جون 2018
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


عالمِ انسانیت پر رب کا بیش بہا انعام اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ کریم کا نزول ماہِ رمضان میں فرمایا، اس نسبت سے رمضان اور قرآن میں گہرا تعلق ہے۔ اللہ فرماتا ہے: ترجمہ ’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘ (البقرہ)۔ سورۃ القدر میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ’’ہم نے اس کا نزول لیلۃ القدر میں کیا۔‘‘ لہٰذا رمضان اور قرآن کا آپس میں گہرا تعلق ہونا ایک قدرتی امَر ہے۔ یوں تو سارا سال تلاوتِ کلامِ پاک اور اس کے پیغام پر غوروفکر ہمارے روز کے معمولات کا لازمی جزو ہونا چاہیے، لیکن رمضان المبارک میں تلاوت ِکلام پاک کے فیوض وبرکات کا کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ یہ ان بابرکت شب و روز میں صاحبِ ایمان کا سب سے بہترین وظیفہ ہے۔ حضورﷺ کے فرمان کے مطابق، قرآن کے ہر حرف کو پڑھنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں اور رمضان کے دوران ہر نیکی کا ثواب 70گنا بڑھ جاتا ہے۔ مشہور مفسّرِ قرآن، امام فخرالدین رازیؒ فرماتے ہیں کہ ’’قرآنِ کریم تمام آسمانی صحیفوں کا خلاصہ اور نچوڑ ہے، اس لیے قرآن کریم پر ایمان لانا تمام آسمانی صحیفوں پر ایمان لانے کے مترادف ہے اور قرآن کا انکار، تمام الہامی کتابوں کا انکار ہے۔‘‘ (تفسیرِ کبیر)

تاریخِ نزولِ قرآن:مفتی محمد شفیع ؒ، معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں ’’قرآن، ازل سے لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے، (ترجمہ) ’’بلکہ یہ قرآنِ مجید ہے، لوحِ محفوظ میں۔‘‘ پھر لوحِ محفوظ سے اس کا نزول دو مرتبہ ہوا۔ ایک مرتبہ یہ پورا کا پورا آسمانِ دنیا کے بیت العزت (بیت المعمور) میں نازل کردیا گیا۔ بیت العزت کو بیت المعمور بھی کہتے ہیں، یہ کعبۃ اللہ کے محاذات میں آسمان پر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے۔ یہ نزول، لیلۃ القدر میں ہوا۔ قرآن ِکریم کو پہلی مرتبہ آسمانِ دنیا پر نازل کرنے کی حکمت امام ابو شامہؒ نے یہ بیان کی ہے کہ اس سے قرآن کریم کی رفعتِ شان کو ظاہر کرنا مقصود تھا اور ملائکہ کو یہ بات بتانی تھی کہ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، جو اہلِ زمین کی ہدایت کے لیے اتاری جانے والی ہے۔ شیخ زرقانی ؒنے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے کہ’’ اس طرح دو مرتبہ اتارنے سے یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ یہ کتاب ہر شک و شبے سے بالاتر ہے اور آنحضرتﷺ کے قلبِ مبارک کے علاوہ یہ دو جگہ اور بھی محفوظ ہے۔ ایک لوح ِمحفوظ میں اور دوسرے بیت العزت میں۔‘‘ (مناہل العرفان)

قرآن کریم کا دوسرا تدریجی نزول حضرت محمد ﷺ کے قلبِ مبارک پر اس وقت ہوا، جب آپ ؐ کی عمر ِمبارک 40برس تھی، اس نزول کی ابتدا لیلۃ القدر میں اور تکمیل 23برس میں ہوئی۔ ضرورت و حالات کی مناسبت سے آیات ِقرآنی نازل ہوتی رہیں۔ (تفسیر ابن جریر) رسول اللہﷺ کو عطا کیے گئے معجزات میں سے قرآن ِمجید آپ ؐ کا سب سے بڑا اور قیامت تک محفوظ رہنے والا معجزہ ہے، جس کی حفاظت کا ذمّہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ اللہ رب العزت قرآن میں فرماتا ہے ’’بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘ (سورۃ الہجر) اسلام سے پہلے دیگر امّتوں پر نازل کی گئی آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں ان کے ماننے والوں نے اپنی مرضی اور منشا سے ردّوبدل کرلیا، لیکن یہ منفرد شرف قرآن ہی کو حاصل ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود، اس کے زیر، زبر اور پیش میں بھی کوئی کمی بیشی نہ کرسکا۔ آج دنیا بھر میں لاکھوں حفّاظِ کرام ہیں کہ جن کے سینوں میں قرآن مجید اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔ آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب، قرآنِ کریم ہے، جس کا دنیا کی بیش تر زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ قرآن پاک کی سورئہ ابراہیم میں اللہ فرماتا ہے:’’یہ کتاب ہے، جسے ہم نے آپ ؐ کی طرف نازل کیا ہے، تاکہ آپ ؐ ، لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں۔‘‘

قرآنِ مجید کے پانچ حقوق: دراصل قرآنِ کریم وہ نورِ ہدایت ہے، جو بنی نوع انسان کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان وہدایت کی روشنی کی طرف گام زن کرتا ہے اور ایسی راہ دکھاتا ہے، جو روشن بھی ہے اور واضح بھی۔ یہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراطِ مستقیم پر لا کر دین کا سّچا راستہ دکھاتا ہے۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے ’’اللہ تعالیٰ ہر امّت کو ایک شرف عطا کرتا ہے، اس امّت کے لیے سب سے بڑا شرف اور سب سے بڑا سرمایۂ افتخار قرآنِ کریم ہے۔‘‘ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ ’’میں نے حضورﷺ سے درخواست کی کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیں، تو حضورﷺ نے فرمایا ’’تقویٰ کا اہتمام کرو کہ یہ تمام امور کی جڑ ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’اس کے ساتھ کچھ اور بھی ارشاد فرمائیں، تو حضورﷺ نے فرمایا ’’تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرو کہ یہ دنیا میں نور اور آخرت میں ذخیرہ ہے۔‘‘ (صحیح ابنِ حبان) قرآن ِپاک کی تلاوت کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کی جائے۔ ارشادِ ربّانی ہے ’’قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔‘‘حضرت عثمان بن عفانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تم میں بہترین وہ ہے، جس نے (خود) قرآن سیکھا اور اسے (دوسروں کو) سکھایا۔‘‘ (صحیح بخاری) ایک اور حدیث میں حضور ﷺ نے فرمایا ’’میری طرف سے اسے لوگوں تک پہنچائو، خواہ وہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘ حضرت ابنِ عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص کے سینے میں قرآن کا کوئی حصّہ نہیں، وہ اجڑے ہوئے گھر کی مانند ہے۔‘‘ (ترمذی) حجۃ الوداع کے موقعے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اے لوگو!میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر اسے مضبوطی سے تھامے رہو گے، تو کبھی بھی گم راہ نہیں ہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبیؐ کی سنّت۔‘‘ علماء نے قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں قرآنِ مجید کے پانچ حقوق بیان کیے ہیں۔ (1)قرآن پر ایمان فرض ہے۔ (2)ایمان کا تقاضا ہے کہ قرآن کی تلاوت کی جائے۔ (3)قرآن پاک، ہدایت و عمل کی کتاب ہے۔ اس کے احکامات پر عمل کیا جائے۔ (4) تدبّروتفکر، قرآن پاک کے معنیٰ و مطالب پر غور و خوض۔(5)تعلیم و تبلیغ، قرآن سیکھیں اور سکھائیں۔

ہر شعبہ زندگی سے متعلق رہنما اصول: قرآنِ مجید قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے واحد ذریعۂ ہدایت و نجات ہے۔ انسانیت کی فوزوفلاح اور آخرت کی نجات کا دارومدار کتاب اللہ سے وابستگی ہی میں ہے۔ ایمانیات، عبادات، معاملات، اخلاقیات، معاشرت، معاشیات، سائنس و سیاسیات، ایجادات و مشاہدات، علمیات و عملیات غرض ہر شعبۂ زندگی سے متعلق رہنما اصول، اس مقدس کتابِ الٰہی میں موجود ہیں۔ یہ بنی نوع انسان کے لیے خوش گوار اور کام یاب زندگی گزارنے کا ایک مکمل دستورِ حیات، ایک مفصّل منشور، ایک بھرپور مینوئل اور ایک بہترین عملی دستاویز ہے۔ کل کائنات کے اسرارورموز، چاہے وہ زیرِ آب اللہ کی نشانیاں ہوں یا زیرِ زمین پوشیدہ ذخائر، چاہے وہ آسمانوں کے معاملات ہوں یا دیگر مخلوقات کے واقعات، غرض یہ عجائبات و کمالات سے بَھری وہ علم و عمل والی کتاب ہے کہ جس کے ایک ایک لفظ میں حکمت و بصیرت پوشیدہ ہے۔ دنیا ختم ہو جائے گی، لیکن قرآن کے عجائبات ختم نہ ہوں گے۔ جب بھی سائنسی، ارتقائی عمل کے ذریعے مشاہدات سامنے آتے رہیں گے، قرآن کے کمالات عیاں ہوتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی دنیا میں کوئی چیز ایجاد ہوتی ہے، اہلِ علم پکار اٹھتے ہیں کہ اس کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے ’’اور ہم نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے ، جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں، وہ ان پر ظاہر کردو، تاکہ وہ غور کریں۔ (سورۃالنحل) تدبّر و تفکّر، مسلمانوں پر قرآن کا بہت بڑا حق ہے۔ حضورﷺ نے جب قرآن کی تعلیم عام کی اور لوگ اس کے احکامات پر عمل کرنے لگے، تو چشمِ فلک نے حیرت انگیز انقلاب دیکھا۔ قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر کفر و شرک کے تاریک ماحول اور دورِ جاہلیت میں پروان چڑھنے والے عرب، دنیا کے امام بن گئے۔ عرب کی ایک چھوٹی سی بستی، مدینے سے پھوٹنے والی روشنی نے ساری دنیا کو روشن کر دیا۔ نبی کے نام لیوا کائنات کے حکمران بن گئے، پھر جب تک مسلمان قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا رہے، دنیا کی سربراہی کا تاج ان کے سروں پر سجا رہا، لیکن جب مسلمانوں نے قرآنی تعلیم کو پسِ پشت ڈال دیا، تو زوال و پستی ان کا مقدر بن گئے۔

لیلۃ القدر: نزولِ قرآن اور نزولِ ملائکہ کی بابرکت شب

صحابیِ رسول، حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں’’ جب رمضان آیا، تو رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ’’تمہارے اوپر ایک مہینہ ایسا آیا ہے، جس میں ایک رات (لیلۃ القدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہا، گویا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا اور اس کی سعادت سے صرف بدنصیب ہی محروم کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (ابن ماجہ) لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت اور قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی مقدّس کتاب، قرآن ِکریم میں پوری ایک سورت نازل فرما کر اس کے وقار و عظمت پر ہمیشہ کے لیے مہرِ تصدیق ثبت فرما دی۔ اللہ نے سورۃ القدر میں ارشاد فرمایا ’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں نازل کیا اور تمہیں کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟ لیلۃ القدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اس میں روح الامین اور فرشتے ہر کام کے (انتظام کے) لیے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں اور یہ رات طلوعِ صبح تک (امان اور) سلامتی ہے۔‘‘ (سورۃ القدر)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ’’ لیلۃ القدر میں زمین پر بے حساب فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان کے نزول کے بعد آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔‘‘ قدر کے معنی عظمت و بزرگی کے ہیں۔ اسے لیلۃ القدر کہنے کی وجہ اس رات کی قدرومنزلت اور عظمت و بزرگی ہے۔ حضرت ابوبکر ورّاق ؒ تحریر کرتے ہیں ’’اسے لیلۃ القدر (شب قدر) اس وجہ سے کہا گیا کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بداعمالیوں کے سبب کوئی قدروقیمت نہ تھی، اس رات میں توبہ و استغفار اور عبادت کے ذریعے وہ بھی صاحبِ قدرو شرف بن جاتا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)حضرت عائشہ ؓ سے ایک اور روایت ہے کہ ’’میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ!اگر میں شبِ قدر کو پا لوں، تو اس میں کیا دعا مانگوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’یہ دعا مانگنا ’’ اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ‘‘ترجمہ:’’اے اللہ!تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے، لہٰذا تو مجھے معاف فرما دے۔‘‘ (ترمذی/مشکوٰۃ) حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقعے پر رسول اللہﷺ باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شبِ قدر کی اطلاع فرمادیں، مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہو رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں اس لیے آیا تھا کہ تمہیں شبِ قدر کے بارے میں آگاہ کردوں، مگر فلاں فلاں شخص میں جھگڑا ہو رہا تھا، جس کی وجہ سے اسے مخفی کردیاگیا (پوشیدہ رکھ دیا گیا) اور اس کی تعیین (مخصوص کرنا) اٹھالی گئی، کیا بعید کہ یہ اٹھا لینا اللہ تعالیٰ کے علم میں بہتر ہو، لہٰذا اب اسے طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ علماء فرماتے ہیں کہ’’ اس کے ظاہر نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ میرے بندے زیادہ سے زیادہ راتوں میں میری عبادت کر کے مجھ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرلیں اور میں ہر فضیلت والی رات، ان کی شب بیداریوں میں کی گئی عبادات کے عوض دنیا اور آخرت میں وہ کچھ عطا کر دوں، جس کا ان کے اذہان میں تصوّر بھی نہ ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ ’’شبِ برأت‘‘ کی طرح شبِ قدر کا بھی تعیّن فرمادیتا، تو عموماً عام مسلمان صرف ایک ہی رات کو فضیلت والی رات سمجھ کر عبادت کرتے، لیکن اللہ نے اس رات کے ظہور کے لیے پانچ راتیں مقرر فرما کر مسلمانوں کے جذبۂ تجسّس و تلاش، عبادت و ریاضت اور جستجو و شوق کو دوچند کر دیا اور اپنی رحمتوں کے جوش مارتے سمندر کی وسعتوں کو بڑھا دیا۔ شوقِ شبِ قدر میں رمضان کی ان طاق راتوں میں اکثر مساجد میں محافلِ شبینہ منعقد ہوتی ہیں۔ ان ایمان افروز، روح پرور اجتماعات میں کیف و سرور کی لذّتوں سے سرشار، حفّاظِ کرام کی مسحورکن تلاوت، جسم و روح کو منور و شاداں کر دیتی ہے۔ عقیدتوں سے نہال، محبتوں کے لازوال جذبوں سے مالامال صاحبِ ایمان دعائوں بھری جھولیاں پھیلائے، کانپتے ہاتھوں، لرزتے ہونٹوں، اشک بار آنکھوں کے ساتھ ماضی سے شرم سار، حال پر نادم اپنے رب کے حضور عجزو انکساری کی تصویر بنے معافی کے خواست گار نظر آتے ہیں، جب کہ خواتین گھروں پر شب بیداری کر کے اپنے رب کو راضی کرتی ہیں۔روایت میں ہے کہ اس رات ملائکہ کی تخلیق ہوئی۔ اسی رات جنّت میں درخت لگائے گئے۔ اسی رات حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر اٹھائے گئے اور اسی رات بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی اور یہی وہ رحمتوں والی رات ہے کہ جس میں بندے کی زبان و قلب سے نکلی دعا اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں قبول و مقبول ہوتی ہے۔ اسی بابرکت رات میں اللہ رب العزت غروبِ آفتاب سے لے کر صبحِ صادق تک آسمان دنیا پر اپنے حاجت مند بندوں کا منتظر رہتا ہے اور فرشتوں سے اعلان کرواتا ہے کہ’’ کوئی ہے، جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں۔‘‘ گویا، ہم تو مائل بہ کرم ہیں..... کوئی سائل ہی نہیں۔

اللہ تعالیٰ اس ایک رات میں جس قدر انعام و اکرام کی بارش فرماتا ہے، اس کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ اللہ کے کرم کا ذرا تصور تو کیجیے کہ ایک رات کا ثواب ایک ہزار مہینوں (یعنی 83سال 4مہینے) کے ثواب سے بھی زیادہ اور پھر اس کا اجر دینے کے لیے بھی ربِ کائنات، خود آسمان ِدنیا پر موجود ہے۔ مساجد کی پرنور محافل ہوں یا گھروں کا کوئی تاریک گوشہ، اللہ کے حضور اٹھنے والے ہاتھ، لبوں سے نکلا ہر دعائیہ کلمہ، آنکھ سے ٹپکا ہر آنسو، ربِ کائنات کے حضور پیش کیا جارہا ہے۔ فرشتے مانگنے والوں کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں، لیکن ہم میں سے اکثریت ان مقدّس راتوں میں کہاں ہوتی ہے؟ ذرا سوچیے، نظریں دوڑایئے، شاید ان میں ہم اور ہمارے اہلِ خانہ بھی شامل ہوں۔ رات کے پہلے پہر سے صبحِ صادق تک شاپنگ مالز اور بازاروں میں عوام کا ازدحام ہے۔ ایک ہی تو کمائی اور منافعے کا مہینہ ہے اور اصل خریدو فروخت ہی آخری عشرے میں ہوتی ہے، لیکن ان اسباب کے باوجود اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ’’تم ہی غالب رہوگے، اگر تم مومن ہو۔‘‘ ماہِ صیام کے چند بابرکت ایّام اور چند رحمتوں والی راتیں ابھی باقی ہیں، جن میں 27ویں شب بھی ہے۔ جس کی فضیلت سے سب واقف ہیں۔ ان آنے والے روز و شب اورساعتوں کو غنیمت جانیے۔ انہیں یادِ الٰہی اور توبہ و استغفار میں گزاریں۔ رب کو راضی کریں، یاد رکھیں، رب راضی تو سب راضی۔ اپنے جسم و روح کو عبادت کی لذّت سے آشنا کریں، تاکہ ماہِ رمضان کے بعد بھی حبّ الٰہی اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے یہ آشنائی دنیا اور آخرت میں کام یابی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔

27رمضان المبارک اور قیامِ پاکستان
مدینہ منورہ کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی نظریاتی ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جو 27رمضان المبارک کی بابرکت رات کو طویل ترین جدوجہد، بے پناہ قربانیوں اور لاکھوں شہیدوں کے خون کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ پاکستان اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ مملکتِ خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان سے محبت کریں، اس کی حفاظت کریں اور رمضان المبارک کی ان بابرکت ساعتوں میں اس کی خوش حالی اور ترقی کے لیے دعاگو ہوں۔

تحریر: محمود میاں نجمی


 رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ بھی جدا ہوا چاہتا ہے۔ پہلے عشرے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحمتوں، برکتوں کا نزول فرمایا۔ دوسرے عشرے میں بخشش و مغفرت عنایت کی گئی اور اب تیسرے عشرے کے لیے جہنم سے نجات کا پروانہ اور جنّت کی بشارت موجودہے۔ کتنے خوش قسمت ہیں، اللہ کے وہ نیک بندے، جو اس عظیم انعام کے مستحق قرار پائے اور کتنے بدنصیب ہیں وہ، جن کی آنکھوں پر اب بھی غفلت کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ احادیث میں ماہِ مبارک کے آخری عشرے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ امّ المومنین، حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں ’’جب رمضان کا آخری عشرہ آتا، تو رسول اللہؐ راتوں کو بے دار رہتے، اپنے گھر والوں کو بھی بے دار فرماتے اور اتنی محنت کرتے، جتنی کسی اور عشرے میں نہیں کرتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)۔ یہ عشرہ رحمت اور مغفرت کی انتہا ہے، یعنی اگر کوئی شخص اپنے گناہوں پر نادم ہو کر صدقِ دل سے توبہ کرلے اور معافی کا طلب گار ہو، تو رحمتِ خداوندی جوش میں آتی ہے اور اسے جہنّم سے نجات دے دی جاتی ہے۔ آخری عشرے کی فضیلت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس عشرے میں اللہ کے عبادت گزار بندے اعتکاف بیٹھتے ہیں۔ اس آخری عشرے کی طاق راتوں میں شبِ قدر ہے، جس میں قرآن نازل ہوا۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے ’’ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘ (سورۃ القدر)


طاق راتوں کی فضیلت: رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں شب کی بڑی فضیلت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں ’’رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ یہ طاق راتیں بندئہ مومن کے لیے اللہ کا بہت بڑا انعام ہیں، جو عبادات کو کندن کردیتی ہیں۔ پس، ان راتوں کو عبادتِ الٰہی اور ذکرِ الٰہی میں گزار کر اللہ کا قرب حاصل کریں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے شبِ برأت کو ظاہر فرمادیا کہ ہر سال ماہِ شعبان کی پندرہویں رات، شب برأت ہے، تاہم شب قدر کو مخفی رکھا۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے ان پانچ طاق راتوں میں اسے تلاش کرنے کے شوق میں زیادہ سے زیادہ عبادت و ریاضت، تسبیح و تہلیل، ذکر و اذکار کے ذریعے رب سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں۔ اس کی رحمتوں کی بارش سے سیراب ہوں اور فیوض و برکات کے انمول خزینوں کے حق دار بن جائیں۔

اعتکاف، ماہِ رمضان کے آخری عشرے کی اہم عبادت: امام الانبیاء، محسنِ انسانیت، رحمتہ للعالمین، رسالت مآب، حضور نبی کریمؐ نے فرمایا ’’جو شخص اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے ایک دن کا بھی اعتکاف کرتا ہے، تو اللہ اس شخص کے اور دوزخ کے درمیان تین ایسی خندقوں کے برابر دیوار قائم کر دیتا ہے، جن خندقوں کا فاصلہ زمین و آسمان کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے۔‘‘ روایت میں آتا ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا ’’جو شخص رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرے، تو اسے دو حج اور دو عمروں کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘ (بیہقی)۔اعتکاف کے لغوی معنی ہیں ٹھہرنا اور رکنا۔ شریعت کی اصطلاح میں اعتکاف اس خاص عبادت کا نام ہے، جس میں کوئی شخص اللہ کا خصوصی قرب حاصل کرنے کی نیّت سے لوگوں سے الگ تھلگ مسجد میں ایک خاص مدّت کے لیے قیام کرتا ہے۔ اعتکاف کی تین قسمیں ہیں، ایک واجب، دوسری سنّتِ موکدہ کفایہ اور تیسری نفل۔

اعتکافِ واجب: یہ کسی منّت یا نذر کے لیے ہوتا ہے، جس میں کوئی شخص یہ کہے کہ میرا فلاں کام ہوگیا، تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا۔ اگر اس کا وہ کام ہوگیا، تو اس شخص پر واجب ہے کہ وہ اعتکاف کرے۔ اعتکافِ واجب کے لیے روزہ شرط ہے، بغیر روزے کے اعتکافِ واجب صحیح نہیں ہے۔ (درمختار)۔

اعتکافِ سنّت موکدہ: یہ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں کیا جاتا ہے۔ یعنی بیسویں رمضان، سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیّت سے مسجد میں داخل ہوجائے اور عید کا چاند ظاہر ہونے کے بعد مسجد سے باہر نکلے۔ اعتکاف کی اس قسم کو سنّتِ موکدہ کفایہ کہتے ہیں۔ یعنی اگر محلّے سے ایک آدمی بھی اعتکاف میں بیٹھ گیا، تو اہلِ محلّہ آخرت کے مواخذے سے بَری ہوجائیں گے۔ اور اگر خدانخواستہ محلّے سے کوئی بھی نہ بیٹھا، تو آخرت میں سب کا مواخذہ ہوگا۔

اعتکافِ نفل:امام محمدؒ کے نزدیک کم سے کم اعتکاف یہ ہے کہ جب کوئی شخص مسجد میں نماز کے لیے داخل ہو، تو اعتکاف کی نیّت کرلے، جتنی دیر مسجد میں رہے گا، اعتکاف کا ثواب پائے گا۔ نیّت کے لیے دل میں خیال کرلینا اور منہ سے صرف یہ کہنا کافی ہے کہ ’’میں نے اللہ کے لیے اعتکاف کی نیّت کی۔‘‘ مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف کرے اور خواتین اپنے گھر میں نماز پڑھنے والی جگہ پر اعتکاف کرلیں۔

معتکف کے لیے ضروری ہدایات

معتکف کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دن اور رات کا زیادہ وقت عبادتِ الٰہی، یعنی نفلی نمازوں، تلاوتِ کلام پاک، ذکر و اذکار، تسبیحات و تہلیلات میں صَرف کرے۔ کثرت سے درود شریف کا وِرد کرے۔ بعض باتیں ہر حال میں حرام ہیں، جن سے حالتِ اعتکاف میں بھی بچنا بہت ضروری ہے، مثلاً غیبت، بہتان، جھوٹ، چغلی، عیب جوئی، جھوٹی قسمیں کھانا، بدنام کرنا، ریاکاری، غرور و تکبّر، کسی کو اذیت دینا، سگریٹ، سگار، بیڑی یا حقّہ پینا، پان یا گٹکا کھانا، آپس میں گپ شپ کرنا۔ معتکفین کے لیے لازم ہے کہ مسجد کے اندر صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔ خصوصی طور پر سحری اور افطار کے وقت اپنے ذاتی سامان مثلاً کپڑے، تولیے وغیرہ کو سمیٹ کر قرینے سے رکھیں، نماز کے اوقات کا خصوصی خیال رکھیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ نوجوان معتکف، فرض نمازوں کے بعد آپس میں گفتگو شروع کردیتے ہیں، جس سے دیگر نمازیوں کی عبادت میں خلل واقع ہوتا ہے۔ معتکف کو موبائل فون کے استعمال سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ مساجد میں اعتکاف سے پہلے معتکفین کی تربیت کا انتظام ضروری ہے، لہٰذا مساجد کی انتظامیہ اس امَرپر خصوصی توجّہ دے۔

فتحِ مکّہ

رمضان المبارک میں حق و باطل کے درمیان ہونے والا تاریخ ساز اور فیصلہ کن معرکہ

رمضان المبارک کی رحمتوں، انعامات اور فیوض و برکات کی ساعتوں میں اللہ نے مسلمانوں کو عظیم فتوحات سے نوازا۔ 17رمضان 2ہجری کو غزوئہ بدر کے محیّرالعقول معرکے میں تاریخ ساز کام یابی کے بعد اس بات کا امکان پیدا ہوچلا تھا کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد مکّے کو بھی مسلمانوں کے زیرِنگیں کردے گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ غزوئہ بدر کے صرف چھے برس بعد ہی سرکارِ دوعالم، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی و سربراہی میں مسلمانوں نے کرئہ ارض پر وہ عظیم الشان انقلاب برپا کردیا کہ جس کی نظیر تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ صلحِ حدیبیہ کی مسلسل عہد شکنی کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑے فیصلے کا اعلان کردیا اور 10رمضان المبارک 8ہجری کو آپؐ 10ہزار صحابہ کی عظیم الّشان فوج لے کر بہ نفسِ نفیس مکّے کی جانب روانہ ہوئے۔ 16رمضان المبارک کو آپؐ نے مکّے سے کچھ فاصلے پر وادئ ’’مرالظہران‘‘ پہنچ کر قیام فرمایا۔ جنگی حکمتِ عملی کے تحت آپؐ نے حکم دیا کہ سب الگ الگ آگ روشن کریں۔ اس عمل سے پورا صحرا روشن و منور ہوگیا۔ قریش کو جب مسلمانوں کی آمد کی اطلاع ملی، تو انہوں نے تحقیق کے لیے اپنے سردار، ابوسفیان کو روانہ کیا۔ جب ابوسفیان نے رات کی تاریکی میں مکّے کے دشت و جبل کو روشنی سے منور دیکھا، تو شدتِ حیرانی میں بے اختیار کہہ اٹھا۔’’خدا کی قسم! میں نے آج جیسی روشنی اور ایسا روشن لشکر کبھی نہ دیکھا۔‘‘

منگل17 رمضان کی صبح، رسول اللہؐ نے فوج کو کوچ کا حکم دیا اور آپؐ وادئ ’’زی طویٰ‘‘ پہنچے۔ یہاں آپؐ نے لشکر کی ترتیب و تقسیم فرمائی۔ ابو سفیان نے پہلے ہی اہل ِقریش کو مسلمانوں کی ایک عظیم فوج کی آمد کی اطلاع دے دی تھی۔ اس اطلاع سے کفّارِ قریش بدحواس ہو کر ڈر کے مارے اپنے گھروں میں قید ہوگئے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور حکم کے مطابق، مسلمان تین طرف سے مکّے میں داخل ہوئے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ، مکّے کے زیریں حصّے سے اندر داخل ہوئے اور قریش کے اوباش نوجوانوں سے نبرد آزما ہوتے اور مکّے کی گلی کوچوں کو روندتے ہوئے کوہِ صفا پہنچے۔ حضرت ابو عبیدہؓ پیادہ پر مقرر تھے، وہ وادئ بطن کے راستے مکّے میں داخل ہوئے۔ حضرت زبیرؓ، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علَم بردار تھے، انہوں نےرسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق، حجون میں مسجدِ فتح کے پاس علَم نصب کیا اور وہیں ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ کچھ توقف کے بعد آپؐ انصار و مہاجرین کے بہت بڑے جَلو کے درمیان مسجدِ حرام کی جانب بڑھے۔ اللہ کی شان نرالی ہے، جس مکّے سے8سال قبل آپؐ کو رات کی تاریکی میں ہجرت پر مجبور کردیا گیا تھا، آج اسی مکّے میں حکمراں کی حیثیت سے داخل ہو رہے ہیں۔ آپؐ نے آگے بڑھ کر حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ بیت اللہ کے گرد اور چھت پر360بت تھے، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی، آپؐ اس کمان سے بتوں کو ٹھوکر مارتے جاتے اور کہتے جاتے تھے۔’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل مٹنے ہی کی چیز ہے۔‘‘ آپؐ کی ٹھوکر سے تمام بت زمیں بوس ہوگئے۔ ان میں بت پرستوں کا مرکزی بت ’’ہبل‘‘ بھی تھا، جسے انسانی صورت میں یاقوتِ احمر سے بنایا گیا تھا۔ اس کام سے فارغ ہوکر آپؐ نے طوافِ کعبہ کیا، پھر کعبے کے کلید بردار، حضرت عثمان بن طلحہؓ سے چابی لے کر کعبہ شریف کا دروازہ کھولا، اندر دیواروں پر حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ کی خود ساختہ تصاویر تھیں، آپؐ نے انہیں مٹانے کا حکم دیا۔ پھر آپؐ اندر تشریف لے گئے، نوافل ادا کیے اور دیر تک ذکر و اذکار کرتے رہے۔ جب باہر آئے، تو دیکھا کہ سامنے ہجومِ عام جمع ہے، جو شرمندہ چہروں کے ساتھ اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے بے تاب ہے۔ ان میں سردارِ مکّہ بھی ہیں، امراء و رئوسا بھی کہ جن کے ہاتھ معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، ان میں وہ بھی ہیں، جو حضورؐ کی راہ میں کانٹے بچھاتے، ایڑیوں کو پتھروں سے لہولہان کرتے، گلے میں رسّا ڈال کر کھینچتے، تپتی ریت میں مسلمانوں کو لٹا کر جسموں کو آگ میں دہکتی سلاخوں سے داغتے۔اس روزوہ سب حضورؐ کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ ہر شخص اپنے بدحواس وجود کے ساتھ ایک سخت سزا کا منتظر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب شروع کیا! ’’اے قریش کے لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ اگرچہ وہ ظالم اور بے رحم لوگ تھے، لیکن مزاجِ نبیؐ سے واقف تھے۔ پکار اٹھے کہ ’’آپ شریف بھائی اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔‘‘ جواباً رحمتہ للعالمین کی آواز نے فضا میں پھول بکھیردیئے۔ ’’تم پر آج کچھ گرفت نہیں، جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘ ہجرت کے وقت حضورؐ کے گھر کا محاصرہ کرنے والے چودہ سرداروں میں سے گیارہ غزوئہ بدر میں جہنّم رسید ہوچکے تھے، تین غیرحاضری کی وجہ سے زندہ بچ گئے تھے۔ آج وہ بھی اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے سر جھکائے ہمہ تن گوش تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے جب ان تینوں یعنی ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور جبیر ابن مطعم کا نام لیا، تو مجمعے کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ ہر شخص کو ان کے بھیانک انجام کا یقین تھا۔ پھر محسنِ انسانیتؐ کی آواز نے سکوت توڑا۔ ’’ان تینوں کو بھی امان دی جاتی ہے اور جو حرمِ کعبہ کی دیوار کے سائے میں بیٹھ جائے، اسے بھی امان ہے، جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے، اسے بھی امان ہے، جو ہتھیار پھینک دے، اسے بھی امان ہے۔‘‘ قریش کے سب سرداروں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے، لیکن ابوجہل کا بیٹا، عکرمہ فتحِ مکّہ کے وقت یمن فرار ہوگیا تھا۔ عکرمہ کی بیوی اپنے بچّوں کے ساتھ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس کے لیے امان طلب کی۔ آپؐ نے اسے بھی امان دے دی۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کی کنجی حضرت عثمان بن طلحہؓ کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’یہ اب ہمیشہ تمہارے پاس ہی رہے گی۔ اللہ نے تم لوگوں کو اپنے گھر کا امین بنایا ہے۔‘‘ نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ رسول اللہؐ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ کعبے کی چھت پر چڑھ کر اذان دو، اور پھر روحِ اذانِ بلالی سے مکّے کے پہاڑوں سمیت ساری فضا جھوم اٹھی۔ نماز سے فارغ ہوکر حضورؐ، امّ ہانیؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ وہاں آپؐ نے غسل فرمایا اور آٹھ رکعت نمازِ شکرانہ ادا فرمائی اور اس طرح رمضان المبارک میں فتحِ مکّہ کے اس تاریخ ساز اور عظیم معرکے نے جزیرئہ عرب سے بت پرستی کا مکمل خاتمہ کردیا۔

تحریر:محمود میاں نجمی

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget