فروری 2011
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴تیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پہلے معرکے کے بعد شام کے دھندلکے میں ہندو اپنی لاشیں اور زخمی اٹھانے آئے تھے لیکن مسلمان تیر اندازوں نے انہیں تیروں کا نشانہ بنا ڈالا تھا، اس کے بعد انھوں نے ایسی جرات نہیں کی تھی ،پہلے دنوں کی لاشیں گلنے سڑنے لگیں تھیں اور تعفن اتنا بڑھ گیا تھا کہ دور دور تک کھڑا نہیں رہا جاسکتا تھا، رات کو اس علاقے کے بھیڑئے لومڑی اور گیدڑ وغیرہ کچھ لاشوں کو کھا جاتے تھے۔
ذوالحجہ 944 ہجری کے ایک روز مسلمانوں کے لئے کمک اور رسد متوقع تھی لیکن یہ قافلہ نہ پہنچا، دو دن مزید انتظار کیا گیا لیکن بے سود ،لیکن ایک رات ان دستوں میں سے ایک پر شب خون مارا گیا جو محاصرے کے ہوئے تھے، ان سے مجاہدین کو کچھ نقصان پہنچا محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ شب خون مارنے والے قلعے میں سے نہیں نکلے تھے بلکہ باہر سے آئے تھے یہ پتہ نہ چل سکا کہ وہ کون تھے ۔
 اس سے اگلی رات پھر ایسا ہی شب خون پڑا اور اپنے ایک اور دستے کا کچھ نقصان ہو گیا،
 مسلمانوں کی فوج کا جانی نقصان پہلے ہی خاصا ہوچکا تھا اب ان شبخونوں نے کچھ نقصان کیا ،ادھر سے رسد اور کمک بھی نہیں آ رہی تھی ،محمد بن قاسم کے حکم سے دو آدمیوں کو دہلیلہ اور بہرور بھیجا گیا کہ وہ معلوم کر کے آئیں گے کمک اور رسد کیوں نہیں آئی، یہ دونوں قلعے دور نہیں تھے ایک ہی دن میں جا کر واپس آیا جا سکتا تھا، لیکن تین دن تک دونوں واپس نہ آئے۔
 دو اور آدمی بھیجے گئے شام سے ذرا پہلے ایک آدمی اس حالت میں واپس آیا کہ اس کے کپڑے خون سے لال تھے اور وہ گھوڑے کی پیٹھ پر جھکا ہوا بیٹھا تھا، اس نے بتایا کہ دہلیلہ سے ابھی وہ دور ہی تھے کہ چار آدمیوں نے ان پر حملہ کر دیا اس کا ایک ساتھی مارا گیا اور یہ زخمی حالت میں واپس آ سکا ،اس سے کچھ شک ہوا، شک یہی ہو سکتا تھا کہ رسد کو بھی راستے میں روکا جا رہا ہے۔
 محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے کہا کہ جو دستے محاصرے میں لگے ہوئے ہیں وہ رات کو تیار رہیں اور شب خون مارنے والوں میں سے کسی ایک دو کو پکڑنے کی کوشش کریں۔
 شب خون ہر رات کا معمول بن گیا تھا آخر ایک روز شب خون مارنے والوں میں سے دو کو گرا لیا گیا، انہیں محمد بن قاسم کے پاس لائے، وہ کچھ بتاتے نہیں تھے، محمد بن قاسم نے حکم دیا کے دونوں کو ایک گھوڑے کے پیچھے باندھ کر گھوڑا دوڑا دو، وہ جانتے تھے کہ وہ کتنی بری موت مریں گے انہوں نے راز کی بات اگل دی ،انہوں نے بتایا کہ یہ جے سینا کی فوج ہے جو وہ ایک مقام بھاٹیہ سے تیار کر کے لایا ہے، اس علاقے کا حاکم رمل تھا جو رومل بادشاہ کے نام سے مشہور تھا، ان آدمیوں نے بتایا کہ جے سینا فوج کو برہمن آباد لا رہا تھا لیکن اسے پتا چلا کہ برہمن آباد تو محاصرے میں ہے تو اس نے برہمن آباد سے دور ہی پڑاؤ کر لیا ،اور وہاں سے وہ اپنے دستے شب خون مارنے کے لیے بھیج رہا تھا۔
 ان قیدیوں نے یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں کے لئے برہمن آباد کی طرف جو کمک اور رسد آئی تھی وہ جے سینا کے دستے راستہ روک کر لوٹ لیتے تھے، پہلے جو دو آدمی بھیجے گئے تھے انہی جے سینا کے آدمیوں نے پکڑ کر مار ڈالا تھا ،جے سینا نے اپنے آدمی اس طرح پھیلا دئیے تھے کہ بہرور اور دہلیلہ کی طرف سے کوئی مسلمان برہمن آباد کی طرف جارہا ہوتا تو اسے قتل کر دیتے تھے۔
 محمد بن قاسم نے سالاروں کو بلا کر اس صورتحال سے آگاہ کیا اور انہیں کہا کہ ہر سالار اپنے اپنے دستوں میں سے چن کر کچھ آدمی دے تاکہ جے سینا کا تعاقب کیا جائے۔ سالاروں نے فوراً چن کر آدمی نکالے، محمد بن قاسم نے ان کا الگ دستہ بنا دیا ،کسی بھی تاریخ میں اس دستے کی نفری نہیں لکھی گئی کہ کتنی تھی ،یہ واضح ہے کہ اس دستے کے ساتھ اس نے موکو، نباۃ بن حنظلہ کلابی، عطیہ تغلبی، صارم بن صارم ہمدانی، اور عبد الملک مدنی کو عہدے دار مقرر کیا، اس دستے کی کمان دو آدمیوں کو دی گئی ایک موکو تھا اور دوسرا خریم بن عمر المدنی، موکو ابھی تک ہندو ہی تھا ،لیکن وہ اپنی وفاداری ثابت کرچکا تھا ،اور اس میں دوسری خوبی یہ تھی کہ مقامی آدمی ہونے کی وجہ سے وہ ان علاقوں سے واقف تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
 اس دوران ایک شب خون اور پڑا اس میں سے بھی تین آدمیوں کو پکڑ لیا گیا، انہوں نے بتایا کہ جے سینا کس جگہ اپنا اڈا بنا رکھا ہے، اسی روز یہ دستہ جو خاص طور پر اس مہم کے لیے تیار کیا گیا تھا موکو اور خریم بن عمر المدنی کی قیادت میں اس علاقے کی طرف چل پڑا ،تینوں قیدیوں کو بھی ساتھ لے لیا گیا تھا کہ ان کی اطلاع غلط ہوئی تو انہیں قتل کر دیا جائے، انہیں رہنما بنانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ موکو ساتھ تھا اور وہ ان تمام علاقوں سے واقف تھا۔
 یہ دستہ سورج غروب ہوتے ہی چل پڑا ،برہمن آباد سے کئی میل دور پہنچے تو اچانک دو گھوڑے جو کہیں رکے کھڑے تھے سرپٹ دوڑ پڑے ان کے پیچھے چار سواروں کو دوڑا دیا لیکن یہ ان دونوں سواروں تک نہ پہنچ سکے، ان چاروں کو کہا گیا تھا کہ تعاقب میں بہت دور نہ جائیں اور انہیں یہ شک پیدا ہو گیا تھا کہ یہ سوار جے سینا کے ہی ہونگے چاروں مسلمان سوار واپس آ گئے۔
 اس خصوصی دستے کی پیشقدمی کی رفتار تیز کردی گئی، جے سینا کے اڈے کا علاقہ ابھی خاصا دور تھا صبح تک پہنچ جانے کی توقع تھی، اس دستے کے گھوڑوں کی رفتار تیز تو تھی لیکن گھوڑے سرپٹ نہیں دوڑ رہے تھے، نہ ہی اتنی دور تک انہیں دوڑایا جاسکتا تھا۔
 رات بھر چلتے رہے اور صبح وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں ہر طرف ایسے نشان تھے جیسے یہاں کسی فوج کا پڑاؤ رہا ہو خیمیں لگا کر اکھاڑے گئے تھے، گھوڑے اپنے نشان چھوڑ گئے تھے، اس سمت کو معلوم کرنا مشکل نہ تھا جس سمت یہ گھوڑے گئے تھے، مسلمان دستہ کچھ دور تک گیا راستے میں کچھ آدمی ملے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایک فوج آدھی رات کے کچھ بعد یہاں سے گزری ہے، ان مقامی آدمیوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ راجہ داہر کے بیٹے جے سینا کی فوج تھی، وقت اور فاصلے سے حساب لگایا گیا تو تعاقب بیکار نظر آیا۔
 اس مسلمان دستے کے عہدے داروں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور اس فیصلے پر پہنچے کہ وہاں سے بہرور اور دہلیلہ کی طرف کوچ کیا جائے تاکہ اس علاقے میں جے سینا کا کوئی آدمی نہ رہے، ایک جگہ سواروں اور گھوڑوں کو آرام دینے اور کچھ کھانے پینے کے لیے کچھ دیر کے لیے پڑاؤ کیا گیا پھر یہ دستہ چل پڑا۔
 یہ محض اتفاق تھا کہ دو شترسوار دکھائی دئیے، مسلمانوں کے دستے کو دیکھ کر وہ راستہ بدل لیے ان کے پیچھے پانچ چھے سواروں کو دوڑایا گیا ،اگر وہ مشکوک آدمی نہ ہوتے تو راستہ نہ بدلتے انہوں نے اپنے خلاف یوں شک پکا کر دیا کہ اونٹوں کو تیز دوڑا دیے، گھوڑے ان تک پہنچ گئے اور ان دونوں کو پکڑ لائے، پہلے تو ان دونوں نے خوفزدگی اور سادگی کا اظہار کیا لیکن ان کے پہلوؤں کے ساتھ مسلمانوں کی برچھیوں کی انیاں رکھی گئیں تو انہوں نے بتادیا کہ وہ جے سینا کے سپاہی ہیں، ان سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ جے سینا چترور کے علاقے میں چلا گیا ہے اور اس نے برہمن آباد کے اردگرد اور برہمن آباد اور بہرور کے درمیانی علاقے میں جو فوجی پھیلا رکھے تھے انہیں پیغام بھیج دیے تھے کہ وہ اس علاقے کو چھوڑ دیں اور اگر وہ اس کے ساتھ رہنا چاہیں تو چترور آ جائیں یا اپنے گھروں کو چلے جائیں ۔
 دو تین دن محمد بن قاسم کا ترتیب دیا ہوا دستہ اس سارے علاقے میں گھوم پھر کر واپس آیا اور اس کے فورا بعد کمک اور رسد بھی پہنچ گئی۔
 برہمن آباد کے محاصرے کو چھ مہینے گزر چکے تھے ڈیڑھ دو مہینوں سے اندر کی فوج نے باہر آکر حملے کرنے چھوڑ دیے تھے، محمد بن قاسم نے اپنی پوری فوج کو خیمے سے نکال کر قلعے کو پوری طرح محاصرے میں لے لیا تھا اور اس نے دیوار میں نقب یا سرنگ لگانے کا ارادہ کرلیا تھا، اس سے پہلے قلعے کے اندر سنگ باری اور آتش بازی ضروری تھی لیکن محمد بن قاسم شہری آبادی کو کوئی بھی نقصان پہنچانے سے گریز کر رہا تھا۔
 ایک روز محمد بن قاسم نے سندھی زبان میں تین چار چھوٹے چھوٹے پیغام لکھوائے، انہیں تیروں کے ساتھ باندھا، رات کے وقت دیوار کے قریب جاکر یہ تیر اس طرح چھوڑے گئے کہ شہری آبادی میں گرے، یہ تو معلوم ہی تھا کہ شہری آبادی کس طرف ہے ،یہ پیغام کی ایک ہی تحریر تھی، جو کچھ اس طرح تھی کہ غیر فوجی لوگ اپنی فوج کو مجبور کریں کہ قلعے کے دروازے کھول دیں ورنہ ہم شہر پر پتھر اور آگ برسائیں گے، اگر شہری ہمارے ساتھ تعاون کریں تو قلعہ فتح ہونے کی صورت میں کسی شہری کو پریشان نہیں کیا جائے گا ان کی عزت جان اور مال کی پوری حفاظت کی جائے گی۔
 تین چار دن گزرے تو دو آدمی مسلمانوں کے لشکر میں آئے، انہوں نے بتایا کہ وہ رات کو قلعے کے اندر سے نکلے تھے، بند قلعے میں سے کسی کا باہر آنا یا اندر جانا ممکن نہیں ہوتا تھا ،لیکن ان دونوں نے بتایا کہ شہر کے پانچ ،سات صاحب حیثیت ہندو جن میں مندر کا بڑا پنڈت بھی شامل تھا ایک دروازے کے پہرے پر کھڑے فوجیوں کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ وہ مسلمانوں تک پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ قلعہ لے لو لیکن ہماری جان بخشی کی ضمانت دو ،ان چھے مہینوں کے محاصرے میں شہر کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ لوگوں نے ایک وقت کھانا شروع کردیا تھا اور پانی کی بھی قلت پیدا ہوگئی تھی ،تجارت پیشہ لوگوں کو تو بہت ہی نقصان ہو رہا تھا ،فوج بھی تنگ آ چکی تھی، ان دو آدمیوں کے بیان کے مطابق آدھی فوج جو باہر آکر لڑتی رہی تھی ماری جا چکی ہے، مسلمانوں کے پھینکے ہوئے پیغامات جو تیرا کے ذریعے اندر پہنچائے گئے تھے شہریوں کے ہاتھ لگ گئے تھے، ان سے انہیں یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ مسلمان انہیں پورے حقوق دیں گے۔
 شہر کے جو معزز افراد فوجیوں سے ملے تھے انھیں فوجیوں نے بتایا کہ وہ خود ہتھیار ڈالنا مناسب نہیں سمجھتے، انھوں نے اس وفد کو رازداری سے یہ طریقہ بتایا کہ وہ ایک دو دنوں میں جربطری دروازے سے باہر نکلیں گے اور مسلمان پر حملہ کریں گے، ہم بھاگ کر اندر آ جائیں گے اور یہ دروازہ کھلا چھوڑ دیں گے۔
 محمد بن قاسم نے شہریوں کے ان نمائندوں کو یقین دلایا کہ ان کی شرائط پوری کی جائیں گی، وہ دونوں رات کے اندھیرے میں گئے اور فوجیوں نے ان کے لئے دروازہ کھول دیا، دو تین دنوں بعد جربطری دروازہ کھلا محمد بن قاسم اسی کا منتظر تھا اندر سے کچھ نفری نکلی، مسلمانوں کا ایک دستہ تیار تھا محمد بن قاسم کے اشارے پر اس دستے نے ہندو فوجیوں پر حملہ کیا وہ بھاگ کر اندر چلے گئے اور دروازہ کھلا رہنے دیا ،محمد بن قاسم کا یہ دستہ قلعے میں داخل ہو گیا اور اس کے پیچھے مجاہدین کا تمام تر لشکر اس دروازے میں داخل ہو گیا، قلعے میں جو فوج تھی وہ دوسرے دروازے سے نکل بھاگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
برہمن آباد محمد بن قاسم کی فتوحات کا ایک اور سنگ میل تھا، مجاہدین نے قلعے پر اسلامی پرچم چڑھاکر برہمن آباد کو اسلام کا ایک اور روشنی کا مینار بنا دیا۔
برہمن آباد کا قلعہ جو ایک قلعہ بند شہر تھا تکبیر اور رسالت کے نعروں سے لرز رہا تھا، شہر میں بھگدڑ بپا ہوگئی تھی، شہر کے لوگ اس ڈر سے بھاگنے اور چھپنے کی کوشش کر رہے تھے کہ فاتح فوج ان کے گھروں پر ٹوٹ پڑے گی اور کچھ بھی نہیں چھوڑے گی، لوگ اپنی جوان لڑکیوں اور بچوں کو چھپاتے پھر رہے تھے ،بعض نے اپنی لڑکیوں کو مردانہ لباس پہنا دیے تھے، بہت سے لوگ بڑے مندر میں جا چھپے تھے۔
اے لوگو !،،،،،مندر میں پناہ لینے والے ہجوم سے بڑے پنڈت نے کہا۔۔۔ مت ڈرو،،، مت بھاگو ،،،ہم نے تمہارے لئے امن و امان کی ضمانت لے لی ہے، مسلمانوں کے لیے شہر کے دروازے ہم نے خود کھلوائے ہیں، تم پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھائے گا، جاؤ گھروں کے دروازے کھلے رکھو، تمہاری دہلیزوں پر کسی مسلمان فوجی کا قدم نہیں پڑے گا۔
ادھر شہر میں محمد بن قاسم کا یہ حکم بلند آواز سے مجاہدین تک پہنچایا جا رہا تھا کہ سوائے ان افراد کے جو ابھی تک لڑنے پر آمادہ ہوں، کسی شہری، فوجی، مرد، عورت اور بچے پہ ہاتھ نہ اٹھایا جائے، کسی کے گھر میں جھانکنے سے گریز کیا جائے۔
 یہ اعلان عربی اور سندھی زبانوں میں دہرائے جارہے تھے، سندھی زبان میں اس لئے کے موکو اپنی فوج کے ساتھ محمد بن قاسم کے ساتھ تھا ،اور محمد بن قاسم کی فوج میں نومسلم سندھی بھی تھے جو ابھی عربی زبان نہیں سمجھتے تھے۔
محمد بن قاسم نے دوسرا حکم یہ دیا کہ کسی فوجی کو نہ بھاگنے دیا جائے، اس نے اپنے سالاروں سے کہا تھا کہ ایک جگہ سے بھاگی ہوئی فوج دوسری جگہ جاکر وہاں کی فوج کے ساتھ جا ملتی ہے۔
 ابن قاسم !،،،،شعبان ثقفی نے مسکرا کر کہا۔۔۔ میں نے کچھ اور دیکھا ہے اور جو میں دیکھتا ہوں وہ کوئی اور نہیں دے سکتا، ایک جگہ سے بھاگی ہوئی فوج دوسری جگہ کی فوج کو اتنا ڈراتی ہے کہ اس کا لڑنے کا جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے ،بھاگنے والوں کو بھاگ جانے دیں اور جنہیں بھاگنے سے روکنا ہے وہ میری نظروں میں ہیں بلکہ میرے جال میں ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایسی ہی بھگدڑ اور افراتفری اس محل میں بھی بپا ہو گئی تھی جس میں راجہ داہر آ کر ٹھہرا کرتا تھا، اس کے بیٹے یہاں ٹھہرتے تھے اور کبھی کبھی اس کی کوئی رانی کچھ دنوں کے لئے یہاں آیا کرتی تھی، محل میں اطلاع پہنچی کے عرب کی فوج قلعے میں داخل ہو گئی ہے تو کسی نے یقین نہ کیا۔
ہو نہیں سکتا ۔۔۔داہر کے ایک وزیر نے غصے سے کہا ۔۔۔چھے چاند ڈوب چکے ہیں مسلمانوں کو شہر کی دیوار کے قریب آنے کی جرات نہیں ہوئی، تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں۔
یہ راجہ داہر کا وہی وزیر تھا جس کا نام سیاکرتھا ،اور جو برہمن آباد کے محاصرے سے قبل محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کرچکا تھا ،محمد بن قاسم نے پہلے تو اسے اپنے ساتھ رکھا پھر سیاکر کی درخواست پر اسے برہمن آباد بھیجوادیا ،وہ برہمن آباد کی فتح کے بعد علی الاعلان اطاعت قبول کرنا چاہتا تھا۔
مہاراج !،،،،،ایک اور آدمی نے آ کر اطلاع دی۔۔۔ مسلمان قلعے میں آگئے ہیں، رانی کو یہاں سے نکال دیں۔
رانی سو رہی ہے ،،،،سیاکرنے کہا۔۔۔ جب تک میں مسلمانوں کو نہ دیکھ لوں رانی کو نہ جگانا۔
 یہ راجہ داہر کی رانی لاڈلی تھی، مورخوں نے اس کا نام صرف لاڈی لکھا ہے، اور یہ بھی لکھا ہے کہ لاڈی جو ابھی جوانی کی عمر میں بھی تھی راجہ داہر کی چہیتی رانی تھی، وہ راجہ کے امور اور مسائل میں عملی طور پر دلچسپی لیتی تھی، اس کی زیادہ تر دلچسپی فوج کے ساتھ تھی ،سندھ کی فوج کو ہرقلعے اور ہر میدان میں شکست ہوئی اور یہاں کے قلعہ بند شہر اور قصبے پکے ہوئے پھل کی طرح ایک ایک کر کر محمد بن قاسم کی جھولی میں گرگئے، تو رانی لاڈلی ایک روز راجہ داہر کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی۔
کیوں لاڈی !،،،،،راجہ داہر نے اسے پوچھا تھا۔۔۔ آج تمہارے چہرے پر ہلکے ہلکے بادلوں کے سائے سے کیوں نظر آ رہے ہیں ۔
میرے چہرے پر نہیں مہاراج!،،،، لاڈی نے جواب دیا تھا ۔۔۔سارے سندھ پر بڑے گہرے بادلوں کے سائے پھیلتے جارہے ہیں، یہ عرب سے اٹھی ہوئی سیاہ گھٹائیں ہیں جن کے سائے مہران کی لہروں سے ادھر آ گئے ہیں، اور مہاراج کی غیرت کو للکار رہے ہیں۔
کیا ہم مر گئے ہیں رانی!،،،، راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ہم نے انہیں خود ادھر آنے دیا ہے،،،، راجہ داہر نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
مہاراج !،،،،،رانی لاڈی نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔۔۔ آج سے نہ میں آپ کی رانی ہوں نہ آپ میرے راجہ ہیں، اگر آپ کے دل میں میرا پیار ہے تو یہ پیار سندھ کی دھرتی کو دے دیں، اگر آپ کو اس دھرتی کی بجائے میرے ساتھ پیار ہے تو محمد بن قاسم کا سر لے آئیں یا اپنا سر کٹوا دیں، میں اب محمد بن قاسم کا یا آپ کا کٹا ہوا سر دیکھنا چاہتی ہوں، مسلمانوں کے قدم راوڑ سے آگے نہ بڑھیں، ان عربوں نے مہران کے پانی کو ناپاک کر دیا ہے،،،،،، آپ کا ہاتھ صرف اس روز میرے جسم کو چھو سکے گا جس روز محمد بن قاسم کا سر میرے سامنے زمین پر پڑا ہو گا، اور اس کی فوج جھاڑو کے بکھرے ہوئے تنکوں کی طرح مہران میں سمندر کی طرف بہی جا رہی ہو گی۔
داہر کوئی بزدل راجہ نہیں تھا کہ اسے بھڑکانے اور مشتعل کرنے کی ضرورت پڑتی، وہ اپنی رانی کے جذبے کو سمجھتا تھا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
ایسے ہی ہو گا اس نے کہا،،،، ایسے ہی ہوگا،،، ہمارے جسم پر پہلا حق سندھ کا ہے تمہارا نہیں، تم ٹھیک کہتی ہو میں تمہارے پاس محمد بن قاسم کا سر لے آؤنگا، یا ہماری لاش آئے گی، جس کے ساتھ سر نہیں ہوگا۔
پھر ایسے ہی ہوا رانی لاڈلی نے بڑے جوش اور جذبے اور بڑے پیار سے داہر کو میدان جنگ کی طرف رخصت کیا تھا، داہر کے ہاتھی کی سونڈ کو اسنے چوما تھا ،وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اپنے مہاراج اور مہاراج کے دیوہیکل ہاتھی کو جو سفید ہاتھی کے نام سے مشہور تھا آخری بار زندہ دیکھ رہی ہے، لاڈی کو محمد بن قاسم کا سر تو نہ ملا اپنے مہاراج کی لاش ملی جس کے ساتھ مہاراج کا سر نہیں تھا ،اس وقت رانی لاڈی برہمن آباد میں تھی۔
راوڑ کے میدان سے بھاگے ہوئے فوجی جن کی تعداد بہت تھوڑی تھی برہمن آباد پہنچ رہے تھے، لاڈی نے ان سب کو اپنے سامنے کھڑا کرایا پھر حکم دیا کہ برہمن آباد کی تمام فوج اس کے سامنے لائی جائے۔
کیا تم زندہ رہنے کے قابل رہ گئے ہو؟،،،، رانی لاڈی نے اپنی فوج سے کہا گھوڑے پر سوار تھی۔۔۔ کیا تم اپنی بیویوں کا سامنا کر سکو گے، تم سے زیادہ ناپاک اور کون ہوگا جن کی دھرتی پر دوسرے ملک سے آئی ہوئی تھوڑی سی فوج دندناتی پھر رہی ہے، تمہارے مہاراجہ نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ محمد بن قاسم کا سر لائیں گے یا اپنا سر کٹوا دیں گے، مجھے اطلاع مل چکی ہے کہ مہاراج کی لاش مل گئی ہے لیکن سر کے بغیر ہے، تمہیں شرم آنی چاہیے کہ تمہارے جسموں کے ساتھ تمہارے سر موجود ہیں،،،،،،، تم گھروں میں بیٹھ جاؤ اب ہم لڑیں گی ،میں عورتوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑاؤنگی، اگر ہم ہار گئے تو مسلمان ہمیں اپنے ساتھ لے جائیں گے، ہم خوش ہونگے کہ ایک بہادر قوم کی لونڈیاں بن گئی ہیں۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ لاڈی کی تقریر اس قدر اشتعال انگیز تھی کہ اس کی فوج نے جوش و خروش سے نعرے لگانے شروع کر دیے، گھوڑے بھی جیسے بے چینی سے کھر مارنے لگے تھے ،لاڈی نے اس فوج میں سے کچھ عہدیدار ،ٹھاکر اور سپاہی چنے، کسی بھی تاریخ میں ان منتخب افراد کی صحیح تعداد نہیں ملتی ایک اشارہ ملتا ہے کہ یہ تعداد کم از کم ڈیڑھ ہزار اور زیادہ سے زیادہ دو ہزار تھی۔ اور یہ اس فوج کی کریم تھی یا جیسے دودھ سے بالائی اتاری گئی ہو، لاڈی نے اس دستے کو اپنی کمان میں لے لیا اور اس کی ٹریننگ شروع کردی۔
ٹریننگ کے دو پہلو تھے ایک جسمانی دوسرا جذباتی ،جسمانی طور پر تو یہ سپاہی وغیرہ تربیت یافتہ ہی تھے، اور انہیں لڑائی کا تجربہ بھی تھا ،لیکن جذباتی لحاظ سے انہیں وہ اس قدر مشتعل کرتی تھی کہ وہ راوڑ جاکر مسلمانوں پر حملہ کر دینے کو بے تاب ہونے لگے تھے ،ان کی تنخواہیں دوسری فوج کی نسبت سہ گنا تھیں، اور انہیں ایسی مراعات دی گئی تھی جو دوسری فوج کو کبھی نہیں دی گئی تھی، پھر اس دستے کے لیے نقد انعام مقرر کیا گیا جو انہیں مسلمانوں کو شکست دینے کے بعد ملنا تھا، نقد انعام کے علاوہ وہ ایک انعام یہ بھی مقرر کیا گیا تھا کہ فتح پر ہر فرد کو ایک ایک جوان لڑکی دی جائے گی۔
محمد بن قاسم نے جب برہمن آباد کو محاصرے میں لیا تھا تو قلعے کے اندر سے فوج کے دو تین دستے باہر آ کر مسلمانوں پر حملے کرتے اور واپس قلعے میں چلے جاتے تھے یہ حملے زیادہ تر لاڈی کا یہ دستہ کرتا تھا ،محاصرے کے آخری دو مہینوں میں رانی لاڈی نے اس دستے کو اپنے پاس رکھ لیا تھا، اسے امید تھی کہ مسلمان محاصرہ اٹھا کر چلے جائیں گے اور اس وقت ان پر یہ دستہ حملہ کرے گا، رانی لاڈی نے اس دستے کو باؤلا اور خونخوار بنا دیا تھا۔
یہ دستہ محل کے قریب ہی کہیں رکھا گیا تھا۔ محمد بن قاسم کی فوج اس طرح شہر میں داخل ہوگئی کہ اس دستے کو خبر ہی نہ ہوئی، لیکن محمد بن قاسم کے جاسوس کے سربراہ شعبان ثقفی کو قلعے میں داخل ہوتے ہی پتہ چل گیا تھا کہ یہاں جانبازوں کا ایک دستہ بھی ہے، برہمن آباد میں شعبان ثقفی کے جاسوس بھی موجود تھے جو سندھ کے باشندے تھے، جب مسلمان قلعے میں داخل ہوئے تو ان جاسوسوں نے شعبان ثقفی کو قلعے کے اندر کی تمام رپورٹ دی تھی ،ان میں چند ایک بڑے قیمتی راز تھے اور اس دستے کے متعلق بھی جاسوسوں نے تفصیلی رپورٹ دی تھی، شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو بتا کر ایک دستہ ساتھ لیا اور اس دستے کو گھیرے میں لے لیا، اتنی محنت سے تیار کیا ہوا جانبازوں کا دستہ لڑنے کے لیے تیار بھی نہیں ہوا تھا کہ پکڑا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس دستے کے پکڑے جانے سے محل والوں کو یقین ہوا کہ محمد بن قاسم اپنی فوج کے ساتھ شہر میں داخل ہو گیا ہے، اس وقت وزیر سیاکر نے رانی لاڈی کو جگایا دن کا وقت تھا اور وہ گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔
رانی !،،،،،سیاکرنے اسے کہا ۔۔۔عرب کی فوج شہر میں آ گئی ہے۔
 تم مسلمانوں سے اتنے خوفزدہ ہو کہ وہ محاصرے سے تھکے ہارے بیٹھے ہیں ،اور تمہیں شہر کے اندر نظر آ رہے ہیں ۔۔۔رانی لاڈی نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔کیا میں تم جیسے دانشمند سے یہ توقع رکھوں؟ 
رانی !،،،،،،سیاکر نے رعب دار لہجے میں کہا۔۔۔ اٹھو اور یہاں سے نکلو، تمہارا حکم مجھ پر چل سکتا ہے مسلمانوں پر نہیں۔
میرے شیر کہاں ہیں؟،،،،، رانی لاڈی بڑی تیزی سے اٹھی اور بولی۔۔۔ انہیں کہو وہ وقت آ گیا ہے جس کے لیے میں نے،،،،، 
تمہارے شیر اب مسلمانوں کے قیدی ہیں۔۔۔سیاکر نے کہا ۔۔۔ کیا تم فرار ہونا چاہتی ہو یا اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کروں گی۔
مجھے یہاں سے نکالو ۔۔۔رانی لاڈی نے کہا۔۔۔ میں مردانہ لباس پہن لیتی ہوں۔
 اس نے اپنی کنیزوں کو بلا کر کہا ۔۔۔مہاراج داہر کے کپڑے اور تلوار نکال لو اور مجھے پہناؤ۔
تھوڑے سے وقت میں وہ راجہ داہر کے لباس میں ملبوس ہو گئی اور باہر کو چل پڑی، لیکن محل کے احاطے سے نکلی بھی نہیں تھی کہ پندرہ سولہ مسلمان سوار محل کے احاطے میں داخل ہوئے، ان کے آگے آگے شعبان ثقفی تھا اس نے لاڈی کو روک لیا۔
میں تمہاری اطاعت قبول کرچکا ہوں۔۔۔ رانی لاڈی نے اپنی آواز میں مردوں جیسا بھاری پن پیدا کرتے ہوئے کہا۔۔۔ میں لڑنے والوں میں سے نہیں۔
اے خاتون !،،،،،شعبان ثقفی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ اگر بھیڑ شیر بن سکتی ہے تو تم یقیناً آدمی ہو، لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ سندھ اور ہند نے ابھی تک ایسا خوبصورت آدمی پیدا نہیں کیا جس کا چہرہ عورتوں جیسا ہو ،اپنے ہاتھ سے پگڑی اتار دو اور بتاؤ تم کون ہو ،اس نے اپنے سواروں سے کہا محل میں جا کر ہر اس مرد اور عورت، آقا اور غلام کو پکڑ لو جو وہاں موجود ہے۔
سواروں کے جانے کے بعد شعبان ثقفی نے گھوڑا لاڈی کے گھوڑے کے قریب کیا اور ہاتھ لمبا کرکے لاڈی کے سر سے پگڑی اتار دی، اس کے لمبے بال اس کے کندھوں اور پیٹھ پر بکھر گئے۔
کیا تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ ہم عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے؟،،،،، شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ تم کوئی معمولی عورت نہیں ہو راجہ داہر کے ساتھ تمہارا کیا رشتہ ہے؟ 
 میں مہاراج داہر کی بیوی ہوں۔۔۔ لارڈی نے کہا ۔۔۔رانی لاڈی۔
وہ دستہ کہاں ہے جسے تم نے ہمارے مقابلے کے لیے تیار کیا تھا ؟،،،،،شعبان ثقفی نے پوچھا ۔
میں نے سنا ہے کہ اسے تمہارے مقابلے میں آنے کی مہلت ہی نہیں ملی۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔اگر اسے مہلت مل جاتی تو مجھے مردانہ بہروپ نہ دھارنا پڑتا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کچھ دیر بعد رانی لاڈی محمد بن قاسم کے سامنے کھڑی تھی۔
اسے محل میں لے جاؤ۔۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اسے اپنے کپڑے پہننے دو اور اسے عزت اور احترام سے وہیں رکھو۔
اسے اس کے محل میں پہنچا دیا گیا اور راجہ داہر کے وزیر سیاکر کو محمد بن قاسم کے سامنے لے جایا گیا اور اسے بتایا گیا کہ سیاکر راجہ داہر کا منظور نظر ہے اور دانشمند وزیر ہے، محمد بن قاسم نے اسے پہچان لیا کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی مل چکا تھا۔
میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہمارے شہر کے لوگوں کے ساتھ آپ کی فوج کیا سلوک کر رہی ہے؟،،،،،، سیاکرنے محمد بن قاسم سے پوچھا ۔
وہی سلوک جو تمہارے ساتھ ہو رہا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔کسی کو جنگی قیدی یا غلام نہیں بنایا جائے گا، تمہاری یہ حیثیت برقرار رہے گی، تمہاری رانی کو میں نے اس کے محل میں بھیج دیا ہے ۔
تیسرے یا چوتھے دن محمد بن قاسم کو اطلاع ملی کہ کم و بیش ایک ہزار آدمی جن کے سر بھی منڈے ہو ئے ہیں آبرو اور مونچھیں بھی استرے سے صاف کی ہوئی ہیں ،ملنے آئے ہیں۔
محمد بن قاسم باہر نکلا ان ایک ہزار آدمیوں کو دیکھا وہ ہجوم کی صورت میں نہیں بلکہ ایک ترتیب میں کھڑے تھے، اور سب کا حلیہ اور لباس ایک جیسا تھا ۔
یہ کون لوگ ہیں ؟،،،،،،محمد بن قاسم نے سندھی ترجمان سے کہا۔۔۔ ان سے پوچھو یہ یہاں کی فوج کے کوئی خاص دستے معلوم ہوتے ہیں۔
 ترجمان نے ان سے پوچھا۔
ہمارا تعلق کسی فوج کے ساتھ نہیں۔۔۔ ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر کہا ۔۔۔ہم برہمن ہیں، ہمارے بہت سے ساتھیوں نے خودکشی کرلی ہے ،ہم آپ کو ان کی لاشیں دکھا سکتے ہیں۔
 تم لوگوں نے خودکشی کیوں کی؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔۔۔۔کیا تمہارا مذہب خودکشی کی اجازت دیتا ہے۔
نہیں!،،،،، ان برہمنوں کے نمائندے نے کہا۔۔۔ جنہوں نے خود کشی کی ہے انہوں نے راجہ کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کیا ہے، لیکن ہم اس کے وفادار ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں اونچی ذات دی، اور ہم ان لوگوں کے وفادار ہیں جو ہمیں اونچی ذات کا سمجھ کر ہمیں بڑا اونچا درجہ دیتے ہیں۔
کیا تم لوگ مجھ سے اپنا اونچا درجہ تسلیم کروانے آئے ہو؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔ 
ہم یہ پوچھنے آئے ہیں کہ ہمارے متعلق یعنی برہمن ذات کے متعلق آپ کا فیصلہ کیا ہوگا؟۔۔۔ ان کے نمائندے نے پوچھا۔
اگر تم لڑنے والوں میں سے نہیں اور لڑنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے تو ہم تمہیں امن و امان میں رکھیں گے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ لیکن ہم تمھیں دوسرے انسانوں سے برتر تسلیم نہیں کریں گے ،ہمارا مذہب امیر کو غریب پر کبیر کو صغیر پر بالادستی کی اجازت نہیں دیتا ،میں اس فوج کا سپہ سالار ہو اور تمہارے ملک کا امیر مقرر کیا گیا ہوں، لیکن میں اپنے اللہ کا ویسا ہی سپاہی ہوں جیسے میری فوج کا ایک ادنیٰ سپاہی ہے، مجھے امامت کے فرائض بھی سونپے گئے ہیں یہ فرائض ایسے ہی ہیں جیسے تمہارے سب سے بڑے پنڈت یا پروہت کے ہوتے ہیں، لیکن اللہ کی نگاہ میں میرا درجہ اور میرا ثواب اتنا ہی ہے جتنا میرے پیچھے نماز پڑھنے والوں کا ہے، مجھے کسی بھی مقتدی پر ذرا سی بھی برتری حاصل نہیں،،،،،، ہم تمہیں یہاں کے لوگوں کے برابر رکھیں گے اور انہیں جیسے حقوق دیں گے، اور اگر تم کسی اور طریقے سے لوگوں پر اپنی برتری جتاؤگے تو یہ ایسا جرم ہوگا جسے ہمارے دین کا ضابطہ معاف نہیں کرے گا۔
ہم آپ کے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔۔۔ برہمنوں کے نمائندے نے کہا۔۔۔ اے سالارِ اسلام!،،، ہمیں یہ بتا دیں کہ ہمیں اپنے مندر میں عبادت کی آزادی حاصل ہوگی یا نہیں ،یا آپ تلوار کی نوک پر ہمیں اپنا مذہب قبول کرنے پر آمادہ کریں گے۔
میں یہ حکم جاری کرچکا ہوں کہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو نقصان نہ پہنچایا جائے، نہ کسی طریقے سے بے حرمتی کی جائے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ ہم کسی غیر مسلم کو قبول اسلام پر مجبور نہیں کریں گے، میں تمہیں یہ ضرور کہوں گا کہ ہمارے مذہب کی تعلیمات کو غور سے دیکھنا اور یہ بھی دیکھنا کہ ہم لوگ ان تعلیمات کے مطابق عمل کرتے ہیں یا نہیں۔
ہمارا راجہ مارا گیا ہے ۔۔۔برہمنوں کے نمائندے نے کہا۔۔۔ ہم اس کے وفادار تھے، اس کے ماتم میں ہم نے اپنے سر منڈوادیئے ہیں، یہ ہمارے یہاں کا رواج ہے کہ باپ مر جاتا ہے تو سب سے بڑا بیٹا استرے سے سر منڈوا دیتا ہے، اب آپ ہمارے راجہ ہیں ہم آپ کے ساتھ ویسے ہی وفادار رہیں گے جیسے اپنے راجہ کے ساتھ تھے۔
مورخوں نے محمد بن قاسم اور ان پنڈتوں کی اس گفتگو کے بعد لکھا ہے کہ محمد بن قاسم راجہ داہر کے خاندان کے افراد کے متعلق صحیح معلومات لینا چاہتا تھا ،اس نے ان برہمنوں سے کہا کہ وہ اس کے وفادار ہیں تو یہ بتائیں کہ راجہ داہر کے خاندان کے وہ افراد کہاں کہاں ہیں جو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے تیار ہیں۔
یہاں صرف رانی لاڈی ہے۔۔۔ بڑے برہمن نے کہا ۔۔۔اسے آپ اپنے پاس لے آئے ہیں ،اس نے فوج میں سے بہت سے آدمیوں کو نکال کر اپنے ساتھ رکھ لیا تھا ،یہ بڑے وحشی اور خونخوار سپاہی تھے، آپ نے انھیں بھی پکڑ لیا ہے، رانی لاڈی آپ کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتی تھی ،اسے آپ زہر سے بھری ہوئی ایک ناگن سمجھیں، آپ نے اس کا زہر مار ڈالا ہے۔
ہم اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے ایک اور بات آپ کو بتا دیتے ہیں ۔۔۔ایک اور برہمن نے کہا۔۔۔ رانی لاڈی جوان عورت ہے، آپ نے اس کا حسن دیکھ لیا ہے ، کی آواز میں میوسیقی کا ترنم ہے، اس کے جسم میں طلسماتی سی کشش ہے، اور آپ نوجوان ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ طلسم آپ کی جوانی کو اندھا کر دے۔ محمد بن قاسم نے کچھ بھی نہ کہا اس کے چہرے پر جو تاثر پہلے تھا وہی رہا۔
دوسری عورت جو آپ کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی تھی وہ مائیں رانی ہے۔۔۔ برہمنوں کے نمائندے نے کہا۔۔۔ آپ کو شاید معلوم ہوگا کہ مہاراج داہر کے ساتھ اس عورت کے دو رشتے تھے، وہ مہاراج کی سگی بہن تھی اور اس کی بیوی بھی تھی، ہم پہلے ہی ڈرتے تھے کہ ہم پر بھگوان کا قہر ٹوٹے گا، یہ کلجگ کی نشانی ہے کہ بھائی نے اپنی بہن کو بیوی بنا لیا ۔
مائیں رانی کہاں ہے؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
ہم کوئی پکی بات نہیں بتا سکیں گے۔۔۔ برہمن نے کہا۔۔۔ سنا ہے اس نے اپنے آپ کو ستی کر لیا ہے ۔
کہاں ؟
یہیں !،،،،،برہمن نے جواب دیا ۔۔۔اسی شہر میں آپ کو وہ جگہ تلاش کرنی پڑے گی، ہم نے سنا ہے کہ مائیں رانی نے ایک غیر آباد مقام پر لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ لگائیں اور خاموشی سے ان لکڑیوں پر بیٹھ گئی ۔
محمد بن قاسم نے ان برہمنوں کو رخصت کر دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ان کے جانے کے بعد محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کو بلایا اور اسے مائیں ایرانی کے متعلق برہمنوں کی بات سنا کر کہا کہ دیکھا جائے کہ برہمنوں کی یہ بات کہاں تک صحیح ہے۔
برہمن وہاں سے چل پڑے تھے ،وہ خوش تھے کہ ایک تو ان کی جان بخشی ہوئی اور دوسرے یہ کہ انہیں مذہبی آزادی مل گئی ہے۔
 شعبان ثقفی نے انہیں روک لیا اور ان سے پوچھا کہ انہوں نے کس سے سنا ہے کہ مائیں رانی نے خودسوزی کی ہے ۔
برہمنوں نے اسے بتایا ،اور اس غیر آباد مکان کی نشاندہی بھی کی جس میں مائیں رانی نے اپنے آپ کو نذر آتش کیا تھا۔
شعبان ثقفی اپنے دو تین آدمیوں کے ساتھ اس طرف چلا گیا، ویران مکان کے علاقے میں جو آباد مکان تھے ان کے مکینوں سے پوچھا تو اسے تین آدمیوں سے پتہ چلا کہ انہوں نے ایک رات مندر کے تین پنڈتوں کو فلاں طرف جاتے دیکھا تھا ،ان میں سے ایک نے بتایا کہ بہت دیر بعد اس نے تین پنڈتوں میں سے صرف دو کو واپس جاتے دیکھا تھا، شعبان ثقفی نے اس آدمی کو ساتھ لیا اور یہ آدمی اسے ایک مکان تک لے گیا جو آبادی سے الگ تھلگ تھا، اس کے اردگرد گھنے درخت تھے اور ایک طرف بلند ٹیلہ تھا ،اس کے دو دروازے تھے دونوں بند تھے ،دونوں کے کواڑوں کو ڈھکیلا تو یہ اندر سے بند تھے، دستک دی تو اندر سے کوئی جواب نہ ملا۔
تم اندر والوں کو پکارو!،،،،،، شعبان ثقفی نے اس آدمی سے کہا۔۔۔ جو اسے مکان دکھانے آیا تھا ۔۔۔انہیں کہو کہ تم پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھائے گا اور کسی قسم کی سختی نہیں کی جائے گی۔
 یہاں کوئی نہیں رہتا ۔۔۔۔اس آدمی نے کہا۔۔۔ اگر کوئی اندر ہے تو وہ اس مکان کا مکین نہیں ہوسکتا، ہو سکتا ہے کوئی یہاں آکر چھپ گیا ہو آپ دروازہ توڑ دیں۔
شعبان ثقفی نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا تو انہوں نے ایک دروازے کے کواڑ توڑ دیے، پھر شعبان ثقفی اور اس کے آدمی تلوار نکال کر بڑی تیزی سے اندر گئے، مکان بڑا ہی ہیبت ناک تھا ،اس کا صحن نہیں تھا کمرے ہی کمرے تھے، یا تنگ سی راہداریاں تھیں، جلتے ہوئے یا جلے ہوئے گوشت کی اس قدر زیادہ بدبو تھی کہ سب نے منہ اور ناک پر کپڑے رکھ لئے، سب کی آنکھوں میں بھی چبھن ہونے لگی، جیسے دھوئیں سے ہوا کرتی ہے۔ راہداریوں میں اندھیرا بھی تھا سرنگ جیسی ایک راہداری کے اگلے سرے سے دن کی روشنی آرہی تھی، وہاں تک پہنچے تو چھوٹا سا ایک صحن آ گیا، جو اردگرد دیواروں کی وجہ سے چوکور کنواں لگتا تھا۔
وہاں جلی ہوئی لکڑیوں کا انبار تھا ،ان کی راکھ پر تین جلی ہوئی لاشیں پڑی تھیں، جو جل کر کوئلے کی طرح سیاہ ہو گئی تھی، چہرے نہیں پہچانے جاتے تھے لاشیں پھولی ہوئی تھیں چہرے بھی اس طرح کھلے ہوئے تھے کی آنکھیں ، ناک اور ہونٹ غائب ہوگئے تھے۔
کسی کمرے یا رہداری میں دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی، ان کے پیچھے آدمی دوڑتے گئے تو دو آدمی باہر کے دروازے میں پکڑے گئے، وہ اندر سے بھاگ کر جارہے تھے ان کی تلاشی لی گئی تو ان سے پگھلے ہوئے سونے کے کچھ ٹکڑے برآمد ہوئے ،انہوں نے خوف کے مارے بتا دیا کہ وہ مائیں رانی کے ملازم تھے، انہیں معلوم تھا کہ مائیں رانی، ایک پنڈت اور ایک نوکرانی کے ساتھ ستی ہو رہی ہے، یہ دونوں جانتے تھے کی مائیں رانی نے زیورات پہن رکھے تھے، چنانچہ وہ سونا اٹھانے آئے تھے۔
شعبان ثقفی اور محمد بن قاسم کو ایسی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ کون زندہ جل گیا اور اسے کس نے جلایا ،شعبان ثقفی صرف یہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ مائیں رانی زندہ جل گئی ہے ،وہ مندر میں چلا گیا اور اسے پتا چل گیا کہ اس رات کون سے دو پنڈت اس مکان سے واپس آئے تھے، ان دونوں کو شعبان ثقفی نے الگ کر کے پوچھا ان میں سے ایک خاصا بوڑھا تھا۔
وہ مائیں رانی ہی تھی۔۔۔ بوڑھے پنڈت نے کہا۔۔۔ اس نے اپنے آپ کو ایک پنڈت اور اپنی ایک نوکرانی کے ساتھ جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتی تھی زندہ جلا لیا۔
ہم جانتے ہیں کہ ستی تمہاری رسم ہے ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ لیکن رانی لاڈی نے اپنے آپ کو کیوں نہیں جلایا؟ 
مائیں رانی بھی اپنی جان لینے والی عورت نہیں تھی۔۔۔ پنڈت نے جواب دیا۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اس مکان میں اپنی نوکرانی کے ساتھ چھپنے کے لئے آئی تھی، اسے بھاگ نکلنے کا موقع نہیں ملا تھا ،اس نے سوچا تھا کہ جب شہر میں امن و امان ہو جائے گا تو وہ بھیس بدل کر نکل جائے گی اور اروڑ پہنچ کر فوج کو آپ کے مقابلے کے لئے تیار کرے گی، اس نے کہا تھا کہ وہ خود میدان جنگ میں اترے گی اور اپنے بھائی کے خون کا انتقام لے گی، لیکن جس مکان میں اس نے پناہ لی وہ مکان انسانوں کے رہنے کے قابل نہ تھا۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>



⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴اُنتیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دشمن کے ان آدمیوں نے موت کے خوف سے اپنے قلعے کے اندر کی حالات بتا دی ، سنگ باری نے ایک نقصان تو یہ کیا تھا کہ چند ایک مکانوں کی چھتیں بیٹھ گئی تھیں کچھ پتھر فوجی اصطبل پر گرے اور سات آٹھ گھوڑے مارے گئے، لیکن مسلمانوں کو جو فائدہ حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ اس قلعہ بند شہر کی آبادی پر خوف و ہراس طاری ہو گیا اور لوگوں نے رات گھروں سے باہر گزاری، لوگوں کا حوصلہ ٹوٹ چکا تھا۔
ایسے ہی اثرات آگ والے تیروں کے دیکھنے میں آئے، کچھ لوگوں کے گھروں کو آگ لگی اور تمام آبادی چیخنے چلانے لگی زیادہ تر لوگ اس آگ کو پراسرار کہتے تھے، بعض نے یہ کہا تھا کہ مسلمانوں نے کالے جادو سے گھروں کو آگ لگا دی ہے، فوجیوں پر بھی سنگ باری اور آگ کا خوف سوار ہو گیا۔
شعبان ثقفی نے ان سے پوچھا کہ فوج کی رسد اور سامان کہاں رکھا ہے، انہوں نے کچھ فوجی ٹھکانے بتائے اور ہر ایک کا محل وقوع بھی بتایا، دیوار سے ان کا فاصلہ بھی بتایا۔
شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو بتایا کہ آج رات سنگ باری اور نفت اندازی کہاں کی جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہو گیا پھر شام گہری ہو گئی اور نفت انداز اور منجنیقیں آگے جانے لگیں ،انہیں ہندو قیدیوں کی نشاندہی کے مطابق قلعے کے باہر موزوں جگہوں اور فاصلوں پر لے جایا گیا ،سنگ باری اور آتشبازی آدھی رات گزرنے کے کچھ بعد شروع کرنی تھی، اس وقت لوگوں پر نیند کا گہرا اور مضبوط غلبہ ہوتا ہے، لوگ جاگ اٹھے تو دماغی اور جسمانی لحاظ سے مستعد ہوتے وقت لگتا ہے، اور ایسی گھبراہٹ غالب آجاتی ہے کہ انسان کچھ سوچنے کے قابل نہیں رہتے۔
جب رات آدھی گزر گئی تو تمام منجنیقوں سے ایک ہی بار پتھر اڑے نفت اندازوں نے تیروں کو آگ لگا لی تھی، کمانوں نے چھوٹے چھوٹے شعلے اگلے جو اڑتے ہوئے دیواروں سے آگے پھر نیچے چلے گئے، منجنیقوں میں پھر پتھر ڈال دیئے گئے۔
کچھ دیر بعد منجنیقوں نے ایک بار پھر پتھر اگلے رات کے سناٹے میں قلعے کے اندر پتھر گرنے کے دھماکے سنائی دیے اور شہر کے لوگوں کا شور جو پہلے ذرا کم تھا اتنا بڑھ گیا جیسے لوگ قلعے کی دیواروں پر کھڑے چیخ چلا رہے ہوں، محمد بن قاسم اندازہ کر رہا تھا کہ قلعے کے اندر کیسی افراتفری اور بھگدڑ مچی ہوئی ہوگی، شہر سے روشنی اٹھی اور اس روشنی میں دھواں اٹھتا نظر آنے لگا۔ شعلے اتنے اوپر آ گئے کہ باہر سے بھی قلعہ روشن ہوگیا ،یہ فوجی گھوڑوں کے خشک گھاس کے انبار جلے ہونگے ،،،،دیواروں پر سپاہی کھڑے اس طرح نظر آ رہے تھے جیسے سیاہ بت ہوں، جب شعلے اونچے ہوگئے تو دیوار سے سیاہی کم ہونے لگی، شاید فوجی سامان جل رہا تھا جسے بچانے اور آگ بجھانے کے لئے تمام سپاہیوں کو نیچے بلا لیا گیا تھا۔
ابن قاسم!،،،،، ایک معمر سالار نے محمد بن قاسم کے قریب آ کر کہا۔۔۔ آگ بجھانے کے لئے یہ لوگ سارا پانی خرچ کردیں گے اور انکے پاس پینے کے لیے پانی نہیں رہے گا، کل شام تک انہیں پیاس مجبور کردے گی کہ قلعے کے دروازے کھول دیں۔
پیاس مجبور کردے گی کہ قلعے کے دروازے کھول دیں۔
اس قلعے میں عقل والے سالار موجود ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہم اتنے عرصے میں دو دو قلعے سر کیے ہیں ،لیکن یہ ایک قلعہ لینا مشکل ہو رہا ہے، دیکھ لو انہوں نے کس طرح مقابلہ کیا ہے آپ سوچ رہے ہیں کہ یہاں پانی کی قلت ہے، آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہاں ریت کی قلت نہیں، اور یہ لوگ پانی پھینکنے کی بجائے ریت پھینک کر آگ بجھا رہے ہونگے۔
پھر بھی مجھے امید ہے کہ کل شام تک ہم قلعے میں داخل ہو جائیں گے۔۔۔ سالار نے کہا۔
کیا میں کل شام تک زندہ رہوں گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ نہ آپ کو معلوم ہے نہ مجھے،،،،، میں آج ہی رات اور ابھی قلعے میں داخل ہونگا۔ اس نے اپنے ایک قاصد سے کہا سرنگیں کھودنے والوں سے کہو فوراً آ جائیں۔
محمد بن قاسم نے دیکھ لیا تھا کہ شہر میں افراتفری اور بھگدڑ مچی ہوئی ہے اور دیوار کے اوپر ایک بھی سپاہی نہیں رہا، سرنگ کھودنے والا جیش آگیا ،محمد بن قاسم ان کے ساتھ خود دیوار تک گیا اور دیوار کو اچھی طرح دیکھ کر ایک جگہ ہاتھ رکھا ،اندھیرے کی وجہ سے دیکھنا مشکل تھا ہاتھ سے محسوس کیا جاسکتا تھا کہ دیوار کہاں سے توڑی جاسکتی ہے ،انہیں اوپر سے دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔ یہاں سے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔ اتنا شکاف کردوں کہ پیادے جھکے بغیر گزر جائیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دیوار میں نقب لگنی شروع ہوگئی محمد بن قاسم نے دیوار سے دور جاکر سالاروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ انہیں منتخب جانبازوں کی ضرورت ہے جو دیوار کے شگاف سے سب سے پہلے اندر جائیں گے، شہر پر سنگ باری ہوتی رہے اور آگ کے تیر برستے رہیں، شہر میں جو قیامت بپا ہو گئی تھی اس سے یہ فائدہ اٹھایا گیا کہ دیوار توڑی جانے لگی دیوار توڑنے والے اس کام کے ماہر تھے ،مہارت کے علاوہ جذبہ بھی تھا وہ بڑی تیزی سے دیوار توڑ رہے تھے۔
صبح طلوع ہو رہی تھی جب دیوار میں سرنگ کی طرح کا اتنا کشادہ شگاف ڈال دیا گیا تھا کہ دراز قد آدمی سیدھے چلتا اس میں سے گزر سکتا تھا، صرف اتنا کام رہ گیا تھا کہ دیوار کا اندر والا سرا توڑنا تھا، صبح کا اجالا ابھی دھندلا تھا جب محمد بن قاسم نے منتخب مجاہدین کو جو پہلے پہنچ گئے تھے اور حکم کے منتظر تھے، قلعے میں داخل ہونے کا حکم دیا۔
سب سے پہلے جو دو مجاہدین سرنگ میں داخل ہوئے ان میں سے ایک کا نام ہارون بن جعفر تھا جو بصرہ کا رہنے والا تھا،،،،،، دوسرے کا نام ابوالقاسم تھا جس کے متعلق یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا۔
ان کے پیچھے جو جاں باز اندر گئے ان میں چند ایک مقامی سپاہی بھی تھے جو موکو کے آدمی تھے ،موکو کا ذکر پہلے آچکا ہے، اس نے محمد بن قاسم کے آگے ہتھیار ہی نہیں ڈالے تھے بلکہ خلوص دل سے اس کے ساتھ ہو گیا تھا، یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ محمد بن قاسم کے لشکر کے ساتھ موکو بھی تھا اور اس کے بہت سے آدمی بھی اس لشکر میں شامل تھے، قلعے میں داخل ہونے کے لئے ان میں سے چند ایک آدمیوں کو منتخب کیا گیا تھا۔
شہر میں آگ نے لوگوں کو ادھر ادھر دیکھنے کے قابل چھوڑا ہی نہیں تھا ،فوجی ابھی تک شہریوں کے ساتھ مل کر آگ بجھانے میں مصروف تھے لوگ اپنا سامان گھسیٹ گھسیٹ کر ادھر ادھر لے جا رہے تھے، ان پر اچانک یہ آفت ٹوٹ پڑی کہ مسلمانوں نے ان پر ہلہ بول دیا ،ان میں سے کچھ مجاہدین قریبی دروازے کی طرف دوڑ پڑے وہاں دروازے کی حفاظت کے لئے دشمن کے سپاہیوں کی تعداد اتنی تھوڑی تھی جو اتنے زیادہ مجاہدین کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں تھی، کیونکہ ان کے لیے یہ بالکل ہی غیر متوقع تھا کہ مسلمان اندر آ جائیں گے اس لئے مجاہدین کو دیکھتے ہی ان کے اوسان خطا ہوگئے۔
ایک دروازے کا کھل جانا ہی کافی تھا، صبح کا اجالا بکھرتے ہی دن کے وقت لڑنے والے دستے آ چکے تھے، دروازے کھلتے ہی سوار قلعے میں داخل ہوگئے، محمد بن قاسم بھی ان سواروں کے ساتھ قلعے میں چلا گیا۔
اس نے اپنے محافظوں اور قاصدوں سے کہا کہ وہ اعلان کرتے رہیں کہ کسی غیر فوجی پر ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا ،سوائے ان کے جو ہتھیار بند ہو کر تمہارا مقابلہ کریں ،اس اعلان میں یہ بھی شامل تھا کہ عورتوں اور بچوں کو حفاظت میں لے لیا جائے اور کوئی قیمتی چیز خواہ وہ باہر ہی پڑی ہوئی ہو نہ اٹھائی جائے،
شہر میں فوجیوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی مورخوں کی تحریروں کے مطابق دشمن کے یہ سپاہی صحیح معنوں میں لڑنے والے تھے اور وہ لڑے بھی، لیکن اس قلعہ بند شہر کے تمام دروازے کھل چکے تھے،
اور مسلمانوں کی پوری فوج اندر آ گئی تھی کچھ ہی دیر بعد اس قلعے کی سولہ ہزار فوج کی کیفیت یہ تھی کہ چند سو سپاہی چلتے پھرتے نظر آتے تھے، باقی سب مارے گئے یا شدید زخمی ہو کر مر رہے تھے اور ان کی کچھ نفری قلعے سے بھاگ گئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے یہ قلعہ تو لیا تھا لیکن اس کی اپنی اور اس کے مجاہدین کے لشکر کی حالت یہ ہوگئی تھی جیسے وہ تھک کر چور ہو چکے ہوں اور چلنے کے قابل نہ رہے ہوں، یہ محاصرہ تقریباً دو مہینے جاری رہا تھا، لیکن محمد بن قاسم اس جگہ زیادہ رکنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس سے آگے دہلیلہ کا قلعہ تھا اور اس سے آگے برہمن آباد تھا اس کا خیال یہ تھا کہ جو فوجی بہرور سے بھاگے ہیں وہ دہلیلہ کی فوج کے ساتھ شامل ہو کر زیادہ سخت مزاحمت کریں گے، اور یہ ممکن ہے کہ دہلیلہ کو ہندو بالکل خالی کر دیں اور یہ تمام فوج برہمن آباد میں اکٹھی ہو جائے ،یہ سوچ کر محمد بن قاسم نے فوری طور پر دہلیلہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا تاکہ دشمن کے سنبھلنے تک وہ وہاں پہنچ جائیں۔
جلدی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اسی روز یا اگلے روز چل پڑا تھا ،بہرور کے انتظامات میں کچھ دن لگ گئے شدید زخمیوں کو وہیں چھوڑ دیا گیا اور اس طرح کئی روز بعد وہاں سے کوچ ممکن ہو سکا ،محمد بن قاسم بہرور سے نکلا ہی تھا کہ وہ دو جاسوس آ گئے جنہیں پہلے ہی وہاں بھیج دیا گیا تھا۔
دہلیلہ میں آپ کو صرف فوج ملے گی ۔۔۔ایک جاسوس نے محمد بن قاسم کو اپنی رپورٹ دیتے ہوئے کہا۔۔۔ بہرور سے جو فوجی اور شہر کے لوگ بھاگ نکلے تھے وہ دہلیلہ جا پہنچے ہیں ،انہوں نے وہاں کے لوگوں کو بتایا ہے کہ یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ زندہ جل جاؤ گے، انہوں نے انہیں وہ ساری تباہی بتائی ہے جو بہرور میں منجنیقوں اور آگ والی تیروں نے بپا کی تھی، اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ دہلیلہ میں صرف فوج رہے گی ہے، تاجر ،دکاندار، اور شہر کے دوسرے بہت سے لوگ وہاں سے بھاگ گئے ہیں۔
کیا وہ فوجی بھی وہاں ہیں جو بہرور سے بھاگے تھے۔۔۔ محمد بن قاسم نے پوچھا ۔۔۔کیا وہ لڑیں گے؟،، کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہیں؟
وہ تو شہر کے لوگوں سے زیادہ ڈرے ہوئے ہیں ۔۔۔جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔لیکن فوجی ہونے کی وجہ سے وہ لڑنے کے لیے رک گئے ہیں، ہمارا خیال یہ ہے کہ یہاں سے بھی وہ سب سے پہلے بھاگیں گے انہوں نے دہلیلہ کے فوجیوں کو بہرور کی حالت ایسے الفاظ میں بتائی ہے کہ ان فوجیوں پر بھی کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوا ہے۔
جاسوس نے دہلیلہ کی فوج کی جو نفسیاتی حالت بیان کی تھی یہ محمد بن قاسم کے حق میں جاتی تھی۔
فوج پر جب دشمن کا خوف طاری ہوجاتا ہے تو اس کا اثر لڑنے کے جذبے اور اہلیت پر پڑتا ہے ،لیکن محمد بن قاسم نے جب دہلیلہ کو محاصرے میں لیا تو اس نے محسوس کیا کہ دشمن کی فوج اتنی خوفزدہ نہیں جتنی بتائی گئی ہے۔
دہلیلہ ہمارے حوالے کر دو ۔۔۔محمد بن قاسم نے اعلان کروایا ۔۔۔بہرور والوں کی تباہی کا حال تم سن چکے ہو،۔
تباہ ہونے والے یہاں سے چلے گئے ہیں۔۔۔ قلعے کی دیوار کے اوپر سے جواب آیا ۔۔۔یہاں صرف فوج ہے، پتھر برساؤ، آگ لگاؤ، سارا شہر جلا ڈالو ،قلعے کے دروازے نہیں کھلیں گے۔
جب ہم اپنے زور سے قلعہ لے لیں گے تو کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ محمد بن قاسم نے اعلان کرایا۔
قلعہ اسی صورت میں لو گے جب ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوگا۔۔۔ قلعے کی دیوار کے اوپر سے للکار سنائی دی ۔
محمد بن قاسم نے قلعے کے اردگرد گھوم کر دیوار کا جائزہ لیا اور اپنے دستوں کو بھی دیکھا کہ وہ محاصرے کی ترتیب میں ٹھیک طرح آئے ہیں یا نہیں، وہ جب قلعے کے اردگرد گھوڑا دوڑا رہا تھا تو دیوار کے اوپر سے پہلا تیر آیا جو اس تک نہ پہنچ سکا ،کیونکہ فاصلہ زیادہ تھا۔
اس کے ساتھ ہی دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ شروع ہو گیا ،یہاں بھی قلعے کی فوج نے بہرور کی فوج والا انداز اختیار کیا، اندر سے کبھی پیادہ کبھی سوار ایک دو دستے نکلتے تھے ،اور مسلمانوں پر ہلہ بولتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے۔
اس قلعے پر سنگ باری اور نفت اندازی بیکار تھی، کیوں کہ اندر مکان خالی تھے انہیں آگ لگ دی جاتی تو فوج پرواہ نہ کرتی، تاریخوں میں یہ بھی آیا ہے کہ بہرور کی تباہی کی تفصیلات سن کر دہلیلہ کے فوجی افسروں نے تمام تر فوجی سامان جو عام طور پر باہر پڑا رہتا تھا مضبوط مکانوں کے اندر رکھ دیا تھا تاکہ آگ والے تیروں سے نذر آتش ہونے سے بچ جائے۔
محمد بن قاسم نے یہاں بھی وہ تمام حربے آزمائے جو وہ بہرور میں آزما چکا تھا ،اس نے آخر یہ طریقہ آزمایا کہ دشمن کے دستے جب قلعے سے باہر حملے کرنے آئیں تو انہیں بھاگنے نہ دیا جائے اور جم کے لڑایا جائے، اس طرح یہ کامیابی ہوئی کے دشمن کا جانی نقصان ہونے لگا ،نقصان تو مجاہدین کا بھی ہوتا تھا لیکن دشمن کچھ زیادہ ہی کمزور ہوتا چلا جا رہا تھا، اس کے ساتھ محمد بن قاسم نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ منجنیقوں سے قلعے کے دروازے پر پتھر پھینکنے کا حکم دیا، دروازے مضبوط تھے لیکن اندر والے فوجیوں کے دل اتنے مضبوط نہیں رہ گئے تھے۔
اس کے علاوہ محمد بن قاسم نے دشمن کے ان دستوں کے لئے جو باہر آ کر حملے کرتے تھے یہ انتظام کیا کہ تیر اندازوں کو تمام دروازوں کے سامنے تیار کھڑا کردیا اور انھیں حکم دیا کے جونہی دشمن کے دستے حملے کے لئے نکلیں ،ان پر بڑی تیزی سے تیر چلائیں ،یہ طریقہ بھی کارگر ثابت ہوا۔
ان تمام کارروائیوں کے باوجود محاصرے کو دو مہینے لگ گئے، ایک روز قلعے کا ایک دروازہ کھلا اور اندر سے ایک جلوس نکلا یہ سب فوجی تھے لیکن ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے، وہ جلوس کی صورت میں آہستہ آہستہ چلتے مسلمانوں کے درمیان سے گزر گئے، انہوں نے عطر لگا رکھا تھا ،ساری فضا معطر ہو گئی، وہ سب کچھ گنگناتے جا رہے تھے، ان کے چہروں پر اداسی تھی اور صاف پتا چلتا تھا کہ یہ ماتمی جلوس ہے۔
بعض مورخوں نے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ انہوں نے موت کے کپڑے پہن رکھے تھے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ماتمی لباس میں تھے ،لیکن یہ کہیں بھی واضح نہیں کہ یہ لباس کیسا تھا۔
یہ سب فوجی تھے جو دہلیلہ کے دفاع میں لڑ رہے تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ وہ مزید مزاحمت کے قابل نہیں رہے تو وہ نہتے ہوکر اور عطر لگا کر ماتمی لباس پہن کر قلعے کو چھوڑ گئے۔ ان کا رخ اس طرف تھا جدھر دشوارگزار صحرا تھا، اور دور دور تک کوئی ہریالی اور آبادی نہیں تھی، محمد بن قاسم کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ دیکھتا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔
تاریخ معصومی میں دو تین مورخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ نہر منجھل سے گزر کر آگے چلے گئے تھے، اس کے بعد ان کا کچھ پتہ نہ چلا کہ کہاں چلے گئے ہیں، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ نہر کا مطلب چھوٹا دریا تھا اس زمانے میں آجکل کی خودساختہ نہرو ں کا تصور نہیں تھا۔
محمد بن قاسم اپنے سالاروں اور فوج کے ساتھ قلعے میں داخل ہوا ،فوجیوں کے ہتھیار اور دیگر ساز و سامان اکٹھا کیا ،شہر میں ابھی کچھ لوگ موجود تھے انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے عزیز رشتہ داروں کو واپس بلا لیں، یہاں محمد بن قاسم نے نوبہ بن ہارون کو وہاں کا حاکم مقرر کیا ،اور خود وہیں رک گیا، یہ صفر94ھجری کا مہینہ تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے وہاں سے ہندوستان کے مختلف راجوں کو خطوط لکھے کہ وہ اسلام قبول کرلیں، اس خطوط میں نے ایسی کوئی دھمکی نہ دی کہ وہ اسلام قبول نہیں کریں گے تو ان پر حملہ کیا جائے گا یا ان سے جزیہ وصول کیا جائے گا، اس نے اسلام کی بنیادی تعلیمات اور خوبیاں لکھیں اور یہ بھی لکھا کہ اس نے اس وقت تک جو شہر فتح کئے ہیں وہاں کے لوگوں سے معلوم کیا جائے کہ انہیں اسلام کی یہ خوبیاں عملی طور پر نظر آتی ہیں یا نہیں۔
محمد بن قاسم ابھی دہلیلہ میں ہی تھا کہ اسے اطلاع ملی کے چار آدمیوں کا ایک وفد اسے ملنا چاہتا ہے، یہ چاروں ہندو تھے، محمد بن قاسم سے ملنے سے پہلے انہیں شعبان ثقفی کے پاس لے جایا گیا تھا، یہ شعبان ثقفی کا حکم تھا کہ کوئی اجنبی محمد بن قاسم سے ملنا چاہے تو اسے اس کے پاس لایا جائے یہ محمد بن قاسم کی حفاظت کا انتظام تھا، ملاقات کے بہانے آنے والے اجنبی اس پر قاتلانہ حملہ بھی کر سکتے تھے۔
محمد بن قاسم کے پوچھنے پر ان چاروں آدمیوں نے اپنا تعارف یہ کرایا کہ وہ راجہ داہر کے وزیر سیاکر کی طرف سے آئے ہیں ،اور سیاکر محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کرنا چاہتا ہے اور وہ اسلام قبول کرے نہ کرے ہمیشہ محمد بن قاسم کے ساتھ رہے گا۔
سیاکر راجہ داہر کا نہایت دانااور قابل وزیر تھا، اور شعبان ثقفی اور محمد بن قاسم تک اس کی قابلیت کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی، جب ان دونوں کو معلوم ہوا کہ سیا کر ان کی اطاعت قبول کرکے مسلمان ہونا چاہتا ہے تو محمد بن قاسم کو قدرتی طور پر خوشی ہوئی، اس نے چار آدمیوں کے اس وفد کو معافی کا پروانہ دے کر رخصت کر دیا، چند ہی روز بعد سیاکر خود محمد بن قاسم کی خدمت میں حاضر ہوا۔
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کے حملے سے پہلے جن عورتوں اور بچوں کو راجہ داہر کے حکم سے قید کیا گیا تھا اور جو واقعہ اس حملے کی وجہ بنا ان میں وہ ساری کی ساری عورتیں دیبل کے قیدخانے میں نہیں تھیں ،دیبل کی فتح کے وقت وہاں پر قید عورتوں کو دیبل کے قید خانے سے رہا کرایا گیا تھا ،بعض عورتوں کو دوسرے قید خانوں میں بھی رکھا گیا تھا ،تاریخ کو ان عورتوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں لیکن تاریخوں میں لکھا ہے کہ چند قیدی عورتیں داہر کے اس وزیر سیاکر کے قبضے میں تھیں جو وہ محمد بن قاسم کی خوشنودی کے لئے اپنے ہمراہ لے کر آیا ،اور جنہیں محمد بن قاسم نے فوراً عرب بھیجوا دیا۔
سیاکر جن عورتوں کو لایا ان کی تعداد دس کے لگ بھگ تھی، یہ کوئی خوبصورت اور جوان لڑکیاں نہیں تھیں بلکہ محنت مشقت کرنے والی عورتیں تھیں یہ غالباً سراندیب سے عرب کو جانے والے تاجروں کی نوکرانیاں تھیں اور بدو قبائل سے تعلق رکھتی تھیں، محمد بن قاسم کو ان عورتوں کے متعلق پہلے علم ہی نہیں تھا اسے یہ بتایا گیا تھا کہ تمام قیدی مرد اور عورتیں دیبل کے قید خانے میں بند تھیں، جب ان عورتوں کو داہر کا وزیر سیاکر محمد بن قاسم کے پاس لایا تو محمد بن قاسم نے ان کے ساتھ عربی میں بات کی ،اس کے جواب میں عورتوں نے بھی عربی میں بات کی۔
تم سے یہ لوگ کیا کام لیتے رہتے ہیں؟،،،، محمد بن قاسم نے ان سے عربی زبان میں پوچھا۔
اروڑ کے محل میں جھاڑو اور کپڑے دھونے کا کام ہمارے سپرد تھا ۔۔۔ایک عورت نے جواب دیا ۔۔۔ہم اسی طرح کے نیچ کام کیا کرتی تھیں۔
کیا وہاں تمہیں کسی طرح تنگ یا پریشان کیا جاتا تھا؟
ہم اپنے مالکوں کے یہاں بھی یہی کام کرتی تھیں۔۔۔ ایک اور عورت بولی۔۔۔ ہندوؤں کے اس محل میں بھی ہم سے یہی کام لیا جاتا تھا، یہ اپنا بچا کچا کھانا ہمیں دے دیتے تھے۔
ان کے ساتھ باتیں ہوئیں تو معلوم ہوا کہ یہ پیدائشی غلام ہیں، جو اتنا بھی احساس نہیں رکھتیں کہ وہ کس کی نوکرانیاں ہیں، انہیں اتنا ہی یاد رہ گیا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔
سالار محترم !،،،،داہر کے وزیر سیاکر نے ترجمان کی معرفت کہا۔۔۔ اپنا اعتماد پیدا کرنے کے لئے یہی ایک تحفہ بہتر سمجھتا تھا جو لے آیا ہوں۔
تمہیں اب ہماری اطاعت قبول کرنے کا خیال کیوں آیا ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔ کیوں کہ میں اب آزادی سے سوچنے کے قابل ہوا ہوں ۔۔۔سیاکر نے جواب دیا۔۔۔ میں راجہ کا وزیر تھا، لیکن اپنے تمام خاندان سمیت راجہ کا قیدی تھا، ہم راجہ کو مشورے تو دیا کرتے تھے لیکن یہ سوچنا پڑتا تھا کہ راجہ کس قسم کے مشورے پسند کرتا ہے، جب اس نے عرب کے جہاز لوٹے اور مسافروں کو قید میں ڈالنے کا حکم دیا تھا تو میں نے اسے کہا تھا کہ عربوں کی نظر پہلے ہی سندھ پر لگی ہوئی ہے، اور عرب پہلے مکران کے ایک حصے پر قابض ہیں، اس لئے عربوں کو اشتعال نہ دلایا جائے، لیکن وہ نہ مانا اس کا دماغ تو اس طرح خراب ہوا کہ ہماری فوج نے آپ کے دو سالاروں کو یکے بعد دیگرے شکست دی، راجہ داہر پر دراصل ایک اور وزیر کا زیادہ اثر تھا جس کا نام بدہیمن تھا، اس وزیر نے ہی اسے مشورہ دیا تھا کہ اپنی سگی بہن کے ساتھ شادی کر لو۔
کیا تمہارے مذہبی پیشواؤں نے راجہ داہر کو یہ نہیں بتایا تھا کہ مذہب سگے بھائی بہن کو آپس میں میاں بیوی بننے کی اجازت نہیں دیتا؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
مذہبی پیشوا !،،،،،سیاکرنے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔مذہبی پیشوا بھی اس کی خواہشوں، اس کی پسند و ناپسند ،اور اس کی توہمات کے غلام تھے، ہمارے راجہ کو مذہب کے بجائے اپنا راج پارٹ زیادہ پیارا تھا ،اسے پنڈتوں نے بتایا تھا کہ تمہارا بہنوئی تمہارے راج پارٹ پر قبضہ کرے گا، تو بدہیمن نے راجہ کو کہا تھا کہ بہن کو اپنی بیوی بنا لو تو بہنوئی کا وجود ہی ختم ہوجائے گا، جن پنڈتوں نے یہ شادی کرائی تھی انہیں پنڈتوں نے مجھے کہا تھا کہ راجہ کا یہ پاپ معلوم نہیں راج دربار پر اور رعایا پر کیا عذاب لائے گا ،وہ عذاب آیا میں ایک پاپی راجہ کا وزیر بنا رہا لیکن دل پر یہ خوف رہا کہ مجھے کوئی نہ کوئی سزا ضرور ملے گی، میں اپنی روح کی تسکین کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں، اگر آپ مجھے قبول کریں تو میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔
عرب کا ایک آدمی محمد حارث علافی بھی راجہ داہر کے دربار میں ہوتا ہے ؟۔۔۔محمد بن قاسم نے پوچھا۔
وہ اب داہر کے بیٹے جے سینا کے ساتھ ہے۔۔۔ سیاکر نے کہا ۔
وہ کیسا آدمی ہے ؟،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ اس کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہیں۔
وہ دوغلا آدمی ہے۔۔۔ سیاکر نے جواب دیا۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ وہ آپ کو بڑے قیمتی راز دیتا رہا ہے، لیکن وہ اتنا ہی وفادار راجہ کا بھی تھا ،،،،،،میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ عرب کے حکمرانوں کا باغی ہے لیکن اسلام کا باغی نہیں،،، یہ اسی کی بدولت ہے کہ آپ کے باغی عرب غیرجانبدار ہیں ، راجہ داہر نے انہیں بہت لالچ دیے تھے لیکن علافی نے انھیں درپردہ کہہ دیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے، راجہ داہر نے انہیں دھمکی دی کہ وہ انہیں اپنے علاقے سے نکال دے گا، محمد حارث علافی نے میری موجودگی میں راجہ داہر سے کہا تھا کہ ان عربوں کو اس نے یہاں سے نکل جانے کو کہا تو یہ سب عرب سے آئی ہوئی فوج کے بڑے مضبوط ساتھی بن جائیں گے، اور یہ اروڑ کی راجدھانی کے لیے زبردست خطرہ پیدا کردیں گے۔
محمد بن قاسم ایسا اناڑی یا جذباتی نہیں تھا کہ دشمن کے وزیر کو اس کی باتوں میں آکر اعتماد میں لے لیتا، اس نے سیاکر کو بظاہر قبول کرلیا اور حکم جاری کردیا کہ اسے اپنے ساتھ رکھا جائے، اور اسے وہ درجہ دیا جائے جو اسے راجہ داہر کے یہاں حاصل تھا ۔
محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی سے کہا کہ وہ اس شخص پر گہری نظر رکھے اور دیکھے کہ یہ کسی اور نیت سے تو نہیں آیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے دہلیلہ سے کوچ کیا ،فاصلہ زیادہ نہیں تھا آگے ایک چھوٹا دریا تھا جو جلوالی نہر کہلاتا تھا ،گزرتی صدیوں نے سندھ کے چھوٹے چھوٹے دریاؤں کو خشک کرکے ان کی گذرگاہوں کا بھی نام و نشان نہیں رہنے دیا، اس زمانے میں یہ دریا موجود تھے اور آب و تاب سے بہتے تھے۔
مسلمان فوج نے جلوالی نہر کے مشرق کی طرف آخری پڑاؤ کیا، محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے بیٹے جے سینا کو ایک تحریری پیغام بھیجا ،جس میں اس نے لکھا تھا کہ تم نے اپنے باپ کا انجام دیکھ لیا ہے ،سندھ تمہارے خاندان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے، تم کب تک بھاگے بھاگے پھرو گے اور کہاں تک بھاگوں گے ،برہمن آباد میں تم نے پناہ لی ہے اسے بھی عارضی سمجھو، تمھارے لشکر، تمہارے ہاتھی، اور گھوڑے ہم سے کوئی قلعہ نہیں بچا سکے ،اور کسی بھی میدان میں ہمارے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکے، تمہارے لیے ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ اسلام قبول کر لو پھر تم نہ صرف زندہ رہو گے بلکہ وقار اور عزت کی زندگی گزارو گے، اگر یہ منظور نہیں تو ہماری اطاعت قبول کر لو پھر تم ہمارے قیدی نہیں رہو گے نہ ہم تمھیں غلام بنائیں گے، تمہاری عزت اور حیثیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا، اگر یہ بھی منظور نہیں تو ہم آرہے ہیں ایک ایسی لڑائی کے لئے تیار ہو جاؤ جو تم نہیں جیت سکو گے، ہمیں اپنے اللہ پر بھروسہ ہے اور وہی ہماری فتح کا ضامن ہے۔
قاصد پیغام لے کر چلا گیا اور واپس بھی آگیا اس نے بتایا کہ اسے قلعے کے دروازے پر روک کر پوچھا گیا کہ وہ کیوں آیا ہے، اس نے بتایا کہ راجکمار جے سینا کے نام سالار عرب امیر سندھ محمد بن قاسم کا پیغام لایا ہوں۔ اسے قلعے دار کے پاس لے گئے۔
کیا یہ پیغام کسی اور کو دے سکتے ہو ؟،،،،،قلعے دار نے پوچھا ۔۔۔اور اسے بتایا جے سینا نایہاں نہیں ہے۔
نہیں!،،،، قاصد نے جواب دیا ۔۔۔راجہ داہر کے بعد وہی ہے جو فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔
جے سینا یہاں نہیں آیا۔۔۔ قلعے دار نے کہا۔۔۔ میں جانتا ہوں تم کیا پیغام لائے ہو اس کا جواب میں ہی دونگا، پڑھ کر سناؤ۔
قاصد مقامی آدمی تھا اور وہ نو مسلم تھا اس نے پیغام سنا دیا۔
قلعے دار نے قہقہ لگایا۔
میں جانتا تھا پیغام یہی ہوگا ۔۔۔قلعے دار نے کہا ۔۔۔تمہارے سالار کا دماغ چل گیا ہے، سنا ہے وہ ابھی بچہ ہے، راجہ داہر کے مرجانے سے ہم سب نہیں مر گئے، لڑنے کے لیے صرف جے سینا ہی نہیں جے سینا خود اسلام قبول کر لے تو اسے کون روک سکتا ہے، لیکن وہ کسی کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ تمہارے سالار کی اطاعت قبول کریں، جے سینا مفرور ہے، تم واپس چلے جاؤ اور اپنے سالار سے کہو کہ آجائے اور قلعہ لے لے۔ ہماراسالار تو آئے گا ہی ۔۔۔قاصد نے کہا۔۔۔ لیکن یہ سوچ لو کہ اپنے فوجی کے قتل عام کے ذمہ دار تم ہو گے۔
تم چلے جاؤ ۔۔۔قلعے دار نے کہا۔۔۔ یہ پیغام جے سینا کے نام ہے ،اور وہ یہاں نہیں ہے اور اس قلعے کے ساتھ اس کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے، اگر اس کا کچھ تعلق ہے تو یہ بھی سن لو کہ جے سینا ہمیں حکم دے گیا ہے کہ مسلمانوں کی فوج آجائے تو اس کا مقابلہ بے جگری سے کرنا۔
قاصد جب محمد بن قاسم کو پیغام کا جواب قلعے دار کی زبانی دے چکا، تو اس سے کچھ دیر بعد برہمن آباد سے ایک جاسوس آیا جس نے یہ خبر دی کہ جے سینا چند دن برہمن آباد میں رہا تھا ،اس نے اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا تھا، اس نے دوسرے قلعوں سے بھاگے ہوئے فوجیوں کو بھی اس فوج میں شامل کر لیا ہے ،اور اب وہ برہمن آباد میں نہیں ہے، جاسوس نے بتایا کہ جے سینا چینسر کی طرف چلا گیا ہے۔
وہ مدد اکٹھی کرتا پھر رہا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہم اس کا انتظار نہیں کریں گے ۔
برہمن آباد میں ہندوؤں کی جو فوج تھی اس کی تعداد چالیس ہزار تھی اور اس فوج کو بڑی سخت لڑائی لڑنے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔
محمد بن قاسم نے برہمن آباد کی جنگ کے لیے اپنا طریقہ کار بدل لیا ،اس نے قلعے کا محاصرہ کرنے کی بجائے قلعے کے ذرا قریب ہوکر اپنی خیمہ گاہ کے ارد گرد خندق کھدوا لی اور اپنے ایک دو آدمیوں کو آگے بھیجا کہ وہ قلعے کے قریب جاکر اعلان کریں کہ قلعے کے دروازے کھول دو اگر ہم نے قلعہ لڑ کر لیا تو کسی کی بھی جان بخشی نہیں کی جائے گی۔
یہ آدمی آگئے اور انھوں نے کئی بار اعلان کیا لیکن اس کے جواب میں قلعے سے ان پر تیر آئے اور وہ واپس آگئے محمد بن قاسم نے اپنی فوج کو باہر نکالا۔
دوپہر کا دن تھا اور رجب 93 ہجری کی پہلی تاریخ تھی قلعے کے دروازے کھلے روکے ہوئے سیلاب کے مانند قلعے سے ایک لشکر نکلا اس کے آگے آگے دس بارہ آدمی ڈھول بجا رہے تھے، بڑی تیزی سے یہ لشکر جو مختلف دروازوں سے نکلا تھا لڑائی کی ترتیب میں آگیا اور مسلمانوں پر حملہ کر دیا ،حملہ بڑا ہی زور دار تھا ایک بار تو محمد بن قاسم کے لشکر مجاہدین کے پاؤں اکھڑ گئے، انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ برہمن آباد کی فوج یہ دلیرانہ کارروائی کرے گی۔
محمد بن قاسم نے یہ حملہ روک تو لیا لیکن اسی میں شام ہو گئی ،لڑائی کے دوران دشمن کے ڈھول بجتے تھے اور اس کی فوج کا جوش اور لڑنے کا جذبہ ذرا سا بھی کم نہ ہوا۔
شام ہوتے ہی ہندو فوج قلعے میں واپس چلی گئی اس کی واپسی کا انداز ایسا تھا کہ آہستہ آہستہ پیچھے سے سپاہی اور سوار قلعے کے دروازے میں غائب ہو تے گئے۔ مسلمان جب ان کے تعاقب میں آگے گئے تو دیوار کے اوپر سے ان پر تیروں کا مینہ برسنے لگا مسلمان اپنی خیمہ گاہ میں واپس آگئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کو محمد بن قاسم نے تمام سالاروں کو بلایا اور دشمن کے لڑنے کے اس طریقے کے متعلق تبادلہ خیالات کیا، انہیں اپنی تجویزیں بتائیں اور ان سے مشورہ لیا۔
ہندو اس کوشش میں ہے کہ ہم قلعے کو محاصرے میں نہ لے سکیں۔۔۔ آخر میں محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔وہ میدان میں لڑنا چاہتے ہیں ہم ان کی یہ خواہش پوری کر دیں گے، لیکن انہیں قلعے کی سہولت حاصل ہے ہم ان کا تعاقب نہیں کر سکتے آپ سب کی عمر اور تجربہ مجھ سے زیادہ ہے میں آپ سب کے مشوروں کا احترام کرتا ہوں،،،،،،، ایک تو یہ حقیقت سامنے رکھیں کہ ہمارے مجاہدین تھک چکے ہیں ان کے جذبے نہیں تھکے، لیکن گوشت اور ہڈیوں کا جسم ایک نہ ایک دن ٹوٹنے پھوٹنے لگتا ہے ،دوسری بات یہ ذہن میں رکھیں کہ قلعے کو محاصرے میں رکھنا ضروری ہے، اگر ہم محاصرہ نہیں کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے دشمن کے لئے کمک اور رسد کے راستے کھلے رکھے ہوئے ہیں، جے سینا قلعے میں نہیں، وہ اردگرد کے حاکموں اور راجوں سے مدد لینے گیا ہوا ہے، اس کا راستہ روکنا ہے وہ اکیلا واپس نہیں آئے گا فوج لے کر آئے گا ،یہ تو آپ نے دیکھ لیا ہے کہ دشمن کی اس فوج میں کتنا جوش و خروش پایا جاتا ہے ،اس فوج میں عزم ہے۔
ابن قاسم!،،،،،، محمد بن قاسم کے باپ کی عمر کے ایک سالار نے کہا۔۔۔ اتنا زیادہ جوش و خروش ٹھنڈا بھی ذرا جلدی ہو جایا کرتا ہے، اگر تو کچھ پریشانی ہے تو اسے دماغ سے نکال دے، اللہ نے تجھے ہم سے زیادہ عقل اور جنگی صلاحیتیں عطا کی ہیں، انہیں کام میں لا ہم تیرے ساتھ ہیں، رات کو لشکر تلاوت قرآن اور عبادت میں مصروف رہتا ہے، ہم اللہ کو نہیں بھولے اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔
جہاں تک عبادت کا تعلق تھا محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کی ہدایات کے مطابق آیت الکرسی کا ورد زیادہ کرتا تھا، لڑائی شروع ہونے سے پہلے وہ آیت الکرسی ضرور پڑھتا تھا ،نماز کے علاوہ رات کو نوافل بھی ادا کرتا تھا، اور اس کے ساتھ نئی سے نئی جنگی چالیں سوچتا رہتا تھا۔
کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ منجنیق اور نفت کے تیر رات کو قلعے کے اندر پھینکیں؟،،،،، ایک سالار نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ یہ بڑا شہر ہے میں یہاں کی آبادی پر یہ قہر نازل نہیں کرنا چاہتا، عورتیں اور بچے بھی مارے جائیں گے آگ اور پتھروں کا استعمال وہاں کرنا مناسب ہوتا ہے جہاں محاصرہ لمبا ہوتا جاتا ہے، اور دشمن ہمارا نقصان کئے چلا جاتا ہے، یہاں ابھی ایسی ضرورت پیش نہیں آئی، پہلے دیکھ لیں کہ دشمن کتنے دن مقابلے میں ڈٹا رہتا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دوسرے دن برہمن آباد کی فوج نے پھر وہی کاروائی کی پہلی ،ڈھول بجانے والے دس بارہ آدمی ایک دروازے سے نکلے ان کے بعد ایک دروازے سے پیادے اور دوسرے سے سوار نکلے، محمد بن قاسم نے رات کو سالاروں سے صلاح و مشورہ کرکے جو اسکیم بنائی تھی اس کے مطابق سالاروں نے اپنے دستوں کو صبح طلوع ہوتے ہی خیمہ گاہ سے نکال کر ان جگہوں پر کھڑا کردیا تھا جو گزشتہ رات طے ہوئی تھی، سوار دستے پہلوؤں پر کھڑے کئے گئے تھے درمیان میں پیادہ دستے تھے،
گزشتہ روز کی لڑائی میں یہ دیکھا گیا تھا کہ ہندو فوج قلعے سے دور نہیں آتی تھی اور اس کی کوشش یہ بھی تھی کہ قلعے کی دیوار کے قریب رہا جائے، محمد بن قاسم نے پہلے ہی سوچی ہوئی اسکیم کے مطابق درمیان میں رکھے ہوئے پیادہ دستوں کو آگے بڑھا دیا اور وہ دشمن کے ساتھ الجھ گئے ،ان کے سالار کو علم تھا کہ کیا کرنا ہے، جب لڑائی شدت اختیار کر گئی تو پیادہ دستے اس طرح پیچھے ہٹنے لگے جیسے دشمن کا دباؤ برداشت نہیں کر سکے اور پسپا ہو رہے ہوں ،دشمن کے دستے مسلمانوں کے پیادہ دستوں کے ساتھ ہی آگے آ گئے، دشمن کے دستوں کو احساس تک نہ ہوا کہ وہ قلعے سے دور چلے گئے ہیں، محمد بن قاسم نے اپنے پہلوؤں والے سوار دستوں کو اشارہ کردیا ،سواروں نے سرپٹ گھوڑے دوڑائے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دشمن کے پہلوؤں اور عقب سے بھی ان پر ٹوٹ پڑے، یہ مسلمانوں کی ایک خاص چال تھی جو سب سے زیادہ خالد بن ولید نے چلی تھی، اس کے بعد یہ اسلامی طریقہ جنگ بن گئی تھی، وہی چال محمد بن قاسم نے چلی اور برہمن آباد کی فوج کی اچھی خاصی سوار اور پیادہ نفری کو خاک و خون کے جال میں پھانس لیا۔
ہندو کٹنے لگے، ان کی پسپائی کا راستہ مسدود ہو چکا تھا، کیونکہ ان کے عقب میں بھی مجاہدین تھے لیکن ہندو فوج کا کمانڈر دانشمند تھا اس نے قلعے سے ایک سوار دستہ نکالا جس نے ان مجاہدین پر ہلہ بول دیا جو قلعے کے دستوں کے عقب میں تھے اس حملے سے گھیرا ٹوٹ گیا اور ہندو نکل گئے، لیکن وہ بے شمار لاشیں گرے ہوئے زخمی ہتھیار اور گھوڑے پیچھے چھوڑ گئے، یہ معرکہ شام سے کچھ وقت پہلے ختم ہو گیا، شام تک مجاہدین اپنے شہیدوں کی لاشوں اور زخمیوں کو اٹھا کر خیمہ گاہ میں لے آئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کے وقت محمد بن قاسم نے کچھ دستے خیمہ گاہ سے نکالے اور انہیں قلعے کے ارد گرد دیوار سے دور دور محاصرے میں بٹھادیا، یہ محاصرہ اس قسم کا تھا کہ دستوں کے درمیان فاصلہ تھا یعنی جگہ خالی تھی، یعنی یہ مجاہدین کی پوری فوج کا محاصرہ نہیں تھا، دستوں کو قلعے کے اردگرد رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ باہر سے قلعے والوں کو کوئی مدد نہ مل سکے۔
اس سے اگلے روز قلعے سے باہر نکل کر حملہ کرنے والے ہندو دستوں کا مقابلہ اس طرح کیا گیا کہ جونہی دستے باہر آنے لگے تو پہلوؤں کے سواروں نے گھوڑے دوڑا دیے اور جتنی نفری باہر آئی تھی اس پر حملہ کر دیا، اس نفری نے واپس اندر چلے جانے کی بہت کوشش کی تھی لیکن انہیں دروازوں میں سے اندر جانا تھا اور ہر کوئی اندر جانے کی جلدی میں تھا اس لیئے گھوڑے دروازے میں پھنسے جا رہے تھے، اور پیادے بھی ان میں پھنس گئے، کچھ کچلے بھی گئے۔
چند دن اور یہی سلسلہ چلتا رہا قلعے سے فوج نکلتی اس کے ساتھ ڈھول بج رہے ہوتے کبھی تو بڑا خونریز معرکہ لڑا جاتا کبھی مسلمان انہیں دروازے سے ہی نکلنے نہ دیتے پھر ایک دو دنوں کے وقفے سے قلعے سے دستے نکلتے اور تصادم کے بعد لاشیں اور زخمی پیچھے چھوڑ کر چلے جاتے، پھر یہ وقفہ بڑھنے لگا اس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ان کی فوج خاصا نقصان اٹھا چکی ہے، نقصان تو باہر پڑا نظر آتا رہتا تھا، دشمن کی جو لاشیں اور جو شدید زخمی باہر رہ جاتے تھے انہیں اٹھا لے جانے کی کوئی جرات نہیں کرتا تھا ،پہلے معرکے کے بعد شام کے دھندلکے میں ہندو اپنی لاشیں اور زخمی اٹھانے آئے تھے لیکن مسلمان تیر اندازوں نے انہیں تیروں کا نشانہ بنا ڈالا تھا، اس کے بعد انھوں نے ایسی جرات نہیں کی تھی ،
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>



⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴اٹھائیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے ان سب کو قتل کروا دیا لیکن یہ حقیقت تاریخوں میں محفوظ ہے کہ جو شہری اور فوجی لڑنے کے لئے تیار نہ ہوئے تھے انہیں محمد بن قاسم نے معاف کر دیا۔ تقریباً تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ اسلام کے اس کمسن سالار نے تجارت پیشہ اور کسی ہنر مند کو اور کسی کسان کو سزائے موت نہ دی، ان تمام پیشہ وروں  کو اس نے بالکل ہی معاف کردیا اس کا اصول یہ تھا کہ معاشرے کا نظام یہی لوگ چلاتے ہیں اگر انہیں بھی قتل کر دیا جاتا تو شہریوں کی زندگی درہم برہم ہو کے رہ جاتی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اب محمد بن قاسم اور اس کے مجاہدین کی دہشت برہمن آباد میں پہنچ گئی تھی، پہلے بتایا جا چکا ہے کہ راجہ داہر کا بیٹا جے سینا میدان جنگ سے بھاگ کر برہمن آباد پہنچ گیا تھا، دیگر چند ایک فوجی عہدیداروں کے علاوہ اس کے ساتھ کچھ ٹھاکر بھی تھے، ٹھاکر سرداری کے درجے کے افراد ہوا کرتے تھے، ان کے متعلق مشہور تھا کہ جان دے دیتے ہیں میدان جنگ سے بھاگتے نہیں، لیکن یہ ٹھاکر بھی بھاگ گئے تھے، جے سینا کو تو داہر اپنا شیر بیٹا کہا کرتا تھا ،جہاں جہاں تک داہر کا راج تھا جے سینا شیر کے بیٹے کے نام سے مشہور تھا ،لیکن لوگوں نے شیر کو بھی شکست کھا کر اور اپنے باپ کی لاش میدان میں چھوڑ کر اور بھاگ کر برہمن آباد میں پناہ گزین ہو تے دیکھا تو ان پر دہشت طاری ہو جانا قدرتی امر تھا۔
تاریخ نویسوں کی تحریروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جے سینا کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی، وہ برہمن آباد کے قلعے میں داخل ہوا تو سب سے پہلے وہاں کے بڑے مندر میں گیا، پنڈت ہاتھ جوڑ کر اس کے سامنے کھڑے ہو گئے۔
کیا تم نے مہاراج کو لڑائی شروع کرنے کی شُبھ گھڑی بتائی تھی؟،،،، جے سینا نے پنڈتوں سے پوچھا ۔
ہاں راجکمار!،،،، بڑے پنڈت نے جواب دیا۔
اور تم نے یہ بھی کہا تھا کہ فتح مہاراج کی ہوگی؟
کہا تھا راجکمار!،،،،، بڑے پنڈت نے جواب دیا۔
کیا تم نے سن لیا ہے کہ مہاراج کو صرف شکست نہیں ہوئی بلکہ وہ مارے بھی گئے ہیں۔۔۔ جے سینا نے قہرآلود آواز میں کہا ۔۔۔اور اب تم مجھ سے یہ توقع رکھو گے کہ میں تمھیں زندہ رہنے کا حق دے دوں گا، تم نے جھوٹ بولا تھا مہاراج کو دھوکا دیا ہے۔
اگر راجکمار کا یہی حکم ہے تو ہم مرنے کے لیے تیار ہیں۔۔۔ بڑے پنڈت نے کہا ۔۔۔لیکن راجکمار اپنی تلوار سے ہماری گردنیں کاٹنے سے پہلے یہ سن لیں کہ مہاراج پر دیوتاؤں کا قہر گرا ہے، اور یہ قہر ہم سب پر گرے گا، ہمارے مندروں میں مسلمانوں کے گھوڑے بندھے ہوئے ہونگے۔
کیسا قہر؟،،،، جے سینا نے پوچھا۔
جو مرد اور عورت ایک ماں کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں وہ میاں بیوی نہیں ہو سکتے۔۔۔ پنڈت نے کہا۔۔۔ مہاراج نے اپنی سگی بہن کو اپنی بیوی بنا رکھا تھا۔
لیکن وہ میاں بیوی کی طرح نہیں رہتے تھے۔۔۔ جے سینا نے کہا ۔
اس سے پہلے کہ پنڈت کچھ کہتا ایک نسوانی آواز مندر کے اندر گو جی۔
ہاں، ہم میاں بیوی کی طرح نہیں رہتے تھے۔
سب نے ادھر دیکھا مائیں رانی جو مندر کے اندر کسی اوٹ میں کھڑی تھی سامنے آگئی، یہ اسی کی آواز تھی۔
ہم میاں بیوی کی طرح نہیں رہتے تھے۔۔۔ مائیں رانی نے ان کے قریب آ کر ایک بار پھر کہا پھر بولی۔۔۔ لیکن میرا بھائی میری جوانی اور جوانی کے ارمانوں کا قاتل تھا، اس نے مجھے اس لیے اپنی بیوی بنایا تھا کہ میری شادی کسی اور سے ہوگی تو وہ تخت و تاج پر قبضہ کر لے گا اور مہاراج کو بن باس مل جائے گا ،اس کے دل میں یہ وہم تم جیسے پنڈتوں نے ڈالا تھا ،کیا اس سے بہتر نہیں تھا کہ مجھے قربان کر دیا جاتا، مندر میں میرا سر کاٹ کر میرے خون سے ہری کرشن کے پاؤں دھوئے جاتے، لیکن میرا بھائی کُند چھری سے میری جوانی کے جذبات اور امنگوں کو آہستہ آہستہ کاٹتا رہا، اور تم جو مذہب کے ٹھیکیدار بنے رہتے ہو مہاراج کو روکنے کی جرات نہ کرسکے، مہاراج نے اپنے راج کے لئے مجھ سے قربانی لی اور میری جوانی کی قربانی دے کر بھی اپنے راج کو بچا نہ سکے۔
ہاں !،،،،بڑے پنڈت نے کہا ۔۔۔ہم راجکمار سے یہی بات کرنا چاہتے تھے جو رانی نے کہہ دی ہے، یہ قہر ہے جو مہاراج کے راج پر گرا ہے۔ تو اب کیا ہوگا؟،،،، جے سینا نے پوچھا ،کیا ہمیں کوئی بلیدان (قربانی) کرنا ہوگا ،اگر کسی کنواری کا خون چاہتے ہو تو میں اس شہر کی تمام کنواریوں کو آپ کے سامنے کھڑا کر دوں گا۔
نہیں ۔۔۔مائیں رانی نے گرج کر کہا ۔۔۔یہ سب جھوٹ ہے کئی معصوم جانیں قربان کی جا چکی ہیں اب کسی کنواری کا خون نہیں بہایا جائے گا۔
رانی!،،،،، جے سینا نے اسے ایک طرف دھکیلتے ہوئے مہاراجوں کے رعب سے کہا۔۔۔ لڑنا اور مرنا ہمارا کام ہے، تم ایک عورت ہو تمہارا حکم نہیں چلے گا۔
اب کسی کا حکم نہیں چلے گا ۔۔۔رانی نے عتاب آلود لہجے میں کہا ۔۔۔مہاراج کے مرنے کے بعد میں رانی ہوں۔
اس سے پہلے کہ میری تلوار تمہارے سر کو نیچے پھینک دے میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔۔۔ جے سینا نے کہا۔۔۔ اور اس نے حکم دیا اسے لے جاؤ یہ پاگل ہو گئی ہے۔
دو تین آدمی لپکے اور مائیں رانی کو گھسیٹ کر مندر سے باہر لے گئے، اس کی چیخ نما آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت جے سینا مائیں رانی کو دھمکی دے رہا تھا کہ وہ اس کا سر کاٹ دے گا اس وقت محمدبن قاسم مال غنیمت کا معائنہ کر رہا تھا۔ راوڑ کے قلعے سے بے انداز مال غنیمت ملا تھا ،اس میں دو خاص چیزیں تھیں ایک راجہ داہر کی نو جوان بھانجی تھی جس کا نام تاریخوں میں حسنہ درج ہوا ہے، اور دوسری چیز راجہ داہر کا سر تھا۔
محمد بن قاسم کے حکم سے مال غنیمت کا پانچواں حصہ خلافت کے لئے الگ کیا گیا راجہ داہر کا سر بھی خلافت کے حصے میں شامل کیا گیا اور خلافت کے حصے میں حسنہ بھی تھی ،محمد بن قاسم نے حسنہ کو بھی خلافت کے حصے میں شامل کردیا ،اس نے یہ سارا مال اور جنگی قیدی کعب بن مخارق رابسی کے حوالے کیے۔
ابن مخارق!،،،،،، محمد بن قاسم نے حکم دیا۔۔۔ یہ مال غنیمت خلافت کے بجائے حجاج بن یوسف تک پہنچنا چاہیے، اور اسے یہ پیغام دے دینا ۔
محمد بن قاسم کا یہ پیغام بھی تاریخوں میں محفوظ ہے۔
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
خادم اسلام محمد بن قاسم کی طرف سے امیر عراق حجاج بن یوسف کے نام
السلام علیکم
اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم اور آپ کی رہنمائی سے سندھ کے سانپ کو کچل دیا گیا ہے، اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن اور عرب کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والے راجہ داہر کا سر بھیج رہا ہوں ،اور اس کی ایک بھانجی جو ہندوستان کے حسن و جمال کا نمونہ ہے آپ کو پیش کررہا ہوں ،یہ اس راجہ کا سر اور یہ لڑکی اس راجہ کی بھانجی ہے جس نے ہماری عورتوں اور بچوں کو دیبل میں قید کر رکھا تھا،،،،،،،
میں نے ان آیات قرآنی کا ورد ہمیشہ زبان پر رکھا ہے جو آپ مجھے بتاتے رہے ہیں، لشکر رات کو تلاوت قرآن اور عبادت میں مصروف رہتا ہے ،ہر حالت میں اللہ کی مدد کے طلبگار رہتے ہیں یہ اللہ کی مدد ہے کہ ہم نے راجہ داہر کو بہت بری شکست دی ہے ،اس کا بیٹا جے سینا بھاگ گیا ہے، میں اس وقت تک راوڑ میں ہوں ،یہاں کے لوگوں کو میں نے امن وامان دیا ہے، اور جو ابھی تک لوگوں کو بغاوت پر اکسا رہے تھے انہیں ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ہے،،،،،،، آپ کی اجازت چاہیے کہ میں برہمن آباد کی طرف کوچ کروں، جے سینا بھاگ کر وہاں پہنچ گیا ہے اور میرے مقابلے کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا ہے، برہمن آباد کے راستے میں دو مضبوط قلعے ہیں ایک بہرور ہے اور دوسرا دہلیلہ، انہیں سر کرنا اور ان میں جو فوجی ہیں انھیں تباہ کرنا ضروری ہے ،ورنہ یہ عقب سے ہم پر حملہ کریں گے،،،،،،،،
آپ اس عظیم فتح کی خوشخبری جن کو سنائیں گے انہیں میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ ہماری کامیابی کے لیے دعا کریں۔
یہ مال غنیمت شوال 93 ہجری کے مہینے میں راوڑ سے روانہ ہوا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ادھر اللہ کو مدد کے لئے پکارا جا رہا تھا ،ادھر جے سینا ہندوستان کے راجوں مہاراجوں کو مدد کے لئے پکار رہا تھا، اس نے اپنے ایلچی ہر طرف بھیج دیے، سب کو یہی پیغام بھیجا کہ اس کے باپ نے اسلام کے سیلاب کو روکنے کے لئے اپنی جان دے دی ہے، اور معلوم ہوا ہے کہ اسلامی فوج کے لشکر نے اس کا سر کاٹ کر عرب کو بھیج دیا ہے، اس نے سورگ باشی راجہ داہر کی کنواری بھانجی کو بھی عرب بھیج دیا ہے، اس نے کئی پنڈتوں کو بھی قتل کرا دیا ہے، اگر آپ سب اسے روکنے کے لیے اکٹھے نہ ہوئے تو آپ سب کے سر عرب چلے جائیں گے، اور ان کے ساتھ آپ کی جوان اور کنواری بیٹیاں بھی جائیں گی، اور ہمارا مذہب جو دیوی دیوتاؤں کا سچا مذہب ہے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔
اس کے پیغام کے الفاظ بہت ہی اشتعال انگیز تھے اس نے جن راجوں وغیرہ کو پیغام بھیجیں ان میں اس کا اپنا بھائی گوپی بھی تھا ،جو راوڑ کے قلعے کا حاکم تھا اور راوڑ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجانے کے بعد کہیں اور چلا گیا تھا ،اس نے اپنے بھتیجے دار سینہ کو بھی پیغام بھیجا جو قلعہ بھاٹیہ میں تھا وہ اس قلعے کا حاکم نہیں بلکہ قلعے کا مالک تھا۔ جے سینا نے چندر کے بیٹے ڈھول کو بھی پیغام بھیجا۔
اس کے اپنے قریبی رشتے داروں نے تو اسے مایوس نہ کیا ،لیکن مختلف جگہوں کے حاکموں نے اس کے ساتھ ملنے کی بجائے راوڑ جاکر محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کر لی۔
بہرور، اور دہلیلہ کے حاکموں نے آپس میں صلح مشورہ کرکے جے سینا کو پیغام کا جواب دیا کہ وہ اس کی مدد کو نہیں پہنچ سکیں گے، کیونکہ مسلمانوں کا لشکر بہت قریب ہے اور قلعوں کو خالی چھوڑ کر نکل جانا عقلمندی نہیں، انہوں نے جے سینا کو یقین دلایا کہ وہ اپنے اپنے قلعے میں رہ کر مسلمانوں کا مقابلہ کریں گے اور محاصرے کو لمبا کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ بھی کہ وہ اپنے دستے باہر بھیج کر مسلمانوں کو جانی نقصان پہنچاتے رہیں گے تاکہ وہ برہمن آباد تک پہنچے تو ان کی نفری کم ہو چکی ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مال غنیمت اور جنگی قیدیوں کا قافلہ جس کا امیر کعب بن مخارق رابسی تھا کوفہ میں داخل ہوا تو شہر کے لوگ امڈ کر باہر آ گئے، کعب مخارق اور اس کے ساتھ جو مجاہدین تھے وہ بازو لہرا لہرا کر،،، فتح مبارک ہو ،،،فتح مبارک ہو،،، کے نعرے لگانے لگے، عورت مجاہدین کے قریب آ گئیں ،کوئی اپنے باپ کا کوئی اپنے بھائی یا بیٹے کا ،اور کوئی اپنے خاوند کا نام لے کر پوچھتی تھیں کہ وہ کیسا ہے۔
حجاج کوفہ میں تھا یہ مال غنیمت پہلے دمشق خلیفہ عبدالملک کے پاس جانا چاہیے تھا لیکن حجاج کے پاس جارہا تھا کیونکہ حجاج خلیفہ پر غالب آیا رہتا تھا، دوسرے یہ کہ اس سندھ کی فتح حجاج کا عزم تھا ،خلیفہ اتنی زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کرتا تھا، حجاج کی شخصیت کے سامنے خلیفہ کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی۔
حجاج نے جب لوگوں کا شور و غوغا سنا تو اس نے اپنے دربان سے پوچھا کہ کیسا شور ہے۔ اسے بتایا گیا کہ سندھ سے مال غنیمت آیا ہے۔ حجاج جس حالت میں تھا اسی میں دوڑتا باہر نکلا اور قافلے کے استقبال کے لئے آگے چلا گیا ،وہ کعب بن مخارق سے بغلگیر ہو گیا۔
حجاج نے سارے شہر میں منادی کرا دی کہ تمام آدمی جامع مسجد میں جمع ہوں جہاں نماز کے بعد انہیں سندھ کی نئی خبری سنائی جائیں گی۔
ظہر کی نماز کا وقت تھا کوفہ کے لوگ جامع مسجد میں جمع ہوگئے اور حجاج کی امامت میں نماز پڑھی نماز کے بعد حجاج کے حکم سے راجہ داہر کا سر نیزے پر اڑسا گیا اور نیزہ حجاج نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اس نے نیزہ اوپر کرکے لوگوں کو دکھایا۔
کوفہ کے لوگو! حجاج نے کہا۔۔۔ یہ اس مجرم کا سر ہے جس نے ہمارے جہازوں کو اپنے ساحل کے قریب روک کر لوٹ لیا، اور ہمارے ان آدمیوں کو اور ان کی بیوی بچوں کو بھی قید میں پھینک دیا تھا جو ان جہازوں میں سوار تھے اور سراندیپ سے حج کا فریضہ ادا کرنے آ رہے تھے، اسے اپنی طاقت پر اتنا بھروسہ تھا کہ ہماری بات ہی نہیں سنتا تھا آج اس کا سر دیکھ لو،،،،،،، لوگو!،،، محمد بن قاسم اور مجاہدین کی فتح کے لیے دعا کرتے رہا کرو یہ تمہاری دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے مجاہدین فتح پر فتح حاصل کرتے جا رہے ہیں،،،،، لیکن ان کے لئے کمک بہت کم ہے، کیا تم اس جہاد میں شریک نہیں ہونا چاہو گے، سندھ کے محاذ پر کمک کی ضرورت ہے، اگر تم لوگ وقت پر نہ پہنچے تو سندھ میں مجاہدین کے دل ٹوٹ جائیں گے، خدا کی قسم تم نہیں چاہو گے کہ مجاہدین صرف اس لئے ہار جائیں کہ ان کی نفری کم ہو گئی تھی، یا مسلسل لڑتے لڑتے ان کے جسم ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔
حجاج اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ لوگوں نے "لبیک لبیک،،،،، یا حجاج لبیک ،،،،کے نعرے لگانے شروع کر دیے، اور بہت سے ایسے آدمیوں نے جو لڑنے کے قابل تھے اور جو مسلسل پیش قدمی اور لڑائی کی صعوبتوں کو برداشت کرسکتے تھے سندھ کے محاذ پر جانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کردیا۔
حجاج نے حکم دیا کہ ان تمام آدمیوں کو باقاعدہ طور پر فوج میں شامل کر لیا جائے اور ان کی تربیت بھی شروع ہوجائے۔
حجاج نے تمام تر مال غنیمت خلیفہ ولید بن عبدالملک تک پہنچانے کے لئے دمشق بھیج دیا، اس نے راجہ داہر کی بھانجی حسنہ کو بھی خلیفہ کے پاس بھیج دیا ،مال غنیمت کے ساتھ حجاج نے خلیفہ کے نام ایک خط بھی لکھا جس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کو پسند نہیں تھا کہ سندھ کی فتح کی مہم شروع کی جائے، لیکن میں نے آپ سے اپنا فیصلہ منوا لیا، آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ سندھ پر حملے اور وہاں کی تمام تر جنگ کے اخراجات میں پورے کروں گا ،بلکہ آپ کو اخراجات سے خاصی زیادہ رقم پیش کروں گا، آپ دیکھ رہے ہیں کہ سندھ سے کتنی بار اور ہر بار کتنا مال غنیمت آچکا ہے اور اس میں کس قدر سونا اور کتنی قیمتی اشیاء آئی ہیں۔
حجاج بن یوسف نے یہ بھی لکھا کہ یہ تو زر و جواہرات ہیں جو دنیا میں جاہ و جلال قائم رکھتے ہیں، اگلی دنیا کی بھی سوچیں جہاں ہم سب نے لوٹ کے جانا ہے، وہاں زروجواہرات اور دنیاوی جاہ و جلال اور گھوڑوں ہاتھیوں پر سوار لشکر کام نہیں آئیں گے ،میرے کمسن بھتیجے نے اسلام اور سرزمین عرب کے سب سے بڑے دشمن راجہ داہر کو شکست ہی نہیں دی بلکہ اس کا سر کاٹ کر بھیجا ہے، اور میں یہ سر آپ کی طرف بھیج رہا ہوں، یہ یہ وہ سر ہے جس میں بادشاہی کا غرور اور فتور سمایا ہوا تھا، جس نے اللہ کی وحدانیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور اسلام کی صداقت کو قبول کرنے کی بجائے دشمنی کی تھی، اور اس میں کیا شک ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو خدائے ذوالجلال کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں۔
حجاج نے خلیفہ کو یہ تفصیل بھی لکھی کہ محمد بن قاسم کی فتوحات میں کیا تازہ اضافہ ہوا ہے، اور آگے کیا ہوگا، تاریخوں میں لکھا ہے کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ جب مال غنیمت کا قافلہ دمشق میں داخل ہوا تو کوفہ کی طرح دمشق کے بھی لوگ باہر آ گئے وہ تکبیر کے نعروں کے ساتھ ساتھ جنگی قیدیوں پر طعنوں کے تیر برسا رہے تھے اور طنزیہ قہقہے بھی لگاتے تھے، دمشق کی گلیوں میں اسی ایک آواز کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ محمد بن قاسم نے سندھ کے بادشاہ کو ہلاک کردیا ہے ،گلی کوچے میں صرف محمد بن قاسم کا نام سنائی دے رہا تھا۔
ایک آواز یہ بھی سنائی دے رہی تھی کہ محمد بن قاسم نے انتقام لے لیا ہے، سارے شہر میں جشن کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی، بعض نے جوش میں آکر نقارے بجانے شروع کر دیے تھے۔
صرف ایک آدمی تھا جس کے چہرے پر مسرت کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں تھا اس پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی سنجیدگی کی پرچھائیاں کبھی کبھی گہری ہوجاتی تھیں، چہرے کے تاثرات سے اور اس کے انداز سے پتہ چلتا تھا جیسے اسے محمد بن قاسم کی فتح و نصرت سے کوئی دلچسپی نہ ہو، کبھی یوں بھی لگتا تھا جیسے اسے فتح کے یہ نعرے تکلیف دے رہے ہیں، یہ تھا خلیفہ وقت کا بھائی سلیمان بن عبدالملک۔۔۔۔۔ وہ الگ تھلگ کھڑا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کعب بن مخارق رابسی خلیفہ کے دربار میں حاضر ہوا وہاں کچھ اور مصاحبین بھی موجود تھے، کعب بن مخارق نے حجاج بن یوسف کا تحریری پیغام پیش کیا جو خلیفہ نے اس سے لے کر پڑھنا شروع کردیا ،وہ جوں جوں پڑھتا جاتا تھا اس کے چہرے پر رونق آتی جا رہی تھی، پھر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی، پیغام پڑھ کر اس نے کہ ابن مخارق سے کہا کہ وہ پیغام پڑھ کر سب کو سنائے۔
اس کے بعد خلیفہ نے باہر آکر مال غنیمت دیکھا اور اس سے سونے کے علاوہ جو قیمتی اشیاء تھی وہ الگ کرا دیں ،پھر اس نے کہا کہ راجہ داہر کی بھانجی کو پیش کیا جائے۔
لڑکی کو اس کے سامنے لایاگیا خلیفہ ولید کچھ دیر تو اس لڑکی کو دیکھتا ہی رہا لڑکی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
اے لڑکی!،،،،،، ولید بن عبدالملک نے ترجمان کی معرفت راجہ داہر کی بھانجی سے کہا۔۔۔ تیرے دل میں ابھی اپنی خوش قسمتی کا احساس پیدا نہیں ہوا اگر تو وہیں رہ جاتی تو تیرا انجام بہت برا ہوتا۔
اس میں خوش قسمتی والی بات کیا ہے؟،،،،،،، لڑکی نے پوچھا ۔۔۔یہ کوئی خوش قسمتی نہیں کہ یہاں میں ہر کسی کی داشتہ بنوں گی، عورت کی قسمت میں یہی کچھ لکھا ہے، میں نے مسلمانوں کے متعلق تو کچھ اور سنا تھا لیکن آپ ایک بے بس لڑکی کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔
ہم تمہیں اس طرح قید خانے میں نہیں رکھیں گے جس طرح تمہارے ماموں راجہ داہر نے ہمارے بحری مسافروں کو لوٹ کر انہیں دیول کے قید خانے میں قید کردیا تھا ۔۔۔خلیفہ ولید بن عبدالملک نے کہا ۔۔۔ان قیدیوں میں عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی تھے
کیا ان کا انتقام مجھ سے لیا جائے گا؟،،،، لڑکی نے پوچھا۔
انتقام جس سے لینا تھا اس سے لیاجاچکاہے۔۔۔ ولید بن عبدالملک نے کہا۔۔۔ تم ہر کسی کی داشتہ نہیں بنوں گی، کسی ایک آدمی کی بیوی بنوں گی، اگر تم سندھ میں رہ جاتی جہاں تمہارے ماموں کی فوجیں میدان چھوڑ کر بھاگ رہی ہیں، ہتھیار ڈال قید ہو رہی ہیں ،اور ہماری تلواروں سے کٹ رہی ہیں، تو تم وہاں سے کسی اور طرف بھاگتے ہوئے نہ جانے کس کے ہاتھ چڑھ جاتی، اور کس کس کی داشتہ بنتی، کیا تم کوئی ایک بھی واقعہ سنا سکتی ہوں کہ ہماری فوج نے کوئی شہر فتح کرکے کسی سالار عہدے دار یا سپاہی نے تم جیسی کسی لڑکی پر ہاتھ اٹھایا ہو، یا اس کی عزت کا پاس نہ کیا ہو ،کیا تم نے دیکھا نہیں کہ جس سالار نے تمہیں یہاں بھیج دیا ہے وہ نوجوان ہے، کیا وہ تمہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا۔
بے شک میں نے دیکھا ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ پھر بھی میں ڈر رہی ہوں کون ہے جو میرے ساتھ شادی کرے گا؟
میں کروں گا ۔۔۔خلیفہ نے کہا۔۔۔ تمہیں اپنا مذہب چھوڑنا پڑے گا ،اور تم ہمارے مذہب کے مطابق سچے دل سے مجھے قبول کرو گی۔
خلیفۃ المسلمین !،،،،،وہاں بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے کہا ۔۔۔کیا میری یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی کہ میں اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لوں۔
بے شک اسے میں نے اپنے لئے پسند کیا تھا۔۔۔ ولید بن عبدالملک نے کہا۔۔۔ لیکن میں تمہاری خواہش کو رد نہیں کروں گا تمہی اس کے ساتھ شادی کر لو۔
تاریخ میں اس آدمی کا نام عبداللہ بن عباس لکھا ہے جس نے خلیفہ سے یہ لڑکی مانگی تھی، کسی بھی تاریخ میں عبداللہ بن عباس کے متعلق یہ تفصیل نہیں ملتی کہ اس پر خلیفہ نے اتنی شفقت کیوں کی تھی کہ جس لڑکی کو اس نے اپنے لئے پسند کیا تھا وہ لڑکی اسے دے دی۔
عبداللہ بن عباس نے اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لی لڑکی بڑا لمبا عرصہ عبداللہ بن عباس کے عقد میں رہی لیکن اس کے بطن سے ایک بھی بچہ پیدا نہ ہوا۔
راجہ داہر کا سر نیزے کی انی میں اڑس کر سارے شہر میں گھما پھرا کر اس کی نمائش کی گئی، سعودی عرب میں یہ رواج آج بھی ہے کہ جسے سزائے موت دی جاتی ہے اس کی گردن سرعام تماشائیوں کے ہجوم کے سامنے تلوار کی ایک ہی وار سے کاٹ دی جاتی ہے، پھر جلاد مرنے والے کا سر نیزے کی انی میں اڑس کر نیزہ بلند کرتا اور تمام تماشائیوں کو دکھاتا ہے۔
اس کے بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کا رویہ بالکل بدل گیا ،اور اس نے سندھ کی مہم میں پوری طرح دلچسپی لینی شروع کردی، اور اس نے حجاج کو مبارک کا پیغام بھیجا ،اور لکھا کہ محمد بن قاسم تک بھی اسکی مبارک اور دعائیں پہنچائی جائیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حجاج بن یوسف نے کعب بن مخارق رابسی کے ہاتھ محمد بن قاسم کے نام پیغام بھیجا جس میں اس نے پہلے کی طرح محمد بن قاسم کی حوصلہ افزائی کی اور اسے ہدایات دی کہ اب وہ کس طرح آگے بڑھے اس سے پہلے محمد بن قاسم کو لکھا تھا کہ راجہ داہر پر فتح پا لی گئی تو آگے پیش قدمی تیز ہوجائے گی، حجاج نے پہلے کی طرح اب بھی اپنے پیغام میں تلاوت قرآن اور عبادت پر زور دیا ،اور ایک بار پھر آیت الکرسی کی فضیلت بیان کی۔
محمد بن قاسم نے راوڑ کا شہری انتظام رواں کردیا اور عمال مقرر کردیئے اس دوران اس نے بہرور میں اپنے جاسوس بھیج دیے تھے، معلوم یہ کرنا تھا کہ وہاں کتنی فوج ہے قلعے کی دیواریں کیسی ہیں اور دیگر دفاعی انتظامات کیا ہیں، قلعے کی ساخت اور مضبوطی کا جائزہ لینے کے لئے شعبان ثقفی خود بھیس بدل کر گیا تھا اور قلعے کے ارد گرد کچھ دیر گھومتا پھرتا رہا تھا ،دوسرے جاسوس مقامی آدمی تھے ان کا بہروپ آسان تھا وہ راوڑ سے بھاگے ہوئے شہری بن کر گئے تھے اور کچھ دن وہاں رہ کر نکل بھی آئے تھے۔
بہرور اروڑ سے آگے ایک قلعہ تھا جس کے متعلق پہلے کہا جاچکا ہے کہ سر کرنا ضروری تھا ،اب جاسوسوں نے آ کر محمد بن قاسم کو جب یہ بتایا کہ اس قلعے میں فوج کی نفری سولہ ہزار ہے تو اس قلعے پر حملہ اور اس نفری کا خاتمہ ضروری ہو گیا، محمد بن قاسم کا اصل اور سب سے بڑا ہدف تو برہمن آباد تھا جہاں تک محمد بن قاسم اپنے لشکر کو دور کا چکر کاٹ کر لے جا سکتا تھا اور اس طرح بہرور اور اس سے آگے ایک اور قلعہ دہلیلہ کو نظر انداز کیا جاسکتا تھا لیکن ان قلعوں میں دشمن کی جو اتنی زیادہ فوج تھی اسے نظر انداز کرنا بہت بڑی جنگی لغزش تھی۔
محمد بن قاسم نے ماہ شوال 933 ہجری کے آخری دنوں میں راوڑ سے کوچ کیا اور بہرور تک پہنچ گیا، محمد بن قاسم کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ اس نے دشمن کو بے خبری میں جا لیا ہے ،کیونکہ جوں ہی اس نے اپنے لشکر کو محاصرے کی ترتیب میں کیا دیواروں سے اور قلعے کے برجوں سے تیروں کا مینہ برس پڑا، تیروں کی یہ بوچھاڑیں اچانک آئی تھیں جب مسلمان قلعے کا محاصرہ کر رہے تھے تو ایسے پتہ چلتا تھا جیسے اس قلعے میں کوئی بھی نہیں، دیواروں کے اوپر دشمن کے سپاہی نظر آتے تھے لیکن ان کا انداز ایسا تھا جیسے وہ خوفزدہ ہوں اور مسلمانوں پر تیر چلانے سے گریز کر رہے ہوں، اسی دھوکے میں مسلمان دیوار کے اتنے قریب چلے گئے کہ دشمن کے تیروں کی بوچھاڑوں کی زد میں آگئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محاصرہ اکھڑ گیا کئی ایک مجاہدین زخمی اور شہید ہو گئے۔
اچانک افراتفری سی مچ گئی اس صورتحال سے دشمن نے یہ فائدہ اٹھایا کہ قلعے کا صدر دروازہ اور ایک اور دروازہ کھولا سواروں کے دستے اندر سے یوں نکلے جیسے سیلاب بند توڑ کر نکلا ہو، ان سواروں کا مسلمانوں پر حملہ بڑا ہی شدید تھا ایک بار تو مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے جتنی دیر میں وہ سنبھلتے دشمن کے سوار ایک زوردار وار کرکے واپس قلعے کے اندر جا رہے تھے۔
محمد بن قاسم کو اپنے طور طریقوں اور چالوں پر نظرثانی کرنی پڑی اس نے اپنے تمام دستوں کو پیچھے ہٹا لیا ،شہیدوں کی لاشیں ابھی تک دشمن کے سامنے پڑی تھیں، اور بعض شدید زخمی جو اٹھنے کے قابل نہیں تھے وہی بے ہوش پڑے تھے جہاں گرے تھے، ان سب کو رات کے وقت اٹھایا گیا، اگلے دن محمد بن قاسم نے کوئی کارروائی نہ کی زیادہ تر وقت زخمیوں کی مرہم پٹی میں صرف ہوا ،اور ان زخمیوں کو پیچھے بھیجا گیا جو لڑنے کے قابل نہیں تھے، اس روز محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں کو بلایا اور ان کے ساتھ صلح مشورہ کرکے نئی حکمت عملی ترتیب دی، تمام سالاروں کو احساس ہو گیا تھا کہ اس قلعے کو آسانی سے سر نہیں کیا جاسکے گا۔
اگلے روز محمد بن قاسم نے ایک مقام پر تیر اندازوں کو اکٹھا کیا اور دیواروں میں شگاف ڈالنے اور سرنگ کھودنے والے تربیت یافتہ آدمیوں کو بھی ساتھ لیا ،اس نے تیر اندازوں کو حکم دیا کہ سامنے دائیں اور بائیں دیوار پر اس قدر تیز تیر برسائیں کہ دیوار سے کسی کا سر اوپر نہ اٹھ سکے۔
تیر اندازوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی، تیروں کی بوچھاڑیں ایک دوسری کی پیچھے دیواروں پر پڑنے لگیں تو دیوار کے اس حصے سے دشمن کے سپاہی اوٹ میں ہو گئے، محمد بن قاسم نے دیواروں میں شگاف ڈالنے والوں کو تیز دوڑایا کہ وہ دیوار تک پہنچ جائیں، وہ پہنچ گئے اور انہوں نے دیوار میں نقب لگانی شروع کر دی، کام آسان معلوم ہوتا تھا کیونکہ دیوار گارے اور پتھروں کی بنی ہوئی تھی، پتھر نکلتے آ رہے تھے لیکن یہ دیوار مکانوں کی دیواروں کی طرح سیدھی نہیں تھی بلکہ مخروطی تھی ،نیچے سے بہت چوڑی تھی اس میں نقب لگانے کا مطلب یہ تھا جیسے سرنگ کھودی جا رہی ہو۔
اس پارٹی میں آدمی اتنے زیادہ تھے جو دیوار میں سرنگ جیسی نقب لگا سکتے تھے، لیکن اسی دیوار کے دور کے کونے پر کھڑے سپاہیوں نے دیکھ لیا کہ دیوار توڑی جا رہی ہے، انہوں نے یہ انتظام کیا کہ بڑے بڑے پتھر لکڑی کے شہتیر اور چلتی ھوئی لکڑیاں اوپر جمع کرلیں پہلے انہوں نے دیوار پر پتھر رکھے خود اوٹ میں رہے ان کے صرف ہاتھ اوپر تھے، انہوں نے اوپر سے پتھر لڑکانے شروع کردیئے اس کے ساتھ ہی چلتی ھوئی لکڑیاں اس طرح نیچے پھینکیں کہ لکڑی دیوار کے اوپر والے سرے پر رکھ کر چھوڑ دیتے تھے تو یہ دیوار کی ڈھلوان سے لڑکتی نیچے آ جاتی تھی۔
دشمن نے یہ جو ہتھیار استعمال کیا یہ مسلمانوں کے لئے بڑا ہی نقصان دہ ثابت ہوا، جہاں دیوار میں نقب لگائی جارہی تھیں وہاں جلتی ہوئی لکڑیوں کے شعلے اٹھنے لگے، ایک دو آدمی جھلس بھی گئے، دشمن نے چند ایک جانوں کی قربانی دے کر یہ کامیابی حاصل کی کہ مسلمانوں کو دیوار سے بھگا دیا ،دشمن نے قربانی اس طرح دی کہ اس کے آدمی جب پتھر یا لکڑیاں نیچے کو لٹکانے کے لیے سر اوپر اٹھاتے تھے تو تیروں کا نشانہ بن جاتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کا یہ حربہ بھی ناکام ہو گیا اور اس نے دروازوں کو توڑنے کی اسکیم بنائی، لیکن دشمن کے تیر انداز دروازے کے قریب نہیں جانے دیتے تھے، کئی طریقے اختیار کیے گئے لیکن قلعے کی فوج نے کوئی بھی طریقہ کامیاب نہ ہونے دیا بلکہ دشمن نے اپنی اس دلیرانہ کاروائی کو جاری رکھا کہ کبھی سوار اور کبھی پیادا دستے بڑی تیزی سے باہر آجاتے اور محاصرے میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے کسی ایک حصے پر ہلہ بول کر اسی تیزی سے واپس چلے جاتے۔
اس وقت تک محمد بن قاسم یہ سمجھ چکا تھا سندھ کی فوج کا یہ خاص انداز ہے کہ باہر آ کر حملہ کرتے اور واپس چلے جاتے ہیں، اس کا یہ طریقہ مسلمانوں کے شب خون اور دن کے چھاپوں جیسا تھا جو وہ دشمن کی پیش قدمی کرتی ہوئی فوج کے پہلو یا عقب پر مارتے اور غائب ہو جاتے، محمد بن قاسم نے ہندوؤں کی اس نوعیت کے حملوں کا یہ توڑ سوچا کہ محاصرے کے دستوں کو تیار رکھا جائے اور جب ہندوؤں کے دستہ ہلہ بولنے کے لئے باہر آئیں تو انہیں گھیرے میں لے لیا جائے اور واپس نہ جانے دیا جائے۔
دو تین روز بعد دو دروازوں میں سے حسب معمول دشمن کے سوار دستے نکلے اب مسلمان اس کے لئے تیار تھے انہوں نے دائیں اور بائیں سے آگے ہو کر ان دستوں کو نرغے میں لے لیا لیکن مسلمانوں کے جو سپاہی دیوار اور دروازوں کے قریب چلے گئے تھے ان پر دیوار سے تیر آنے لگے وہ اتنے قریب تھے کہ دیوار کے اوپر سے ان پر پتھر بھی پھینکے گئے اس طرح گھیرہ ٹوٹ گیا، ہندو سوار گھوڑے دوڑاتے اور کوئی مسلمان سامنے آتا تو اسے کچلتے واپس چلے گئے۔
محمد بن قاسم نے ایک قربانی دینے کا فیصلہ کیا اس نے منتخب جاں باز صدر دروازے کے سامنے اکٹھے کرلئے اور دشمن کے اگلے حملے کا انتظار کرنے لگا ،اگلا حملہ تین روز بعد آیا محمد بن قاسم نے اپنے منتخب جانبازوں کو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ کیا کرنا ہے، جونہی صدر دروازہ کھلا جاں باز کود کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور گھوڑوں کو ایڑ لگا دی گھوڑے سر پٹ دوڑے صدر دروازے سے دشمن کے سوار نکل رہے تھے، مسلمان سواروں کے پاس برچھیاں تھیں۔
دونوں طرفوں کے گھوڑے آپس میں ٹکرائے پھر برچھیاں اور تلواریں ٹکرانے لگیں، مسلمان سوار تو باہر تھے اس لیے ان کے پاس دائیں بائیں آگے پیچھے حرکت کرنے کے لئے بہت جگہ تھی، ہندو سوار دروازے میں سے آرہے تھے اس لیے وہ آسانی سے پینترے نہیں بدل سکتے تھے، وہ پیچھے ہٹ رہے تھے اور مسلمان انہیں دباتے اور کاٹتے جا رہے تھے۔
توقع یہ تھی کہ مسلمان سوار قلعے میں داخل ہو جائیں گے، محمد بن قاسم خود ان کے قریب ہو گیا اور انھیں للکارنے لگا ،دیوار سے ایک تیر آیا جو محمد بن قاسم کے آگے زین میں اتر گیا ،اس کی زندگی اور موت کے درمیان صرف بال برابر فاصلہ رہ گیا تھا، ایک سوار نے دیکھ لیا محمد بن قاسم نے اس تیر کو اتنی سی بھی اہمیت نہ دی کہ اسے زین سے نکال کر پھینک دیتا، وہ چلا چلا کر اپنے سواروں کو ہدایات دے رہا تھا۔
جس سوار نے محمد بن قاسم کی زین میں تیر اترتے دیکھا تھا وہ گھوڑا دوڑا کر اس کے پاس آیا ۔
سالار اعلی !،،،،،،،،،سوار نے محمد بن قاسم سے کہا ۔۔۔آپ یہاں سے چلے جائیں، آپ نہ رہی تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔
یہاں سے چلے جاؤ ۔۔۔۔محمد بن قاسم نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا ۔۔۔اپنی جگہ پر رہو ۔
اس سوار نے اپنے سالار اعلی کی ڈانٹ اور اس کے حکم کی پرواہ نہ کی لپک کر اس کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی محمد بن قاسم چلا رہا تھا لیکن اس سوار نے اس کے گھوڑے کی لگام نہ چھوڑی اور اسے تیروں کی زد سے دور لے گیا۔
قاسم کے بیٹے !،،،،سوار نے اپنے اور محمد بن قاسم کے رتبے کے فرق کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ تم قیمتی انسان ہو مجھ جیسے ایک ہزار سپاہی مارے گئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یہ سوار محمد بن قاسم کو خاموش اور حیران چھوڑ کر گھوڑا دوڑاتا لڑائی میں شامل ہونے کے لئے گیا تو اوپر سے ایک تیر آیا جو اس کی ہنسلی سے ذرا نیچے سینے میں دور تک اتر گیا ،وہ گھوڑے پر ایک طرف کو گرنے لگا محمد بن قاسم نے دیکھ لیا اس نے گھوڑا دوڑایا اور اس تک پہنچ کر اسے گرنے سے بچا لیا اور اس کے گھوڑے کو بھی اپنے گھوڑے کے ساتھ پیچھے لے آیا۔
تم زندہ رہنا ابن قاسم!،،،،،، سوار نے کہا۔۔۔ اور اس کا سر محمد بن قاسم کے کندھے پر ڈھلک گیا ،تاریخ نے اس سپاہی کا نام ہشام بن عبد اللہ لکھا ہے وہ کوفہ کی ایک نواحی بستی کا رہنے والا تھا۔
دشمن کے ساتھ معرکہ جاری تھا اسے شاید یہ خطرہ نظر آگیا تھا کہ مسلمان قلعے میں داخل ہو جائیں گے چنانچہ قلعے کے دروازے بند ہوگئے دشمن کے جو سوار باہر رہ گئے تھے انہیں مسلمانوں نے کاٹ ڈالا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کسی سالار نے یہ مشورہ دیا کہ بغیر لڑے محاصرہ جاری رکھا جائے تاکہ قلعے والوں کو باہر سے خوراک وغیرہ نہ مل سکے اور وہ کچھ عرصے بعد بھوک اور پیاس کے مارے خود ہی ہتھیار ڈال دیں گے، اس زمانے میں محاصروں کو اکثر طول دیا جاتا تھا ،بعض محاصرے دو دو سال اور اس سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہتے تھے، اور ایک دن قلعے والے خود ہی دروازے کھول دیتے اور ان کا پہلا مطالبہ یہ ہوتا تھاکہ کچھ کھانے کے لئے دو۔
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے یہ مشورہ رد کردیا اور کہا ۔۔۔میرے پاس اتنا وقت نہیں، ہماری منزل بہت دور ہے اور زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اس کے علاوہ میں دشمن کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ ہم اس کی طاقت سے خائف ہو کر دور بیٹھ گئے ہیں اب رات کو بھی لڑائی جاری رہے گی۔
محمد بن قاسم نے تمام سالاروں اور نائب سالاروں کو بلایا انھیں اور ان کے دستوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور انہیں بتایا کہ ایک حصہ دن کے وقت اپنی کاروائیاں جاری رکھے گا اور دوسرا حصہ رات کو نفت کے تیر اور منجنیقیں چلائے گا۔
پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ایسے تیر مسلمانوں کے یہاں استعمال ہوتے تھے جن کے ساتھ آگ کا شعلہ ہوتا تھا ،ان تیروں کے ساتھ روغن نفت سے بھیگے ہوئے کپڑے تیروں کے اگلے سرے پر لپٹے ہوئے ہوتے تھے، انہیں آگ لگا کر تیر چلائے جاتے تھے۔
یہ تو روز مرہ کا معمول بن گیا تھا لیکن ایک رات قلعے کے اندر آگ برسنے لگی اور اس کے ساتھ قلعے کے اندر پتھر گرنے لگے، آگ والے تیر چلانے والوں کو نفت انداز کہا جاتا تھا، رات کے اندھیرے سے وہ یہ فائدہ اٹھاتے تھے کہ دیوار کے اتنے قریب چلے جاتے جہاں سے چھوٹا ہوا تیر دیوار کے اوپر سے قلعے کے اندر پہنچ سکتا تھا ،پیچھے قلعے کے اردگرد منجنیقیں لگا دی گئی تھیں جن سے مسلسل پتھر پھینکے جا رہے تھے۔
پہیلی رات ہی یہ کامیابی دیکھی گی کہ قلعے کے اندر سے لال پیلی روشنی اٹھنے لگی اور اس روشنی میں دھواں نظر آنے لگا ،اس سے پتہ چلتا تھا کہ مکان جل رہے ہیں ،محمد بن قاسم نے نفت اندازی اور سنگبازی روک دی کیوں کے تیل کو کفایت شعاری سے استعمال کرنا تھا اور پتھر بھی کم ہوتے جا رہے تھے۔ سندھ کے ریگستان میں پتھر اتنے زیادہ نہیں مل سکتے تھے ،منجنیقوں کے لئے ذرا وزنی پتھروں کی ضرورت تھی اس کے علاوہ محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے یہ بھی کہا تھا کہ میں دشمن کو آہستہ آہستہ مارنا چاہتا ہوں تاکہ پھر کبھی اٹھنے کے قابل نہ رہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح طلوع ہوئی تو نفت اندازوں اور منجنیقوں سے سنگ باری کرنے والوں اور ان دستوں کو جو رات ان کے ساتھ جاگے تھے آرام کے لئے پیچھے بھیج دیا گیا ،اور وہ دستے آگے گئے جنہوں نے دن بھر محاصرہ کرنا اور دشمن کو پریشان رکھنا تھا ،انہوں نے آتے ہی دیواروں پر تیر اندازی شروع کردی، وہ تیروں کی بوچھاڑیں نہیں مار رہے تھے، انہوں نے اب یہ انداز اختیار کرلیا تھا کہ دیواروں پر جو سپاہی کھڑے تھے انہیں نشانہ میں لے کر تیر چلاتے تھے۔
شعبان ثقفی نے کہا کہ اب اگر ہندو سواریا پیادے باہر آکر ہلہ بولیں تو ان میں سے ایک دو کو زندہ پکڑا جائے، اسی روز دن کے پچھلے پہر قلعے کے دو کی بجائے تین دروازے کھلے ایک میں سے پیادہ اور دو میں سے سوار دستے پہلے حملوں کی نسبت زیادہ تیزی سے باہر آئے ،مسلمانوں نے ان کا مقابلہ کیا اور تین چار سواروں کو زندہ پکڑ لیا اور چند ایک زخمی بھی وہی رہے اور ان کے دستے واپس چلے گئے۔
زندہ پکڑے جانے والوں اور زخمیوں کو شعبان ثقفی کے پاس لے گئے اس نے ہر ایک کو الگ الگ کرکے پوچھا کہ گزشتہ رات شہر میں کتنا نقصان ہوا ہے اور فوج اور لوگ کیا کہتے ہیں۔
دشمن کے ان آدمیوں نے موت کے خوف سے اپنے قلعے کے اندر کے حالات بتا دیے۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>


MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget