جولائی 2018
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 احتیاط کا عالم: 

سیّدنا عمر بیعت سے پہلے خوش خوراک اور کھانے کے شوقین تھے۔ ایک مرتبہ اہلیہ سے کہا۔ ’’فاطمہ! انگور کھانے کو دل چاہتا ہے۔ اگر تمہارے پاس کچھ ہو، تو دو۔‘‘ انہوں نے کہا ’’میرے پاس تو ایک کوڑی بھی نہیں ہے۔ آپ تو امیرالمومنین ہیں۔ کیا آپ کا اتنا بھی اختیار نہیں کہ انگور کھا لیں؟‘‘ اس وقت سیّدنا عمر نے جو تاریخی الفاظ ادا کیے، وہ آج کے تمام مسلمان حکمرانوں کے لیے باعثِ عبرت ہیں۔ آپ نےفرمایا، ’’انگوروں کی تمنّا دل میں لے جانا بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ کل کو دوزخ میں زنجیروں میں جکڑا جائوں۔‘‘ (تاریخ الخلفاء)۔سیّدنا عمر کو لبنان کا شہد بہت پسند تھا۔ ایک مرتبہ اہلیہ سے خواہش کا اظہار کیا۔ اہلیہ نے خاموشی سے لبنان کے حاکم ابن معدی کرب کو کہلا بھیجا۔ اس نے بہت سارا شہد بھیج دیا۔ اہلیہ نے خوش ہوتے ہوئے سیّدنا عمر کو پیش کیا۔ آپ نے شہد دیکھ کر فرمایا، ’’معلوم ہوتا ہے کہ تم نے ابنِ معدی کرب کے پاس سے منگوایا ہے؟ میں اسے ہرگز نہیں کھائوں گا۔‘‘ بعدازاں، سارا شہد فروخت کرکے اس کی قیمت بیت المال میں جمع کروادی اور ابنِ معدی کرب کو خط لکھا کہ ’’تم نے فاطمہ کے کہلانے پر شہد بھیجا ہے۔ خدا کی قسم، اگر تم نے آئندہ ایسا کیا، تو یاد رکھو، تم اپنے عہدے پر نہیں رہ سکو گے اور میں کبھی تمہارے چہرے پر نگاہ بھی نہیں ڈالوں گا۔‘‘ (سیرت عمر بن عبدالعزیز)۔

سیّدنا عمر بن عبدالعزیزؒ اور رنگِ فاروقیؓ:
بنو مروان کے امراء اور آپ کے عزیزواقارب اپنی جائیدادوں کی ضبطی اور وظائف کی بندش کی وجہ سے آپ سے سخت ناخوش تھے۔ یہ لوگ مختلف اوقات میں آپ کے پاس پیغامات اور سفارشیں بھیجتے رہتے۔ ایک مرتبہ یہ سب آپ کی پھوپھی امّ عمر کے پاس چلے گئے۔ امّ عمر ان کی بات سن کر سیّدنا عمر کے پاس گئیں۔ آپ اپنی پھوپھی کا بہت ادب و احترام کرتے تھے۔ امّ عمر نے کہا ’’تمہارے رشتے دار تمہاری شکایت کرتے ہیں کہ تم نے ان سے وہ تمام چیزیں لے لیں، جو دوسروں نے عطا کی تھیں اور ان کے وظائف بھی بند کردیئے۔‘‘ آپ نے کہا۔ ’’اے پھوپھی! میں نے ان کی کوئی ایسی چیز نہیں لی، جو ان کی اپنی کمائی کی ہو۔ ان کے پاس جو دوسروں کی غصب کی ہوئی چیزیں تھیں، وہ میں نے ان سے واپس لے لی ہیں۔‘‘پھوپھی نے کہا۔’’ اے عمر! مجھے اندیشہ ہے کہ وہ سب کسی سخت دن تم پر ٹوٹ پڑیں گے۔‘‘سیّدنا عمر نے کہا! ’’اے پھوپھی جان! میں سوائے قیامت کے، کسی اور دن سے نہیں ڈرتا۔ روزِ قیامت کے شر سے اللہ مجھے بچائے۔‘‘پھر آپ نے ایک دینار ا ور ایک لوہے کے ٹکڑے کو آگ پر خوب گرم کیا۔ جب وہ سرخ ہوگیا، تو اپنی جیب میں ڈالا اور کہا۔ ’’اے پھوپھی! آپ کو اس قسم کی تکلیف سے اپنے بھتیجے پر رحم نہیں آتا۔‘‘ امّ عمر رشتے داروں کے پاس گئیں اور کہا۔ ’’عمر بن خطابؓ کے خاندان میں نکاح کرتے ہو،مگر جب اولاد میں رنگِ فاروقیؓ ظاہر ہوتا ہے، تو شکایتیں کرتے ہو۔ اب اس پر صبر کرو۔‘‘

بنو مروان کی ناراضی کی انتہا:
ایک مرتبہ بنو مروان، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دروازے پر جمع ہوگئے اور آپ کے صاحب زادے سے کہا ’’اپنے والد سے کہو کہ آپ سے پہلے جتنے خلیفہ گزرے ہیں، وہ سب ہمیں کچھ عطا کرتے اور جاگیریں مخصوص کرتے رہے ہیں، لیکن آپ نے خلیفہ ہوکر ہم پر تمام چیزیں حرام کردی ہیں۔‘‘ آپ کے صاحب زادے نے یہ پیغام پہنچایا، تو آپ نے فرمایا۔ ’’ان سب سے کہہ دو کہ میرے والد کہتے ہیں کہ ’’وہ سب اللہ کا مال تھا، جو میں نے بیت المال میں جمع کروادیا۔ اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں گا، تو قیامت والے دن کیا جواب دوں گا۔‘‘ (تاریخِ خلفاء)۔

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن:
بنو مروان کی رقابت و دشمنی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی، بالآخر ایک غلام کے ذریعے آپ کو زہر دے دیا گیا۔ ولید بن ہشام کہتے ہیں کہ ’’کسی نے آپ سے مرض کی حالت میں عرض کیا کہ ’’آپ دوا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ آپ نے فرمایا، ’’جس وقت مجھے زہر دیا گیا، مجھے معلوم تھا۔ اگر مجھ سے اس وقت کہا جاتا کہ تم اپنے کان کی لو کو ہاتھ لگائو یا فلاں خوشبو سونگھو، اس میں تمہاری شفا ہے، تو میں ایسا کبھی نہ کرتا۔‘‘ (کیوں کہ اگر میں مرگیا، تو زہر کی وجہ سے شہید ہوں یا یہ کہ دوا کرنا منافی توکّل ہے)۔ آپ نے اس غلام کو بلایا جس نے آپ کو زہر دیا تھا اور فرمایا، ’’تجھ پر افسوس ہے، تجھے اس کام پر کس طمع نے آمادہ کیا؟‘‘ اس نے کہا ’’مجھے اس کے عوض ایک ہزار دینار دیئے گئے ہیں اور آزادی کا وعدہ کیا گیاہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’ان دیناروں کو میرے پاس لا۔‘‘ چناں چہ وہ لایا۔ آپ نے ان کو بیت المال میں جمع کروادیا اور غلام سے کہا کہ ’’تو یہاں سے اس طرح بھاگ کہ پھر کسی کو تیری صورت نظر نہ آئے۔‘‘ (تاریخ الخلفاء)۔ابراہیم بن میسرہ سے مروی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنی وفات سے پہلے اپنی قبر کی زمین دس دینار میں خریدی۔ زہر کے اثرات میں 20دن مبتلا رہنے کے بعد 25رجب101ہجری کو صرف 39 سال 5 ماہ کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ صرف2سال5ماہ اور4دن تک مسندِ خلافت پر فائز رہے۔ (طبقاتِ ابنِ سعد)۔ اس مختصر سے عرصے میں آپ نے امّتِ مسلمہ کی سربلندی اور عوام النّاس کی فلاح و بہبود کے حوالے سے وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، جنہوں نے رہتی دنیا تک آپ کے نام کو زندہ و جاوید کردیا۔ آپ کے انتقال سے نہ صرف مسلمانوں کے گھروں میں صفِ ماتم بچھ گئی، بلکہ مسیحیوں اور یہودیوں میں بھی غم کی لہر دوڑ گئی۔ راہبوں نے آپ کے انتقال کی خبر سن کر اپنے عبادت خانوں میں سر پیٹ لیے کہ آج دنیا میں عدل قائم کرنے اور انصاف فراہم کرنے والا اٹھ گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا نے ایسا عادل اور منصف حکمراں پھر کبھی نہیں دیکھا۔

ترکے کی تقسیم:
آپ کی تین بیویاں اور گیارہ بیٹے تھے، جب کہ چھوڑے گئے ترکے کی کل رقم صرف21دینار تھی، ان میں سے چند دینار کفن دفن میں صرف ہوگئے، باقی بچّوں میں تقسیم کیے گئے، تو ہر بچّے کو ترکے میں ایک دینار ملا۔ عبدالرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر کا بیان ہے کہ ’’عمر بن عبدالعزیز ؒ نے گیارہ بیٹے چھوڑے اور ہشّام بن عبدالملک نے بھی گیارہ بیٹے چھوڑے۔ عمر بن عبدالعزیز کے ہر بیٹے کو ترکے میں ایک ایک دینار ملا اور ہشام کے بیٹوں کو باپ کے ترکے سے دس دس لاکھ درہم ملے، لیکن میں نے دیکھا کہ عمر بن عبدالعزیز ؒکے ایک بیٹے نے جہاد کے لیے100گھوڑے دیئے، جب کہ ہشام کے ایک بیٹے کو لوگوں سے صدقہ وصول کرتے دیکھا گیا۔(تاریخِ اسلام، اکبر شاہ نجیب آبادی)۔

مختصر دورِ خلافت کے چند اہم کارنامے: 
خلافتِ راشدہ کا عملی نفاذ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنے دورِ خلافت کو خلافتِ راشدہ کی طرز پر قائم کر کے عہدِ صدیقیؓ اور عہدِ فاروقیؓ کی یاد تازہ کر دی۔

اتحاد بین المسلمین کے داعی:
آپ اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ بنو امیّہ کے دور میں کچھ لوگ صحابہ کرام اجمعینؓ کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے تھے، آپ نے ایسے تمام امور پر پابندی لگادی، جو فرقہ واریت کو فروغ دیں۔ آپ نے امّتِ مسلمہ کے تمام فرقوں کو بھائی چارے کی مضبوط رسّی میں پرو دیا۔

عدل و انصاف کی فوری فراہمی:
آپ نے عدل و انصاف کی فراہمی کو آسان اور عام کیا اور عدل و انصاف کو غریب کی دہلیز تک پہنچایا۔ اچھے اور قابل علماء کو قاضی اور منصف مقرر کیا۔ مظلوموں، مجبوروں کے لیے اپنی خلافت کے دروازے کھلے رکھے۔ اپنے امراء اور گورنرز کو سختی سے پابند کردیا کہ کسی بھی جرم میں لوگوں کی گردن نہ اڑائی جائے۔ قتل کے ہر کیس کو اپنے پاس منگوا کر مکمل تحقیق کے بعد حق و انصاف کی روشنی میں اس کا فیصلہ کیا جاتا۔ مرتد کےفوری قتل سے منع فرما دیا۔ اسے تین دن تک توبہ کا وقت دیا جاتا، اگر وہ توبہ کرلیتا، تو اسے معاف کر دیا جاتا۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پھیلی مملکتِ اسلامیہ میں ظلم و ستم کی ہر شکل کو مٹا کر عدل و انصاف کا بول بالا کیا، یہاں تک کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پینے لگے۔

جائیدادوں کی اصل مالکان کو واپسی:
بنو امیّہ کے لوگوں کے پاس موجود امّتِ مسلمہ کی دو تہائی دولت واپس بیت المال میں جمع کروائی۔ تمام غصب شدہ اموال و جاگیریں ان کے اصل مالکان کو واپس کیں۔ سلمان بن موسیٰ سے مروی ہے کہ ’’میں نے دیکھا کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ جس روز خلیفہ بنائے گئے، اس روز سے اپنی وفات تک لوگوں کے حقوق ہی واپس دلواتے رہے۔

بیت المال پر غریب غرباء کا حق: 
یتیم، بیوہ، مساکین، معذور و مجبور، بے روزگار اور شِیرخوار بچّوں کی فہرستیں تیار کرواکر سرکاری خزانے سے وظائف مقرر کروائے۔ حاجت مندوں کے لیے بیت المال کے دروازے کھول دیئے۔

غربت کا خاتمہ:
آپ کے دور میں لوگوں کو اتنا وظیفہ دیا جاتا تھا کہ جس سے کاروبار کرکے اگلے سال وہ زکوٰۃ دینے والوں کی صفوں میں شامل ہوجاتے تھے۔ ایک ہی سال کے اندر لوگ اتنے غنی ہوگئے کہ کوئی صدقہ و خیرات لینے والا نہیں ملتا تھا۔

بیت المال کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ: 
نومسلموں کا جِزیہ معاف کرنے اور وظائف کے اجراء سے بیت المال کی آمدنی کم ہوگئی۔ آپ نے بیت المال کی حفاظت و نگرانی کا سخت ترین انتظام کیا۔ وصولی اور تقسیم کے نظام کو نقائص سے پاک کیا۔ اس سلسلے میں سخت ترین قوانین تشکیل دیئے کہ دولت کی منصفانہ تقسیم اور ناجائز آمدنیوں کے خاتمے کے بعد ایک سال ہی میں بیت المال کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔

رعایا کی بے لوث خدمت:
آپ نے اپنے مختصر دورِ خلافت میں رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات کیے۔ تمام مسلم ریاستوں میں جگہ جگہ سرائے، مسافر خانے، پل اور گزرگاہیں تعمیر کروائیں۔ پلوں اور گزرگاہوں سے زکوٰۃ اور چنگی کی وصولی کا خاتمہ کردیا۔ نومسلموں سے جِزیہ لینے سے سختی سے ممانعت کردی۔ شراب کی دکانوں کو بند کروادیا اور کھلے عام شراب پینے پر سخت ترین سزا مقرر کی۔

رعایا کے ساتھ بہترین حسنِ سلوک کی ہدایت:
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز، خلیفہ کو حکمراں یا سربراہ نہیں بلکہ رعایا کا شفیق باپ سمجھتے تھے، چناں چہ تمام ریاستی ذمّے داروں کو رعایا کے ساتھ بہترین حسن سلوک روا رکھنے کے احکامات جاری فرمائے۔ رعایا کو معاشی فکر سے آزاد کر کے دین کی جانب راغب کیا۔

اسلام کی ترویج و اشاعت پر خصوصی توجّہ:
دینِ اسلام کی تبلیغ کے لیے دنیا بھر میں علماء و اساتذہ کے وفود بھیجے۔ خلافتِ اسلامیہ کے زیرِنگیں تمام علاقوں میں تربیت یافتہ علماء و فقیہ مقرر کیے۔ مساجد میں مدرسے قائم کروائے اور درس و تدریس میں مصروف علمائے کرام کو فکرِ معاش سے آزاد کردیا۔ زمّیوں کو دی جانے والی دعوتِ اسلام کے نتیجے میں آپ کے ہاتھ پر چار ہزار افراد نے اسلام قبول کیا۔ (ابنِ سعد)۔ آپ کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے احادیث نبویؐ کو ایک جگہ جمع کر کے محفوظ کیا اور ان کی اشاعت کا بندوبست کیا۔

اخراجات میں کمی:
آپ نے خلافت اور اس سے ملحقہ تمام دفتری اخراجات میں کافی حد تک تخفیف کر دی۔ تمام ریاستوں کے امراء اور حکمرانوں کو سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرنے کے احکامات جاری کیے۔ مدینے کے گورنر، ابوبکر بن حزم نے قلم و دوات اور روشنی کے مصارف میں اضافے کی درخواست کی، تو آپ نے جواب میں تحریر فرمایا۔ ’’قلم کو باریک کرلو، سطریں قریب قریب لکھا کرو۔ دیگر ضروریات میں کفایت شعاری سے کام لیا کرو۔ تمہیں مسلمانوں کے خزانے سے اس مد میں ایک درہم بھی نہیں ملے گا۔‘‘ سیّدنا عمر کے صاحب زادے کہتے ہیں کہ ’’والد جب خلیفہ بنے، تو سالانہ آمدنی چالیس ہزار دینار تھی، لیکن جب انتقال ہوا، تو سالانہ آمدنی چار سو دینار سے بھی کم تھی۔‘‘

رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن: 
تاریخ کے اس عظیم مردِ حق اور امامِ صالح، خلیفہ کی سحرانگیز شخصیت ربِ کائنات کی فراہم کردہ خداداد صلاحیتوں کا مظہر تھی کہ احکام الٰہی اور فرمان نبوی ؐ کا عملی نمونہ نظر آتی ۔ایک طرف وہ شرم و حیا کے پیکر، ہر لمحہ خوفِ الٰہی سے لرزاں، غریبوں، مسکینوں، پریشان حال لوگوں کے ملجاء تھے۔ آنکھوں میں ایمان کی چمک، چہرے پر عاجزی و انکساری، دل میں سوز و گداز، طبیعت میں ایسی رفعت و آہ زاری تھی کہ مسکراتے لبوں سے جھڑنے والے نرمی و نزاکت کے حسین پھولوں اور شیریں گفتگو سےمخاطب کو اپنا اسیر کرلیتے۔ یوں محسوس ہوتا کہ ان سے زیادہ حلیم الطّبع، رقیق القلب اور نرم دل دنیا میں اور کوئی نہیں، لیکن جب بات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات، حق و مساوات اور عدل و انصاف کی آجاتی، تو غاصب، ظالم اور جابر کے سروں پر اللہ کا قہر بن کر ٹوٹ پڑتے۔ امتِ محمدیہ کے لیے ریشم کی طرح نرم ،لیکن دشمنانِ دین کے لیے فولاد سے بھی زیادہ سخت تھے کہ؎ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم.....رزم ِحق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن۔


 خلیفۂ وقت کے سامنے کلمۂ حق:

حق و صداقت کا بلاخوف و خطر اظہار سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ کی فطرتِ ثانیہ تھی، پھر والدین اور مدینے کے علماء کی تعلیم و تربیت نے انہیں مزید نڈر بنا دیا تھا، چناں چہ اپنی رائے اور مشوروں کا برملا اظہار کرتے اور پھر ان پر سختی سے قائم بھی رہتے۔علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ ’’سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ اپنے وقت کے بہت بڑے امام، فقیہ، مجتہد، محدث اور حافظ تھے۔ 

ولید ان کی علمیت، قابلیت اور خداداد صلاحیتوں اور عوام میں ان کی مقبولیت سے بہ خوبی واقف تھا، لہٰذا مدینے سے واپس دمشق آنے کے بعد اس نے مجبوراً انہیں اپنی مجلسِ شوریٰ کا رکن مقرر کردیا۔ مگر وہ جب بھی کوئی بات خلافِ شرع دیکھتے تو ولید کو تنبیہ کرتے اور بعض اوقات تو نوبت ڈانٹ ڈپٹ تک آجاتی۔ایک مرتبہ بڑے سخت الفاظ میں ولید سے فرمایا کہ آپ اور آپ کے گورنر، امراء ناحق لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ اس ناحق قتل پر اللہ کے یہاں آپ کی بڑی سخت پکڑ ہوگی۔ آپ اپنے گورنرز اور امراء کو حکم جاری کریں کہ وہ خود کسی کو قتل نہ کریں، بلکہ شرعی شہادتوں کے ساتھ آپ کو بھیجیں اور آپ مکمل تحقیق کے بعد فیصلہ کریں۔ یہ باتیں ولید کے مزاج کے برخلاف تھیں۔ اسے اس وقت تو بہت برا لگا، لیکن چوں کہ برحق تھیں، لہٰذا دوسرے دن اس نے کہا ’’اےابو حفص! اللہ آپ پر اپنی برکات نچھاور فرمائے۔‘‘

قیدوبند کی صعوبتیں:
ولید سیّدنا عمر کی حق و صداقت کی باتوں سے نالاں تو رہتا ہی تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس نے سیّدنا عمر کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ ’’میں چاہتا ہوں کہ اپنے بھائی سلیمان کی جگہ اپنے بیٹے کو ولی عہد بنادوں، اس سلسلے میں تم میرے ساتھ تعاون کرو۔‘‘ حضرت عمر ؒ ، ولید کی بات سن کر حیران ہوئے اور فرمایا۔ ’’امیرالمومنین ؒ ! یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم نے آپ دونوں کی ایک وقت میں بیعت کی ہے۔ آپ کے والد کی وصیت اور سلیمان کی بیعت ہماری گردنوں پر ہے۔‘‘ ولید کے اس ارادے کی بہت سے معززینِ عرب نے تائید کردی تھی، لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے سختی سے انکار کر دیا اور ان کے اس انکار کی وجہ ہی سے ولید اپنے ارادے میں کام یاب نہ ہو سکا، چناں چہ ولید نے آپ کو قید کردیا اور آپ تین برس تک ولید کی قید میں رہے۔

سیّدنا عمر کے حق میں سلیمان کی وصیت:
ولید کے انتقال کے بعد96ہجری میں سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنا۔ یہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ کا احسان مند بھی تھا اور انہیں پسند بھی کرتا تھا، چناں چہ اس نے آپ کو اپنا وزیراعظم بنالیا۔ 99ہجری میں سلیمان کا انتقال ہوگیا۔ محدث رجاء بن حیوٰۃ نے دمشق کی جامع مسجد میں لوگوں کو جمع کر کے سلیمان کی وصیت پڑھی، جس میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز کو خلیفہ نام زد کرکے سب لوگوں کو بیعت کا حکم دیا گیا تھا۔ حضرت عمر اپنا نام سن کر حیران رہ گئے اور فرمایا۔ ’’واللہ! میں نے تو کبھی بارگاہِ الٰہی میں اس منصب کی درخواست ہی نہیں کی تھی اور نہ مجھے اس کی چاہ ہے۔‘‘ خلیفہ منتخب ہونے کے بعد مسجد سے باہر تشریف لائے ،تو اصطبل کا داروغہ خوب صورت گھوڑوں پر مشتمل خلیفہ کی خاص سواری لیے منتظر تھا۔ آپ نے اس حسین اور بیش قیمت سواری پر ایک نظر ڈالی اور داروغہ سے کہا ’’اسے واپس لے جاؤ اور میرا ذاتی خچّرلے آئو۔‘‘

خلافت کا بارِگراں:
بیعتِ خلافت اور سلیمان بن عبدالملک کی تجہیز و تکفین کے بعد جب گھر پہنچے، تو خلافت کے بارِ گراں سے سخت کبیدہ خاطر اور غم گین تھے۔ داڑھی آنسوئوں سے تر تھی۔ پریشان حال چہرے سے یوں لگتا تھا کہ جیسے برسوں کے بیمار ہوں۔ اہلیہ نے شوہر کی ایسی حالت کبھی دیکھی نہ تھی۔ گھبرا کر دریافت کیا۔ ’’کیا بات ہے، سب خیریت ہے ناں؟‘‘ اہلیہ کے اپنائیت بھرے جملے نے ضبط کے سارے بندھن توڑدیئے۔ بہتے اشکوں کے ساتھ مخاطب ہوئے۔ ’’اللہ کی بندی! خیریت کہاں ہے؟ میرے ناتواں کاندھوں پر امّتِ مسلمہ کا کوہِ گراں ڈال دیا گیا ہے۔ مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب تک پھیلی امّتِ محمدیہ ؐ کے جملہ مسلمان بہ شمول بھوکے، بیمار، غلام، مساکین، مسافر، قیدی، چھوٹے بڑے، بچّے بوڑھے سب کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ مجھے تشویش ہے کہ اگر ان میں سے کسی کا ایک کا دانے برابر بھی حق رہ گیا، تو روزِ قیامت اللہ اور اس کے محبوب کو کیا منہ دکھائوں گا۔‘‘

خلافت سے دست بردار ہونے کا فیصلہ:
سیّدنا عمر کو احساس تھا کہ خلافت کی ذمّے داریاں کوئی پھولوں کی سیج نہیں، بلکہ خاردار، پیچیدہ راستوں سے خود کو بچا کر نکال لے جانے کی وہ کوشش ہے کہ جس میں خاندانِ بنوامیّہ قطعی طور پر ناکام رہا۔ کئی دنوں کے غوروخوض کے بعد خلافت سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ 
پھر لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا۔’’لوگو! میری خواہش اور عوام النّاس کی رائے لیے بغیر خلافت کی ذمّے داری کا جو طوق میری گردن پر ڈال دیا گیا ہے، میں اسے اپنے ہاتھوں سے اتار دیتا ہوں، لہٰذا اب تم جسے چاہو، اپنا خلیفہ منتخب کرلو۔‘‘ ابھی آپ کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ اہلِ دمشق نے آپ کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اس وقت تک وہاں سے نہ جانے کا عزم کیا، جب تک آپ اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتے۔ بالآخر ہزاروں افراد کے پرزور اصرار پر آپ اس بارِگراں کو اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔ تاہم، اس موقعے پر آپ نے جو پراثر اور ایمان افروز خطاب کیا، وہ بنومروان کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی تھا اور اہل ایمان کے لیے خوشیوں کا پیغام بھی۔

اہلِ خانہ کا جملہ سامان بیت المال میں:
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ خطاب کے بعد اپنے خچر پر سوار ہو کر گھر واپس آئے اور اہلیہ سے فرمایا۔’’ اے فاطمہ! میں نے اللہ کی رضا کے لیے امّت ِمحمدیہ کی غلامی کی ذمّے داری قبول کرلی ہے۔ اب تمہارے سامنے دو راستے ہیں، اگر میرے بغیر، تمہیں دنیا عزیز ہے، تو یہ مال و متاع، دولت و عشرت، ہیرے جواہرات تمہارے ہیں، اور اگر اللہ کی رضا کے لیے میرا ساتھ دینا منظور ہے، تو تمہیں ان تمام دنیاوی اشیاء سے دست بردار ہونا ہوگا۔ تم سوچ کر فیصلہ کرو اور مجھے آگاہ کردو۔‘‘ بنوامیّہ کے پرآسائش محلوں میں پروان چڑھنے والی فاطمہ نے بڑے عزم اور اعتماد سے جواب دیا۔ ’’امیرالمومنین! اس میں سوچنا کیا ہے؟ شوہر کی اطاعت ہر مومن عورت پر لازم ہے اور مجھے اللہ اور اپنے شوہر کی رضا درکار ہے۔ میں ان تمام مال و اسباب سے دست بردار ہوتی ہوں۔‘‘ اہلیہ کے اس مجاہدانہ فیصلے نے آپ کے حوصلوں کو مزید تقویت بخشی۔ 

آپ نے فوری طور پر گھر کا جملہ سامان بیت المال میں جمع کروادیا۔ ان میں وہ بیش قیمت ہیرا بھی تھا، جو فاطمہ کے والد، خلیفہ عبدالملک نے اپنی لاڈلی بیٹی کو شادی کے وقت تحفے میں دیا تھا۔(سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ کی وفات کے بعد یزید بن عبدالملک خلیفہ مقرر ہوا، تو اس نے اپنی بہن فاطمہ سے کہا کہ ’’اگر آپ چاہیں، تو اپنے تمام زیورات اور مال و متاع واپس لے سکتی ہیں۔‘‘ مگر فاطمہ نے جو عمر بن عبدالعزیز ؒ کی صحبت میں رہ کر ان ہی کے رنگ میں رنگ چکی تھیں، کہا، ’’امیرالمومنین! جو اشیاء میں اپنی خوشی سے بیت المال میں جمع کرواچکی ہوں، اب اپنے شوہر کی وفات کے بعد میں انہیں کیسے واپس لے سکتی ہوں‘‘)۔

بنو مروان کے سامان کی ضبطی:
اپنا مال بیت المال میں جمع کروانے کے بعد آپ نے اپنے بھائیوں اور دیگر رشتے داروں کو جمع کیا اور فرمایا۔’’اے بنومروان! امّتِ محمدیہ ؐ کا دو تہائی مال و دولت تمہارے قبضے میں ہے۔ بہتر ہے کہ اسے واپس بیت المال میں جمع کروادو، ورنہ اسے تم سے چھین کر بیت المال میں جمع کروایا جائے گا۔‘‘ بنو مروان کے امراء اس طرح کے فیصلے سننے کے عادی نہ تھے، چناں چہ وہ عجیب فیصلہ سن کر حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ ان سب کا مال و اسباب بیت المال میں جمع کروادیا گیا، لیکن اس فیصلے نے سیّدنا عمر اور بنو مروان کے درمیان دشمنی کا وہ بیج بو دیا، جو بعدازاں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ کی شہادت کی وجہ بنا۔

سیّدنا فاروق اعظمؓ کے پوتے کو خط:
خلافت کے فوراً بعد آپ نے حضرت عمر بن خطابؓ کے پوتے، حضرت سالمؓ کو خط لکھا کہ ’’اگر اللہ مجھے استطاعت دے، تو میری خواہش ہے کہ میں رعایا کے معاملات اور خلافت کے امور میں سیّدنا فاروق اعظمؓ کا اندازِ خلافت اختیار کروں، اس لیے آپ میرے پاس ان کی تمام تحریریں، خطوط اور فیصلے بھیج دیجیے، جو انہوں نے مسلمانوں اور زمّیوں کے بارے میں کیے۔ اللہ کو منظور ہوا، تو میں ان کے نقشِ قدم پر چلوں گا۔‘‘

شہنشاہی میں فقیری:
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒکی خلافت سے قبل کی زندگی بے حد آسودگی و خوش حالی میں گزری، لیکن جب امّت کی خلافت کا بارِگراں کاندھوں پر آیا، تو پیوند زدہ معمولی لباس اور موٹی غذا ان کا معمول بنا۔ سعید بن سوید کہتے ہیں کہ ’’سیّدنا عمر جب جمعے کی نماز پڑھانے آئے، تو میں نے دیکھا کہ ان کے کرتے میں آگے اور پیچھے کی جانب پیوند لگے ہوئے ہیں۔ ایک شخص نے کہا کہ امیرالمومنین! اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب کچھ عطا کیا ہے، پھر آپ نئے کپڑے کیوں نہیں بنواتے؟ ‘‘ آپ تھوڑی دیر سر جھکائے سوچتے رہے، پھر فرمایا کہ تونگری میں میانہ روی اور قدرت میں عفو بڑی چیز ہے۔‘‘ مسلمہ بن عبدالملک نے فرمایا کہ ’’میں عمر بن عبدالعزیز ؒ کی عیادت کے لیے گیا، تو دیکھا کہ ایک بوسیدہ کرتا پہنے ہوئے ہیں۔ 

میں نے اپنی بہن، یعنی ان کی اہلیہ سے کہا کہ تم ان کا کرتا دھو کیوں نہیں دیتیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کے پاس کوئی دوسرا کرتا نہیں ہے۔‘‘سیّدنا عمر نہایت خوش شکل اور خوب صورت جسم و جسامت کے مالک تھے، لیکن خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد صرف دو ہی سال میں سر کے بالوں سے محروم ہوگئے ، گال پچک گئے اور جسم اس قدر لاغر ہوگیا کہ ایک ایک ہڈی الگ الگ گِنی جا سکتی تھی۔ آپ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ’’سیّدنا عمر نے خلیفہ بننے کے بعد کبھی رات بھر آرام کیا، نہ کبھی پیٹ بھر کر روٹی کھائی اور نہ کبھی مرغن کھانا کھایا۔ گھر میں عموماً دال پکتی اور اگر وہ بھی میسّر نہ ہوتی، تو زیتون کے تیل میں روٹی بھگو کر کھاتے اور آب دیدہ ہوتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اس نے اس نعمت سے نوازا۔ ہر بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا، ان کا معمول بلکہ تکیہ کلام تھا۔‘‘

جس کا اللہ ہو نگہباں:
بنوامّیہ کے خلفاء کو اپنی شان و شوکت، نمود و نمائش اور جان و مال کی بڑی فکر ہوا کرتی تھی، چناں چہ سپاہ کی ایک کثیر تعداد ہر وقت ان کے ساتھ رہتی۔ خلیفہ سلیمان کی حفاظت اور اردلی کے لیے بھی100سپاہی اور کوتوال مقرر تھے۔ سیّدنا عمر خلیفہ مقرر ہوئے تو فرمایا۔ ’’میری حفاظت کے لیے قضا و قدر اور اجل کافی ہے، مجھے ان میں سے کسی کی ضرورت نہیں، سب اپنے اہل و عیال کے پاس واپس لوٹ جائیں۔ تاہم، اگر کوئی اپنی خوشی سے رہنا چاہے، تو اسے صرف10درہم تن خواہ ملے گی۔‘‘

شب کے معمولات:
محمد بن قیس سے مروی ہے کہ سیّدنا عمر عشاء کی نماز پڑھ کر بیت المال سے شمع منگواتے اور مسلمانوں کے معاملات و مقدمات پر فرمان جاری کرتے، تاکہ بروقت تمام علاقوں کو روانہ کیے جاسکیں۔ صبح ہوتی، تو ادائے حقوق کے لیے اجلاس کرتے اور مستحقین میں صدقات تقسیم کرتے۔ جس شخص کو بھی صدقہ دیا جاتا، دوسرے سال اس کے پاس اتنے اونٹ ہوتے کہ ان پر زکوٰۃ عاید ہوتی۔

شیر اور بکری ایک گھاٹ پر:
حضرت مالک بن دینار سے مروی ہے کہ ’’جب حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ خلیفہ مقرر ہوئے، تو چرواہے نہایت تعجب سے کہنے لگے کہ لوگوں پر کون خلیفہ مقرر ہوا ہے کہ ہماری بکریوں کو بھیڑیئے کچھ نہیں کہتے۔ ‘‘ (ابن سعد)۔ موسیٰ بن اعین کہتے ہیں کہ ’’میں عمر بن عبدالعزیز ؒ کی خلافت میں کرمان میں بکریاں چَرایا کرتا تھا۔ بکریاں، بھیڑیئے اور وحشی جانور ایک ہی مقام پر چَرتے تھے۔ ایک رات ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک بھیڑیا ایک بکری کو دبوچ کر بھاگ نکلا۔ میں حیران رہ گیا۔ میں نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آج وہ مردِ صالح دنیا سے کوچ کرگیا۔ اور پھر تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ واقعی اس روز حضرت عمر بن عبدالعزیز کا انتقال ہوا تھا۔‘‘ (تاریخ الخلفاء)۔

خاندانِ علی مرتضیٰؓ سے والہانہ محبت:
فاطمہ بن علیؓ ، بن ابی طالب جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ذکر کرتیں، تو بہت دعائیں دیتیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کے پاس اس زمانے میں گئی، جب وہ مدینے کے گورنر تھے۔ انہوں نے ہر ملازم اور غلام کو گھر سے نکال دیا۔ جب مجھ سے ملاقات کی، تو کوئی اور نہ تھا، پھر انہوں نے کہا کہ ’’اے علیؓ کی بیٹی! اللہ کی قسم مجھے روئے زمین پر کوئی خاندان آپ لوگوں سے زیادہ محبوب نہیں اور آپ لوگ تو مجھے میرے اپنے متعلقین سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ (طبقات ابن سعد)۔

(جاری ہے)


 مسلمان حکمرانوں میں حضرت عمربن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ واحد حکمراں تھے کہ جن کےدورِ خلافت نے خلافتِ راشدہ کے دَور کی یادیں تازہ کیں۔ انہوں نے وہی طرز عمل اختیار کیا، جو خلفائے اربع کا رہا تھا۔ یعنی حقیقتاً باشندگانِ ریاست کے خادم کا کردار ادا کرکے دکھایا۔ ایک وقت تو وہ تھا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ جس طرف سے گزرتے، وہ راستہ خوشبو سے مہک اٹھتا اور اس خوشبو ہی سے لوگوں کو علم ہوجاتا کہ یہاں سے عمر بن عبدالعزیز ؒ گزرے ہیں۔ 


وہ، جو لباس ایک باراستعمال کرلیتے، دوبارہ استعمال میں نہیں آتا تھا، لیکن جب خلافت کی ذمّے داریاں ان کے کاندھوں پر آئیں، تو گویاان کی کائنات ہی بدل گئی۔انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ سے جو ان سے پہلے خلیفۂ وقت کی صاحب زادی تھیں اور بے بہا مال و دولت جہیز میں ساتھ لائی تھیں، تمام مال و اسباب لے کر بیت المال میں جمع کروادیا اورعمالِ حکومت کے پاس بھی کچھ نہ رہنے دیا۔ ان سے بھی سارا مال و اسباب لے کر سرکاری خزانے میں جمع کروادیا۔

ہم ذیل میں عمرِثانی، محدث، مجدّد، فقیہ، مردِ صالح، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒسے متعلق ایک تفصیلی مضمون سلسلہ وار پیش کررہے ہیں۔امید ہے، سابقہ مضامین کی طرح یہ مضمون بھی قارئین کی معلومات میں اضافے کے ساتھ، پسندیدگی کے معیار پر بھی پورا اترے گا۔ 

پرسکون، شبنمی رات کا ایک پہر گزر چکا ہے۔ ہر سو اندھیرے کا راج ہے۔ آسمان پر چھائے گہرے بادلوں نے شب کی تاریکی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ماحول پر ایک سکوت سا طاری ہے۔ ہاں، کہیں دور کسی کتّے کے بھونکنے کی آواز یا کسی پرندے کے پَروں کی پھڑپھڑاہٹ ضرور کچھ دیر کے لیے فضا میں ایک خفیف سا ارتعاش پیدا کردیتی ہے۔ اہلِ دمشق خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ خلیفۂ وقت کے سادہ مکان میں بھی خاموشی ہے۔ سب مکیں سوچکے ہیں، لیکن خلیفہ کے کمرے میں روشن چراغ کی لَو یہ ظاہر کرتی ہے کہ خلیفہ اہم امور اور عوام النّاس کے مسائل نمٹانے میں مصروف ہیں۔ کچھ وقت گزرتا ہے کہ اچانک دروازے پر آہٹ ہوتی ہے اور اہلیہ محترمہ نہایت آہستگی سے اندر داخل ہوتی ہیں۔ خلیفۂ وقت کاغذات سے نظریں ہٹا کر دروازے کی جانب دیکھتے ہیں، تو چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ قلم ہاتھ سے رکھتے ہوئے اہلیہ محترمہ کو مخاطب کرتے ہیں۔’’جی فاطمہ! آیئے تشریف رکھیے۔ 

آپ ابھی تک سوئی نہیں؟‘‘اہلیہ کچھ کہنا چاہتی ہیں، لیکن الفاظ ساتھ نہیں دے پارہے، چہرے سے گھبراہٹ عیاں ہے۔’’آپ کچھ کہنا چاہتی ہیں؟‘‘ شوہرِ محترم متجسّس نظروں سے دیکھتے ہوئے خوش گوار لہجے میں دریافت کرتے ہیں۔ ’’جی ہاں، امیرالمومنین! مجھے کچھ عرض کرنا ہے۔‘‘ اہلیہ کی گھبراہٹ دیکھ کر خلیفۂ وقت ہاتھ بڑھا کر چراغ بجھادیتے ہیں اور فرماتے ہیں، ’’جی… اب آپ سکون سے بتایئے کیا کہنا چاہتی ہیں؟‘‘ اہلیہ عرض کرتی ہیں۔ ’’امیرالمومنین ؒ! آپ جانتے ہیں کہ عید میں صرف چند دن باقی ہیں، ہمارے بچّوں کے پاس جو معمولی نوعیت کے چند کپڑے ہیں، وہ بھی بوسیدہ ہوچکے ہیں۔ اگر بچّوں کے لیے عید پر نئے جوڑے بنادئیے جائیں، تو بہتر ہو، ورنہ لوگ کہیں گے کہ امیرالمومنین ؒ کے بچّے عید کے دن بھی بوسیدہ لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں۔‘‘خلیفۂ وقت اہلیہ کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’آپ کو جو یومیہ خرچ ملتا ہے، کیا اس میں یہ ممکن نہیں؟‘‘اہلیہ آہستگی سے عرض کرتی ہیں ’’امیرالمومنین ؒ! وہ تو صرف دو درہم ملتے ہیں، جس میں دو وقت کی روٹی ہی بڑی مشکل سے پوری ہوپاتی ہے۔‘‘امیرالمومنین ؒ سوچ میں پڑجاتے ہیں، ایک لمحے کو یادوں کے دریچوں سے اپنا شاہانہ بچپن جھانکتا نظر آتا ہے، دل میں خیال آتا ہے کہ اہلیہ کی بات مناسب ہے۔ کم از کم عید کے موقعے پر بچّوں کا ایک جوڑا ضرور بنا دیا جائے۔ 

اپنے بوسیدہ اور پیوند زدہ کرتے کے پلّو سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے اہلیہ سے فرماتے ہیں، ’’فاطمہ! تم فکر نہ کرو، ہم کچھ کرتے ہیں۔‘‘ اہلیہ مثبت جواب سن کر خوشی خوشی واپس چلی جاتی ہیں۔ صبح امیرالمومنین ؒ بیت المال کے نگراں کو ایک رقعہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’مجھے ایک ماہ کا وظیفہ پیشگی دے دیا جائے، تاکہ بچّوں کے کپڑے بنائے جاسکیں۔‘‘ قاصد رقعہ لے کر بیت المال کے نگراں کے پاس پہنچا۔ نگراں نے رقعہ پڑھا اور اس کی پشت پر کچھ لکھ کر قاصد کے حوالے کردیا۔ امیرالمومنین ؒ نے جب رقعے کا جواب پڑھا، تو بے اختیار آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑیاں جاری ہو گئیں۔ رقعے کے جواب میں نگراں بیت المال نے تحریر کیا تھا۔’’امیرالمومنین ؒ! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک مہینے تک زندہ رہیں گے؟‘‘آپ نے اشک بار نگاہوں کے ساتھ اہلیہ سے فرمایا۔ ’’فاطمہ! تم فکر نہ کرو، اِن شاء اللہ ہمارے بچّوں کو بہشت میں نہایت عمدہ پوشاک ملے گی، جو یہاں کے عمدہ لباس سے بہت بہتر ہوگی۔‘‘

غذا بہ قدر لایموت، لباس بہ قدر سَترپوشی:
 ایک دن خلیفہ کے غلام نے ان کی اہلیہ سے شکایت کی کہ ’’مالکن! میں روز روز مسور کی دال کھا کھاکے تنگ آ چکا ہوں۔ کسی دن کچھ اور بھی پکالیا کیجیے۔‘‘ مالکن مسکراتے ہوئے گویا ہوئیں۔ ’’تمہارے امیرالمومنین ؒ کا من بھاتا کھانا یہی ہے۔‘‘ یہ ہے عظیم الشّان خلافتِ اسلامیہ کا وہ نام وَر حکمراں کہ جس کا خلافت سے پہلے کا دَور، شاہانہ جاہ و جلال، دولت و ثروت، زیبائش و آرائش سے بھرپور تھا کہ جہاں عسرت و تنگ دستی کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ 

بیش بہا، قیمتی، نرم و نازک، ریشم و کم خواب کے لباسِ فاخرانہ زیب تن کرنے والے جب خلیفہ کا منصب سنبھالنے کے بعد جمعے کا خطبہ دینے منبر پر بیٹھے، تو ان کے معمولی بوسیدہ کپڑوں پر پیوند لگے تھے۔ اور پھر اہلیہ بھی کون؟ وہ فاطمہ کہ جو خلیفہ کی پوتی، خلیفہ کی بیٹی، جس کا بھائی بھی خلیفہ اور جس کا شوہر بھی خلیفہ۔ تاریخ میں یہ منفرد اعزاز پھر کسی اور خاتون کو نہیں ملا۔ اس جلیل القدر خلیفہ کا نام، حضرت عمر بن عبدالعزیز ہے، جن کا دورِ خلافت مختصر، لیکن اتنا شان دار، تاب ناک، روشن اور عدل و انصاف سے بھرپور تھا کہ دنیا انہیں ’’پانچویں خلیفہ‘‘ راشد کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ان کے مختصر سے دورِ خلافت میں امّت مسلمہ کی اعلیٰ ترین خدمات نے فاروق اعظم سیّدنا عمر بن خطابؓ کے دورِ خلافت کی یاد تازہ کردی۔ اسی لیے تاریخ نے آپ کو ’’عمرِثانی‘‘ کے لقب سے سرفراز کیا۔

ولادت:
 حضرت عمر کے والد، عبدالعزیز بن مروان مصر کے حاکم تھے۔ آپ کی ولادت61ہجری میں مصر کے پرفضا علاقے ’’حلوان‘‘ میں واقع محل میں ہوئی۔ اس وقت دنیا کا ایک تہائی سے زیادہ علاقہ مسلمانوں کے زیرِنگیں تھا۔ افریقا کے دوردراز جنگلات سے یورپ کے سبزہ زاروں تک، اندلس کے میدانوں سے سندھ کے ریگستانوں تک، ملتان کے لہلہاتے کھیتوں، کابل کے پہاڑوں سے ہندوستان کی سرحدوں تک اور روم سے چین تک امّتِ مسلمہ کا پرچم لہرا رہا تھا۔ بنو امّیہ دنیائے اسلام کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ان کی قوت و سطوت کے آگے کسی کو دَم مارنے کی ہمّت تھی، نہ جرأت۔

نام و نسب اور خاندان:
 آپ کا نام ’’عمر‘‘ اور کنیت ’’ابو حفص‘‘ تھی۔ والد ماجد کی جانب سے شجرئہ نسب کچھ یوں ہے، عمر بن عبدالعزیز ابن مروان بن حکم بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب القرشی الاموی۔جب کہ آپ کی والدہ محترمہ ’’امّ عاصم‘‘ امیرالمومنین سیّدنا عمر بن خطاب کی پوتی ہیں۔ والدہ کے اس تعلق کی بناء پر آپ کی زندگی پر فاروق اعظم، خلیفۂ ثانی، حضرت عمر بن خطابؓکا گہرا اثر رہا۔امیرالمومنین، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا تعلق خاندانِ قریش کی ایک شاخ بنوامّیہ سے تھا۔وہی قبیلہ قریش، جوسرزمینِ عرب میںاپنی شجاعت، بہادری، جرأت و عظمت، فہم و فراست اورطاقت و ذہانت میں بے مثال تھا۔

علم و فضل کے خزینوں تک رسائی: 
مال و دولت کی فراوانی اور بیش بہا آسائشوں کی موجودگی کے باوجود سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ بچپن ہی سے انصاف پسند، صلح جو، نرم طبیعت اور پاک باز انسان تھے۔ بردباری اور سنجیدگی ان کے منفرد اور جداگانہ مزاج کا حصّہ تھی۔شخصیت میں قائدانہ صلاحیتیں بچپن ہی سے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ والد محترم نے ان کی ان ہی صلاحیتوں کے سبب بچپن ہی میں دین کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مدینہ منورہ روانہ کردیا۔ مدینہ اس وقت دنیا میں علم و ادب کا اعلیٰ ترین مرکز تھا۔ یہاں آپ ؒ نے صحابہ اکرام اجمعینؓ اور مشہور تابعین حضرت عبداللہ بن جعفرؓ ، حضرت انس بن مالکؓ ، حضرت ابوبکر بن عبدالرحمنؓ ، حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعودؓ کے درِ دولت سے علم و عمل کے خزینے حاصل کیے اور یہیں قرآن پاک حفظ کیا۔ 

اس زمانے میں محدث صالح بن کیسان، مدینہ منورہ میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے، لہٰذا حاکمِ مصر، عبدالعزیز کی ہدایت پر انہوں نے سیّدنا عمر ؒ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ (سیرت ابن جوزیہ)۔ علم و فضل اور قرآن و حدیث فقہ میں ان کا یہ عالم تھا کہ یوں محسوس ہوتا، جیسے علم کا بے پایاں اور عمیق سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور اس کی موجیں گویاساحلِ قرطاس پر گوہر ہائے آبدار بکھیرتی چلی جاتی ہیں۔ وہ اگر وہ خلیفہ نہ ہوتے تویقیناً آئمہ شرع میں سب سے بڑے امام مانے جاتے۔زید بن اسلم، حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بجزعمر بن عبدالعزیز ؒ ، کسی شخص کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سےاس قدر مشابہ ہو۔ (تاریخ الخلفاء)۔

عالمِ شباب اور شان و شوکت: 
حضرت عمر بن العزیز ؒکا بچپن نازونعم اور نوجوانی شان و شوکت میں گزری۔ زیبائش و آرائش کا یہ عالم تھا کہ قیمتی سے قیمتی لباس بھی اگر ایک مرتبہ زیبِ تن فرما لیتے، تو دوبارہ ہاتھ تک نہ لگاتے۔ دنیا کی بہترین خوشبوئیں، عطر، مشک و عنبر استعمال فرماتے۔ جس راستے سے گزر جاتے دور تک لوگوں کو پتا چلتا کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کی سواری گزری ہے۔ آپ کی داڑھی مشک و عنبر سے تر رہتی۔ مشک و عنبر یوں بکھرا ہوتا کہ جیسے نمک بکھرا ہو۔ آپ کی چال ڈھال، ناز و انداز، خوشبوئوں سے معطر لباسِ فاخرہ دیکھ کر لوگ ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے، لیکن اس سب ٹھاٹ باٹ کے باوجود خوف ِخدا، پاک بازی، تقویٰ، طہارت، بردباری و سنجیدگی، شرم و حیا، عدل و انصاف، سخاوت و فیّاضی، مہر و محبت اور نزاکت و نفاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

نکاحِ مسنونہ: 
حضرت عمر بن عبدالعزیز ابھی مدینہ منورہ ہی میں تھے کہ والدِ محترم دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ والد کے انتقال کے بعد تایا، عبدالملک بن مروان نے انہیں مدینہ سے دمشق بلوا لیا اور اپنی عزیز ترین بیٹی فاطمہ سے ان کا نکاح کر دیا۔ آپ کی اہلیہ، فاطمہ کی شان میں کسی شاعر نے کیا خوب قصیدہ لکھا۔ترجمہ۔ ’’وہ خلیفہ کی بیٹی، اس کا دادا بھی خلیفہ، وہ خلیفہ کی بہن، اس کا شوہر بھی خلیفہ۔‘‘

مدینہ منورہ کی گورنری اور مسجد نبوی ؐ کی توسیع: 
عبدالملک کی وفات کے بعد جب ولید خلیفہ بنا، تو اس نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مدینہ منورہ کا گورنر مقرر کردیا۔ چناں چہ86ہجری سے93ہجری تک آپ مدینہ کے گورنر رہے۔ یہ دور، مدینہ کے عوام اور اہلِ علم کے لیے نہایت شان دار رہا۔ مدینے کا حاکم مقرر ہوتے ہی آپ نے بڑے بڑے فقہاء اور علماء کو جمع کر کے ایک فقہائے مدینہ کونسل بنائی،جن کے مشوروں سے شرعی اور امارتی امور سرانجام دیئے جانے لگے۔ 

اپنے اس دور میں آپ نے ولید کے مشورے سے مسجد نبویؐ کی ازسرِنو تعمیر کروائی اور مسجد کی تین سمتوں مغرب، شمال اور مشرق میں2369مربع میٹر رقبہ کا اضافہ فرمایا۔ ازواجِ مطہراتؓ کے حجرات مقدّسہ کو بھی مسجد کی حدود میں شامل کر لیا۔ اس طرح مسجد کا کل رقبہ6440مربع میٹر ہو گیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ ہی نے پہلی مرتبہ مسجد نبوی ؐ میں محراب بنوائی اور مسجد کے چاروں کونوں میں مینار تعمیر کروائے۔ اس سے پہلے مسجد نبوی ؐ میں نہ مینار تھے ،نہ محراب، یہ کام91ہجری (709ء) میں تکمیل پزیر ہوا۔ (تاریخ مدینہ، مولانا عبدالمعبود)۔

روضہ رسولؐ پر پنج گوشہ دیوار کی تعمیر: 
یہ88ہجری (706ء) کی بات ہے، جسے حضرت عبداللہ بن محمد بن عقیل بیان کرتے ہیں کہ ’’میں حسب ِمعمول رات کے آخری حصّے میں نمازِ تہجّد کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی ؐ جانے کے لیے گھر سے نکلا، اس وقت بارِ رحمت کا نزول بھی جاری تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مدینے کی فضائوں میں نہایت دل آویز خوشبو رچی بسی ہے۔ میں نے زندگی بھر ایسی نفیس اور قابلِ رشک خوشبو کبھی نہیں پائی۔ بہرحال، روضہ رسول اللہؐ پر سلام کے لیے حاضر ہوا ،تومیں نے دیکھا کہ اس بقعہ نور کی ایک دیوار زمیں بوس ہو گئی ہے۔ 

اس وقت یہ راز افشا ہوا کہ بادِ مشک بار، قبر اطہر مبارکہ ؐ سے پھوٹ رہی ہے۔ میں نے ابھی روضہ مطہرہ ؐ پر سلام پیش ہی کیا تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ آ پہنچے۔ ان کے حکم سے فوری طور پر اس جگہ ایک چادر سے پردہ کر دیا گیا اور امیرِ شہر کی نگرانی میں کچھ ہی دیر میں قبرِ اطہر کے چاروں جانب دیوار کی بنیادوں کی کھدائی کا کام شروع ہو گیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنی نگرانی میں روضہ مبارک ؐ کے چاروں جانب پنج گوشہ دیوار بنوا کر اسے مسجد کی چھت تک بلند کروا دیا۔ اس دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے، اس طرح روضہ شریف اندر سے محفوظ ہو گیا۔‘‘ مقصورہ شریف کی جالیوں سے اندر کی جانب دیکھنے سے روضہ شریف کی اس پنج گوشہ دیوار پر ہرے رنگ کا پردہ پڑا نظر آتا ہے۔ روضہ شریف کی دیوار اور مقصورہ شریف کے درمیان پانچ میٹر کا فاصلہ ہے۔مدینہ منورہ میں اپنی گورنری کے دوران سیّدنا عمر بن عبدالعزیز نے بہت سے ترقیاتی کام سرانجام دیئے، جن میں مساجد اور کنوئوں کی تعمیر اور گزرگاہوں کو پکّا کروانا بھی شامل ہے۔

امیرِ مدینہ کے عہدے سے معذوری: 
ولید بھی مزاجاً بنوامیہ کے دیگر خلفاء سے مختلف نہیں تھا،لہٰذا 93ہجری میں اس نے چند افراد کی شکایت پر سیّدنا عمر کو معزول کر کے دمشق واپس بلا لیا۔ طبری کی روایت ہے کہ ایک رات جب مدینے کے باسی آرام کر رہے تھے، سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ اپنے غلام ’’مزاحم‘‘ کے ساتھ نہایت خاموشی سے مدینے سے نکلے اور دمشق کی راہ لی۔ 

مدینہ طیبہ کی پاک سرزمین، کھجوروں کے لہلہاتے درخت، خوشبوئوں سے معطر فضائیں، نیلگوں آسمان پر روشن خوب صورت چانداور چمکتے جھلملاتے ستاروں کی کہکشاں اس بات کے گواہ تھےکہ جب مصر اور دمشق کے محلوں میں رہنے والا یہ شہزادہ مدینے آیا تھا، تو اس کا دیدہ زیب، زرق برق، بیش قیمت سامان تیس اونٹوں پر لدَ کر مدینہ آیا تھا اور آج مدینے کا یہ حاکم اپنے دونوں ہاتھ خالی لیے ایک اونٹ پر اپنے غلام کے ساتھ نہایت خاموشی سے بہتے اشکوں، پرنم پلکوں اور بوجھل قدموں کے ساتھ شاہِ عرب و عجم کے شہر، مدینے کو الوداع کہہ رہا ہے۔ انہیں ڈر تھاکہ اگر صبح ہو گئی اور مدینے کے باسی جاگ گئے، تو وہ انہیں جانے نہیں دیں گے۔ (جا ری ہے)

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget