روشن خیالی


  روشن خیالی آج کے دور کا ایک پسندیدہ اور مقبول عام موضوع بنا ہوا ہے ۔ اس کے بارے میں لوگ دو انتہاؤں پر پہنچے ہوئے ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ استعماری ہتھکنڈا ہے رو شن خیالی کوئی چیز بنہیں ہے اور ہمارے معاشرہ میں اسکی کوئی گنجائش نہیں ہے جبکہ کچھ لوگ ہر درد کی دوا روشن خیالی کو قرار دے رہے ہیں ان کے خیال کے مطابق روشن خیالی کو اپناتے ہی پاکستان کی قسمت جاگ اٹھے گی وطن عزیز میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی ۔ پیٹرول اور ڈیزل کے چشمے پھوٹ پڑیں گے ۔ہمارا ملک خوشحالی اور تعمیر وترقی سے ہمکنار ہوگا اور امن وانصاف غریب کی دہلیز پر دستک دینے لگیں گے اس قسم کے نظریات رکھنے والی مخلوق ایوانہائے اقتدار کی بھول بھلیوں میں رہتی ہے یہ لوگ روشن خیالی کو الہ دین کا چراغ سمجھتے ہیں کہ اسے اختیار کرنے کے بعد ہمیں امریکی اور یورپین اقوا م کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کیلئے کچھ اور نہیں کرنا پڑیگا ۔ہم ٹوٹی ہوئی سڑکوں ، تباہ شدہ قومی اداروں اور طبی سہولیات سے محروم شفاخانوں کے باوجود امریکی صدر کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس اور ہاٹ لائن پر جب چاہیں وہائٹس ہاؤس کے مکینوں سے بات کرسکیں گے بس اپنی قوم کے قتل کیلئے کندھا پیش کرنے اور اپنے ہی ملک کے باشندوں کو گرفتار کرکے استعماری قوتوں کے حوالہ کرنے سے روشن خیالی کے تمام تقاضے پورے ہوجائیں گے ۔

ہمارا قومی مزاج بھی عجیب ہے ۔ خوشنما نعروں اور دلفریب وعدوں پر ہم بے سوچے سمجھے یقین کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف اسٹیکر کی تبدیلی سے چیزوں کی ماہیت بدل جاتی ہے ۔ کسی کالی کلوٹی شخصیت پر ’’ملکہ حسن‘‘ کا بینر لگانے سے وہ ’’حسن کی دیوی ‘‘ بن جائیگی اور پتھر کے زمانہ اور خانہ بدوشوں کے نظریات کو روشن خیالی کے نام سے اپناکر ہم روشن خیال قرار پاجائیں گے ۔ ہمارے ملک میں ستر کی دہائی میں عوامی دور آیاتھا ۔ اس میں نعرہ دیاگیا تھا کہ ’سب کچھ عوام کیلئے ‘‘ اس دور میں ریلوے نے عوام کو سفر کی سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا اور پینٹر کو بلاکر ریلوے کی بوگیوں کے نام تبدیل کردئیے ۔  ’’تھرڈ کلاس‘‘کا لفظ مٹاکر ’’ اکنامی کلاس ‘‘ لکھ دیا ۔ ’’انٹر کلاس‘‘ کو مٹاکر ’’ سیکنڈ کلاس ‘‘ لکھ دیا اور ’’سیکنڈ کلاس ‘‘ کی جگہ ’’فرسٹ کلاس ‘‘ لکھ دیا اور اس طرح عوام کا معیار سفر اتنا بلند ہوگیا کہ وہ اکنامی کلاس کا کرایہ ادا کرکے آج تک تھرڈ کلاس میں سفر کررہے ہیں ، بے حجابی ،فحاشی ،عریانی ، بے حیائی زمانہ جاہلیت کی ہر خرابی کو روشن خیالی کے نام سے ’’ اپ گریڈ ‘‘ کرنے پر یہ لوگ تلے ہوئے ہیں ۔ اگر نیکریں پہنکر میراتھن ریس میں شرکت کرنا روشن خیالی ہے تو ان بیچاروں کا کیا قصور ہے جو اسلام سے پہلے اپنے جسم کے کپڑوں سے بے نیاز ہوکر خانہ کعبہ کا طواف کیا کرتے تھے ۔ ایک عورت طواف کیلئے برہنہ تو ہوگئی اور شرم وحیا کے تقاضوں کا پاس رکھتے ہوئے اسنے آگے اور پیچھے ہاتھ رکھکر روشن خیالی کے تمام لوازمات پورے کردئیے مگر پھر بھی جاہل کہلائی اور ہمارے آج کے وزیر ومشیر میراتھن ریس اور حج بیت اللہ میں مماثلت قرار دیکر روشن خیال کہلانے لگے ۔ یہ کونسی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ہزاروں میل دور سے آکر مسلمانوں پر بمباری کرکے ہنستے بستے خاندانوں کو موت کی نیند سلانے والے روشن خیال اور امن وآزادی کے علمبردار اور اپنے وطن کی سرزمین کا دفاع کرنے والے تاریک خیال اور دہشت گرد !
شاعر مشرق کہتے ہیں :
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے                      مشرق میں جنگ شر ہے ، تو مغرب میں بھی ہے شر 
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات ؟                   اسلام کا محاسبہ ، یورپ سے درگزر ؟
ان سے جب ’’ روشن خیالی ‘‘ اور ’’ تاریک خیالی ‘‘ کی تعریف پوچھی جاتی ہے تو یہ مخمور نگاہوں اور نشیلی اداؤں کے ساتھ کف ِدین اڑاتے ہوئے کہتے ہیں :           ’’ روشن خیالی ، روشن خیالی ہوتی ہے اور تاریک خیالی ، تاریک خیالی ہوتی ہے ‘‘۔
ہم روشن خیالی کو تسلیم کرتے ہیں مگر اسکی سرحدوں کو کھلا چھوڑ کر اسے سونامی کا طوفان نہیں بننے دیں گے جس طرح سمندر کی بپھری ہوئی موجیں زندگی کے تمام نقوش مٹاتی ہوئی چلی گئیں اس طرح روشن خیالی کا طوفان بھی اسلامی تعلیمات اور انسانی اقدار کو خس وخاشاک کی طرح بہاکر لیجائے ۔ہمارے معاشرہ میں اسبات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، ہمیں روشن خیالی کی تعریف متعین کرنی ہوگی اور قرآن کریم کی حدود وقیود کا اسے پابند بنانا ہوگا ۔ قرآن کریم میں ہے :
’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کی واضح تعلیمات کی شکل میں تمہارے پاس ’’ روشنی‘‘  آگئی ہے ۔ رضائے الٰہی کے طلبگاروں کو اللہ تعالیٰ اس قرآن کریم کے ذریعہ ’’ سلامتی کے راستوں ‘‘ کی ہدایت عطاء فرماتے ہیں اور انہیں اپنے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی سے ہمکنار کرتے ہیں اور انہیں صراط مستقیم کی ہدایت سے نوازتے ہیں ‘‘۔( سورۃ المائدہ آیت نمبر ۱۵،۱۶ )
اس سے واضح ہوتا ہے کہ روشن خیال انسان وہی ہے جسکا سینہ کتاب وسنت کی تعلیمات سے منور ہے ۔ جو قرآن کریم کے الفاظ بھی صحیح طور پر ادا نہ کرسکیں وہ روشن خیال قرار نہیں دئے جاسکتے ۔
سوا چودہ سو سال پہلے صحراء نورد ، خانہ بدوش ، اونٹوں کے چرواہوں نے اپنے دو ر کے تقاضوں کے مطابق قرآن کریم کی جگہ کسی دوسری کتاب یا کم از کم قرآن ہی کے اندر ردوبدل کا مطالبہ کیا تھا ۔ اس مطالبہ کرنے والوں پر جاہلیت کی چھاپ لگ گئی اور اس دور کا علم وحکمت کا اما م ابو الحکم جہالت وتاریک خیالی کا امام ابوجہل کہلایا ۔ آج اگر حدود وقصاص اور سود وحجاب کے قوانین کو جدید تقاضوں اور روشن خیالی سے ہم آہنگ کرنے کیلئے اسٹینڈنگ کمیٹیوں یا مشاورتی کاؤنسلوں کے حوالہ کیا جائے تو یہ بھی اتاریک خیالی ہے ا ور اس حرکت کے مرتکب  ا بوجہل ہی کہلائیں گے ۔
قرآن کریم نور ہی نور ہے اسکی تعلیمات کی ضیاء پاشیوں سے ایک عالم منور ہواہے ۔ اربوں انسانوں نے اس سے روشنی حاصل کی ہے ۔ 
جو لوگ قرآن کریم کو روشن خیالی کے بہانہ سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں انکا خواب کبھی شرمندہٗ تعبیر نہیں ہوسکے گا ۔انکی سوچ ’’غلامانہ سوچ ‘‘ ہے ۔ انہیں اپنے دل ودماغ کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنا ہوگا اور اپنے افکار پر مسلط مغربی پہریداروں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا ۔کیونکہ قرآن کریم میں کمی یا تبدیلی کرنے کے دعوے داروں کو شاعر مشرق نے غلا مانہ ذہنیت کا حامل قرار دیا ہے :                              
 ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب 
کہ سکھاتی نہیں مؤمن کو غلامی کے طریق 

تحریر: مفتی عتیق الرحمن فا ضل مدینہ یونیورسٹی 

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی