندگی حاصل کرلیتے ہیں، مگر دوسروں کو ان کے علم سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ (2) دوسرے وہ، جن کے علم سے خلقِ خدا تو زندگی حاصل کرتی ہے، لیکن وہ خود محروم رہتے ہیں۔ (3) تیسرے وہ، جنہوں نے اپنے علم سے خود بھی زندگی پائی اور ان کے علم سے عوام النّاس نے بھی فیض حاصل کیا۔

عالم کی چار خصوصیات:

(1)علماء باعمل اورباکردار ہوں۔ 

 (2) علومِ شریعہ پر عبور ہو۔ 

(3) غور و خوض، تفکّر و تدبّر کے حامل ہوں۔ 

(4) امَربالمعروف و نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہوں۔

علم کے پانچ درجات:حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں کہ علم کے پانچ درجات ہیں۔ 

(1) علم حاصل کرتے وقت خاموشی اختیار کی جائے۔

(2) عالم کی باتیں توجّہ سے سنی جائے۔ 

(3) علم سے جو کچھ حاصل ہو، اسے یاد رکھاجائے۔ 

(4) جو کچھ معلوم ہو جائے، اس پر عمل کیا جائے۔ 

(5) جوعلم حاصل ہو، اسے پھیلایا جائے۔

علم کی فضیلت :قرآنِ کریم میں اللہ جل شانہ اپنے پیارے محبوبؐ کو ہدایت فرماتا ہے۔ ’’دُعا کرو، اے میرے رب، مجھے مزید علم عطا فرما۔‘‘ (سورئہ طٰہ)۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا فرمان ہے ’’علم پیغمبروں کی میراث اور مال کفار کی۔‘‘ حضرت علی مرتضیٰؓ نے فرمایا ’’علم، مال سے بہتر ہے، کیوں کہ مال کی نگرانی کرنی پڑتی ہے، مگر علم، تمہارا نگراں ہوتا ہے۔ مال خرچ کرنے سے ختم ہو جاتا ہے، مگر علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔ علم حاکم ہے اور مال محکوم، مال دار، فنا ہوجائیں گے، مگر علم والے رہتی دنیا تک زندہ رہیں گے۔ بے شک ان کے جسم مٹ جاتے ہیں، مگر ان کے کارنامے کبھی مٹنے والے نہیں۔‘‘ حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں ’’جو شخص علم سے محبت نہ کرے، اسے اپنا دوست نہ بنائو۔‘‘ آگے فرماتے ہیں ’’علمِ دین کا حصول، نفل نماز پڑھنے سے زیادہ افضل ہے۔‘‘ حضرت امام زہریؒ کا فرمان ہے ’’علم سےبہتر کوئی چیز نہیں، جس سے خدا کی عبادت ممکن ہو۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پہلی وحی نازل ہوئی، اس کا پہلا لفظ ہی اقراء یعنی ’’پڑھ‘‘ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم کے حوالے سے فرمان ہے،’’میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ۔‘‘ حضرت بابا فرید گنج شکر کا مشہور قول ہے، ’’اگر زندگی ہے، تو علم میں ہے۔ اگر راحت ہے، تو معرفت میں ہے۔ اگر شوق ہے، تو محبتِ الٰہی میں۔ اگر رزق ہے، تو ذکرِ الٰہی میں۔‘‘ ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’گہوارے سے قبر تک علم کی طلب جاری رکھو۔‘‘

علماء کا اَدب و احترام:علمائے کرام کا ازحداَدب و احترام کیا جائے اور ان کے ساتھ عقیدت و محبت سے پیش آیا جائے۔ حضرت عبادہؓ بن صامت سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص بڑوں کی عزت نہ کرے، چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور علماء کا حق نہ پہچانے، وہ میری اُمت میں سے نہیں۔‘‘ (طبرانی) حضرت ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’علماء کی عزت کرو، کیوں کہ یہ انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘ (کنزالعمال) سیّدنا علی مرتضیٰؓ نے فرمایا ’’عالم کا تم پر یہ حق ہے کہ تم مجلس میں لوگوں کو بالعموم سلام کرو اور عالم کو خصوصیت کے ساتھ علیٰحدہ سلام کرو۔ اگر ان کے سامنے بیٹھو، تو ہاتھ سے یا آنکھوں سے اشارے نہ کرو، جب وہ کوئی مسئلہ بتائیں، تو یہ نہ کہو کہ فلاں نے تو اس کے خلاف کہا ہے۔ ان کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرو، نہ ان کی مجلس میں کسی سے سرگوشی کرو۔ ان کے کپڑے کو نہ پکڑو، کیوں کہ وہ کھجور کے درخت کی طرح ہے، تم منتظر رہو کہ تم پر کب اس سے کوئی پھل گرتا ہے، کیوں کہ مومن عالم کا اجر، روزے دار اور قیام کرنے والے عابد اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے شخص سے زیادہ ہے اور جب عالم مرتا ہے، تو اسلام میں ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے، جسے قیامت تک پر نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ (کنزالایمان)

علماء کے ساتھ حسنِ سلوک: بلاشبہ، علماء معاشرے میں بہترین سلوک کے حق دار ہیں۔ عوام النّاس کا یہ فرض ہے کہ علماء کی علمی اور دینی خدمات کے پیشِ نظر ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں، ان کی تعظیم، اطاعت کے ساتھان سے عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔ ان کے آرام اور دیگر ضروریات کا خیال رکھیں۔ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے علم کی پیاس بجھائیں۔ ان سے کسی مسئلے پر اختلاف کی صورت میں ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا نقطہ نظر پیش کریں اور مجلس میں علماء سے بحث و مباحثے یا تکرار سے گریز کریں۔حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عالم، زمین پر اللہ کا سلطان ہے، جو اس کی مذمت کرے گا، وہ ہلاک ہوگا۔‘‘(مجمع الزوائد)۔ یاد رہے، علمائے حق کی تضحیک دلوں پر مہر لگا دیتی ہے، جس سے سیکھنے کا عمل ختم ہوجاتا ہے، جب کہ علماء کے ساتھ حسنِ سلوک، ذہنی سکون و اطمینان کا باعث بنتا ہے، لہٰذا ان کی محفلوں میں ادب و احترام سے شرکت کریں، جہاں جگہ مل جائے، بیٹھ جائیں۔ آگے بڑھ کر بیٹھنے کی کوشش نہ کریں۔ ان کی اجازت کے بغیر گفتگو نہ کریں۔ جب بھی بات کریں، مختصر کریں۔ سوال کرنے سے پہلے اجازت لیں، راستے میں ان سے آگے چلنے سے گریز کریں۔

علماء کا مقام و مرتبہ:علماء کا یہ بھی حق ہے کہ عوام النّاس ان کے مرتبے ومقام کو تسلیم کریں اور انہیں وہ عزت و احترام دیں، جس کے وہ اہل ہیں۔ علومِ شرعیہ کی ترویج و اشاعت اور تبلیغ کی بھاری ذمّے داری علماء کے کاندھوں پر ہے۔ علماء یہ اہم فرائض بہ احسن و خوبی اسی وقت انجام دے سکتے ہیں، جب معاشرے میں انہیں جائز مقام دیا جائے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ’’زمین پر علماء آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں، جن سے سمندر اور خشکی پر ہدایت حاصل کی جاتی ہے، اگر ستارے چھپ جائیں، تو قریب ہے کہ ہدایت حاصل کرنے والے بھٹک جائیں۔‘‘ (مسندِ احمد) حضرت عبدالرحمنٰ بن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’عالم کی عابد پر ستّر درجے فضیلت ہے اور ہر درجے کے درمیان آسمان اور زمین جتنا فاصلہ ہے۔‘‘ (ابویعلیٰ) حضرت زید بن اسلم ؒ تابعی غلام تھے، مگر ان کے علمی فضل و کمال کا یہ عالم تھا کہ جہاں سے گزرتے، ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگوں کا ہجوم لگ جاتا تھا۔ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت زید بن اسلم ؒ کو ایک نظر دیکھ لینے سے عبادت میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت ابو حازم ؒ فرماتے ہیں کہ ’’اے اللہ! تو خوب واقف ہے کہ میں زید کو اس لیے دیکھتا ہوں کہ ان کو دیکھنے سے تیری عبادت کی طاقت آتی ہے۔‘‘ حضرت نافعؓ ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کے علم و فضل کا یہ عالم تھا کہ حافظ زہبی رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں امام العِلم کے لقب سے یاد فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان کے بڑے قدر دان تھے،وہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’اللہ نے نافعؓ کے ذریعے ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے۔‘‘ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کو حضرت نافعؓ کی بیان کردہ احادیث پر اتنا یقین تھاکہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’جب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ کوئی حدیث نافعؓ سے سن لیتا ہوں، تو پھر مجھے کسی اور سے اس کی تصدیق کی ضرورت نہیں رہتی۔‘‘ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ بربر النسل تھے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ کم سِنی ہی میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس آگئے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ نے ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت بڑے نازونعم کے ساتھ کی، وہ مسلسل چالیس سال تک قرآن، حدیث، تفسیر، فقہ اور دیگر علومِ شرعیہ کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ کا شمار اپنے وقت کے بڑے علماء میں ہونے لگا اور ایک وقت آیا کہ جیّد علماء انہیں رشک کی نظر سے دیکھتے اور ان کی مجلس میں بیٹھنا باعثِ سعادت سمجھتے۔ علامہ ابنِ سعد لکھتے ہیں کہ’’ حضرت عکرمہ ؒ، علم کے سمندروں میں سے ایک سمندر تھے۔‘‘

علماء کی اتباع: علماء کی مجالس میں بیٹھنے والوں کے دلوں میں خوفِ خدا اور خشیتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ جس کی بناء پر سننے والا گناہ ترک کرکے خود کو اللہ کی راہ پر گام زن کردیتا ہے۔ ایک بار حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے پوچھا ’’اب تیری دانائی کس منزل پر ہے؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا ’’غیرضروری باتوں سے پرہیز کرنے لگا ہوں۔‘‘ حضرت لقمان نے کہا ’’ابھی ایک کسر باقی ہے، اور وہ یہ کہ علم رکھنے والوں کی صحبت میں بیٹھو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ دانائی کے نور سے مردہ دلوں کو اس طرح زندہ کردیتا ہے، جس طرح مینہ سے مردہ زمین کو۔‘‘ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا ’’علماء کی اتباع کرو، کیوں کہ وہ دنیا اور آخرت کے چراغ ہیں۔ (کنزالعمال) حضرت ابو امامہ باہلیؓ بیان کرتے ہیں ’’رسول اللہﷺ کے سامنے دو آدمیوں کا تذکرہ کیا گیا، جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم۔ آپﷺ نے فرمایا ’’عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح سے ہے، جیسے میری تمہارے ایک ادنیٰ ترین آدمی پر۔‘‘ پھر فرمایا ’’یقیناً اللہ تعالیٰ فرشتے اور تمام اہلِ زمین و آسمان، یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں (بھی) اس شخص کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں اور رحمت بھیجتی ہیں، جو لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا ہے۔‘‘ (ترمذی)

علمائے حق اور علمائے سوء: علمائےحق، اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں، جو معاشرے میں امن آشتی اور بھائی چارے کو عام کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف علمائے سوء معاشرے میں انتشار کا باعث بنتے ہیں۔ حضرت عمرو بن احوصؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ’’ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺسے شر کے بارےمیں دریافت کیا، توحضوراکرمﷺ نےفرمایا ’’مجھ سے شرکے بارے میں نہیں، بلکہ خیر کے بارے میں معلوم کرو۔ بروں میں سب سے برے علماء بھی ہیں اور اچھوں میں سب سے بہتر بھی علماء ہی ہیں۔ (دارمی) اس حدیثِ مبارکہ ؐ میں بتایا گیا ہےکہ علماء دو طرح کے ہیں۔ ایک اچھے علماء، جنہیں علمائے حق، جب کہ دوسرے برے علماء، جنہیں علمائےسوء کہتےہیں۔ علمائے حق کا کردار ہی ان کے علم و عمل کی گواہی دیتا ہے، ان کی ذات سے پھوٹتا عشقِ الٰہی اور محبتِ رسول اکرم ﷺ معاشرے میں ان کی پہچان کروانے کے لیے کافی ہے، جب کہ علمائے سوء اس کے برعکس چہرہ پیش کرتے نظر آتے ہیں اور جہنم کے حق دار ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’اللہ تعالیٰ علمِ دین کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سے نکال لے، بلکہ اہلِ علم کو موت دے کر علم کو اٹھالے گا۔ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا، تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے اور ان سے مسائل پوچھے جائیں گے، تو وہ بغیر علم کے فتوے دے کر خود بھی گم راہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی کریں گے۔ (صحیح بخاری)

تحریر: محمود میاں نجمی

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget