مئی 2018
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 ماہِ رمضان المبارک کا پہلاعشرہ، عشرئہ رحمت ہم سے جدا ہوا۔ اب دوسرا عشرہ، عشرئہ ’’بخشش و مغفرت‘‘ اپنی تمام تر فیّوض و برکات، رحمت و مغفرت کےساتھ سایہ فگن ہے۔ پہلےعشرے میں اہلِ ایمان نے روزے کے ساتھ زکوٰۃ، صدقات و خیرات، تراویح و تہجّد اور عبادات و اذکار خوب کیا۔ قیامِ لیل میں گریہ وزاری، مناجات کے ساتھ اس کی رحمتوں کے طلب گار رہے، تو ان شاء اللہ ربِ کریم نے رحمتوں کا نزول بھی فرمایا ہوگا۔ آئیے، اب مغفرت کے اس دوسرے عشرے میں شب کی تنہائیوں میں اشکِ ندامت بہا کر اپنے گناہوں پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے توبہ و استغفار کریں اور اپنے رب کو راضی کرلیں کہ کون جانے، اگلے سال برکتوں والا یہ مہینہ، رحمت، مغفرت اور نجات کے یہ عشرے میسّر بھی آتے ہیں یا نہیں؟ ماہِ صیام کے دوسرے عشرے میں ہمیں اپنی ،اپنے والدین اور جملہ اہلِ ایمان کی بخشش و مغفرت کے لیے پہلے سے زیادہ خشوع و خضوع سے دعائیں، التجائیں کرنی ہیں۔ حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ جبرائیلِ امین میرے پاس آئے اور جب میں نے منبر کے پہلے درجے پر قدم رکھا، تو انہوں نے کہا کہ ہلاک ہو جائے، وہ شخص، جس نے رمضان المبار ک کا مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔ میں نے ا ُس پر آمین کہا ۔‘‘ (الترغیب والترہیب)


دوسرے عشرےکا سب سے اہم واقعہ: رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں جو سب سے اہم واقعہ پیش آیا، وہ حق و باطل کے درمیان ایک عظیم معرکہ تھا،جو بدر کے مقام پر پیش آیا اور جس نے مجموعی طور پر مسلمانوں کے حالات پر بڑے مثبت اثرات مرتب کیے۔ ایک طرف انہیں سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی برتری نصیب ہوئی، دوسری طرف ان کی بہادری، شجاعت اور جواں مردی نے مدینے اور اس کے آس پاس موجود یہودی اور عیسائی قبائل کی شورشوں کو بھی دبادیا۔ اس کے ساتھ ہی ابو جہل سمیت نام ور روسائے قریش اور سردار اسلامی تیغِ جہاد کا لقمہ بن کر عبرت کا نشان بن گئے اور کفارِ مکّہ کا غرور و تکبّر خاک میں مل گیا۔ کفرواسلام کی اس پہلی باقاعدہ جنگ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن نے اس فتحِ عظیم کو ’’یومِ فرقان‘‘ کے نام سے یاد کیا اور اللہ نے قرآن کی ایک سورت، سورۃ الانفال میں غزوئہ بدر کے واقعے کی تفصیل بیان کرکے اسے تمام غزوات میں امتیازی درجہ عطا فرمایا۔

یوم الفرقان ، حق و باطل میں واضح فرق کا تاریخ ساز دن’’غزوہ ٔ بدر‘‘ حق و باطل اور اسلام و کفر کے درمیان وہ پہلا باقاعدہ تاریخ ساز معرکہ تھا کہ جس میں طاقت کے گھمنڈ میں چُورکفّارِ مکّہ کی جھوٹی شان و شوکت ، غرور و تکبّر اور رعونت کو مٹھی بھر جاں نثاران ِاسلام کے ہاتھوں عبرت ناک اور ذلت آمیز شکست میں بدل گئی۔ محض چند گھنٹوں میں تائیدِ خداوندی کی بدولت کفر و جہالت اور ظلم و بربریت کے بڑے بڑے قدر آور سورما زمیں بوس ہو گئے۔ غزوہ ٔ بدر کی عظیم الشّان فتح نے رہتی دنیا تک کے لیے انسانوں کو عزم و ہمّت، عمل و بے داری کا ایک لازوال پیغام دے دیا ہے۔ عددی برتری، جدید اسلحہ، تجربہ کار جنگجو، جنگی چالوں کے ماہر خوں خوار سردار، جھوٹی شان و شوکت اور دولت کی فراوانی کے باوجود کفارانِ اسلام، قوتِ ایمانی کے جذبے سے سرشار، مٹھی بھر جاں نثاروں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور فتح، حق کے متوالوں کا مقدر بنی۔ ’’غزوہ ٔ بدر‘‘ اللہ کی نصرت اور دعائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجاہدین کے ایثار و قربانی، جرأت و استقامت، دلیری و جاں بازی کا وہ حیرت انگیز معرکہ تھا کہ جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ایک وسیع خطّے پر کلمہ حق کا اسلامی پرچم سربلند ہو گیا اور کرۂ ارض کے ہر ہر گوشے میں توحید کے جاںنثار پیدا ہو گئے۔ مسلمانوں اور قریشِ مکّہ کے درمیان یہ عظیم معرکہ رمضان کریم کے دوسرے عشرے میں 17؍ رمضان المبارک 2ہجری کو مدینے سے 129کلو میٹر کے فاصلے پرواقع، بدرکے میدان میں پیش آیا۔

غزوہ ٔ بدر کے اسباب و تفصیل:ہجرت کا ابھی دوسرا ہی سال تھا۔ مدینہ میں انصار سمیت مسلمانوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی، ان میں ضعیف بھی تھے اور بیمار بھی، کم زور و لاغر بھی تھے اور بچّے بھی، انصارِ مدینہ کے بے پناہ ایثار و قربانی کے باوجود مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اصحابِ صفّہؓ‘‘ میں شامل تھی۔ دن رات حبِّ الٰہی اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے سرشار یہ جاں نثارانِ اسلام، تبلیغِ دین میں مصروف تھے، کچھ مل گیا، تو کھالیا، ورنہ صبر و شکر تو ہے ہی… امام الانبیاء، شاہِ عرب و عجم، تاج دارِ مدینہ، سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اپنے جاں نثار رفقاء کے ساتھ مدینے کو اسلامی ریاست بنانے میں ہمہ تن مصروف تھے۔ دوسری طرف کفارِ مکّہ، حضور ؐ اور ان کے ساتھیوں کے ہجرت کرجانے پر سخت چراغ پاتھے۔ سردارانِ قریش کو یہ گوارا نہیں تھا کہ جو مسلمان تیرہ برس تک ان کے مصائب و آلام، ظلم و بربریت اور کذب و افتراء کو برداشت کرتے رہے، وہ ایک اسلامی ریاست قائم کرلیں؟ ابوجہل، ابولہب، ابوسفیان سمیت سردارانِ مکّہ مسلمان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے تھے۔ مکّے میں مقیم مسلمان ان کے روح فرسا مظالم کا نشانہ بنتے رہے۔ ہجرت کرنے والوں کے مال و اسباب اور جائیدادوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ مسلمانوں کے قافلوں کو راستے میں روک کر لوٹ لینا روز کا معمول تھا۔ حالات روز بہ روز بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے تھے۔ حضور نبی کریمﷺ کو مسلسل اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ ابوجہل اور اس کے رفقاء مدینے پر ایک بھر پور حملے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ان ہی دنوں ابوسفیان ایک بڑا تجارتی قافلہ لے کر شام سے مکّے کی جانب روانہ ہوا۔ اس قافلے کی حفاظت کے بہانے ابوجہل بھی قریش کے جنگجو سرداروں کی ایک بڑی فوج لے کر شاہانہ انداز میں مدینے کی جانب روانہ ہوگیا۔ غرور و رعونت سے سرشار، ابوجہل کو کامل یقین تھا کہ بے سرو سامانی کے شکار مدینے کے یہ چند سو نہتّے مسلمان اس کے اسلحے سے لیس زرہ پوش جنگجو شہ سواروں کا مقابلہ نہ کرپائیں گے اور ایک ہی وار میں ان سب کا خاتمہ ہوجائے گا۔ حضور نبی کریمﷺ کو جب ابوجہل کے اس جنگی جنون کی خبر ملی، تو آپؐ نے فوری طور پر مجلسِ شوریٰ طلب کرلی اور صحابہ کرامؓ کو صورتِ حال سے آگاہ فرماتے ہوئے رائے طلب فرمائی۔ اس موقعے پر انصار و مہاجرین کے نمائندوں نے یک زبان ہوکر اپنے جان و مال کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا عزم کیا۔ سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اٹھے اور والہانہ انداز میں حقِ جاں نثاری ادا فرمایا۔ پھر حضرت عمر فاروقؓ جوشِ ایمانی میں اٹھے اور دین پر مَرمٹنے کے عزم کا اظہار کیا۔ پھر حضرت مقداد بن عمروؓ نے جرأت و استقامت کااظہار کرتے ہوئے فرمایا ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں، جنہوں نے حضرت موسیٰ سے کہہ دیا تھا کہ تم اور تمہارا رب لڑو ،ہم تو یہاں بیٹھے تماشا دیکھیں گے۔‘‘ جس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارِ مدینہ کی رائے معلوم کرنا چاہی۔اس موقعے پر حضرت سعد بن معاذ ؓ نے جو ایمان افروز کلمات ادا کیے، وہ تاریخ کا حصّہ ہیں ۔

آپ نے فرمایا ’’اے اللہ کے رسولﷺ !یہ کیسےممکن ہے کہ اللہ کا رسول ﷺ تو کفار کے مقابلے کو جائیں اور ہم گھر بیٹھے رہیں۔ یہ کفارِ مکّہ تو خاک کا ڈھیر ہیں، ہم ان سے کیا ڈریں؟ آپ اگر حکم دیں گے کہ’’سمندر میں کود پڑو، تو ہم سب بلادریغ آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔‘‘ ان اصحاب باوفا کے ایمان افروز کلمات نے حضور ؐ سمیت اہلِ مجلس کو خوش کردیا۔ پھر آپﷺ نے دعا فرمائی اور جنگ کی تیاری کا حکم دیا۔

12 رمضان المبارک 2ہجری کو سرکارِ دو عالم ﷺ 313 صحابۂ کرامؓ کو لے کر مدینے سے چلے۔ بے سروسامانی کا عالم یہ تھا کہ پورے لشکر میں صرف 2 گھوڑے تھے، جن پر حضرت زبیر ؓ اور حضرت مقدادؓ سوار تھے۔ 70اونٹ تھے اور ہر اونٹ پر تین سے چار صحابہؓ سوار تھے۔ خود حضورﷺ کے اونٹ پر بھی آپ کے ساتھ دو صحابی تھے۔ جب کہ بعض حضرات پیدل تھے۔ صحابہ ؓ جوشِ ایمانی اور جذبۂ جہاد سے سرشار تھے۔ مسلمانوں کے سامانِ حرب کا یہ عالم تھا کہ اگر تلوار تھی، تو نیزہ اور کمان نہ تھی اور اگر نیزہ تھا، تو تلوار نہ تھی۔ ان کے مقابلے میں مشرکینِ مکّہ جدید اسلحے سے لیس تھے۔ ان میں ایک ہزار سپاہ، سامانِ حرب و ضرب کی فراوانی کے ساتھ فوجیوں کی خوش نودی کے لیے شراب کے مٹکے اور گانے بجانے والیاں بھی ساتھ تھیں۔ مختصر یہ کہ بدر کا وہ مقام ایک عجیب ہی منظر پیش کررہا تھا۔ ایک طرف، قریشِ مکّہ کے خوں خوار جنگجوئوں کا سامانِ حرب سے لیس جمِ غفیر تھا، تو دوسری طرف چند سو بے سروسامان مجاہدین کی مقدس جماعت تھی کہ جن کی ظاہری حالت کسی طور بھی جنگ کے قابل نہ تھی۔ آگ برساتی دھوپ اور ریت کے تپتے ذرّات کے درمیان، روزے کی حالت میں آیاتِ قرآنی کا ورد کرتےاللہ کے دین کی حفاظت کے لیے اس کے محبوب رسولؐ کی رہنمائی میں آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے چہرے نور ایمانی سے روشن تھے، انہیں اپنےایمان کی صداقت اور اللہ کی نصرت پر کامل یقین تھا… اور پھراس موقعے پر اللہ رب العزت نے بادلوں کو حکم دیا کہ میرے ان محبوب بندوں پر رحمت کی برکھا برسا۔ اس قدرتی انعام کا قرآن میں یوں ذکر ہے۔ ترجمہ: ’’اور جب کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا کہ تم کو پاک کرے۔‘‘ (سورئہ انفال)

17؍ رمضان المبارک 2ہجری کو صبح سرکار ِدو عالم ﷺنے لشکر کی صف بندی فرمائی۔ 313مجاہدین میں سے 83 مہاجر، جب کہ 230انصار تھے کہ جنہیں اگرچہ جنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا، تاہم جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار تھے۔ جب دونوں فوجیں صف آراء ہوگئیں، تو اللہ کے رسولﷺ نے پرنم آنکھوں اور بھیگی پلکوں کے ساتھ اپنے رب کو پکارا ’’اے اللہ! تو اچھی طرح واقف ہے کہ اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت بھی ہلاک ہو گئی، تو پھر قیامت تک اس دنیا میں کوئی تیرا نام لینے والا نہ رہے گا۔‘‘ رسول اللہ ؐ کے ان آنسوئوں نے زمین و آسمان کو ہلا دیا۔ اللہ کے محبوبؐ کی ایسی رقّت آفریں دعا سے رحمتِ الٰہی بھی جوش میں آگئی اور اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ ’’اے میرے حبیب ؐ ! میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم اہلِ ایمان کے قدم جمائو، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا۔ اے نبی ؐ ! تم پریشان نہ ہو، ہم ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کریں گے، جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے۔‘‘ (سورہ ٔانفال) اللہ کے اس پیغام کے بعد حضورؐ کے چہرئہ انور پر مسکراہٹ آگئی۔ آپ نے ایک مٹھی مٹّی اٹھائی اور مشرکین کی جانب اچھال دی۔ مٹّی کے ذرّات کا کفار کے چہروں پر پڑنا تھا کہ وہ درد و تکلیف سے بلبلا اٹھے۔ جس پر اللہ نے فرمایا ’’(اے نبی ؐ ) جب آپ ؐ نے (مٹّی کو) پھینکا، تو در حقیقت آپ ؐ نے نہیں پھینکا، بلکہ اللہ نے پھینکا۔‘‘(انفال) حضورؐ نے حملے کا حکم فرمایا اور حق و باطل کے درمیان وہ عظم معرکہ ہوا کہ جس نے عقل ِ انسانی کو حیران کر دیاکہ ایک طرف حضرت ابو بکر صدیقؓہیں، تو دوسری طرف ان کے صاحب زادے، عبدالرحمن، ایک طرف سیّدنا علی مرتضیٰ ؓ ہیں، تو دوسری طرف بھائی، عقیل ، ایک طرف حضرت حذیفہؓ ہیں، تو صفِ مخالف میں باپ عقبہ۔ ایک طرف حضرت عمر فاروقؓ ہیں، تو کفّار کے ساتھ آپ کے ماموں، عاص بن ہشام، اورپھر مجاہدین کی قیادت، امام الانبیاء سرکارِ دوعالم ؐ فرما رہے ہیں، تو مشرکین کی صفوں میں آپ کے چچا، عباس اور داماد ابو العاص ہیں۔ بلاشبہ، اسلام کا یہی وہ حقیقی رشتہ تھا کہ جس میں حبش کا بدو تو پیارا تھا، لیکن حقیقی چچا غیر، روم کا صہیب تو اپنا تھا، لیکن حقیقی بیٹا اجنبی اور پھر جلد ہی چشمِ فلک نے یہ حیران کن منظر دیکھا کہ کفارانِ قریش، بدحواسی اور سراسیمگی کے عالم میں ابو جہل اور گیارہ نام ور سرداروں سمیت 70 جنگ جوئوں کی لاشوں اور اتنے ہی زخمیوں کو تڑپتا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جزیرۃ العرب کی تاریخ، میں یہ پہلا موقع تھا کہ کفارِ مکّہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مسلمانوں کو ان کی طویل جدوجہد، لازوال قربانیوں اور بے شمار تکالیف، مصائب و آلام کا بہترین انعام، اس عظیم فتح و نصرت کی صورت میں عطا ہوا۔ یہ مسلمانوں کی قوتِ ایمانی، اللہ اور اس کے رسولؐ پر کامل یقین ہی کا ثمر تھا کہ باری تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس کے بعد بھی جب تک مسلمان کامل ایمان اور مکمل یقین کے ساتھ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہے، کام یابیاں ان کے قدم چومتی رہیں۔ اور آج بھی اللہ کی تائید و نصرت مسلمانوں کی پہنچ سے دور نہیں، بس ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم رب کو راضی کرلیں۔ رمضان کے عشرئہ ثانی میں کفر و اسلام اور حق و باطل کا یہ پہلا معرکہ پیش آیا، جس نے عظمتِ اسلام پر مہرِتصدیق ثبت کی۔ سو، ماہِ مبارک کا یہ دوسرا عشرہ جہاں ہمیں بخشش و مغفرت کی نوید سناتا ہے، وہیں ہمیں دین کے لیے مَر مٹنے، جرات و شجاعت، صبر واستقامت اور پامردی کا درس بھی دیتا ہے۔

تحریر: محمود میاں نجمی


 غریب غربا کی مالی امداد: مختلف انسانی معاشروں اور غالب تہذیبوں نے غریب، محتاج، مسکین، مفلس اور مجبور کو ہمیشہ سے حقیر، کم تر اور قابلِ نفرت جانا۔ زمانۂ جاہلیت سے پہلے خود عرب میں بھی ان لوگوں پر عرصۂ حیات تنگ تھا۔ غریب ہونا ایک گالی اور ایک ایسا جرم تھا کہ جس کی سزا ساری زندگی ملتی رہتی، غریب اور اس کا خاندان معاشرے کے ہر صاحبِ حیثیت کا ادنیٰ غلام اور خادم سمجھا جاتا۔مگر یہ ظلم و ستم اور قہر و جبر کے غیر انسانی رویّےدرحقیقت، تاریخِ انسانی کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ دنیا میں جب اسلام کا سورج طلوع ہوا اور نبی آخرالزماں، محسنِ انسانیت، رحمت العالمین، حضرت محمد مصطفیٰﷺ مسند ِرسالت پر جلوہ افروز ہوئے، تو آپؐ نے اللہ کے احکامات کی روشنی میں غریب، محتاج اور مسکین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے بارے میں لوگوں کو سخت ترین عذاب کی وعید سنائی اور انہیں پابند کیا کہ وہ اپنے مال کا ایک حصّہ ان بے کس لوگوں پر خرچ کریں، تاکہ وہ جنّت میں بہترین انعام پاسکیں۔ اللہ تعالیٰ، سورۃ الذٰرّیت میں فرماتا ہے’’ وہی متّقی لوگ بہشت کے باغوں اور چشموں کے کناروں پر عیش سے رہیں گے، جو اپنے مال کا ایک حصّہ دنیا میں غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘


سورۃ المعارج میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’جن کے مال میں مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں دونوں کا حصّہ مقرر ہے، یہی لوگ جنّت میں عزت و اکرام سے ہوں گے۔‘‘ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ تم ان غریب غربا کو دے کر کوئی احسان نہیں کرو گے، بلکہ اللہ نے تمہارے مال میں ان کا حصّہ مقرر فرما دیا ہے۔ چناں چہ اگر ان کا حصّہ پہنچائو گے، تو انعام کے مستحق ہوگے۔ صحابہ اکرامؓ نے حضور نبی کریمﷺ سے استفسار کیا کہ ’’یا رسول اللہ ﷺ! ہم اپنے مال کو کہاں خرچ کریں؟‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے احکامات نازل فرمائے۔’’آپﷺ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کہاں خرچ کریں؟ آپ فرما دیجیے کہ تم جو مال خرچ کرو، وہ والدین، رشتے داروں، یتیموں، مساکین اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو نیکی تم کروگے، اللہ تعالیٰ اس سے بہ خوبی واقف ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ)بلاشبہ، جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اللہ ان کے مال میں برکت فرماتے ہوئے اسے کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اس کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو جس قدر چاہے بڑھا چڑھا کر دولت عطا فرمائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایسے سخی اور متّقی لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے۔’’جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی مثال اس دانے جیسی ہے، جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے، بڑھا چڑھا کر دے۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔‘‘ (البقرہ) ایک اورجگہ ارشادِ ربّانی ہے کہ’’ اپنے اس مختص کردہ مال میں سے ان تمام لوگوں کا حق ادا کر دو، جو اس کے مستحق ہیں۔ روزِ قیامت جب تم اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جائو گے، تو یہ تمہارے لیے باعثِ نجات اور جنّت کے حصول کا ذریعہ ہوگا۔ چناں چہ اللہ فرماتا ہے ’’پس قرابت داروں، مساکین اور مسافروں کو ان کا حق دو۔ یہ ان کے لیے بہتر ہے، جو اللہ تعالیٰ کےدیدار کے طالب ہیں۔ اور ایسے ہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ الروم)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ایک مرتبہ ایک شخص نے جنگل میں بادل سے ایک آواز سنی کہ فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کرو۔ وہ بادل چل پڑا اور اس نے بجری والی زمین پر پانی برسایا۔ وہاں کے نالوں میں سے ایک نالہ بھر گیا۔ وہ نالے کا پانی، جب آگے کی طرف بڑھا، تو وہ شخص اس پانی کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ پانی جہاں پہنچا، وہاں ایک شخص باغ میں کھڑا اپنے پھائوڑے سے پانی کو اِدھر ادھر کررہا تھا۔ اس شخص نے باغ والے سے پوچھا، ’’اے اللہ کے بندے!تمہارا نام کیا ہے؟‘‘اس نے اپنا وہی نام بتایا، جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ اس شخص نے پوچھا ’’اے اللہ کے بندے!تم نے میرا نام کیوں پوچھا تھا؟‘‘اس نے کہا، ’’بات یہ ہے کہ جس بادل نے اس باغ میں پانی برسایا ہے، میں نے اس بادل سے یہ آواز سنی تھی کہ فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کرو، اس آواز نے تمہارا نام لیا تھا۔ تم اس باغ میں کیا کرتے ہو؟‘‘اس نے کہا کہ’’ اب جب تم نے یہ پوچھا ہے، تو سنو۔ میں اس باغ کی پیداوار پر نظر رکھتا ہوں اور اس کی پیداوار کے ایک تہائی سے میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور ایک تہائی غریب، مساکین، سائلوں اور مسافروں پر خرچ کردیتا ہوں اور ایک تہائی اس باغ پر خرچ کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم)اس خوب صورت حدیثِ مبارکہ میں ان لوگوں کے لیے خوش خبری ہے کہ جو اپنی دولت کا کچھ حصّہ غریب غربا پر خرچ کرتے ہیں اور جو اپنی دولت کو چھپا کر رکھتے ہیں، ان کے لیے سبق ہے۔ اگر اپنی دولت کو غریبوں پر خرچ کرو گے، تو اللہ غیب سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں وہاں سے رزق عطا فرمائے گا کہ جس کے بارے میں تم نے سوچا بھی نہ ہو گا۔

غریبوں کا مقام:حضور نبی کریم ﷺ نے غریب غربا کی امداد کی فضیلت بیان کرنے کے علاوہ خود مفلسی اور غربت کی فضیلت بھی واضح فرمائی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ وہ مفلس، محتاج اور مجبور لوگ، جو اپنی مفلسی اور محرومی کو صبر و شکر سے برداشت کرتے ہیں اور نیکی پر قائم رہتے ہیں، اللہ کے یہاں بڑے اجر کے مستحق ہیں اور وہ جنّت میں پہلے داخل ہونے والوں میں ہوں گے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ نے غریب مہاجرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’اے فقرائے مہاجرین کی جماعت! خوش ہو جائو۔ اس نور کامل کے باعث (جو تمہیں) قیامت کے دن ملے گا، تم دولت مندوں سے آدھا دن پہلے جنّت میں داخل ہوگے اور وہ (آدھا دن بھی) پانچ سو سال کا ہوگا۔‘‘ (سنن ابی دائود)حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’کیا میں تمہیں یہ نہ بتائوں کہ جنّت کے بادشاہ کون ہوں گے؟‘‘ہم نے عرض کیا، ’’کیوں نہیں، یا رسول اللہﷺ ضرور بتایئے۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’جنّت کا بادشاہ وہ شخص ہوگا، جوکم زور ہے، لوگ اسے کم زور سمجھتے ہیں، وہ پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہے، کوئی اس کی پروا نہیں کرتا، مگر اللہ کی نگاہوں میں اس کا وہ مرتبہ ہے کہ اگر وہ خدا کے بھروسے پر قسم کھا لے، تو خدا اسے سچّا کر دیتا ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ)دنیا کا کاروبار چلانے کےلیے اللہ نے امیری اور غریبی کی درجہ بندی کی ہے، تاکہ ہر ایک دوسرے کا محتاج رہے اور معاملاتِ زندگی احسن طریقے سے چلتے رہیں۔ کسی کو کم دیا اور کسی کو زیادہ، پھر سب کے حقوق و فرائض متعین فرما دیئے، لیکن دنیا میں جو متّقی لوگ کم زور، غریب اور مفلس ہیں، اللہ نے روزِ قیامت ان کے لیے بڑے درجات اور بیش بہا انعامات مقرر فرمادیئے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’میں جنّت کے دروازے پر کھڑا ہوا، تو دیکھا کہ (جنّت میں) داخل ہونے والے عموماً مسکین لوگ ہیں۔‘‘(صحیح مسلم) حضرت سہیلؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس سے گزرا۔ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ ’’تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو، (یعنی تمہارا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے کہ یہ کیسا شخص ہے)۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’یہ اس قابل ہے کہ اگر یہ کہیں نکاح کا پیغام دے، تو اسے قبول کیا جائے اور اگر کسی کی سفارش کرے، تو اس کی سفارش قبول کی جائے اور اگر بات کرے، تو اس کی بات کو غور سے سنا جائے۔‘‘ حضرت سہیلؓ کہتے ہیں کہ پھر حضورﷺ خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر بعد وہاں سے ایک اور شخص گزرا، تو حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’اس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا ’’یہ تو معمولی آدمی ہے اور اس قابل نہیں کہ اگر کہیں نکاح کا پیغام دے، تو اس کے ساتھ نکاح کیا جائے اور اگرکسی کی سفارش کرے، تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگر بات کرے، تو اس کی بات کو غور سے نہ سنا جائے۔‘‘ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اگر دنیا ان جیسے امیروں سے بھری ہوئی ہو، تو ان سب سے یہ غریب بہتر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) حضرت ابو الدرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے اپنے کم زور، غریب لوگوں میں تلاش کرو، کیوں کہ تمہارے کم زور اور غریب لوگوں ہی کی وجہ سے تمہیں روزی دی جاتی ہے اور دشمنوں کے مقابلے میں تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)

غرباء، مساکین اور محتاجوں کے ساتھ حسنِ سلوک:امام الانبیاء، سیّدالمرسلین، شاہِ عرب و عجم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ آپؐ نے غریبوں، مساکین اور محتاجوں کے ساتھ بھی عمدہ سلوک کا حکم فرمایا۔ حضورﷺ خود بھی ان لوگوں کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کرتے، ان کی خبر گیری کرتے اور صحابہؓ کو بھی اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ اس وقت تک کھانا تناول نہ فرماتے، جب تک یہ یقین نہ کر لیتے کہ اصحابِ صفّہ نے کھانا کھالیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ غرباء، مساکین، محتاجوں اور یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ ان سے سختی اور تکبّر کے ساتھ بات کرنے اور درشت لہجہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ’’جب یہ تم سے سوال کریں، تو ان سے ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو۔‘‘ (سورۃ الضحیٰ)یعنی اگر انہیں منع بھی کرنا ہو، تو جھڑکنے کے بجائے پیار و محبت کے ساتھ منع کیا جائے۔ غریب، مسکین اور محتاج کے ساتھ ہتک آمیز رویّہ اللہ کو ناپسند ہے۔ قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد ِ ربّانی ہے: ’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو۔ جس طرح وہ شخص، جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے اور نہ قیامت پر، اس کی مثال اس پتھر کی طرح ہے، جس پر تھوڑی سی مٹّی ہو، پھر اس پر زوردار مینہ برسے اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے۔‘‘ (سورۃ البقرہ) حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ (حضرت علیؓ کے بھائی) حضرت جعفرؓبن ابی طالب، غریبوں اور مساکین سے بہت محبت رکھتے تھے اور ان کے پاس بیٹھتے تھے، ان سے باتیں کرتے تھے۔ ان کی اس صفت کے باعث، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کنیّت ’’ابوالمساکین‘‘ رکھی تھی۔ یعنی مساکین کے باپ (ابنِ ماجہ)۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غریبوں اور مساکین سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ!مجھے مسکین زندہ رکھ، حالتِ مسکینی میں رحلت ہو اور قیامت کے دن مساکین ہی کی جماعت سے اٹھانا۔‘‘ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیوں ایسا ہو؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’مساکین، امیر لوگوں سے چالیس سال پہلے جنّت میں داخل ہوں گے۔ اے عائشہؓ! مسکین کے سوال کو کبھی رَد نہ کرنا اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو۔ اے عائشہؓ! مساکین سے محبت رکھو اور انہیں اپنے قریب کرو، ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن اپنا قرب نصیب فرمائے گا۔‘‘ (ترمذی)

غریبوں، مساکین اور محتاجوں کو کھانا کھلانا:اللہ کے خاص اور متّقی بندوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ غرباء، مساکین، محتاجوں، ضرورت مندوں اور مسافروں کو کھانا کھلاتے ہیں اور صرف رضائے الٰہی کو مدِنظر رکھتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے ’’اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک کھانا کھلانے کا مقصد صرف رضائے الٰہی ہوتا ہے اور اس کے عوض ہم تم سے کوئی بدلہ اور شکرگزاری نہیں چاہتے۔‘‘ (سورۃ الدہر) حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بھوکے کو کھلائو، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو رہائی دلائو۔‘‘ (سنن ابودائود) اللہ کے رسولﷺاس پر نہ صرف خود عمل فرماتے، بلکہ صحابہؓ کو بھی تلقین فرماتے رہتے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’آج تم میں سے کون روزہ دار ہے؟حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ میں ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’آج تم میں سے کون جنازے کے ساتھ گیا ہے؟‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا ’’میں گیا ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’آج تم میں سے کسی مسکین کو کس نے کھانا کھلایا ہے؟‘‘ حضرت ابوبکرؓنے عرض کیا ’’میں نے کھلایا ہے۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’آج تم میں سے کسی مریض کی عیادت کس نےکی ہے؟‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا ’’میں نے کی ہے۔‘‘ اس پر حضورﷺ نے فرمایا ’’جس شخص میں یہ تمام باتیں جمع ہوگئیں، وہ جنّت میں جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ ہمارے معاشرے میں آج یہ شکایت عام ہے کہ رزق میں برکت نہیں رہی۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے رزق میں برکت آئے، روزی فراخ ہوجائے، تو انہیں چاہیے کہ اللہ کی راہ میں غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کو کھانا کھلانے کی عادت ڈال لیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے ’’اور تم مساکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے۔‘‘(سورۃالفجر )ایک صحابیہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضورؐ سے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ !فقیر میرے دروازے پر آتا ہے اور میرے پاس اس کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، مجھے اس وقت شرم آتی ہے۔‘‘ حضورﷺ نے فرمایا’’اس کو کچھ دے دو، اگرچہ بکری کا جلا ہوا کھر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘(ابو دائود) سائل کو جھڑکنا، اللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ فعل ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا ’’اے آدم ؑ کے بیٹے، میں بیمار ہوا، تو تونے میری عیادت نہ کی۔‘‘ انسان کہے گا،’’اے میرے رب! میں تیری کس طرح عیادت کرتا، جب کہ تو رب العالمین ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا’’ کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا، تو تونے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا، تو مجھے اس کے پاس پاتا۔‘‘پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا، ’’اے آدم ؑ کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، تو تونے مجھے کھانا نہ دیا۔‘‘ انسان کہے گا کہ’’اے میرے رب! میں تجھے کیسے کھانا دیتا، جب کہ تو رب العالمین ہے۔‘‘ اللہ فرمائے گا ’’کیا تجھے علم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا، تو تونے اسے کھانا نہ دیا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا دیتا، تو اسے میرے پاس پاتا۔‘‘پھر اللہ رب العزت فرمائے گا ’’اے آدم ؑ کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا، تو تونے مجھے پانی نہ پلایا۔‘‘ انسان کہے گا، ’’اے میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا، جب کہ تو رب العالمین ہے۔‘‘ اللہ فرمائے گا ’’میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا، مگر تونے اسے پانی نہ پلایا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا، تو اسے میرے پاس پاتا۔‘‘ (صحیح مسلم)

صدقہ و خیرات میں غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کا حصّہ: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے ’’بے شک، صدقات یعنی زکوٰۃ، فقراء، مساکین اور اس کے عاملین اور دل جوئی اور غلام آزاد کرانے میں اور خلاصیِ قرض اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقررشدہ ہے اور اللہ حِلم والا، حکمت والا ہے۔‘‘ (سورئہ توبہ) اس آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ زکوٰۃ کے مال کا ایک مصرف غریب، مسکین، محتاج اور مجبور کی مدد کرنا ہے، چناں چہ اہلِ ثروت پر لازم ہے کہ وہ جب زکوٰۃ کا مال تقسیم کریں، تو انہیں چاہیے کہ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کی مدد کریں، جو شرم کے باعث کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ایسے لوگوں کی مدد کرنا، اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ سورئہ بقرہ میں فرماتا ہے کہ ’’تم جتنا کچھ خرچ کرو، یعنی خیرات اور جو کچھ نذر کرو، اسے اللہ خوب جانتا ہے۔‘‘ اسی حوالے سے سورئہ بنی اسرائیل میں بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور عزیزو اقارب اور مساکین اور مسافروں کو ان کا حق دو اور فضول خرچی کے ذریعے بے جا خرچ نہ کرو۔‘‘ معاشرے کے تمام افراد کی ذمّے داری ہے کہ وہ غریب، مسکین، محتاج اور پریشان حال لوگوں کی مدد کریں، بیماروں کے علاج، یتیم بچّیوں کی شادی، غریب بچّوں کی تعلیم اور مقروضوں پر اپنے مال کو خرچ کریں۔ اللہ کی راہ میں دیا ہوا ان کا مال دنیا میں رزق میں برکت کا باعث بنے گا اور آخرت میں بے پناہ اجروثواب کا وعدہ تو اللہ نے کیا ہوا ہی ہے۔

تحریر: محمود میاں نجمی


 صحابئ رسولؐ، حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’رمضان المبارک کا ابتدائی حصّہ رحمت، درمیانی حصّہ مغفرت اور آخری حصّہ آتشِ دوزخ سے نجات ہے۔‘‘ یہ بابرکت اور باسعادت مہینہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے امّتِ مسلمہ کے لیے عظیم نعمتوں میں سے ایک گراں قدر نعمت ہے۔ حضرت ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر لوگوں کو رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کا علم ہوجائے، تو میری امت تمنّا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔‘‘ معروف فقیہ، ابواللیث سمرقندیؒ اپنی کتاب ’’تنبیہ الغافلین‘‘ میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’جنّت کو شروع سال سے آخر سال تک رمضان المبارک کی خاطر آراستہ کیا جاتا ہے اور خوشبوئوں کی دھونی دی جاتی ہے، پس جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے، تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے، جس کا نام ’’مشیرہ‘‘ ہے، جس کے جھونکوں کی وجہ سے جنّت کے درختوں کے پتّے اور کواڑوں کے حلقے بجنے لگتے ہیں، جس سے ایسی دل آویز سریلی آواز نکلتی ہے کہ سننے والوں نے اس سے اچھی آواز کبھی نہ سنی ہوگی، ایسے میں خوش نما آنکھوں والی حوریں اپنے مکانوں سے نکل کر جنّت کے داروغے سے پوچھتی ہیں ’’یہ کیسی رات ہے؟‘‘ وہ جواب دیتے ہیں کہ ’’یہ رمضان المبارک کی پہلی رات ہے۔‘‘ حوریں یہ منظر دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتی ہیں کہ اس مہینے میں ہمیں ان روزہ داروں سے جوڑ دیجیے۔ پس، جو بندہ بھی رمضان کے روزے رکھتا ہے، اسے خوش نما آنکھوں والی دو حوروں کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’میری امّت کو پانچ چیزیں رمضان المبارک میں خاص طور پر دی گئی ہیں، جو پہلی امّتوں کو نہیں ملیں۔ 


ایک یہ کہ ان کے منہ کی بو، اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ دوسری یہ کہ فرشتے ان روزہ داروں کے لیے افطار کے وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں۔ تیسری یہ کہ رمضان میں سرکش شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں۔ چوتھی یہ کہ جنّت ہر روز ان روزہ داروں کے لیے سجائی جاتی ہے، پھر حق تعالیٰ شانہ‘ فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے دنیا کی مشقّتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری طرف آئیں۔ پانچویں یہ کہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔‘‘

روزہ فرض عبادت ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلی امّتوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم متقّی اور پرہیزگار بن جائو۔‘‘ (سورۃ البقرہ) یعنی روزے کا اصل مقصد متقّی اور پرہیزگار بننا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف)امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت کعب ابن احبارؓ سے سوال کیا کہ ’’تقویٰ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے فرمایا ’’کیا آپ کبھی کانٹوں بھرے راستے پر چلے ہیں؟‘‘ حضرت عمرؓ نےاثبات میں جواب فرمایا، تو حضرت کعبؓ نے پوچھا ’’آپ نے اس راستے کو کیوں کر طے فرمایا؟‘‘ حضرت عمرؓ نے جواب دیا ’’ خود کو کانٹوں سے بچاکر سمٹ سمٹا کر۔‘‘ حضرت کعبؓ نے کہا ’’اے امیرالمومنین! یہی تقویٰ ہے، دنیا کانٹوں بھرے راستے کی مانند ہے اور اس سے بچ کر نکل جانا تقویٰ ہے۔‘‘ تقویٰ انسانی قلب و روح میں اس مثبت تبدیلی کا نام ہے، جس کے بل پر ہم اپنے نفس سے جہاد کرتے ہوئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں۔ 

اورتقویٰ کے حصول کا سب سے موثر ذریعہ ’’ماہِ رمضان ہے۔‘‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جب رات کا آخری تہائی حصّہ باقی رہ جاتا ہے توحق تعالیٰ شانہ‘ (عرش سے) آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے ’’مجھ سے کوئی دعا مانگنے والا ہے تاکہ میں اس کی دعا پوری کروں ،مجھے کون بلاتا ہے کہ میں اسے جواب دوں،مجھ سے کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں،مجھ سے کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں ؟“(صحیح بخاری)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ ’’رمضان کے آتے ہی جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ کر قید کر دیا جاتا ہے، اور قیامّت کے دن روزے دار جنّت کے خوب صورت ترین دروازے ’’ریان‘‘ سے جنّت میں داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ رمضان میں تمام مومنین کے رزق کو بڑھا دیتا ہے اور متقّی روزے داروں کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘ حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے گا، اللہ اس کے چہرے کو دوزخ کی آگ سے ستّر برس کی مسافت کے برابر دور کر دے گا۔‘‘

پہلے عشرے سے شروع ہونے والے اعمال و افعال:رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کے بعد اس ماہِ مبارک کے حوالے سے ادا کیا جانے والا سب سے پہلا عمل تراویح کی نماز ہے، جس کے لیے اہل ِایمان ذوق و شوق سے مساجد کا رخ کرتے ہیں، جہاں بعد نمازِ عشاء عشق و محبت کی معطّر فضائوں سے سرشار تراویح کے ایمان افروز روحانی اجتماعات میں کیف و سرور کی لذتوں سے بھرپور حفّاظِ کرام کی مسحور کن تلاوتِ کلام پاک روح پرور سماں باندھ دیتی ہے اور سامعین حبّ الٰہی اور عشقِ مصطفیٰؐ میں ڈوب کر ان پاکیزہ ساعتوں میں محو ہو جاتے ہیں۔ 

قیامِ لیل میں تراویح کی بڑی فضیلت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم20رکعت تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔ (مجمع الزوائد)۔ نمازِ تراویح باقاعدہ جماعت سے پڑھنے کا نظام حضرت عمر فاروقؓ کے عہد سے شروع ہوا۔ تراویح کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ روزانہ تراویح باجماعت پڑھنے کے ثواب کے علاوہ مہینے میں کم از کم ایک بار پورا قرآن سننے کا شرف اور ثواب حاصل ہوجاتا ہے۔ تراویح کی نماز، رمضان کے پورے مہینے پڑھنی چاہیے، اگرچہ قرآن شریف پہلے ہی ختم ہو چکا ہو۔ عموماً لوگ ختم ِقرآن کے بعد تراویح کی نماز ترک کر دیتے ہیں، جو درست نہیں۔ 

رمضان کے مبارک مہینے میں تہجّد کا اہتمام بھی بہت آسانی سے کیا جاسکتا ہے، اس کے لیے سحری سے بیس منٹ قبل اٹھ کر تہجد کی نماز ادا کی جاسکتی ہے،جو قربِ الٰہی اور قبولیتِ دعا کا بہترین وقت بھی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’ فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل تہجّد کی نماز ہے۔‘‘ (مسندِاحمد)سحری کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ سحری کھایا کرو، سحری کھانے میں برکت ہے، کچھ نہ ہو، تو چند گھونٹ پانی ہی پی لیا کرو۔‘‘ (مسندِ احمد)اس ماہِ مبارک میں زیادہ تر لوگ باجماعت نماز کی طرف راغب ہوجاتے ہیں، باجماعت نماز کی ادائیگی مومن کی پہچان ہے۔ 

رسول اللہؐ نے فرمایا ’’چالیس دن تک تکبیر ِاولیٰ کے ساتھ نماز با جماعت ادا کرنے والے کودوزخ اور نفاق دونوں سے دور کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (ترمذی)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اگر لوگوں کو باجماعت نماز کے اجر و ثواب کا علم ہو جائے، تو وہ ہزاروں مجبوریوں کے باوجود جماعت میں دوڑے آئیں۔‘‘حضرت بریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اشراق کی نماز کی ادائیگی کا اجر و ثواب ایک عمرے کی ادائیگی کے برابر ہے۔‘‘ اشراق کی چار رکعت نماز انسان کے تمام مصائب و مشکلات کے زہر کا تریاق ہے۔ اشراق کے معنی ہیں، طلوعِ آفتاب۔ 

طلوعِ آفتاب کے کم از کم بارہ منٹ کے بعد اشراق کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے۔چاشت کی نماز مستحب ہے۔ چاشت کی نماز، زوال کے وقت سے پہلے تک ادا کی جا سکتی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی چار رکعت نماز ادا فرمایا کرتے تھے ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے چاشت کی نماز کا اہتمام کیا، اس کے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، چاہے وہ کثرت میں سمندر کے جھاگوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ (ترمذی) علاوہ ازیں، رمضان المبارک میں نماز مغرب کے بعد چھے رکعت نفل نماز کو بھی اپنا معمول بنا لیں، یہ نماز اوّابین کہلاتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے۔

دوپہر کے آرام کو’’ قیلولہ‘‘ کہتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’تہجّد اور سحری میں جلدی اٹھنے کے لیے دن میں قیلولہ سے مدد لیا کرو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی آرام فرمایا کرتے تھے۔ رمضان میں خاص طور پر دفاتر اور فیکٹریز کے اوقاتِ کار کم ہو جاتے ہیں، لہٰذا بعد نمازِ ظہر کچھ دیر آرام کرنے سے قیامِ لیل میں مدد مل سکتی ہے۔سحری میں تاخیر اور افطاری جلدی کرنا سنتِ مؤکدہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمر بھر یہ معمول رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سحری میں تاخیر اور افطاری جلدی فرماتے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں میں سب سے زیادہ پسند وہ ہیں، جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)حضرت سلمان بن عامر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ جب تم میں سے کوئی شخص افطار کرے، تو اسے چاہیے کہ کھجور سے افطار کرے، کیوں کہ اس میں برکت ہے اور اگر کھجور نہ پائے، تو پانی سے افطار کرے، کیوں کہ وہ پاک ہے۔‘‘ (ترمذی)روزہ داروں کو افطار کروانے کی بڑی فضیلت ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کروائے گا، اسے روزہ دار کے برابر ہی ثواب ملے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کمی آئے۔‘‘ (ترمذی)

زکوٰۃ کی ادائیگی ہر صاحبِ حیثیت پر فرض ہے، اس کی ادائیگی کا بہترین اور افضل وقت ماہِ رمضان ہے، جہاں ہر فرض عبادت کا ثواب ستّر گنا زیادہ کر دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص کو اللہ نے مال دیا اور پھر اس نے زکوٰۃ ادا نہیں کی، تو خود اس کا یہ مال قیامت کے دن زہریلے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا اور اس کے گلے کا طوق بن جائے گا، پھر اس کے جبڑوں کو یہ سانپ پکڑ کر کہے گا ’’میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘ (بخاری) یاد رہے، زکوٰۃ کے پہلے حق دار غریب رشتے دار ہیں، پھر پڑوسی، دوست احباب اور جان پہچان کے وہ لوگ، جو شرم کے باعث دوسروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ 

ایسے لوگوں کی عزت ِنفس مجروح کیے بغیر ان کی مدد کرنابے حد اجر و ثواب کا باعث ہے۔زکوٰۃ ،دراصل مال کا میل کچیل ہے اور اپنے مال کو پاک صاف کرنا ہر صاحب ِحیثیت پر فرض ہے، لیکن زکوٰۃ کے علاوہ بھی اللہ کی راہ میں فیّاضی سے خرچ کرنا، نماز کے بعد سب سے بڑی عبادت ہے۔ لہٰذا رمضان المبارک میں دل کھول کر ضرورت مندوں کی مدد کریں اور زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کریں۔ ایسے سخی لوگوں کو اللہ بے حساب دیتا ہے۔

غرض یہ کہ اس ماہِ مبارک میں جس قدر نیکیاں سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیں، حقوق العباد پر خصوصی توجّہ دیں۔ ماہِ رمضان میں اپنے ماتحت ملازمین اور گھریلو نوکروں چاکروں کے اوقاتِ کار میں کمی کردیں اور ان کے ساتھ خصوصی طور پر نرم روّیہ رکھیں۔ شفقت، برداشت، درگزر اور فیّاضی کا مظاہرہ کریں۔ اللہ کی نافرمانی سے بچیں۔رمضان المبارک میں قرآن فہمی کی عادت ڈال کر اسےترجمے ااور تفسیر کے ساتھ پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ ’’رمضان وہ مہینہ ہے کہ جس میں ہم نے قرآن کو نازل کیا اور یہ کتاب متقّیوں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘

عشرئہ ’’رحمت‘‘ میں اللہ کو راضی کریں:حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’کتنے ہی روزے دار ہیں، جنہیں بھوک و پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے ہی راتوں کو نماز پڑھنے والے ہیں، جنہیں اپنی نمازوں سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘رمضان المبارک کا متبّرک و محترم مہینہ ایک بار پھر اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ سایہ فگن ہے۔ ان قیمتی ساعتوں کو غنیمت جانیے، کون جانے ،اگلے سال یہ بے شمار فضیلت والے انمول دن نصیب بھی ہوتے ہیں یا نہیں۔ 

ان مقدّس دنوں کے ایک ایک لمحے کو قیمتی جانیے اور عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنے سَروں کو اللہ کے حضور جھکا دیجیے۔ شب کی تنہائیوں میں رب کے آگے آنسو بہایئے اور اسے راضی کرلیجیے۔رمضان کے ان بیش بہا دنوں میں اپنی زندگیوں کو بدل ڈالیے، اپنے اندر قوتِ ایمانی اور عشق محبوب سبحانی پیدا کیجیے۔ پھر دیکھیے، کس طرح اللہ آپ پر مہربان ہوتا ہے۔ یقین جانیے، اللہ کو راضی کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ بس ذرا سی فکر، ذرا سی محنت، ذرا سی عاجزی، ذرا سی جستجو درکار ہے۔اور روزانہ شب کی تنہائیوں میں اس کے آگے آنسوئوں کے چند قطرے۔ پھر دیکھیں، کس طرح دنیا کی کام یابیاں و کامرانیاں آپ کے قدموں میں ڈھیر ہوں گی۔ اور آخرت میں تو اللہ نے اجرِ عظیم کا وعدہ کر ہی رکھا ہے۔

پہلے عشرے کی دعا
رَبِّ اغُفِرُ وَارُحَمُ وَأَنُتَ خَیُرُ الرَّاحِمِينَ۔

ترجمہ:’’ اے میرے رب مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔‘‘

تحریر: محمود میاں نجمی


 قرآنِ کریم کا فرمان ہے ’’اور جب میں بیمار پڑجائوں، تو (اللہ) مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔‘‘ (سورۃ الشعراء)۔ یعنی بیماری کو دور کر کے شفا عطا کرنے والا بھی اللہ ہی ہے اور ادویہ میں شفا کی تاثیر بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے، ورنہ اگر اس کا حکم نہ ہو، تو ادویہ بھی بے اثر ثابت ہوں۔ بیماری بھی اللہ ہی کے حکم اور مشیت سے آتی ہے۔ مشہور محاورہ ہے کہ ’’تَن درستی ہزار نعمت ہے‘‘ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں صحت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ ایک بیمار شخص ان لذّتوں سے مستفید نہیں ہو سکتا، جن سے ایک صحت مند شخص ہوتا ہے۔ دنیا کی لاکھوں حاصل شدہ نعمتوں کے باوجود بیمار شخص ان سے محروم رہتا ہے۔ 


یہی وجہ ہے کہ صحت و تَن درستی کو دنیا کی سب سے بڑی دولت قرار دیا گیا۔اگرچہ کسی بھی بیماری سے ظاہری تکلیف ہوتی ہے، انسان کم زور و لاغر ہوجاتا ہے، قوتِ مدافعت کم ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات تکالیف کی شدت مایوسی کا سبب بنتی ہے اور مایوسی میں انسان کفریہ جملے تک کہہ جاتا ہے، لیکن درحقیقت بیماری بھی کسی نعمت سے کم نہیں، جس سے ایک طرف بیمار کو اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی کا موقع میسّر آتا ہے، تو دوسری طرف بسترِ علالت پر اللہ سے رجوع کرنے اور اپنے ماضی اور حال کے بارے میں غوروفکر کرنے کے لیے چند دن، چند لمحات، مل جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیماری پر برا بھلا کہنے اور بعض اوقات کفریہ کلمات ادا کرنے سے سختی سے منع فرماتے ہوئے صبر و شکر کی تلقین کی گئی ہے۔ انبیائے کرام اور صحابہ اکرام اجمعینؓ کا یہی معمول تھا۔ حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے ’’مسلمان کو کوئی رنج، دکھ، فکر، تکلیف، اذّیت، غم ،حتیٰ کہ اگر کانٹا بھی چبھتا ہے، تو اللہ اس کے سبب اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ (بخاری)۔

صبر و شکر کی اہمیت:صبر و شکر مومن کا ہتھیار ہے، جس سے وہ اپنی تکالیف، دکھ درد، غم، گلے شکوے، ناامیدی اور مایوسی کا خاتمہ کر کے راحت، سکون اور اطمینان حاصل کرتا ہے اور اللہ پر اس کا ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے، جو اللہ کی خوش نودی کا باعث بنتا ہے۔حضرت عطاء بن یسارؓ سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جب کوئی بندہ بیمار پڑتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دو فرشتے بھیجتا ہے اور ان سے فرماتا ہے کہ جائو اور دیکھو یہ اپنی عیادت کرنے والوں سے کیا کہتا ہے؟ پھر اگر وہ مریض اپنی عیادت کے لیے آنے والوں کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرے، تو وہ فرشتے اس کی یہ بات بارگاہِ الٰہی میں عرض کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’میرے بندے کا مجھ پر حق ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں اور اگر اسے شفا دوں، تو اس کے گوشت کو بہتر گوشت میں بدل دوں اور اس کے گناہوں کو مٹا دوں۔‘‘ (موطا، امام مالک)۔امام محمد بن محمد غزالیؒ فرماتے ہیں کہ مریض کو چاہیے کہ موت کو کثرت سے یاد کرے۔ توبہ کرتے ہوئے موت کی تیاری کرے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرے۔ خوب گڑگڑا کر دعائیں کرے۔ عاجزی کا اظہار کرے۔ خالق و مالک ِ کائنات سے مدد مانگنے کے ساتھ ساتھ علاج بھی کروائے۔ قوت و طاقت اور صحت یابی ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ بیماری کے دوران زبان پر شکوہ و شکایت نہ لائے۔ تیمارداری کرنے والوںسے عزت و احترام سے پیش آئے، مگر ان سے مصافحہ نہ کرے۔‘‘ (رسائل امام غزالی، الادب فی الدین)۔

بیماری کے بدلے میں فضیلتیں:رسول اللہﷺ نے ایک انصاری عورت کی عیادت فرمائی اور اس سے پوچھا ’’کیسا محسوس کر رہی ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا ’’بہتر، مگر اس بخار نے مجھے تھکا دیا۔‘‘ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’صبر کرو کیوں کہ بخار، آدمی کے گناہوں کو اس طرح دور کر دیتا ہے، جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو۔‘‘ (الترغیب و الترہیب)۔ایک روز بارگاہِ رسالتِ مآبﷺ میں بخار کا ذکر کیا گیا، تو مجلس میں موجود ایک شخص نے بخار کو برا کہا۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’بخار کو برا نہ کہو، کیوں کہ وہ مومن کے گناہوں کوایسے پاک کر دیتا ہے، جیسے آگ لوہے کے میل کو صاف کر دیتی ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ)۔جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر میں ہوتا ہے، تو جو عمل وہ تَن درستی اور اقامت کی حالت میں کرتا ہے، وہ عمل بھی اس کے لیے لکھا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری)۔جب کوئی شخص تین دن بیمار ہوتا ہے، تو گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے، جیسے اس دن تھا، جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (مجمع الزوائد)۔حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا ’’جب مسلمان کسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے، تو فرشتے سے کہا جاتا ہے کہ اس کی وہ نیکیاں لکھ، جو پہلے کرتا تھا، پھر اگر اللہ اسے شفا دے دیتا ہے، تو اسے دھو دیتا ہے اور پاک کر دیتا ہے اور اگر وہ وفات پا جاتا ہے، تو اسے بخش دیتا ہے اور رحم کرتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)۔راہِ خدا میںجان دینے والے شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوتے ہیں، اس کے علاوہ طاعون سے مرنے والا، ڈوب کر مرنے والا، نمونیے سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، آگ سے جل کر مرنے والا، عمارت کے نیچے دب کر مرنے والا اورزچگی کے دوران مرنے والی عورت کا شمار بھی شہادت کے زمرے میں کیا جاتا ہے۔ (موطا امام مالک)۔مریض جب تک تَن درست نہ ہوجائے، اس کی دعا بارگاہِ الٰہی میں رَد نہیں ہوتی۔ (الترغیب و الترہیب)۔

علاج کا حق:بیمار کا پہلا حق تو یہ ہے کہ اسے علاج کی مناسب سہولت فراہم کی جائے اور ماہر ڈاکٹر کا انتخاب کیا جائے۔ ناتجربہ کار، غیر رجسٹرڈ، اتائی اور کمپائونڈرز ’’نیم حکیم خطرئہ جاں‘‘ ہوتے ہیں، جو نہ صرف مرض کو بڑھانے اور خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں، بلکہ بعض اوقات مریض کی جان تک لے لیتے ہیں۔ بیماری کا علاج کروانا سنّت ہے۔ بیماری خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو، اس کا علاج کروانا چاہیے۔ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری اتاری ہے، ساتھ ہی اس کے لیے شفا بھی نازل فرمائی۔‘‘ (صحیح بخاری) علاج کی دو صورتیں ہیں۔ ایک دوا اور دوسری دعا۔ مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کے ساتھ دوا اور دعا دونوں طریقہ علاج ایک ساتھ جاری رکھے جائیں، تو اللہ جلد شفا عطا فرماتا ہے۔ اِلاّ یہ کہ زندگی کے دن پورے ہو چکے ہوں۔ قرآنی آیات میں جسمانی اور روحانی دونوں طرح کے امراض کا علاج موجود ہے۔اس حوالے سےسورئہ یونس میں اللہ رب العزت فرماتا ہے۔’’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے، جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو بیماریاں ہیں، ان کے لیے شفا ہے۔‘‘جب کہ تمام موذی امراض، مثلاً سرطان،، فالج، ہارٹ اٹیک، برین ہیمرج، شوگر، ہیپا ٹائٹس وغیرہ میں دوا کے ساتھ ساتھ سورہ رحمٰن کی تلاوت اور اسے پڑھ کر پانی میں دَم کرکے پینے سے شفا حاصل ہوتی ہے۔ اگر سورئہ رحمٰن یاد نہ ہو تو مریض کو اس کی تلاوت سنائی جائے اور علاج بھی جاری رکھا جائے۔ سورئہ رحمٰن قرآن پاک کی پچپن ویں سورہ ہے، جو ستائیسویں پارے میں موجود ہے۔

حسنِ سلوک کا حق: مریض کی بیماری جوں جوں طول پکڑتی ہے، اس کی جسمانی اور ذہنی کیفیت بھی متاثر ہوتی جاتی ہے۔ قوتِ مدافعت کم زور ہوجاتی ہے۔ مزاج میں بے زاری، تلخی اور چڑچڑاپن آجاتا ہے۔ ایسے میں اہلِ خانہ کی ذمّے داری ہے کہ وہ مریض کے ساتھ نرم روّیہ رکھیں۔ اس سے پیار و محبت کے ساتھ پیش آئیں۔ اسے تسلّی و حوصلہ دیں اور ہمّت بندھائیں تاکہ بیماری کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوسکے۔ بیماری، مریض کو حسّاس بنا دیتی ہے، اس کے سامنے اس کے مرض کی پیچیدگیوں کا تذکرہ نہ کریں۔ تیماردار کی ذرا سی عدم توجّہی اس کے مرض میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر بیمار شخص کوئی تلخ بات بھی کہہ دے، تو اسے نظرانداز کرتے ہوئے مسکرا کر برداشت کریں۔ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ بیمار کی دعا، فرشتوں کی دعا کی مانند ہوتی ہے۔ (ابنِ ماجہ) لہٰذا بیمارکی خدمت اور تیمارداری کر کے زیادہ سے زیادہ دعا لی جائے۔

عیادت کا حق اور اس کی اہمیت:مریض کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کی عیادت کی جائے۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ مریضوں کی عیادت کیا کرو اور جنازوں میں شرکت کیا کرو، یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتے رہیں گے۔ (مسندِ امام احمد)۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جب بیمار کے پاس عیادت کے لیے جائو، تو یہ دعا پڑھو۔ (ترجمہ) ’’اے اللہ! اپنے اس بندے کو شفا عطا فرما۔‘‘ (ابودائود)۔حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’مریض کی عیادت کرنے والا واپس آنے تک جنّت کے باغ میں رہتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) ’’جو مسلمان صبح کسی مسلمان کی عیادت کو نکلتا ہے، تو شام تک ستّر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں اور اس کے لیے جنّت میں ایک باغ لگا دیا جاتا ہے۔‘‘ (الترغیب و الترہیب)۔رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جس نے اچھے طریقے سے وضو کیا اور ثواب کی امید پر اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کی، اسے جہنّم سے ستّر سال کے فاصلے تک دور کردیا جائے گا۔‘‘ (ابو دائود)حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ’’ رسول اللہﷺ جب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے یا کوئی مریض آپ کے پاس لایا جاتا، تو آپؐ یہ دعا پڑھتے۔ ’’اے پروردگار! بیماری دور کر دے، شفا عنایت فرما، تیرے علاوہ کوئی شفا دینے والا نہیں ہے، تو ہی شفا دینے والا ہے اور شفا درحقیقت تیری ہی شفا ہے، جو کسی بیماری کو نہیں رہنے دیتی۔‘‘ (بخاری)۔ حضورؐ نے فرمایا ’’مساجد کو آباد رکھنے والے نیک، بیمار ہوجائیں، تو ان کی عیادت کرنا فرشتوں کا طریقہ ہے۔‘‘ (مستدرک)بیمار کی عیادت ایک نفیس و صالح عمل، اعلیٰ درجے کی نیکی، فطری ضرورت اور عبادت ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کی زندگی خدمت ِ خلق کا بہترین نمونہ تھی۔ آپؐ دوسروں کی بیماری و تکلیف دیکھ کر بے چین ہو جاتے۔ بیماروں کی عیادت فرماتے، شفقت فرماتے، ان کی خبر گیری کرتے۔ آپؐ نے بیماروں کی عیادت کو اعلیٰ درجے کی نیکی قرار دے کر اللہ کی طرف سے بیش بہا انعام و اکرام کی نوید سنائی ہے۔

عیادت کے آداب:بیمار کی عیادت کے لیے آنے والوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

1۔ مریض اور اس کے لواحقین کے آرام کے وقت کا خیال رہے۔ وقت، بے وقت عیادت کے لیے چلے جانا احسن عمل نہیں۔

2۔مریض اگر اسپتال میں ہے، تو اسپتال میں ملاقات کے اوقات کے علاوہ مریض سے ملنے کی کوشش نہ کی جائے۔

3۔مریض کے پاس زیادہ دیر نہ ٹھہریں، سوائے اس شخص کے، جس کو زیادہ دیر ٹھہرنے سے مریض کو خوشی حاصل ہو، جب کہ کوئی شرعی رکاوٹ بھی نہ ہو۔ بیما ر پرسی کا افضل طریقہ یہی ہے کہ مریض کے پاس سے بہت جلد اٹھ جائیں۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’مریض کی پوری عیادت یہ ہے کہ اس کی پیشانی یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پوچھے، مزاج کیسا ہے؟‘‘ (ترمذی) مریض کو تسلّی دینا، اس کی حوصلہ افزائی کرنا، جلد صحت یابی کی خوش خبری دینا، احسن عمل ہے۔

4۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’ مریض کے پاس عیادت کے لیے تھوڑی دیر بیٹھنا سنت ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)۔

5۔حضورﷺ کا فرمان ہے کہ’’ عیادت کرنے والا اگر مریض کو مرض کی سختی میں دیکھے، تو اس کو مریض کے سامنے ظاہر نہ کرے کہ تمہاری حالت خراب ہے، بلکہ اس کے سامنے ایسی باتیں کی جائیں، جو اس کے دل کو اچھی لگیں۔‘‘ (ترمذی)۔

6۔مریض کے سامنے دوسروں کی بیماریوں، تکالیف کا تذکرہ نہ کیا جائے۔-

7۔اپنے تجربات کی بناء پر مریض کو دوسری اور غیر ضروری ادویہ کھانے کا مشورہ نہ دیا جائے، اس کے لیے وہی دوا بہتر ہے، جو ڈاکٹر نے تجویز کی ہے۔ 

8۔اپنے ساتھ لائی ہوئی اشیاء مریض کو خود کھلانے پر اصرار نہ کریں بلکہ تیماردار کے حوالے کر دیں۔-9۔حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’جب تم بیمار کے پاس جائو، تو اس سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرو، کیوں کہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی مانند ہوتی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)۔

بیمار اور پرہیز:بیمار کا ایک حق یہ بھی ہے کہ معالج کی ہدایت کے مطابق اسے پرہیزی کھانا فراہم کیا جائے اور وہ خود بھی پرہیز کرے۔ پرہیز جلد صحت یابی کا باعث بنتا ہے بلکہ بعض بیماریوں میں صرف پرہیز ہی سے افاقہ ہو جاتا ہے۔ حضرت ام منذر بنتِ قیسؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علیؓ کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے۔ حضرت علیؓ بیماری سے ابھی ابھی صحت یاب ہوئے تھے۔ گھرمیں کھجور کے خوشے لٹک رہے تھے۔ حضورؐ نے ان میں سے کچھ کھجوریں تناول فرمائیں۔ 

حضرت علیؓ نے کھانا چاہا، تو آپؐ نے انہیں منع فرمایا کہ’’تم ابھی کم زور ہو۔‘‘ حضرت امّ منذرؓ فرماتی ہیں کہ’’میں نے جَو اور چقندر پکا کر پیش کیا، تو آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا ’’اس میں سے کھالو، یہ تمہارے لیے نفع بخش ہے۔‘‘ (ابو دائود)۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’اگر رسول اللہؐ کے گھر والوں میں سے کسی کو بخار ہوجاتا، تو آپؐ ہریرہ تیار کرنے کا حکم دیا کرتے اور پھر اس میں سے گھونٹ گھونٹ پینے کا حکم دیتے اور فرماتے یہ غم گین دلوں کو تقویت پہنچاتا ہے اور بیمار کے دل سے تکلیف دور کرتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی عورت پانی کے ساتھ اپنے چہرے کا میل کچیل دور کرتی ہے۔‘‘ (ترمذی)۔

تحریر: محمود میاں نجمی


 تمام مہینوں کا امام اور سردار، رمضان المبارک اپنی تمام تر فیوض و برکات، عظمت و حرمت اور روحانی مسّرتوں کے ساتھ امّتِ مسلمہ پر سایہ فگن ہونے کو ہے۔ شعبان المعظم کی ان آخری ساعتوں میں رمضان المبارک کی مشک و عنبر سے معطّر، مسحورکن خوشبوئیں، ٹھنڈی ٹھنڈی روح پرور فضائوں میں چہارسو پھیل رہی ہیں۔ آسمانوں پر فرشتے و ملائکہ استقبالِ رمضان کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ماہِ رمضان کا رحمتوں بھرا چاند جلوہ گر ہوتے ہی شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ کر پابندِ زنداں کردیاجائے گا۔ دوزخ کے دروازے بندہو جائیں گے اور جنّت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ 


جنّت کے خوب صورت ترین دروازے ’’ریان‘‘ کو روزے داروں کے لیے مہکتے پھولوں سے سجادیا جائےگا کہ قیامت کے روزاس دروازے سے صرف روزے دار داخل ہوں گے، ان کے علاوہ کسی دوسرے کو اس سے داخل ہونے کی اجازت نہ ہوگی۔فرشتے پکاریں گے، ’’روزے دار کہاں ہیں؟‘‘ اور پھر متقّی روزے دار اس دروازے کی طرف بڑھیں گے۔

رمضان المبارک کی فضیلت:رمضان المبارک، خالقِ کائنات کی طرف سے عالم ِانسانیت کے لیے لامحدود انعام و اکرام کے ساتھ ایک ایسا عظیم الّشان تحفہ ہے، جس کی قدر و منزلت، درجات اور عزّت و عظمت کو حرف و بیاں کی وسعتوں میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ رمضان المبارک خوفِ خدا، تقویٰ پرہیزگاری، صبر و ایثار، تسلیم و رضا، عفو و درگزر،استغناو قناعت، تطہیرِقلوب اور تز کیۂ نفس یعنی نفس سے جہاد کا مہینہ ہے۔یہ مہینہ، گناہوں کی جلتی دھوپ میں مغفرت الٰہی کا وہ خوب صورت سائبان ہے کہ جس کی ٹھنڈی چھائوں میں جب رحمت کے جھکّڑ چلتے ہیں، تو انسانوں کے گناہ، یوں جھڑتے ہیں، جیسے پت جھڑ کے موسم میں درخت کے زرد پتّے۔ 

رمضان المبارک، گناہوں کے صحرائے اعظم میں بے کراں رحمتوں، بے پناہ برکتوں، بے انتہا شفقتوں کی اس پرنور بارش کا نام ہے کہ جس میں روزے داروں کو خاص روحانی کیف سے نوازا جاتا ہے، ان کی دعائیں سنی جاتی ہیں، ان پر انوار کے دروازے کھلتے ہیں۔ رمضان المبارک، رحمت، مغفرت، نجات اور خیر و فلاح کا وہ موسمِ بہار ہے کہ رحمتِ کائنات، محسنِ انسانیت، ختم المرتبت، رسالتِ مآب، حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اس کے پہلے عشرے کو رحمت، دوسرے کو مغفرت و بخشش اور تیسرے کو جہنّم سے نجات کا عشرہ کہہ کر امّتِ مسلمہ پر احسانِ عظیم فرمایا۔

استقبالِ رمضان:حضور نبی کریمﷺ رجب کے مہینے ہی سے استقبالِ رمضان کی تیاری فرمایا کرتے اور ماہِ مبارک کا شدت سے انتظار فرماتے تھے۔ جب آپﷺ ماہ رجب کا چاند دیکھتے، تو دعا فرمایا کرتے ۔’’اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبَ وَشَعْبَانَ و بلِّغْنا رمَضَان“ (ترجمہ) ’’اے اللہ! رجب اور شعبان میں ہمارے لیے برکت پیدا فرما اور خیر و سلامتی کے ساتھ ہمیں رمضان تک پہنچا۔‘‘مفسرین اس دعا کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اللہ سے دعافرمایا کرتے ’’اے اللہ! ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرما کہ ہم ماہِ رمضان المبارک کا استقبال، اس کے شایانِ شان، نہایت عزت و احترام کےساتھ کریں۔‘‘امّ المومنین، سیّدہ عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ’’ رسول اللہ ﷺ شعبان کے دن اور اس کی تاریخیں جتنے اہتمام سے یاد رکھتے تھے، اتنے اہتمام سے کسی دوسرے مہینے کی تاریخیں یاد نہیں رکھتے تھے۔ 

پھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھتے اور اگر (29 شعبان کو) چاند دکھائی نہ دیتا، تو تیس دن کا شمار کرکے روزے رکھتے تھے۔‘‘ (ابو دائود)ایک اور جگہ حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ ’’نبی کریمﷺ سب مہینوں سے زیادہ شعبان کے مہینے میں روزے رکھا کرتےتھے، لیکن جب ماہِ رمضان شروع ہوتا، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگِ مبارک متغیّر ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔‘‘

رمضان المبارک کی فضیلت سے متعلق رسول اللہﷺ کا خطبہ:

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبے میںفرمایا ’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے، اس مہینے کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ الٰہی میں کھڑے ہونے (یعنی نماز ِتراویح پڑھنے) کو نفل عبادت قراردیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیرفرض عبادت (یعنی سنّت یا نفل ادا کرے گا) تو اسے دوسرے زمانے کے فرائض کے برابر ثواب ملے گا ۔

اور اس مہینے فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ہوگا۔ یہ صبرکا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔ یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے، جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کروایا، تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اسے روزے دار کے برابر اجر و ثواب بھی دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپﷺ سے عرض کیا گیا ’’یارسول اللہﷺ ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کروانے کا سامان میسّر نہیں ہوتا۔‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دےگا، جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی، ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزے دار کا روزہ افطار کروائے گا۔‘‘ (رسول اللہﷺ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایا) ’’اور جو کوئی کسی روزے دار کو پورا کھانا کھلادے، اسے اللہ تعالیٰ میرے حوضِ کوثر سے ایسا سیراب کرے گا، جس کے بعد اسے کبھی پیاس نہ لگے گی تاآنکہ وہ جنّت میں پہنچ جائے گا۔‘‘(اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا) ’’اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصّہ رحمت، درمیانی حصّہ مغفرت اور آخری حصّہ آتشِ دوزخ سے آزادی کا ہے۔‘‘ (اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا) ’’اور جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کےکام میں تخفیف و کمی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادےگا اور اسے دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی/ معارف الحدیث)

وجہ تسمیہ رمضان: لفظ رمضان ، رمض سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ گرم ہونا اور تیز دھوپ سے پائوں کا جلنا ہے۔ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ روزے دار کے تمام سابقہ گناہوں کو جلادیتا یا مٹادیتا ہے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’اس ماہِ مبارک کو رمضان اس لیے کہتے ہیں کہ وہ گناہوں کو رمض کردیتا ہے، یعنی جلادیتا ہے۔عربی زبان میں روزے کو’’ صوم‘‘ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ’’رکنا‘‘ہے۔ 

لہٰذا روزہ اس بات کا اظہار ہے کہ انسان روزے کی نیّت کرکے طلوعِ فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بعض دوسری خواہشات پوری کرنے سے رکا رہے۔ قرآنِ پاک کی سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیےگئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بنو۔‘‘

استقبالِ رمضان اور ہم: رمضان المبارک کا مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہر سال عالمِ دنیا میں جلوہ گر ہوتا ہے۔مساجد میں نمازی بھی کثرت سے ہوتے ہیں اور اہتمامِ سحر و افطار بھی بڑے زور و شور سے کیا جاتا ہے۔ ذکر و اذکار، تراویح و شب بیداری کی محفلیں بھی خوب سجتی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں کوئی تغیّر نہیں آتا۔ گزرتے وقت کے ساتھ امّتِ مسلمہ ذلّت و رسوائی، غلامی و پستی کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔  رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہوتے ہی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ 

جائز اور ناجائز منافعے کی دھن میں مگن تاجر اور دکان دار تجارت کے تمام اصولوں، ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ دولت کے حصول کی ہوس نےحلال و حرام کی تمیز مٹادی ہے۔ ناجائز منافع خوری، رشوت، کرپشن، غبن ، منافقت، جھوٹ، غیبت، بددیانتی، ریاکاری، دھوکا فریب، خیانت کام چوری، سستی کاہلی، غفلت و لاپروائی، غصّہ، بدکلامی، لڑائی جھگڑا، دنگافساد جیسے قبیح اعمال و افعال ہمارے معاشرے کا حصّہ بن چکے ہیں، لہٰذا ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی انفرادی و جتماعی زندگیوں میں تبدیلی لاکر تقویٰ اختیار کیا جائے اور تقویٰ کے حصول کا سب سے بڑا مآخذ ’’ماہِ رمضان‘‘ ہی ہے۔اس مبارک مہینے میں جس نے ایمان کی روح کے ساتھ روزے رکھ لیے، وہ متقی ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے’’روزہ تم پر اس لیے فرض کیا گیا کہ تم متقّی بن جائو۔‘‘

استقبالِ رمضان اور چند ضروری ہدایات

استقبالِ رمضان کے سلسلے میں ان باتوں کا اعادہ ضروری ہے:

(1) رمضان المبارک میں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی نیّت اور ارادہ کریں۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’اعمال کا دارومدار نیّت پر ہے۔‘‘ (بخاری) نیّت شعور و ادراک پیدا کرتی ہے اور شعور، ارادے کو مستحکم کرتا ہے، جو کام یابی کی ضمانت بنتا ہے۔

(2) رمضان میں چند دن باقی ہیں، کسی تنہا اور پرسکون جگہ بیٹھ کر اپنے معمولات اس طرح ترتیب دیں کہ رمضان میں زیادہ سےزیادہ عبادات کا وقت مل جائے۔

(3) عید کی شاپنگ بہ جائے رمضان میں کرنے کے شعبان کے اِن چند دنوں ہی میں کرلیں۔

(4) رمضان کے روزے فرض ہیں، بلاعذر شرعی روزہ قضا کرنا یا چھوڑنا سخت گناہ ہے، نیّت کرلیں کہ روزوں کو اس کی اصل روح کے ساتھ مکمل کریں گے۔ 

(5) فدیہ دے کر روزے چھوڑدینا ایک فیشن بن چکا ہے۔ یاد رکھیے، فدیہ انتہائی مجبوری کے عالم میں صرف ان لوگوں کے لیے جائز ہے، جن کے بارے میں یہ احتمال ہو کہ روزہ رکھنے کی صورت میں وہ موت سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔ ان افراد کے علاوہ ہر شخص پر روزہ رکھنا لازم ہے۔ اگر رمضان میں کسی وجہ سے نہیں رکھ سکتے، تو بعد میں گنتی پوری کریں۔ 

(6) روزہ،محض خالی پیٹ رہنے کا نام نہیں ہے،بلکہ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ پائوں، غرض جسم کے ہر عضو کا روزہ ہوتا ہے۔(7) قرآن اور رمضان کاآپس میں گہرا تعلق ہے، قرآنِ کریم کا نزول شب قدر میں ہوا، یہ کتاب متقّیوں کے لیے راہِ ہدایت ہے، نیّت کریں کہ قرآن سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں گے اور روزانہ ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھیں گے۔ 

(8) رمضان میں فرض عبادات کا ثواب ستّر سے سات سو گنا تک بڑھادیا جاتا ہے اور نفلی عبادات کا اجر فرض عبادات کے برابر کردیا جاتا ہے۔ اس بات کی نیّت کریں کہ ماہِ رمضان کا ایک ایک لمحہ عبادتِ الٰہی میں صرف کریں گے۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ذکرِ الٰہی جاری رکھیں گے تاکہ دربارِ الٰہی میں جب حاضر ہوں تو نامہ اعمال میں توشۂ آخرت کے لیے کچھ تو جمع ہو۔ 

(9) اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے ’’متّقین وہ ہیں، جو رات کو کم سوتے اور سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں۔‘‘ نیت کیجیے کہ ماہِ رمضان کی راتوں میں تراویح، تہجّد، توبہ استغفار اور تلاوت کلام پاک کو معمول بنائیں گے۔ شب قدر کی طاق راتوں کو عبادت اور ذکر و اذکار میں گزاریں گے۔

(10) زکوٰۃ کی ادائیگی فرض عبادت ہے، ماہِ رمضان میں زکوٰۃ کی ادائیگی پر ستّر گنا زیادہ ثواب ملتا ہے، لہٰذا پہلے سے اس کا حساب کتاب کرلیں، مستحق افراد کو تلاش کریں اور شروع رمضان ہی میں اس فرض سے سبک دوش ہوجائیں۔ 

(11) نیکی کی طلب اور جستجو مسلمان کی فطرت کا حصّہ ہے، لہٰذا عہد کریں کہ اس ماہِ رمضان میں نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں گے، خواہ وہ کسی مسکین یا غریب کی مالی مدد ہو یا راستے میں پڑا پتھر ہو یا کانٹا، کسی کی زیادتی پر صبر کرنا ہو یا کسی روزے دار کا روزہ کھلوانا، یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے مسکرادینا بھی صدقہ ہے۔

(12) عہد کیجیے کہ ہر حال میں غصّے کو برداشت کریں گے۔

تحریر: محمود میاں نجمی


 شریعت کی اصطلاح میں ’’یتیم‘‘ ان بچّوں کو کہا جاتا ہے، جن کے والد بہ رضائے الٰہی دُنیا سے رُخصت ہوچکے ہوں۔ عموماً یتیم بچّہ، شفقتِ پدری سے محروم ہوکر رشتے داروں اور معاشرے کے رحم و کرم کا محتاج ہوجاتا ہے۔ باپ کی موجودگی بچّوں کے لیے تحفظ، اَمان، محبّت، شفقت اور رحمت کا باعث ہوتی ہے۔ کسی گھرانے کا سربراہ، ایک باپ اپنے خاندان کے لیے سایہ دار شجر کی مانند، مضبوط محافظ، بہترین نگران، محفوظ ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے، تو اہل و عیال کی کفالت، حفاظت اور تربیت کے لیے اپنا تن، من، دھن بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا، لیکن جوں ہی اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں۔


بچّوں کے سر سے تحفّظ کا سایہ چھن جاتا ہے۔ پورا گھر بے سہارا و بے آسرا ہوجاتا ہے۔ سگے، اجنبی بن جاتے ہیں۔ قرابت دار، نگاہیں بدل لیتے ہیں۔ پڑوسی، حقیر سمجھنے لگتے ہیں۔ شقی القلب رشتے دار بھوکے گِدھ کی طرح ان کے اَثاثوں اور جائیداد کو ہتھیانے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں اور پھر ان معصوم یتیموں پر ظلم و ستم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ زمانے کے بے رحم تھپیڑے ان بے آسرا بچّوں کو خزاں رسیدہ درخت کے ٹوٹے، سوکھے پتّوں کی طرح سماج کے سفّاک قدموں میں روندنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

بدقسمتی سے اکیسویں صدی کے اس دَور میں بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے گھرانے نظر آتے ہیں کہ جہاں ناز و نعم میں پلنے والے بچّے، شفقتِ پدری سے محرومی کے بعداپنے رشتے داروں کی سرپرستی میں غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حتیٰ کہ گھروں سے بھاگ کر خانقاہوں، مزاروں اور یتیم خانوں میں پلنے والے بچّوں کی اکثریت ایسے ہی یتیم بچّوں پر مشتمل ہے۔

بلاشبہ، اسلام کا معاشرتی نظام، نسلِ انسانی کی بقاء اور عزّت وقار کا محافظ ہے کہ جس کے تحت تمام لوگوں کی طرح، یتیموں کے حقوق کا بھی خصوصی تعیّن کردیا گیا ہے۔ اللہ رَبُّ العزت نے قرآن کریم میں تیس مختلف مقامات پر یتیموں کی پرورش کے بارے میں احکامات نازل فرمائے ہیں۔ اسی طرح بے شمار احادیثِ مبارکہ ؐ بھی ہیں، جن میں یتیموں کی کفالت و تربیت پر بے پناہ اَجر اور عظیم انعام و اکرام کی بشارت دی گئی ہے۔

یتیموں سے حسنِ سلوک: یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے معنی یہ ہیں کہ ان بچّوں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جائے، جیسا اپنے سگے بچّوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ان کی تعلیم، لباس، رہن سہن، کھانے، پینے سمیت دیگر تمام سہولتوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ان کے ساتھ محبت، پیار و شفقت کا برتائو کیاجائے، تاکہ وہ کسی بھی طرح کی احساسِ محرومی کا شکار نہ ہوں۔ شفقتِ پدری سے محروم ان بچّوں کے ساتھ حسنِ سلوک، جنّت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ امام الانبیاء، خاتم النبییّن، سیّدالمرسلین، شاہِ عرب و عجم، سرکارِ دوعالم، رحمتِ دوجہاں، محسنِ انسانیت، سرورِ کائنات، حضور رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ یتیمی میں دُنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔ 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں آمد سے قریباً چھے ماہ قبل ان کےوالد ماجد، حضرت عبداللہ انتقال فرماگئے تھے اور ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 6 برس ہی کے تھے کہ والدہ ماجدہ بھی مدینے سے مکّہ واپسی کے سفر کے دوران رحلت فرماگئیں۔پھر ’’درّیتیم‘‘ کی حیثیت سے اپنے دادا، حضرت عبدالمطلب کی زیرِنگرانی پرورش پارہے تھے کہ وہ بھی رحلت فرماگئے۔ قرآنِ کریم میں اللہ اپنے محبوب ؐکو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے ’’بھلا اس (اللہ) نے آپ ؐ کو یتیم پاکر جگہ نہیں دی (بے شک دی) اور رستے سے ناواقف دیکھا، تو سیدھا راستہ دکھایا اور تنگ دست پایا، تو غنی کردیا۔ (سورۃ الضحیٰ ) اسی آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’اے میرے محبوبؐ !ہم نے آپ ؐ کی یتیمی کے باوجود کفالت و سرپرستی کا انتظام کیا۔ قناعت و تونگری عطا کی، رسالت و نبوت کے عظیم منصب پر فائز کیا۔‘‘اور آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ ( اب آپ بھی دُنیا کو پیغام دے دیجیے کہ)تو تم بھی یتیم پر سختی نہ کرنا اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتے رہنا۔‘‘ (سورۃ الضحیٰ) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یتیموں کے لیے سراپا لطف و عطا، مشعل ِراہ اور مینارئہ نور تھے۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اللہ روزِ قیامت اس شخص کو عذاب نہیں دے گا، جس نے یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک کیا۔ شفقت سے پیش آیا اور اس کے ساتھ ہمیشہ نرمی و محبت سے بات کی۔‘‘ قرآنِ کریم اور احادیثِ نبوی ؐ میں یتیموں کے ساتھ حسن ِسلوک کی بار بار تلقین کی گئی ہے۔ اللہ فرماتا ہے ’’اور ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، ہمسایوں ،رشتے داروں، اَجنبی رشتے داروں، مسافروں اور جو تمہارے قبضے میں ہوں (غلام نوکر) ان سب کے ساتھ احسان کرو۔‘‘ (سورۃ النساء ) اسی سورت میں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔ترجمہ:’’یتیموں کے بارے میں انصاف پر قائم رہو۔‘‘ سورۃ البقرہ میں اللہ کا ارشاد ہے کہ ’’جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور والدین اور رشتے داروں اور یتیموں اور محتاجوں سے احسان کرتے رہنا، لوگوں سے اچھی باتیں کہنا، نماز پڑھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، تو چند لوگوں کے سوا ،تم سب (اس عہد سے) منہ پھیر بیٹھے۔‘‘ 

حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے کسی یتیم کے سر پر دستِ شفقت رکھا ا اور صرف اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے سر پرہاتھ پھیرا، تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پِھرا، ہر ہر بال کے بدلے اسے نیکیاں ملیں گی اور جس نے کسی یتیم بچّی یا یتیم بچّے سے حسنِ سلوک کیا، تو میں اور وہ جنّت میں ان دو اُنگلیوں کی طرح ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں اُنگلیوں کو ملایا) ہوں گے۔ (ترمذی، مسندِاحمد)

یتیموں کی پرورش و تربیت: اسلام نے یتیموں کی بہتر طریقے سے پرورش اور تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اپنی سگی اولاد کی طرح یتیم بچّوں کے بھی تعلیمی اخراجات اپنی استطاعت کے مطابق برداشت کریں اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کریں۔ یتیم کی کفالت اور پرورش کرنا، انہیں تحفظ دینا، ان کی نگرانی کرنا اور ان کے ساتھ بہترین سلوک کرنا ایسا صدقۂ جاریہ ہے کہ جس کے اَجر و ثواب کا اللہ نے خود وعدہ کر رکھا ہے۔ 

قرآنِ کریم میں ارشاد ِ ربّانی ہے ’’ اور وہ اللہ کی محبت میں مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں، ان کے نزدیک کھانا کھلانے کا مقصد صرف رضائے الٰہی ہوتا ہے اور اس کے عوض نہ کسی بدلے کے طلب گار ہیں اور نہ شکرگزاری چاہتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الدھر) حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص کسی مسلمان یتیم کی کفالت کرے گا، اللہ اسے ضرور جنّت میں داخل کرے گا۔‘‘ (ترمذی) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے سخت دل ہونے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ تم یتیم کے سر پر (شفقت و محبّت سے) ہاتھ پھیرا کرو اور مساکین کو کھانا کھلایا کرو۔‘‘ (مسندِاحمد)

یتیموں کے مال کی حفاظت:وراثت میں ملنے والے یتیم کے مال کی حفاظت اس کے کفیل کی ذمّے داری ہے، جس کے بارے میں روزِ قیامت سخت ترین پوچھ گچھ ہوگی۔ یتیموں کے مال کی حفاظت کے بارے میں اللہ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور یتیموں کی پرورش کرتے رہو، حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائیں۔ پس اگر تم ان میں عقل مندی دیکھو، تو ان کے مال ان کے سپرد کردو اور اسے فضول خرچی کے ذریعے نہ کھائو اور نہ ہی جلدبازی میں اُڑا لے جائو کہ وہ بڑے ہوکر اپنا مال تم سے واپس لے لیں گے اور جو غنی ہو، وہ اس سے بچے، اور جو ضرورت مند ہو، اسے چاہیے مناسب طریقے سے ان کے مال کو مصرف میں لائے۔ 

پھر جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو، تو اس پر گواہ بنالو اور اللہ حساب لینے والا کافی ہے۔‘‘ (سورۃ النساء)سورۃ النساء ہی میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’یتیموں کا مال ان کو واپس دو، اچھے مال کو بُرے مال سے نہ بدلو، اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھائو، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘ سورۃ انعام میں اللہ حکم دیتا ہے ’’اور یتیموں کے مال کے قریب نہ جائو، مگر ایسے طریقے سے، جو احسن ہو، یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائے۔‘‘

یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کی ممانعت: یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کوسخت ترین عذاب کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بہترین گھر وہ ہے، جہاں یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہو اوربدترین گھر وہ ہے، جہاں یتیم ہو اور اس کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہو۔‘‘ (ابنِ ماجہ)قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ترجمہ: ’’نہیں، بلکہ تم لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے۔‘‘ یعنی ان کے ساتھ وہ حسن ِسلوک نہیں کرتے، جس کے وہ مستحق ہیں۔‘‘ سورۃ الماعون میں اللہ فرماتا ہے۔ ترجمہ: ’’یہ وہی (بدبخت) ہے، جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔‘‘ سورۃ الضحیٰ میں اللہ تنبیہ فرماتا ہے ’’تو تم بھی یتیم پر سختی نہ کیا کرو‘‘ بلکہ اس کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کیا کرو۔‘‘

یتیم کا مال کھانے کی ممانعت: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے۔‘‘ (النساء) اسی حوالے سے سورئہ بنی اسرائیل میں اللہ رب العزت حکم فرماتا ہے ’’اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جائو، بجز اس طریقے کے، جو بہت ہی بہتر ہو۔ یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جائے، اور وعدے پورے کرو، کیوں کہ قول و قرار کی بازپرس ہونے والی ہے۔‘‘جب یتیموں کا مال ظلماً کھانے والوں کے لیے وعید نازل ہوئی، تو صحابہ کرامؓ اس بات پر خوف زدہ ہوکرکہ کہیں وہ بھی اس وعید کے مستحق قرار نہ دے دیئے جائیں، یتیموں کی ہر چیز الگ کردی، حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی، تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہو جاتی۔ 

اس پر مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی۔ (ابنِ کثیر) ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں۔ آپؐ کہہ دیجیے کہ ان کی خیرخواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو، تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ بدنیّت اور نیک نیّت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا، تو تمہیں مشقّت میں ڈال دیتا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ غلبے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ)

یتیموں کی مالی معاونت:اسلام نے ہر صاحبِ حیثیت فرد پر لازم قرار دیا ہے کہ اپنے جائز مال میں سے یتیموں کی مالی امداد کرتے رہو۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور مال سے محبت کے باوجود، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور غلام آزاد کرنے میں خرچ کرو۔‘‘ (سورۃ البقرہ)جب کہ سورئہ انفال میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت سے حاصل ہو، تو اس میں سے پانچواں حصّہ اللہ کا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا، قریبی رشتے داروں کا، یتیموں کا، مسکینوں کا ،اور مسافروں کا ہے۔‘‘سورۃ الحشر میں اللہ فرماتا ہے ’’جو مال اللہ نے اپنے پیغمبر کو بستیوں والوں سے دلوایا ہے، وہ اللہ کے، اور پیغمبر کے، اور رشتے داروں کے، اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، تا کہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔‘‘ 

اسی طرح یتیم بچّے، بچیّوں کے سرپرستوں کی ذمّے داری ہے کہ وہ پرورش و کفالت کے بعد ان کی بہتر اور مناسب جگہ شادی کا اہتمام کریں، خصوصاً یتیم بچیّوں کی شادی کرنا یا ان کی شادی کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنا بڑے اَجر و ثواب کا کام ہے۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ، جو یتیموں کے ساتھ پیار و محبت اور بہترین سلوک کر کے اس عمل کو اپنے لیے جنّت کے حصول کا ذریعہ بناتے ہیں۔یاد رکھیے! یتیم کی آہیں اور بددُعائیں عرش بھی ہلا دیتی ہیں۔ روزِ قیامت ہم سب کو اللہ کے حضور ڈھائے گئے ظلم و جبر کا حساب دینا ہوگا۔ 

وہ کیسا بھیانک منظر ہوگا، جب ایک یتیم بچّہ روزِ محشر اللہ کے دربار میں اپنی مظلومیت و بربادی کی داستان سنا رہا ہوگا۔ اس وقت وہاں مجرم کی حیثیت سے سر جھکائے ایسے غاصب وارث بھی ہوں گے اور اس پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھنے اور سننے کے بعد آنکھیں بند کر لینے والے اس کے پڑوسی اور دیگر رشتے دار بھی ۔اور سب قہرالٰہی کے منتظر ہوں گے، جو دوزخ کی آگ کا ایندھن بننے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

تحریر: محمود میاں نجمی


 مشہور قول ہے کہ ’’جس نے معالج کی عزت نہ کی، وہ شفا سے محروم رہا اور جس نے استاد کی عزت نہ کی، وہ علم سے محروم رہ گیا۔‘‘ بلاشبہ، اسلام میں معلّم (استاد) کی بڑی قدرومنزلت ہے۔ امام الانبیاء، خاتم النبیّین، سیّد المرسلین، رحمۃ للعالمین، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رسالت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلّم کا منصب عطا فرمایا گیا۔ چناں چہ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ’’اِنما بعثت معلما‘‘ (ترجمہ) میں بہ طور معلّم (استاد) مبعوث کیا گیا ہوں۔ (ابنِ ماجہ) سیّدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے مشکلات میں ڈالنے والا اور سختی کرنے والا بناکر نہیں، بلکہ معلّم اور آسانی کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں کہ تمہیں علم و حکمت سِکھاتا ہوں۔‘‘ استاد کا درجہ باپ کے برابر ہے۔ 


حضور نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ ’’تیرے تین باپ ہیں، ایک وہ تیرے دنیا میں آنے کا باعث بنا، یعنی والد، دوسرا وہ، جس نے تجھے اپنی بیٹی دی، یعنی سسر اور تیسرا وہ، جس نے تجھے علم و آگہی سے نوازا، یعنی استاد۔‘‘ امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا ’’آپ اتنی عظیم الشان اسلامی سلطنت کے خلیفہ ہیں، کیا اس کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے؟‘‘ فرمایا! ’’کاش! میں ایک معلّم ہوتا۔‘‘ امیرالمومنین سیّدنا علی مرتضیٰؓ کا قول ہے کہ’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا، میں اسے استاد کا درجہ دیتا ہوں۔‘‘

استاد کا مرتبہ و مقام:علم کا حقیقی سرچشمہ اللہ رب العزت ہے کہ جس نے حضرت آدمؐ کو علم کی بِناء پر فرشتوں پر برتری دی اور پھر انبیاء کے ذریعے انسانوں کو عِلم کے زیور سے آراستہ کیا۔ نبی آخرالزماںؐ جب منصبِ رسالت پر فائز ہوئے، تو اللہ جل شانہ نے اپنے محبوبؐ پر حضرت جبرائیل کے ذریعے جو پہلی وحی نازل فرمائی، وہ پڑھنے ہی سے متعلق تھی۔ فرمایا۔ (ترجمہ) ’’پڑھو اپنے رب کے نام سے، جس نے (عالم کو) پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں، جس کا اسے علم نہ تھا۔ (سورۃ العلق۔ 14:96)اسلام سے قبل عربوں میں لکھنا پڑھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ 

بعثتِ نبوتؐ کے وقت پورے عرب میں صرف17افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ حضورؐ نے عِلم کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کی ترویج و اشاعت پر خصوصی توجّہ فرمائی۔ مدینہ ہجرت فرماتے ہی مسجد نبوی ؐ کی تعمیر کے ساتھ مسجد کے صحن میں درس و تعلیم کے لیے ایک چبوترے کی تعمیر فرمائی، جو ’’صفّہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دنیائے اسلام کی پہلی درس گاہ قرار پائی، جہاں صحابہ کرام اجمعینؓ نے حضورؐ سے قرآن و حدیث اور فقہاء کی تعلیم حاصل کرکے دنیا کی تاریکی کو اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور فرمایا۔ اصحابِ صفّہ، دن رات خدمتِ دین اور حصولِ علم میں مصروف رہتے۔ 

اللہ کے نبیؐ بہ نفسِ نفیس ان اصحاب کو درس و تعلیم دیتے اور ان کی تربیت فرماتے۔ آپؐ نے فرمایا ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں فرمایا کہ ’’میرے بعد سب سے بڑا سخی وہ ہے، جس نے علم حاصل کیا اور پھر اسے پھیلایا۔‘‘ (بیہقی) غزوئہ بدر میں جو قیدی لکھنا پڑھنا جانتے تھے، آپؐ نے ان کا ہدیہ مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’جو قیدی دس مردوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے، تو اسے آزاد کردیا جائے گا۔‘‘ شریعتِ اسلامی میں معلّم (استاد) کا مقام و مرتبہ نہ صرف بہت اعلیٰ و بلند ہے، بلکہ اس کے فرائضِ منصبی کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔

استاد کا ادب و احترام:استاد کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کے شاگرد اس کا ادب و احترام کریں، اس کے ساتھ عزت، عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔ اس کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دے، اس پر عمل پیرا ہوں۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے، اس کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے، جتنا ایک باپ کا اولاد پر۔ ماں باپ اگر اس کے دنیا میں آنے کا ذریعہ بنتے ہیں، تو استاد اسے اچھی اور باعزت زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ اسے علم کے زیور سے آراستہ کرکے اس کی اخلاقی تربیت کرتا ہے۔ 

اس کی شخصیت سازی و کرداری سازی میں بھرپور کردار ادا کرتا ہے، یعنی پتھر کو تراش کر ہیرا بناتا ہے، تاکہ وہ معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرسکے۔ جس طرح والدین کے احسانات کا بدلہ نہیں چکایا جاسکتا، اسی طرح استاد کے احسانات کا بدلہ بھی نہیں اتارا جاسکتا۔ ماضی کے اوراق مسلمانوں کی عظیم الّشان تاریخ، اساتذہ کے ادب و احترام کے بے شمار واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ بنو عباس کے خلیفہ، ہارون رشید نے اپنے بیٹے امین کو مشہور عالم، امام اصمعیؒ کے پاس علم و ادب کی تربیت کے لیے بھیجا۔ 

کچھ دنوں بعد خلیفہ صاحب زادے کی تعلیم و تربیت کا جائزہ لینے کے لیے بغیراطلاع وہاں پہنچ گئے۔ دیکھا کہ امام اصمعیؒ وضو کرتے ہوئے اپنے پائوں دھو رہے ہیں اور شہزادہ امین پانی ڈال رہا ہے۔ یہ دیکھ کر خلیفہ وقت کو بڑا غصّہ آیا اور امام اصمعیؒ سے کہا کہ ’’حضرت میں نے اسے آپ کے پاس علم و ادب سیکھنے کے لیے بھیجا ہے، آپ کو اسے حکم دینا چاہیے تھا کہ یہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کا پائوں دھوئے۔‘‘ ہارون رشید وہاں سے واپس ہوئے اور اپنے دوسرے بیٹے مامون کو بھی امام اصمعیؒ کے پاس بھیج دیا۔ 

اب دونوں شہزادوں کا یہ حال تھا کہ جب امام اصمعیؒ مسجد سے نکلنے کا ارادہ کرتے، تو دونوں، ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ان کی جوتیاں اٹھانے کے لیے دوڑ پڑتے۔

علّامہ اقبال اپنے استاد، سیّد میر حسن کا بہت ادب و احترام کیا کرتے تھے۔ جب علّامہ کو ’’سر‘‘ کا خطاب دیا جانے لگا، تو انہوں نے اس وقت کے گورنر پنجاب سے کہا کہ میں ’’سر‘‘ کا خطاب اس وقت لوں گا، جب میرے استاد سیّد میر حسن کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے گا۔‘‘ گورنر نے کہا کہ ’’کیا انہوں نے کوئی کتاب تصنیف کی ہے؟‘‘ علامہ نے فرمایا ’’انہوں نے کوئی کتاب تو تصنیف نہیں کی، لیکن میں ان کی زندہ تصنیف آپ کے سامنے موجود ہوں۔‘‘ چناں چہ علّامہ کی یہ تجویز مان لی گئی۔ سیّد میر حسن سیال کوٹ میں رہتے تھے اور خطاب کے لیے ان کا لاہور آنا ضروری تھا۔ 

علّامہ کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ استادِ محترم خطاب کے حصول کے لیے گورنر ہائوس تک کا سفر کریں، لہٰذا پہلی شرط منوا کر ابھی چند قدم ہی چلے تھے کہ پھر لوٹ آئے اور فرمایا ’’ایک شرط اور بھی ہے، جو میں بھول گیا تھا، وہ یہ کہ میرے استاد بوڑھے ہیں، اس لیے انہیں خطاب لینے کے لیے لاہور نہ بلایا جائے، بلکہ ان کے گھر سیال کوٹ میں جاکر انہیں خطاب سے نوازا جائے۔‘‘ چناں چہ علّامہ کی اس شرط کو بھی منظور کرلیا گیا اور ان کے استاد، سیّد میر حسن کو ان کے گھر سیال کوٹ جاکر ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ 

علّامہ اقبال کا اپنے استاد، سیّد میر حسن کے ادب و احترام اور ان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب ان کا ذکر کرتے، تو آنکھیں پرنم ہوجایا کرتیں۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں ہر نماز کے بعد اپنے استاد اور اپنے والد کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنے استادِ محترم کے گھر کی طرف اپنے پائوں دراز نہیں کیے، حالاں کہ میرے گھر اور ان کے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ ہے۔ 

میرا معمول ہے کہ میں ہر اس شخص کے لیے دعائے استغفار کرتا ہوں، جس سے میں نے کچھ سیکھا یا جس نے مجھے علم پڑھایا اور سکھایا۔‘‘ امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں کہ ’’کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے نماز پڑھی ہو اور اپنے استاد، امام ابو حنیفہؒ کے لیے دعا نہ مانگی ہو۔‘‘ خلیفہ وقت ہارون رشید نے امام مالکؒ سے حدیث پڑھانے کی درخواست کی، تو امام مالکؒ نے فرمایا ’’علم کے پاس لوگ آتے ہیں، علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا۔ 

تم اگر کچھ سیکھنا چاہتے ہو، تو میرے حلقہ درس میں آسکتے ہو۔‘‘ چناں چہ، خلیفہ حلقہ درس میں آئے اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ امام مالکؒ نے جب یہ دیکھا، تو ڈانٹ پلائی اور فرمایا ’’اگر علم حاصل کرنا چاہتے ہو، تو اہلِ علم کا احترام کرو۔‘‘ یہ سنتے ہی خلیفہ مودب انداز میں فوراً کھڑا ہوگئے۔

استاد اور معاشی فکر:استاد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ معاشی فکر سے آزاد ہو کر علم کے فروغ میں مصروفِ عمل رہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاد معاشی طور پر نہایت پَس ماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تعلیم کا شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے شعبہ تدریس کا انتخاب اہل، ذہین اور قابل نوجوانوں کی آخری ترجیح ہوتی ہے۔

حالاں کہ قوموں کی ترقی و عروج کے حوالے سے علم کا حصول بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ علم سے آگاہی اور اس کی ترویج ہی انسانی تہذیب و ترقی کا ذریعہ بن کر عظمتوں اور رفعتوں سے ہم کنار کرتی ہے۔

محکمہ تعلیم کی نااہلی اور معاشرے کی بے حسی:استاد کی معاشرتی خدمات کے عوض اس کا حق ہے کہ اسے سوسائٹی میں اعلیٰ مقام دیا جائے۔ نئی نسل کی تعمیر و ترقی، دنیائے انسانیت کی نشوونما، معاشرے کی تعمیر و تشکیل اور فلاح و بہبود، باصلاحیت، کام یاب اور باکمال اساتذہ کے بغیر ممکن نہیں۔ زندگی کے تمام پیشے تدریس کی کوکھ ہی سے جنم لیتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی علم استاد کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ کام یابی و کام رانی کی شاہ راہ پر گام زن ہونے کے لیے قدم قدم پر استاد کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ 

ماں کی گود میں پروان چڑھنے والی علم و عمل کی پہلی کونپل، استاد ہی کے ہاتھوں تعلیم و تربیت کے عمل سے گزر کر ایک قدآور اور پھل دار اور سدابہار درخت کا روپ دھارتی ہے۔ استاد اگر اپنے فرائض سے غفلت برتے تو معاشرے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے۔ معاشرہ حیوانیت، نفس پرستی اور مفاد پرستی کی تصویر بن کر جہنم کا نمونہ پیش کرنے لگتا ہے اور پھر ذلت و رسوائی قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔

ان سب باتوں کے باوجود یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ استاد اور سب سے غریب پیشہ تدریس ہے۔ جب پاکستان کی سڑکوں پر اساتذہ اپنے حقوق کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں اور ان کے اپنے شاگرد پولیس افسر، ان پر ڈنڈے برساتے، تشدد کرتے اور آنسو گیس کے گولے پھینکتے ہیں، تو نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تدریس کے مقدّس پیشے کی عظمت اور وقار کو بحال کیا جائے۔

استاد بہترین سلوک کا حق دار ہے: مثل مشہور ہے ’’باادب بانصیب، بے ادب بے نصیب۔‘‘ استاد اپنے شاگرد کا روحانی باپ ہے، جو اس کی ذہنی و روحانی تربیت کرکے اسے ایک قابل اور کام یاب انسان کے روپ میں ڈھالتا ہے۔ شاگردوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ بہترین سلوک کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھیں۔ استاد کے ساتھ عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں، گفتگو میں ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں۔ استاد کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، تاکہ ان کی علمیت سے استفادہ کیا جاسکے۔ بغیر اجازت ان کی مجلس، درس یا کلاس سے باہر نہ جائیں۔ استاد سے بحث، ضد، غصّے یا ناراضی سے پرہیز کیا جائے۔ 

کسی مسئلے پر استاد سے اختلافِ رائے بھی ادب و احترام کے دائرے میں کیا جائے۔ استاد کی اجازت کے بغیر سوالات نہ کیے جائیں۔ استاد کو تنگ کرنے، زچ کرنے کے لیے لایعنی سوالات سے اجتناب برتا جائے، البتہ موضوع کی مناسبت سے اچھے سوالات کرنا طالب علم کا حق ہے۔ حضورؐ نے فرمایا۔ ’’اچھے انداز میں سوال پوچھنا آدھا علم ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ، بیہقی)۔ استاد کی ناراضی کفرانِ نعمت ہے۔کسی مسئلے پر استاد کی کم علمی پر اسے شرمندہ نہ کریں۔ استاد اگر مقام و مرتبے کے اعتبار سے کم بھی ہو، تو بھی اس کی پیروی لازمی ہے۔ استاد کی عیب جوئی، غیبت یا بہتان طرازی سے پرہیز کیا جائے۔ انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، ان کے کپڑوں اور ان کی غربت کا مذاق اڑانا، سخت گناہ ہے۔ 

استاد کی معاشی ضروریات و حاجات میں معاونت اور استاد کی خدمت، سعادت مندی اور عین عبادت ہے۔ ذوقِ علم کی تسکین اور حصول کے لیے محنت و مشقّت اٹھا کر دوردراز کا سفر کرکے استاد کے پاس جانا پڑے، تو ضرور جائیں۔ استاد خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم، طلبہ کے بہترین حسنِ سلوک کا مستحق ہے۔غرض یہ کہ استاد، علم کا سرچشمہ، معلم و مربّی، علم کے فروغ کا ذریعہ اور اللہ کا بہت بڑا انعام و احسان ہے۔ 

اپنے اساتذہ کے لیے دعائے خیر کرتے رہیں کہ اللہ کے نزدیک یہ سعادت مندی بڑی پسندیدہ ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ ہم سب کو اپنے اساتذہ کی عزت، ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو اساتذہ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، ان کی علمی خدمات کے عوض انہیں جنت میں بہترین انعام و اکرام سے نوازے۔ (آمین)

تحریر: محمود میاں نجمی

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget